وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

آپریشن سندور پر خصوصی بحث کے دوران وزیر اعظم جناب نریندر مودی کا لوک سبھا سے خطاب


وجے اتسو بھارتی مسلح افواج کی بہادری اور طاقت کا ثبوت ہے: وزیر اعظم

میں اس وجے اتسو کے جذبے کے ساتھ ایوان میں بھارت کا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لیے کھڑا ہوا ہوں: وزیر اعظم

آپریشن سندور نے خود کفیل بھارت کی طاقت کو اجاگر کیا: وزیراعظم

آپریشن سندور کے دوران بحریہ، فوج اور فضائیہ کے تال میل نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا:  وزیر اعظم

بھارت نے واضح کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کا جواب اپنی شرائط پر دے گا، ایٹم بم کی دھمکی برداشت نہیں کرے گا اور دہشت گردی کے اسپانسرز اور ماسٹر مائنڈز کے ساتھ یکساں سلوک کرے گا: وزیر اعظم

آپریشن سندور کے دوران، بھارت نے وسیع پیمانے پر عالمی حمایت حاصل کی: وزیر اعظم

آپریشن سندور جاری ہے ،  پاکستان کی کسی بھی گستاخی کا سخت جواب دیا جائے گا: وزیر اعظم

سرحدوں پر مضبوط فوج ایک متحرک اور محفوظ جمہوریت کو یقینی بناتی ہے: وزیر اعظم

آپریشن سندور پچھلی دہائی کے دوران بھارت کی مسلح افواج کی بڑھتی ہوئی طاقت کا واضح ثبوت ہے: وزیر اعظم

بھارت بدھ کی سرزمین ہے ، یُدھ کی نہیں،  ہم خوشحالی اور ہم آہنگی کے لیے کوشاں ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ پائیدار امن طاقت سےہوتا ہے: وزیر اعظم

بھارت نے واضح کر دیا ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا: وزیر اعظم

Posted On: 29 JUL 2025 10:37PM by PIB Delhi

وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے آج پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کے جواب میں بھارت کے مضبوط، کامیاب اور فیصلہ کن ’آپریشن سندور‘ پر خصوصی بحث کے دوران لوک سبھا سے خطاب کیا۔  ایوان سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے اجلاس کے آغاز میں میڈیا برادری کے ساتھ اپنی بات چیت کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اجلاس کو بھارت کی فتوحات کا جشن اور بھارت کے وقار کو خراج تحسین قرار دیتے ہوئے پارلیمنٹ کے تمام معزز ارکان سے اپیل کی تھی ۔

اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ’وجے اتسو‘ دہشت گردی کے ہیڈکوارٹر کے مکمل خاتمے کا حوالہ دیتے ہوئے، جناب مودی نے کہا کہ وجے اتسو سندور کے ساتھ کیے گئے پختہ عہد کی تکمیل کی نمائندگی کرتا ہے-جو قومی عقیدت اور قربانی کو خراج تحسین ہے۔  انہوں نے زور دے کر کہا کہ وجے اتسو بھارت کی مسلح افواج کی بہادری اور طاقت کا ثبوت ہے، انہوں نے مزید کہا کہ وجے اتسو 140 کروڑ بھارتیوں کے اتحاد، قوت ارادی اور اجتماعی فتح کا جشن مناتا ہے۔

اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہ وہ بھارت کے نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے جیت کے جذبے کے ساتھ ایوان میں کھڑے ہوئے ہیں، وزیر اعظم نے کہا کہ وہ اُن لوگوں کو آئینہ دکھانے کے لیے کھڑے ہوئے ہیں جنہیں بھارت کا نقطۂ نظر دکھائی نہیں دیتا۔  انہوں نے کہا کہ وہ 140 کروڑ شہریوں کے جذبات کے ساتھ اپنی آواز ملانے آئے ہیں۔  جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ ان اجتماعی جذبات کی گونج ایوان میں سنی گئی ہےاور وہ اس شاندار جذبے میں اپنی آواز شامل کرنے کے لیے اُٹھے ہیں۔

آپریشن سندور کے دوران بھارت کے عوام کی پختہ حمایت اور آشیرواد کے لیے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ وہ قوم کے مقروض ہیں۔  انہوں نے شہریوں کے اجتماعی عزم کو تسلیم کیا اور آپریشن کی کامیابی میں ان کے کردار کی تعریف کی۔

وزیر اعظم نے 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں پیش آنے والے وحشیانہ واقعے کی مذمت کی، جہاں دہشت گردوں نے بے گناہ لوگوں کو ان کا مذہب پوچھ کر بے دردی سے گولی مار دی-انہوں اسے ظلم کی انتہا قرار دیا ۔  انہوں نے کہا کہ یہ بھارت کو تشدد کی آگ میں جھوکنےاور فرقہ وارانہ بدامنی کو بھڑکانے کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی۔  انہوں نے اتحاد اور لچیلے پن کے ساتھ اس سازش کو شکست دینے کے لیے بھارت کے عوام کا شکریہ ادا کیا۔

جناب مودی نے یاد دلایا کہ 22 اپریل کے بعد انہوں نے دنیا کے سامنے بھارت کا موقف واضح کرنے کے لیے انگریزی میں بھی ایک عوامی بیان جاری کیا۔  انہوں نے زور دے کر کہا کہ دہشت گردی کو کچلنا بھارت کا پختہ عزم ہےاور اس کے آقاؤں کو ایسی سزا دی جائے گی جس تصور بھی نہیں جاسکتا۔  وزیر اعظم نے کہا کہ وہ 22 اپریل کو غیر ملکی دورے پر تھے لیکن ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے لیے فوری طور پر واپس آئے۔  انہوں نے کہا کہ اس بات کا اعادہ کرتے ہوئے یہ ایک قومی عزم ہے، میٹنگ کے دوران دہشت گردی کا فیصلہ کن جواب دینے کے لیے واضح ہدایات جاری کی۔

بھارت کی مسلح افواج کی صلاحیتوں، طاقت اور ہمت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ فوج کو وقت، مقام اور ردعمل کے طریقے کا فیصلہ کرنے کی مکمل آپریشنل آزادی دی گئی۔   وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اعلیٰ سطح کی میٹنگ کے دوران یہ ہدایات واضح طور پر دے دی گئی تھیں اور کچھ پہلوؤں کو میڈیا میں رپورٹ کیا گیا ہوگا۔  انہوں نے فخر کے ساتھ کہا کہ دہشت گردوں کو دی گئی سزا اتنی اثر دار تھی کہ اس سے اُن کی نیند اُڑی ہوئی ہے ۔

وزیر اعظم نے کہا کہ وہ ایوان کے ذریعے بھارت کے ردعمل اور اس کی مسلح افواج کی کامیابی کو قوم کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔  انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے کے بعد، پاکستانی فوج نے بھارت کے بڑے ردعمل کی توقع کی تھی، جس کی وجہ سے انہوں نے ایٹم بم کی دھمکی دی۔  پہلی جہت کا خاکہ پیش کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ مقررہ وقت کے مطابق، بھارت نے 6 اور 7 مئی 2025 کی درمیانی رات کو اپنے آپریشن کو انجام دیا، جس کی وجہ سے پاکستان جواب نہیں دے پایا۔ جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ بھارتی مسلح افواج نے 22 اپریل کے حملے کا بدلہ صرف 22 منٹ میں اپنے اہداف کو حاصل کرکے لیا۔

جناب مودی نے ایوان کے ذریعے بھارت کے اسٹریٹجک ردعمل کی دوسری جہت کا خاکہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ بھارت نے ماضی میں پاکستان کے ساتھ متعدد جنگیں لڑی ہیں، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب ایسی حکمت عملی پر عمل درآمد کیا گیا جس کے تحت اُن مقامات کو نشانہ بنایا گیا جن کو پہلے کبھی نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پاکستان بھر میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو فیصلہ کن طور پر نشانہ بنایا گیا، ان میں وہ علاقےبھی شامل تھےجن کے بارے میں کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا کہ بھارت وہاں پہنچ سکتا ہے ۔  انہوں نے خاص طور پر بہاولپور اور موریدکے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان اڈوں کو تباہ کردیا گیا، جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ بھارت کی مسلح افواج نے دہشت گردوں ٹھکانوں کو کامیابی کے ساتھ تباہ کر دیا ہے۔

جناب مودی نے تیسرے پہلو پر زور دیا کہ پاکستان کی ایٹم بم کی دھمکیاں کھوکھلی ثابت ہوئی ہیں اور بھارت نے دکھا دیا ہے کہ ایٹم بم کی دھمکی کو اب برداشت نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی بھارت کبھی اس کے آگے جھکے گا۔

آپریشن سندور کے تحت بھارت کے اسٹریٹجک ردعمل کی چوتھے پہلو کا خاکہ پیش کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کے اندر درست حملے کرکے اپنی جدید تکنیکی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا، جس کے نتیجے میں پاکستان کے ہوائی اڈے کے اثاثوں کو کافی نقصان پہنچا-جن میں سے بہت سے، انہوں نے مزید کہا، اب بھی خراب حالت میں ہیں ۔  انہوں نے کہا کہ اب ہم ٹیکنالوجی سے چلنے والی جنگ کے دور میں ہیں اور آپریشن سندور نے اس شعبے میں بھارت کی مہارت کو ثابت کیا۔  اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اگر بھارت نے پچھلے دس سال تیاری نہ کی ہوتی تو اس تکنیکی دور میں ملک کو بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔جناب مودی نے پانچویں جہت پیش کی، وزیر اعظم نے کہا کہ پہلی بار دنیا نے آپریشن سندور کے دوران آتم نربھر بھارت کی طاقت کا مشاہدہ کیا ہے۔  انہوں نے میڈ ان انڈیا ڈرونز اور میزائلوں کے اثر پر روشنی ڈالی، جس نے پاکستان کے ہتھیاروں کے نظام میں موجود کمزوریوں کو بے نقاب کیا۔

بھارت کے دفاعی ڈھانچے میں ایک اہم کامیابی کو اجاگر کرتے ہوئے-چیف آف ڈیفنس اسٹاف (سی ڈی ایس) کے اپنے اعلان کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ آپریشن سندور میں بحریہ، فوج اور فضائیہ کی مشترکہ کارروائی دیکھی گئی اور ان افواج کے درمیان ہم آہنگی نے پاکستان کو بڑے پیمانے پر ہلا کر رکھ دیا۔

جناب مودی نے کہا کہ اگرچہ بھارت میں دہشت گردی کے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں، لیکن پہلے دہشت گردی کے آقا پریشان نہیں تھے اور بلا خوف اگلے حملوں کے منصوبے بناتے رہتے تھے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب صورتحال بدل چکی ہے۔ آج، ہر حملے کے بعد،ان آقاؤں کی نیند اڑ جاتی ہے-وہ یہ جانتے ہیں کہ بھارت جوابی حملہ کرے گا اور خطرات کو درستگی کے ساتھ ختم کرے گا۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ بھارت نے ایک ’’نیو نارمل‘‘ قائم کیا ہے۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ عالمی برادری نے اب بھارت کی اسٹریٹجک کارروائیوں کے وسیع پیمانے اور رسائی کو دیکھا ہےاورسندور سے سندھو تک پاکستان بھر میں حملے کیے گئے، جناب مودی نے کہا کہ آپریشن سندور نے ایک نیا نظریہ قائم کیا ہے: بھارت پر کسی بھی دہشت گردانہ حملے کے نتیجہ میں اس کے آقاؤں اور خود پاکستان کو بڑی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔

وزیر اعظم نے آپریشن سندور سے پیدا ہونے والے تین واضح اصولوں کا خاکہ پیش کیا۔ پہلا یہ کہ، بھارت دہشت گردانہ حملوں کا جواب اپنی شرائط پر، اپنے طریقے سے اور اپنے منتخب کردہ وقت پر دے گا۔ دوسرا، اب کسی بھی قسم کی نیوکلیئر بلیک میلنگ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ تیسرا، بھارت دہشت گردی کے اسپانسرز اور اس طرح کے حملوں کے ماسٹر مائنڈز کے درمیان فرق نہیں کرے گا۔

جناب مودی نے آپریشن سندور کے دوران بھارت کے اقدامات کے لیے عالمی حمایت کے بارے میں واضح طور پر ایوان کو آگاہ کیا۔  انہوں نے کہا کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے بھارت کے قومی سلامتی کے دفاع میں ضروری کارروائی کرنے پر اعتراض نہیں کیا۔  وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے صرف تین نے آپریشن کے دوران پاکستان کی حمایت میں بیانات جاری کیے۔  انہوں نے کہا کہ بھارت کو دنیا بھر کے ممالک کی طرف سے وسیع حمایت ملی-جس میں کواڈ اور برکس جیسے اسٹریٹجک گروپس اور فرانس، روس اور جرمنی جیسے ممالک شامل ہیں۔  وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ بین الاقوامی برادری بھارت کی بھرپور حمایت میں کھڑی ہے۔

اس بات پر گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہ بھارت کو عالمی برادری کی حمایت ملی، لیکن ملک کے فوجیوں کی بہادری کو اپوزیشن کی حمایت نہیں ملی، جناب مودی نے کہا کہ 22 اپریل کے دہشت گردانہ حملے کے کچھ دن بعد ہی، کچھ اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور ناکامی کا الزام لگایا۔  وزیر اعظم نے کہا کہ یہ مذاق اُڑانا اور پہلگام قتل عام کے تناظر میں بھی سیاسی موقع پرستی میں ان(اپوزیشن) کی شمولیت، قومی غم کو نظر انداز کرنے کی عکاسی کرتی ہے۔  انہوں نے کہا کہ اس طرح کے بیانات نہ صرف معمولی ہیں بلکہ بھارت کی سیکورٹی فورسز کے لیے حوصلہ شکنی کرنے والے ہیں۔  جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ کچھ اپوزیشن لیڈر نہ تو بھارت کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کی مسلح افواج کی صلاحیتوں پر اور آپریشن سندور پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔  انہوں نے زور دے کر کہا کہ سرخیوں کے چکر میں لگے رہنے سے سیاسی مفادات پورے ہوسکتے ہیں، لیکن اس سے لوگوں کا اعتماد یا احترام حاصل نہیں ہوگا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ 10 مئی 2025 کو بھارت نے آپریشن سندور کے تحت کارروائیاں بند کرنے کا اعلان کیا۔  انہوں نے تسلیم کیا کہ اس اعلان نے مختلف قیاس آرائیوں کو جنم دیا، جسے انہوں نے سرحد پار سے شروع ہونے والے پروپیگنڈے کے طور پر بیان کیا۔  انہوں نے ان لوگوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے بھارت کی مسلح افواج کی طرف سے پیش کردہ حقائق پر بھروسہ کرنے کے بجائے پاکستان کی غلط معلومات کو بڑھانے کا انتخاب کیا۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت کا موقف ہمیشہ واضح اور مضبوط رہا ہے۔

گزشتہ برسوں میں بھارت کی طے شدہ کارروائیوں کو یاد کرتے ہوئے، اسٹریٹجک وضاحت اور اس پر عمل درآمد پر زور دیتے ہوئے، جناب مودی نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیکس کے دوران، بھارت نے دشمن کے علاقے میں دہشت گردوں کے لانچ پیڈ کو تباہ کرنے کا ایک واضح مقصد مقرر کیا تھا، جو طلوع آفتاب سے پہلے راتوں رات پورا ہو گیا تھا۔  انہوں نے کہاکہ بالاکوٹ فضائی حملوں میں بھارت نے دہشت گردوں کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا اور مشن کو کامیابی کے ساتھ انجام دیا۔  وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ آپریشن سندور کے تحت، بھارت نے ایک بار پھر واضح طور پر طے شدہ مقصد کے ساتھ کام کیا-یہ ہدف تھادہشت گردی کے مرکز اور پہلگام حملہ آوروں کے پس پشت بنیادی ڈھانچے پر حملہ کرنا ، جس میں ان کے منصوبہ بندی کے اڈے، تربیتی مراکز، فنڈنگ کے ذرائع، ٹریکنگ اور تکنیکی مدداور اسلحہ کی فراہمی کے سلسلے شامل ہیں۔  وزیر اعظم نے کہا،’’بھارت نے ان دہشت گردوں کے اصل سینٹر پر حملہ کیا اور ان کی کارروائیوں کی جڑ کو ختم کر دیا۔

 

جان بوجھ کر ان سنگ میل کو بھولنےوالوں کی نکتہ چینی کرتے ہوئے جناب مودی نے زور دے کر کہا کہ ’’ایک بار پھر بھارتی افواج نے اپنے 100 فیصد اہداف حاصل کیے، جس سے ملک کی طاقت ظاہر ہوتی ہے۔انہوں نےاس بات کی تصدیق کی کہ قوم کو اچھی طرح یاد ہے: آپریشن 6 اور 7 مئی کی درمیانی شب انجام دیا گیااور صبح7 بجے تک، بھارتی فوج نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں کہا گیا کہ مشن مکمل ہوا۔  وزیر اعظم نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بھارت کے مقاصد پہلے دن سے ہی واضح تھےیعنی-دہشت گردی کے نیٹ ورکس، ان کے آقاؤں اور ان کے لاجسٹک مراکز کو ختم کرنا-اور یہ کہ مشن منصوبہ کے مطابق مکمل ہوا۔  مرکزی وزیر دفاع جناب راج ناتھ سنگھ کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے یقین کے ساتھ کہا کہ بھارت کی مسلح افواج نے منٹوں میں ہی پاکستانی فوج کو اپنی کامیابی سے آگاہ کر دیا، جس سے ارادے اور نتائج واضح ہو گئے۔  انہوں نے زور دے کر کہا کہ پاکستان کا دہشت گردوں کے ساتھ کھلے عام کھڑے ہونے کا فیصلہ دانشمندی کی کمی کی عکاسی کرتا ہے۔  اگر انہوں نے سمجھداری سے کام لیا ہوتا تو وہ اس طرح کی کھلم کھلا غلطی نہ کرتے۔  وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اگرچہ بھارت مکمل طور پر تیار ہے اور صحیح وقت کا انتظار کر رہا ہے، تاہم اس کا مقصد دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہے-کسی ملک کے ساتھ تنازع میں ملوث ہونا نہیں ۔  تاہم، جب پاکستان نے دہشت گردوں کی حمایت میں میدان جنگ میں اترنے کا فیصلہ کیا تو بھارت نے ایک طاقتور حملے کے ساتھ جواب دیا۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ 9 مئی کی نصف شب اور 10 مئی کی صبح بھارتی میزائلوں نے پاکستان بھر میں اتنی شدت سے حملہ کیا کہ انہوں نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔

وزیر اعظم نے ایوان میں مزید کہا کہ آپریشن سندور کے تحت بھارت کی فیصلہ کن کارروائی نے پاکستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔  انہوں نے یاد کیا کہ کس طرح پاکستانی شہریوں نے صدمے کا اظہار کیا، جن کے رد عمل ٹیلی ویژن پر بڑے پیمانے پر نظر آتے تھے۔  جناب مودی نے کہا کہ پاکستان اس ردعمل سے اتنا خوفزدہ تھا کہ اس کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) نے براہ راست بھارت کو فون کر کے حملہ روکنے کی التجا کی-انہوں نےیہ تسلیم کیا کہ وہ مزید حملے برداشت نہیں کر سکتے۔  انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بھارت نے 7 مئی کی صبح پریس کانفرنس کے دوران واضح طور پر کہا تھا کہ اس کے مقاصد حاصل ہو گئے ہیں اور مزید اشتعال انگیزی مہنگی ثابت ہوگی۔  وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ بھارت کی پالیسی ارادے، اچھی طرح سے سوچی سمجھی اور اپنی مسلح افواج کے ساتھ مل کر تیار کی گئی تھی-جس میں دہشت گردی، اس کے اسپانسرز اور ان کے اڈوں کو ختم کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی تھی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کسی بھی عالمی رہنما نے بھارت کی کارروائیوں پر اعتراض نہیں کیا۔  انہوں نے بتایا کہ 9 مئی کی رات کو امریکہ کے نائب صدر نے متعدد بار ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ اُس وقت وہ بھارتی دفاعی عہدیداروں کے ساتھ ایک اعلی سطحی میٹنگ میں تھے۔  میٹنگ سے واپس آنے کے بعد، وزیر اعظم کو بتایا گیا کہ پاکستان ایک بڑا حملہ کر سکتا ہے۔  انہوں نے واضح طور پر جواب دیا: ’’اگر پاکستان کا یہ ارادہ ہے تو یہ انہیں بہت مہنگا پڑے گا۔‘‘  انہوں نے مضبوطی سے کہا کہ بھارت زیادہ طاقت کے ساتھ جوابی کارروائی کرے گااور’’ہم گولی کا جواب توپ سے دیں گے‘‘ ۔  وزیر اعظم نے اس بات کی تصدیق کی کہ بھارت نے 9 مئی کی رات اور 10 مئی کی صبح زبردست طاقت کے ساتھ پاکستان کے فوجی بنیادی ڈھانچے کو ختم کرتے ہوئے زبردست جوابی حملہ کیا۔  انہوں نے کہا کہ پاکستان اب اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ہر بھارتی ردعمل پچھلے سے زیادہ مضبوط ہوگا۔ جناب مودی نے کہا، ’’اگر پاکستان نے دوبارہ ہمت کی تو اسے مناسب اور زبردست جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔  آپریشن سندور جاری اور مضبوط ہے‘‘۔

وزیر اعظم نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئےکہ’’آج کا بھارت خود اعتمادی سے بھرا ہوا ہے اور خود انحصاری کے جذبے کے ساتھ تیزی سے ترقی کر رہا ہے‘‘ ، وزیر اعظم نے کہا کہ قوم آتم نربھرتا کی طرف بھارت پیش قدمی کا مشاہدہ کر رہی ہے ، لیکن یہ اپوزیشن کے برے رجحان کو بھی دیکھ رہی ہے جو اپنے سیاسی بیانیے کے لیے پاکستان پر زیادہ منحصر ہے۔  وزیر اعظم نے کہا کہ جاری 16 گھنٹے کی بحث کے دوران، اپوزیشن کو پاکستان سے مسائل درآمد کرتے ہوئے دیکھا گیا-یہ گہرے افسوس کی بات ہے۔

جنگ کی ابھرتی ہوئی نوعیت کو اجاگر کرتے ہوئے، جہاں معلومات اور بیانیہ سازی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، وزیر اعظم نے خبردار کیا کہ اے آئی سے چلنے والی غلط معلومات کی مہمات کو مسلح افواج کے حوصلے کو کمزور کرنے اور عوام میں عدم اعتماد پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔  انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ اپوزیشن اور اس کے اتحادی مؤثر طریقے سے پاکستان کے پروپیگنڈے کے ترجمان بن چکے ہیں، جس سے بھارت کے قومی مفاد کو نقصان پہنچا ہے۔

بھارت کی فوجی کامیابیوں پر سوال اٹھانے اور انہیں کم کرنے کی بار بار کی جانے والی کوششوں پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ بھارت کی کامیاب سرجیکل اسٹرائیکس کے بعد حزب اختلاف کے رہنماؤں نے مسلح افواج سے ثبوت طلب کیے۔  انہوں نے ا س کا ذکر کیا کہ جیسے ہی عوامی جذبات فوج کے حق میں ہوئے ، اپوزیشن رہنماؤں نے اپنا موقف تبدیل کیا-وہ یہ دعوی کرنے لگے کہ انہوں نے بھی تین سے پندرہ سرجیکل اسٹرائیکس سے مختلف تعداد کا حوالہ دیتے ہوئے اس طرح کے حملے کیے تھے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بالاکوٹ فضائی حملوں کے بعد اپوزیشن اس آپریشن کو یکسر چیلنج نہیں کر سکی بلکہ اس کے بجائے فوٹو گرافی کے شواہد کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔  انہوں نے مشاہدہ کیا کہ وہ بار بار پوچھتے ہیں کہ حملہ کہاں ہوا، کیا تباہ ہوا، کتنے مارے گئے-وہ سوالات ، جن سے پاکستان کا موقف ظاہر ہوتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ جب بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن کو پاکستان نے پکڑ لیا تھا، تو اس ملک میں تقریبات متوقع تھیں۔ تاہم، بھارت کے اندر کچھ افراد نے شکوک و شبہات کا اظہار کرنا شروع کر دیا، یہ تجویز کرتے ہوئے کہ وزیر اعظم پریشانی میں ہیں اور سوال کیا کہ کیا ابھینندن کو واپس لایا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ابھینندن کی بھارت واپسی ’’جرات مندانہ عزم کے ساتھ‘‘ یقینی بنائی گئی اور ان کی وطن واپسی پر، ایسے ناقدین خاموش ہو گئے۔

جناب مودی نے مزید کہا کہ پہلگام حملے کے بعد جب پاکستان نے بی ایس ایف کے ایک سپاہی کو اغوا کر لیا تو کچھ گروہوں کا خیال تھا کہ انہیں حکومت کو گھیرے میں لینے کا ایک بڑا موقع ملا ہے۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ان کے ایکو سسٹم نے سوشل میڈیا پر متعدد بیانیے پھیلائے-جس سے فوجی کی قسمت، اس کے کنبے کی حالت اور اس کی واپسی کے امکان کے بارے میں قیاس آرائی پر مبنی سوالات پیدا ہوئے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کوششوں کے باوجود، بھارت نے وضاحت اور وقار کے ساتھ جواب دیا، غلط معلومات کو دور کیا اور ہر فوجی کی حفاظت کے لیے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔
یہ بتاتے ہوئے کہ پہلگام واقعے کے بعد پکڑا گیا بی ایس ایف کا سپاہی بھی عزت اور وقار کے ساتھ واپس آیا، جناب مودی نے کہا کہ دہشت گردکو افسوس تھا، ان کے ہینڈلرکو افسوس تھا-اور انہیں دیکھ کر بھارت کے اندر کچھ افراد بھی غمزدہ نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ سرجیکل اسٹرائیکس کے دوران سیاسی کھیل کھیلنے کی کوششیں کی گئیں جو توجہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ فضائی حملے کے دوران بھی اسی طرح کی کوششیں کی گئیں، لیکن وہ بھی ناکام ہو گئیں۔ انہوں نے کہا کہ جب آپریشن سندور ہوا تو نکتہ چینی کرنے والوں نے ایک بار پھر اپنا موقف تبدیل کیا، پہلے آپریشن کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، پھر سوال کیا کہ اسے کیوں روکا گیا۔ انہوں نے تبصرہ کیا کہ مخالف لوگ ہمیشہ اعتراض کرنے کی وجہ تلاش کرتے ہیں۔

اس بات اجاگر کرتے ہوئے کہ اپوزیشن نے طویل عرصے سے مسلح افواج کے تئیں منفی رویہ ظاہر کیا ہے ، وزیر اعظم نے اس کا ذکر کیا کہ کارگل وجے دیوس کی حالیہ یادگاری تقریب کے دوران بھی اپوزیشن نے نہ تو فتح کا جشن منایا اور نہ ہی اس کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ ڈوکلام تعطل کے دوران، جب کہ بھارتی افواج نے ہمت کا مظاہرہ کیا، اپوزیشن لیڈر خفیہ طور پر قابل اعتراض ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

وزیر اعظم نے مزید حیرت کا اظہار کیا کہ اپوزیشن پاکستان کو کلین چٹ دیتی دکھائی دیتی ہے۔  انہوں نے اپوزیشن کی طرف سے اس ثبوت کے مطالبے پر سوال اٹھایا کہ پہلگام کے دہشت گرد پاکستانی شہری تھے، انہوں نے کہا کہ یہی مطالبہ پاکستان کی طرف سے بھی کیا جا رہا ہے۔  انہوں نے کہا کہ اس طرح کی عادتیں اور ہمت جو اپوزیشن میں ہیں اس میں بیرونی بیانیے کی بازگشت ہے۔  وزیر اعظم نے کہا کہ آج، عوام کے سامنے شواہد اور حقائق کی کوئی واضح کمی نظر نہ آنے کے باوجود، کچھ افراد اب بھی شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔  انہوں نے سوال کیا کہ اگر اس طرح کے واضح ثبوت دستیاب نہ ہوتے تو ان افراد نے کیا رد عمل ظاہر کیا ہوتا ، جس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے جوابات اور بھی گمراہ کن یا غیر ذمہ دارانہ ہوتے ۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ بات چیت اکثر آپریشن سندور کے ایک حصے پر مرکوز ہوتی ہے، جناب مودی نے کہا کہ قومی فخر اور طاقت کے مظاہرے کے لمحے ایسے ہوتے ہیں جو توجہ کے بھی مستحق ہوتے ہیں۔  انہوں نے بھارت کے فضائی دفاعی نظام کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر تسلیم کیا جاتا ہے اور انہوں نے پاکستان کے میزائلوں اور ڈرونوں کو ’’بھوسے کی طرح‘‘ تباہ کر دیا ہے۔  انہوں نے اعداد و شمار کا حوالہ دیا کہ 9 مئی کو پاکستان نے بھارت کو نشانہ بناتے ہوئے تقریبا ایک ہزار میزائلوں اور مسلح ڈرونوں پر مشتمل ایک بڑے حملے کی کوشش کی۔  وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ اگر یہ میزائل گرے ہوتے تو وہ بڑے پیمانے پر تباہی کا باعث بنتے۔  اس کے بجائے، بھارت کے فضائی دفاع نے ان سب کو ہوا میں ہی تباہ کر دیا۔  انہوں نے کہا کہ یہ کامیابی ہر شہری کو فخر سے بھر دیتی ہے۔

اس بات پر تنقید کرتے ہوئے کہ پاکستان نے آدم پور ایئر بیس پر حملے کے بارے میں جھوٹی خبریں پھیلائیں اور اس جھوٹ کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے کی کوشش کی ، جناب مودی نے کہا کہ انہوں نے ذاتی طور پر اگلے ہی دن آدم پور کا دورہ کیا اور زمینی سطح پر جھوٹ کو بے نقاب کیا، جس سے یہ واضح ہوگیا کہ اس طرح کی غلط معلومات اب کامیاب نہیں ہوں گی ۔

وزیر اعظم نے نکتہ چینی کی کہ موجودہ اپوزیشن نے ایک اہم مدت تک بھارت پر حکومت کی ہے اور وہ اس بات سے پوری طرح واقف ہے کہ انتظامی نظام کیسے کام کرتے ہیں۔  انہوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ اس تجربے کے باوجود انہوں نے سرکاری وضاحتوں کو قبول کرنے سے مسلسل انکار کیا۔  جناب مودی نے کہا کہ چاہے وہ وزارت خارجہ کا بیان ہو، وزیر خارجہ کا بار بار جواب ہو، یا وزیر داخلہ اور وزرائے دفاع کی طرف سے وضاحت ہو، اپوزیشن ان پر بھروسہ کرنے سے انکار کرتی ہے۔  انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایک پارٹی جس نے کئی دہائیوں تک حکومت کی ہے وہ ملک کے اداروں پر اس طرح کا عدم اعتماد کیسے ظاہر کر سکتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اپوزیشن اب پاکستان کے ریموٹ کنٹرول کے مطابق کام کرتی دکھائی دیتی ہے، اسی کے مطابق اس کا موقف بدل رہا ہے۔

جناب مودی نے اپوزیشن کے ان سینئر لیڈروں پر تنقید کی جو تحریری بیانات تیار کرتے ہیں اور نوجوان ممبران پارلیمنٹ کو اپنی طرف سے بولنے پر مجبور کرتے ہیں۔  انہوں نے خود سے بات کرنے کی ہمت نہ ہونے پر ایسی قیادت کی مذمت کی اور آپریشن سندور-جوایک ایسے وحشیانہ دہشت گردانہ حملے کا جواب ہےجس میں 26 جانیں گئیں-کو ’’تماشا‘‘ قرار دیا ۔  انہوں نے اس بیان کو ایک خوفناک واقعے کی یادوں کو کریدنے کے مترادف قرار دیا اور اسے شرمناک فعل قرار دیا۔

جناب مودی نے بتایا کہ پہلگام حملے میں ملوث دہشت گردوں کو ایک دن پہلے آپریشن مہادیو میں بھارتی سیکورٹی فورسز نے بے اثر کر دیا تھا۔  انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ آپریشن کے وقت کے بارے میں سوالات کے ساتھ ہنسی اور مذاق اڑایا گیا-طنزیہ انداز میں پوچھاگیا  کہ کیا یہ ساون کے مہینے میں ایک پوتر پیر کے لیے طے کیا گیا تھا ۔  انہوں نے اس رویے کو انتہائی مایوسی اور مایوسی کی عکاسی قرار دیتے ہوئے تنقید کی اور تبصرہ کیا کہ یہ اپوزیشن کے نقطۂ نظر کی بگڑتی ہوئی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔

قدیم صحیفوں کا حوالہ دیتے ہوئے جناب مودی نے کہا کہ جب کوئی قوم ہتھیاروں سے محفوظ ہوتی ہے تو علم اور فلسفیانہ گفتگو کا حصول فروغ پا سکتا ہے۔  جناب مودی نے کہا کہ ’’سرحدوں پر ایک مضبوط فوج ایک متحرک اور محفوظ جمہوریت کو یقینی بناتی ہے۔

وزیر اعظم نے حیرت سے کہا کہ ’’آپریشن سندور پچھلی دہائی کے دوران بھارت کی فوج کو بااختیار بنائے جانے کا براہ راست ثبوت ہے‘‘ ، انھوں نےاس بات کا ذکر کیا کہ اس طرح کی طاقت اچانک نہیں ابھری، بلکہ مرکوز کوششوں کا نتیجہ ہے-اس کے برعکس حزب اختلاف کے دور میں دفاع میں خود انحصاری پر غور بھی نہیں کیا گیا تھا۔  انہوں نے کہا کہ آج بھی’’خود انحصاری‘‘ کی اصطلاح کا مذاق اڑایا جاتا ہے جس کے آثا گاندھیائی فلسفے میں پائے جاتے ہیں۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اپوزیشن کے دور حکومت میں ہر دفاعی معاہدہ ذاتی فائدے کا موقع تھا، جناب مودی نے کہا کہ بھارت بنیادی آلات کے لیے بھی غیر ملکی سپلائرز پر منحصر رہا۔  انہوں نے بلٹ پروف جیکٹس اور نائٹ ویژن کیمروں کی عدم موجودگی جیسی خامیوں کا ذکر کیااور نشاندہی کی کہ ہر دفاعی خرید میں گھپلے ہوئے-جیپوں سے لے کر بوفورز تک ہیلی کاپٹروں تک۔  وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ بھارتی افواج کو جدید ہتھیاروں کے لیے کئی دہائیوں کا انتظار کرنا پڑا۔انہوں نے ایوان کو یاد دلایا کہ تاریخی طور پر، بھارت دفاعی مینوفیکچرنگ میں رہنما ملک رہا ہے۔  انہوں نے حوالہ دیا کہ تلوار سے جنگ کے دوران بھی بھارتی ہتھیاروں کو برتر سمجھا جاتا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد بھارت کے مضبوط دفاعی مینوفیکچرنگ ماحولیاتی نظام کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا اور اسے منظم طریقے سے بے اثر کیا گیا۔

جناب مودی نے کہا کہ تحقیق اور مینوفیکچرنگ کے راستے برسوں سے بند تھے اور اگر یہ پالیسیاں جاری رہتیں تو بھارت 21 ویں صدی میں آپریشن سندور کا تصور بھی نہیں کر پاتا۔  انہوں نے کہا کہ ایسے حالات میں، بھارت کو وقت پر ہتھیار، سازوسامان اور گولہ بارود تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی اور فوجی کارروائی کے دوران رکاوٹوں کا خدشہ رہتا۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ گزشتہ دہائی کے دوران میک ان انڈیا پہل کے تحت بنائے گئے ہتھیاروں نے آپریشن سندور کی کامیابی میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ایک دہائی قبل، بھارتیوں نے ایک مضبوط، خود کفیل اور جدید قوم کی تعمیر کا عزم کیا تھا، جس سے سلامتی سے متعلق اصلاحات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو آزادی کے بعد پہلی بار نافذ کیا گیا تھا۔  انہوں نے کہا کہ چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی تقرری ایک بڑی اصلاح تھی-جس پر طویل عرصے سے عالمی سطح پر بحث اور عمل کیا گیا تھا، پھر بھی بھارت میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔  انہوں نے تینوں افواج کی طرف سے اس نظام کی بھرپور حمایت اور قبولیت کی تعریف کی۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اب سب سے بڑی طاقت اتحاد اور یکجہتی میں مضمر ہے، جناب مودی نے کہا کہ بحریہ، فضائیہ اور فوج میں انضمام نے بھارت کی دفاعی صلاحیت کو کئی گنا بڑھا دیا ہےاور آپریشن سندور اس تبدیلی کی کامیابی کی عکاسی کرتا ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ بدامنی اور ہڑتالوں سمیت ابتدائی مزاحمت کے باوجود سرکاری ملکیت والی دفاعی پیداوار کرنے والی کمپنیوں میں اصلاحات متعارف کرائی گئیں۔  انہوں نے قومی مفاد کو اولین ترجیح دینے، اصلاحات کو اپنانے اور انتہائی نتیجہ خیز بننے کے لیے کارکنوں کی تعریف کی۔  انہوں نے مزید کہا کہ بھارت نے اپنے دفاعی شعبے کو نجی کمپنیوں کے لیے کھول دیا ہے اور آج نجی شعبہ قابل ذکر ترقی کر رہا ہے۔  جناب مودی نے نشاندہی کی کہ دفاع میں سیکڑوں اسٹارٹ اپ، جن میں سے کئی ٹیئر 2 اور ٹیئر 3 شہروں کے 27-30 سال کی عمر کے نوجوان پیشہ ور افراد کی قیادت میں ہیں-جن میں نوجوان خواتین بھی شامل ہیں-اختراع میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ڈرون کے شعبے میں سرگرمیاں بنیادی طور پر 30-35 سال کی عمر کے افراد کی قیادت میں ہوتی ہیں اور ان کا تعاون آپریشن سندور میں اہم ثابت ہوا۔  انہوں نے ایسے تمام شراکت داروں کی تعریف کی اور انہیں یقین دلایا کہ ملک آگے بڑھتا رہے گا۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ دفاعی شعبے میں ’میک ان انڈیا‘ کبھی بھی محض ایک نعرہ نہیں تھا، جناب مودی نے کہا کہ بجٹ میں اضافہ، پالیسی میں تبدیلیاں اور نئے اقدامات ایک واضح وژن کے ساتھ کیے گئے، جس سے مقامی دفاعی مینوفیکچرنگ میں تیزی سے پیش رفت ممکن ہوئی۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ پچھلی دہائی میں بھارت کا دفاعی بجٹ تقریبا تین گنا ہو گیا ہے۔  دفاعی پیداوار میں تقریباً 250 فیصد کا اضافہ ہوا ہےاور دفاعی برآمدات میں گزشتہ 11 سال میں 30 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جو اب تقریباً 100 ممالک تک پہنچ گئی ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ کچھ سنگ میل کا تاریخ پر دیرپا اثر پڑا ہے، انہوں نے کہا کہ آپریشن سندور نے بھارت کو عالمی دفاعی بازار میں مضبوط مقام دیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ بھارتی ہتھیاروں کی بڑھتی ہوئی مانگ گھریلو صنعتوں کو مضبوط کرے گی، ایم ایس ایم ایز کو بااختیار بنائے گی اور نوجوانوں کے لیے روزگار پیدا کرے گی۔  انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ نوجوان بھارتی اب اپنی اختراعات کے ذریعے بھارت کی طاقت کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

جناب مودی نے واضح کیا کہ دفاع میں خود کفالت نہ صرف قومی مفاد کے لیے بلکہ آج کے مسابقتی دور میں عالمی امن کے لیے بھی ضروری ہے۔  جناب مودی نے کہا ، ’’بھارت بدھ کی سرزمین ہے، یدھ (جنگ) کی نہیں اور اگرچہ قوم خوشحالی اور امن کی خواہش رکھتی ہے، تاہم دونوں کے لیے طاقت اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے ۔  انہوں نے بھارت کو عظیم جنگجوؤں - چھترپتی شواجی مہاراج، مہاراجہ رنجیت سنگھ، راجندر چول، مہارانا پرتاپ، لچت بورفوکن اور مہاراجہ سہیل دیو-کی سرزمین قرار دیا-اور اس بات پر زور دیا کہ ترقی اور امن کے لیے اسٹریٹجک طاقت بہت ضروری ہے۔

وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ اپوزیشن کے پاس قومی سلامتی کے لیے کبھی بھی واضح نقطہ نظر نہیں رہا اور اس نے اس پر مسلسل سمجھوتہ کیا ہے۔  انہوں نے کہا کہ جو لوگ اب یہ سوال کر رہے ہیں کہ پاکستان کے قبضے والے کشمیر کو دوبارہ حاصل کیوں نہیں کیا گیا ہے، انہیں پہلے جواب دینا چاہیے کہ سب سے پہلے پاکستان کو اس پر قبضہ کرنے کی اجازت کس نے دی۔

آزادی کے بعد کے فیصلوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے ، جن کا بوجھ ملک اُٹھا رہا ہے، جناب مودی نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ انتہائی غلط فیصلوں کی وجہ سے اکسائی چین میں بھارتی علاقے کا 38,000 مربع کلومیٹر کا نقصان ہوا، جسے غلط طور پر بنجر زمین قرار دیا گیا تھا۔  انہوں نے کہا کہ 1962 اور 1963 کے درمیان اس وقت کی حکمراں پارٹی کے رہنماؤں نے جموں و کشمیر کے اہم علاقوں بشمول پونچھ، اڑی، وادی نیلم اور کشن گنگا کو سونپنے کی تجویز پیش کی تھی۔

وزیر اعظم نے کہاکہ ہتھیار ڈالنے کی تجویز ’’لائن آف پیس‘‘ کی آڑ میں پیش کی گئی تھی۔  انہوں نے 1966 میں رن آف کچھ پر ثالثی قبول کرنے پر بھی اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں متنازعہ چھڑ بیٹ کے علاقے سمیت تقریبا 800 مربع کلومیٹر زمین پاکستان کے حوالے کی گئی۔  انہوں نے کہا کہ اگرچہ بھارتی افواج نے 1965 کی جنگ میں حاجی پیر پاس پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا، لیکن اس وقت کی حکومت نے اسے واپس کر دیا، جس سے ملک کی اسٹریٹجک فتح کو نقصان پہنچا۔

وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ 1971 کی جنگ کے دوران بھارت نے پاکستان کے ہزاروں مربع کلومیٹر علاقے پر قبضہ کر لیا تھا اور 93,000 جنگی قیدیوں کو قید کر رکھا تھا۔  انہوں نے کہا کہ سازگار حالات کے باوجود پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر (پی او کے) پر دوبارہ قبضہ کرنے کا موقع گنوا دیا گیا۔  یہاں تک کہ سرحد کے قریب واقع کرتار پور صاحب کو بھی محفوظ نہیں کیا جا سکا۔  انہوں نے اس منتقلی کی وجہ سے تمل ناڈو کے ماہی گیروں کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے 1974 میں سری لنکا کو کچاتھییو جزیرہ تحفے میں دینے کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا۔

وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اپوزیشن نے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتے ہوئے سیاچن سے بھارتی افواج کے انخلا کا دہائیوں پرانا ارادہ کیا تھا۔

وزیر اعظم نے ایوان کو یاد دلایا کہ 26/11 کے خوفناک ممبئی حملوں کے بعد، اس وقت کی حکومت نے اس سانحے کے چند ہفتے بعد ہی پاکستان کے ساتھ بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔  انہوں نے کہا کہ 26/11 کے باوجود اس وقت کی حکومت نے ایک بھی پاکستانی سفارت کار کو ملک بدر نہیں کیا اور نہ ہی ایک ویزا منسوخ کیا۔  وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی سرپرستی میں دہشت گردانہ حملے بلا روک ٹوک جاری رہے، اس کے باوجود پاکستان کو اس وقت کی حکومت کے تحت ’’انتہائی پسندیدہ ملک‘‘ کا درجہ ملا ، جسے کبھی واپس نہیں لیا گیا ۔

جناب مودی نے اس بات پر زور دیا کہ جب کہ قوم ممبئی کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہی تھی، اس وقت کی حکمراں پارٹی پاکستان کے ساتھ تجارت میں مصروف رہی۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جب پاکستان دہشت گردوں کو تباہی پھیلانے کے لیے بھیج رہا تھا، تب اس وقت کی حکومت نے بھارت میں امن پر مبنی شاعرانہ اجتماعات منعقد کیے۔

وزیر اعظم نے زور دے کر کہا کہ ان کی حکومت نے پاکستان کی ایم ایف این کی حیثیت کو منسوخ کرکے، ویزے روک کر اور اٹاری واگہ بارڈر کو بند کرکے دہشت گردی اور غلط امیدختم کیا ۔  انہوں نے سندھ طاس معاہدے کو ایک اہم مثال قرار دیتے ہوئے بھارت کے قومی مفادات کو بار بار داؤ پر لگانے پر اپوزیشن کو مزید تنقید کا نشانہ بنایا۔  انہوں نے کہا کہ اس معاہدے پر اس وقت کے وزیر اعظم نے عمل درآمد کیا تھا، جس میں بھارت سے بہنے والے دریا شامل تھے-یہ وہ دریا تھے جو طویل عرصے سے بھارت کی ثقافتی اور روحانی میراث کا حصہ رہے ہیں۔

جناب مودی نے کہا کہ سندھ اور جھیلم جیسے دریا، جو کبھی بھارت کی شناخت کے مترادف تھے، بھارت کے اپنے دریا اور پانی ہونے کے باوجود ثالثی کے لیے عالمی بینک کے حوالے کیے گئے تھے۔  انہوں نے اس اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے بھارت کی عزت نفس اور ثقافتی اقدار کے ساتھ دھوکہ قرار دیا۔

بھارت کے پانی کے حقوق اور ترقی کو خطرے میں ڈالنے والے تاریخی سفارتی فیصلوں کی مذمت کرتے ہوئے، خاص طور پر سندھ طاس معاہدے کے تحت، وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس وقت کے وزیر اعظم نے بھارت سے بہنے والے دریاؤں سے پاکستان کو 80 فیصد پانی مختص کرنے پر اتفاق کیا تھا، جس میں بھارت جیسے وسیع ملک کے لئے صرف 20 فیصدحصہ رہ گیا تھا۔  انہوں نے اس انتظام کے پیچھے استدلال پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے دانشمندی، سفارت کاری اور قومی مفاد کی ناکامی قرار دیا۔

جناب مودی نے کہا کہ بھارتی سرزمین سے بہنے والے دریا شہریوں ، خاص طور پر پنجاب اور جموں و کشمیر کے کسانوں کے ہیں ۔  انہوں نے کہا کہ اس وقت کی حکومت کے معاہدے نے ملک کے ایک بڑے حصے کو پانی کی پریشانی دوچار کر دیا اور ریاستی سطح پر پانی کے اندرونی تنازعات پیدا کردیے، جبکہ پاکستان نے فوائد کا استحصال کیا۔

وزیر اعظم نے اس بات پر زور دیا کہ ان دریاؤں کے ساتھ بھارت کے ثقافتی اور تہذیبی تعلق کو نظر انداز کیا گیااور سب سے زیادہ متاثر لوگوں-یعنی بھارت کے کسانوں-کو ان کی جائز رسائی سے محروم رکھا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی تو مغربی دریاؤں پر متعدد بڑے آبی منصوبے تیار کیے جا سکتے تھے۔  پنجاب، ہریانہ، راجستھان اور دہلی کے کسانوں کے پاس کافی پانی ہوتا اور پینے کے پانی کی قلت نہ ہوتی۔  مزید برآں، بھارت صنعتی نظاموں کے ذریعے بجلی پیدا کرتا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت کی حکومت نے پاکستان کو نہروں کی تعمیر کے لیے کروڑوں روپے بھی فراہم کیے، جس سے بھارت کے مفادات کو مزید نقصان پہنچا۔  جناب مودی نے بتایا کہ حکومت نے اب قومی مفاد کے پیش نظر سندھ آبی معاہدے کو معطل کر دیا ہے۔  وزیر اعظم نے کہا ، ’’بھارت نے فیصلہ کیا ہے کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہے گا ‘‘۔

اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ 2014 سے پہلے، ملک مسلسل عدم تحفظ کے سائے میں رہتا تھا، جناب مودی نے یاد کیا کہ کس طرح عوامی مقامات-ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، ہوائی اڈے ، مندروں پر اکثر اعلانات-سے لوگوں کو بموں کے خوف کی وجہ سے غیر معلوم اشیاء سے بچنے کے لیے خبردار کیاگیا۔ انہوں نے اسے ملک بھر میں خوف کا ماحول قرار دیا ۔  انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس وقت کی حکومت کے تحت کمزور حکمرانی بے شمار شہری ہلاکتوں کا باعث بنی۔انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے شہریوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔  جناب مودی نے اس بات کی تصدیق کی کہ دہشت گردی کو روکا جا سکتا تھا۔ انہوں نے پچھلے 11 سال میں ہونے والی پیش رفت کو ثبوت کے طور پر پیش کیا، جس سےدہشت گردی کے واقعات میں زبردست کمی ظاہر ہوتی ہے اور یہ وہی صورتحال تھی جس نے  2004 اور 2014 کے درمیان ملک کو نقصان پہنچایا تھا۔

وزیر اعظم نے سوال کیا کہ اگر واقعی ممکن تھا تو پچھلی انتظامیہ نے دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے موثر اقدامات کیوں نہیں کیے۔  انہوں نے الزام لگایا کہ ان حکومتوں نے دہشت گردی کو اپنی خوشنودی کی سیاست اور ووٹ بینک کے تحفظات کی وجہ سے پھلنے پھولنے دیا۔

جناب نریندر مودی نے یاد دلایا  کہ 2001میں جب  ملک کی پارلیمنٹ  پر حملہ ہوا تھا، تب اپوزیشن  کے ایک سینئر  لیڈر نے افضل گرو کو  ’’شک کا فائدہ‘‘ دینے کی بات  کہی تھی ۔  انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ دہشت گرد اجمل قصاب کی گرفتاری اوراس کی پاکستانی قومیت کی عالمی سطح پر پہچان کے باوجود کس طرح  26/11 کے ممبئی حملوں کو ’’زعفرانی دہشت گردی‘‘ کے بیانیے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔

وزیر اعظم نے اس بات کا حوالہ دیا کہ اس وقت کی حکمراں پارٹی کے ایک رہنما نے امریکہ کے ایک اعلٰی سفارت کار کو یہ بھی بتایا کہ ہندو گروہوں نے لشکر طیبہ سے زیادہ خطرہ پیدا کیا ہےاور اسے بیرون ملک اپنے بیانیے کی تعمیر کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔

انہوں نے جموں و کشمیر میں بھارتی آئین کے مکمل نفاذ کو روکنے کے لیے حزب اختلاف کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کو قومی سلامتی سے مسلسل سمجھوتہ کرنے والی خوشنودی کی سیاست کی وجہ سے اس خطے میں داخل نافذ ہونے سےروک دیا گیا تھا۔

جناب مودی نے ایک اتحاد کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھلے ہی سیاسی اختلافات ہوں، لیکن قومی مفاد میں مقصد کا اتحاد برقرار رہنا چاہیے۔  پہلگام سانحے کا حوالہ دیتے ہوئے، وزیر اعظم نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح اس نے قوم کو شدید زخمی کیا اور آپریشن سندور کے ذریعے بھارت کے فیصلہ کن ردعمل کو تحریک دی، جو ہمت، خود انحصاری اور قومی عزم کی علامت ہے۔

انہوں نے بھارتی وفود کی تعریف کی جنہوں نے یقین اور وضاحت کے ساتھ عالمی سطح پر قوم کی نمائندگی کی۔  انہوں نے کہا کہ ان کی وکالت میں ’سندور کے جذبے‘ کی بازگشت ہے جو اب اپنی سرحدوں کے اندر اور اس سے باہر بھارت کے موقف کی رہنمائی کرتی ہے۔

مبینہ طور پر بھارت کے واضح عالمی پیغام کی مخالفت کرنے والے کچھ اپوزیشن رہنماؤں کے رد عمل پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے، وزیر اعظم نے ان لوگوں کو خاموش کیے جانے کی کوششوں پر افسوس کا اظہار کیا جو ایوان میں ملک کے دفاع میں بولتے ہیں۔ اس ذہنیت کے سلسلے میں، انہوں نے ایک شاعرانہ فقرہ کہا جس میں جرأت مندانہ اور بامقصد گفتگو کا مطالبہ کیا گیا۔

جناب مودی نے اپوزیشن پر زور دیا کہ وہ سیاسی دباؤ کو ترک کرے جو مبینہ طور پر پاکستان کے تئیں نرمی کا باعث بنے اور قومی فتح کے لمحات کو سیاسی تضحیک میں تبدیل کرنے کے خلاف خبردار کیا۔

وزیر اعظم نے بالکل واضح طور پر کہا: بھارت دہشت گردی کو اس کی جڑوں سے ختم کرے گا۔  آپریشن سندور جاری ہے، جو پاکستان کے لیے براہ راست انتباہ ہے-جب تک سرحد پار دہشت گردی بند نہیں ہو جاتی، بھارت اپنی جوابی کارروائیاں جاری رکھے گا۔

جناب مودی نے بھارت کے مستقبل کی حفاظت اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے تئیں پختہ عزم کے اظہار کے ساتھ اپنی تقریر کا اختتام کیااور لوگوں کے جذبات کی عکاسی کرنے والے بامعنی مباحثے میں شامل ہونے کے لیے ایوان کا شکریہ ادا کیا۔

 

**********

ش ح-ک ح-ج ا

UN-NO-3578


(Release ID: 2150083)