وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

کٹرا، جموں و کشمیر میں مختلف ترقیاتی پروجیکٹوں کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 06 JUN 2025 4:14PM by PIB Delhi

اوم،ماتا ویشنودیوی دے چرنے چے متھاٹیکنا جے ماتا دی!

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا جی، وزیراعلیٰ عمر عبداللہ جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی اشونی ویشنو جی، جتیندر سنگھ، وی سومنا جی، ڈپٹی سی ایم سریندر کمار جی، جموں و کشمیر اسمبلی میں حزب اختلاف کے لیڈر سنیل جی، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی جگَل کشور جی، دیگر عوامی نمائندگان اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو!یہ ویر زوراور سنگھ جی کی یہ سرزمین ہے، میں اس مقدس زمین کو سلام کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج کا یہ پروگرام بھارت کے اتحاد اور بھارت کی قوت ارادی کا ایک عظیم الشان جشن ہے۔ ماتا ویشنو دیوی کے آشیرواد سے آج وادیٔ کشمیر بھارت کے ریلوے نیٹ ورک سے جُڑ گئی ہے۔ ماں بھارتی کاذکر کرتے ہوئے ہم ہمیشہ عقیدت سے کہتے آئے ہیں۔کشمیر سے کنیاکماری۔ یہ اب ریلوے نیٹ ورک کے لیے بھی ایک حقیقت بن چکا ہے۔ ادھمپور، سری نگر، بارہ مولا،یہ ریلوے لائن پروجیکٹ صرف نام نہیں، بلکہ جموں و کشمیر کی نئی طاقت کی پہچان ہےاور بھارت کی نئی صلاحیت کا اعلان ہے۔

تھوڑی دیر پہلے مجھے چناب پل اور انجی پل کا افتتاح کرنے کا موقع ملا ہے۔ آج ہی دو نئی وندے بھارت ٹرینیں جموں و کشمیر کو ملی ہیں۔ یہاں جموں میں ایک نئے میڈیکل کالج کا سنگِ بنیاد رکھا گیا ہے۔ 46 ہزار کروڑ روپے کے ترقیاتی پروجیکٹ جموں و کشمیر کی ترقی کو نئی رفتار دیں گے۔ میں آپ سب کو ترقی کے اس نئے دور کی بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

جموں و کشمیر کی کئی نسلیں ریلوے کنیکٹیویٹی کا خواب دیکھتے دیکھتے گزر گئیں۔ میں کل وزیراعلیٰ عمر عبداللہ جی کا ایک بیان دیکھ رہا تھا اور ابھی اُنہوں نے اپنی تقریر میں بھی بتایا کہ جب وہ ساتویں یا آٹھویں جماعت میں تھے، تب سے اس پروجیکٹ کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہے تھے۔ آج جموں و کشمیر کے لاکھوں لوگوں کا خواب پورا ہوا ہےاور یہ بھی سچ ہے کہ جتنے بھی اچھے کام ہیں، وہ میرے لیے ہی باقی رہے ہیں۔

ساتھیو،

یہ ہماری حکومت کی خوش نصیبی ہے کہ اس پروجیکٹ کو ہمارے دورِ حکومت میں رفتار ملی اور ہم نے اسے مکمل کر کے دکھایا۔ درمیان میں کووڈ کے دور میں کئی مشکلات آئیں، لیکن ہم ڈٹے رہے۔

ساتھیو،

راستے میں آنے جانے کی دشواریاں، موسم کی سختیاں، پہاڑوں سے مسلسل گرتے پتھر، اس پروجیکٹ کو مکمل کرنا واقعی مشکل اور چیلنج بھرا تھا۔ لیکن ہماری حکومت نے چیلنج کو چیلنج دینے کا راستہ چُنا ہے۔ آج جموں و کشمیر میں بننے والے بے شمار آل ویدرانفرااسٹرکچر پروجیکٹ اس کی مثال ہیں۔ کچھ ماہ پہلے ہی سونمرگ ٹنل کا آغاز ہوا ہے اور ابھی کچھ دیر پہلے ہی میں چناب اور انجی پل سے ہو کر آپ کے درمیان آیا ہوں۔ان پلوں پر چلتے ہوئے میں نے بھارت کے بلند ارادوں کو محسوس کیا ہے، ہمارے انجینیئروں اور مزدوروں کے ہنر اور حوصلے کو جیا ہے۔ چناب پل دنیا کا سب سے اونچا ریلوے آرچ پل ہے۔ لوگ فرانس میں پیرس جا کر ایفیل ٹاور دیکھتے ہیں، لیکن یہ پل ایفیل ٹاور سے بھی بہت اونچا ہے۔ اب لوگ چناب پل کے ذریعے کشمیر دیکھنے آئیں گے ہی، بلکہ یہ پل خود بھی ایک دلکش سیاحتی مقام بن جائے گا۔ سب لوگ سیلفی پوائنٹ پر جا کر سیلفی لیں گے۔ہمارا انجی پل بھی انجینیئرنگ کا ایک شاندار نمونہ ہے۔ یہ بھارت کا پہلا کیبل-سپورٹڈ ریلوے پل ہے۔ یہ دونوں پل صرف اینٹ، سیمنٹ، اسٹیل اور لوہے کے ڈھانچے نہیں ہیں، بلکہ یہ پیر پنجال کی دشوار گزار پہاڑیوں پر کھڑے بھارت کی طاقت کے جیتے جاگتے مظاہر ہیں۔ یہ بھارت کے روشن مستقبل کی شیرکی دہاڑ ہیں۔ یہ دکھاتے ہیں کہ جتنا بڑا ترقی یافتہ بھارت کا خواب ہے، اتنا ہی اونچا ہمارا حوصلہ، ہماری صلاحیت ہے اور سب سے بڑی بات یہ کہ نیک ارادہ اور ناقابلِ تسخیر محنت ہمارے ساتھ ہے۔

ساتھیو،

چاہے چناب پل ہو یا انجی پل، یہ جموں اور کشمیر، دونوں علاقوں کی خوشحالی کا ذریعہ بنیں گے۔ اس سے نہ صرف سیاحت کو فروغ ملے گا بلکہ معیشت کے دوسرے شعبوں کو بھی فائدہ ہوگا۔ جموں و کشمیر کی ریلوے کنیکٹیویٹی دونوں علاقوں کے تاجروں کے لیے نئے مواقع پیدا کرے گی۔ یہاں کی صنعتوں کو رفتار ملے گی۔ اب کشمیر کے سیب کم لاگت پر ملک کی بڑی منڈیوں تک پہنچ سکیں گے اور وہ بھی وقت پر۔ چاہے وہ خشک میوے ہوں یا پشمینہ شال، یہاں کی دستکاری کی اشیا اب ملک کے کسی بھی کونے تک آسانی سے پہنچ سکے گی۔ اس سے جموں و کشمیر کے لوگوں کے لیے ملک کے دوسرے حصوں میں آنا جانا بھی بہت آسان ہو جائے گا۔

ساتھیو،

میں نے یہاں سنگلدان کے ایک طالبعلم کا ایک اخبار میں تبصرہ پڑھا۔ اس طالبعلم نے کہا کہ اُس کے گاؤں میں صرف وہی لوگ ٹرین دیکھ پائے تھے، جو گاؤں سے باہر گئے تھے۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں نے صرف موبائل پر ٹرین کی ویڈیوز دیکھی تھیں۔ اُنہیں اب تک یقین نہیں ہو رہا کہ حقیقی ٹرین ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرے گی۔میں نے یہ بھی پڑھا کہ بہت سے لوگ اب ٹرینوں کے آنے جانے کے اوقات یاد کر رہے ہیں۔ ایک بیٹی نے بڑی پیاری بات کہی۔ اُس نے کہاکہ اب موسم یہ طے نہیں کرے گا کہ راستے کھلے رہیں گے یا بند ہوں گے، اب یہ نئی ٹرین سروس ہر موسم میں لوگوں کی مدد کرتی رہے گی۔

ساتھیو،

جموں و کشمیر، ماں بھارتی کا تاج ہے۔ اس تاج میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت نگینے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ مختلف نگینے جموں و کشمیر کی طاقت اور شان ہیں۔ یہاں کی قدیم ثقافت، یہاں کے اقدار، روحانی بیداری، قدرتی خوبصورتی، یہاں کی جڑی بوٹیوں کی دنیا، پھلوں اور پھولوں کی وسعت، اور یہاں کے نوجوانوں میں، آپ لوگوں میں جو صلاحیت ہے، وہ اس تاج کے نایاب ہیروں کی طرح چمکتی ہے۔

ساتھیو،

آپ بخوبی جانتے ہیں کہ میں دہائیوں سے جموں و کشمیر آتا جاتا رہا ہوں اور مجھے اندرونی علاقوں میں جانے اور وہاں وقت گزارنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے یہاں کی قابلیت اور امکانات کو مسلسل محسوس کیا ہے، قریب سے دیکھا ہے۔ اسی لیے میں پوری لگن، عقیدت اور خدمت کے جذبے کے ساتھ جموں و کشمیر کی ترقی کے لیے کام کر رہا ہوں۔

ساتھیو،

جموں و کشمیر، بھارت کی تعلیم اور ثقافت کا فخر رہا ہے۔ آج بھارت، دنیا کے بڑے نالج حبز میں سے ایک بن رہا ہے اور جموں و کشمیر بھی اس میں اپنی شراکت مضبوطی سے نبھا رہا ہے اور مستقبل میں یہ کردار اور بڑھے گا۔ یہاں آئی آئی ٹی، آئی آئی ایم، ایمس اوراین آئی ٹی جیسے ادارے ہیں۔ جموں اور سری نگر میں سینٹرل یونیورسٹیاں ہیں۔ جموں و کشمیر میں ریسرچ ایکوسسٹم کا ماحول بھی مسلسل فروغ پا رہا ہے۔

ساتھیو،

یہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ دواؤں کے شعبے میں بھی بے مثال کام ہو رہے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں میں یہاں دو ریاستی سطح کے کینسر انسٹی ٹیوٹ قائم کیے گئے ہیں۔ پچھلے پانچ برسوں میں سات نئے میڈیکل کالجز شروع کئے گئے ہیں۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ جب کسی علاقے میں میڈیکل کالج کھلتا ہے تو نہ صرف مریضوں کو فائدہ ہوتا ہے بلکہ اُس علاقے کے نوجوانوں کو بھی روزگار اور تعلیم کے مواقع ملتے ہیں۔جموں و کشمیر میں ایم بی بی ایس کی سیٹوں کی تعداد 500 سے بڑھ کر 1300 ہو چکی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ اب ضلع ریاسی کو بھی ایک نیا میڈیکل کالج ملنے جا رہا ہے۔شری ماتا ویشنو دیوی انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل ایکسیلنس،یہ صرف ایک جدید اسپتال نہیں ہے، بلکہ ہماری خیرات اور خدمت کی ثقافت کی ایک شاندار مثال بھی ہے۔ اس میڈیکل کالج کی تعمیر میں جو رقم صرف ہوئی ہے، اُس کے لیے بھارت کے کونے کونے سے ماتا ویشنو دیوی کے دربار میں آنے والے عقیدت مندوں نے دان دیا ہے۔میں شری ماتا ویشنو دیوی شرائن بورڈ کو اور اس کے صدر منوج جی کو اس مقدس خدمت کے لیے دل کی گہرائی سے نیک خواہشات اور مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اس اسپتال کی گنجائش بھی 300 بستروں سے بڑھا کر 500 بستروں تک کی جا رہی ہے۔ کٹرا میں ماتا ویشنو دیوی کے درشن کے لیے آنے والے عقیدت مندوں کو اس سے بہت سہولت ملے گی۔

ساتھیو،

مرکز میں بی جے پی-این ڈی اے کی حکومت کو اب 11 سال ہورہے ہیں۔ یہ 11 سال غریبوں کی فلاح و بہبود کے نام رہے ہیں۔پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت 4 کروڑ غریبوں کا پکے گھر کا خواب پورا ہوا ہے۔اُججولا یوجنا سے 10 کروڑ گھروں میں چولہے کے دھوئیں کا خاتمہ ہوا ہے، ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی صحت کی حفاظت ہوئی ہے۔آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت 50 کروڑ غریبوں کو 5 لاکھ روپے تک کا مفت علاج فراہم کیا گیا ہے۔پردھان منتری غریب کلیان اَنّ یوجنا سے ہر تھالی میں بھر پیٹ اناج یقینی بنایا گیا ہے۔جن دھن یوجنا کے ذریعے پہلی بار 50 کروڑ سے زیادہ غریبوں کو بینکنگ نظام میں شامل کیا گیا ہے۔سوبھاگیہ یوجنا سے اندھیرے میں جینے والے ڈھائی کروڑ گھروں میں بجلی کی روشنی پہنچی ہے۔سوچھ بھارت مشن کے تحت 12 کروڑ بیت الخلا بنائے گئے ہیں، جس سے کھلے میں رفع حاجت کی مجبوری سے نجات ملی ہے۔جل جیون مشن کے تحت 12 کروڑ گھروں میں نل سے پانی پہنچنے لگا ہے، جس سے خواتین کی زندگی آسان ہوئی ہے۔پی ایم کسان سمان ندھی سے 10 کروڑ چھوٹے کسانوں کو براہ راست مالی امداد دی گئی ہے۔

ساتھیو،

حکومت کی ان بے شمار کوششوں سے گزشتہ 11 برسوں میں 25 کروڑ سے زائد غریبوں نے غربت پر فتح حاصل کی ہے۔ ہمارے انہی غریب بھائی بہنوں نے غربت کے خلاف جنگ لڑی اور25کروڑغریب، غربت کو شکست دے کرفتح حاصل کرکے غریبی سے باہر نکلے ہیں، اب وہ نئے متوسط طبقے کا حصہ بن چکے ہیں۔جو لوگ اپنے آپ کو سماجی نظام کے ماہر مانتے ہیں،بڑے ایکسپرٹ مانتے ہیں، جو صرف پچھلے اگلے کی سیاست میں الجھے رہتے ہیں، جو دلتوں کے نام پر سیاسی روٹیاں سینکتے رہے ہیں، وہ ذرا ان اسکیموں پر نظر ڈالیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے۔سوچیے، یہ سہولیات کن لوگوں کو ملی ہیں؟وہ کون لوگ تھے جو آزادی کے 7-7دہائیوں تک ان بنیادی سہولیات سے محروم تھے۔یہ میرے دلت بھائی بہن ہیں،یہ میرے آدیواسی (قبائلی) بھائی بہن ہیں،یہ میرے پچھڑے طبقے کے لوگ ہیں،یہ پہاڑوں پر، جنگلوں میں، جھونپڑیوں میں زندگی گزارنے والے لوگ ہیں،یہ وہ خاندان ہیں جن کے لیے مودی نے اپنے 11 سال کھپا دیے ہیں۔مرکزی حکومت کی کوشش ہے کہ غریبوں اور نئے متوسط طبقے کو زیادہ سے زیادہ طاقت دی جائے۔چاہے وہ ون رینک ون پنشن ہو،یا 12 لاکھ روپے تک کی تنخواہ پر ٹیکس میں چھوٹ،گھر خریدنے کے لیے مالی مدد ہو،یا سستی ہوائی سفر کی سہولت،حکومت ہر طرح سے غریبوں اور متوسط طبقے کے ساتھ کندھے سے کندھاملاکر چل رہی ہے۔

ساتھیو،

غریبوں کو غربت سے نجات دلانے کے لیے ان کی مدد کرنا، لیکن ایمانداری سے جینے والے، ملک کے لئے وقتاًفوقتاً ٹیکس دینے والے،متوسط طبقے کی طاقت کو بڑھانے کے لیے، آزادی کے بعد پہلی بار اتنا کام ہوا ہے، جو ہم نے کر کے دکھایا ہے۔

ساتھیو،

ہم اپنے  یہاں نوجوانوں کے لیے مسلسل روزگار کے نئے مواقع پیدا کر رہے ہیں اور اس کا ایک اہم ذریعہ ہے، ٹورزم۔ٹورزم روزگار دیتا ہے، ٹورزم لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔لیکن بدقسمتی سے ہمارا پڑوسی ملک — جو انسانیت کا دشمن ہے، میل جول کا مخالف ہے، ٹورزم کا دشمن ہے — وہ صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ وہ غریب کی روزی روٹی کا بھی دشمن ہے۔22 اپریل کو پہلگام میں جو کچھ ہوا، وہ اسی سوچ کی ایک مثال ہے۔پاکستان نے پہلگام میں انسانیت اور کشمیریت — دونوں پر حملہ کیا۔اس کا ارادہ بھارت میں فسادات کرانے کا تھا، اس کا مقصد کشمیر کے محنتی لوگوں کی کمائی کو روکنا تھا۔اسی لیے پاکستان نے سیاحوں پر حملہ کیا۔وہ ٹورزم، جو پچھلے 4–5 برسوں میں مسلسل ترقی کر رہا تھا، ہر سال یہاں ریکارڈ تعداد میں سیاح آ رہے تھے، جس ٹورزم سے جموں و کشمیر کے غریبوں کے گھر چلتے ہیں، اسے پاکستان نے نشانہ بنایا۔کوئی گھوڑا چلانے والا ہو،کوئی پورٹر،کوئی گائیڈ،کوئی گیسٹ ہاؤس چلانے والا،کوئی دکان یا ڈھابہ چلانے والا —پاکستان کی سازش ان سب کو تباہ کرنے کی تھیاور دہشت گردوں کو للکارنے والا نوجوان عادل — وہ بھی تو وہاں محنت مزدوری کرنے گیا تھا، تاکہ اپنے گھر والوں کی دیکھ بھال کر سکے، اسلئے محنت کررہا تھا،لیکن دہشت گردوں نے اس عادل کو بھی ماردیا۔

ساتھیو،

پاکستان کی اس سازش کے خلاف جموں و کشمیر کے عوام جس طرح سے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، جموں و کشمیر کے لوگوں نے اس بار جس طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، جموں و کشمیر کے لوگوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا کی دہشت گردانہ ذہنیت کو ایک مضبوط پیغام دیا ہے۔ جموں و کشمیر کے نوجوانوں نے اب دہشت گردی کا منہ توڑ جواب دینے کا ذہن بنالیا ہے۔ یہ وہ دہشت گردی ہے، جس نے وادی میں اسکولوں کو جلایا، اور صرف اسکولوں یا عمارتوں کو ہی نہیں، اس نے دو نسلوں کا مستقبل بھی جلا دیا۔ اسپتال تباہ ہو گئے۔ اس نے کئی نسلوں کو  برباد کر دیا ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے یہاں کے عوام  اپنی پسند کے نمائندوں کا انتخاب کرسکیں ، یہاں انتخابات  ہوسکیں  ، دہشت گردی کی وجہ سے  یہ بھی ایک بڑا چیلنج بن گیا تھا۔

ساتھیو،

برسوں تک دہشت گردی برداشت کرنے کے بعد جموں و کشمیر نے اتنی تباہی دیکھی کہ جموں و کشمیر کے لوگوں نے خواب دیکھنا چھوڑ دیئے ، دہشت گردی کو اپنا مقدر تسلیم کر لیا تھا۔ جموں و کشمیر کو اس صورت حال سے نکالنا ضروری تھا اور ہم نے یہ کرکے دکھایا ہے۔ آج جموں و کشمیر کے نوجوان نئے نئے خواب دیکھ رہے ہیں اور انہیں پورا بھی کر رہے ہیں۔ اب کشمیر کے نوجوان بازاروں، شاپنگ مالز، سنیما ہالوں کی رونق  کودیکھ کر خوش ہیں۔ یہاں کے لوگ جموں کشمیر کو فلم کی شوٹنگ کا ایک بڑا مرکز بنتے دیکھنا چاہتے ہیں، اس خطے کو کھیلوں کا مرکز بنتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے ماتا کھیر بھوانی کے میلے میں بھی یہی جذبہ دیکھا ہے۔ جس طرح سے ہزاروں لوگ مندر پہنچے ،اس سے نئے جموں کشمیر کی تصویر نظر آتی ہے۔ اب امرناتھ یاترا بھی 3 تاریخ سے شروع ہونے جا رہی ہے۔ ہم چاروں طرف عید کا جوش وخروش بھی دیکھ رہے ہیں۔ جموں کشمیر میں ترقی کا جو ماحول بنایا گیا تھا ، وہ پہلگام حملے سے متزلزل ہونے والا نہیں ہے۔ نریندر مودی کا، جموں کشمیر کے آپ سب لوگوں سے اور آپ سب سے وعدہ ہے کہ میں یہاں ترقی کو رکنے نہیں دوں گا، اگر یہاں کے نوجوانوں کے خوابوں کو پورا کرنے میں کوئی دشواری آتی ہے، تو سب سے پہلے مودی کو اس دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ساتھیو ،

آج 6 جون ہے، یاد کیجئے، ٹھیک ایک ماہ قبل، 6 مئی کی وہ رات، پاکستان کے دہشت گردوں پر عذاب نازل ہوا تھا۔ اب جب بھی پاکستان آپریشن سندور  کا نام سنے گا، تو  اسے اپنی شرمناک شکست یاد آئے گی۔ پاکستانی فوج اور دہشت گردوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ہندوستان ، پاکستان کے اندر سینکڑوں کلومیٹر اندر جا کر دہشت گردوں پر اس طرح حملہ کرے گا۔ دہشت کی وہ عمارتیں، جو انہوں نے برسوں کی محنت سے بنائی تھیں، چند منٹوں میں کھنڈر میں تبدیل ہو گئیں  اور یہ دیکھ کر پاکستان بہت بری طرح بوکھلا گیا تھا، اور اس نے اپنا غصہ جموں، پونچھ اور دیگر اضلاع کے لوگوں پر بھی نکالا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پاکستان نے یہاں کے گھر تباہ کیے، بچوں پر گولے برسائے، اسکول اور اسپتال تباہ کیے، مندروں، مساجد اور گرودواروں پر گولہ باری کی۔ آپ نے جس طرح پاکستان کے حملوں کا مقابلہ کیا، اسے ملک کے ہر شہری نے دیکھا ہے۔ اس لیے ملک کا ہر شہری پوری قوت کے ساتھ اُن اہل خانہ کے ساتھ کھڑا ہے۔

ساتھیو ،

 جو لوگ سرحد پار کی گولہ باری میں مارے گئے ہیں، چند روز قبل  ہی جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو تقرری  نامے سونپے گئے ہیں۔ گولہ باری سے متاثرہ 2 ہزار سے زائد خاندانوں کی  تکلیف بھی ہماری اپنی ہی تکلیف ہے۔ گولہ باری کے بعد ان خاندانوں کو اپنے گھروں کی مرمت کے لیے مالی مدد فراہم کی  گئی ہے۔ اب مرکزی حکومت نے اس مدد کو مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج کے پروگرام میں، میں آپ کو اس بارے میں بھی معلومات دینا چاہتا ہوں۔

ساتھیو،

جن گھروں کو کافی نقصان پہنچا ہے انہیں اب 2 لاکھ روپے اور جو مکانات جزوی طور پر تباہ ہوئے ہیں انہیں ایک لاکھ روپے الگ سے دیے جائیں گے، یہ رقم اضافی  ہوگی ، یعنی اب یہ اضافی رقم انہیں پہلی بار مدد کے بعد پھر سے ملے گی۔

ساتھیو ،

ہماری حکومت سرحد پر رہنے والے لوگوں کو ملک کا پہلا محافظ سمجھتی ہے۔ پچھلی دہائی میں حکومت نے سرحدی اضلاع میں ترقی اور سلامتی کے لیے بے مثال کام کیے ہیں، اس دوران تقریباً دس ہزار نئے بنکر بنائے گئے ہیں۔ آپریشن سندور کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں ان بنکروں نے لوگوں کی جانیں بچانے میں بہت مدد کی ہے۔ مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے بے حد خوشی ہو رہی ہے کہ جموں و کشمیر ڈویژن کے لیے دو سرحدی بٹالین تشکیل دی گئی ہیں۔ دو خواتین بٹالین کی تشکیل کا کام بھی تقریبا مکمل کر لیا گیا ہے۔

ساتھیو ،

ہماری بین الاقوامی سرحد کے قریب ، جو بہت دشوار گزار  علاقے ہیں، وہاں بھی سینکڑوں کروڑوں روپے خرچ کر کے نیا بنیادی ڈھانچہ بنایا جارہا ہے ۔ کٹھوعہ سے جموں ہائی وے کو چھ لین والا ایکسپریس وے بنایا جا رہا ہے، اخنور سے  پنچھ ہائی وے کو بھی چوڑا کیا جا رہا ہے۔  وائبرنٹ ولیج پروگرام کے تحت سرحدی گاووں میں بھی ترقیاتی کاموں میں تیزی لائی جا رہی ہے۔ جموں و کشمیر کے 400 ایسے گاووں ، جن کی ہر موسم  میں کنکٹی وٹی نہیں تھی ،  انہیں 1800 کلومیٹر نئی سڑکیں بچھا کر جوڑا جا رہا ہے۔ اس پر بھی حکومت 4200 کروڑ سے زیادہ خرچ کرنے جا رہی ہے۔

ساتھیو ،

آج میں آپ سے جموں و کشمیر کے لوگوں خصوصاً یہاں کے نوجوانوں سے ایک خصوصی درخواست کرنے آیا ہوں اور جموں و کشمیر کی سرزمین سے میں ملک سے بھی ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ کس طرح آپریشن سندور نے آتم نر بھر  بھارت کی طاقت کو دکھایا ہے۔ آج دنیا ہندوستان کے دفاعی ماحولیاتی نظام پر بحث کر رہی ہے۔ اور اس کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے، ہماری افواج کا 'میک ان انڈیا' پر یقین۔ افواج نے جو کر دکھایا، اب وہی ہر ہندوستانی کو  دہرانا ہے ۔ اس سال کے بجٹ میں ہم نے مشن مینوفیکچرنگ کا اعلان کیا ہے۔ اس مشن کے تحت حکومت مینوفیکچرنگ کو نئی پرواز دینے کے لیے کام کر رہی ہے۔ میں جموں و کشمیر کے نوجوانوں سے کہنا چاہوں گا، آئیں، اس مشن کا حصہ بنیں۔ ملک کو آپ کی جدید سوچ کی ضرورت ہے، ملک کو آپ کی اختراع کی ضرورت ہے۔ آپ کے خیالات، آپ کی مہارتیں، ہندوستان کی سلامتی، ہندوستان کی معیشت کو نئی بلندیوں پر پہنچائیں گی۔ پچھلے دس برسوں میں ہندوستان ایک بڑا دفاعی برآمد کنندہ بن گیا ہے۔ اب ہمارا مقصد ہندوستان کا نام دنیا کے اعلیٰ دفاعی برآمد کنندگان میں شامل کرنا ہے۔ جتنی تیزی سے ہم اس مقصد کی طرف بڑھیں گے، اتنی ہی تیزی سے ہندوستان میں روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا ہوں گے۔

ساتھیو ،

ہمیں ایک اور عہد کرنا ہے کہ ہم سب سے پہلے وہ سامان خریدیں، جو ہندوستان میں بنتا ہے، جس میں ہمارے ہم وطنوں کا پسینہ شامل ہے ، اور یہی حب الوطنی، یہی قوم کی خدمت ہے۔ ہمیں سرحد پر اپنی افواج کی عزت میں اضافہ کرنا ہے اور مارکیٹ میں میڈ ان انڈیا کی شان کو بڑھانا ہے۔

ساتھیو ،

ایک سنہری اور روشن مستقبل جموں و کشمیر کا منتظر ہے۔ مرکزی حکومت اور یہاں کی حکومت ایک دوسرے کا ساتھ دے کر ایک ساتھ ترقیاتی کاموں میں مصروف ہے۔ امن اور خوشحالی کے جس راستے پر ہم آگے بڑھ رہے ہیں، ہمیں اسے مسلسل مضبوط کرنا ہے ۔  ماں  وشنو کے آشیرواد سے ترقی یافتہ ہندوستان، ترقی یافتہ جموں و کشمیر کا یہ عہد کامیابی تک پہنچے، اس خواہش کے ساتھ میں ایک بار پھر آپ سب کو ان بے شمار ترقیاتی پروجیکٹوں اور ایک کے بعد ایک بہت سے شاندار پرو جیکٹوں کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اپنی دونوں مٹھیاں بند کرکے پوری طاقت سے میرے ساتھ کہئے ۔

بھارت ماتا کی جئے! آواز ہندوستان کے کونے کونے میں گونجنی چاہیے۔

بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

بھارت ماتا کی جئے!

آپ کا بہت بہت شکریہ!

******

(ش ح ۔ ا گ ۔ ش م ۔ م ا  ۔  ق ر)

Urdu Release No-1527


(Release ID: 2134639)