وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

گاندھی نگر میں گجرات  کی شہری ترقی کی کہانی  کے 20 سال مکمل ہونے کی تقریبات کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 27 MAY 2025 4:48PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے!

کیوں یہ سب  ترنگے کے  نیچے ہو گئے ہیں؟

بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے!

اسٹیج پر موجود گجرات کے گورنر آچاریہ دیوورت جی، یہاں کے مقبول  وزیراعلی بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکز میں کابینہ کے میرے  ساتھی منوہر لال جی، سی آر پاٹل جی، گجرات سرکار کے  دیگر وزرا،  ممبران پارلیمنٹ،  اراکین اسمبلی اور گجرات کے کونے کونے سے یہاں  موجود میرے پیارے بھائیو اور بہنو،

میں دو دن سے گجرات میں ہوں۔ کل میں وڈودرا، داہود، بھج، احمد آباد اور آج صبح صبح گاندھی نگر گیا،  میں جہاں جہاں گیا ، ایسا لگ رہا ہے ،  حب الوطنی کا جواب گرجتا سندوریہ ساگر، سندوریہ ساگر کی گرج اور لہراتا ترنگا، لوگوں کے دلوں میں مادر وطن کے لیے بے پناہ محبت، ایک ایسا  نظارہ تھا اور یہ صرف گجرات میں نہیں،  ہندوستان کے  کونے کونے میں ہے۔ یہ ہر ہندوستانی کے دل میں ہے۔ جسم کتنا ہی تندرست کیوں نہ ہو، کانٹا چبھ جائے تو سارا جسم پریشان رہتا ہے۔ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کانٹے کونکال کر رہیں گے۔

ساتھیو،

سال 1947 میں جب مادر وطن ٹکڑے  ہوئے،  کٹنی چاہیے تو یہ  زنجیریں لیکن کاٹ دیئے گئے بازو۔ ملک کے تین ٹکڑے کردیئے گئے۔ اور اسی رات پہلا دہشت گردانہ حملہ کشمیر کی سرزمین پر ہوا۔  مادر وطن کا ایک حصہ  دہشت گردوں کے دم پر، مجاہدوں کے نام پر، پاکستان ن ہڑپ لیا۔ اگر اسی دن ان مجاہدوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہوتا اور سردار پٹیل کی خواہش تھی کہ پی او کے واپس نہیں آتا ہے، تب تک فوج رکنی نہیں چاہیے۔ لیکن سردار صاحب کی بات نہیں مانی گئی اور یہ مجاہدین جو لہو چکھ گئے تھے، وہ سلسلہ 75 سال سے چلاہے۔ پہلگام میں بھی اسی کی بگڑی ہوئی شکل تھی۔ 75 سال تک ہم برداشت کرتے رہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ جب جنگ کی نوبت آئی ، تینوں بار بھارت کی فوجی طاقت نے پاکستان کو دھول چٹا دی۔ اور پاکستان سمجھ گیا کہ جنگ میں وہ بھارت سے نہیں جیت سکتے ہیں اور اس لئے انہوں نے پراکسی وار شروع کی۔  فوجی تربیت ہوتی ہے ، فوجی تربیت یافتہ  دہشت گرد بھارت بھیجے جاتے ہیں اور معصوم – غیر مسلح افراد کوئی یاترا کرنے گیا ہے، کوئی بس میں جارہا ہے، کوئی ہوٹل میں بیٹھا ہے، کوئی ٹورسٹ بن کر جارہا ہے، جہاں موقع ملا وہ مارتے رہے، مارتے رہے، مارتے رہے اور ہم برداشت کرتے رہے۔ آپ مجھے بتایئے۔ کیا یہ اب برداشت کرنا چاہیے؟ کیا گولی کا جواب گولے سے دینا چاہئے؟ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا چاہیے۔ اس کانٹے کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیے؟

ساتھیو،

یہ ملک اس عظیم ثقافت اور روایت کو لے کر چلا ہے، وسودھیو کٹمبکم، یہ ہماری اقدار ہیں، یہ ہمارا کردار ہے، صدیوں سے ہم نے اسے جیا ہے۔ ہم پوری دنیا کو ایک خاندان مانتے ہیں، ہم اپنے پڑوسیوں کا بھی سکھ چاہتے ہیں۔ وہ بھی سکھ چین سے جئیں، ہمیں بھی سکھ چین سے جینے دیں۔ یہ ہمارا ہزاروں سال سے نقطہ نظر رہا ہے لیکن جب بار بار ہمارے صبر کو للکارا جائے، تو یہ ملک ویر سپوتوں کی سرزمین بھی ہے۔ آج تک جسے ہم پراکسی وار کہتے تھے، چھ مئی کے بعد جو منظر دیکھے گئے، اس کے بعد ہم اسے پراکسی وار کہنے کی غلطی نہیں کرسکتے ہیں۔ اور اس کی وجہ ہے، جب دہشت گردی کے 9 ٹھکانے طے کرکے 22 منٹ میں ساتھیو، 22 منٹ میں، ان کو تباہ کردیا گیا اور اس بار تو سب کیمرے کے سامنے کیا۔ تمام بندوبست رکھا۔ تاکہ ہمارے گھر میں کوئی ثبوت نہ مانگے۔ اب ہمیں ثبوت نہیں دینا پڑ رہا ہے۔ وہ اس طرف والا دے رہا ہے اور میں اس لئے کہتا ہوں ، اب یہ پراکسی وار نہیں کہہ سکتے اس کو، کیونکہ جو دہشت گردوں کے جنازے نکلے، چھ مئی کے بعد جن کا قتل ہوا، اس جنازے کو اسٹیٹ آنر دیا گیا۔ پاکستان نے ان کے کافن پر پاکستان کے جھڈے لگائے گئے۔ ان کی فوج نے ان کو سلوٹ دیا۔ یہ ثابت کرتا ہے کہ دہشت گردانہ سرگرمیاں، یہ پراکسی وار نہیں ہے۔ یہ آپ کی سوچی سمجھی جنگ کی حکمت عملی ہے۔  آپ وار ہی کررہے ہیں، تو اس کا جواب بھی ویسے ہی ملے گا۔ ہم اپنے کام میں لگے تھے، ترقی کی راہ پر چلے تھے۔ ہم سب کی خیر خواہی چاہتے ہیں اور مصیبت میں مدد بھی کرتے ہیں لیکن بدلے میں خون کی ندیاں بہتی ہیں۔ میں نئی نسل کو کہنا چاہتا ہوں، ملک کو کیسے برباد کیا گیا ہے؟   1960 میں جو انڈس واٹر ٹریٹی ہوئی ہے۔ اگر اس کی باریکی میں جائیں تو آپ حیران رہ جائیں گے، یہاں تک طے ہوا ہے اس میں کہ جو جموں کشمیر کی  دیگر ندیوں پر ڈیم بنے ہیں، ان ڈیم کا صفائی کا کام نہیں کیا جائے گا۔ ڈی سلٹنگ نہیں کی جائے گی۔ صفائی کے لئے جو نیچے کی طرف گیٹ ہیں، وہ نہیں کھولے جائیں گے۔ 60 برس تک یہ گیٹ نہیں کھولے گئے اور جس میں صد فیصد پانی بھرنا چاہیے تھا، آہستہ آہستہ اس کی صلاحیت  کم  ہوگئی، دو فیصد تین فیصد رہ گیا، کیا میرے ہم وطنوں کو پانی کا حق نہیں ہے کیا؟  ان کو ان کے حق کا پانی ملنا چاہیے کہ نہیں ملنا چاہئے کیا؟ اور ابھی تو میں نے کچھ زیادہ کیا ہی نہیں ہے۔ ابھی تو ہم نے کہا ہے کہ ہم نے اس کو  تعطل میں رکھا ہے۔ وہاں پسینہ چھوٹ رہا ہے اور ہم نے ڈیم تھوڑے کھول کے صفائی شروع کی، جو کوڑا کچرا تھا، وہ نکل رہا ہے۔ اس سے وہاں سیلاب آجاتا ہے۔

ساتھیو،

ہم کسی سے دشمنی نہیں چاہتے۔ ہم خوشگوار اور پرامن زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ ہم ترقی بھی اس لئے  کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم دنیا کی فلاح کے لیے کچھ کر سکیں۔ اور اس لیے ہم لاکھوں ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے یکدم عزم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ کل 26 مئی تھا، 2014 میں  26 مئی ، مجھے پہلی بار ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کا حلف اٹھانے کا موقع ملا۔ اور تب ہندوستان کی معیشت دنیا میں 11ویں نمبر پر تھی۔ ہم نے کورونا کے خلاف جنگ لڑی، ہم نے اپنے پڑوسیوں سے مشکلات کا سامنا کیا اور قدرتی آفات کا بھی سامنا کیا۔ اس سب کے باوجود اتنے کم وقت میں ہم 11ویں نمبر کی معیشت سے نمبر 4 کی معیشت تک پہنچ گئے ہیں کیونکہ یہی ہمارا مقصد ہے، ہم ترقی چاہتے ہیں، ہم ترقی چاہتے ہیں۔

اور ساتھیو،

میں گجرات کا مقروض ہوں۔ اس مٹی نے مجھے پالا ہے۔ میں نے یہاں سے جو تعلیم حاصل کی، جو تربیت لی، جو کچھ میں نے یہاں آپ سب کے درمیان رہ کر سیکھا، جو منتر آپ نے مجھے دیے، جو خواب آپ نے میرے اندر پالے، میں اسے اہل وطن کے لیے کام آئے، اس کے لئے  کوشش کر رہا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج گجرات حکومت نے شہری ترقی کے سال 2005 میں اس پروگرام کا انعقاد کیا رتھا۔ 20 سال منانے کے لیے اور مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ 20 سال کے شہری ترقی کے سفر کا  گن گان کرنے کا پروگرام نہیں بنایا۔ گجرات حکومت نے ان 20 سالوں میں جو کچھ حاصل کیا اور سیکھا اس کی بنیاد پر آنے والے  شہری ترقی  کونئی نسل کے لیے انہوں نے اس کا ایک روڈ میپ تیار کیا ہے اور آج وہ روڈ میپ گجرات کے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ اس کے لیے میں گجرات حکومت کو، وزیر اعلیٰ کو  اور ان کی ٹیم کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج ہم دنیا کی چوتھی معیشت بن چکے ہیں۔ کوئی بھی مطمئن ہو گا کہ اب ہم جاپان کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل گئے ہیں۔ اور مجھے یاد ہے کہ جب ہم 6 سے 5 بنے تھے تو ملک میں ایک الگ ہی امنگ تھی، بڑا جوش تھا خاص طور پر نوجوانوں میں  اس کی وجہ یہ تھی کہ ہم 250 برسوں تک جنہوں نے ہم پر حکمرانی کی تھی نہ، اس  برطانیہ کو پیچھے چھوڑ کر ہم  5  بنے۔ لیکن اب چار بننے کی خوشی اس سے زیادہ ہے کہ آپ تین کب بنیں گے ، اس کا دباؤ بڑھ جا رہا ہے۔ اب ملک انتظار کرنے کو تیار نہیں اور اگر کوئی ان سے انتظار کرنے کو کہے تو پیچھے سے نعرہ لگتا ہے کہ مودی ہے تو ممکن ہے۔

اور اس لئے ساتھیو،

ایک تو ہمارا ہدف ہے 2047 ، ہندوستان ترقی یافتہ ہونا چاہیے، کوئی سمجھوتہ نہیں… ہم آزادی کے 100 سال ایسے ہی نہیں گزاریں گے، ہم آزادی کے 100 سال اس طرح منائیں گے کہ دنیا میں ترقی یافتہ ہندوستان کا پرچم بلند ہوگا۔ ذرا سوچیں، 1920، 1925، 1930، 1940، 1942 ، اس دور میں خواہ بھگت سنگھ، سکھ دیو، راج گرو، نیتا جی سبھاش بابو ہوں ، ویر ساورکر ہوں، شیام جی کرشنا ورما ہوں، مہاتما گاندھی ہوں ،سردار پٹیل ہوں، ان سب نے جو جذبہ پیدا کیا تھا اور ملک کے عوام میں آزادی کا  جذبہ نہ ہوتا، آزادی کے لئے جینے مرنے کا عزم نہیں ہوتا، آزادی کے لیے برداشت کرنے کی قوت ارادی نہ ہوتی تو شاید 1947 میں ہمیں آزادی نہ ملتی۔ یہ اس لیے حاصل ہوئی کہ اس وقت کی 25-30 کروڑ کی آبادی قربانی کے لیے تیار تھی۔ اگر 25-30 کروڑ لوگ عزم کر لیں اور 20-25 سالوں میں انگریزوں کو یہاں سے بھگا دیں تو دوستو، اگلے 25 سالوں میں 140 کروڑ لوگ بھی ہندوستان کو ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔ اور یوں 2030 میں، جب گجرات 75 سال کا ہو جائے گا، میرا ماننا ہے کہ ہم نے ابھی سے 30 میں ہوں گے،  35… 35 میں جب گجرات 75 سال کا ہو جائے گا، ہمیں ابھی سے اگلے 10 برس کا پہلے ایک پلان بنانا چاہیے کہ جب گجرات 75 سال کا ہو جائے گا، تب گجرات یہاں تک پہنچے گا۔  صنعت میں یہاں ہوگا، زراعت میں یہاں ہوگا،  تعلیم میں یہاں ہوگا، کھیل کود  میں یہاں ہوگا، ہمیں ایک قرارداد لینی چاہئے اور جب گجرات 75 سال کا ہو جائے گا، اس کے ایک سال بعد جو اولمپکس ہونے والے ہیں، ملک چاہتا ہے کہ وہ اولمپکس ہندوستان میں ہو۔

اور اس لئے ساتھیو،

جس طرح سے  ہمارا  ایک ہدف ہے کہ جب گجرات کے  75 سال  ہوجائیں۔ اور آپ دیکھیں کہ جب گجرات بنا تو اس وقت کے اخبار نکالیں، اس وقت کے  زیر بحث موضوعات کو  نکالیں۔ کیا اس بات پر بحث ہوئی کہ مہاراشٹر سے الگ ہونے کے بعد گجرات کیا کرے گا؟ گجرات کے پاس کیا ہے؟ سمندر ہے، کھارا پانی ہے، ادھر صحرا ہے،  ادھر پاکستان ہے، کیا کرے گا؟ گجرات میں معدنیات نہیں، گجرات ترقی کیسے کرے گا؟ یہ سب تاجر ہیں...  ادھر سے مال لیتے ہیں ، ادھر فروخت کرتے ہیں ،بیچ میں دلالی سے  روزی  روٹی کماکر گزارا کرتے ہیں۔ کیا کریں گے اس پر بحث تھی۔ وہی گجرات جس کے پاس کبھی نمک کے سوا کچھ نہیں تھا، آج دنیا  میں ہیروں کے لیے گجرات مشہور ہے۔ کہاں نمک، کہاں ہیرے!  یہ سفر ہم نے  طے کیا ہے اور اس کے پیچھے ایک سوچی سمجھی کوشش ہے۔ منصوبہ بندی کے تحت اقدامات کئے گئے ہیں۔ ہمارے یہاں عام طور پر گورنمنٹ کے   ماڈل پر بات ہوتی ہے کہ  حکومت میں سائلوز، یہ سب سے بڑا بحران ہے۔ ایک محکمہ دوسرے سے بات نہیں کرتا۔ ایک میز پر بیٹھے لوگ دوسری میز پر بیٹھے لوگوں سے بات نہیں کرتے، ایسی بحثیں ہوتی رہتی ہیں۔ ہو سکتا ہے وہ کچھ باتوں میں درست ہو، لیکن کیا اس کا کوئی حل ہے؟ آج میں آپ کو اس کا پس منظر بتاتا ہوں، یہ شہری ترقی کا سال صرف ایک نہیں ہے، اس وقت ہم ہر سال کسی نہ کسی خاص کام کے لیے وقف کرتے تھے، جیسا کہ سال 2005 کو شہری ترقی کا سال سمجھا گیا۔ ایک سال ایسا تھا جب ہم نے اسے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وقف کیا، ایک سال ایسا تھا جب ہم نے اسے مکمل طور پر سیاحت کے لیے وقف کیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ باقی تمام کام روک بند کرتے تھے، لیکن  حکومت کے تمام محکموں کو اس سال اگر محکمہ جنگلات ہے تو اس کو بھی  شہری ترقی میں وہ  کیا  تعاون دے  سکتا ہے؟ محکمہ صحت ہے تو اربن ڈیولپمنٹ سال میں  وہ کیا حصہ ڈال سکتا ہے؟ پانی کے تحفظ کی وزارت ہے، تو وہ شہری ترقی میں کیسے حصہ ڈال سکتی ہے؟ محکمہ سیاحت ہے تو وہ شہری ترقی میں کیسے حصہ ڈال سکتا ہے؟ یعنی ایک طرح سے یہ سال پورے حکومتی نقطہ نظر سے منایا گیا اور آپ کو یاد ہوگا کہ جب ہم نے سیاحت کا سال منایا تو اس سے پہلے پوری ریاست میں کوئی گجرات میں سیاحت کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ خصوصی کوششیں کی گئیں، اسی وقت اشتہاری مہم چلائی گئی، کچھ دن تو گزارو گجرات میں،  ایک ایک چیز اس میں سے نکالی۔ اسی  میں سے رن اتسو نکلا، اسی میں سے اسٹیچو آف یونٹی بنا۔ اسی میں  سے آج سومناتھ کی ترقی ہو رہی ہے، گر کی ترقی ہو رہی ہے، امباجی کی ترقی ہو رہی ہے۔ ایڈونچر اسپورٹس آرہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ چیزیں یکے بعد دیگرے ترقی کرنے لگیں۔ بالکل اسی طرح جب شہری ترقی کا سال منایا گیا۔

اور مجھے یاد ہے، میں سیاست میں نیا نیا آیا تھا۔ اور کچھ عرصے بعد ہم نے پہلے احمد آباد میونسپل کارپوریشن جیت لی، تب تک ہمارے پاس ایک راجکوٹ میونسپلٹی  ہوا کرتی تھی، تب وہ کارپوریشن نہیں تھی۔ اور ہمارے ایک پرہلاد بھائی پٹیل تھے، وہ پارٹی کے بہت سینئر لیڈر تھے۔ وہ بہت جدت پسند تھے، نئی نئی  چیزیں سوچنا ان کی فطرت تھی۔ میں  نیا سیاست میں آیا تھا، تو پرہلاد بھائی ایک دن مجھ سے ملنے آئے۔ انہوں نے کہا، یہ ہمیں ذرا، اس وقت چمن بھائی پٹیل کی حکومت تھی اور ہم  چمن بھائی اور بی جے پی کے لوگ چھوٹے  پاٹنر  تھے۔ اس لیے ہمیں  چمن بھائی سے ملن کر سمجھنا چاہیے کہ یہ جو لال بس احمد آباد کی ہے، اس کو ذرا  احمد آباد کے باہر جانے دیا جائے تو انہوں نے مجھے سمجھایا کہ میں اور پرہلاد بھائی چمن بھائی سے ملنے گئے ہم نے بہت غور و خوض کیا، ہم نے کہا  یہ سوچنے جیسا ہے کہ لال بس احمد آباد کے باہر گورا ، گمّا، لامبا، ادھر نرورا کی طرف آگے دہیگام کی  طرف، ادھر کلول کی طرف آگے کو جانے دینا چاہیے۔ٹرانسپورٹیشن کو وسعت دی جائے، یہ حکومت کے سکریٹریوں کی فطرت ہے، یہاں بیٹے ہیں سارے، اس وقت والے تو  ریٹائر ہو گئے ۔ ایک بار  ایک کانگریسی لیڈر سے پوچھا گیاتھا کہ  ملک کے مسائل کو حل کرنا ہے تو دو جملوں میں بتایئے۔  کانگریس کے ایک   لیڈر نے جواب دیا تھا،  وہ مجھے آج بھی اچھا لگتا ہے۔ یہ کوئی 40 سال پہلے کی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں دو چیزیں ہونی چاہئیں۔ ایک سیاست داں نہ  کہنا سیکھیں اور بیوروکریٹ ہاں کہنا سیکھیں!  تو اس سے سارے مسائل  حل ہو جائیں گے۔ سیاستدان کسی کو نہ کہتا اور بیوروکریٹس کسی کو ہاں نہیں کہتا۔ تو اس وقت جب ہم چمن بھائی کے پاس گئے تو انہوں نے سب سے پوچھا، ہم پھر گئے، تیسری بار گئے، نہیں نہیں  ایس ٹی کو نقصان  ہو جائےگا، ایس ٹی کی کمائی بند ہو جائے گی، ایس ٹی بند پڑ جائے گی، ایس ٹی خسارے میں چل رہی ہے۔ لا بس وہاں نہیں بھیج سکتے ہیں، یہ  بہت دن چلا۔  تین چار مہینوں تک  ہمارا غور و خوض ہوا۔ خیر ہمارا دباؤ اتنا تھا کہ آخر کار لال بس کو لامبا، گورا، گما ایسی توسیع ملی، اس کا نتیجہ ہے کہ  احمد آباد  کی توسیع تیزی سے ادھر سارن کی طرف  ہوئی،  ادھر دہیگام کی طرف ہوئی، ادھر کلول کی طرف ہوئی،  ادھر احمد آباد کی طرف ہوئی ، تو احمد آباد کی طرف  جو پریشر ایک دم تیزی سے بڑھنے والا تھا، اس میں تیزی آئی، بچ گئے، چھوٹی سی بات تھی، تب  جاکر۔ میں تواس وقت سیاست میں  نیا تھا۔ میں کوئی زیادہ ان چیزوں کو میں جانتا بھی نہیں تھا۔  لیکن تب سمجھ میں آتا تھا کہ ہم  اس وقت فائدے سے اوپر اٹھ کر واقعی   میں ریاست کی اور ریاست کے لوگوں کی فلاح کےلئے ہمت کے ساتھ ، لمبی سوچ کے ساتھ چلیں گے تو بہت فائدہ ہوگا ۔ مجھے یاد ہے جب شہری ترقی کا سال منایا گیا تو پہلا کام  آیا وہ تجاوزات کو ہٹانا تھا۔ اب جب تجاوزات کو ہٹانے کی بات آتی ہے تو سب سے پہلی رکاوٹ  سیاسی شخص کی طرف سے پیدا ہوتی ہے، چاہے وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتا ہو، وہ وہاں آکر کھڑا ہو جاتا ہے کیونکہ اسے لگتا ہے کہ یہ میرے ووٹر ہیں اور تم توڑ رہے ہو۔   افسر لوگ بھی بہت چالاک  ہوتے ہیں۔ جب ان کو کہتے ہیں کہ بھائی سب توڑنا ہے ، تو پہلے جاکر وہ ہنومان جی کا مندر توڑتے ہیں تو ایسا طوفان برپا ہوجاتا ہے کہ کوئی بھی سیاست داں خوف زدہ ہوجاتا ہے، اس کو لگتا ہے کہ ہنومان کا مندر توڑ دیا تو ... ہم نے بڑی ہمت دکھائی، اس وقت ہمارے... (نام واضح نہیں) شہری ترقی کے وزیر تھے۔ اس کا نتیجہ یہ آیا کہ راستے چوڑے ہونے لگے تو جس کا دو فٹ ، چار فٹ کٹتا تھا، وہ چلاتا تھا، لیکن پورا شہر خوش ہوجاتا تھا۔ اس میں ایک صورت حال ایسی بنی جو بڑی دلچسپ ہے۔ اب میں نے تو 2005 کو شہری ترقی کا سال قرار دیا تھا۔ اس کے لیے کچھ 80-90 پوائنٹس  نکالےتھے،  بڑے دلچسپ پوائنٹ تھے۔ تو  پارٹی سے ایسی میری بات ہوئی تھی کہ  بھائی ایسا ایک اربن ڈیولپمنٹ ایئر ہوگا ،ذرا صفائی وغیرہ کے کاموں میں سب کو جوڑنا پڑے گا، لیکن جب یہ توڑنا شروع ہوا تو میری پارٹی کے لوگ آئے، یہ بڑا سیکریٹ بتا رہا ہوں میں، انہوں نے کہا صاحب یہ  2005 میں  تو اربن باڈی الیکشن ہیں، ہماری حالت   خراب ہوجائے گی۔ یہ سب تو چاروں  طرف  توڑ پھوڑ چل رہی ہے۔  میں نے کہا  یار بھائی یہ  تو  میرے ذہن میں نہیں رہا اور  سچ میں میرے ذہن میں وہ الیکشن تھا ہی نہیں۔ اب میں نے پروگرام بنا دیا، اب صاحب میرا بھی ایک مزاج ہے۔ ہم  تو بچپن سے پڑھتے آئے ہیں- قدم اٹھا دیا ہے تو  پیچھے نہیں ہٹنا ہے۔ تو میں نے کہا  دیکھو بھائی آپ کی فکر  صحیح ہے ،لیکن اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ اب تو یہ  اربن ڈیولپمنٹ ایئر ہوگا۔ ہار جائیں گے، الیکشن کیا ہے؟ جوبھی ہو گا ہم کسی کو برا کرنا  نہیں   چاہتے لیکن گجرات میں  شہروں کی شکل و صورت کو بدلنا بہت ضروری ہے۔

ہم مسلسل لگے رہے۔ کافی مخالفت ہوئی، بہت سے احتجاج ہوئے، بڑی پریشانیاں آئیں۔ یہاں میڈیا والوں کو بھی بڑا مزہ آیا کہ اب تو مودی شکار بن گیا ہے، تو وہ بھی پوری طاقت سے لگ گئے تھے۔ لیکن جب الیکشن ہوا، تو دیکھیے، میں سیاستدانوں سے کہتا ہوں، میں پورے ملک کے سیاستدانوں کو سنانا چاہتا ہوں، میں یہ کہتا ہوں کہ اگر آپ سچائی اور ایمان داری سے عوام کی بھلائی کے لیے فیصلے کرتے ہیں، تو فوری طور پر وہ کڑوے لگ سکتے ہیں، لیکن لوگ ساتھ دیتے ہیں اور اس وقت جو الیکشن ہوا، اُس میں بی جے پی کو 90 فیصد کامیابی ملی تھی۔ یعنی لوگ مانتے ہیں کہ عوام سب کچھ سمجھتی ہے۔مجھے یاد ہے، یہاں جو ’’اٹل برج‘‘ بنا ہے نا، یہ سابر متی ریور فرنٹ پر ہے۔ پتہ نہیں کیوں مجھے افتتاح کے لیے بلایا گیا تھا۔ کئی پروگرام تھے، میں نے کہا چلو دیکھتے ہیں۔ جب میں اٹل برج پر چہل قدمی کر رہا تھا تو دیکھا کہ کچھ لوگوں نے وہاں پان کی پچکاریاں مار دی تھیں۔ ابھی تو افتتاح ہونا تھا، لیکن پروگرام ہو چکا تھا۔ میرا ذہن فوراً گیا، میں نے کہا کہ یہاں ‘‘ٹکٹ’’ لگاؤ۔ سب لوگ بولے کہ سر الیکشن آنے والا ہے، ابھی ٹکٹ نہ لگائیں۔ میں نے کہا کہ ٹکٹ لگاؤ، ورنہ یہ اٹل برج بیکار ہو جائے گا۔ پھر میں دہلی گیا، اگلے دن میں نے فون کر کے پوچھا کہ ٹکٹ لگا یا نہیں؟ میں نے کہا ایک دن بھی بغیر ٹکٹ کے نہیں چلنا چاہیے۔

ساتھیو،

خیر، سب میرا احترام کرتے ہیں، انہوں نے میری بات رکھی، اور آخرکار وہاں ٹکٹ لگا دیا۔ آج ٹکٹ بھی لگا، الیکشن بھی جیتے، اور وہ اٹل برج چل رہا ہے۔ میں نے کانکریا کی ازسرنو تعمیر کی، وہاں بھی ٹکٹ لگایا۔ کانگریس نے بڑا احتجاج کیا، کورٹ تک چلے گئے، لیکن وہ چھوٹی سی کوشش نے پورے کانکریا کو محفوظ رکھا ہے، اور آج ہر طبقہ وہاں خوشی سے جاتا ہے۔ سیاستدان کبھی کبھار چھوٹی چھوٹی باتوں سے ڈر جاتے ہیں، لیکن سچ یہ ہے کہ سماج مخالف نہیں ہوتا، صرف اُسے سمجھانا ہوتا ہے۔ اور جب اُسے سمجھایا جاتا ہے، تو وہ تعاون کرتا ہے، اور اچھے نتائج ملتے ہیں۔دیکھیے، شہری ترقی کی ایک ایک چیز بہت باریکی سے بنائی گئی ہے، اور اسی کا نتیجہ ہے۔ اور میں آپ کو بتاؤں، اب مجھ پر دباؤ بڑھنے والا ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے کہ مودی، ٹھیک ہے، چوتھے نمبر پر پہنچ گئے ہو، اب بتاؤ تیسرے پر کب آؤ گے؟اس کی ایک جڑی بوٹی آپ کے پاس ہے۔ ہمارے جو ترقیاتی مراکز ہیں، وہ شہری علاقے ہیں۔ ہمیں شہری اداروں کو معیشت کے ترقیاتی مراکز بنانے کا منصوبہ بنانا ہوگا۔ صرف آبادی کے بڑھنے سے شہر ترقی نہیں کرتے۔ شہر اقتصادی سرگرمی کے سرگرم مرکز ہونے چاہییں۔اب ہمیں ‘‘ٹئیر 2’’ اور ‘‘ٹئیر 3’’ شہروں پر بھی زور دینا ہوگا، تاکہ وہ بھی معاشی سرگرمی کے مراکز بنیں اور میں پورے ملک کی میونسپلٹیوں، میٹروپولیٹن اداروں کے لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ ہدف طے کریں کہ ایک سال میں اپنے شہر کی معیشت کو کہاں سے کہاں لے جائیں گے؟ وہاں کی اقتصادی حالت کو کیسے بہتر کریں گے؟ وہاں جو مینوفیکچرنگ ہو رہی ہیں، ان کے معیار کو کیسے بہتر کریں گے؟ وہاں نئی معاشی سرگرمیوں کے دروازے کیسے کھولیں گے؟اکثر میں نے دیکھا ہے کہ جب نئی میونسپلٹی بنتی ہے، تو صرف ایک بڑا شاپنگ سینٹر بنا دیا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کو بھی وہی سوٹ کرتا ہے، 30-40 دکانیں بنا دیتے ہیں، اور 10 سال تک کوئی لینے نہیں آتا۔ ایسے کام نہیں چلے گا۔مطالعہ کر کے، اور خاص طور پر زرعی مصنوعات کے لیے میں تو ٹئیر 2، ٹئیر 3 شہروں کے لیے کہوں گا کہ جو کسان فصل پیدا کرتے ہیں، اس کا ویلیو ایڈیشن ہونا چاہیے۔ یہ کام میونسپل اداروں میں شروع ہو۔ آس پاس سے کھیتی کی چیزیں آئیں، ان کا ویلیو ایڈیشن ہو، تو گاؤں کا بھی فائدہ ہوگا، شہر کا بھی۔

اسی طرح آپ نے ان دنوں اسٹارٹ اپس کے بارے میں دیکھا ہوگا۔ آپ نے یہ بھی نوٹ کیا ہوگا کہ پہلے اسٹارٹ اپس صرف بڑے شہروں اور بڑے صنعتی خاندانوں کے اردگرد محدود ہوتے تھے۔ لیکن آج ملک میں تقریباً دو لاکھ اسٹارٹ اپس ہیں، اور ان میں سے زیادہ تر ٹئیر 2 اور ٹئیر 3 شہروں میں ہیں۔ اور فخر کی بات یہ ہے کہ ان اسٹارٹ اپس کی قیادت بڑی تعداد میں ہماری بیٹیاں کر رہی ہیں۔ اسٹارٹ اپس کی قیادت خواتین کے پاس ہے۔ یہ ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی کی جانب اشارہ ہے۔اسی لیے میں چاہوں گا کہ جب ہم شہری ترقی کے سال کے 20 سال مکمل ہونے کا جشن منائیں، اور ایک کامیاب تجربے کو یاد کرکے مستقبل کی سمت طے کریں، تو ہم ٹئیر 2 اور ٹئیر 3 شہروں کو خاص اہمیت دیں۔ تعلیم کے میدان میں بھی یہ شہر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس سال بھی آپ نے دیکھا ہوگا ۔ پہلے زمانے میں جب 10ویں اور 12ویں کے نتائج آتے تھے، تو صرف بڑے مشہور اسکولوں کے طلبہ ہی ٹاپ 10 میں آتے تھے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ بڑے شہروں کے ان معروف اسکولوں کا نام بھی نہیں ہوتا، اور ٹئیر 2 اور ٹئیر 3 شہروں کے اسکولوں کے بچے ٹاپ 10 میں آ رہے ہیں۔ آپ نے گجرات میں بھی یہی منظر دیکھا ہوگا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے چھوٹے شہروں کی صلاحیت اور طاقت بڑھ رہی ہے۔ کھیل کے میدان میں بھی یہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ خاص طور پر کرکٹ کی مثال لیجیے  جو کبھی گلی، محلوں میں کھیلنے والا کھیل تھا، لیکن ایک وقت میں یہ صرف بڑے شہروں اور امیر خاندانوں تک محدود تھا۔ آج کرکٹ کے کھلاڑیوں میں سے آدھے سے زیادہ ٹئیر 2، ٹئیر 3 شہروں اور دیہات سے تعلق رکھتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کر رہے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے چھوٹے شہروں میں بہت زیادہ صلاحیت موجود ہے۔ جیسا کہ منوہر جی نے بھی کہا اور ویڈیو میں بھی دکھایا گیا، یہ ہمارے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ اگر ہم ہندوستان کو دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت  سے تیسری بنانے کے سفر میں اپنے شہروں کی معیشت پر توجہ دیں، تو ہم اس ہدف کو بہت تیزی سے حاصل کر سکتے ہیں۔

ساتھیو،

یہ گورننس کا ایک ماڈل ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایک ایسا ہی ایکو سسٹم ہے جس نے اپنی جڑیں زمین میں اس طرح گاڑ دی ہیں کہ وہ بھارت کی صلاحیت کو ہمیشہ کمزور دکھانے میں لگا رہتا ہے۔ نظریاتی مخالفت کی وجہ سے نظام کی ترقی کو ماننے سے انکار کرنا ان کا مزاج بن چکا ہے۔ کسی شخص کی پسند یا ناپسند کی بنیاد پر اُس کے کیے گئے ہر کام کو برا بتا دینا ایک فیشن بن چکا ہے اور اس وجہ سے ملک کی اچھی چیزوں کو نقصان ہوا ہے۔ یہ گورننس کا ایک ماڈل ہے۔اب آپ دیکھیے، ہم نے شہری ترقی پر زور دیا، لیکن جب آپ نے ہمیں دہلی بھیجا، تو ہم نےتوقعاتی اضلاع اور توقعاتی بلاکس پر غور کیاکہ ہر ریاست میں ایک یا دو ضلع یا تحصیل ایسی ہوتی ہے جو اتنی پیچھے رہ جاتی ہے کہ وہ پوری ریاست کی اوسط ترقی کو پیچھے کھینچ لیتی ہے۔ آپ آگے نہیں بڑھ سکتے کیونکہ یہ بیڑیوں کی طرح ہوتا ہے۔ میں نے کہا کہ پہلے ان بیڑیوں کو توڑنا ہوگااورملک میں تقریباً 100 ایسے توقعاتی اضلاع کی نشاندہی کی گئی۔ 40 پیرامیٹرز سے جانچا گیا کہ وہاں کیا ضروریات ہیں۔ اب 500 بلاکس کی شناخت کی گئی ہے۔ پورے حکومتی نظام کو شامل کر کے ایک جامع حکمت عملی کے ساتھ کام کیا جا رہا ہے۔ نوجوان افسران کو مکمل مدت کے لیے تعینات کیا گیا ہے تاکہ وہ مستقل مزاجی سے کام کریں۔ آج یہ ماڈل دنیا کے لیے ایک مثال بن چکا ہے، اور ترقی پذیر ممالک کو بھی لگ رہا ہے کہ ہمیں اس ماڈل پر چلنا چاہیے۔میری گزارش ہے کہ ہمارا تعلیمی طبقہ بھارت کی ان کوششوں اور کامیاب ماڈلز پر غور کرے۔ جب تعلیمی دنیا اس پر سوچتی ہے تو وہ دنیا کے لیے بھی ایک قابلِ تقلید مثال بن جاتی ہے۔

ساتھیو،

آنے والے دنوں میں ہمیں سیاحت پر زور دینا چاہیے۔ گجرات نے اس میدان میں کمال کر دکھایا ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کَچھ کے ریگستان میں، جہاں کوئی جانا بھی پسند نہیں کرتا تھا، آج وہاں جانا ہو تو بکنگ نہیں ملتی۔ چیزوں کو بدلا جا سکتا ہے۔دنیا کا سب سے اونچا مجسمہ  یہ خود میں ایک حیرت انگیز مثال ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ وڈنگر میں جو میوزیم بنایا گیا ہے، وہ بین الاقوامی سطح پر عالمی معیار  کا ہے۔ کل میری ملاقات برطانیہ  سے آئے ایک صاحب سے ہوئی، وہ کہہ رہے تھے کہ میں وڈنگر کا میوزیم دیکھنے جا رہا ہوں۔ بھارت میں کاشی جیسے بہت کم مقام ہیں جو ہمیشہ زندہ رہے ہیں، کبھی ختم نہیں ہوئے، ہر پل زندگی سے بھرپور رہے ہیں۔ وڈنگر بھی ان میں سے ایک ہے، جہاں 2800 سال پرانے آثار کے شواہد ملے ہیں۔ اب ہمارا کام یہ ہے کہ اسے بین الاقوامی سیاحتی نقشے پر کیسے لایا جائے؟ہمارا لوتھل، جہاں ہم ایک میری ٹائم میوزیم بنا رہے ہیں، پانچ ہزار سال پہلے،میری ٹائم میں دنیا میں ہماری طاقت  کا ڈنکا بجتا تھا۔ وقت کے ساتھ ہم اسے بھول گئے، لیکن لوتھل اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ لوتھل میں دنیا کا سب سے بڑا میری ٹائم میوزیم بن رہا ہے۔ ذرا سوچئے، اس کا کتنا فائدہ ہوگااور اس لیے میں کہتا ہوں، دوستو - 2005 کا وہ وقت تھا جب پہلی بار گفٹ سٹی کے خیال کو پیش کیا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے، شاید ہم نے اس لانچنگ تقریب‘‘ٹیگور ہال’’ میں کی تھی۔ ہمارے ذہن میں جو بڑے خواب تھے، ان کے خاکے وہاں لگائے گئے تھے۔ میرے اپنے لوگ بھی پوچھتے تھے، کیا واقعی یہ ہوگا؟ اتنی بڑی عمارتیں بنیں گی؟ مجھے اچھی طرح یاد ہے  جب میں اس کا نقشہ اور پریزنٹیشن مرکز کے کچھ لیڈروں کو دکھاتا تھا، تو وہ بھی کہتے تھے،ارے بھارت جیسے ملک میں تم یہ کیا کر رہے ہو؟"میں سنتا رہا اور آج وہی گفٹ سٹی،جس کیلئے بھارت کی ہر ریاست کہہ رہی ہے کہ ہمارے یہاں بھی ایک گفٹ سٹی ہونا چاہیے۔

ساتھیو،

اگر ہم کسی تصور کوزمین پر  حقیقت میں اتارنے کی کوشش کریں،تو اس کےاچھے  نتائج حاصل ہوسکتے ہیں ، ہم بخوبی دیکھ رہے ہیں۔ وہی وقت تھا جب ریور فرنٹ کا تصور کیا گیا۔ وہی وقت تھا جب دنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم بنانے کا خواب دیکھا گیا اور اُسے پورا کیا گیا۔ وہی وقت تھا جب دنیا کا سب سے بلند مجسمہ بنانے کا ارادہ کیا گیا اور اسے حقیقت میں بدلا گیا۔

بھائیو اور بہنو،

اگر ہم ایک بار یہ مان لیں کہ ہمارے ملک میں بے پناہ صلاحیت ہے، بے شمار طاقت ہے، تو ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔

ساتھیو،

مجھے نہیں معلوم کیوں، لیکن مایوسی نام کی چیز میرے ذہن میں آتی ہی نہیں ہے۔ میں فطرتاً ایک پُرامید انسان ہوں۔ میں صلاحیتوں کو پہچان سکتا ہوں، میں دیواروں کے اُس پار دیکھ سکتا ہوں۔ میں اپنے ملک کی طاقت کو محسوس کر سکتا ہوں، اپنے ہم وطنوں کی قابلیت کو دیکھ سکتا ہوں۔ اور اسی اعتماد کے ساتھ ہم بہت بڑا بدلاؤ لا سکتے ہیں۔اسی لیے میں آج گجرات حکومت کا بہت شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یہاں آنے کا موقع دیا۔ کچھ پرانی باتوں کو یاد کرنے کا موقع ملا، جو دل کو تازگی دیتی ہیں۔ لیکن دوستو، یقین مانیے، گجرات کے کاندھوں پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہم دینے والے لوگ ہیں، ہمیں ہمیشہ ملک کو دینا چاہیے۔ہمیں گجرات کو اتنی بلندی پر لے جانا ہے، اتنی اونچائی پر، کہ پورا ملک اس سے فائدہ اٹھائے۔ ہمیں اس عظیم روایت کو آگے بڑھانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ گجرات نئی طاقت کے ساتھ، نئے تصورات کے ساتھ، نئے اقدامات کے ساتھ آگے بڑھے گا۔شاید میرا خطاب تھوڑا طویل ہو گیا ہو، پتہ نہیں کیا ہو ا! لیکن کل میڈیا میں دو تین سرخیاں آئیں گی، یہ میں پہلے سے ہی بتا دیتا ہوں: ‘‘مودی نے افسران کو ڈانٹا’’، ‘‘مودی نے افسران کی کھنچائی کی’’، وغیرہ وغیرہ — خیر، یہ تو کبھی کبھار کی چٹنی ہوتی ہے، اسے بس اسی طرح سمجھنا چاہیے۔ لیکن جو باقی باتیں میں نے یاد دلائی ہیں، اُنہیں دل سے یاد رکھیےاور یہ ’’سِندوریا مزاج‘‘، یہ ’’سِندوریا جذبہ‘‘، دوستو ، 6 مئی کی رات، آپریشن سِندور ہماری فوج کی جانب سے شروع ہوا تھا، لیکن اب یہ ‘‘آپریشن سِندور’’ عوامی طاقت سے آگے بڑھے گااور جب میں ’’فوجی طاقت‘‘ اور ’’عوامی طاقت‘‘ کی بات کرتا ہوں تو میرا مطلب ہے: ہر شہری ملک کی ترقی میں شریک ہو، ذمہ داری اٹھائے۔

ساتھیو،

آئیے ہم یہ طے کر لیں کہ 2047، جب بھارت کی آزادی کے 100 سال مکمل ہوں گے، تب تک بھارت کو ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کے لیے ہمیں اپنی معیشت کو دنیا میں چوتھے نمبر سے تیسرے نمبر پر لے جانا ہے۔ اور اس کے لیے ہمیں اب کسی غیر ملکی چیز کا استعمال نہیں کرنا ہے۔ہم گاؤں گاؤں کے تاجروں کو حلف دلائیں کہ چاہے انہیں جتنا بھی منافع ہو، وہ غیر ملکی سامان نہیں بیچیں گے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں تو گنیش جی بھی بیرون ممالک سے آتے ہیں۔ چھوٹی آنکھوں والے گنیش جی! آنکھیں بھی کھلی ہوئی نہیں لگتیں۔ ہولی پر رنگ چھڑکنے ہوں تو بھی غیر ملکی! ہم سب کو اپنے گھروں میں جا کر ایک فہرست بنانی چاہیے کہ ہم صبح سے اگلی صبح تک کن کن غیر ملکی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔دوستو، ہمیں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ہم ہیئر پن بھی غیر ملکی استعمال کر لیتے ہیں، کنگھی بھی باہر کی ہوتی ہے، دانتوں کیلئے پن بھی غیرملکی ہے  اور ہمیں خبر تک نہیں!اگر ہمیں ملک کو بچانا ہے، بنانا ہے، اور آگے بڑھانا ہے، تو آپریشن سندور صرف فوجیوں کی ذمہ داری نہیں ہے۔ آپریشن سندور 140 کروڑ شہریوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ملک طاقتور ہو، خود پر انحصار کرنے والا ہو، ہر شہری مضبوط ہو  اس کے لیے ہمیں ’’ووکَل فار لوکَل‘‘، ‘‘ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ’’ جیسے اقدامات پر عمل کرنا ہوگا۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ جو کچھ غیر ملکی ہے، اسے ابھی پھینک دیں۔ لیکن اب سے  ملک میں بنے سامان کی خریداری کریں۔شاید ایک آدھ فیصد چیزیں ایسی ہوں جو واقعی یہاں نہ ملیں، تو چلیں، وہ الگ بات ہے۔ لیکن آج ہندوستان میں ایسا کچھ نہیں ہے جو نہ ملے۔ آپ نے خود دیکھا ہوگا 25، 30 سال پہلے جب کوئی بیرون ملک سے آتا تھا، تو یہاں کے لوگ لسٹ دے دیتے تھے کہ یہ لے آنا، وہ لے آنا۔ آج وہی غیر ملکی پوچھتے ہیں کہ چھ لانا ہے اور یہاں والے کہتے ہیں: نہیں نہیں، سب کچھ یہاں ہے، کچھ مت لاؤ!سب کچھ ہے یہاں! ہمیں اپنی برانڈز پر فخر ہونا چاہیے۔ ’’میڈ ان انڈیا‘‘ پر فخر ہونا چاہیے۔’’آپریشن سندور‘‘ جنگی طاقت سے نہیں، عوامی طاقت سے جیتا جائے گا  اور عوامی طاقت پیدا ہوتی ہے ماں کی مٹی سے پیدا ہوئی ہر پیداوار سے، اس مٹی سے جس میں خوشبو ہے، اس پسینے سے جو ہندوستانی کسانوں، کاریگروں اور محنت کشوں کا ہے۔اگر ہم ’’آپریشن سندور‘‘ کو گھر گھر تک پہنچائیں تو آپ دیکھیے گا، ہم 2047 سے پہلے ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک بنا کر دم لیں گے۔ اور اپنی آنکھوں کے سامنے وہ دن دیکھیں گے۔دوستوں،اسی امید کے ساتھ میرے ساتھ پورے زور سے بولیے:

بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے! ذرا ترنگا بلند ہونا چاہیے!

بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے! بھارت ماتا کی جے!

وندے ماترم! وندے ماترم! وندے ماترم!

وندے ماترم! وندے ماترم! وندے ماترم!

وندے ماترم! وندے ماترم! وندے ماترم!

وندے ماترم! وندے ماترم! وندے ماترم!

شکریہ!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔م ش ۔ ع ح۔  ن م۔ خ م۔

U-1146


(Release ID: 2131711)