وزیراعظم کا دفتر
بھارت منڈپم ، نئی دلی ، میں منعقد یُگم کنکلیو میں وزیراعظم کے خطاب کا متن
Posted On:
29 APR 2025 1:45PM by PIB Delhi
مرکزی وزیر تعلیم جناب دھرمیندر پردھان جی، ڈاکٹر جتیندر سنگھ جی، جناب جینت چودھری جی، ڈاکٹر سکانتا مجمدار جی، ٹیکنالوجی کے ذریعے جڑے میرے دوست جناب رومیش وادھوانی جی، ڈاکٹر اجے کیلا جی، سائنس اور ٹیکنالوجی اور تعلیمی دنیا سے وابستہ آپ سبھی دوست، پروگرام میں موجود دیگر معززین، خواتین و حضرات!
آج حکومت، ماہرین تعلیم، سائنس اور تحقیق سے متعلق مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ اتنی بڑی تعداد میں یہاں موجود ہیں۔ یہ اتحاد، یہ سنگم، اسی کو امتزاج کہتے ہیں۔ایک ایسا امتزاج، جس میں ترقی یافتہ ہندوستان کے مستقبل کی ٹیک سے متعلق اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ جڑے اور متحد ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ایونٹ ان کوششوں کو مزید تقویت بخشے گا، جو ہم ہندوستان کی اختراعی صلاحیت اور ڈیپ ٹیک میں ہندوستان کے کردار کو بڑھانے کے لیے کر رہے ہیں۔ آج، آئی آئی ٹی کانپور اور آئی آئی ٹی بامبے میں اے آئی، انٹیلی جنس سسٹمز اور بایو سائنس بایو ٹیکنالوجی ہیلتھ اینڈ میڈیسن کے سپر ہب شروع کیے جا رہے ہیں۔ وادھوانی انوویشن نیٹ ورک بھی آج شروع کیا گیا ہے۔ نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کے تعاون سے تحقیق کو آگے بڑھانے کی قرارداد بھی پیش کی گئی ہے۔ میں اس کوشش کے لیے وادھوانی فاؤنڈیشن، آئی آئی ٹی اور دیگر تمام اسٹیک ہولڈرز کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ خاص طور پر میں اپنے دوست رومیش وادھوانی جی کی تعریف کرتا ہوں۔ آپ کی لگن اور فعالیت کے باعث نجی اور سرکاری شعبوں نے مل کر ملک کے تعلیمی نظام میں بہت سی مثبت تبدیلیاں کی ہیں۔
دوستو،
ہمارے صحیفوں میں کہا گیا ہے – پَرم پروپ کارارتھ یو جیوتی سا جیوتی یعنی جو اپنی زندگی دوسروں کی خدمت اور رحم دلی کے لیے وقف کرتا ہے، وہی حقیقی زندگی جیتا ہے۔ اس لیے ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کو بھی خدمت کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ جب میں اپنے ملک میں وادھوانی فاؤنڈیشن جیسے اداروں کو دیکھتا ہوں، جب میں رومیش جی اور ان کی ٹیم کی کوششوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے خوشی اور فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ہندوستان میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو صحیح سمت میں آگے لے جا رہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ رومیش جی نے اپنی زندگی بہت جدوجہد کے ساتھ گزاری ہے اور اسے خدمت کے لئے وقف کیا ہے۔ اپنی پیدائش کے فوراً بعد، جب وہ کچھ ہی دن کے تھے، تب تقسیم کی ہولناکیوں کا سامنا کرنا، ، اپنی جائے پیدائش سے نقل مکانی پر مجبور ہونا، بچپن میں پولیو جیسی بیماری کا شکار ہونا اور ان مشکل حالات سے نکل کر اتنی بڑی کاروباری سلطنت بنانا، اپنے آپ میں ایک غیر معمولی اور متاثر کن زندگی کا سفر ہے اور تعلیم اور تحقیق کے شعبے میں اس کامیابی کو ہندوستان کے لوگوں، ہندوستان کی نوجوان نسل، ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے وقف کرنا اپنے آپ میں ایک متاثر کن مثال ہے۔وادھوانی فاؤنڈیشن اسکولی تعلیم، آنگن واڑی سے متعلق ٹیکنالوجی اور ایگری ٹیک میں بھی کافی کام کر رہا ہے۔ میں اس کے لیے اور اس سے پہلے بھی وادھوانی انسٹی ٹیوٹ آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے قیام کے موقع پرآپ سب کے درمیان موجود رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وادھوانی فاؤنڈیشن آنے والے وقتوں میں ایسے اور بھی بہت سے سنگ میل طے کرتا رہےگا۔ میری نیک تمنائیں آپ کی تنظیم کے ساتھ ہیں، آپ کی پہل قدمیوں کے ساتھ ہیں۔
دوستو،
کسی بھی ملک کا مستقبل اس کی نوجوان نسل پر منحصر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو مستقبل اور ہندوستان کے روشن مستقبل کے لیے تیار کریں۔ اس میں ملک کے تعلیمی نظام کا بھی بڑا کردار ہے۔ اسی لیے ہم اکیسویں صدی کی ضروریات کے مطابق ملک کے تعلیمی نظام کو جدید بنا رہے ہیں۔ ملک میں نئی قومی تعلیمی پالیسی متعارف کرادی گئی ہے۔ اسے تعلیم کے عالمی معیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے متعارف ہونے کے بعد ہم ہندوستانی تعلیمی نظام میں بھی بڑی تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں۔ قومی نصاب کا فریم ورک، لرننگ ٹیچنگ میٹریل اور پہلی جماعت سے ساتویں جماعت کی نئی نصابی کتابیں تیار کی گئی ہیں۔ پی ایم ای-وِدیا اور دیکشا پلیٹ فارم کے تحت ون نیشن، ون ڈیجیٹل ایجوکیشن انفراسٹرکچر تیار کیا گیا ہے۔ یہ بنیادی ڈھانچہ اے آئی پر مبنی ہےاور توسیع پذیر بھی ہے۔ اسے ملک کی 30 سے زائد زبانوں اور 7 غیر ملکی زبانوں میں نصابی کتب کی تیاری کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔نیشنل کریڈٹ فریم ورک کے ذریعے طلباء کے لیے ایک ساتھ مختلف مضامین کا مطالعہ کرنا آسان ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی طلباء نے اب جدید تعلیم حاصل کرنا شروع کر دی ہے، ان کے کیریئر کے لیے نئی راہیں بن رہی ہیں۔ ہندوستان نے جو اہداف طے کیے ہیں ان کی سمت میں رفتار کو جاری رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ملک کے تحقیقی ماحولیاتی نظام کو مضبوط کیا جائے۔ پچھلی دہائی میں اس سمت میں تیزی سے کام ہوا ہے اور ضروری وسائل میں اضافہ کیا گیا ہے۔ 2014-2013 میں تحقیق و ترقی پر مجموعی اخراجات صرف 60 ہزار کروڑ روپے تھے۔ ہم نے اسے دوگنا سے بڑھا کر 1.25 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کر دیا ہے۔ ملک میں کئی جدید ترین ریسرچ پارکس بھی قائم کیے گئے ہیں۔ تقریباً 6 ہزار اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سیل قائم کیے گئے ہیں۔ ہماری کوششوں سے ملک میں اختراعی کلچر تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ بھارت میں 2014 میں تقریباً 40 ہزار پیٹنٹ فائل کئے گئے تھے، اب یہ تعداد بڑھ کر 80 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کے نوجوانوں کو ہمارے دانشورانہ املاک کے ماحولیاتی نظام سے کتنی حمایت مل رہی ہے۔ ملک میں ریسرچ کلچر کو فروغ دینے کے لیے 50 ہزار کروڑ روپے کے نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ ون نیشن ون سبسکرپشن نے نوجوانوں کو یقین دلایا ہے کہ حکومت ان کی ضروریات کو سمجھتی ہے۔ آج اس اسکیم کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو عالمی معیار کے تحقیقی جرائد تک آسانی سے رسائی حاصل ہے۔ ملکی ہنرمندوں کی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہ آنے کو یقینی بنانے کے لیے پرائم منسٹر ریسرچ فیلو شپ کی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
دوستو،
انہی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج کا نوجوان صرف تحقیق و ترقی میں ہی مہارت نہیں رکھتا بلکہ وہ خود بھی تحقیق و ترقی بن چکا ہے اور جب میں کہتا ہوں کہ وہ خود آر اینڈ ڈی ہے،تو میرا مطلب ہے – تیار اور مستعد! آج ہندوستان مختلف شعبوں میں تحقیق کے نئے سنگ میل طے کر رہا ہے۔ پچھلے سال، ہندوستان نے دنیا کا سب سے طویل ہائپر لوپ ٹیسٹ ٹریک شروع کیا۔ یہ 422 میٹر ہائپر لوپ آئی آئی ٹی مدراس میں ہندوستانی ریلوے کے تعاون سے تیار کیا گیا تھا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس(آئی آئی ایس سی) بنگلور کے سائنسدانوں نے ایک ایسی ٹیکنالوجی بھی تیار کی ہے جو روشنی کو نینو پیمانے پر کنٹرول کرتی ہے۔ خود آئی آئی ایس سی میں، محققین نے ‘برین آن چِپ’ ٹیکنالوجی تیار کی ہے۔‘برین آن چِپ’ یعنی ایک مالیکیولر فلم کے اندر 16,000 سے زیادہ ترسیل کی حالت میں ہیں، جس میں ڈیٹا کو اسٹور کرنے اور پروسیس کرنے کی صلاحیت ہے! ابھی چند ہفتے قبل ملک نے پہلی دیسی ایم آر آئی مشین بھی بنا لی ہے۔ایسے بہت سے مثالی آر اینڈ ڈی ہیں، جو ہماری یونیورسٹیوں میں ہو رہے ہیں۔ یہ ترقی پذیر ہندوستان کی تیار، مستعد اور یکسر تبدیلی پر مبنی نوجوان طاقت ہے ۔
دوستو،
آج ہندوستان کے یونیورسٹی کیمپس نئے متحرک مراکز بن رہے ہیں۔ اس طرح کے مراکز جہاں نوجوانوں کی طاقت اہم اختراعات کو آگے بڑھا رہی ہے۔ حال ہی میں، ہائر ایجوکیشن امپیکٹ رینکنگ میں ہندوستان عالمی سطح پر سب سے زیادہ نمائندگی کرنے والا ملک تھا۔ 125 ممالک کے دو ہزار اداروں میں سے 90 سے زیادہ یونیورسٹیاں ہندوستان کی تھیں۔ 2014 میں، کیو ایس عالمی درجہ بندی میں ہندوستان سے صرف 9 ادارے اور یونیورسٹیاں تھیں۔ 2025 میں یہ تعداد 46 تک پہنچ جائے گی۔ دنیا کے 500 اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہندوستانی اداروں کی تعداد بھی گزشتہ 10 سالوں میں تیزی سے بڑھی ہے۔ اب بیرون ملک ہمارے اہم اداروں کے کیمپس کھل رہے ہیں۔ ابوظہبی میں آئی آئی ٹی دہلی، تنزانیہ میں آئی آئی ٹی مدراس کے کیمپس کھولے گئے ہیں۔ دبئی میں آئی آئی ایم احمد آباد کا کیمپس کھولنے کی تیاریاں جاری ہیں اورایسا نہیں ہے کہ صرف ہمارے صرف اعلیٰ ادارے ہی باہر قدم رکھ رہے ہیں، بلکہ باہر کے بھی اعلیٰ ادارے بھارت آ رہے ہیں۔ بھارت میں دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے کیمپس کھلنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سے علمی تبادلے میں اضافہ ہوگا۔ تحقیق کے میدان میں تعاون بڑھے گا۔ ہمارے طالب علموں کو ایک دوسرے کی ثقافت کو سمجھنے کا موقع بھی ملے گا۔
دوستو،
ٹیلنٹ، مزاج اور ٹیکنالوجی کی تثلیث ہی ہندوستان کے مستقبل کو بدلے گی۔ اس کے لیے ہم بچوں کو بچپن میں ہی ضروری مواقع فراہم کرا رہے ہیں۔ ابھی ابھی ہمارے ساتھی دھرمیندر جی نے تفصیل سے بتایا، ہم نے اٹل ٹنکرنگ لیبز جیسے اقدامات کیے ہیں۔ اب تک ملک میں 10 ہزار اٹل ٹنکرنگ لیبز کھولی گئی ہیں۔ اس بجٹ میں حکومت نے مزید 50 ہزار اٹل ٹنکرنگ لیبز کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ طلباء کو مالی مدد فراہم کرنے کے لیے پی ایم ودیا لکشمی یوجنا بھی شروع کی گئی ہے۔ اپنے طلباء کو اپنی تعلیم کو تجربے میں تبدیل کرنے کے قابل بنانے کے لیے، ہم نے 7 ہزار سے زائد اداروں میں انٹرنشپ سیل قائم کیے ہیں۔ آج نوجوانوں میں نئی صلاحیتیں پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ ان نوجوانوں کی قابلیت، مزاج اور ٹیکنالوجی کی یہ طاقت ہندوستان کو کامیابی کی چوٹی پر لے جائے گی۔
دوستو،
ہم نے ترقی یافتہ ہندوستان کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اگلے 25 سال کا ٹائم فریم مقرر کیا ہے۔ ہمارے پاس وقت محدود ہے اور ہمارے مقاصد بڑے ہیں۔ میں یہ موجودہ حالات کے لیے نہیں کہہ رہا ہوں، اور اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے آئیڈیا کا پروٹو ٹائپ سے پروڈکٹ تک کا سفر بھی کم سے کم وقت میں مکمل ہو۔ جب ہم لیب سے مارکیٹ تک کا فاصلہ کم کرتے ہیں تو تحقیق کے نتائج تیزی سے لوگوں تک پہنچتے ہیں۔ اس سے محققین کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے، ان کے کام کی ترغیب اور ان کی محنت ان تک پہنچتی ہے۔ اس سے تحقیق، جدت طرازی اور ویلیو ایڈیشن کا پہیہ مزید تیز ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارا پورا ریسرچ ایکو سسٹم، تعلیمی اداروں سے لے کر سرمایہ کاروں اور صنعت تک، ہر کوئی محققین کے ساتھ کھڑا ہو اور ان کی رہنمائی کرے۔ صنعت کے رہنما ہمارے نوجوانوں کی رہنمائی کرکے، فنڈز کا بندوبست کرکے اور نئے حل تیار کرنے کے لیے مل کر کام کرکے اسے ایک قدم آگے بڑھا سکتے ہیں۔ لہذا، حکومت بھی قواعد کو آسان بنانے اور منظوریوں کو تیز کرنے کی کوششوں کو تیز کر رہی ہے۔
دوستو،
ہمیں اے آئی، کونٹم کمپیوٹنگ، ایڈوانسڈ انالیٹکس، اسپیس ٹیک، ہیلتھ ٹیک، سنتھیٹک بایولوجی کومسلسل فروغ دینا ہوگا۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان اے آئی کی ترقی اور موافقت میں سرفہرست ممالک میں شامل ہے۔ اس کو وسعت دینے کے لیے حکومت نے انڈیا-اے آئی مشن کا آغاز کیا ہے۔ اس سے عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ، اعلیٰ معیار کے ڈیٹا سیٹس اور تحقیقی سہولیات پیدا ہوں گی۔ ہندوستان میں اے آئی سینٹرز آف ایکسی لینس کی تعداد میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ان سینٹرز آف ایکسیلنس کو ملک کے نامور اداروں، صنعتوں اور اسٹارٹ اپس کی جانب سے تیز کیا جا رہا ہے۔ ہم میک اے آئی ان انڈیا کے وژن پر کام کر رہے ہیں اور ہمارا مقصد ہے –میک اے آئی ورک فار انڈیا۔ اس بار کےبجٹ میں ہم نے آئی آئی ٹی میں سیٹوں کی تعداد اور گنجائش بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میڈی ٹیک کے بہت سے کورسز یعنی میڈیکل پلس ٹیکنالوجی ملک میں آئی آئی ٹی اور ایمس کے تعاون سے شروع کیے گئے ہیں۔ ہمیں یہ سفر وقت پر مکمل کرنا ہے۔ ہمیں مستقبل کی ہر ٹیکنالوجی میں ہندوستان کو ‘بیسٹ اِن ورلڈ’ کی فہرست میں شامل کرنا ہے۔ امتزاج کے ذریعے ہم ان کوششوں کو نئی توانائی دے سکتے ہیں۔ وزارت تعلیم اور وادھوانی فاؤنڈیشن کے اس مشترکہ اقدام کے ذریعے ہم ملک کے اختراعی منظرنامے کو بدل سکتے ہیں۔ آج کا واقعہ اس میں بہت مدد کرے گا۔ میں یوگم پہل کے لیے ایک بار پھر وادھوانی فاؤنڈیشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں اپنے دوست رومیش جی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ۔
نمسکار،
***
ش ح۔ ک ا۔ م ا
(Release ID: 2125177)
Visitor Counter : 13