وزارت خزانہ
اقتصادی جائزہ 2024-25 کی تمہید
تمہید میں ضابطہ بندیوں کے خاتمے پر زور دیا گیا ہے اور اسے اقتصادی جائزہ 2024-25 کا موضوع بنایا گیا ہے
بھارت کو ایک مسابقتی اور اختراعی معیشت بننے کے لیے مزید گھریلو اور غیر ملکی سرمایہ کاریاں راغب کرنے اور فروغ دینے کے لیے تمام تر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے: اقتصادی جائزہ
بھارت کو اخراج کو کم کرنے کے مقابلے میں موسمیاتی تبدیلی کے مطابق تطبیق کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے
سروے میں ملک بھر میں سرکردہ تعلیمی اداروں میں اے آئی کے عمدگی کے مراکز (سی او ای) قائم کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے
سروے میں ازحد ڈبہ بند خوراک کی کھپت جو خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے، اس پر سرفہرست طور پر پیک پر لیبل لگانے کے معاملے میں سختی سے ضوابط نافذ کرنے کے پہلو کو بھارتی نوجوانوں کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی ضروریات کو پروان چڑھانے کی ضرورت پر زور دیا
Posted On:
31 JAN 2025 2:18PM by PIB Delhi
2024-25 کے اقتصادی جائزے کی تمہید آج پارلیمنٹ خزانہ اور کمپنی امور کی مرکزی وزیر محترمہ سیتا رمن کے ذریعہ پیش کی گئی، اس میں اقتصادی نمو کو مہمیز کرنے اور غیر معمولی عالمی تبدیلیوں کے درمیان روزگار کے سلسلے میں قابل ذکر طو رپر ضابطہ بندیوں او رقواعد و ضوابط کو واپس لینے کے ذریعہ حکمرانی کے فلسفیانہ طریقہ کار کی حمایت کی گئی ہے۔
سروے کی تمہید میں خیال ظاہر کیا گیا ہے کہ پوری دنیا بڑی تیزی کے ساتھ غیر متوقع طور پر 2024 کے سال میں بالیدہ ہو رہی ہے اور اس سال نے پوری دنیا میں سیاسی اور اقتصادی غیر یقینی صورتحال خصوصاً یوروپ میں ملاحظہ کی ہے- اور بھارت امریکہ اور انڈونیشیا کی تین بڑی جمہوریتوں میں انتخابات منعقد ہوئے ہیں۔
قواعد و ضوابط کے خاتمے کا محرک
اقتصادی جائزے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ بندھے ٹکے اصولوں سے احتراز کرتے ہوئے کاروبار کو بنیادی مشن پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع دیا جانا چاہئے۔ یہ ایک طرح کا اہم تعاون ہوگا جو پورے ملک کی حکومتیں اختراع اور مسابقت کو فروغ دینے کے لیے اپنی جانب سے فراہم کر سکتی ہیں۔
سروے میں ضوابط و قواعد سے مبرا بنانے کے محرک کی تشخیص کی گئی ہے تاکہ آئندہ دو دہائیوں میں نمو کی اوسط میں اضافہ لایا جا سکے۔ اس کے ذریعہ آبادی کی شکل میں حاصل بالادستی سے فوائد حاصل کرنا ممکن ہو سکے گا۔
سروے میں مزید دلیل دی گئی ہے کہ حکومت کو خطرات اور خدشات پر مبنی قواعد و ضوابط اپنانے کی ضرورت ہے اور اسے بے گناہ ثابت ہونے تک قصوروار تسلیم کرنے کے بجائے متعلقہ ضوابط کو ختم کرکے گناہگار ثابت ہونے تک بے گناہ تصور کیے جانے کا نظریہ اپنانا چاہئے۔ پالیسیوں میں ایسی عملی شرائط داخل کی جانی چاہئے جن کے ذریعہ ان کا غلط استعمال ممکن نہ ہو اور وہ قابل تفہیم بن سکیں جنہیں قواعد و ضوابط بلاضرورت پیچیدہ بنادیتے ہیں اور اس طرح یہ پالیسیاں انہیں اصل مقاصد سے دور کر دیتی ہیں اور ان کا منشا بھی پورا نہیں ہو پاتا۔
سروے میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ بڑے پیمانے کی معیشت کے حصول کے لیے اعتماد پر مبنی معاشرے کی تشکیل ضروری ہے، جیسا کہ اطلاعات تکنالوجی کے شعبے اور اسٹارٹ اپس کے ایکو نظام نے ثابت کیا ہے جو 90 کے دہے میں وجود میں آیا ہے۔ اس کے ذریعہ سروے میں کہا گیا ہے کہ یہ ایک اچھی بات ہے کہ بھارت کی عوام چنوتیوں کا سامنا کرے گی اور انہیں 2047 تک وکست بھارت کے راستے پر گامزن ہونے کے لیے مواقع میں تبدیل کر دے گی۔
کلیدی سرمایہ کاریوں کے لیے راستہ ہموار کرنا
ترقی پذیر، ترقی یافتہ اور ابھرتی ہوئی منڈی معیشتوں کی ایکولوجی میں سروے کا کہنا ہے کہ تیز رفتار عالمی تجارت نمو بھارت سے گزر چکی ہے اور بھارت کو مزید گھریلو اور غیر ملکی سرمایہ کاریاں راغب کرنے، فروغ دینے اور ان کا راستہ ہموار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ مسابقت کی حامل اختراع پر مبنی معیشت بن سکیں۔ سروے میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی ہے کہ گھریلو سپلائی چین کی صلاحیتوں کو مستحکم بنانے کے معاملے میں نجی شعبے کی کلیدی سرمایہ کاریاں اور لچک اور طویل المدت میں مفید ثابت ہوں گی۔
عالمی چنوتیوں کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے، سروے کی تمہید میں کہا گیا ہے کہ گھریلو نمو کے ذمہ داران کو نسبتاً زیادہ اہم بننا ہوگا، آئندہ برسوں میں انہیں بیرونی مسابقت کے مقابلے میں زیادہ بہتر بننا ہوگا۔
موسمیاتی تبدیلی اور توانائی تغیر
سروے میں توانائی سلامتی اور توانائی استطاعت کے معاملے میں عوامی پالیسی کے کردار پر زیادہ زور دیا گیا ہے اس کے ذریعہ موسمیاتی تبدیلی کے پس منظر میں مسابقت کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ سروے میں اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ بھارت تغیر اور تنوع کے معاملے میں اپنے راستے کا تعین خود کر رہا ہے۔ وہ حجری ایندھنوں سے کہیں آگے بڑھ کر برقی موبیلٹی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ یعنی برقی موبیلٹی وافر مقدار میں دستیاب قابل احیاء توانائی اور کوئلے کو دیکھتے ہوئے زیادہ بہتر متبادل ثابت ہو سکتی ہے۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سروے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ عوامی نقل و حمل مفید توانائی تغیر کے لیے زیادہ اثر انگیز متبادل ہے کیونکہ بھارت ایک وسیع رقبے کا ملک ہے اور یہاں محدود پیمانے پر آراضی دستیاب ہے۔
سروے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ بھارت کے توانائی منصوبے کو جغرافیائی نازک صورتحال اور خستہ حالی کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے اور اہم درآمدات کے لیے خارجی وسائل پر بھارت کے انحصار کو کم کرنا چاہئے۔ سروے میں بھارت کے لیے اس بات کی حمایت کی گئی ہے کہ وہ اخراج کو کم کرنے کی بجائے نئے طور طریقے اپنانے پر زیادہ دوردے۔
ہنر مندی اور تعلیم
سروے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے نوجوانوں کو مصنوعی انٹیلی جینس، ہنرمندی اور تعلیم کے شعبوں میں رونما ہونے والی تکنالوجی پیش رفتوں سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور نوجوانوں کو تکنالوجی ترقی کے برعکس اثرات جو روزگار پر مرتب ہو سکتے ہیں، کو کم سے کم کرنے اور یہاں تک کہ اس کا خاتمہ کرنے کے لیے تکنالوجی سے بھی کہیں آگے بڑھ کر سوچنا چاہئے اور اس طریقے سے وہ روزگار کو منظم بنانے کے معاملے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ سروے میں یہ تجویز بھی رکھی گئی ہے کہ بھارت میں سرکردہ تعلیمی اداروں میں مصنوعی انٹیلی جینس کے عمدگی کے مراکز قائم کیے جانے چاہئیں۔ نجی شعبے کی اختراع اور ابھرتے ہوئے شعبوں میں تحقیق و ترقیات کو فروغ دینے کےلیے بدلاؤ کی ایک کسوٹی کے طو رپر ایک لاکھ کروڑ روپے کے بقدر کے سرمایہ فنڈ کی بات بھی کہی گئی ہے۔
مصنوعی انٹیلی جینس
اے آئی کے موضوع پر ایک متوازن نظریہ اپناتے ہوئے، سروے میں زو ردے کر کہا گیا ہے کہ اے آئی تمام مشکلات کا حل سمجھ کر نہیں اپنایا جانا چاہئے اور یہ یکساں طور پر تمام ممالک میں نہیں اپنایا جا سکتا، خصوصاً جہاں مزدوروں کی بہتات ہے، ایسے ملکوں میں اسے اپنانا اتنا مفید نہ ہوگا اور بھارت بھی اس میں سے ایک ہے۔
صحت مند خوراک: صحت بخش انداز حیات
بھارت میں خطرناک انداز میں ازحد پروسیسڈ خوراک کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے جو ازحد تشویش کا باعث ہے (یہ خوراک ازحد چربی، نمک، شکر یا ایچ ایف ایس ایس) کی حامل ہوتی ہے۔ سروے میں بھارتی نوجوانوں کی ذہنی، جذباتی اور جسمانی ضروریات کو پروان چڑھانے پر زور دیا گیا ہے اور اس کے لیے اس بات کی وکالت کی گئی ہے کہ ہر لیبل کے اوپر سامنے کے حصے میں قواعد کے مطابق تمام باتیں درج ہونی چاہئیں کیونکہ ان کے مضمرات کافی وسیع ہوتے ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ عالمی پیمانے پر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ازخود ضابطہ بندی اس رجحان کو روکنے میں عدم مؤثر ثابت ہوئی ہے۔
خواتین، کاشتکاروں ، نوجوانوں اور ناداروں کے لیے پالیسی ترجیحات
سروے میں خواتین کاشتکاروں، نوجوانوں اور ناداروں کے معاملے میں مفید اور افزوں شراکت داری کے راستے ہموار کرنے کی بات کہی گئی ہے، یعنی اقتصادی سرگرمیوں میں ان کی شرکت مبنی بر شمولیت کی ترقیاتی پالیسیوں کی آزمائش ہے۔ نوجوانوں کے لیے سروے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ تعلیم ہنرمندی اور جسمانی اور ذہنی صحت پر سرمایہ کاری کی جانی چاہئے۔ ناداروں کو غربت کے دائرے سے نکال کر ان کی آمدنی اور معیار حیات میں اضافہ کرکے، جو اختیار دہی کےذریعہ ممکن ہوگا، انہیں اقتصادی سرگرمیوں میں شامل کیا جانا چاہئے۔ سروے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ان کے لیے روزی روٹی کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ہدف بند تقویت اور مواقع بہم پہنچائے جانے چاہئیں۔خواتین کے لیے سروے میں اس بات کی حمایت کی گئی ہے کہ مرکز اور ریاستی حکومتوں کو ایسی تمام قانونی اور ضابطہ جاتی بندشوں کو ختم کر دینا چاہئے جو لیبر فورس میں ان کی شرکت کے راستے میں رکاوٹ ڈالتی ہیں اور اس کی جگہ انہیں سہولت فراہم کرنے کے اقدامات کرنے چاہئیں۔
صنعتی سرگرمی
سروے میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ ریاستوں کے معاملے میں جو کاروبار کو سہل بنانے کے معاملے میں سب سے بلند سطح پر ہوتی ہیں، ان میں اور صنعتی سرگرمی کے مابین ایک مثبت تعلق قائم ہونا چاہئے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ توقعاتی ریاستوں کو اپنے یہاں صنعتی حصے کو بڑھانا چاہئے۔
سروے میں پیداواریت سے منسلک ترغیباتی اسکیم جو ایئر کنڈیشنر کے معاملے میں اندرونِ ملک کامیابی کی داستان رقم کر رہی ہے، حکومت کی دخل اندازی کے ذریعہ فروغ دینے کی بات کہی گئی ہے۔
بیرونی شعبے کی چنوتیاں
سروے میں ان چنوتیوں کی بات بھی کی گئی ہے جو بھارت کو مستقبل قریب میں درپیش ہوں گی، ان میں سے بندش پر مبنی تجارتی پالیسیاں بھی ہوں گی جن میں بھارت کی برآمدات کو تخفیف تک پہنچانے کے مضمرات ہوں گے اور دوسری بات یہ ہے ہوگی کہ یہ چالو کھاتہ خسارے میں اضافہ کر سکتی ہیں۔
**********
(ش ح –م ن - ا ب ن)
U.No:5860
(Release ID: 2098078)
Visitor Counter : 11