وزیراعظم کا دفتر
دہلی میں صفائی پروگرام میں نوجوانوں کے ساتھ وزیر اعظم کی بات چیت کا متن
Posted On:
02 OCT 2024 9:22PM by PIB Delhi
وزیراعظم: صفائی کے کیا فائدے ہوتےہیں؟
طالب علم:سر، ہمیں کوئی بیماری نہیں ہوسکتی اس سے ، ہمیشہ ہم صاف رہیں گے سر، اور ہمارا ملک اگر صاف رہے گا تو اور سب کو معلوم ہوگا کہ یہ جگہ صاف رکھنی ہے۔
وزیراعظم: بیت الخلا اگر نہیں ہوتا ہےتو کیا ہوتاہے؟
طالب علم: سر، بیماریاں پھیلتی ہیں۔
وزیر اعظم: بیماریاں پھیلتی ہیں...دیکھئے پہلے کا دور جب جب بیت الخلاء نہیں تھا، 100 میں سے 60 ،جن کے گھر میں بیت الخلاء نہیں تھا،ٹوائلیٹ نہیں تھا۔ تو وہ کھلے میں جاتے تھے اور ساری بیماریوں کی وجہ بنتے تھے اور اس میں سب سے زیادہ تکلیف ماؤں اور بہنوں کو ہوتی تھی،بیٹیوں کو ہوتی تھی۔ جب سے ہم نے یہ سوچھ بھارت ابھیان شروع کیا ہےتواسکولوں میں بیت الخلا بنائےسب سےپہلے،بچیوں کے لیے الگ بنائے اور اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ آج بچیوں کا ڈراپ آؤٹ ریٹ بہت کم ہوا ہے ،بچیاں اسکول میں پڑھ رہی ہیں توسوچھتا کا فائدہ ہوا کہ نہیں ہوا؟۔
طالب علم: یس سر۔
وزیراعظم: آج کس کس کی سالگرہ ہے؟
طالب علم: گاندھی جی اور لال بہادر شاستری جی کی۔
وزیر اعظم: اچھا ، آپ میں سے کوئی یوگ کرتے ہیں… ارے واہ ، اتنے سارے۔ آسن کے کیا فائدہ ہوتا ہے؟
طالب علم: سر، ہمارے جسم میں لچک آتی ہے۔
وزیر اعظم: لچک اور؟
طالب علم: سر، اس سے بیماریاں بھی کم ہوتی ہیں، سر، خون کی گردش بہت اچھی ہوتی ہے۔
وزیراعظم: ٹھیک ہے، آپ لوگ کبھی گھر میں یہ کون سی چیزیں کھانا پسند کریں گے۔ ماں بولتی ہوگی کہ سبزی کھاؤ،دودھ پیو، تو کون کون لوگ جھگڑا کرتے ہیں۔
طالب علم: سبھی سبزیاں کھا تےہیں۔
وزیراعظم: سبھی سبزیاں کھاتے ہیں، کریلابھی کھاتے ہو؟۔
طالب علم: کریلے کو چھوڑ کر ۔
وزیراعظم: اچھا، کریلے کو چھوڑ کر ۔
وزیر اعظم: کیا آپ جانتے ہیں کہ سوکنیا سمردھی یوجنا کیا ہے؟
طالب علم: جی سر۔
وزیر اعظم: یہ کیا ہے؟
طالب علم: سر، یہ آپ کی طرف سے شروع کی گئی ایک اسکیم ہے جس سے بہت سی لڑکیاں بھی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ لہٰذا جب ہم پیدا ہوتے ہیں اور 10 سال تک ہم اسے کھول سکتے ہیں، توسر،جب ہم 18 پلس کے ہو جاتے ہیں تو ہماری پڑھائی میں یہ بہت زیادہ مدد کرتی ہے ۔ اگر کوئی مالی مسئلہ نہ ہو تو ہم اس سے رقم نکال سکتے ہیں۔
وزیر اعظم: دیکھیں، بیٹی کی پیدائش کے ساتھ ہی سوکنیا سمردھی اکاؤنٹ کھولا جا سکتا ہے۔ اس بیٹی کے والدین ہر سال ایک ہزار روپے بینک میں جمع کراتے رہیں،ایک ہزار سالانہ یعنی 80-90 روپے ماہانہ۔ فرض کریں کہ 18 سال کے بعد اسے اچھی تعلیم کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے تو وہ اس میں سے آدھی رقم لے سکتی ہیں اور فرض کریں کہ آپ کی شادی 21 سال میں ہو رہی ہے اور اس کے لیے آپ کو پیسے نکالنے ہیں، اگر آپ ایک ہزار روپے رکھتے ہیں تو اس وقت جب آپ اسے نکالیں گے تو آپ کو لگ بھگ 50 ہزار روپے ملیں گے، تقریباً 30-35 ہزار روپے سود کے ملتے ہیں ۔ اور عام شرح سود پر بیٹیوں کو زیادہ سود دیا جاتا ہے جو کہ بینک سے 8.2 فیصد ہے۔
طالب علم: یہ نقشہ لگارکھا ہے کہ اسکول کوہمیں صاف ستھرا رکھنا چاہئے اور اس میں بچوں کو صفائی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہےکہ بچے صفائی کررہے ہیں۔
وزیر اعظم: ایک دن میں گجرات میں تھا۔ ایک اسکول ٹیچر تھے، انہوں نے حیرت انگیز کام کیا۔ ایک وہ علاقہ تھا جہاں سمندر کا ساحل تھا، پانی کھارا تھا، زمین بھی ایسی تھی،کوئی پیڑ پودا نہیں ہوتا تھا ۔ ہریالی بالکل نہیں تھی۔ تو انہوں نے کیا کیا، بچوں سےکہا ، سب کوانہوں نے بوتل دی، بسلیری کی خالی بوتل، یہ تو تیل کےکین آتے ہیں خالی ،وہ دھوکر کے صاف کرکے سب بچوں کو دیا،اور کہا کہ گھر میں ماں جب کھانا کھانے کے بعد برتن دھلیں تو کھانے کے برتن پانی سے جب دھوتی ہیں ،وہ پانی جمع کریں اور وہ پانی اس بوتل میں بھر کے ہر دن اسکول لے آؤ۔اور ہر ایک کو کہہ دیا کہ یہ پودا تمہارا۔اپنے گھر سے جو بوتل میں وہ اپنے کچن کا لائے گاوہ اس میں ڈالنا ہوگاپودے میں۔اب میں جب پانچ –چھ سال کے بعد اس اسکول میں گیا .....پورا اسکول اس سے بھی زیادہ ۔
طالب علم: یہ خشک فضلہ ہے اگر اس میں ہم خشک فضلہ ڈالیں گے اور اس میں گیلا فضلہ ڈالیں تو ایسی جگہ کریں گے توکھاد بنتی ہے۔
وزیراعظم: تو یہ آپ لوگ گھر میں کرتے ہیں؟
وزیر اعظم: ماں سبزی لینے جارہی ہے اور خالی ہاتھ جارہی ہے ، پھر پلاسٹک میں لے کر آتی ہے ،تو آپ سبھی ماں سے جھگڑا کرتے ہیں کہ ماں گھر سے تھیلا لے کر جاؤ ،یہ پلاسٹک کیوں لاتی ہو، گندگی گھر میں کیوں لاتی ہو؟ ، ایسا بتاتے ہیں... نہیں بتاتے ہیں ۔
طالب علم: سر، کپڑے کے تھیلے ۔
وزیراعظم: بتاتے ہیں؟
طالب علم: جی سر۔
وزیر اعظم:اچھا۔
وزیراعظم: یہ کیا ہے؟ گاندھی جی کا چشمہ اور گاندھی جی دیکھتے ہیں کیا؟ کہ صفائی کر رہے ہو کہ نہیں کررہے ہو؟ آپ کو یادرہےگا کیونکہ گاندھی جی ساری زندگی صفائی کے لیے کام کرتے تھے ۔ گاندھی جی ہر بار دیکھ رہے ہیں کہ صفائی کون کرتا ہے ، کون نہیں کرتا ہے۔ کیونکہ گاندھی جی ساری زندگی صفائی کے لیے کام کرتے تھے..… پتہ ہے نا؟، وہ کہتے تھے کہ میرے لئے آزادی اور صفائی دونوں میں سے اگر کوئی ایک چیز پسند کرنی ہے تو میں صفائی پسند کروں گا۔ یعنی وہ آزادی سے زیادہ صفائی کو اہمیت دیتے تھے۔ اب بتائیے ہماری صفائی مہم کوآگے بڑھنا چاہیے یا نہیں بڑھنا چاہئے؟
طالب علم: سر،بڑھانا چاہیے۔
وزیر اعظم: اچھا، آپ کو لگتا ہے کہ صفائی پروگرام ہونا چاہئے کہ صفائی عادت ہونی چاہیے۔
طالب علم: یہ عادت ہونی چاہیے۔
وزیراعظم: شاباش۔ لوگوں کو کیا لگتا ہے کہ یہ سوچھتا تومودی جی کا پروگرام ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سوچھتا ایک دن کا کام نہیں ہے،سوچھتا ایک فرد کا کام نہیں ہے، سوچھتا ایک خاندان کا کام نہیں ہے۔ یہ زندگی بھر ،365 اور جتنے سال زندہ رہے، ہر دن کرنے کا کام ہے اور اس کے لیے کیاچاہئے۔من میں ایک منتر چاہیے، اگر ملک کا ہر شہری یہ طے کر لے کہ میں گندگی نہیں پھیلاؤں گا ،تو کیا ہوگا؟
طالب علم: تو سوچھتا قائم ہوگی ۔
وزیراعظم: بتائیے۔ تو اب عادت کیا ڈالنی ہے۔میں گندگی نہیں پھیلاؤں گا ، پہلی عادت یہ ہے ۔طے ہے۔
طالب علم: جی سر۔
***********
ش ح ۔ ف ا ۔م ش
U. No.775
(Release ID: 2061376)
Visitor Counter : 29
Read this release in:
Telugu
,
English
,
Hindi
,
Bengali
,
Assamese
,
Manipuri
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Tamil
,
Kannada
,
Malayalam