وزیراعظم کا دفتر

ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے پیرس پیرا اولمپک گیمز 2024 کے لیے ہندوستانی دستے کے ساتھ وزیر اعظم کی بات چیت کا متن

Posted On: 19 AUG 2024 10:17PM by PIB Delhi

پیش کنندہ- ہیلو سر، اس کے بعد، سب سے پہلے ہم شیتل دیوی سے بات کریں گے جو ہماری تیر انداز ہیں، شیتل دیوی

وزیر اعظم - شیتل نمستے،

شیتل- ہیلو سر، جئے ماتا دی۔

وزیر اعظم - جئے ماتا دی.

شیتل- میں شیتل ہوں۔

وزیر اعظم- شیتل، آپ ہندوستانی دستے  کی سب سے کم عمر کھلاڑی ہیں  اور یہ آپ کا پہلا پیرا اولمپکس ہوگا۔ ذہن میں بہت کچھ چل رہا ہوگا۔ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کیا آپ کو کچھ تناؤ تومحسوس نہیں ہوتا؟

شیتل- نہیں سر، کوئی تناؤ نہیں ہے اور میں بہت خوش ہوں کہ میں اتنی چھوٹی عمر میں پیرالمپکس کھیلوں گی۔ اور یہ بڑی خوشی کی بات ہے،سر، کہ اتنے کم وقت میں اور اتنی کم عمر میں، میں یہاں پیرالمپکس میں کھیل رہی  ہوں۔ اور شرائن بورڈ کا بھی اس میں بڑا ہاتھ ہے، انہوں نے میرا بہت اچھا ساتھ دیا۔ سب نے بہت اچھا تعاون کیا۔ تبھی میں یہاں پہنچی ہوں۔

وزیر اعظم- اچھا شیتل، پیرس پیرا اولمپکس میں آپ کا ہدف کیا ہے اور آپ نے اس کے لیے کیا اور کیسے تیاری کی ہے؟

شیتل- جی سر، میری تیاری بہت اچھی چل رہی ہے، ٹریننگ بھی بہت اچھی چل رہی ہے ۔ اور میرا مقصد یہاں اپنے ملک کا ترنگا لہرانا ہے۔ مجھے یہاں اپنا قومی ترانہ بجانا ہے۔ سریہی میرا ہدف ہے۔ اور اس سے آگے میرے پاس کچھ نہیں ہے۔

 

وزیر اعظم: شیتل، جیسا کہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں، آپ اس گروپ میں سب سے چھوٹی ہیں۔ میرا آپ کو یہی مشورہ ہے کہ آپ اتنے بڑے ایونٹ سے کوئی دباؤ نہ لیں۔ جیتنے یا ہارنے کا دباؤ لیے بغیر اپنی بہترین کارکردگی پیش کریں۔ پورے ملک کی طرف سے اور میری طرف سے، سب کی نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اور ماتا جی کا آشیروادتو  ہمیشہ رہتا ہے، ماتا ویشنو دیوی کی کرپا تو  آپ پربرس ہی رہی ہے۔ میری طرف سے بہت سی نیک خواہشات۔

شیتل- شکریہ سر، ماتا رانی کا بھی  آشیرواد  مجھ پر ہے، اسی لیے میں اتنے کم وقت میں یہاں تک پہنچی ہوں۔ سر، ماتا رانی کی طرف سے مجھ پر بہت آشیرواد ہے اور سر، یہ تمام ہندوستانیوں کی دعا میرے ساتھ ہے سر ، جو میں اتنے کم وقت میں آج یہاں تک پہنچی ہوں۔ میرے پاس آپ کا بھی آشیرواد ہے سر شکریہ سر۔

وزیراعظم- بہت بہت نیک خواہشات۔

 پیش کنندہ- محترمہ اونی لیکھرا۔

 

وزیر اعظم- اونی نمستے

اونی لیکھرا- نمسکار سر!

وزیر اعظم- اونی، گزشتہ پیرالمپکس میں، آپ نے ایک گولڈ میڈل سمیت دو تمغے جیت کر پورے ملک کا سر فخر سے بلند کیا تھا۔ اس بار کیا ہدف مقرر کیا ہے؟

اونی لیکھرا- سر، پچھلی بار یہ میرا پہلا پیرا اولمپک گیمز تھا، اس لیے میں نے چار مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ تجربہ حاصل کر رہی تھی ۔ اس بار اولمپک سائیکل میں کھیل اور تکنیک دونوں لحاظ سے کافی پختگی آئی ہے۔ اس بار بھی میری کوشش ہو گی کہ میں جس بھی ایونٹس میں حصہ لے رہی ہوں اس میں اپنی بہترین کارکردگی پیش کروں۔ اور پورے ہندوستان کی طرف سے جوحمایت مل رہی ہے، اتنا پیارمل رہا ہے، پچھلے پیرا اولمپکس کے بعد، آپ نے اتنا سپورٹ کیا۔ مجھے اس سے بہت زیادہ ترغیب ملتی ہے۔ ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہاں جا کر مجھے اپنا بہترین  پیش کرنا ہےاور کچھ  اچھا کرنا ہے۔

 

وزیر اعظم- اونی، جب آپ ٹوکیو سے جیت کر واپس آئی تھیں ، اس کے بعد زندگی میں کیا تبدیلی آئیَ ؟ آپ نے اپنے آپ کو نئے مقابلے کے لیے مسلسل کیسے تیار رکھا؟

اونی لیکھرا- سر، جب میں نے پچھلی بار حصہ لیا تھا تو ایک رکاوٹ تھی کہ میں یہ کام کر پاؤں گی یا نہیں؟ لیکن جب میں نے اس میں دو تمغے جیتے تو وہ رکاوٹ ایک طرح سے ٹوٹ گئی۔ اور میں نے سوچا کہ اگر میں یہ ایک بار کر سکتی  ہوں تو  اگر میں سخت محنت کروں تو میں اور بھی کر سکتی ہوں۔ اور جب میں ہندوستان کے لیے حصہ لیتی ہوں، خاص طور پر وہیل چیئر پر، جب میں جا کر ملک کی نمائندگی کرتی ہوں، تو مجھے اتنا اچھا محسوس ہوتا ہے کہ میں وہیں واپس کرنےکی خواہش کرتی ہوں۔

وزیر اعظم- اونی، آپ کو اپنے آپ سے اور ملک کو آپ سے بہت سی امیدیں ہیں۔ لیکن میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان توقعات کو بوجھ نہ بننے دیں۔ امید کو اپنی طاقت بنائیں۔ آپ کے لیے نیک خواہشات۔

اونی لیکھرا- شکریہ سر!

پیش کنندہ – جناب ماریپن تھنگاویلو

مریپن تھنگاویلو- وانکمما سر۔

وزیر اعظم- مریپن جی، وانکمما۔ مریپن، آپ نے ٹوکیو پیرالمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ اس بارآپ چاندی کو سونے میں تبدیل کرنے کا ہدف لے کر چل رہے ہوگے ۔ آپ نے اپنے پچھلے تجربے سے اور کیا سیکھا؟

مریپن- سر، مجھے جرمنی میں تربیت مل رہی ہے۔ تربیت اچھی چل رہی ہے۔ پچھلی بار تھوڑی سی غلطی ہوئی اور چاندی کاتمغہ مل گیا۔ اس بار 100فیصد سونالے کر  آئے گا۔

وزیر اعظم - ضرور

مریپن - ضرور سر، 100 فیصد

وزیر اعظم- ٹھیک ہے مریپن، آپ کھلاڑی اور کوچ دونوں ہیں۔ جب آپ 2016 اور اب کے درمیان پیرا ایتھلیٹس کی تعداد کو دیکھیں تو ان کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ آپ اس تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں؟

مریپن- سر، میں پہلی بار 2016 میں پیرا اولمپکس میں شامل ہوا تھا۔ مجھے تھوڑا سا ڈر لگ رہا تھا کہ سونا ہی نہیں آرہا، وہ میرا سونا لے کر جا رہا ہے۔ ایسے وقت میں وہ میرا سونا لے گئے۔ گولڈ لینے کے بعد، زیادہ تر کھلاڑی، پیرا اولمپکس کا پورا عملہ۔ کھیلوں میں جو کچھ ہوا ہے اسے دیکھنے کے بعد زیادہ سے زیادہ لوگ میرے نام کی حمایت کے لیے باہر آ رہے ہیں۔ اب مجھے ہندوستان کے لئے 100 تمغے لانا چاہئے، مجھے انہیں ہندوستان کے نام کرنا چاہئے۔ یہ 100فی صڈ آ رہا ہے سر۔ (09:47)

وزیر اعظم- مریپن، ہماری کوشش ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کو کسی قسم کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آپ صرف اپنی کارکردگی پر توجہ دیں۔ ملک آپ کے ساتھ ہے۔ آپ کے لیے نیک خواہشات۔

مریپن- شکریہ سر۔

پیش کنندہ – جناب سمیت انتل

وزیر اعظم – سمیت نمستے۔

سمیت انتل - نمستے سر۔ ٹھیک ہے سر۔

وزیر اعظم- سمیت، آپ نے ایشین پیرا گیمز اور ٹوکیو پیرا اولمپکس میں گولڈ میڈل جیت کر ایک کے بعد ایک عالمی ریکارڈ بنائے ہیں۔ آپ کو اپنا ہی ریکارڈ توڑنے کی تحریک کہاں سے ملتی ہے؟

سُمیت انتل- سر، مجھے لگتا ہے کہ ہندوستان میں حوصلہ افزائی کی کوئی کمی نہیں ہے، ہمارے پی سی آئی کے صدر دیویندر جھانجھریا بھائی صاحب، نیرج چوپڑا بھائی صاحب کی طرح اور بھی بہت سے کھلاڑی ہیں جنہوں نے مجھ سے پہلے ملک کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔ ان سے ہی ہمیں تحریک ملتی ہے سر لیکن حوصلہ افزائی سے زیادہ، خود نظم و ضبط اور خود حوصلہ افزائی نے ایک کے بعد ایک  عالمی ریکارڈ توڑنے میں زیادہ کام کیا ہے، سر۔

وزیر اعظم- دیکھو سمیت، سونی پت کی تو مٹی بہت خاص ہے۔ اور آپ جیسے کئی عالمی ریکارڈ ہولڈر اور کھلاڑی یہاں سے ابھرے ہیں۔ ہریانہ کے اسپورٹس کلچر سے آپ کو کتنی مدد ملی ہے؟

سمیت انتل- بالکل سر، جس طرح سے یہاں کے لوگ سپورٹ کرتے ہیں اور حکومت جس طرح سے سپورٹ کرتی ہے، اس کا بڑا اثر ہے کہ سر، ہریانہ کے بہت سے کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر ملک کی نمائندگی کرتے ہیں اور ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ سرکار نے بھی بہت سپورٹ کیا سر، جس طرح سے لوگ یہاں کھیلوں کا کلچر بنا رہے ہیں، مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس سے زیادہ فائدہ ہو رہا ہے۔

وزیر اعظم- سمیت، آپ عالمی چیمپئن ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ پورے ملک کے لیے ایک تحریک ہیں۔ میری نیک تمنائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہیں گی۔ اپنی شاندار کارکردگی جاری رکھیں۔ پورا ملک آپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ میں آپ کو بہت چاہتا ہوں!

سمیت انتل - بہت بہت شکریہ سر۔

پیش کنندہ - محترمہ ارونا تنور

ارونا تنور- ہیلو سر! رکشا  بندھن پر آپ کو دلی مبارک باد!

وزیر اعظم- ارونا جی، آپ کو بھی بہت بہت مبارک ہو!

ارونا تنور- شکریہ سر!

وزیر اعظم- ارونا میں نے سنا ہے کہ آپ کی کامیابی میں آپ کے والد کا بڑا کردار ہے ۔ کیا آپ ہمیں ان کے تعاون اور اپنے سفر کے بارے میں کچھ بتائیں گی؟

ارونا تنور- سر، فیملی کے بغیر ہم عام ٹورنامنٹ نہیں کھیل سکتے۔ میں دوسری بار پیرالمپکس کھیلنے جا رہی ہوں۔ پاپا شروع سے ہی بہت سپورٹ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ میری والدہ نے بھی بہت تعاون کیا ہےکیونکہ جب سماجی دباؤ ہوتا ہے تو لوگ معذوروں کو ایک الگ نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ  کچھ نہیں کر سکتے لیکن میرے والدین نے مجھے یقین دلایا کہ میں بہت کچھ کر سکتی ہوں۔ آج میرے گھر میں مجھے اپنے بھائیوں سے کم نہیں سمجھا جاتا۔ امی کہتی ہیں کہ ہم تین بھائی ہیں اس لیے گھر والوں نے شروع سے ہی میرا بہت ساتھ دیا سر۔

وزیر اعظم: ارونا، پچھلے پیرالمپکس میں آپ ایک اہم میچ سے ٹھیک پہلے زخمی ہو گئی  تھیں۔ اس چوٹ کے بعد آپ نے خود کو کیسے متحرک رکھا اور آپ اس پر کیسے قابو پا سکیں؟

ارونا تنور- سر، جب آپ کسی اہم ٹورنامنٹ کی نمائندگی کرتے ہیں، جب آپ ہندوستان کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ بھی ایک ہی کھیل میں۔ میں نے پیرالمپکس میں پوری تائیکوانڈو کمیٹی کی نمائندگی کی، لیکن کہیں نہ کہیں میں چوٹ کی وجہ سے پیچھے رہ  گئی ۔ لیکن سر، ایک چوٹ آپ کے کھیل کو نہیں روک سکتی کیونکہ میرا مقصد بہت بڑا ہے۔ جب تک آپ زخمی نہیں ہوں گے، آپ کھیلوں سے لطف اندوز نہیں ہوں گے۔ کھیلوں میں چوٹیں ایک زیور کی طرح ہیں سر ، اس لیے کسی کھلاڑی کے لیے واپس آنا اتنا مشکل نہیں تھا سر، میں نے صرف اپنے آپ کو مضبوط رکھا۔ میرے کوچ، جو سندھیا بھارتی میڈم ہیں، اور میرے والدین نے مجھے بتایا کہ ایک پیرا اولمپکس آپ کے مستقبل کا فیصلہ نہیں کرتا، اور بھی بہت سے پیرا اولمپکس کھیلنے ہیں۔

وزیر اعظم- ارونا، آپ چوٹ کو زیور سمجھتی ہیں، یہ آپ کی ذہنیت ہے سب کو متاثر کرنے والی ہے۔ لیکن میں نہیں چاہتا کہ آپ ایسا زیور پہنو۔ ارونا آپ  ایک لڑاکا ہو اپنے کھیل اور اپنی زندگی دونوں میں ۔ آپ نے ملک کے لیے تمغے تو جیتے لیکن لاکھوں بیٹیوں کی حوصلہ افزائی بھی کی۔ آپ پیرس میں لڑاکا ذہنیت کے ساتھ شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ پورے ملک کی نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں۔

ارونا تنور- بہت شکریہ سر۔

وزیر اعظم: ٹھیک ہے، اب میں خود سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں، جن کا جواب آپ میں سے کوئی بھی دے سکتا ہے۔ خاص طور پر میں ان لوگوں کو چاہوں گا جو اب دیں جو اب تک خاموش رہے ہیں۔ ٹھیک ہے، آپ میں سے بہت سے کھلاڑی اپنے پہلے پیرا اولمپک گیمز کے لیے پیرس جا رہے ہیں۔ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ آپ پہلی بار اس طرح کے عالمی ایونٹ میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ جو ابھی تک نہیں بولے وہ جواب دیں!

اشوک ملک- سر، میرا نام اشوک ہے! سرمیں پہلی بار جا رہا ہوں! ہر کھلاڑی کا سر ایک خواب ہوتا ہے...

وزیر اعظم: کون سا مبارک نام ہے؟

اشوک ملک- اشوک ملک سر!

وزیر اعظم- اشوک جی، ہاں بتائیں!

اشوک ملک- اولمپکس کھیلنے کا خواب ہر کھلاڑی کا ہوتا ہے اور سرمیرا یہ خواب بھی پورا ہونے والا ہے۔ میں اپنے ملک کے لیے پیرس پیرالمپکس میں بھی جارہا ہوں سر۔ میں وہاں اپنی بہترین پرفارمنس دوں گا، اگر ممکن ہوا تو اپنے ملک کے لیے میڈل بھی لاؤں گا۔

وزیر اعظم - اشوک آپ کہاں کے ہیں؟

اشوک ملک- سر ہریانہ سے، سونی پت سے!

وزیر اعظم- سونی پت سے، آپ بھی سونی پت سے ہیں!

اشوک ملک- جی  سر!

وزیر اعظم: ٹھیک ہے، آپ میں سے کتنے دوسرے یا تیسرے پیرالمپکس یا اس سے زیادہ گیمزکے لیے جا رہے ہیں؟ یا آپ کے پہلے پیرا اولمپکس سے یہ کتنا مختلف محسوس ہوتا ہے کیونکہ آپ وہاں پہلے جا چکے ہیں، اب آپ وہاں گئے ہیں، کون بتا سکتا ہے؟

امیت سروہا- سرنمسکار!

وزیراعظم- نمسکار جی!

امیت سروہا- سر، میں امیت سروہا ہوں اور یہ میرا چوتھا پیرا اولمپک گیمز ہے اور میں ٹیم کا سب سے سینئر کھلاڑی ہوں، جو چوتھی بار پیرا اولمپک گیمز کے لیے جا رہا ہوں۔ سر، سب سے بڑی تبدیلی جو آئی ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم 2012 میں گئے تھے تو ہمیں صرف ایک تمغہ ملا تھا اور اس کے بعد میں نے دوسرا تیسرا اولمپکس کھیلا تھا، میں پیرا اولمپک گیمز میں گیا تھا، سر وہاں ہمیں اپنے تمغے ملے اور  ٹیم کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا رہا اور اب ہمارے پاس 84 کھلاڑی ہیں۔سر ایس اے آئی نے اس میں بہت بڑا کردار ادا کیا ہے کیونکہ ہماری ٹیم کو جو تعاون اور مالی تعاون مل رہا تھا اس میں بہت اضافہ ہوا ہے، سر۔ اور کہیں نہ کہیں 2015 کے بعد ٹی او پی ایس کی آمد سے ہمیں اتنی پذیرائی ملی ہے کہ سراب ہم بیرون ملک کہیں بھی سفر کر سکتے ہیں اور کہیں بھی ٹریننگ کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے پاس پرسنل کوچز، پرسنل فزیو، پرسنل سپورٹنگ اسٹاف بھی ہے، سرجو بھی ضرورتیں ہیں، وہ پوری ہورہی ہیں اور اسی کی وجہ سے ہم اتنی اچھی کارکردگی دکھانے میں کامیاب ہوئے ہیں کہ آج ہم امید کر رہے ہیں کہ سر ، اس بار ہم ہربار کے ریکارڈ سے زیادہ میڈل اس بار جیتیں گے ۔

وزیر اعظم-اچھا میں ، اس گروپ میں بہت سے نوجوانوں کو دیکھ رہا ہوں جو ابھی تک اپنے اسکول یا کالج میں ہیں۔ آپ اپنی پڑھائی کے ساتھ کھیلوں کا انتظام کیسے کرتے ہیں؟

ردرانش کھنڈیلوال: میرا نام ردرانش کھنڈیلوال ہے۔ میں بھرت پور راجستھان سے ہوں اور اس سال ہی میں نے بارہویں کے بورڈ امتحانات دیئے تھے اور میں بہت اچھے نمبروں سے پاس ہوا تھا، میرے پاس 83 فیصدنمبر تھے اور اس وقت نئی دہلی میں ورلڈ کپ بھی چل رہا تھا، اس لیے میں دونوں کام ایک ساتھ کر رہا تھا۔ انتظام کر رہا تھا۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ تعلیم اور کھیل دونوں زندگی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، کیونکہ کھیل آپ کے کردار کو نکھارتا ہے، آپ کو ہر روز بہتر بناتا ہے اور تعلیم آپ کو یہ بھی بتاتی ہے کہ زندگی کیسے گزاری جائے اور آپ کے حقوق کیا ہیں،یہ سب باتیں بتاتی ہے۔ تو میرا خیال ہے کہ سر دونوں کو سنبھالنا اتنا مشکل نہیں اور دونوں بہت ضروری ہیں۔

وزیر اعظم- اچھا، پیرا ایتھلیٹس کی تجویز پر ہی  ہم نے دسمبر 2023 میں پہلی بار انڈیا پیرا گیمز کا انعقاد کیا۔ کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ اس طرح کی تقریب کھیلوں کے ماحولیاتی نظام  میں کس طرح مدد دیتی ہے؟

بھاوینا:نمسکار سر!

وزیراعظم- نمستے؟

بھاوینا:بھاویناسر!

وزیراعظم- جی بھاوینا ، آپ کیسی ہیں؟

بھاوینا:  میں ٹھیک ہوں سر، آپ کیسے ہیں؟

وزیراعظم- ہاں بھاوینا، بتاؤ!

بھاوینا: سر کھیلو انڈیا مہم نے پچھلے کچھ سالوں میں ہندوستان میں کھیلوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کی وجہ سے نچلی سطح سے کھیلوں کی بہت سی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ جب سے کھیلو انڈیا میں پیرا کھیلوں کو شامل کیا گیا ہے، پیرا کھلاڑیوں کو ایک اچھا پلیٹ فارم اور نئی سمتیں ملی ہیں۔ میں جو بہترین مثال دے سکتی ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے کھیلو انڈیا کے 16 کھلاڑی پیرس پیرالمپکس کے لیے کوالیفائی کر چکے ہیں۔

وزیراعظم- واہ! اچھا،کھلاڑیوں کے لیے چوٹ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پیرا اولمپکس کی تیاری کے دوران ایتھلیٹ زخموں سے کیسے نمٹتے ہیں؟ آپ اپنے آپ کو کیسے متحرک رکھتے ہیں؟

ترون ڈھلو:نمستے سر!

وزیر اعظم - نمستے؟

ترون ڈھلو: سر، میرا نام ترون ڈھلو ہے۔ میں حصار، ہریانہ سے ہوں! سر، میرا بیڈمنٹن کھیل ہے سر اور سر آپ نے چوٹ کے بارے میں پوچھا تو میں آپ کو اپنا ایک تجربہ بتاؤں گا ۔ سر، 2022 میں کینیڈا انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کے میچ کے دوران میرے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹ گئی، سر یہ ایک بیڈمنٹن کھلاڑی کے لیے شدید چوٹ ہے، اور سر، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں ایک ٹاپس (ٹی او پی ایس)ایتھلیٹ ہوں۔ اور تمام کھلاڑیوں اور سر، میں آپ کو بتانا چاہوں گا کہ اس وقت ٹی او پی ایس میں  ہونے کی وجہ سے،ایس اے آئی کے عہدیداروں اورا سپورٹس ایس اے آئی  کی ٹیم نے میری بہت مدد کی اور وہاں سے مجھے بزنس کلاس میں ہوائی جہاز کے ٹکٹ کے ساتھ خصوصی درخواست پر ہندوستان لایا گیا تھا اور میری سرجری بہترین ڈاکٹر نے کی تھی۔ ڈاکٹر دنشا، وہ ممبئی میں ہیں۔ اور بہت ہی کم وقت کے اندر، میں نے اپنی چوٹ کی سرجری کروائی اورایس اے آئی حکام نے میری جسمانی صحت اور دماغی صحت کے لیے جو تعاون دیا، اس سرجری کے بعد، جو ایک کھلاڑی کے لیے کھیل میں واپس جانے کے لیے سب سے اہم ہے۔ تو اس کے لیےسر، بحالی کے لیے، مجھے زمینی سطح پر ایس اے آئی کے ذریعہ ٹی او پی  ایس اسکیم کے ذریعہ ایک فزیو دیا گیا۔ اور سر میرے ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ صحت یاب ہونے میں 10-11 ماہ لگیں گے لیکن  سر ایس اے آئی کے تعاون کی وجہ سے میں کہوں گا کہ میں7 ماہ میں ٹھیک ہو گیا اور 8ویں مہینے میں ، میں انٹرنیشنل ٹورنامنٹ کھیلنے گیا اور سرمیں نے وہاں پر گولڈ میڈیل جیتا۔ توسر مجھے لگتا ہے کہ آج کےدور میں ٹی او پی ایس اسکیم کی وجہ سے ہم جیسے لوگ جو ایک متوسط ​​گھرانے سے آتے ہیں، اتنی بڑی چوٹوں کو آسانی سے ٹھیک کر سکتے ہیں اور اپنا دوبارہ کھیلوں میں جانے کا خواب پورا کر سکتے ہیں۔اپنا ہدف  آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں.

وزیراعظم- آپ کو بہت بہت مبارک باد! ویسے آپ میں سے بہت سے لوگوں کے سوشل میڈیا پر بہت زیادہ فالوورز ہیں، کیا آپ میں سے کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کھیلوں کے لیے کس طرح مدد کرتا ہے؟

یوگیش کتھونیا: ہیلو سر! ہر ہر مہادیو! میرا نام یوگیش کتھونیا ہے، میں بہادر گڑھ، ہریانہ سے ہوں۔ توسر اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کا اثر پیرا اسپورٹس پر بہت مثبت رہا ہے، بہت سی چیزیں پہلے نمبر پر آتی ہیں، لوگوں میں وہ شعور بڑھ گیا ہے جو پہلے نہیں تھا، آہستہ آہستہ ہندوستان کے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ پیرا اسپورٹس یہ بھی ایک چیز ہے اور بہت سے نئے کھلاڑی جو آنا چاہتے ہیں، اسے سوشل میڈیا سے دیکھیں اور پیرا سپورٹس کی طرف آئیں۔ بہت سے معذور لوگ صرف یہ سوچتے تھے کہ انہیں پڑھنا ہے اور یہ کام کرنا ہیں لیکن آہستہ آہستہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تعداد بڑھ رہی ہے اور بہت سے لوگ پیرا سپورٹس کی طرف بھی آرہے ہیں۔ اور پیرا اسپورٹس کے سوشل میڈیا کی وجہ سے بھی بہت زیادہ ویزیبلٹی بڑھ جاتی ہے اور ہمیں سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے جڑنے کا موقع ملتا ہے، ہمارے بہت سارے مداح ہیں اور بہت سارے لوگ جو ہماری ویڈیوز دیکھتے ہیں، وہ ہماری ویڈیوز دیکھ کر تحریک حاصل کرتے ہیں۔ اگر گراس روٹ لیول کے نئے کھلاڑی ویڈیو دیکھیں تو وہ اسے اپنی مشقوں میں بھی شامل کر سکتے ہیں۔ تو اس کا مطلب ہے کہ سوشل میڈیا نے پیرا اسپورٹس کی ترقی میں بہت زیادہ اثر ڈالا ہے۔

پیش کنندہ: سر، آپ سے درخواست ہے کہ ہمارے کھلاڑیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے کچھ دعائیں دیں ،۔ شکریہ سر

وزیر اعظم- ملک کے وزیر کھیل جناب منسکھ منڈاویہ جی، وزیر مملکت برائے کھیل رکشا کھڈسے جی۔ دنیا کے کونے کونے میں پیرا اولمپک کھلاڑی، کوچ اور عملے کے لوگ ۔ مجھے بہت خوشی ہوئی کہ مجھے آج آپ لوگوں کے ساتھ بات کرنے کا موقع ملا۔ اب ہم سب وی سی کے ذریعے ریموٹ کوچنگ کے مرحلے میں ہیں، اس وقت مجھے بھی آپ سے ملنے کا موقع ملا۔ دیکھو، آپ سبھی ہندوستان کے پرچم بردار بن کر پیرس جا رہے ہیں۔ یہ سفر آپ کی زندگی اور آپ کے کیریئر کا ایک بہت اہم سفر ہونے والا ہے، اور آپ کا یہ سفر ملک کے لیے بھی اتنا ہی اہم ہے۔ ملک کا فخر پیرس میں آپ کی موجودگی سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے، آج پورا ملک آپ کو آشیرواد دے رہا ہے، اور ہمارے یہاں روایات ہیں، جب ہم آپ کو اس طرح نوازتے ہیں، لوگ کہتے ہیں - وجے بھوو! 140 کروڑ ہم وطن آپ کو آشیرواد دے رہے ہیں - آپ کی فتح ہو۔ آپ کے جوش و خروش سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ سبھی ٹوکیو اور ایشین پیرا گیمز کی طرح  نئے ریکارڈ بنانے کے لیے بے چین ہیں۔ نکل پڑیں اور دکھادیں کہ ہمت اور حوصلے کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ پیرس پیرا اولمپکس کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات۔

دوستو،

کسی بھی کھیل کا کھلاڑی جب اتنے بڑے پلیٹ فارم پر پہنچتا ہے تو اس کے پیچھے ہمت، لگن اور قربانی کی پوری کہانی ہوتی ہے۔ کھلاڑی کوئی بھی ہو اس کی بنیاد ہمت پر استوار ہوتی ہے۔ کھلاڑی نظم و ضبط کی طاقت سے آگے بڑھتا ہے۔ اس کی کامیابی اس کی خود اعتمادی اور خود پر قابو پانے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیکن جب پیرا ایتھلیٹس کی بات آتی ہے تو یہ سچائی اور یہ چیلنج کئی گنا بڑا ہو جاتا ہے۔ آپ کا یہاں پہنچنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ اندر سے کتنے مضبوط ہیں۔ آپ کی کامیابی ظاہر کرتی ہے کہ آپ میں نہ صرف منفی ہواؤں بلکہ منفی طوفانوں کا بھی مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔ آپ نے معاشرے کے قائم کردہ عقائد کو شکست دی ہے، آپ نے جسم کے چیلنجوں کو شکست دی ہے۔ اس لیے کامیابی کا منتر بھی آپ ہی ہیں، آپ ہی کامیابی کی مثال ہیں اور آپ ہی کامیابی کی دلیل ہیں۔ اگر آپ پورے اعتماد کے ساتھ میدان میں اتریں گے تو آپ کو جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

دوستو،

گزشتہ برسوں میں پیرا گیمز میں ہندوستان کا غلبہ کس طرح بڑھا ہے۔آپ سبھی ہندوستان کی کامیابی کے گواہ ہیں۔ہندوستان نے 2012 کے لندن پیرالمپکس میں صرف ایک تمغہ جیتا تھا۔ ہمیں سونا نہیں ملاتھا۔ 2016 میں ہندوستان نے ریو میں 2 گولڈ اور کل 4 تمغے جیتے تھے۔ اور… ہم نے ٹوکیو پیرالمپکس میں ریکارڈ 19 تمغے جیتےتھے۔ ہندوستان نے 5 طلائی، 8 چاندی اور 6 کانسی کے تمغے جیتے تھے۔ آپ میں سے  بہت سے کھلاڑی ہمارے دستے کا حصہ تھے اور تمغے بھی جیتے تھے۔ پیرا اولمپکس کی تاریخ میں ہندوستان نے اب تک جتنے 31 تمغے جیتے ہیں، ان میں سے 19 صرف ٹوکیو میں آئےتھے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ پچھلے 10 برسوں میں ہندوستان نے کھیلوں اور پیرا گیمز میں کتنی اونچی اڑان بھری ہے۔

دوستو،

کھیلوں میں ہندوستان کی کامیابیاں کھیلوں کے تئیں سماج کے بدلتے ہوئے رویہ کی عکاس ہیں۔ ایک زمانہ تھا، گیمز کو تفریحی سرگرمی سمجھا جاتا تھا، جو بھی خالی ہوتا تھا وہ کھیلتاتھا۔آج جو کھیلتا ہے وہ کھلتا ہے۔ خاندان میں بھی جو کوئی بہت زیادہ کھیلتا تھا اسے ڈانٹ دیا جاتا تھا، کھیل کو کیریئر نہیں سمجھا جاتا تھا، اسے کیریئر میں رکاوٹ سمجھا جاتا تھا، کھیلوں میں مواقع نہ ہونے کے برابر تھے۔ میرے معذور بھائیوں اور بہنوں کو بھی کمزور اور محتاج سمجھا جاتا تھا۔ ہم نے اس سوچ کو بدلا اور ان کے لیے مزید مواقع پیدا کیے۔ آج پیرا سپورٹس کو بھی دیگر کھیلوں کی طرح ترجیح ملتی ہے۔ اب ملک میں 'کھیلو انڈیا پیرا گیمز' بھی شروع ہو چکے ہیں۔ پیرا ایتھلیٹس کی مدد کے لیے گوالیار میں ایک پیرا اسپورٹس ٹریننگ سینٹر بھی قائم کیا گیا ہے۔ ہمارے پیرا ایتھلیٹس ٹاپس اور کھیل انڈیا کی سہولیات سے مستفید ہو رہے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس گروپ میں 50 کھلاڑی ٹاپس اسکیم سے وابستہ ہیں اور 16 کھلاڑی کھیلو انڈیا کے کھلاڑی ہیں۔ آپ کی خصوصی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے غیر ملکی کوچز، ماہرین اور معاون عملہ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اور اس بار آپ کو پیرس میں ایک اور شاندار چیز دیکھنے کو ملے گی۔ پیرس پیرا اولمپک گیمز ولیج میں آپ سب کے لیے ایک خصوصی ریکوری سینٹر بھی بنایا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ ریکوری سنٹر بھی آپ کے لیے بہت مددگار ثابت ہوگا۔

دوستو،

پیرس 2024 پیرا اولمپکس ملک کے لیے بہت سے دوسرے طریقوں سے خاص ہیں۔ کئی گیمز میں ہمارے سلاٹس میں اضافہ ہوا ہے، ہماری شراکت  بڑھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پیرس پیرا اولمپک گیمز ہندوستان کے سنہری سفر میں ایک بڑا سنگ میل ثابت ہوں گے۔ جب آپ نئے ریکارڈ بنانے کے بعد وطن واپس آئیں گے تو ہم آپ سے دوبارہ ملیں گے۔ ایک بار پھر، پورے ملک کی طرف سے آپ سب کو بہت سی نیک خواہشات۔ اور ملک آپ کے لیے صرف ایک منتر کہہ رہا ہے – وجئی بھوؤ!۔ وجئی بھوؤ!، وجئی بھوؤ!۔

شکریہ!

***************

 

(ش ح۔ج ق۔ ج ا)

U:10048



(Release ID: 2047221) Visitor Counter : 18