وزارت خزانہ
azadi ka amrit mahotsav

بھارت کو آب و ہوا میں تبدیلی کے مسئلے کو مغرب کے ‘ سبھی  کے لیے ایک حل ’  کے بجائے ‘مقامی تناظر ’ میں دیکھے جانے کی ضرورت ہے


مشن لائف انسان اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی پر توجہ مرکوز کرتا ہے ، جو کہ عالمی آب و ہوا میں تبدیلی کے مسئلے کی اصل وجہ  ، ‘ضرورت سے زیادہ  استعمال ’ کے بجائے سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کو فروغ دیتا ہے

Posted On: 22 JUL 2024 2:17PM by PIB Delhi

آب و ہوا میں تبدیلی سے نمٹنے کے مغربی نقطہ نظر پر تنقیدی نظر ڈالتے ہوئے ، اقتصادی جائزہ  24-2023 ء    نے تمام ترقی پذیر ممالک کو آب و ہوا میں تبدیلی کے مسئلے کو ‘ مقامی تناظر ’ میں دیکھے  جانے پر زور دیا گیا ہے ۔  اس میں کہا گیا ہے کہ  ‘ سب کے لیے ایک ہی حل ’ والا نقطہ ٔنظر کام نہیں کرے گا اور ترقی پذیر ممالک کو اپنے راستے کا انتخاب  خود کرنے کے لیے آزاد ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں آب و ہوا  میں تبدیلی سے متعلق  با معنی  کارروائی کے ساتھ ترقیاتی اہداف کو  بھی متوازن کرنے کا کام  دیا گیا ہے۔

اقتصادی جائزہ 24-2023 ء ، میں خزانہ اور کارپوریٹ امور  کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا  سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں  واضح طور پر کہا کہ آب و ہوا میں تبدیلی کے لیے موجودہ عالمی حکمت عملی ناقص ہیں اور عالمی سطح پر سبھی کے لیے قابل اطلاق نہیں ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مغرب کے طرز عمل کو اپنانا  ، بھارت کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے  ، جہاں ثقافت، معیشت، معاشرتی اصول پہلے ہی ماحولیات  سے جڑے ہوئے ہیں۔

دستاویز میں اجاگر کیا گیا ہے کہ بھارت کو ، آب و ہوا سے متعلق کارروائی میں اہم پیش رفت کرنے کے باوجود، اکثر مغربی حل کے ساتھ ہم آہنگ نہ ہونے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ تنقید بھارت کے منفرد سماجی اور ثقافتی تانے بانے کے لیے ستائش کی کمی کی وجہ سے ہے، جو پہلے ہی پائیدار ترقی کے لیے وافر نظریہ رکھتا ہے۔ یہ ان موروثی تضادات کی نشاندہی کرتا ہے ، جہاں ترقی یافتہ دنیا کے آب و ہوا میں تبدیلیوں سے نمٹنے کے حل ،  عالمی سطح پر مطابقت نہیں رکھتے ، جو مندرجہ ذیل ہیں:

  • مغربی نقطہ نظر مسئلہ کی اصل وجہ یعنی  ضرورت سے زیادہ  استعمال کو حل کرنے کی کوشش نہیں کرتا ، بلکہ ضرورت سے زیادہ استعمال کے حصول کے  لیے ذرائع کے متبادل کا انتخاب کرتا ہے۔
  • مصنوعی ذہانت اور نایاب معدنیات کی بڑی مقدار میں کان کنی جیسی توانائی سے بھرپور ٹیکنالوجیز کے عالمی حصول نے صرف معدنی ایندھن کی زیادہ کھپت میں اضافہ کیا ہے۔ یہ آب و ہوا کی تبدیلی  میں کمی لانے کے بیان کردہ مقاصد سے براہ راست متصادم ہے۔
  • ترقی یافتہ ممالک میں طرز زندگی فطرت کے ساتھ، دوسرے لوگوں کے ساتھ، مادیت کے ساتھ اور خود کے ساتھ انسانوں کے بنیادی تعلق کو نظر انداز کرتی ہے۔

اقتصادی جائزہ 24-2023ء  میں  اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا کے دیگر حصوں میں رائج حد سے زیادہ استعمال کی ثقافت کے بالکل برعکس بھارت کی اقدار فطرت کے ساتھ ہم آہنگی پر زور دیتی ہیں  اور اس طرح مغربی معاشروں کو درپیش مسائل کا پائیدار حل پیش کرتی ہیں ۔ مثال کے طور پر:

  • ترقی یافتہ دنیا میں گوشت کی پیداوار کے عمل سے غذائی تحفظ کے قابل اعتبار خطرات اور زمین، پانی اور قدرتی وسائل کو مستقل طور پر تباہ کرنے کا خطرہ ہے  ، جو انسانی بقا کے لیے اہم ہیں۔ مویشیوں کو کھانا کھلانے کے لیے انسانوں کے کھانے والی  فصلوں پر انحصار نے ایک ‘انسانی خوراک اور مویشیوں کے چارے ’ کے درمیان مسابقت پیدا کر دی ہے کیونکہ آج پیدا ہونے والے نصف سے بھی کم اناج براہ راست انسانوں کے کھانے کے لیے استعمال  کئے جاتے ہیں۔ یہ اعداد و شمار کئی ترقی یافتہ ملکوں میں ، اس سے بھی کم ہیں۔
  • جائزے  میں کہا گیا ہے کہ ترقی پذیر دنیا کے روایتی کاشت کاری کے طریقے، جہاں کئی زرعی سرگرمیاں مویشی پروری کے ساتھ مربوط ہیں، مسئلے کا ایک حل پیش کرتے ہیں۔  کھیتی کے فضلے اور دیگر زرعی  پیداوار   کو مویشیوں کی خوراک کے طور پر دوبارہ تیار کرنا  ، نہ صرف گوشت کی پیداوار کی مالی اور ماحولیاتی لاگت کو کم کرتا ہے بلکہ قدرتی سائیکل میں توازن بھی پیدا کرتا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا ہے کہ مویشیوں کو انسانوں کے لیے قابل استعمال خوراک  سے  منتقل کرکے  ، عالمی سطح پر قابل کاشت زمین کے  قابل قدر حصے کو خالی کرایا جا سکتا ہے  ، جس سے عالمی  سطح پر بھوک کے مسئلے کو حل کیا جاسکتا ہے ۔
  • اسی طرح، مغربی ماڈل میں نیوکلیئر فیملیز  ( انفرادی  خاندان ) کے طرز کو اپنانے سے زیادہ جگہ اور وسائل کی ضرورت ہوتی ہے ، جس سے ماحولیات پر اثر پڑتا ہے  ، کیونکہ انفرادی خاندانوں کی بستیوں میں اضافے کے رجحان سے ‘شہر کے  پھیلاؤ ’ میں اضافہ ہوتا ہے ۔  اس کے علاوہ ،  ان مقامات پر رہنا ، جو کنکریٹ  کے بنے ہوئے ، بند  اور کم ہوا دار ہوتے ہیں ، گرمیوں کے دوران زیادہ توانائی کا استعمال کرتے ہیں ۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ ‘ روایتی نسل در نسل  کے لیے  گھروں ’ کی طرف تبدیلی پائیدار رہائش کی راہ ہموار کرے گی۔ گھروں کی تعمیر، اچھی ہوادار جگہوں کے ساتھ مرکزی صحن، اور قدرتی روشنی اور ٹھنڈک کے لیے مقامی طور پر سامان اور مزدوری کا حصول وسائل اور توانائی کی ضروریات کو کم کرکے ماحول پر مثبت اثر ڈالے گا۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایسے گھر بزرگوں کے لیے بھی بے حد فائدہ مند ثابت ہوں گے ۔

 

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image00130DR.jpg

 

اقتصادی جائزے میں ، ان مسائل کا حل  پیش کرنے کے لیے، وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے مشن لائف  کے نقطہ نظر کو  پیش کیا گیا  ہے۔ اس میں ‘ماحول کے لیے طرز زندگی ’ کی سفارش کی گئی ہے  ، جس میں لوگوں کو فطرت کو نقصان پہنچائے بغیراپنی ‘خواہشات ’ کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ طریقۂ  کار آب و ہوا میں تبدیلی کے خلاف جنگ میں انفرادی ذمہ داری کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ پائیداری بھارتی اقدار کی بنیاد ہے۔

مشن میں  زیادہ پائیدار طریقے سے زندگی گزارنے کی خاطر افراد  کو اپنانے کے لیے فہرست میں  لائف 75  سرگرمیاں شامل کی گئی ہیں  ۔ اس کا مقصد ضرورت سے زیادہ استعمال کے بجائے سوچ سمجھ  کر استعمال کرنے کو فروغ دینا ہے ۔ یہ ایک سرکلر اکانومی اور فضلہ کی مصنوعات کے دوبارہ استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔  ماحولیات پر کم سے کم  اثرات کے ساتھ  مقامی پودوں پر مبنی کھانوں کو  فروغ دیتا ہے اور  پانی اور توانائی کی بچت کرتا ہے۔

جائزے میں بین الاقوامی توانائی ایجنسی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں مشن لائف  کے اقدام  میں دیئے گئے اقدامات اور سرگرمیوں کو اپنانے سے 2030ء میں سالانہ عالمی کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 2 بلین ٹن سے زیادہ کی کمی ہو گی (2030 ء تک 20 فی صد اخراج میں کمی کی ضرورت ہے ) اور صارفین کی تقریباً 440 بلین امریکی ڈالر کی بچت ہو گی۔

آخر میں، جائزے میں مشن ‘ لائف ’  کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے   زور دیا گیا ہے کہ آب و ہوا میں تبدیلی پر عالمی تحریک خود مختار انتخاب اور معاشی ضروریات کے مطابق ہونی چاہیے اور  یہ کہ  اسے انفرادی رویے پر مرکوز  ہونا چاہیے ۔  اس میں مزید کہا گیا ہے کہ ‘اب  وقت آ گیا ہے کہ معاشروں کی  یکسانیت کے ساتھ دوبارہ تعمیر کی جائے  ’۔

*********

) ش ح – و ا  -  ع ا )

U.No. 8524


(Release ID: 2035078) Visitor Counter : 64