وزیراعظم کا دفتر

گجرات کے جمبوگھوڑا میں مختلف ترقیاتی کاموں کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے پی ایم کے خطاب کا متن

Posted On: 01 NOV 2022 10:30PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

آج گجرات کے قبائلی برادری اور پورے ملک کے لئے ایک بہت ہی اہم دن ہے ،ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے میں مان گڑھ دھام میں تھا۔ اور آزادی کا امرت مہوتسو کے دوران ، مجھے قبائلیوں کی طرف سے پیش کی گئی عظیم قربانیوں کو سلامی دینے کاموقع حاصل ہوا  اور میں نے ہزاروں شہید ہونے والے قبائلی بھائیوں اوربہنوں کو ، جن میں  گووند گرو کا نام بھی شامل ہے، خراج عقیدت پیش کیا ۔ اس وقت میں جمبو گھوڑا میں آپ کے ساتھ ہوں ،  اور یہ وہ مقام ہے جو ہمارے قبائلی سماج کی عظیم قربانیوں کا گواہ رہا ہے ۔ آج ہمیں امر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک موقع ملا ہے جن میں شہید جوریا پرمیشور، روپ سنگھ نائک، گلالیا نائک ،  روجیدا نائک، اور بباریا گالما نائک کے نام شامل ہیں ۔ آج ہم صحت، تعلیم اور صلاحیت سازی  سے تعلق رکھنےوالی   اسکیموں کے ساتھ بنیادی سہولتوں کو توسیع دے رہے ہیں ۔ ان سہولیات کاآج سنگ بنیاد رکھا جارہا ہے اور یہ اسکیمیں قبائلی سماج کے افتخار کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔گووند گرو یونیورسٹی کے انتظامی کیمپس کو بہت خوبصورت شکل دے دی گئی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی اس علاقے میں کیندر ودیالیہ یا سینٹرل اسکول کے قیام  سے استفادہ کرتے ہوئے میری اگلی نسلیں ملک کے پرچم کو بڑے افتخار کے ساتھ بلند رکھیں گی ۔ ان اسکیموں میں حصہ لینے کے لئے آنےوالےاپنےتمام بھائیوں اوربہنوں کو میں اپنے دل کی انتہائی گہرائیوں کےساتھ مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔

بھائیو اور بہنو،

جمبوگھوڑا میرے لئے کوئی نئی جگہ نہیں ہے ۔ میں یہاں ان گنت بار آچکا ہوں ۔ جب جب بھی میں  یہاں آتا ہوں ، تو مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک مقدس  جگہ پرآگیا ہوں ۔ جمبو گھوڑا اور اس کے علاوہ تمام علاقے میں ، نائک دا تحریک نے ، جس نے 1857 کے انقلاب میں ایک نئی روح پھونک دی تھی ، لوگوں میں ایک نیا شعور پیدا کیا  ہے ۔پرمیشور جوریا جی نے اس تحریک کو وسعت دی تھی اور روپ سنگھ نائک نےبھی اس تحریک میں ان کا سا تھ دیا تھا ۔ 1857 کے انقلاب کے دوران تانتیا ٹوپے اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے ، لیکن بہت سے لوگوں کو اس بات کی خبرنہیں ہوگی  کہ جن لوگوں نے تانتیا ٹوپے کے شانہ بہ شانہ جنگ کی تھی وہ اس علاقے کے ویر بنکا سے تعلق رکھتے تھے ۔

یہ لوگ مادر وطن کے لئے حیرت انگیز طور پر جرأت و ہمت اور محبت رکھتے تھے۔ وسائل محدود ہونے کے باوجود ، ان لوگوں نے برطانوی سامراج سے  بھر پور مقابلہ کیا اور قربانیاں پیش کرنے میں کبھی نہیں ہچکچائے۔میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے اس مقدس جگہ کو سلامی دینے کاموقع حاصل ہوا ، یعنی وہ درخت  جس پر ان قبائلی سورماؤں کو پھانسی دے کر شہید کردیا گیا تھا ۔ سال  2012 میں ، میں نے وہاں ایک کتاب کا اجرا بھی کیا تھا ۔

دوستو،

بہت عرصہ قبل ہم نے گجرات میں ایک اہم کام شروع کیا تھا ۔یہ کام تھا اسکولوں کے نام  شہیدوں کے نام پر رکھنا ، جس کا مقصد یہ تھا کہ اسکولوں میں پڑھنے والے بچے اورآنے والی نسلیں اپنےآبا واجداد کے شجاعانہ کارناموں سے واقفیت حاصل کرسکیں ۔ اسی کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم ویدک اورڈانڈیا پورا کے اسکولوں کو  امر شہیدوں سنت جوریا پرمیشورا اور روپ سنگھ نائک کے ناموں کے اضافے کے ساتھ زندۂ جاوید بنارہے ہیں۔  آج ان اسکولوں کو ایک نئی شکل دی جاچکی ہے اوران میں  کمروں اوران کے سا ز وسامان کے ساتھ جدید ترین سہولیات فراہم ہیں  اورآج میں  نے ان اسکولوں میں ان دونوں قبائلی سورماؤں کے عظیم مجسموں کی نقاب کشائی کرنے کافخر حاصل کیا ہے ۔یہ اسکول اب تعلیم کا ایک حصہ بن جائیں گے  اور جنگ آزادی میں قبائلی سماج کی طرف سے  پیش  کی جانے والی خدمات کی یاد دلائیں گے ۔

بھائیو اوربہنو،

آپ کو  20-22 سال پہلے  کی قبائلی علاقو ں کی حالت یاد ہو گی  جب مجھے آپ کی خدمت کرنے کا موقع نہیں ملا تھا ۔  ا ٓج 20-22 سال کی عمر والے مر د وخواتین اس بات کوجانتے بھی نہیں ہوں گے کہ   کن مشکلات کے ساتھ اس دور میں لوگ زندگی گزارتے تھے ۔ اورپچھلے دور میں  جودہائیوں سے حکومت کرتے چلے آرہے تھے ان لوگوں نے ، قبائلی اور غیر قبائلی علاقوں کے بیچ میں ترقی کے لحاظ سے بہت بڑا خلا پیداکردیا تھا ۔ بھید بھاؤ چاروں طرف چھایا ہوا تھا ، قبائلی علاقوں میں بنیادی سہولتیں اورحالات اس طرح کے تھے کہ اگر ہمارے قبائلی علاقوں کے بچوں کو اسکول بھی جانا ہوتا تھا ، تو اس میں بھی پریشانی پیش آتی تھی ۔کچھ ہی گاڑیاں ٹھکر باپا کے آشرم سے اسکولوں تک جایا کرتی تھیں ۔ یہاں تغذیہ اور مناسب خوراک تک رسائی کابھی مسئلہ تھا ، 13 سے 14 کی درمیانی عمر والی لڑکیوں کی جسمانی نشوونما بھی صحیح طور پر نہیں ہوپاتی تھی ۔ لیکن اب ، سب کا پریاس کے جذبہ کے ساتھ ہم نے ان حالات سے نجات دلانے کےلئےکام کرنے کی سمت میں پیش رفت کی ہے ۔ تبدیلی لانے کی سمت میں ، میرے قبائلی بھائیوں اوربہنوں نےپہل قدمی کی اور اس راستےپرایک دوسرے کے شانہ بہ شا نہ چلے ۔ آج صورت یہ ہے کہ ہزاروں قبائلی بھائی بہن اورلاکھوں لوگ سامنے آنے والی بے شمار تبدیلیوں  سے فائدہ اٹھارہے ہیں  ،لیکن ایک بات   کو فراموش  نہیں کرنا چاہئے کہ  یہ تبدیلیاں راتوںرات یا ایک دن میں واقع نہیں ہوئیں ، اس کے لئے زبردست محنت کی ضرورت  پڑی۔  اس کے لئے منصوبے وضع کئے گئے اور قبائلی کنبوں نے بھی گھنٹوں گھنٹوں کام کرکے میری مدد کی ہے ۔  اس طریقے سے یہ تبدیلی سامنے آئی ہے ۔ قبائلی علاقوں کی اگر بات کی جائے ، پرائمری سے ثانوی اسکولوں تک تقریبا 10000 نئے  اسکول تعمیر کئے گئے ۔ آج ہمارے پاس درجنوں ایکلاویہ ماڈل اسکول، لڑکیوں کے لئے خصوصی اقامتی اسکول اور جدید طرز پر تیار کئے گئے آشرم اسکول ہیں ۔ ا س کے علاوہ ہم نے اپنی لڑکیوں کو اسکول جانے کےلئے بسوں کےساتھ ساتھ اسکولوں میں  غذائیت بخش کھانابھی فراہم کرایا ۔

بھائیو اور بہنو ،

آپ کو یاد ہوگا کہ جون کے مہینے میں ، جھلساتی ہوئی دھوپ کے باوجود، میں اورمیرے ساتھی کنیاکیلاونی رتھ کےساتھ گاؤں گاؤں کا دورہ کرتے پھر رہے تھے ۔ ہم ہر ایک گاؤں میں گئے اور لڑکیوں کو تعلیم دلانے کے لئےلوگوں کی ہمت افزائی کی ۔ ہمارے قبائلی بھائیوں اوربہنوں کو تعلیم کے میدان میں بہت ساری مشکلات کاسامنا کرنا پڑتاتھا ۔ عمر گاؤں سے امباجی تک کا ہمارا قبائلی علاقہ بہت وسیع ہے ، قبائلی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اگرچہ ڈاکٹر اور انجینئر بننے کی آرزو رکھتے تھے، لیکن وہاں سائنس کاکوئی  اسکول موجودنہیں تھا ۔اس صورت میں وہ لوگ کس طرح اپنے خوابوں کو پورا کرپاتے ،ہم نے اس مسئلے کابھی حل پیش کیا  اور بارہویں کلاس تک کے سائنس کی تعلیم والے اسکول شروع کئے ۔آج صرف دودہائیوں کے اندر ا ند ر ، 11 سا ئنس کالجز، 11 کامرس کالج ، 23 آرٹ کالجز اور سیکڑوں کی تعدادمیں ہاسٹلس شروع کئے جاچکے ہیں ۔   یہ  اقدام ہم نے قبائلی نوجوانوں کو زندگی میں ترقی کرنے کے لئے مدد فراہم کرنے کے طور پر کیا ۔ تقریبا 20-25 سال قبل ، گجرات کے قبائلی علاقوں میں اسکولوں کی زبردست قلت تھی ۔  آج اسی علاقے میں دوقبائلی یونیورسٹیاں موجود ہیں ۔ گووند گرویونیورسٹی گودھرامیں اوربرسا منڈا یونیورسٹی  نرمدا میں ، اعلی تعلیم کے بہترین ادارے ہیں ۔ یہاں  بہترین اعلی تعلیم کے لئے انتظامات کئے گئے ہیں  اور قبائلی برادری کی آنے والی نسلیں  اس سے فائدہ اٹھائیں گی ۔ نئے کیمپس کی تیاری کے ساتھ ،گووند گرو یونیورسٹی میں تعلیمی سہولیات میں مزید اضافہ ہو جائے گا ۔ ایک ا عتبار سے ، اسکل یونیورسٹی آف احمد آباد کےکیمپس سے، پنچ محل اور دیگر قبائلی علاقوں  کے لوگوں کوفائدہ پہنچے گا ۔ یہ ملک میں ایسی پہلی یونیورسٹی ہے جہاں کورس مکمل کرلینےکےبعد کامیاب ہونے والوں کو ڈرون پائلٹ لائسنس دیئے جائیں گے ، تاکہ ہمارے قبائلی لڑکے لڑکیاں ڈرون آپریٹ کرسکیں اورجدید دنیامیں  ان کاداخلہ ہوسکے ۔ گزشتہ دہائی کے دوران  ون بندھو کلیان یوجنا کے ذریعہ قبائلی ضلعوں کی چوطرفہ ترقی دیکھنے میں آئی ہے ۔ ون بندھو کلیان یوجناکی  خصوصیت ہے کہ کسی چیز کی  کس جگہ ، کب اور کس حد تک ضرورت ہے ، اس کو گاؤں میں موجود میرے قبائلی بھائیوں اوربہنوں کے ذریعہ طے کیا جائے گا  ، نہ کہ گا ندھی نگر میں رہنے والوں کے ذریعہ ۔

 گزشتہ 14-15 برسوں کے دوران ، ہمارے قبائلی علاقوں میں اس اسکیم کے تحت ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کی رقم خرچ کی گئی ہے ۔ ملک میں بہت سی ایسی ریاستیں بھی ہیں، جہاں قبائلی توسیع کے لئے حسب ضرورت بجٹ مختص نہیں کیا گیا ہے ، لیکن قبائلی معاشرے کے تئیں یہ ہماری محبت، جذبات اور فداکاری کااظہارہے ۔  گجرات حکومت نے اس امر کو یقینی بنایا ہے کہ آنے والےبرسو ں میں ، توسیع کے کام کے سلسلے میں  مزید ایک لاکھ کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کی جائے گی ۔ آج ہم  اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کوشش کرہے ہیں کہ قبائلی علاقوں کے ہر گھر میں پائپ کے ذریعہ پانی فراہم کرایا جائے اورپورے قبائلی بیلٹ میں چھوٹے پیمانے پر آبپاشی کی سہولیات  فراہم کی جائیں ۔ ورنہ پہلے صورت یہ تھی ، کہ میں جب نیا نیا وزیراعلیٰ بنا تھا ، ایم ایل اےاپنے علاقوں کے لئے صرف ایک ہینڈ پمپ کامطالبہ کیا کرتے تھے ، جب اس ہینڈپمپ کو منظوری دے دی جاتی تھی  تووہ جشن مناتے تھے ۔ دیہات میں اس وقت ایسی ہی صورتحال تھی ، لیکن اب مودی صاحب اوربھوپیندر بھائی نے ہر گھر میں نلکے کے ذریعہ پانی کی فراہمی شروع کردی ہے ۔ اس کے علاوہ ، پہلے ڈیری کے شعبےمیں  پنچ محل جیسے قبائلی علاقوں میں کوئی ترقی نہیں دیکھی گئی تھی۔آج ہمارے ساتھ جیٹھابھائی موجود ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ ا ٓج پنچ محل ڈیری امول کو ٹکر دے رہی ہے ۔یہ ہے آج یہاں ترقی کی صورتحال ۔ہماری قبائلی بہنوں کو با اختیاربنانے اوران کی آمدنی میں اضافہ کرنے کی غرض سے ہم نے سکھی منڈل تشکیل دیئے ہیں ۔ ہم نے اس بات کو بھی  یقینی بنایا ہے کہ ان سکھی منڈلوں کو بینکوں سے زیادہ سے زیادہ رقوم حاصل ہوسکیں ، ہم نے  ان کی مصنوعات کو  فروخت کرنے کے لئے ان کی مددکرنےکے سلسلے میں انتظامات بھی کئے ہیں ۔ گجرات میں جس طرح صنعت کاری کا عمل تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہاہے ،  میرے نوجوان قبائلی بھائی اوربہن بھی اس کافائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔ آج آپ اگر ہالول یا کالول جائیں ،تو آپ دیکھیں گے کہ تقریبا ہر فیکٹری میں  کام کرنے والے لوگوں کی 50 فیصد سے زیادہ تعداد  پنچ محل کے قبائلی جوانوں پر مشتمل ہے ،  یہ کام ہم نے انجام دیا ہے ۔  ورنہ، اس سےقبل ہمارے قبائلی بھائی اور بہنیں کچھ اورکاٹھیاواڈ کےارد گرد کے علاقوں میں سڑکیں  تعمیر کرنے کے کام میں  مصروف رہتے تھے ۔ آج یہ لوگ  فیکٹریوں میں کام کرکے  گجرات کی ترقی میں شراکت دار بن رہے ہیں ۔ ہم جدید تربیتی مراکز ، پیشہ ورانہ مراکز ، آئی آئی ٹیز، کسان وکاس  کیندر  شروع کررہے ہیں  جن کے ذریعہ 18 لاکھ قبائلی نوجوان تربیت  اورملازمت حاصل کررہے ہیں ۔  میرے قبائلی بھائیو اوربہنو ، 20-25 سال قبل  گزشتہ حکومتیں ان تمام چیزوں میں دلچسپی نہیں رکھتی تھیں ۔ ہوسکتا ہے آپ کو معلوم ہو یا نہ معلوم ہو ،عمر گاؤں سے  امباجی اورڈانگ تک  کاعلاقہ سکل سیل بیماری کی لپیٹ میں   رہتا تھا، لیکن ہم نے اس بیماری سے نجات دلانے کےلئے اقدام کیا ہے ۔ ہم  نے اس بیماری جو کڑ سے ختم کرنے کےلئے ہر ممکن کوشش کی ہے ۔ ہم نے پورے ملک میں  تحقیقی کام کےلئے ہمت افزائی کی ہے ، بہت  سے سائنسدانوں   سے ملے ہیں   اور اس سلسلے میں بڑی رقم کی سرمایہ کاری کی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی دعاؤں کے سائے میں  ہم   ان  تمام مسائل کاحل پیش کریں گے ۔ ہم نے اپنے قبائلی علاقو ں میں  چھوٹی ڈسپنسریز اوراب اس کے ساتھ ساتھ صحت کی  بہتری کے مراکز قائم کئے ہیں  ۔ ہم نے میڈیکل کالجز بنائے ہیں ، اب ہماری لڑکیاں نرسنگ  سے متعلق  تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔ میں حال ہی میں  داہود میں کچھ قبائلی لڑکیوں سے ملا ہوں ۔ وہ وہاں اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں گئی تھیں ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ انہیں بیرون ملک ملازمیں مل گئی ہیں ۔ اب وہ نرسنگ کے سلسلے میں  دوسرے ملکوں میں چلی گئی ہیں ۔

میرے قبائلی نوجوان دنیا میں اپنے لئے مقام پیدا کررہے ہیں ۔ بھائیو اوربہنو،  نریندر – بھوپیندر کی اس ڈبل انجن والی حکومت نے قبائلی علاقوں میں 1400 سے زیادہ بہتر صحت کے مراکز قائم کئے ہیں ۔ اس سے پہلے  لوگوں کو معمولی سی بیماری کے لئے بھی شہروں میں جانا پڑتا تھا، راتوں کو فٹ پاتھ پر سونا پڑتاتھا۔  مطلوبہ دوا اگرانہیں مل جاتی تو خیر، ورنہ خالی ہاتھ ہی واپس آنا ہوتا تھا ۔ بھائیو ہم اس پرانی صورتحال کوتبدیل کررہے ہیں ۔ اب گودھرا پنچ محل میں  لوگوں کا اپنا میڈیکل کالج ہے ۔  یہاں ہمارے بچے ڈاکٹر بنیں گے ۔ دوسری بات یہ کہ وہ اپنی مادری زبان میں  تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے ۔ اب اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرکے غریب والدین کے  بچے بھی ڈاکٹر اورانجینئر بن سکیں گے ۔  اگرانہیں انگریزی نہ بھی آتی ہو، تب بھی ان کامستقبل برباد نہیں ہوگا ۔ گودھرا میڈیکل کالج کی  نئی عمارت کی تعمیر کاکام   تیز رفتاری کے ساتھ جاری ہے ۔ اسی کے ساتھ ، داہود، مکمل سابرکانٹھا،  بناس کانٹھا اور عمرگاؤں سے امباجی تک  والے بیلٹ میں  میڈیکل کالج موجود ہو گا ۔

بھائیو اوربہنو،

اپنی  ان تمام کوششوں کے ساتھ، ہم نے اس بات کو  یقینی بنایاہے کہ  قبائلی ضلعوں میں  جنگلات کے ضوابط کی پیروی کرتے ہوئےسڑکیں تعمیر کی جائیں  اور  دور دراز ترین گوشوں تک ان کی جھونپڑیوں میں 24 گھنٹے بجلی کی فراہمی کو بھی  یقینی بنایا ہے ۔ انہی کوششوں کے ثمرات آج ہمارے سامنے ہیں ۔  

بھائیو اوربہنو،

غالبا آپ جانتے ہوں گے کہ ریاست میں ڈانگ ضلع  24 گھنٹے بجلی پانے والا پہلا ضلع رہا ہے ۔ اگر میرا منشا صرف ووٹ حاصل کرنےکا ہوتا ، تو  میں اس 24 گھنٹے بجلی کی سہولت کو احمد آباد، سورت، راج کوٹ اور ودودرا جیسے شہروں میں فراہم کراتا ، لیکن میں نے ایک قبائلی ضلع کا انتخاب کیا کیوں کہ میر ا دل  میرے قبائلی بھائیوں  کےساتھ دھڑکتا ہے ۔ اپنے قبائلی بھائیوں اوربہنوں کی دعاؤں کے سائے میں ہم نے کام کوآگے بڑھایا اوربہت جلد پورا گجرات اس کے دائرہ کار میں آگیا ۔ نتیجہ یہ ہے کہ قبائلی علاقو ں میں صنعتیں وجود میں آنے لگیں اوربچوں کو جدید تعلیم حاصل ہونےلگی ۔سنہری راہداری کی شروعات کےساتھ ، جڑواں شہروں میں ترقی کا عمل شروع ہوگیا ۔ اس  وقت پنچ محل اورداہود پیچھےنہیں ہیں ۔ اسی طرح ودودرا ، ہالول اورکالول نے بھی ترقی کی ہے۔ اب پنچ محل نے تقریبا شہری شکل اختیار کرلی ہے ۔

دوستو،

صدیوں سے ہمارے ملک میں  وسیع و عریض علاقوں میں بسنے وا لا قبائلی سماج موجود ہے ۔ یہ سماج کوئی بھوپیندر بھائی  اورنریندر بھائی کی حکومتوں کے وجود میں آنے کے بعد سامنے نہیں آیا ہے ۔ ایسا قطعاً نہیں ہے ۔ کیا  بھگوان رام کے  دور میں قبائلی سماج کا وجود نہیں تھا ؟  ہم شبری ماتا کو کبھی نہیں بھول سکتے ۔ اس لئے، قبائلی سماج ایک نامعلوم وقت سے موجود ہے ، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ا ٓزادی کے  بعد سے اتنے برس گزرجانے کے بعد بھی  قبائلیوں کے معاملات سے متعلق  کوئی بھی وزارت دہلی میں اٹل جی کے تحت بی جے پی حکومت کے تشکیل پانے سے قبل  قائم نہیں کی گئی ۔ اس وقت تک قبائلیوں کے لئے کوئی وزارت ، کوئی وزیر او ر کوئی بجٹ نہیں تھا ۔ قبائلیوں سے بی جے پی کی محبت کی بنا پر  ملک میں  ایک علاحدہ قبائلی وزارت تشکیل دی گئی اور وزراء مقرر کئےگئے ۔ اس کے بعد ہی قبائلیوں کے لئے بجٹ مختص کیا گیا  اوران کی بہبود پر خرچ کیا گیا ۔ بی جے پی حکومت نے  ون دھن جیسی اسکیمیں بنائیں۔جنگلات کی کسی بھی قسم کی پیداوار ہندوستان کی دولت اورہمارے قبائلیوں کا اثاثہ ہے ۔  اس لئےہم نے اس سمت میں کام کیا ۔ ذرا تصور کیجئے، برطانوی حکومت کے دوران  قبائلیوں کی آواز کو دبانےکے لئے ایک کالا قانون موجود تھا۔ اس قانون کے مطابق کوئی بھی شخص بانس کی کٹائی نہیں کرسکتا تھا ، کیوں کی بانس کو ایک درخت کی حیثیت دے دی گئی تھی۔   اگرکسی درخت کو کاٹ دیا جاتا تو کاٹنے والے شخص کوجیل ہو جاتی  تھی  ۔تو ا ب ،  میں نے یہ قانون تبدیل کردیا ہے ۔ میں نے بانس کو گھاس کی ایک قسم قرار دیا ہے نہ کہ ایک درخت ۔ اب میرے قبائلی بھائی بہن بانس کی فصل اگا سکتے ہیں اوراسے کاٹ بھی سکتے ہیں ۔ وہ بڑی مہارت سےبانس سے بڑی خوبصورت چیزیں تیار کرتے ہیں اوربانس کی مصنوعات کو فروخت کرکے آمدنی کرسکتے ہیں ۔ ہم کم از کم ا مداد ی قیمت پر قبائلیوں سے 80 سے زیادہ جنگلاتی مصنوعات خرید رہے ہیں ۔  بی جے پی حکومت نے  قبائلیوں کو  اہمیت دے کر ا وران کی گز ر بسر کو آسان بناکر ان کے افتخار میں اضافہ کیا ہے ۔ اس بات کو یقینی بنانےکے لئےکچھ اقدامات کئےگئے ہیں کہ وہ لوگ عزت وقارکے ساتھ زندگی گزار سکیں ۔

بھائیو اور بہنو،

پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ قبائلی سماج کو ان کی ترقی کے لئے پالیسی سازی کے عمل میں  شریک کیا گیا ہے ۔  نتیجہ یہ ہے کہ آج قبائلی سماج اپنے پیروں پر کھڑا ہے ،  اور پوری طاقت کےساتھ گجرات کو آگے بڑھا رہا ہے ۔ ہماری حکومت نے یہ طے کیا ہے کہ اپنے بھگوان ، عظیم قبائلی رہنما بھگوان برسا منڈا کی تاریخ پیدائش پر ہر سال قبائلی افتخار کادن منایاجائےگا۔ ان کی تاریخ پیدئش 15 نومبر ہے   اس لئے یہ تاریخ یعنی برسا منڈا کایوم پیدائش پورے ملک میں قبائلی یوم افتخار کے طورپر منایا جائے گا ۔  پورے ملک کے لوگوں کو یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ ہماری قبائلی برادری عزت نفس ، جرأت اوربہادری کے جذبہ سے مالا مال ہے۔ وہ فطری طور پر  قربانی دینےوالے لوگ ہیں  اور ماحولیات کا تحفظ کرنے والے بھی۔ ہم نےیہ قدم ہندوستان کے لوگوں میں بیداری پیدا کرنے کے لئےاٹھایا ہے ۔ ڈبل انجن والی حکومت غریبوں، دلتوں، محروم اور پسماندہ طبقات، اسی کے ساتھ ساتھ میرے قبائلی بھائیوں اور بہنوں  کی آمدنی میں اضافہ کو یقینی بنانے کے لئےمسلسل کوششیں کررہی ہے ۔ اس لئے ہم نوجوانوں کے لئے تعلیم اور آمدنی ، کسانوں کے لئے آبپاشی اور بزرگوں کے لئے  علاج معالجے پر توجہ مرکوز کررہے  ہیں ۔ ان کے لئے کسی چیز کی قلت نہیں ہوگی ، یہی وجہ ہے کہ ہم نے تعلیم ، آمدنی ، سینچائی اورعلاج معالجے پر توجہ دی ہے ۔ کورونا 100 برسوں میں بد ترین عالمی وبا تھی  ، اور  توہم پرست لوگوں کو  اس وبا سے اپنی حفاظت کرنا مشمل تھا ۔ ہم نے قبائلی بھائیوں کی مدد کی ،  انہیں مفت ویکسین فراہم کی اور گھر گھر ٹیکہ کاری کی مہم چلائی ۔ ہم نےاپنے قبائلی بھائیوں اوربہنوں کی جانیں بچائیں اوران کے گھروں میں  خوراک او ر راشن کی فراہمی کو یقینی بنایا تاکہ کوئی بچہ بھی بھوکانہ سوئے۔ گزشتہ ڈھائی برسوں سے  ہم اپنے80 کروڑ بھائی بہنوں کو  مفت اناج فراہم کررہے ہیں ۔ اس بات کو یقینی بنانےکےلئےکہ غریب کنبےبیماری کی صورت میں بہترین علاج کرپائیں ، ہم نے  ہر سال  استفادہ کرنے والے خاندانوں کو  5 لاکھ روپئے تک کےمفت علاج  کی سہولت کررکھی ہے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ اگرآپ چالیس سال اور جئیں گے توآپ کو یہ رقم 40 بار ملے گی ۔  لیکن میں نہیں  چاہوں گاکہ آپ بیمار پڑیں۔ تاہم اگرآپ بیمار پڑتے ہیں تو بھائیو ہم آپ کے ساتھ موجود ہیں ۔ ہماری ماؤں اوربہنوں کے  بینک اکاؤنٹس میں  مدت حمل کے دوران  براہ راست رقم پہنچائی جاتی ہے  تاکہ وہ اس مدت کے دوران غذئیت بخش خورک حاصل کرسکیں ۔یہ شکم میں پل رہے بچے کی جسمانی ترقی کو بھی یقینی بنائے گا  اورپیدا ہونے والا بچہ کسی بھی معذوری سے آزاد ہوگا ۔ یہ چیز  کنبے اورسماج  دونوں کے لئے فائدے مند ہے ۔

ہم نے چھوٹے کسانوں کے لئے کھاد، بجلی اور ان کے بلوں میں چھوٹ کو یقینی بنانےکےلئےبھی اقدامات کئے ہیں ۔ کسان سمان ندھی کے تحت ،  سال میں تین بار  میرے قبائلی بھائیوں کے اکاؤنٹ  میں 2000 روپئے منتقل کئے جاتے ہیں ۔ پتھریلی زمین ہونے کی بنا پر ، کسان مکئی یا باجرہ کی فصل اگانےپر مجبور تھا ، لیکن ہم نے اس بات کو یقینی بنایاکہ وہ اپنے کھیتوں میں بہتر طریقے سے کاشت کرسکیں گے ۔ کھاد کی قیمت دنیا بھر میں بہت بڑھی ہوئی ہے ۔ کھادکی ایک بوری عالمی بازارا میں 2000 روپئے کی ہے لیکن ہندوستانی حکومت  قیمت  کا زیادہ تر حصہ اپنے سر لے رہی ہے اورکھاد کی بوری 260 روپئے کے عوض فراہم کررہی ہے تاکہ میرے قبائلی ، غریب کسانوں کو پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ آج ہم غریبوں کے لئے پکے مکان اور بیت الخلا بنارہے ہیں ، ہم اس لاپروائی کے شکار سماجی طبقے کی زندگیوں کو بہتر بنانےکےلئےگیس اورپانی کے کنکشن جیسی دیگر سہولیات کی فراہمی کے لئے کام کررہے ہیں ۔ اس سے سماج کی ترقی میں مدد ملے گی ۔ ہمارےسامنے اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں جیسے چمپا نیر، پاوا گڑھ، سومناتھ ،ہلدی گھاٹی ا ور ایسے دوسرے بہت سے علاقوں کی ترقی ۔ ہم قبائلی عوام کے مذہبی عقائد کے احترام کے حق میں اور قبائلی سورماؤں کو خراج عقیدت پیش کرنےکےلئےکام کررہے ہیں ۔  پاوا گڑھ کی دیوی کالی  کی اگر بات کی جائے ، تو  بڑی تعداد میں عقیدت مند   دیوی کا آشیروادحاصل کرنے کے لئے پاوا گڑھ آتےہیں ۔  لیکن انہیں یہ شکایت رہی ہے کہ اس مندر کی چھت پر کوئی جھنڈا نہیں ہے ۔ 500 برسوں سے کسی نے ماتا کالی کے لئے کوئی خیال نہیں کیا ۔  تاہم آپ کے آشیرواد کے بعد ، ہم ماتا کالی کے پرچم کو شان سے لہرا تا ہوا دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر آپ شملاجی  جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ بھگوان کالیا کامندر کس بے  توجہی کا شکار ہے ۔  کالیادیو کو قبائلیوں کا دیوتا مانا جاتا ہے ۔ آج اس مندر کی شکل قطعا تبدیل ہوچکی ہے ،  قبائلی علاقوں میں انئی ماتا مندر اور شری امبے دھام جیسی عبادت کی جگہوں کی تجدید کاری کی جاچکی ہے ۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ ہمارے ترقیاتی منصوبوں سےفائدہ اٹھاتے ہوئے ، لاکھوں لوگ ان جگہوں پر آتے ہیں  اور اس مندر تک چڑھائی طے کرکے پہنچتےہیں ۔ اسی طرح سپوتارا ، اتحاد کامجسمہ  اور اس پورے علاقے کی ترقی   قبائلیوں کی ہمت افزائی کا باعث ہوگی ۔

بھائیو اوربہنو،

میں روزگارکے مواقع فراہم کرکے لوگو ں کو با اختیار بنانےکےلئےکام کررہا ہوں ۔ پنچ محل ایک طرح سے سیاحت کامقام ہے ۔ چمپا نیر اورپاوا گڑھ اپنے قدیم  تعمیراتی ورثے کے مشہور ہیں ۔ حکومت اس بات کو یقینی بنانےکی کوشش کررہی ہے کہ لوگ آئیں اور اس عالمی وراثت اوراسی کے ساتھ جمبو گڑھ کی جنگلاتی زندگی کامشاہدہ کریں ۔ ہماراہتھنی ماتا آبشار  اور کاڈاڈیم سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنناچاہئے ۔ دھن پوری میں ماحولیاتی سیاحت کو ترقی دی جاسکتی ہے ۔ ہمارے پاس یہاں گنیشوری ماتا ، جندہنومان جی  اور بہت کچھ ہے ۔ میں آپ لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں اوریہ بھی کہ ان چیزوں کو کس طرح ترقی دی جاسکتی ہے ۔

بھائیو اوربہنو،

ہمیں   سیاحت کو ترقی دینے، روزگار کےمواقع میں اضافہ کرنے ، اپنے قبائلی افتخار والے مقامات کو ترقی دینے اور لوگوں کے آمدنی کےوسائل کو بڑھانے کے بارے میں غور کرنا چاہئے ۔نریندر بھوپیندر کی یہ ڈبل انجن و الی حکومت ایک درخشاں مستقبل کے لئے کندھے سے کندھا ملاکر کام کررہی ہے ، کیوں ہمارےارادے اورپالیسیاں بہت واضح ہیں ۔ ہم سنجیدہ اقدامات کرنے والے لوگ  ہیں ۔ ا س لئےبھائیو اوربہنو ہم  اس رفتارکو  ، جس کے ساتھ اس وقت پیش رفت ہورہی  ہے، دھیما نہیں ہونےدیں گے ۔  ہمیں احتیاط کے ساتھ آگے بڑھنا ہے ۔کیوں کہ ایک بہت بڑی تعدادمیں مائیں اور بہنیں ہمیں آشیرواد دینے آئی ہیں، ہمیں کسی بات کی کوئی فکر نہیں ہے ۔ چاہے عمرگاؤں سے امباجی تک قبائلی پٹی ہو  یا ولساڈ سےممبرا تک کاعلاقہ  یا شہری پٹی ، ہمیں پورے گجرات کی ترقی کے لئے جدوجہد کرنی چاہئے ۔ہمیں ہندوستان کی ترقی کے لئے گجرات کو ترقی دینا چاہئے ۔ ایسے بہادر شہیدوں کوسلام پیش کرتے ہوئے ان سے تحریک حاصل کرتے ہوئے ،    میں آپ  تمام لوگو ں  کے لئے اپنی نیک خواہشات کااظہار کرتاہوں۔

بھارت ماتا کی جے !

بھارت ماتا کی جے !

بھارت ماتا کی جے !

وضاحت : وزیراعظم کی اصل تقریر گجراتی زبان میں ہے ، جس کا یہاں ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔

**********

ش ح۔ س ب۔ ف ر

U. No.13376



(Release ID: 1881338) Visitor Counter : 109