وزیراعظم کا دفتر

گجرات کے ویارا میں مختلف ترقیاتی کاموں کا  سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 20 OCT 2022 10:25PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جئے ،

بھارت ماتا کی جئے،

آپ سب ضلع کے گوشے گوشے  سے ہم تمام کو آشیرواد دینے کیلئے آئے ہیں اور مجھے بتایا گیا کہ آپ سب کو یہاں آئے تقریباً ڈھائی سے تین گھنٹے ہوچکے  ہیں۔  آپ کا قوت برداشت، آپ کی یہ محبت، آپ کا جوش اور خوشی، یہ ماحول مجھے آپ کے لیے کام کرنے کی ایک نئی طاقت اور توانائی فراہم کرتا ہے۔ نیا یقین دیتا ہے اور اس کے لیے سب سے پہلے آپ سب کو میرا رام رام۔

پچھلے بیس برسوں سے آپ سب کا ساتھ ، آپ کا جذبہ، آپ کا پیار، ہمارا یہ گرمجوشی رشتہ شاید مجھے یہ سب کچھ قسمت سے ملا ہے اور یہ سب مجھے قبائلی بھائیوں، بہنوں اور ماؤں نے دیا ہے۔ سیاست میں ایسی خوش نصیبی کسی کو نہیں ملے گی، جو آپ نے مجھے دی ہے اور 20-20 سال سے اٹوٹ رشتہ اور مسلسل محبت اور اسی وجہ سے میں گاندھی نگر میں رہوں یا دہلی میں رہوں، میرے ذہن میں صرف ایک خیال آتا ہے کہ اگر مجھے آپ سب کا شکریہ ادا کرنے کا موقع ملے تو میں ہر بار آپ کا احسان مانتا رہوں۔

آج بھی یہاں پر تاپی نرمدا سمیت پورے قبائلی علاقے میں سیکڑوں کروڑ روپے کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح کیا جا چکا ہے۔ میں نے کل اور آج جو پروگرام کیے ہیں، اس میں جو سنگ بنیاد رکھا اور افتتاح کیا ہے، اس میں جو  بجٹ کا تخمینہ اور اخراجات ہوئے ہیں، اگر میں سب کو شامل کروں تو پہلے کی حکومتوں کے 12 ماہ کا بجٹ بھی ایسا نہیں تھا، اس سے زیادہ۔ بجٹ میرے ایک قیام میں خرچ ہوا ہے، یہ سب آپ کے لیے ہے۔

یہ سب صرف آپ کے لیے ہی ہے، ایسا نہیں ہے، یہ آپ کے تمام بچوں کے روشن مستقبل کے لیے ہے۔ وہ زندگی جو آپ کے والدین نے گزاری ہے اور انہوں نے کچھ زندگی جنگلوں میں گزاری ہے۔ ان میں سے کچھ مشکلات کم ہو گئی ہیں، پھر بھی آپ کو پریشانی میں رہنا پڑا لیکن میں نے آپ سے ایک وعدہ کیا ہے اور اسی لیے میں دن رات کام کرتا ہوں تاکہ آپ کے بچوں کو ان تمام مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے جن کا آپ نے سامنا کیا ہے۔ اس لیے ہم قبائلی علاقے کی ترقی چاہتے ہیں۔

قبائلی علاقے کے مفادات کے لیے ہم قبائلی بھائیوں کی فلاح و بہبود  کی خاطر بھرپور محنت کرتے ہیں، کیونکہ ہم آپ سب کی مہربانیوں سے پروان چڑھے ہیں، کیونکہ آپ نے اس علاقے میں پہلے کی حکومتیں بھی دیکھی ہیں۔ آپ بولتے نہیں ہیں لیکن آپ سب کچھ جانتے ہیں۔

ایک طرف، پہلے کانگریس کی حکومتوں کو دیکھیں اور آج پورے ملک میں بی جے پی کی حکومتوں کو دکھ لیجئے، کانگریس کی حکومتوں کو آپ کے روشن مستقبل کی فکر نہیں تھی۔ ان کے ذہن میں صرف انتخاب ہی رہتا  ہے  اور وہ الیکشن سے پہلے وعدے کرتے ہیں، پھر جھوٹے وعدے کرکے بھول جاتے ہیں۔

دوسری طرف بی جے پی حکومت ہے، جو قبائلیوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دیتی ہے۔ ہم اپنے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے لیے کام کرتے ہیں تاکہ  وہ طاقتور بنیں، قابل بنیں، ان کا پورا خطہ شان و شوکت سے ترقی کرے۔ ایک طرف کانگریس نے ایسی حکومت چلائی کہ وہ قبائلی روایت کا مذاق اڑانا پسند کرتی ہے۔

اگر میں کبھی کسی قبائلی کی پگڑی یا جیکٹ پہنتا ہوں تو وہ اپنی تقریروں میں ان کا مذاق اڑاتے ہیں، لیکن میں کانگریس لیڈروں سے یہ کہنا چاہوں گا کہ آپ سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے قبائلی رہنماؤں، ان کی روایات، ان کی ثقافت کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ہاں یہ قبائلی بھائی اسے کبھی نہیں بھولتا اور وقت آنے پر اس کا حساب کتاب کرتا ہے۔

ایک طرف کانگریس کی حکومتوں نے قبائلیوں کی بنائی ہوئی چیزوں کی کوئی قدر نہیں سمجھی وہیں ہمارے ہاں جہاں بی جے پی کی حکومتیں ہیں وہاں ون دھن کی طاقت ہمارے لیے بڑی اہم ہے  اور عالمی منڈیوں میں اس ون دھن کی قیمت ملے ، اس کی قدر ہو، اس کی ہم فکر کرتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

ملک میں جہاں بھی بی جے پی کی حکومت بنی ہے، وہاں قبائلیوں کی فلاح و بہبود کو اولین ترجیح دیتے ہوئے، ہم کسی بھی حکومت کے مقابلے میں سب سے زیادہ لگن سے کام کرنے والی حکومت کے طور پر سرگرم رہے ہیں۔ کانگریس کی حکومتوں نے آزادی کے بعد کئی دہائیوں تک حکومت کی اور انہوں نے کبھی بھی قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے مسائل کو دور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ہم نے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کی تیز رفتار ترقی اور مستقبل کی ترقی کے لیے انہیں دستیاب بہترین سہولیات کے بارے میں بھی سوچا ہے، جس کے بارے میں کانگریس کی حکومتوں نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ ہم اس لیے کام کر رہے ہیں کہ آپ کو زیادہ سے زیادہ سہولیات ملیں۔

جب ہم زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، مجھے یقین ہے کہ اس کی وجہ سے کانگریس کے لوگ آئیں گے اور جھوٹا پروپیگنڈہ کریں گے، لیکن ان کے تکبر کا میرے قبائلی بھائی بہن چکنا چور کردیں گے ،مجھے اس بات کا یقین ہے۔

گھر میں بجلی، پکے مکان، گیس کنکشن، بیت الخلا، گھر کے قریب میڈیکل سنٹر، روزی کمانے کا ذریعہ اور بچوں کے لیے قریب میں کھیل کا میدان اور اسکول ہو، گاؤں کو جانے والی سڑک ہو، اس کے لیے ہم نے قدم بہ قدم آگے بڑھ کر ہم نے پریشانی کے ازالے کیلئے مہم شروع کی ہے۔  مجھے یاد ہے کہ گجرات نے ایسے چند بے مثال کام کئے ہیں۔ آج مجھے یاد ہے کہ گجرات میں جب میں پہلی بار وزیر اعلیٰ بنا تو شہر کے لوگ کہتے تھے کہ کم از کم شام کو بجلی تو ہونی چاہیے، ایسا کچھ کریں۔ آج گجرات میں 24 گھنٹے بجلی آنا شروع ہو گئی ہے، لیکن خاص بات یہ ہے کہ  جب بجلی فراہم کرنے کی بات ہو رہی تھی تو میں یہاں وزیراعلیٰ تھا، تب 24 گھنٹے بجلی سب سے پہلے کس ضلع میں ملتی تھی، یاد ہے؟

گجرات میں جیوتی گرام یوجنا، 24 گھنٹے بجلی فراہم کرنے کا انتظام میرے ڈانگ ضلع کو ملی تھی۔ یعنی قبائلیوں کے 300 گاؤں میں بجلی پہنچائی گئی اور گھر گھر جیوتی گرام کا فائدہ پہنچاتے ہوئے سب کو 24 گھنٹے بجلی دی گئی۔ اگر دوسرے لیڈر ہوتے تو وہ احمد آباد یا وڈودرا جیسے شہر کا انتخاب کرتے، کیونکہ ان کی تصویریں اخبارات میں شائع ہوتی جبکہ  ڈانگ میں ان کی تصویر شائع نہیں ہوتی۔ میرے لیے اپنے قبائلیوں کی فلاح و بہبود میری ترجیح تھی اور جو تحریک میں نے ضلع ڈانگ سے لی اور میں نے دیکھا کہ بجلی آتے ہی بچوں میں پڑھائی کے لیے جوش و خروش دکھائی دیا اور لوگوں کی زندگیاں بدل گئیں اور اسی سے تحریک لے کر جب میں وزیر اعظم بنا، میں نے حساب لگایا کہ ہندوستان میں ایسے کتنے گاؤں ہیں جہاں بجلی نہیں ہے۔

ہم ان لوگوں کے کیے پر شرمندہ ہیں۔ 18000 گاؤں ایسے تھے جہاں بجلی کا ایک کھمبہ بھی نہیں تھا۔ ہم نے ایک مہم چلائی اور آج ہندوستان کا ایک بھی گاؤں ایسا نہیں ہے جس میں بجلی نہ ہو۔ یہ سب میں نے ڈانگ سے سیکھا۔ میں نے یہ سب ڈانگ کا کام دیکھ کر سیکھا تھا اور اس لیے قبائلی علاقہ میرے لیے عوامی تعلیم کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔ قبائلی علاقوں میں زراعت کو جلا  بخشنے کے لیے شاید آپ کو یاد ہو کہ ہم نے ضلع ولساڈ میں ‘باڑی’ اسکیم شروع کی تھی۔

میرے قبائلی بھائیوں اور بہنوں کے پاس مشکل سے  ایک بیگھہ یا دو بیگھہ زمین ہوتی ہے اور وہ بھی گڑھوں یا پہاڑوں کے قریب۔ اب ایسی حالت میں وہ بے چارہ کیا کرے گا۔ اپنے حساب سے تھوڑی بہت محنت کرکے باجرا پکا کرکے دن پورے کرتے تھے، پیٹ بھرنے کے لیے کچھ نہ ملتا تھا۔ ان کی پریشانی کو سمجھتے ہوئے ہم باڑی سکیم لائے اور آج بھی جب ہم ولساڈ کی طرف علاقے میں جاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ میرے قبائلی بھائی بہنوں نے تھوڑی سی زمین پر کاجو کی کاشت شروع کر دی ہے۔ آم، امرود یا لیموں، چیکو ایسے تمام پھل پیدا کرنے لگے ہیں اور میرے قبائلی بھائی ایسے کاجو کاشت کر رہے ہیں جو گوا کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

اور اس باڑی منصوبے نے زندگی بہت بدل دی ہے اور اس کی ہوا پورے ملک میں پہنچ چکی ہے، ہمارے قبائلی بھائی بنجر زمین پر پھل پکاتے ہیں، بانس کی کاشت شروع کر دی ہے اور اس وقت جب ہندوستان کے  صدرجمہوریہ  اے پی جے عبدالکلام تھے، تو انہوں نے کہا تھا کہ میں یہ سب دیکھنے کیلئے آنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ آئیں۔ ان کی سالگرہ تھی، انہوں نے کوئی سہولت حاصل نہیں کی اور ضلع ولساڈ کے قبائلی دیہات میں جا کر باڑی پروجیکٹ کو دیکھا اور اس کی بے پناہ تعریف کی۔

اس باڑی منصوبے نے ہمارے قبائلی عوام کی زندگیوں میں ایک بڑی تبدیلی لائی ہے۔ ہمارے قبائلی بھائیوں کے لیے بھی یہ کیسا مسئلہ ہے؟ زیادہ تر بارش وہیں ہوتی ہے لیکن پانی بہہ جاتا ہے اور گرمی کے موسم میں پینے کا پانی نہیں ہوتا۔ کانگریس حکومتوں کے پاس اس طرف توجہ دینے کا وقت بھی نہیں تھا۔ میں نے کچھ ایسے لیڈر بھی دیکھے ہیں، انہوں نے اپنے گاؤں میں پانی کی ٹنکیاں بنوائیں، لیکن وہ پانی کی ٹینکیاں ایک بار بھی نہیں بھریں۔

میں نے ایسے دن بھی دیکھے ہیں، جب میں وزیراعلیٰ بنا تو ان ٹینکیوں کو بھرنے کا کام میں نے کیا۔ میں قبائلیوں کے مسائل کے حل کیلئے  پہلے بھی کوشاں رہتا  تھا۔ بجلی کی طرح ہم پانی  کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے مصروف عمل رہے۔ ہم نے ہینڈ پمپ لگائے، جہاں بھی دیکھا ہینڈ پمپ کا چرچا ہوا اور آج ہم واٹر گرڈ بنا رہے ہیں۔ قبائلیوں کے دور دراز دیہاتوں تک نہروں کی لیگ ایریگیشن کرکے  پورا نیٹ ورک بچھایا  اور پانی پہنچانے کا کام کیا اور ڈابا  کاٹھا نہر کے لیے قبائلی بھائیوں کے لیے کتنی مشکل پیش آتی تھی۔ میں نے نہر کے ڈابا کاٹھا سے پانی اٹھا کر اپنے قبائلی بھائیوں اور کسانوں کو پانی دیا ہے اور اس کی وجہ سے تین فصلیں اگنے لگی ہیں۔ سینکڑوں کروڑ کی اس اسکیم کا فائدہ میرے کسان بھائیوں کو ملنا چاہیے، یہ پانی قبائلی علاقے میں میری ماؤں بہنوں تک پہنچنا چاہیے، اس کے لیے میں نے یہ کام کیا ہے اور اس کی وجہ سے پانی کی سہولت بہتر ہوئی ہے۔

گجرات میں ایک وقت تھا جب  100 میں سے 25 گھر ایسے تھے، جہاں گھر میں پانی دستیاب تھا، ہینڈ پمپ بھی دور دور تھے اور آج گجرات میں بھوپیندر بھائی کی حکومت نے جو محنت شروع کی، جس کام کی شروعات میں نے کی تھی ، آج گجرات میں 100  گھروں میں پائپ سے پانی کی سپلائی شروع ہو چکی ہے۔ اس پر بہت کام ہو چکا ہے۔

 

بھائی بہنو،

قبائلی علاقے کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہم نے ون بندھو کلیان یوجنا کا سہارا لیا اور آج منگو بھائی یہاں آئے ہیں، یہ میری خوش قسمتی ہے کہ اب وہ مدھیہ پردیش کے گورنر ہیں۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ گجرات کی ایک قبائلی ماں کے بطن سے پیدا ہونے والے منگو بھائی مدھیہ پردیش کے گورنر بن کر وہاں فلاحی کام کرسکتے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آج ایسے پرمسرت موقع پر وہ حکومت کے اس پروگرام میں تشریف لائے ہیں اور ہم سب کو آشیرواد دیا ہے۔

جب منگو بھائی یہاں وزیر تھے، انہوں نے قبائلیوں کے لیے دن رات اپنی زندگی وقف کردی تھی اور مکمل طور پر بے داغ رہنما رہے ہیں۔ ایسے قبائلی لیڈر کو تیار کرنا  صرف بھارتیہ جنتا پارٹی کا کام  ہے اور جس کا فخر پورے ملک میں قبائلی سماج کرتا ہے اور اس وقت منگو بھائی کی قیادت میں جو کام شروع ہوا، آج ہمارے قبائلی اور تاپی اضلاع میں ہماری بہت سی بیٹیاں سکول اور کالج جانے لگی ہیں۔ قبائلی معاشرے کے بہت سے بیٹے اور بیٹیاں سائنس میں تعلیم حاصل کررہی  ہیں، ڈاکٹر انجینئر بن رہی ہیں۔ انہوں نے نرسنگ میں جانا شروع کر دیا ہے اور اب وہ بیرون ملک بھی جانے لگے ہیں۔

20-25 سال پہلے پورے قبائلی علاقوں کے بچے محض  چند قبائلی آشرم کے اسکول  میں جاتے تھے۔ سائنس کا کوئی اسکول نہیں تھا۔ اگر دسویں بارہویں میں سائنس فیکلٹی نہیں ہے تو میرے قبائلی بچے انجینئر ڈاکٹر کہاں سے بنیں گے؟ میں نے ان تمام پریشانیوں سے سب کو نکالا اور آج بچے ڈاکٹر اور انجینئر بن رہے ہیں اور پڑھ لکھ کر ملک، معاشرے اور قبائلی علاقے کا نام روشن کر رہے ہیں۔ یہ کام ہم نے کیا ہے۔ کانگریس نے اس پر بھی غور نہیں کیا کہ ایسے کام کیا جانا  چاہئے۔

بھائی بہنو،

کانگریس کی سوچ اور اس کے کام کرنے کا طریقہ، ہم نے اپنی سوچ اور کام کرنے کا طریقہ بدل دیا اور کل گجرات کے گاندھی نگر میں میں نے ہندوستان کے پہلے بڑے پروگرام کا افتتاح کیا جو مشن اسکول آف ایکسی لینس ہے۔ پوری دنیا کی اسکولوں کی  برابری ہو، ایسے ٹیکنالوجی والے اسکول تیار ہوں اور گجرات میں جن اسکولوں کو ترجیح دی گئی ہے، ان میں سے چار ہزار اسکول قبائلی علاقوں کے ہیں، کیونکہ مجھے ہمارے قبائلی بیٹے اور بیٹیوں پر یقین ہے کہ اگر وہ یہ تعلیم حاصل کریں گے تو وہ  دنیا میں نام روشن کریں گے۔ مجھے قبائلی بیٹوں اور بیٹیوں پر پورا اعتماد ہے۔

قبائلی علاقے میں گزشتہ بیس سالوں میں دس ہزار سے زائد اسکول تیار ہوئے، ایکلویہ ماڈل اسکول اور بیٹیوں کے لیے رہائشی اسکول شروع کیے تاکہ وہ پڑھ سکیں۔ ان کے لیے کھیلوں کا انتظام کیا۔ آج، قبائلی علاقوں کے بیٹے اور بیٹیاں کھیل کمبھ کا اہتمام کرتے ہیں اور انعام حاصل کرتے ہیں۔ یہ ان کی طاقت ہے۔ نرمدا میں برسا منڈاقبائلی  یونیورسٹی، گودھرا میں گووند گرو یونیورسٹی قبائلی بچوں کیلئے یہ کام ہم نے کیا ہے۔

ہم نے قبائلی بچوں کے لیے وظائف کا بجٹ بھی دوگنا کر دیا ہے۔ ایکلویہ ماڈل اسکول کی تعداد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ اگر ان کے قبائلی بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں یا وہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کی مالی مدد کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

آج ہمارے قبائلی دنیا کے بڑے ممالک میں شاندار کام کر رہے ہیں۔ جس طرح سے ہماری حکومت نے شفافیت لائی ہے، بدعنوانی سے پاک کام کیا ہے، کھیلو انڈیا کا کام کیا ہے، ہمارے قبائلی بچوں کو مواقع حاصل ہو رہے ہیں۔

بھائی بہنو،

میں ون بندھو اسکیم لے کر گجرات آیا تھا، بھوپیندر بھائی آج بھی اس اسکیم کو آگے بڑھا رہے ہیں اور اس میں ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوئے ہیں۔ عمرگاؤں سے امباجی گاؤں کے قبائلی علاقے تک ایک لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔

اس کے دوسرے مرحلے کے کام پر ایک لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ خرچ ہوئے اور ان بچوں کیلئے یک بعد دیگرے متعدد نئے اسکول، میڈیکل کالج، نرسنگ کالج بنائے گئے۔ اس اسکیم کے تحت قبائلیوں کے لیے 2.5 لاکھ کروڑ روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ میرے گجرات میں تقریباً ڈھائی لاکھ گھر بن چکے ہیں۔ ہم نے اپنے قبائلی بھائیوں کے لیے پکے گھر ، زمین کا پٹہ لینے، اس کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے کام کیا ہے۔

بھائی بہنو،

قبائلی علاقے میں پچھلے پانچ سات سالوں میں چھ لاکھ گھر،  ایک لاکھ قبائلی خاندانوں کو زمین کے پٹے دئے گئے ہیں  ،یہ کام کرنے میں ہم  کامیاب رہے ہیں۔ مجھے یاد ہے جب آپ نے مجھے خدمت کا موقع دیا اور قبائلی معاشرے میں غذائی قلت کا مسئلہ تھا۔ جب ہماری بیٹیاں گیارہ سے بارہ  یا 13 سال کی تھیں تو  ان کے جسم کی نشوونما ہونی چاہیے تھی، ہمیں خاندانی مسائل کی فکر ہوئی اور بچوں کے لیے سنجیونی دودھ یوجنا کے ذریعے گاؤں گاؤں تک دودھ پہنچایا۔ ڈیڑھ ہزار سے زائد صحت مراکز شروع کیے اور میں نے سکل سیل جیسی بیماریوں کے لیے ملک بھر میں مہم چلائی۔ ہم پوری دنیا میں اس کا بہترین علاج کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاکہ میرے قبائلی خاندان جو صدیوں سے سکل سیل کی بیماری میں زندگی گزار رہے ہیں، ان سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اس کے لیے بھگیرتھ کام ہم نے کیا ہے۔

بھائی بہنو،

ہمارا کام مسائل سے نجات، جلد از جلد اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ہونا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے بچے غذائی  اسکیم سے صحت مند بنیں، ہماری ماؤں بہنوں کو دوران حمل غذائیت سے بھرپور خوراک ملے، اس کے لیے ہم ہزاروں روپے دے کر مدد کر رہے ہیں۔ مائیں ہوں، بہنیں ہوں، بچے ہوں، ان کو وقت پر ٹیکہ لگوانا چاہیے، ان کو فالج جیسی بیماری نہیں ہونی چاہیے، چھوٹے بچوں کی زندگی میں کوئی بھی سنگین قسم کی بیماری نہیں آنی چاہیے، اس کے لیے ہم اندر دھنش اسکیم استعمال کر رہے ہیں۔

یہی نہیں ڈھائی سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا، پورے ملک میں کورونا کی وبا آئی، اس صورتحال میں ہم نے سب سے پہلے کیا کیا، ہم نے فیصلہ کیا کہ مصیبت زدہ دیہاتوں میں، جنگلوں میں زندگی گزارنے والے، 80 کروڑ متوسط ​​طبقے کے لوگ۔،یہ اعداد و شمار سن کر دنیا کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، ایسے لوگوں کو مفت راشن ملنا چاہیے اور غریب کے گھر کا چولہا نہ بجھنا چاہیے، ہم نے ایسے انتظامات کیے ہیں۔ ہم نے غریبوں کے لیے تین لاکھ کروڑ روپے خرچ کرنے کا کام کیا ہے۔ کوئی خاندان بھوکا نہ رہے، کوئی بچہ بھوکا نہ سوئے۔ ہم وہ ہیں جو اس کی پرواہ کرتے ہیں۔

ہماری مائیں اور بہنیں،   تب محکمہ جنگلات کے ساتھ کتنی تکرار ہوتی  ہے، جب گھر میں لکڑی کے دھوئیں سے آنکھیں خراب ہو جاتی ہیں۔ ہم نے آپ کو گیس کنکشن، گیس سلنڈر دیے ہیں اور میں بھوپیندر بھائی کو مبارکباد دیتا ہوں کہ دیوالی پر ہم نے ان سب کو دو سلنڈر مفت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنی ماؤں بہنوں کے آشیرواد سے ہمیں نئے کام کرنے کی طاقت ملتی ہے۔ جس سے ہزاروں خاندان مستفید ہوئے ہیں۔

ہم آیوشمان بھارت اسکیم لے کر آئے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی بیماری ہے تو آپ کا یہ بیٹا پانچ لاکھ روپے تک کا بل دینے کو تیار ہے۔ ایک لاکھ نہیں بلکہ ہر سال پانچ لاکھ روپے۔ اگر آپ ابھی چالیس سال تک زندہ ہیں تو ہر سال پانچ پانچ لاکھ روپے آپ کی بیماری کے لیے استعمال ہونے چاہئیں، آیوشمان یوجنا کا مطلب ہے کہ یہ کام سونے کی لکڑی جیسا ہے۔ سونے کی لکڑی لے کر جہاں بھی جائیں، فوراً پیسے مل جاتے ہیں۔ آیوشمان کارڈ سونے کی لکڑی کی طرح ہے۔ یہ آیوشمان کارڈ ایسا ہے کہ بڑے سے بڑے اسپتالوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اگر آپ کی بیماری میں سب سے بڑے آپریشن کی ضرورت ہو تو آپریشن کیا جاتا ہے۔

صرف یہی نہیں کہ  آپ اپنا علاج تاپی، ویاری یا سورت میں کروائیں بلکہ آپ کولکتہ، ممبئی، دہلی میں جہاں کہیں بھی ہوں، وہاں بھی یہ سونے کی لکڑی کی طرح کام کرے گا۔ کارڈ دکھائیں، مودی صاحب کی تصویر دیکھتے ہی  دروازے کھل جائیں گے۔ بھائیو یہ کام ہم نے غریبوں کے لیے کیا ہے۔ ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ ہمارے قبائلی معاشرے کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ہمارے قبائلی معاشرے نے تحریک آزادی میں کتنا بڑا تعاون دیا ہے۔ کتنے بہادروں نے قربانی دی اور قبائلی بھگوان برسا منڈا نے اپنی جان کانذرانہ پیش کیا، لیکن پہلے کی حکومتوں نے انہیں بھلا دیا ۔ ایسے کئی بچے ہوں گے جنہوں نے برسا منڈا کا نام پہلی بار سنا ہوگا۔ اب 15 نومبر کو برسا منڈا کے یوم پیدائش کو قبائلی فخر کے دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

آپ حیران ہوں گے کہ یہ قبائلی معاشرے صدیوں سے ملک میں موجود ہیں یا نہیں؟ قبائلی معاشرے یہاں تھے یا نہیں؟ بھگوان رام کے زمانے میں شبری ماتا تھی یا نہیں  لیکن ملک آزاد ہوا اور جب تک اٹل جی کی حکومت نہیں بنی، قبائلیوں کی بھلائی کے لیے کوئی وزارت نہیں تھی۔ پہلی بار بی جے پی کی حکومت بنی، پھر قبائلیوں کے لیے الگ وزارت بنائی گئی اور قبائلیوں کے لیے الگ بجٹ مختص کیا گیا اور قبائلیوں پر توجہ دی جانے لگی۔ یہ کام کانگریسی بھی کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ بی جے پی والوں نے آکر قبائلیوں کے لیے الگ بجٹ اور وزارت بنائی اور اب ان کی ترقی کے لیے کام کیا جاتا ہے۔ اٹل جی کی حکومت نے گرام سڑک اسکیم بنائی۔ ہمیں قبائلی علاقے میں گاؤں جانے والی سڑک کی فکر تھی۔

بھائی بہنو،

یہ ڈبل انجن والی حکومت دوہری قوت سے کام کر رہی ہے۔ یہ ہماری حکومت ہے جس نے تمام پیداوار میں ایم ایس پی کی حد 12 ہزار سے بڑھا کر 90 ہزار کر دی ہے۔ ہم نے 90 ہزار ایسی چیزیں شامل کی ہیں جو ہمارے قبائلی علاقے میں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم نے خانہ بدوش قبائل کو بھی ترجیح دی۔ اس کے لیے الگ بورڈ بنایا گیا۔ ہمارے ملک میں پہلے بھی بہت سے قوانین تھے، انگریزوں نے یہ قوانین اپنے فائدے کے لیے بنائے تھے، لیکن میرے قبائلی لوگ بانس بھی نہیں کاٹ سکتے تھے، اگر ایسا کرتے تو انہیں جیل جانا پڑتا۔ اگر کوئی قبائلی بھائی بانس کو کاٹ کر اس سے بنی چیزیں بیچتا ہے تو اس سے ضروریات زندگی خرید کر روزی کما سکتا ہے۔ میں نے آکر اس قانون کو بدل دیا۔ میں نے کہا یہ بانس گھاس ہے، درخت نہیں، کوئی بھی بانس کی کاشت کر سکتا ہے، اسے کاٹ کر بیچ سکتا ہے۔ یہ میرے قبائلیوں کا حق ہے۔ آپ کے اس بیٹے نے آکر انگریزوں کے دور کے اصول بدل دیئے اور آج میرا قبائلی بھائی بانس کی کاشت کا مالک بن گیا ہے اور آٹھ سالوں میں ہم نے قبائلی علاقے کے بجٹ میں تین گنا اضافہ کیا ہے۔ ان تمام کوششوں سے قبائلیوں کو روزگار ملنا چاہیے، قبائلی بیٹیوں کو ترقی کے مواقع ملنا چاہیے، انھیں خود روزگار ملنا چاہیے، ایسی کوششیں ہم نے کی ہیں۔

آج ملک کو فخر ہے کہ ایک قبائلی بیٹی صدر کے عہدے پر بیٹھی ہے۔ ملک میں پہلی بار ایسا ہوا ہے، ہمارے منگو بھائی گورنر کے عہدے پر بیٹھے ہیں۔ یہ تبدیلی ہم لائے ہیں۔ جدوجہد آزادی میں قبائلیوں نے اہم کردار ادا کیا۔ وہ انگریزوں کے سامنے نہیں جھکے۔ قبائلی معاشرے کے ایسے بہت سے واقعات ہیں، جنہیں سب بھول چکے ہیں۔ جس کے لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ تمام ریاستوں میں اس طرح کے واقعات جو بھی ہوں، میں بڑے بڑے عجائب گھر بناؤں گا اور بچوں کو دکھانے کیلئے لے کر جائیں گے کہ  دیکھئے ہم آج جس خوشی کی زندگی گزار رہے ہیں اس کے لیے ہمارے قبائلی بھائیوں نے کیا کیا ہے، کتنی  قربانیاں دی ہیں۔ ہم کا استقبال کرتے  ہیں۔ ان کے قدموں کی خاک لے۔ میں آنے والی نسلوں کو یہ سکھانا چاہتا ہوں۔

بھائی بہنوں

یہ ڈبل انجن والی حکومت سیاحت کے شعبے میں بھی بہت سے کام کر رہی ہے۔ آپ سوچئے دیوموگرا، گجرات کے ایک بھی سی ایم نے کبھی دیوموگرا کا نام نہیں سنا تھا، میں دیوموگرا گیا تھا اور اس کے بعد دیوموگرا کا میلہ ہو، اس کا انتظام ہو، کتنا بدل گیا ہے۔ یہ ساپوتارا ایک مکمل روزگار کا مرکز بن چکا ہے۔

آج اسٹیچو آف یونٹی پورے علاقے کے قبائلیوں کے لیے روزگار کا مرکز بن چکا ہے۔ ترقی میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ آج دونوں کو ملانے والی سڑک تیار کی جا رہی ہے، اس کے درمیان یاترا والے علاقے آئیں گے۔ آپ غور کریں کہ قبائلیوں کے گھروں میں کمائی کے کتنے ذرائع تیار ہو رہے ہیں۔ اب ان کو سڑک کے سیاہ ڈامر پر کام کرنے کے لیے شہر کے فٹ پاتھ پر رہنا پڑتا تھا، وہ دن گزر گئے۔ اب وہ اپنے گھر رہ کر روزی کما سکتا ہے، مجھے اتنی طاقت دینی ہے۔

اس ترقیاتی شراکت داری کا مقصد غریب سے غریب ترین افراد کو بااختیار بنانا ہے۔ ڈبل انجن والی حکومت ہمارے قبائلی نوجوانوں کی استعداد بڑھانے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے۔ سب کی کوشش، ہم اسی منتر کے ساتھ چل رہے ہیں۔ ہم ایسے انتظامات کر رہے ہیں کہ معاشرے کا دور دراز کا فرد بھی معاشرے کا حصہ بن جائے اور ترقی کرنے والا معاشرہ بھی دور دراز کے فرد کا بھلا کرنے کی اپنی ذمہ داری نبھائے۔

بھائی بہنو،

بی جے پی حکومت غریبوں اور قبائلیوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہے۔ غریب ہوں، مصیبت زدہ ہوں یا استحصال زدہ، ہم ان کا کام کرنے کے لیے دل سے کوشش کر رہے ہیں اور اسی لیے آپ سب اتنی بڑی تعداد میں آکر آشیرواد دیتے ہیں۔ آپ کا آشیرواد ہماری توانائی اور تحریک ہیں۔ آپ کا آشیرواد ہماری طاقت ہے۔ آپ کے آشیرواد کی وجہ سے ہی ہماری زندگی آپ کیلئے وقف ہے۔ آپ کے آشیرواد سے مسلسل ترقی کرتے رہیں اور آپ کے عنایات کے سرمائے سے آنے والے دنوں میں مسلسل ترقی کرتے رہیں، آپ کے سکون کے لیے کام کرتے رہیں، ایسا ہی آشیرواد بنا رہے۔ میری یہی خواہش ہے۔ میں بہت سارے ترقیاتی کام آپ کے قدموں میں وقف کر کے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔ دونوں ہاتھ اٹھا کر پوری طاقت  سے میرساتھ بولیں -

بھارت ماتا کی جئے،

اور زور سے بھارت ماتا کی جئے

اور زور سے بھارت ماتا کی جئے

بہت شکریہ

 

***********

                                                    

ش ح ۔ ع ح ۔

U. No.11687



(Release ID: 1869948) Visitor Counter : 247