وزیراعظم کا دفتر

گجرات  کے اسٹیچو آف یونٹی میں مشن لائف کے آغاز کے موقع پر وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 20 OCT 2022 3:04PM by PIB Delhi

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گٹیرس جی، گجرات کے وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، ہندوستان کے وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر جی، ملک و بیرون ملک کے تمام معززین، خواتین و حضرات، اس  قابل فخر  زمین پر آپ سب کا پرتپاک خیر مقدم ہے ۔ انٹونیو گٹیرس جی  کے لیے ہندوستان دوسرے گھر کی طرح ہے۔ آپ نے اپنی جوانی میں کئی بار ہندوستان کا سفر بھی کیا۔ گوا کے ساتھ آپ کے خاندانی تعلقات بھی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں آج اپنے ہی خاندان کے ایک فرد کا گجرات میں استقبال کر رہا ہوں۔ انٹونیو گٹیرس     جی یہاں آنے کے لیے آپ کا بہت شکریہ، بہت بہت مبارکباد۔ مجھے خوشی ہے کہ مشن لائف کے آغاز کے وقت  سے بہت سے ممالک اس قرارداد سے وابستہ ہیں۔ میں فرانس کے صدر جناب  میکرون،برطانیہ کی  وزیر اعظم لز ٹرس،  گیانا کے صدر عرفان علی،  ارجنٹینا  کے صدر البرٹو فرنانڈیز، ماریشس کے وزیر اعظم پراوِند جگناتھ،  مڈغاسکر کے صدر آندرے راجو ایلینا جی ، نیپال کے وزیر اعظم شیر بہادر جی، مالدیپ کے بھائی صالح جی ، جارجیا کے وزیر اعظم ایراکلی گریباشویلی، ایسٹونیا کے وزیر اعظم کجا کلاس کا میں تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ساتھیوں،

یہ تقریب ہمارے قومی فخر، سردار ولبھ بھائی پٹیل کے  عظیم مجسمے، اسٹیچو آف یونٹی کے قریب  منعقد کی جا رہی ہے، اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف زندگی میں اتحاد ہی  سب سے اہم عنصر ہے۔ دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ ہمیں اعلیٰ ماحولیاتی اہداف طے کرنے اور انہیں پورا کرنے کی ترغیب دے گا۔

ساتھیوں،

جب معیارات بڑے ہوتے ہیں تو ریکارڈ بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ گجرات میں اس تقریب کا انعقاد بہت معنی رکھتا ہے۔ اور یہ بالکل موزوں ہے۔ گجرات ہندوستان کی ان ریاستوں میں سے ایک ہے جس نے سب سے پہلے قابل تجدید توانائی اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے بہت سے قدم اٹھانا شروع کیے تھے۔  چاہے بات نہروں پر سولر پینل لگانے کی  ہو، یا قحط زدہ علاقوں میں پانی کی سطح کو بڑھانے کے لیے پانی کے تحفظ کی مہم ہو، گجرات ہمیشہ ایک طرح سے ایک رہنما کی شکل میں ،ایک  رجحان ساز  کی شکل میں رہا ہے۔

ساتھیوں،

موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک مفروضہ بنا دیا گیا ہے کہ  گویا یہ صرف پالیسی سے متعلق معاملہ ہے۔ لیکن جیسے ہی ہم اس مسئلے کو پالیسی کے ساتھ دیکھنا شروع کرتے ہیں، دانستہ یا نادانستہ ہمارے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ حکومت اس پر کچھ کرے گی۔ یا وہ سمجھتے ہیں کہ بین الاقوامی اداروں کو اس پر کوئی اقدام کرنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ حکومت، بین الاقوامی ادارے، ان کا کردار بڑا ہے، اور وہ اسے نبھانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں۔ لیکن ہم سب دیکھ سکتے ہیں کہ اب اس مسئلے کی سنگینی بحثوں سے نکل چکی ہے اور آج دنیا کے کونے کونے میں، ہر گھر میں نظر آرہی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لوگ اپنے اردگرد ہونے والی تبدیلیوں کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں، ہم نے غیر متوقع آفات کے پیش نظر اس ضمنی اثر کو شدت سے جھیلا ہے۔ آج ہمارے گلیشیئر پگھل رہے ہیں، سمندر کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ ہمارے دریا خشک ہو رہے ہیں، موسم غیر یقینی ہو رہا ہے۔ اور یہ تبدیلیاں لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہی ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے کو صرف پالیسی سازی کی سطح پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ لوگوں کو خود یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ایک فرد، ایک خاندان اور ایک کمیونٹی کے طور پر، انہیں اس زمین کے لیے ، اس کرہ ارض کے لیے کچھ نہ کچھ  ذمہ داری اٹھانی چاہیے اور خود سے بھی  کچھ کرنا چاہیے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ اپنی کوشش یا خاندان اور اپنی برادری کے ساتھ مل کر کیا اقدامات کر سکتے ہیں، تاکہ سرزمین کی حفاظت ہو سکے؟ اس   زمین کا   تحفظ ہو سکے۔

ان تمام سوالوں کا جواب مشن لائف میں پنہاں ہے۔مشن لائف کا منتر ہے 'لائف اسٹائل فار انوائرمنٹ' ۔زمین پر رہنے والے ہر شخص کی انفرادی کوششوں کی آرزو مندی   کے ساتھ ساتھ آج میں مشن لائف کے اس وژن کو دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ مشن لائف اس دھرتی کے تحفظ کے لیے لوگوں کی طاقتوں کو جوڑتا ہے، انہیں بہتر طریقے سے استعمال کرنا سکھاتا ہے۔ مشن لائف آب و ہوا کی تبدیلی کے خلاف جنگ کو  جمہوری طریقے سے بڑھا رہا ہے،ایک طرح سے اس کی توسیع کر رہا ہے جس میں ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق حصہ ڈال سکتا ہے۔ مشن لائف کا خیال ہے کہ چھوٹی کوششیں بھی بہت زیادہ اثر ڈال سکتی ہیں۔ مشن لائف ہمیں اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ ہم سب اپنی روزمرہ کی زندگی میں بہت کچھ کر سکتے ہیں جس سے  ماحول کا تحفظ ہو سکے ۔ مشن لائف کا خیال ہے کہ ہمارے طرز زندگی کو بدل کر ماحولیات کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ میں آپ کو دو بہت دلچسپ مثالیں دینا چاہتا ہوں، میں آپ کو ایک بہت سادہ سی بات بتانا چاہتا ہوں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ کچھ لوگ اے سی کا درجہ حرارت 17 ڈگری  سیلسیس یا 18 ڈگری سیلسیس  پر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن اے سی کا درجہ حرارت اتنا کم کرنے کے بعد یہ لوگ سونے کے وقت کمبل یا لحاف کا سہارا لیتے ہیں۔ اے سی کا  ہر ڈگری درجہ حرارت کو کم کرنا  ماحول پر  اتنا ہی منفی اثر ڈالنا ہے ۔ یعنی اگر ہم اپنی طرز زندگی کو ٹھیک کر لیں تو ہم ماحولیات کے لیے بہت بڑے  مدد گار ثابت ہوں گے۔ یہاں میں لائف اسٹائل سے ایک اور مثال بتانا چاہتا ہوں۔ ہم دیکھتے ہیں، کچھ لوگ 5 کلومیٹر فی لیٹر کی اوسط گاڑی کے ساتھ جم جاتے ہیں اور جم میں ٹریڈ مل  پر پسینہ بہانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارے بھائی اگر یہ پسینہ آپ  پیدل چل کر  یا سائیکل پر  جم جا کر بہا لیتے تو ماحول بھی محفوظ رہتا اور آپ کی صحت بھی محفوظ رہتی۔

ساتھیوں،

فرد اور معاشرے کی چھوٹی چھوٹی کوششیں طرز زندگی سے کتنے بڑے نتائج لا سکتی ہیں۔ میں اس کی ایک مثال بھی دینا چاہتا ہوں۔ ہندوستان میں، ہم نے چند سال پہلے ہم وطنوں سے زیادہ سے زیادہ ایل ای ڈی بلب استعمال کرنے کی اپیل کی تھی۔ جس کا مقصد عوام کے بجلی کے بل میں کمی، بجلی کی قیمت میں کمی  لانا اور ماحولیات کا تحفظ بھی تھا۔ حکومت نے ایل ای ڈی بلب کی اسکیم شروع کی اور ملک کا نجی شعبہ بھی اس میں شریک ہوا۔ یہاں آنے والے بین الاقوامی ماہرین کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہندوستان کے لوگوں نے کچھ ہی عرصے میں اپنے گھروں میں 160 کروڑ سے زیادہ ایل ای ڈی بلب لگالئے ، تبدیل کر لئے   اور اس کا اثر یہ ہے کہ 100 ملین ٹن سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کی   پیداوار ہم کم کر  سکے ، اس کے اخراج کو کم کر سکے۔ اور میں آپ سے ضرور کہوں گا کہ یہ نوٹ کریں، یہ ہر سال ہو رہا ہے، یہ صرف ایک دفعہ کا واقعہ نہیں ہے، ہر سال یہ فائدہ مند ہونے والا ہے اور ہر  سال اس کا  فائدہ   ہونے والا ہے، ہو رہا ہے۔ ایل ای ڈی کی وجہ سے اب ہر سال اتنا اخراج کم ہونے لگا ہے۔

ساتھیوں،

گجرات مہاتما گاندھی کی سرزمین ہے، جائے پیدائش ہے۔  وہ ان مفکرین میں سے تھے جو ماحول کے تحفظ اور فطرت کے مطابق زندگی گزارنے کی اہمیت کو بہت زیادہ سمجھتے تھے۔ انہوں نے ٹرسٹی شپ کا تصور پیش  کیا تھا۔ مشن لائف اس سب کو ماحولیات کا ٹرسٹی بناتا ہے۔ ٹرسٹی وہ ہوتا ہے جو وسائل کے اندھا دھند استعمال کی اجازت نہ دے۔ ایک ٹرسٹی ایک استحصال کنندہ  کے طور پر نہیں بلکہ   تحفظ دینے والے  کے طور پر کام کرتا ہے۔ مشن لائف پی3 کے تصور کو مضبوط کرے گا۔ پی تھری کا مطلب ہے پرو پلینٹ پیپل۔ آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں یہ بحث چل رہی ہے کہ کون کس ملک یا گروہ کے ساتھ ہے اور کون کس ملک یا گروہ کے خلاف ہے۔ لیکن مشن لائف، زمین کے لوگوں کو پرو پلینٹ پیپل کے طور پر جوڑتا ہے، انہیں اپنے خیالات میں شامل کرتا ہے، انہیں متحد کرتا ہے۔ یہ ' لائف اسٹائل  آف دی پلینٹ، فار دی پلینٹ اینڈ باءی دی پلینٹ' کے بنیادی اصول پر چلتا ہے۔

ساتھیوں،

ہم ماضی سے سبق سیکھ کر ہی بہتر مستقبل بنا سکتے ہیں۔ ہندوستان میں ہزاروں سالوں سے فطرت کی پوجا کرنے کی ایک بھرپور روایت رہی  ہے۔ ہمارے ویدوں میں بھی بہت  درست  طریقے سے  پانی، زمین، ہوا اور قدرت کی طرف سے دی گئی تمام چیزوں کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر، اتھروو   وید کہتا ہے ماتا بھومیہ: پوترہم پرتھیویہ  یعنی زمین ہماری ماں ہے اور ہم اس کے بچے ہیں۔ 'ریڈیوس، ری یوز اینڈ ری سائیکل' اور سرکلر اکانومی ہزاروں سالوں سے ہم ہندوستانیوں کے طرز زندگی کا حصہ رہی ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کے بہت سے حصوں میں، بہت سے ممالک میں، اس طرح کے رواج آج بھی رائج ہیں، جو ہمیں فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ چلنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ مشن لائف فطرت کے تحفظ سے متعلق ہر اس  طرز زندگی کا احاطہ کرے گا، جسے ہمارے آباؤ اجداد نے اپنایا تھا ، اور جسے ہم اپنے طرز زندگی کا حصہ بنا سکتے ہیں۔

ساتھیوں،

آج ہندوستان کا سالانہ فی کس کاربن فوٹ پرنٹ صرف 1.5 ٹن  ہی ہے، جبکہ عالمی اوسط 4 ٹن سالانہ ہے۔ اس کے باوجود، بھارت موسمیاتی تبدیلی جیسے عالمی مسئلے کو حل کرنے میں سب سے آگے کام کر رہا ہے۔ اس نے کوئلہ اور لکڑی کے دھوئیں سے نجات کے لیے اجولا اسکیم شروع کی۔ پانی کی حفاظت کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم آج ہندوستان کے ہر ضلع میں 75 'امرت سروور' بنانے کی ایک بڑی مہم چلا رہے ہیں۔ یہاں ویسٹ سے ویلتھ  پر بے مثال زور دیا جا رہا ہے۔ آج ہندوستان دنیا میں قابل تجدید توانائی کی چوتھی سب سے بڑی صلاحیت کے طور پر ابھرا ہے۔ آج ہم ونڈ انرجی میں بھی چوتھے نمبر پر ہیں، سولر انرجی میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ پچھلے 7-8 سالوں میں ہندوستان کی قابل تجدید توانائی کی صلاحیت میں تقریباً 290 فیصد   کا  اضافہ ہوا ہے۔ ہم نے  الیکٹرک صلاحیت کا چالیس فیصد غیر حیاتیاتی  ایندھن  یعنی اس سورس کو  ہی  حاصل کرنے کا ہدف ہم نے مقررہ  وقت  سے 9 سال قبل حاصل کر لیا ہے۔ ہم نے پیٹرول میں 10 فیصد ایتھنول ملانے  کا ہدف بھی مقرر کیا تھا اور ہم نے وہ بھی مقررہ تاریخ سے 5 ماہ قبل حاصل کر لیا ہے۔ ہندوستان پٹرول میں 20 فیصد ایتھنول ملانے  کے ہدف پر کام کر رہا ہے۔ ہندوستان بھی ہائیڈروجن ایکو سسٹم کے لیے ماحول دوست توانائی کے ذرائع کی طرف بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، اور یہ گجرات اس سبز ہائیڈروجن کے مرکز کے طور پر ترقی کر رہا ہے۔ اس سے ہندوستان اور دنیا کے کئی ممالک کو خالص صفر (نیٹ زیرو)کا اپنا ہدف   حاصل کرنے میں بہت بڑی  مدد ملے گی۔

ساتھیوں،

آج ہندوستان بھی ترقی کر رہا ہے اور اتنی ہی اچھی مثال بنا کر فطرت کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کا راستہ بنا رہا ہے۔ آج ہندوستان  دنیا کی پانچویں بڑی معیشت  بھی بن چکا ہے، ہمارے جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جنگلی حیات کی تعداد میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ہندوستان اب دنیا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید بڑھانا چاہتا ہے۔ ایک سورج، ایک دنیا، ایک گرڈ جیسی مہم  ایسے مقاصد کے لیے ہمارے عزم کو مضبوط کرتی ہیں۔ کولیشن فار  ڈیزاسٹر ریسیلینٹ انفراسٹرکچر  کی تشکیل کی قیادت کرتے ہوئے، ہندوستان نے دنیا کو ماحولیاتی تحفظ کے تئیں اپنے تصور سے واقف کرایا ہے۔ مشن لائف اس سلسلے کا اگلا قدم ہے۔

ساتھیوں،

سکریٹری جنرل انٹنیو گٹیرس مجھ سے اتفاق کریں گے کہ جب بھی ہندوستان اور اقوام متحدہ نے مل کر کام کیا ہے، دنیا کو بہتر بنانے کے نئے طریقے ملے  ہیں۔ ہندوستان نے بین الاقوامی یوگا ڈے کی قرارداد  پیش کی تھی جس کی اقوام متحدہ نے حمایت کی تھی اور آج اقوام متحدہ کی اس حمایت کی وجہ سے یوگا دنیا کے لاکھوں لوگوں کو صحت مند زندگی گزارنے کی ترغیب دینے کا ایک سبب بن گیا ہے۔ ایسی ہی ایک مثال جوار کا بین الاقوامی سال ہے۔ ہندوستان دنیا کو اپنے روایتی اور ماحول دوست، موٹے اناج سے جوڑنا چاہتا تھا۔ اقوام متحدہ نے بھی اس کی حمایت کی۔ ہم اگلے سال جوار کا عالمی سال منانے جا رہے ہیں لیکن ابھی سے پوری دنیا میں اس کا چرچا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اقوام متحدہ کے تعاون سے مشن لائف کو دنیا کے کونے کونے میں ، ہر ملک میں ، ہر شہری تک پہونچانے  میں بہت بڑی کامیابی ملے گی۔ ہمیں اس منتر کو یاد رکھنا ہے - پراکرتی رکشتی رکشیتا۔ یعنی جو لوگ فطرت کی حفاظت کرتے ہیں، فطرت ان کی حفاظت کرتی ہے۔ مجھے یقین ہے، اس مشن  لائف  پر عمل کرتے ہوئے، ہم ایک بہتر دنیا بنانے کے قابل ہو جائیں گے۔ میں ایک بار پھر آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اقوام متحدہ کی اس حمایت کے لیے ایک بار پھر تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی بات  ختم کرتا ہوں۔

شکریہ!

***

 

ش ح ۔ م م ۔ م ر

U.No:11650



(Release ID: 1869579) Visitor Counter : 124