وزیراعظم کا دفتر

دہلی میں منعقد ’اُدیمی بھارت‘ پروگرام میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 30 JUN 2022 3:56PM by PIB Delhi

مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی جناب نارائن رانے جی، جناب بھانو پرتاپ سنگھ ورما جی، کابینہ کے دیگر تمام ممبران، ملک کی الگ الگ ریاستوں سے آئے ہوئے وزراء، ملک بھر کے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے جڑے سبھی میرے اُدیمی (یعنی صنعت کار) بھائی بہن، دیگر تمام حاضرین، خواتین و حضرات،

ہمارے یہاں بچپن سے ایک شلوک سکھایا جاتا ہے، اور یہ شلوک ہم سب نے سنا ہے–

اُدیمین ہی سدھینتی، کاریانی نا منورتھے:

یعنی کاروبار کرنے سے ہی کامیابی ملتی ہے، صرف سوچتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا، اور سوچنے والوں کی کمی نہیں ہوتی۔  اس شلوک کے مطلب کو اگر میں آج کے دور کے حساب سے تھوڑا بدل کر کہوں تو میں یہ کہوں گا کہ ایم ایس ایم ای کی صنعت کاری سے ہی آتم نربھر بھارت ابھیان کو کامیابی ملے گی، بھارت مضبوط ہوگا۔ کہنے کو تو آپ لوگ بہت ہی چھوٹے، چھوٹے اور اوسط درجے کے کاروباری ہیں، لیکن 21ویں صدی کا بھارت جس بلندی کو حاصل کرے گا، اس میں آپ سبھی کا رول بہت اہم ہے۔

بھارت کا ایکسپورٹ لگاتار بڑھے، بھارت کے پراڈکٹس نئے بازاروں میں پہنچیں اس کے لیے ملک کے ایم ایس ایم ای سیکٹر کا مضبوط ہونا بہت ضروری ہے۔  ہماری حکومت، آپ کی اسی صلاحیت، اس سیکٹر کے بے شمار امکانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فیصلہ لے رہی ہے، نئی پالیسیاں بنا رہی ہے۔ ہمارے ملک کے ہر ضلع میں، ہر حصے میں جو ہماری انوکھی مصنوعات ہیں، ان لوکل مصنوعات کو ہم نے گلوبل بنانے کا عزم کیا ہے۔

کوشش یہ ہے کہ میک ان انڈیا کے لیے لوکل سپلائی چین بنے، جو بھارت کے بیرونی ممالک پر انحصار کو کم کر سکے۔ اب اس لیے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو وسیع کرنے پر کافی زور دیا جا رہا ہے۔ اسی سلسلے میں آج متعدد نئی اسکیمیں شروع کی گئی ہیں۔ ہزاروں کروڑ روپے کی یہ اسکیمیں، ایم ایس ایم ای کی کوالٹی اور پروموشن سے جڑی ہیں۔ ایم ایس ایم ای ایکو سسٹم کو مزید مضبوط کرنے کے لیے تقریباً 6 ہزار کروڑ روپے کی ریمپ اسکیم ہو، فرسٹ ٹائم ایکسپورٹرز کو ترغیب دینے کا پروگرام ہو، اور پردھان منتری روزگار تشکیل پروگرام کے دائرے کو بڑھانے کا فیصلہ ہو، حکومت کی ان اہم کوششوں سے بھارت کے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو مزید رفتار حاصل ہونے والی ہے۔

تھوڑی دیر پہلے ملک کی 18 ہزار ایم ایس ایم ای کو 500 کروڑ روپے سے زیادہ ٹرانسفر کیے گئے ہیں، آپ کے سامنے ڈیجیٹلی، آل ریڈی ان کے اکاؤنٹ کو پیسے چلے گئے۔ 50 ہزار کروڑ روپے کے سیلف ریلائنٹ انڈیا فنڈ کے تحت 1400 کروڑ روپے سے زیادہ ایم ایس ایم ای کے لیے ریلیز ہوئے ہیں۔ تمام مستفیدین کو، پورے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو میں اس کے لیے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں، بہت ساری نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ابھی یہاں اسٹیج پر آنے سے پہلے مجھے کئی ساتھیوں سے بات چیت کرنے کا موقع ملا اور ان لوگوں سے میں بات کر رہا تھا جن کو حکومت کی کسی نہ کسی اسکیم کا فائدہ ملا تھا۔ اب انہوں نے اس میں اپنے ٹیلنٹس، اپنی محنت، اپنی اسکل ان سب کو لگا کر ایک نئی دنیا کھڑی کر دی ہے۔

بات چیت کے دوران جس قسم کی خود اعتمادی میں ان میرے نوجوان زیادہ تر تھے، ہماری مائیں-بہنیں تھیں، بیٹیاں تھیں۔ ان سب کاروباریوں میں میں جو محسوس کر رہا تھا، وہ خود اعتمادی اور آتم نربھر بھارت کی جو مہم ہے اس میں ایک نئی توانائی کا احساس ہوتا تھا۔ شاید مجھے زیادہ وقت ہوتا تو میں اور گھنٹوں تک ان سے باتیں کرتا رہتا کہ ہر ایک کے پاس کچھ نہ کچھ کہنے کو ہے، ہر ایک کے پاس اپنا تجربہ ہے، ہر ایک کی اپنی ایک ہمت ہے، ہر ایک نے اپنی آنکھوں کے سامنے  اپنے وقار کو بنتے دیکھا ہے۔ یہ اپنے آپ میں بڑا  خوشگوار تجربہ تھا۔

آج بہت سے ساتھیوں کو انعام بھی ملا ہے۔ جن ساتھیوں نے انعام حاصل کیا ہے ان کو میں مبارکباد تو دیتا ہوں لیکن جب انعام ملتا ہے تو امیدیں ذرا زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ہم چاہیں گے کہ آپ نے جو کیا ہے، اب ایک بہت بڑی چھلانگ لگائیں۔ آپ نے جو کیا ہے اس سے آپ بہت سے دوسرے لوگوں کو آمادہ کریں اور ایک ایسا ماحول ہم بنا دیں کہ اب آگے ہی آگے جانا ہے۔

ساتھیوں،

آپ بھی جانتے ہیں کہ جب ہم ایم ایس ایم ای کہتے ہیں تو تکنیکی زبان میں اس کی توسیع ہوتی ہے مائکرو، اسمال اور میڈیم انٹرپرائزز۔ لیکن یہ بہت ہی چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعت، بھارت کی ترقی کے سفر کی بہت بڑی بنیاد ہیں۔ بھارت کی معیشت میں تقریباً ایک تہائی حصہ داری ایم ایس ایم ای سیکٹر کی ہے۔ آسان لفظوں میں کہوں تو بھارت آج اگر 100 روپے کماتا ہے، تو اس میں 30 روپے میرے ایم ایس ایم ای سیکٹر کی وجہ سے آتے ہیں۔ ایم ایس ایم ای سیکٹر کو مضبوط کرنے کا مطلب ہے، پورے سماج کو مضبوط کرنا، سب کو ترقی کے فائدے کا حصہ دار بنانا، سب کو آگے بڑھانا۔ اس سیکٹر سے جڑے کروڑوں ساتھی ملک کے دیہی علاقوں سے آتے ہیں۔ اس لیے ایم ایس ایم ای سیکٹر، ملک کے بہت ہی چھوٹے، چھوٹے اور اوسط درجے کے کاروبار حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہیں۔

ساتھیوں،

آج پوری دنیا بھارت کی معیشت کی رفتار کو دیکھ کر متاثر ہے اور اس رفتار میں بہت بڑا رول ہمارے ایم ایس ایم ای سیکٹر کا ہے۔ اس لیے ایم ایس ایم ای آج میکرو ایکانومی کی مجبوری کے لیے ضروری ہیں۔ آج بھارت جتنا ایکسپورٹ کر رہا ہے، اس میں بہت بڑا حصہ ایم ایس ایم ای سیکٹر کا ہے۔ اس لیے ایم ایس ایم ای آج میکسی مم ایکسپورٹ کے لیے ضروری ہیں۔ ایم ایس ایم ای سیکٹر کو مضبوطی دینے کے لیے پچھلے آٹھ سال میں ہماری حکومت نے بجٹ میں 650 فیصد سے زیادہ کا اضافہ کیا ہے۔ اور اس لیے ہمارے لیے ایم ایس ایم ای کا مطلب ہے – میکسی مم سپورٹ ٹو مائکرو اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز!

اس سیکٹر سے 11 کروڑ سے بھی زیادہ لوگ اس سے ڈائرکٹ انڈائرکٹ جڑے ہوئے ہیں۔ اس لیے ایم ایس ایم ای آج میکسی مم امپلائمنٹ کے لیے بہت ضروری ہیں۔ اس لیے جب 100 سال کا سب سے بڑا بحران آیا تو ہم نے اپنے چھوٹے کاروباریوں کو بچانے کے ساتھ ہی انہیں نئی طاقت دینے کا بھی فیصلہ کیا۔ مرکزی حکومت نے ایمرجنسی کریڈٹ لائن گارنٹی اسکیم کے تحت ساڑھے 3 لاکھ کروڑ روپے کی مدد ایم ایس ایم ای کے لیے یقینی بنائی۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس سے تقریباً ڈیڑھ کروڑ روزگار ختم ہونے سے بچ گئے، یہ بہت بڑا نمبر ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں کی آبادی سے بھی زیادہ بڑا نمبر ہے یہ۔ آفت کے وقت ملی یہی مدد آج ملک کے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو نئے روزگار کی تخلیق کے لیے آمادہ کر رہی ہے۔ ہم نے اس سال کے بجٹ میں ایمرجنسی کریڈٹ لائن گارنٹی اسکیم کو اگلے سال مارچ تک بڑھانے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس کے تحت، جو بھی اس کے تحت آتے ہیں ان کو بھی 50 ہزار کروڑ روپے سے بڑھا کر اب 5 لاکھ کروڑ روپے کر دیا گیا ہے، 10 گنا زیادہ۔

ساتھیوں،

آزادی کے اس امرت کال میں ہمارے ایم ایس ایم ای، بھارت کی آتم نربھرتا کے بڑے ہدف کو حاصل کرنے کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ ایک وقت تھا جب پہلے کی حکومتوں نے اس سیکٹر کی طاقت پر بھروسہ نہیں کیا، اس سیکٹر کو ایک طرح سے باندھ دیا تھا، ان کے نصیب پر چھوڑ دیا تھا۔ وہ اپنے بل بوتے پر کچھ کر پائیں تو کر لیں، ان کو کوئی موقع مل جائے تو کچھ آگے بڑھ لیں۔ ہمارے یہاں چھوٹی صنعتوں کو چھوٹا بنا کر رکھا جاتا تھا، بھلے ہی ان میں کتنا ہی امکان کیوں نہ ہو! چھوٹی صنعتوں کے لیے اتنی چھوٹی تعریف طے کی گئی تھی کہ آپ سب پر ہمیشہ یہ دباؤ رہتا تھا کہ اس سے زیادہ کاروبار کیا تو جو فائدے ملتے ہیں، وہ ملنا بند ہو جائیں گے۔ اس لیے اسکوپ تھا تو بھی بڑھنا نہیں چاہتا تھا، اگر بڑھتا تھا تو کاغذ پر آنے ہی نہیں دیتا تھا۔ چھپ چھپ کر تو تھوڑا بہت کر لیتا ہوگا۔ آپ کی بات میں نہیں بتاتا ہوں، وہ تو اوروں کی بات کر رہا تھا۔ آپ لوگ کبھی برا نہیں کر سکتے۔ آپ لوگ تو اچھے لوگ ہیں۔

اور اس کا ایک بڑا منفی اثر روزگار پر بھی پڑتا تھا۔ جو کمپنی زیادہ لوگوں کو روزگار دے سکتی تھی، وہ بھی زیادہ روزگار نہیں دیتی تھی تاکہ وہ بہت ہی چھوٹی اور چھوٹی صنعت کی حد سے باہر چلی جاتی تھی! اس کو ٹنشن رہتی تھی کہ بھئی اس سے نمبر بڑھنا نہیں چاہیے۔ اس سوچ اور ان پالیسیوں کی وجہ سے کتنی ہی صنعتوں کی ترقی اور پیش رفت رک گئی تھی۔

ہم نے اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے ایم ایس ایم ای کی تعریف بدل ڈالی اور ساتھ ہی بہت ہی چھوٹی، چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتوں کی ضرورتوں کا بھی دھیان رکھا۔ ہم نے یہ یقینی بنایا کہ یہ صنعتیں آگے بھی بڑھیں اور انہیں ضروری فائدہ اور مدد بھی ملتی رہے۔ اگر کوئی صنعت آگے بڑھنا چاہتی ہے، توسیع کرنا چاہتی ہے، تو حکومت نہ صرف اسے مدد دے رہی ہے، بلکہ پالیسیوں میں ضروری تبدیلی بھی کر رہی ہے۔

آج ہول سیل تاجر ہوں، رٹیل تاجر ہوں، رٹیل وینڈرز ہوں، یہ سبھی ایم ایس ایم ای کی نئی تعریف کے تحت پرایورٹی سیکٹر لینڈنگ کے تحت لون کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ اور آپ جانتے ہیں اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ مینوفیکچرنگ اور سروس سیکٹر کے درمیان کے فرق کو بھی دور کیا گیا ہے۔ آج جی ای ایم کے توسط سے حکومت کو اشیاء اور خدمات مہیا کرانے کے لیے ایم ایس ایم ای کو بہت بڑا پلیٹ فارم مل چکا ہے۔ اور میں سبھی آپ ساتھیوں سے اور آپ کے توسط سے آپ کے سبھی ایسو سی ایشن کو ایم ایس ایم ای سیکٹروں میں ہوں، چھوٹے چھوٹے لوگ، آپ جی ای ایم پورٹل پر رجسٹری کروا ہی دیجئے۔

ایک بار جی ای ایم پورٹل میں ہے تو حکومت کو کچھ بھی خریدنا ہے تو پہلے وہاں جانا ہی پڑے گا۔ آپ کہیں گے کہ میں نہیں دے پاؤں گا، تو پھر کہیں اور جائیں گے۔ اتنا بڑا فیصلہ اور حکومت ایک بہت بڑی خریدار ہوتی ہے۔ اس کو بہت سی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور اسے زیادہ تر ان چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے جس کو آپ بناتے ہیں۔ اور اس لیے میں چاہتا ہوں کہ جی ای ایم پورٹل پر ایک مشن موڈ میں آپ مہم چلائیے۔ آج تقریباً 60-50 لاکھ لوگ اس پر جڑے ہوئے ہیں جو فروش کنندہ ہیں، یہ تین چار کروڑ لوگ کیوں نہیں ہو سکتے ہیں۔ تاکہ حکومت بھی، اس کو بھی چوائس رہے گا کہ کس قسم کی چیزیں لی جا سکتی ہیں۔

دیکھئے، پہلے سرکاری خرید میں ایم ایس ایم ای کو قدم جمانے کی کتنی مشکلیں آتی تھیں۔ اس کے لیے بڑی مشکل ہوتی تھی کہ اتنی بڑی ریکوائرمنٹ، اتنا بڑا ٹنڈر، میں کہاں  جاؤں گا۔ وہ بیچارہ کسی اور کو دے دیتا تھا وہ جا کر دیتا ہے۔ اب ضروری نہیں ہے۔ اگر آپ ایک تھرمس بھی بیچنا چاہتے ہیں، ایک تھرمس، تو بھی جی ای ایم پورٹل سے یہ ملک خرید سکتا ہے، سرکار خرید سکتی ہے۔

مجھے میرے آفس میں ایک بار ایک تھرمس کی ضرورت تھی، تو ہم جی ای ایم پورٹل پر گئے تو تمل ناڈو کے گاؤں کی عورت نے کہا کہ میں دے سکتی ہوں۔ اور پی ایم آفس میں تمل ناڈو کے گاؤں سے تھرمس آیا، اس کو پیمنٹ مل گیا، تھرمس سے مجھے گرم چائے بھی مل گئی، اس کا بھی کام ہو گیا۔ یہ جی ای ایم پورٹل کی یہ طاقت ہے اور یہ آپ کے فائدے کے لیے ہے۔ آپ کو اس کا جتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں اٹھانا چاہیے۔

دوسرا ایک جو اہم فیصلہ کیا ہے – 200 کروڑ روپے تک کی سرکاری خرید میں اب گلوبل ٹنڈر نہیں کرنا، یہ ہماری حکومت کا فیصلہ ہے۔ اس کا مطلب ایک طرح سے آپ کے لیے ریزرویشن ہو گیا ہے وہ۔ اب یہ نہ ہو کہ بھئی 200 کروڑ تک تو لینا نہیں ہے تو جیسے بھی دو مودی جائے گا کہاں، اس کو تو لینا ہی پڑے گا، ایسا مت کرنا۔ کوالٹی کمپرومائز مت کرتا۔ آپ ایسا کرکے دکھائیے کہ حکومت کو فیصلہ کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑے کہ آج تو آپ نے 200 کروڑ کیا ہے، آگے سے 500 کروڑ کی پابندی لگا دیجئے، ہم 500 کروڑ تک دینے کو تیار ہیں۔ ہم ایک ہیلدی کمپٹشین کی طرف جا رہے ہیں۔

ساتھیوں،

گلوبل مارکیٹس میں بھی ایم ایس ایم ای صنعت ملک کا پرچم اور اونچا لہرائیں، اس کے لیے مسلسل ترغیب دی جا رہی ہے۔ اسی سمت میں فرسٹ ٹائم ایم ایس ایم ای ایکسپورٹرز کے لیے نئے انیشیٹو لیے گئے ہیں۔ مالی مدد ہو، سرٹیفکیشن سے جڑی مدد ہو، یہ سہولیات ایکسپورٹ پروسیس کو فرسٹ ٹائم ایکسپورٹرز کے لیے اور آسان بنائیں گی۔ اور میں تو چاہوں گا کہ ہمارے زیادہ سے زیادہ لوگ گلوبل مارکیٹ کی طرف نظر کریں۔ آپ یہ فکر مت کیجئے کہ آپ کی فیکٹری بہت چھوٹی ہے، آپ چیز بہت چھوٹی بناتے ہیں۔ آپ فکر مت کیجئے، آپ کھوجتے رہئے، دنیا میں کوئی تو ہوگا جو اس کے انتظار میں ہوگا۔

اور میں نے تو میرے مشن کو بھی کہا ہے  محکمہ خارجہ میں کہ اب محکمہ خارجہ ڈپلومیٹک جو کام کرتے آئے ہیں کریں، لیکن تین چیزیں ان کو کرنی ہی پڑ رہی ہیں، ہر مشن کو میں نے کہا ہے۔ میں مشن کا تجزیہ تین باتوں کو جوڑ کرکے کروں گا۔ ایک- ٹریڈ، دوسرا ٹیکنالوجی اور تیسرا ٹورزم۔ اگر آپ اُس ملک میں بھارت کے نمائندے ہیں تو آپ کو یہ بتانا ہوگا ہندوستان سے کتنا سامان اس ملک نے امپورٹ کیا- یہ حساب کتاب رکھوں گا۔

دوسرا میں نے کہا ہے اس ملک کے پاس اگر کوئی بہتر ٹیکنالوجی ہے، اس کو آپ ہندوستان میں لائے کہ نہیں لائے۔ کیا کوشش کی، یہ ناپا جائے گا۔ اور تیسرا، اس ملک سے کتنے لوگ بھارت دیکھنے کے لیے آئے۔ یہ 3-ٹی جو ہیں نا، آج مشن پورے لگے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر آپ اس مشن سے رابطہ نہیں کروگے، آپ نہیں بتاؤگے کہ ہاں بھائی یہ بناتے ہیں، آپ کے ملک میں وہاں یہ ضرورت ہے، تو پھر وہ مشن والے کیا کریں گے۔ حکومت آپ کی مدد کرنے کے لیے تیار ہے لیکن آپ بھی اپنے گاؤں میں، اپنی ریاست میں، اپنے ملک میں بیچنے کی بجائے آپ کی برانڈ دنیا میں جائے، یہ خواب لے کرکے آج یہاں سے جانا ہے۔ اگلی بار میں پوچھوں گا کہ پہلے 5 ملک میں مال جا رہا تھا اب 50 میں جا رہا ہے کہ نہیں جا رہا ہے، اور مفت بیچنا نہیں ہے، کمانا ہے آپ کو۔

ساتھیوں،

گزشتہ 8 برسوں میں ایم ایس ایم ای سیکٹر کی اتنی توسیع ہوئی ہے کیوں کہ ہماری حکومت ملک کے ایم ایس ایم ای کاروباریوں، گھریلو صنعتوں، ہتھ کرگھا، دستکاری سے جڑے ساتھیوں پر بھروسہ کرتی ہے۔ ہماری نیت اور ہمارا ارادہ بالکل صاف ہے اور اسی کا نتیجہ نظر آ رہا ہے۔ ہم کیسے تبدیلی لائے ہیں اس کی ایک مثال پردھان منتری روزگار سرجن پروگرام بھی ہے۔ 2008 میں جب ملک اور پوری دنیا اقتصادی کساد بازاری کی چپیٹ میں تھی، تب اس پروگرام کو لاگو کیا گیا تھا۔ تب یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگلے 4 سالوں کے دوران، یعنی میں 2008 کی بات کر رہا ہوں، چار برسوں کے اندر لاکھوں روزگار تیار کیے جائیں گے۔ لیکن 4 سال بعد بھی تب کی حکومت اپنے نصف اہداف کے تب بھی قریب تک بھی نہیں پہنچ پائی تھی۔

2014 کے بعد ہم نے ملک کے ایم ایس ایم ای، ملک کے نوجوانوں کے مفاد میں اس پروگرام کو لاگو کرنے کے لیے ہم نے نئے ہدف طے کیے، نئے طور طریقے اپنائے، اور نئی توانائی کے ساتھ لگ گئے۔ بیچ میں کورونا کا بحران آیا، اور بھی چھوٹے موٹے بحران آپ دیکھتے ہیں دنیا بھر میں کیاچل رہا ہے۔ اس کے باوجود بھی گزشتہ برسوں میں اس پروگرام کے تحت ہی 40 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگار مل چکا ہے اور ایم ایس ایم ای کے ذریعے۔

اس دوران، ان صنعتوں کو تقریباً 14 ہزار کروڑ روپے کی مارجن منی سبسڈی دی گئی ہے۔ اس سے ملک میں لاکھوں نئی صنعتیں شروع ہوئی ہیں۔ ملک کے نوجوانوں کو بڑی تعداد میں روزگار دینے کے لیے اس پروگرام میں آج نئے گوشے جوڑے جا رہے ہیں۔ اب اس پروگرام کے دائرے میں آنے والے پروجیکٹس، اس کی کاسٹ لمٹ کو بڑھا دیا گیا ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں اسے 25 لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ، تو سروس سیکٹر میں اس کو 10 لاکھ روپے سے بڑھا کر 20 لاکھ کر دیا گیا ہے یعنی ایک طرح سے ڈبل۔

یہی نہیں، جو 100 سے زیادہ ہمارے ایسپریشنل ڈسٹرکٹس ہیں، آج آپ نے دیکھا ہوگا ایسپریشنل ڈسٹرکٹس میں کام جو کیا ہے، ان کو بھی آج ہم نے اعزاز سے نوازا۔ کیوں کہ جن ضلعوں کو ریاست بھی گنتا نہیں تھا، ان ضلعوں میں آج وہ طاقت آ گئی ہے کہ ہندوستان کو ان کو اعزاز سے نوازنے کی نوبت آ گئی ہے۔ یہ تبدیلی کیسے آتی ہے، اس کا ایک نمونہ ہے۔ اور ایسپریشنل ڈسٹرکٹس کے ہمارے نوجوانوں کی ہم مدد کریں، اتنا ہی نہیں ہمارے ملک میں ایک بہت بڑا انیشیٹو لیا ہے۔ جو ہمارے ٹرانس جینڈر ہیں، ایشور نے ان کے ساتھ جو بھی کیا ہے، ان کو بھی زیادہ مواقع ملیں، ان کے لیے بھی پہلی بار ایک مخصوص درجہ دے کر ان کو بھی مالی مدد اور ان کے اندر جو صلاحیتیں ہیں ان کو آگے بڑھنے کے لیے موقع دینا، اس سمت میں ہم نے کام کیا ہے۔

ساتھیوں،

صحیح پالیسیاں ہوں اور سب کی کوشش ہو تو کیسے بڑی تبدیلی آتی ہے، اس کی ایک بڑی مثال ابھی ہم جب فلم دیکھ رہے تھے، اس میں بھی اس کا ذکر تھا، ہمارا کھادی۔ آزادی کے شروع شروع میں تو کھادی یاد رہی۔ دھیرے دھیرے کھادی سکڑ کرکے نیتاؤں کا کاسٹیوم بن گیا، نیتاؤں کے لیے ہی بچ گئی وہ۔ بڑا بڑا کرتا پہنو، چناؤ لڑو یہی چلتا تھا۔ اس کھادی میں پھر سے روح پھونکنے کا کام کیا۔ پہلے کی جو پالیسیاں تھیں، اس کو آج ملک اچھی طرح جانتا ہے۔

اب پہلی بار کھادی اور گرام ادیوگ کا ٹرن اوور ایک لاکھ کروڑ روپے کے پار پہنچا ہے۔ یہ اس لیے ممکن ہوا ہے کیوں کہ گاؤوں میں ہمارے چھوٹے موٹے صنعت کاروں نے، ہماری بہنوں نے، ہماری بیٹیوں نے بہت محنت کی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں کھادی کی فروخت 4 گنا بڑھی ہے۔ گزشتہ 8 برسوں میں کھادی اور گرام ادیوگ میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ساتھیوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ اب بھارت کی کھادی لوکل سے گلوبل ہو رہی ہے، غیر ملکی فیشن برانڈ بھی کھادی کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں، ہمارا اس پر بھروسہ ہونا چاہیے۔ ہم اگر بھروسہ نہیں کریں گے، دنیا کیوں بھروسہ کرے گی جی۔ آپ اپنے گھر میں اپنے بچے کی عزت نہیں کروگے اور آپ چاہوگے کہ محلے والے کریں، ہو سکتا ہے کیا؟ نئے نئے شعبوں سے، نئے نئے بازاروں کے لیے نئے راستے بنے ہیں، جس کا چھوٹی صنعتوں کے لیے بہت فائدہ ہو رہا ہے۔

ساتھیوں،

آنٹے پرینئرشپ-  صنعت کاری آج ہمارے گاؤں، غریب، چھوٹے شہروں قصبوں کے کنبوں کے لیے آسان متبادل بن رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے، لون ملنے میں آسانی۔ 2014 سے پہلے تک بھارت میں بینکوں کے دروازے تک پہنچنا عام انسانوں کے لیے بہت مشکل تھا۔ بغیر گارنٹی کے بینکوں سے قرض حاصل کرنا تقریباً ناممکن تھا۔ گاؤں-غریب، بے زمین، چھوٹے کسان، چھوٹے دکاندار کی گارنٹی بھلا کون دے گا، اور بغیر گارنٹی کے وہ کرے گا کیا؟ اس کو ساہوکار کے پاس جانا پڑتا تھا۔ بینک لون نہیں دیتے تھے اور دوسری جگہوں سے جب لیتے تھے تو سود سے مر جاتے تھے۔ قرض کے بوجھ میں ڈوب جاتے تھے، اور اس لیے وہ بڑی ڈیفنسو زندگی جینے کے لیے مجبور ہو جاتا تھا۔ ایسی حالت میں گاؤں میں رہنے والے، غریب، دلت، محروم، مظلوم، پس ماندہ، آدیواسی، ان کے بیٹا بیٹی خود روزگار کے بارے میں سوچتے ہی نہیں تھے، وہ روزگار کے لیے کہیں شہر میں جا کرکے جھگی جھونپڑی کی زندگی گزارنی پڑے، بیچنا مجبوراً چلا جاتا تھا۔ اب ہماری بہنوں بیٹیوں کے سامنے تو نئے متبادل لے کرکے ہم آئے ہیں۔ ان محدود متبادل سے ہم نے ان کو باہر لے جانے کی کوشش کی ہے۔

ساتھیوں،

اتنے بڑے ملک کی تیز ترقی، سب کو ساتھ لے کر ہی ہو سکتی ہے۔ اس لیے 2014 میں سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے منتر پر چلتے ہوئے ہم نے اس دائرے کو بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے ہم نے ریفارمز کا، نئے اداروں کی تعمیر کا، اسکل ڈیولپمنٹ اور ایکسس ٹو کریڈٹ کا راستہ منتخب کیا۔ صنعت کاری کو ہر ہندوستانی کے لیے آسان بنانے میں مدرا یوجنا کا بہت بڑا رول ہے۔ بغیر گارنٹی کے بینک لون کی اس اسکیم نے خواتین صنعت کاروں، میرے دلت، پس ماندہ، آدیواسی صنعت کاروں کا ایک بہت بڑا طبقہ ملک میں تیار کیا ہے، اور نئے نئے شعبوں میں کیا ہے، دور افتادہ گاؤوں میں کیا ہے۔

اس اسکیم کے تحت ابھی تک تقریباً 19 لاکھ کروڑ روپے قرض کے طور پر دیے گئے ہیں۔ اور لون لینے والوں میں تقریباً 7 کروڑ ایسے صنعت کار ہیں، جنہوں نے پہلی بار کوئی صنعت شروع کی ہے، اور وہ ایک نئے صنعت کار بنے ہیں۔ یعنی مدرا یوجنا کی مدد سے، 7 کروڑ سے زیادہ ساتھی پہلی بار خود روزگار سے جڑے ہیں۔ اور خود جڑے اتنا ہی نہیں ہے، کسی نے ایک کو، کسی نے دو کو، کسی نے تین کو اپنے یہاں روزگار دیا ہے، وہ جواب سیکر نہیں، وہ جاب کرئیٹر بنا ہے۔

ساتھیوں،

یہ بات بھی خاص ہے کہ مدرایوجنا کے تحت جو تقریباً 36 کروڑ لون دیے گئے، اس میں سے تقریباً 70 فیصد لون، یہ اور خوشی کی بات ہے، اور ملک کیسے بدل رہا ہے، ملک کیسے بڑھ رہا ہے، اس کی یہ سب سے بڑی مثال ہے… یہ جو لون دیے گئے ہیں اس میں 70 فیصد خواتین صنعت کار ہیں۔ تصور کیجئے، کتنی بڑی تعداد میں ہماری بہنیں بیٹیاں اس ایک اسکیم سے ہی صنعت کار بنی ہیں، خود روزگار سے جڑی ہیں اور اس کی وجہ سے ان کی جو خود اعتمادی، عزت نفس بنی ہوگی، فیملی میں جو اس کی عزت بنی ہوگی، سماج میں اس کی عزت بنی ہوگی، اس کی تو کوئی گنتی ہی نہیں ہو سکتی، دوستوں۔

ساتھیوں،

ایم ایس ایم ای سیکٹر بھلے ہی پوری طرح سے فارمل نہ ہو لیکن ایکسس ٹو کریڈٹ فارمل رہا ہے۔ بھارت کی معیشت کا تجزیہ کرنے والے اس پہلو کا ذکر بہت زیادہ نہیں کرتے۔ اور اس میں ہم 20-10 ہزار روپے کی بات نہیں کر رہے ہیں، جس کو پہلے مائکرو فائننس مانا جاتا تھا۔ یہاں ہم 50 ہزار سے لے کر 10 لاکھ روپے تک کے گارنٹی فری فائننس کی بات کر رہے ہیں، جو آج خواتین صنعت کاروں تک پہنچ رہا ہے۔

یعنی پہلے جہاں خواتین کی صنعت کاری کے لیے مائکرو فائننس کو صرف مویشی پروری، کڑھائی-بُنائی… مجھے یاد ہے ہم جب گجرات میں تھے تو کبھی کبھی حکومت کی ایسی اسکیمیں آتی تھیں، مرغی کے لیے پیسے دیتے تھے اور پھر بتاتے تھے- مرغی لیجئے، اتنے انڈے ہوں گے، پھر اتنی مرغیاں ہوں گی، پھر اتنے انڈے ہوں گے۔ اور وہ بیچارہ لون لیتا تھا، پانچ مرغی لے آتا تھا اور شام کو لال گاڑی والے افسر آ جاتے تھے، وہ کہتے تھے رات کو رکنا ہے۔ اب رات کو رکنے کا مطلب کیا ہے، پانچ میں سے دو گئی۔ ہم سب نے دیکھا ہے نا۔

آج وقت بدل چکا ہے دوستوں۔ ایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں میں سب محدود رکھا گیا۔ ہم نے مدرا یوجنا کے ذریعے پورے گراف کو بدل دیا، اس کا حوصلہ بلند بنا دیا۔ 10 لاکھ روپے چاہیے، اٹھاؤ… کرو کچھ۔ مجھے یہ جان کر بھی بہت اچھا لگا کہ اُدیم پورٹل پر رجسٹرڈ کل ایم ایس ایم ای میں سے تقریباً 18 فیصد خواتین ہیں، یہ بھی اپنے آپ میں بہت اچھی بات ہے۔ یہ حصہ داری اور بڑھے، اس کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔

ساتھیوں،

آنٹے پرینئرشپ میں یہ انکوزونیس، یہ اقتصادی شمولیت ہی صحیح معنوں میں سماجی انصاف ہے۔ کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ ریہڑی، ٹھیلے، پٹری پر اپنا چھوٹا سا کام کرنے والے ساتھیوں کو بینکوں سے قرض ملے گا؟ میں بالکل یقین سے کہتا ہوں جی جس بینک منیجر کے گھر میں سالوں سے جو سبزی پہنچاتا ہوگا، سالوں سے اخبار ان کے یہاں ڈالتا ہوگا، اس کو بھی شاید اس بینک والے نے کبھی لون نہیں دیا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کا اعتماد نہیں تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کچھ ملے گا، لیکن ایک ایسی سوچ کا دائرہ بن گیا تھا کہ اس کے باہر نہیں نکل سکتے۔

آج وہ ریہڑی پٹری والے بینک کے دروازے پر جا کر کھڑے رہتے ہیں، بغیر گارنٹی پیسہ دیا جاتا ہے ان کو اور اسی کا نام ہے سواندھی۔ آج پی ایم سواندھی یوجنا کے تحت لاکھوں ایسے ساتھیوں کو صرف قرض ہی نہیں مل رہا ہے، بلکہ ان کے چھوٹے کاروبار کو بڑا کرنے کا راستہ بھی ملا ہے۔ ہمارے جو ساتھی گاؤں سے شہر آتے ہیں سرکار ان کو ایک ساتھی کی طرح سپورٹ کر رہی ہے اور یہ محنت کرکے اپنی فیملی کو غریبی کے دائرہ سے باہر نکلنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔

اور آپ کو جان کر خوشی ہوگی اگر میں آپ کو کہوں کہ آپ ڈیجیٹل پیمنٹ کیجئے تو آپ 50 بار سوچیں گے، ڈیجیٹل پیمنٹ کروں گا تو ریکارڈ بنے گا، ریکارڈ بنے گا تو مودی دیکھے گا، مودی دیکھے گا تو کسی انکم ٹیکس والے کو بھیجے گا، اس لیے ڈیجیٹل نہیں کروں گا۔ آپ کو خوشی ہوگی سبزی، دودھ بیچنے والے میرے ٹھیلے والے ڈیجیٹل پیمنٹ کر رہے ہیں۔ اور میں مانتا ہوں دوستوں، اس پیش رفت میں ہمیں شریک ہونا ہے۔ اس پیش رفت کی آپ کو قیادت کرنی ہے۔ آگے آئیے دوستوں، میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔ یہی سچی پیش رفت ہے، یہی صحیح ترقی ہے۔

میں آج اس پروگرام کے ذریعے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے جڑے اپنے ہر بھائی بہن کو یہ یقین دلاتا ہوں سرکار آپ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے، آپ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پالیسیاں بنانے کے لیے تیار ہے، فیصلہ کرنے کے لیے تیار ہے اور پرو ایکٹولی آپ کا ہاتھ پکڑ کر چلنے کے لیے تیار ہے، آپ آگے آئیے دوستوں۔

اُدیمی بھارت کی ہر سدھی… اور مجھے اس میں کوئی شک نہیں ہے، آتم نربھر بھارت کی قوت ارادی اسی میں ہے دوستوں، آپ ہی میں ہے آپ کی صلاحیت میں ہے۔ اور میرا ملک کے ایم ایس ایم ای سیکٹر پر، آپ سب پر، ملک کی نوجوان نسل میں، اور خاص کر ہماری بیٹیاں جو ہمت کے ساتھ آگے آ رہی ہیں، ان پر میرا بھروسہ ہے۔ اور اس لیے میں کہتا ہوں کہ یہ ملک اپنے تمام خوابوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے ہوئے دیکھنے والا ہے۔ آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے کہ ہاں یہ تبدیلی ہوئی، یہ ہوا، آپ کو دکھائی دے گا جی۔

ملک کے ایم ایس ایم ای سیکٹر سے میری گزارش ہے کہ حکومت کی ان اسکیموں کا پورا فائدہ اٹھائیں۔ اور آپ کے ایسو سی ایشن میں جاؤں گا میں۔ آج سے دیکھنا شروع کروں گا جی ای ایم پورٹل پر اسی ہفتے میں ایک کروڑ لوگ زیادہ بڑھے کہ نہیں بڑھے، میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ ذرا ایسو سی ایشن کے لوگ آؤ میدان میں۔ سرکار آپ سے لینے کے لیے تیار ہے، آج جڑئیے تو۔ سرکار کو بتائیے میں یہ بناتا ہوں، لے لو۔ آپ دیکھئے بغیر ہچکچاہٹ کے ہر چیز آپ کی چلی جائے گی جی۔

ساتھیو، مجھے اچھا لگا، جن لوگوں کی عزت افزائی کرنے کا مجھے موقع ملا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اور لوگ نہیں کرتے ہوں گے۔ وہ بھی اپنی تیاری کریں، اگلی بار آپ کی عزت افزائی کرنے کا مجھے موقع ملے۔ اچیو لوگوں کی عزت افزائی کرنے کا مجھے موقع ملے۔ مزید بلندیوں کو حاصل کریں۔

آپ سب کو میری بہت بہت نیک خواہشات۔ بہت بہت شکریہ!

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U: 7082



(Release ID: 1838326) Visitor Counter : 195