وزیراعظم کا دفتر

گاندھی نگر، گجرات میں ’سہکار سے سمردھی‘ پروگرام کے دوران وزیر اعظم کا خطاب

Posted On: 28 MAY 2022 9:57PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جے، گجرات کے مقبول عام وزیر اعلیٰ جناب بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکزی کابینہ میں میرے رفیق امیت بھائی شاہ، من سکھ مانڈویا، پارلیمنٹ میں میرے ساتھی سی آر پاٹل، حکومت گجرات میں وزیر جگدیش بھائی وشو کرما، اراکین پارلیمنٹ، اراکین اسمبلی، حکومت گجرات کے تمام وزراء حضرات، سہکارِتا آندولن سے وابستہ تمام سینئر عہدیداران! اِفکو کے دفتر میں بھی ایک بڑا پروگرام اس کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ یہاں موجود اِفکو کے چیئرمین دلیپ بھائی، افکو کے تمام ساتھی، ملک بھر میں لاکھوں مقامات پر آج سارے کاشتکار گجرات کے گاندھی نگر کے مہاتما مندر سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں ان تمام کاشتکاروں کو بھی نمسکار کرتا ہوں۔ آج یہاں ہم سہکار سے سمردھی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ سہکار گاؤں کی خودانحصاری کا بھی بہت بڑا وسیلہ ہے اور اس میں آتم نربھر بھارت کی توانائی شامل ہے۔ آتم نربھر بھارت کی تعمیر کے لیے گاؤں کا آتم نربھر ہونا بہت ضروری ہے۔ اور اس لیے محترم باپو اور سردار صاحب نے جو راستہ ہمیں دکھایا اس کے مطابق آج ہم ماڈل کوآپریٹیو ولیج کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ گجرات کے ایسے 6 مواضعات نشان زد کیے گئے ہیں، جہاں پوری طرح سے کوآپریٹیو نظام نافذ کیے جائیں گے۔

ساتھیو،

آج آتم نربھر زراعت کے لیے ملک کے اولین نینو یوریا پلانٹ کا افتتاح کرتے ہوئے بھی میں سچے دل سے بتاتا ہوں کہ میں ایک خاص مسرت کا احساس کرتا ہوں۔ ذرا تصور کیجئے آج جب کاشتکار یوریا لینے جاتا ہے۔ اس منظر کو ذرا دل میں لایئے اور ہونے والا کیا ہے اس کا میں بیان کر سکتا ہوں، اس کو ذرا دل میں لایئے۔ اب یوریا کی ایک بوری اُس کی جتنی طاقت ہے۔ یعنی یوریا کی بوری کی طاقت ایک بوتل میں آگئی ہے۔ یعنی نینو یوریا کی نصف لیٹر بوتل کاشتکار کی ایک بوری یوریا کی ضرورت کو پورا کرے گی ۔ نقل و حمل کا کتنا خرچ ہوجائے گا ، باقی سب چیزوں کا۔ اور تصور کیجئے، چھوٹے کاشتکاروں کے لیے یہ کتنا بڑا سہارا ہے۔

ساتھیو،

یہ جو جدید پلانٹ کلول میں لگا ہے اس کی صلاحیت ابھی ڈیڑھ لاکھ بوتل پروڈکشن کی ہے۔ تاہم آنے والے وقت میں ایسے 8 اور پلانٹ ملک میں لگنے والے ہیں۔ اس سے یوریا پر غیر ملکی انحصار کم ہوگا، ملک کا پیسہ بھی بچے گا۔ مجھے امید ہے یہ اختراع صرف نینو یوریا تک ہی محدود نہیں رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ مستقبل میں دیگر نینو فرٹیلائزر بھی ہمارے کاشتکاروں کو مل سکتی ہیں۔ ہمارے سائنس داں حضرات اس پر آج کام بھی کر رہے ہیں۔

ساتھیو،

کھاد کے لیے اس نینو تکنالوجی میں آتم نربھرتا کی جانب جو قدم ہم نے رکھا ہے، وہ کتنا اہم ہے، یہ میں چاہوں گاکہ ہر اہل وطن کو سمجھنا چاہئے۔ بھارت کھاد کے معاملے میں دنیا کا دوسرا سب سے بڑا صارف ہے، لیکن پیداواریت کے معاملے میں ہم تیسرے نمبر پر ہیں۔ علاوی ازیں 7۔8 برس پہلے تک ہمارے یہاں زیادہ تر یوریا کھیت میں جانے کے بجائے کالا بازاری کی نذر ہو جاتا تھا اور کاشتکار اپنی ضرورت کے لیے لاٹھیاں کھانے کو مجبور ہو جاتا تھا۔ ہمارے یہاں جو بڑی یوریا کی فیکٹریاں تھیں، وہ بھی نئی تکنالوجی کی قلت میں بند ہوگئی تھیں اور اس لیے 2014 میں حکومت تشکیل دینے کے بعد ہم نے یوریا کی صدفیصد نیم کوٹنگ کا ذمہ لیا، اس کو کرکے دکھایا۔ اس سے ملک کے کاشتکاروں کو وافر مقدار میں یوریا حاصل ہونا یقینی ہوا۔ ساتھ ہی ہم نے اترپردیش، بہار، جھارکھنڈ، اڈیشہ اور تلنگانہ  میں، جو 5 بند پڑے ہوئے کارخانے تھے، انہیں پھر سے مصروف عمل بنانے کا کام شروع کیا۔ اور اس میں یوپی اور تلنگانہ کی جو فیکٹریاں مصروف عمل ہوچکی ہیں، ان میں پیداواریت ہو رہی ہے۔ اور باقی فیکٹریاں بھی اپنا کام بہت جلد شروع کر دیں گی۔

ساتھیو،

فرٹیلائزر کی اپنی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بھارت دہائیوں سے بہت بڑی حد تک غیرممالک پر منحصر ہے، ہم درآمد کرتے ہیں۔ ہم اپنی ضرورت کا تقریباً ایک چوتھائی حصہ درآمد کرتے ہیں، لیکن پوٹاش اور فاسفیٹ کے معاملے میں تو ہمیں تقریباً صد فیصد غیر ممالک سے درآمد کرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ دو برسوں میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے بین الاقوامی منڈی میں فرٹیلائزر کی قیمتوں میں اضافہ رونما ہوا ہے۔ وہ شاید کم تھا تو جنگ نے دستک دے دی۔ جنگ سے صورتحال نے فرٹیلائزر کی عالمی منڈی میں دستیابی کو محدود کر دیا اور قیمتوں میں بھی کئی گنا اضافہ کر دیا۔

ساتھیو،

کاشتکاروں کے تئیں حساس ہماری حکومت نے طے کیا کہ بین الاقوامی صورتحال قابل تشویش ہیں۔ قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، فرٹیلائزر حاصل کرنے کے لیے دنیا بھر میں دوڑنا پڑ رہا ہے۔ مصیبتیں ہیں۔ لیکن ہم نے کوشش یہ کی ہے کہ یہ ساری مصیبتیں ہم برداشت کرتے رہیں گے۔ لیکن کاشتکاروں پر ان حالات کو اثرانداز نہیں ہونے دیں گے۔ اسی لیے مشکلات کے باوجود بھی ہم نے ملک میں فرٹیلائزر کا کوئی بڑا بحران نہیں پیدا ہونے دیا۔

ساتھیو،

بھارت غیر ممالک سے یوریا درآمد کرتا ہے، اس میں یوریا کے 50 کلو کے ایک تھیلے کی قیمت 3500 روپئے ہے۔  تین ہزار پانچ سو روپئے کا ایک تھیلا، یاد رکھیئے۔ لیکن ملک کے گاؤں میں کاشتکار کو وہی یوریا کا ایک تھیلا 3500 روپئے سے خرید کر صرف 300 روپئے میں دیا جاتا ہے، تین سو روپئے میں۔ یعنی یوریا کے ایک تھیلے پر ہماری حکومت 3200 روپئے سے زیادہ کا بوجھ خود برداشت کررہی ہے۔ اسی طرح ڈی اے پی کے 50 کلو کے بیگ پر سابقہ حکومتیں 500 روپئے کا بوجھ برداشت کر تھی تھیں، ایک تھیلے پر۔ بین الاقوامی منڈی میں ڈی اے پی کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کے باوجود، ہماری حکومت نے مسلسل کوشش کی ہے کہ کاشتکاروں پر اس کا بوجھ کم سے کم ہو۔ یعنی 12 مہینے کے اندر ہر بیگ ڈی اے پی پر پانچ گنا بوجھ مرکزی حکومت نے اپنے اوپر لیا ہے۔ بھارتی کاشتکار کو پریشانی نہ ہو، مرکزی حکومت نے اس کے لیے گذشتہ برس فرٹیلائزر میں ایک لاکھ 60 ہزار کروڑ روپئے کی سبسڈی فراہم کی ہے۔ کاشتکاروں کو حاصل ہونے والی یہ راحت اس سال تقریباً دو لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ ہونے والی ہے۔

ساتھیو،

ملک کے کاشتکاروں کے مفاد میں جو بھی ضروری ہو، وہ ہم کرتے ہیں، کریں گے اور ملک کے کاشتکاروں کی قوت میں اضافہ کرتے رہیں گے۔ لیکن ہمیں سوچنا بھی چاہئے کہ کیا ہم 21ویں صدی میں اپنے کاشتکاروں کو صرف غیر ملکی صورتحال پر منحصر رکھ سکتے ہیں؟ ہر سال یہ جو لاکھوں کروڑ روپئے مرکزی حکومت خرچ کر رہی ہے، یہ غیر ممالک کے پاس کیوں جائیں؟ کیا یہ بھارت کے کاشتکاروں کے کام نہیں آنے چاہئیں؟  مہنگے فرٹیلائزر سے کسانوں کی بڑھتی لاگت کو کم کرنے کا کوئی مستقل حل کیا ہمیں نہیں تلاش کرنا چاہئے؟

ساتھیو،

یہ سوالات ہیں جو ماضی میں بھی ہر حکومت کے سامنے آتے رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ سارے معاملات صرف میرے سامنے آئے ہیں۔ لیکن پہلے صرف مسئلے کا عارضی حل تلاش کیا گیا، آئندہ یہ صورتحال پیدا نہ ہو، اس کے لیے بہت محدود کوششیں کی گئیں۔ گذشتہ 8 برسوں میں ہم نے عارضی حل بھی تلاش کیے ہیں اور مسائل کے مستقل حل بھی ۔ کورونا وبائی مرض  جیسی صورتحال مستقبل میں نہ پیدا ہو، اس کے لیے صحتی بنیادی ڈھانچے پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے۔ خوردنی تیل کا مسئلہ کم سے کم ہو،  اس کے لیے مشن آئل پام پر کام چل رہا ہے۔ کچے تیل پر غیر ملکی انحصار کم کرنا ہے، اس کے لیے حیاتیاتی ایندھن، گرین ہائیڈروجن اور دوسرے طریقوں پر آج بڑے پیمانے پر کوششیں جاری ہیں۔ نینو تکنالوجی پر جامع سرمایہ کاری بھی اسی نقطہ نظر کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح قدرتی طریقہ کاشت کے لیے کاشتکاروں کوترغیب فراہم کرانے کی غرض سے جو مہم ملک میں جاری ہے، وہ بھی مستقل حل کا حصہ ہے۔ اور میں گجرات کے کاشتکاروں کو خصوصی طور پر مبارکباد دیتا ہوں۔ گجرات کا کاشتکار ترقی پسند ہے، چھوٹا کاشتکار ہوتو بھی ہمت کرنے کی عادت رکھتا ہے اور جس طرح مجھے گجرات سے خبریں موصول ہو رہی ہیں، کہ گجرات کا چھوٹا کاشتکار بھی قدرتی طریقہ کاشت کی جانب رخ کر رہا ہے۔لاکھوں کی تعداد میں گجرات میں کاشتکار قدرتی طریقہ کاشت کے راستے پر چل رہے ہیں۔ میں ان سب کاشتکاروں کو دل سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اس پہل قدمی کے لیے میں انہیں سلام کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آتم نربھرتا میں بھارت کے متعدد مسائل کا حل پنہاں ہے۔ اور آتم نربھرتا کا ایک بہترین ماڈل کوآپریٹیو نظام بھی ہے۔ اس کا ہم نے گجرات میں احساس کیا ہے، اور آپ سبھی ساتھی اس کامیابی کے سپاہی ہیں ۔ گجرات کے کوآپریٹیو شعبے سے وابستہ تمام سورما بیٹھے ہیں۔ میں ہر کسی کا چہرہ  بیٹھے بیٹھے دیکھ رہا تھا۔ سب پرانے ساتھی جو آج کوآپریٹیو شعبے میں گجرات کی ترقی کے سفر کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ایسے ایک سے بڑھ کر ایک سورما میرے سامنے بیٹھے ہیں۔ خوشی ہو رہی ہے، جس تپسیا سےآپ اس کام کو آگے بڑھا رہے ہیں اور کوآپریٹیو جذبےکو لے کر آگے بڑھا رہے ہیں۔

ساتھیو،

گجرات تو اس لیے بھی خوش نصیب رہا ہے کہ محترم باپو اور سردار صاحب کی قیادت ہمیں حاصل ہوئی۔ محترم باپو نے امدادِ باہمی سے خودانحصاری کا جو راستہ دکھایا، اس کو سردار صاحب نے زمین پر اتارنے کا کام کیا۔ اور جب کوآپریٹیونظام کی بات آتی ہے ،تو  جیسے امیت بھائی نے وضاحت کی، وینکٹ بھائی مہتا کی یاد آنا فطری بات ہے، اور آج بھی حکومت ہند ایک بہت بڑا ادارہ ان کے نام پر چلاتی ہے۔ لیکن اسے بھی دھیرے دھیرے فراموش کر دیا گیا تھا۔ اس مرتبہ ہم نے بجٹ میں 25 کروڑ کی تجویز رکھ کر اس کو مزید طاقتور بنانے کا کام شروع کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں ہمارے یہاں تو ہاؤسنگ کے لیے سوسائٹی، کوآپریٹیو سوسائٹی ، اس کا پہلا استعمال ہمارے یہاں ہوا ہے۔ یہ جو ہمارے پال ریڈی میں پریتم نگر ہے، وہ پریتم نگر اسی کی مثال ہے۔ ملک کی پہلی کوآپریٹیو ہاؤسنگ اسکیم کی وہ زندہ جاوید مثال ہے۔

ساتھیو،

کوآپریٹیو شعبہ میں امول نے اپنی ایک شناخت قائم کی۔ امول جیسے برانڈ نے پوری دنیا میں گجرات کی کو آپریٹیو تحریک کی ایک طاقت کا ثبوت پیش کیا ہے، شناخت قائم کی ہے۔ گجرات میں ڈیری، چینی اور بینکنگ کوآپریٹیو تحریک کی کامیابی کی مثال ہے۔ گذشتہ برسوں میں تو پھل۔ سبزی سمیت دوسرے شعبوں میں بھی کوآپریٹیو شعبے کے دائرے میں اضافہ ہوا ہے۔

بھائیو اور بہنو

کو آپریٹیو نظام کے کامیاب استعمال میں ایک بہت بڑا ماڈل ملک کی دیہی معیشت کو بااختیار بنانے کے لیے ہمارے سامنے ہے۔ ڈیری شعبہ کے کوآپریٹیو ماڈل کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آج بھارت دنیا کا سب سے بڑا دودھ پیدا کرنے والا ملک ہے جس میں گجرات کی بہت بڑی حصہ داری ہے۔ گذشتہ برسوں میں ڈیری کا شعبہ تیزی سے آگے بڑھ بھی رہا ہے اور دیہی معیشت میں زیادہ تعاون بھی دے رہا ہے۔ آج بھارت ایک سال میں تقریباً 8 لاکھ کروڑ روپئے کا دودھ پیدا کرتا ہے۔ 8 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر دودھ اور بنیادی طور پر یہ کاروبار زیادہ تر ہماری مائیں۔بہنیں سنبھالتی ہیں۔ اس کی دوسری جانب دیکھئے گیہوں اور دھان کا بازار اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں تو وہ دودھ پیداوار سے بھی کم ہے۔ یعنی دودھ کا کاروبار اگر 8 لاکھ کروڑ روپئے کے بقدر ہے تو گیہوں اور دھان کا مجموعی کاروبار اس سے بھی کم ہے۔ آپ دیکھئے دودھ پیداوار میں ہمارے ملک نے کتنی بڑی طاقت کھڑی کی ہے۔ اسی طرح ہم مویشی پالن کے پورے شعبہ پر نظر ڈالیں تو یہ ساڑھے 9 لاکھ کروڑ روپئے سے زائد کا ہے۔ یہ بھارت کے چھوٹے کاشتکاروں، زمین سے محروم مزدوروں کے لیے بہت بڑا سہارا ہے۔

ساتھیو،

گذشتہ دہائیوں میں گجرات میں اگر مواضعات میں زیادہ خوشحالی دیکھنے کو ملی ہے، تو اس کی ایک بہت بڑی وجہ ڈیری کے شعبہ سے وابستہ کو آپریٹیوز رہے ہیں۔ اور آپ کو حیرانی ہوگی کہ ہم اگر کسی بھی چیز کی یاد دلاتے ہیں تو کسی کو محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی پر تنقید کر تے ہیں۔ ہم تنقید نہیں کرتے ہیں۔ لیکن کبھی کوئی چیز کو یاد اس لیے کرنا ہوتا ہے کہ پہلے کیا ہوتا تھا۔ ہمارے ملک میں، ہمارے گجرات میں کچھ سوراشٹر میں ڈیری کا کام کرنے، ڈیری تشکیل دینے پر روک لگانے کی تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ یعنی اسے ایک طرح سے غیر قانونی سرگرمی کے زمرے میں ڈال دیا گیا تھا۔ جب میں یہاں تھا تو ہم نے کہا کہ بھئی یہ امول ترقی کر رہا ہے، تو کچھ کی ڈیری بھی ترقی کر سکتی ہے۔ امریلی کی ڈیری بھی ترقی کر سکتی ہے۔ ہم روک کر کیوں بیٹھے ہیں؟ اور آج گجرات میں چہار جانب ڈیری کا شعبہ ازحد مضبوطی کے ساتھ کھڑا ہوگیا ہے۔ گجرات میں دودھ پر مبنی صنعتوں کا بڑے پیمانے پر فروغ اس لیے ہوا کیونکہ اس میں حکومت کی جانب سے پابندیاں کم سے کم رہیں۔ حکومت جتنا بچ کر رہے، بچنے کی کوشش کی  اور کوآپریٹیو شعبوں کو پھلنے پھولنے کی مکمل آزادی فراہم کی۔ حکومت یہاں صرف ایک سہولت فراہم کا کاکردار ادا کرتی ہے، باقی کا کام یا تو آپ جیسے ہمارے کوآپریٹیو شعبے کے لیے وقف ساتھی کر رہے ہیں، یا ہمارے کاشتکار بھائی بہن۔ دودھ پیدا پروڈیوسر اور کاروبار کرنے والا نجی اور کوآپریٹیو شعبہ، دونوں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک بہترین سپلائی او رویلیو چین انہوں نے کھڑی کی ہے۔

ساتھیو،

ڈیری شعبہ میں سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہمارے چھوٹے کاشتکار ہیں، اور جیسا میں نے پہلے کہا ہماری مائیں بہنیں اس کام کو سنبھالتی ہیں۔ گجرات میں تقریباً 70 لاکھ بہنیں آج اس تحریک کا حصہ ہیں۔ 70 لاکھ بہنیں، 50 لاکھ سے زیادہ کنبے ہوں گے ہی ۔ ساڑھے پانچ ہزار سے زائد مِلک کوآپریٹیو سوسائٹیاں آج گجرات میں ہماری مائیں بہنیں چلا رہی ہیں۔ امول جیسی بین الاقوامی برانڈ کو بنانے میں بھی گجرات کی ہماری بہنوں کا بہت بڑا کر دار ہے۔ ایک طرح سے کوآپریٹیو شعبہ نے  گجرات میں خواتین صنعت کاری کو نئی جہتیں عطا کی ہیں۔ ہم لجت پاپڑ تو جانتے ہی ہیں، قبائلی علاقوں کی غریب ماؤں بہنوں سے شروع کیا گیا یہ کام آج ایک ملٹی نیشنل برانڈ بن گیا ہے۔ دنیا بھر میں ہندوستانی پہنچاہوگا تو لجت پاپڑ بھی پہنچا ہوگا۔ اور پہلی مرتبہ مجھے فخر اس کا بات کا ہے کہ اتنے برسوں سے لجت پاپڑ کا کام بڑھ رہا ہے، اتنا بڑھا لیکن کبھی کسی نے کچھ نہیں کیا۔ ہم نے پہلی مرتبہ پدم شری کا ایوارڈ ان کو دیا جنہوں نے لجت پاپڑ کو ، اب تو ان کی عمر 90 سے تجاوز کر گئی ہے،گجراتی ہیں، ممبئی میں رہتی ہیں۔ لیکن وہ ماتاجی آئیں اور انہوں نے آشیرواد دیا۔ یعنی ہمارا کوآپریٹیو جذبہ اور ہماری ماؤں بہنوں کا یہ ہنر اگر امول برانڈ بن جاتا ہے تو لجت بھی تو ایک برانڈ بن گیا ہے۔ ہماری بہنوں بیٹیوں کا مینجمنٹ سے متعلق ہنر اگر دیکھنا ہے تو کوآپریٹیوز میں ہم اسے واضح طورپر دیکھ سکتے ہیں۔

ساتھیو،

سب کا ساتھ، سب کا وِکاس، سب کا وِشواس اور سب کا پریاس ، اس اصول پر ہم عمل پیرا ہیں۔  یہ منتر اپنے آپ میں کوآپریٹیو نظام کی روح ہے۔ یہ اصول کوآپریٹیو نظام کی حدود کے اندر ہی ہے۔ اس لیے کوآپریٹیو جذبہ کو آزادی کے امرت کال کے جذبے سے مربوط کرنے کے لیے ہم مسلسل آگے بڑھ رہے ہیں۔ اسی مقصد کے ساتھ مرکز میں کو آپریٹیو شعبہ کے لیے علیحدہ وزارت تشکیل دی گئی۔ اور کوشش یہی ہے کہ ملک میں کوآپریٹیو شعبہ پر مبنی اقتصادی ماڈل کو فروغ دیا جائے۔ اس کے لیے یکے بعد دیگرے نئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ کوآپریٹیو کمیٹیوں کو، اداروں کو ہم منڈی میں مسابقتی بنائیں، انہیں بازار کے دیگر اداروں کے ساتھ مسابقت کے لیے مساوی مواقع فراہم کرائیں۔ گذشتہ برسوں میں ہم نے کوآپریٹیو سوسائٹیوں سے وابستہ ٹیکس میں بھی تخفیف کرکے انہیں راحت بہم پہنچائی ہے۔ امیت بھائی نے اس کا ذکر بہت کم الفاظ میں کیا لیکن ہم نے بہت سارے اقدامات کیے ہیں۔ سرچارج کی بات انہوں نے کہی اور پہلے تو شکایت رہتی تھی۔ اس میں اصلاح کرتے کرتے ہوئے ہم نے کوآپریٹیو کمیٹیوں کو کاشتکار پیدواری  اداروں کے مساوی  کر دیا ہے۔ اس سے کوآپریٹیو کمیٹیوں کو ترقی حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔

ساتھیو،

یہی  نہیں کو آپریٹیو کمیٹیوں کو، کوآپریٹیو بینکوں کو جدید ڈجیٹل تکنالوجی سے مربوط کرنے کی بھی ایک بہت بڑی کوشش جاری ہے۔ گجرات میں اس میں قابل ستائش کام شروع ہو رہا ہے۔ اتنا ہی نہیں، میں جب وزیر اعلیٰ تھا تو کوآپریٹیو شعبہ میں ، جس امیت بھائی نے کچھ وضاحت کی، انکم ٹیکس لگتا تھا، اور میں حکومت ہند کو مراسلے ارسال کرتا رہتا تھا، اور حکومت ہند میں  بھی یہ محکمہ وہ لوگ سنبھالتے تھے جو خود کوآپریٹیو تحریک سے وابستہ تھے۔ لیکن انہوں نے گجرات کی بات نہیں مانی، ملک کے کوآپریٹیو شعبہ کے لوگوں کی بات نہیں مانی۔ ہم نے اس مسئلے کو بھی حل کر دیا۔

ساتھیو،

مجھے بتایا گیا ہے کہ ضلع کوآپریٹیو بینکوں نے تقریباً 8 لاکھ کاشتکاروں کو روپے کسان کارڈ جاری کیے ہیں۔ باقی بینکوں کی طرح ہی آن لائن بینکنگ کی سہولتیں بھی آج کاشتکاروں کو حاصل ہو رہی ہیں۔ جب ملک کی تمام 63 ہزار پرائمری ایگری کلچرل کریڈٹ سوسائٹی ۔ پی اے سی ایس کمپیوٹرائزڈ ہو جائیں گی، تو ہمارے کوآپریٹیو شعبے کی تصویر مکمل طور پر تبدیل ہوجائے گی۔ اس سے ہمارے کاشتکاروں کو بہت فائدہ حاصل ہوگا کیونکہ ان سوسائٹیوں کے بیشتر اراکین کاشتکار ہی ہیں۔ میرے لیے خوشی کی ایک بات اور بھی ہے کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ اب کوآپریٹیو شعبہ سے وابستہ کئی افراد حکومت ہند کا جو جی ای ایم پورٹل ہے، کچھ بھی خریداری کرنی ہے تو جی ای ایم پورٹل کے توسط سے کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک شفافیت پیدا ہوگئی ہے، رفتار میں اضافہ رونما ہوا ہے اور کم خرچ میں ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں۔ حکومت ہند کے جی ای ایم پورٹل کو، کوآپریٹیو شعبہ کے لوگوں نے قبول کر لیا ہے۔ اس لیے میں کوآپریٹیو شعبہ کے لوگوں کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

ساتھیو،

کوآپریٹیو نظام کی سب سے بڑی طاقت بھروسہ ہے، تعاون ہے، سب کی قوت سے تنظیم کی قوت میں اضافہ کرنا ہے۔ یہی آزادی کے امرت کال میں بھارت کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ ہمارے یہاں جسے بھی چھوٹا جان کر کمتر سمجھا گیا، اس کو امرت کال میں بڑی طاقت بنانے پر ہم کام کر رہے ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کو آج ہر طرح سے بااختیار بنایا جا رہا ہے۔ اسی طرح چھوٹی صنعتوں، ایم ایس ایم ای، کو بھارت کی آتم نربھر سپلائی چین کا مضبوط حصہ بنایا جا رہا ہے۔ جو ہمارے چھوٹے دوکاندار ہیں، تاجر ہیں، ان کو بھی ایک ڈجیٹل تکنالوجی کا پلیٹ فارم، او این ڈی سی-ڈجیٹل تجارت کے لیے کھلا نیٹ ورک، فراہم کرایا جا رہا ہے۔ اس سے ڈجیٹل اسپیس میں صحت مند مسابقت کو فروغ حاصل ہوگا، ملک کے چھوٹے کاروباریوں کو بھی مساوی موقع حاصل ہوگا۔ یہ بھارت کی ای۔کامرس مارکیٹ کے امکانات کو تقویت بہم پہنچائے گا، جس کا گجرات کے چھوٹے کاروباریوں کو بھی یقینی طور پر فائدہ حاصل ہوگا۔

ساتھیو،

گجرات تجارت و کاروبار کی روایات سے وابستہ ریاست رہی ہے۔ اچھے تاجر کی کسوٹی یہ ہے کہ وہ مشکل حالات میں بھی کاروبار کو اچھی طرح کیسے سنبھالتا ہے۔ حکومت کی بھی یہی کسوٹی ہوتی ہے کہ چنوتیوں کے درمیان وہ راستہ نکالنے کے لیے کیسے نئے نئے طریقے تلاش کرتی ہے۔ یہ جتنی بھی تجاویز، جتنی بھی اصلاحات گذشتہ برسوں سے ہم دیکھ رہے ہیں، یہ مصیبت کو موقع پر تبدیل کرنے کی ہی ہماری کوشش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کوآپریٹیو شعبہ کا ہمارا جذبہ ہمیں اپنے عزائم کی تکمیل میں مدد فراہم کرے گا۔ اور ابھی ایک بہت ہی اچھا جملہ بھوپیندر بھائی نے اپنی تقریر میں کہا کہ آزادی سے پہلے کا ایک ہتھیار تھا عدم تعاون۔آزادی کے بعد خوشحالی کا ایک ہتھیار ہے تعاون۔ عدم تعاون سے تعاون تک کا یہ سفر خوشحالی کی بلندیوں کو حاصل کرنے والی، سب کا ساتھ، سب کا وِکاس کے اصول کو عملی جامہ پہنانے والی ہماری راہ ہے۔ اس راہ پر خوداعتمادی کے ساتھ ہم چلیں، ملک کے لوگوں کو بھی اس مقدس کام سے ہم جوڑیں، گجرات کی کوآپریٹیو تحریک کی توسیع بھارت کے دیگر شعبوں میں جتنی زیادہ ہو اس شعبے کے لوگوں کی بھلائی کے لیے کام آئے گی۔ میں حکومت گجرات کا بہت شکرگزار ہوں کہ کوآپریٹیو شعبہ کی ان معروف شخصیات کے ساتھ آج ملاقات کا موقع حاصل ہوا کیونکہ میں جب گجرات میں تھا، تو ہمیشہ انہیں اپنی شکایتیں لے کر آنا پڑتا تھا۔ لیکن آج وہ اپنا رپورٹ کارڈ لے کر آتے ہیں۔ تو ہم اتنے کم وقت میں اس مقام تک پہنچ گئے، ہم اپنی سوسائٹی کو اس مقام تک لے آئے ہیں، ہم نے اپنے ادارے کو یہاں تک پہنچا دیا ہے۔ پہلے ہماری کاروباری آمد اتنی تھی اور اب اتنی ہوگئی۔ بڑے فخر کے ساتھ چھوٹی چھوٹی سوسائٹی کے لوگ مل جاتے ہیں، کہتے ہیں صاحب ہم سب تو اب کمپیوٹر چلاتے ہیں، صاحب ہمارے یہاں کام آن لائن ہونے لگا ہے۔ یہ جو تبدیلی گجرات کے کوآپریٹیو شعبہ میں نظر آرہی ہے وہ اپنے آپ میں باعث فخر ہے۔ میں آج آپ کی اس محنت شاقہ کو سلام کرتا ہو، اس عظیم روایت کو سلام کرتا ہوں اور آج جب ہم آزادی کے 75 برسوں کا جشن منا رہے ہیں، تب جس کے بیج پہلے بوئے گئے تھے آج وہ برگد کا تناور درخت بن کر گجرات کی عام زندگی میں تعمیری کاموں میں اقتصادی نظام کی بنیاد پر کوآپریٹیو تسلط کے طور پر ترقی کر رہا ہے۔ وہ اپنے آپ میں ایک خوشی کی بات ہے۔ میں سب کو پرنام کرتے ہوئے ، تہہ دل سے آپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، اپنی بات یہیں ختم کرتا ہوں۔ میرے ساتھ پوری طاقت سے بولیئے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، بھارت ماتا کی جے، شکریہ۔

 

**********

 (ش ح –ا ب ن۔ م ف)

U.No:5844



(Release ID: 1829148) Visitor Counter : 127