وزیراعظم کا دفتر

شیوا گری کی 90 ویں سالگرہ  اور برہماودیالیہ کی گولڈن جبلی پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 APR 2022 3:04PM by PIB Delhi

آپ سب کو نمسکار!

سری نارائنا دھرم سنگھم ٹرسٹ کے صدر سوامی سچیدانند جی، جنرل سکریٹری سوامی رتمبھرانند جی،  مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی،  کیرل کی سرزمین  کے ہی  جناب  وی مرلی دھرن جی،  جناب راجیو چندر شیکھر جی،جناب  سری نارائن گرو دھرم سنگھم کے دیگر  سبھی عہدیداران،  ملک و بیرون ملک سے آئے تمام عقیدت مند ، خواتین و حضرات،

 

 جب سنتوں کے  قدم میرے گھر میں آج ایک طرح سے  آپ  تصور نہیں کر  سکتے ہیں ، یہ میرے لیے کتنی خوشی کا لمحہ ہے۔

 

ایلّا پرئے پٹّوا ملیالی-گلکم، اینڈے، ونیتمایا نمسکارم- بھار تتینڈے، آدھیاتمک، چیتنیہ مان، سری نارائن گرودیون- ادیہہ  تینڈے، جن متّال، دھنیہ-ماگپٹّوا، پنیہ بھومی  آن  کیرلم۔

 

سنتوں کی مہربانی اور جناب نارائن گرو کے آشرواد سے مجھے پہلے بھی آپ سب کے درمیان آنے کا موقع ملا ہے۔ شیو گری آ کر آپ سب کا آشیرواد لینے کا موقع ملا ہے اور میں جب بھی یہاں آیا، اس روحانی سرزمین کی توانائی کو ہمیشہ محسوس کیا۔ مجھے خوشی ہے کہ آج شیو گری تیرتھ اُتسو میں  ودیالیہ کی گولڈن جبلی کے انعقاد میں بھی مجھے شامل ہونے کا آ پ سب نے مبارک کام کرنے کا موقع دیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں سے میرا رشتہ کس طرح کا ہے، لیکن کبھی کبھی میں محسوس کرتا ہوں اور اس بات کو میں کبھی بھول نہیں سکتا ہوں،  جب کیدار ناتھ جی میں بہت بڑا حادثہ ہوا، ملک بھر کے یاتری زندگی اور موت کے بیچ میں جوجھ رہے تھے۔ اتراکھنڈ میں  اور مرکز میں کانگریس کی سرکار تھی اور کیرل کے ہی ایک صاحب انٹنی وزیر دفاع تھے، ان سب کے باوجود مجھے احمد آباد میں ، میں وزیراعلیٰ کے طور پر گجرات میں شیو گری مٹھ سے میرے پاس فون آیا کہ ہمارے سارے سنت پھنس گئے ہیں، ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا ہے، وہ کہاں ہیں، کیا صورتحال ہے، کچھ پتہ نہیں چل رہا ہے۔ مودی جی یہ کام آپ کو کرنا ہے۔ میں آج بھی سوچ نہیں پاتا ہوں کہ اتنی بڑی بڑی سرکار ہونے کے باوجود شیوگری مٹھ سے اس کام کے لئے مجھے حکم دیا گیا اور یہ گرو مہاراج کی مہربانی رہی   کہ گجرات میں میرے پاس اتنے تو وسائل نہیں تھے، پھر بھی مجھے اس نیک کام کا سیوا کرنے کا موقع ملا اور سبھی سنتوں کو بہت اچھے طریقے سے واپس لا سکا اور شیو گری مٹھ پہنچا سکا۔ اس فون کال سے ہی میرے لئے سچ مچ وہ دل کو چھولینے والا موقع تھا کہ ایسا کیا گرو مہاراج کا آشیرواد ہوگا، اس نیک کام کے لئے آپ نے مجھے منتخب کیا۔ آج یہ بھی  نیک موقع ہے۔ اس موقع پر مجھے آپ کے ساتھ ملنے کا موقع ملا ہے۔ تیرتھ دانم  کی 90 سالوں کا سفر اور برہما ودیالیہ کی گولڈن جبلی، یہ صرف ایک ادارے کا سفر نہیں ہے، یہ بھارت کے اس خیال کا بھی امر سفر ہے جو الگ الگ دور میں الگ الگ ذرائع سے آگے بڑھتا رہا ہے۔ بھارت کے درشن کو زندہ رکھنے میں ، بھارت کی اس روحانی اور سائنسی ترقی کے سفر میں کیرلانکے نے ہمیشہ اہم تعاون دیا ہے اور ضرورت پڑنے پر قیادت بھی کی ہے۔ ‘ورکلا’ کو تو صدیوں سے جنوب کی کاشی کہا جاتا ہے۔ کاشی چاہے  شمال میں ہو یا جنوب میں ، وارانسی میں شیو کی نگری ہو یا ورکلا میں شیو گری ، بھارت کی توانائی کا ہر مرکز ہم سبھی ہندوستانیوں کی زندگی میں مخصوص مقام رکھتا ہے۔ یہ مقام صرف تیرتھ تک  ہی نہیں ہے، یہ عقیدت کے مرکز تک نہیں ہے، یہ ایک بھارت-سریشٹھ بھارت کے جذبے کو ایک طرح سے اس کی جیتی جاگتنی علامت ہے۔ میں اس موقع پر شری نارائن دھرم سنگھم ٹرسٹ کو ، سوامی تکشلانند جی کو، سوامی رتم بھرا نند جی کو اور سوامی گرو پرساد جی کو دل سے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔  تیرتھ دانما اور برہما ودیالما کے اس سنہری سفر میں اس تقریب میں لاکھوں کروڑوں لاکھوں ، کروڑوں عقیدتمندوں کی بے پناہ عقیدت اور انتہائی محنت بھی شامل ہے۔ میں سری نارائن گرو کے سبھی عقیدتمندوں کو ، سبھی چاہنے والوں کو بھی پرخلوص نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ آپ سبھی  سنتوں اور پُنیہ آتماؤں کے درمیان آج جب میں بات کر رہا ہوں، تب بھارت کی خصوصیت یہ ہے کہ جب بھی سماج  کی بیداری کمزور ہونے لگتی ہے، اندھیرا بڑھتا ہے، تب کوئی نہ کوئی  مہان آتما ایک نئی روشنی کے ساتھ سامنے آ جاتی ہے۔  دنیا کے کئی ملک، کئی تہذیبیں جب اپنے مذہب سے بھٹکیں، تو وہ روحانیت کی جگہ مادہ پرستی نے لی۔ خالی تو رہتا نہیں ہے، مادہ پرستی نے بھر دیا، لیکن بھارت کچھ الگ ہے۔ بھارت کے رشیوں، منیوں، بھارت کے سنت، بھارت کے گروؤں نے ہمیشہ خیالات اور رویے کا مسلسل تحقیق کی ہے، ترمیم کی ہے اور حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ سری نارائن گرو نے جدیدیت کی بات کی، لیکن ساتھ ہی انہوں نے ہندوستانی تہذیب اور اقدار کو بڑھانے پر بھی مسلسل کام کیا۔ انہوں نے تعلیم اور سائنس کی بات بتائی، لیکن ساتھ ہی مذہب اور عقیدت کی ہماری ہزاروں سال کی روایات  پر فخر کو بڑھانے میں کبھی پیچھے نہیں رہے۔ یہاں شیو گری تیرتھ کے ذریعے سائنسی تفکر کی نئی دھارا بھی نکلتی ہے اور شاردا مٹھ میں ماں سرسوتی کی آرادھنا بھی ہوتی ہے۔ نارائن گرو جی نے مذہب کی اصلاح کی اور اس میں  وقت کے مطابق تبدیلی کی۔ متروک چیزوں کو چھوڑا، انہوں نے  شدپسندی اور برائیوں کے خلاف مہم چلائی اور بھارت کو اس کی حقیقت سے متعارف کرایا اور وہ  دور معمولی نہیں تھا۔ شدت پسندوں کے خلاف کھڑا ہونا، یہ چھوٹا موٹا کام نہیں تھا۔ آج ہم اس کا تصور نہیں کر سکتے، لیکن وہ وہ نارائن گرو جی نے کر کے دکھایا۔ انہوں نے ذات پات کے نام پر چل رہی اونچ نیچ، بھید بھاؤ کے خلاف  منطقی اور سماجی لڑائی لڑی۔  آج نارائن گرو جی کی اسی  ترغیب کو لے کر ملک غریبوں، دلتوں، پسماندہ طبقوں کی خدمت کر رہا ہے۔ انہیں ان کے حق کا جو ملنا چاہئے، اسے وہ حقوق دینا یہ ہماری ترجیح رہی ہے اور اسی لئے آج ملک سب کا ساتھ- سب کا وکاس، سب کا وشواس اور سب کا پریاس کے نعرے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔

 

ساتھیو،

 

سری نارائن گرو جی روحانی  شعور کے  تو مالک تھے ہی، روحانی تحریک کے بھی روشن مینار تھے، لیکن یہ بھی  اتنا ہی سچ ہے کہ سری نارائن گرو جی سماج مصلح بھی تھے۔ مفکر بھی اور دور اندیش بھی تھے۔ وہ اپنے وقت سے کہیں آگے کی سوچ رکھتے تھے، وہ بہت دور تک دیکھ سکتے تھے۔ اس کی وجہ سے آپ تصور کر سکتے ہیں کہ گرو دیو ایک کٹر مفکر کے ساتھ ہی ایک عملی مصلح بھی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم یہاں جبراً بحث کر کے جیتنے کے لئے نہیں آئے ہیں، بلکہ ہم یہاں جاننے کے لئے ، سیکھنے کے لئے آئے ہیں۔ وہ جانتے تھے کہ سماج کو مختلف معاملوں میں الجھا کر نہیں سدھارا جا سکتا۔ سماج میں سدھار آتا ہے، جب لوگوں کے ساتھ کام کیا جائے، ان کے جذبات کو سمجھا جائےاور لوگوں  کو اپنے جذبات سمجھائے جائیں، جس وقت ہم کسی سے بحث کرنے لگتے ہیں، تو اسی لمحے سامنے والا شخص اپنےحق کے لئے مختلف دلیلیں پیش کر دیتا ہے۔ لیکن جیسے ہی  ہم کسی کو سمجھنا شروع  کر دیتے ہیں، سامنے والا شخص ہمیں سمجھنا شروع کر دیتا ہے۔ نارائن گرو جی نے بھی اسی روایت کا، اسی حد ہمیشہ عمل کیا ہے۔ وہ دوسروں کے جذبات کو سمجھتے تھے اور پھر اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ سماج میں  اس ماحول کو تیار کر تے تھے کہ سماج خود ہی  درست دلائل کے ساتھ اپنے آپ سدھار میں مصروف عمل ہوجاتا تھا۔جب ہم سماج کے سدھار کے اس راستے پر چلتے ہیں، تو پھر سماج کے اپنے سدھار کی بھی قوت پیدا ہو جاتی ہے۔ اب جیسے ہماری سرکار نے  بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ مہم شروع کی۔ قانون تو پہلے بھی تھے، لیکن بیٹیوں کی تعداد میں بہتری حال ہی کے کچھ برسوں میں ہو پائی  ہے۔ ایسا اس لئے ہوا کہ ہماری سرکار نے سماج کو اچھی بات کے لئے ترغیب دی، صحیح ماحول تیار کیا۔ لوگوں کو بھی جب لگا کہ سرکار صحیح کر رہی ہے، تو صورتحال میں تیزی سے  بہتری بھی آنے لگتی ہے اور سچے مطلب میں  سب کی کوشش سے اس کے نتیجے نظر آتے ہیں۔ سماج میں سدھار کا یہی طریقہ ہے اور ہم جتنا بھی   سری نارائن گرو کو پڑھتے ہیں، اتنا ہی سیکھتے ہیں، ان کو سمجھتے ہیں، اتنا ہی وہ  واضح ہونے لگتا ہے۔

 

ساتھیو،

 

سری نارائن گرو نے ہمیں منتر دیا تھا۔

 

औरु जाथि

 

औरु मथम

 

औरु दैवं मनुष्यानु

 

انہوں نے ایک ذات، ایک مذہب، ایک بھگوان  پر زور دیا تھا۔ اگر ہم نارائن گرو جی کی اس اپیل کو بہت گہرائی سے سمجھیں ، تو اس کے اندر چھپے پیغام کو سمجھیں، تو پائیں گے کہ ان کے اس پیغام سے آتم نربھر بھارت کا  بھی راستہ بنتا ہے۔ ہم سبھی کی ایک ذات ہے - بھارتیتا (ہندوستانیت)، ہم سبھی ایک ہی مذہب ہیں۔۔ سیوا دھرم (خدمت مذہب) ، اپنے فرائض پر عمل۔ ہم سبھی کا ایک ہی بھگوان ہے- بھارت ماتا کی 130 کروڑ سے زیادہ  اولا۔ سری نارائن گرو جی کا ایک ذات، ایک مذہب، ایک بھگوان کی اپیل، ہماری حب الوطنی کے جذبے کو ایک زبردست اونچائی عطا کرتا ہے۔ ہماری حب الوطنی، قوت کی نمائش نہیں، بلکہ ہماری حب الوطنی  ماں بھارتی کی آرادھنا اور اہل وطن کی خدمات کا جذبہ ہے۔ ہم اس بات کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھیں، سری نارائن گرو جی کے پیغامات پر عمل کریں، تو دنیا کی کوئی بھی قوت ہم ہندوستانیوں میں تفریق پیدا نہیں کر سکتی اور یہ ہم سب جانتے ہیں کہ متحد ہوئے بھارتیوں کے لئے دنیا کا کوئی بھی ہدف نا ممکن نہیں ہے۔

 

ساتھیو،

 

سری نارائن گرو نے تیرتھ دانم کی روایت کو آزادی سے پہلے شروع کیا تھا۔ ملک بھی اس وقت اپنی آزادی کے 75 سال کا امرت مہوتسو منا رہا ہے۔ ایسے وقت میں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے  ہماری جدو جہد  صرف احتجاجی مظاہروں اور سیاسی پالیسیوں تک ہی محدود نہیں تھا۔ یہ غلامی کی بیڑیوں کو توڑنے کی لڑائی تو تھی ہی، لیکن ساتھ ہی ایک آزاد ملک کی شکل میں ہم ہوں گے، کیسے ہوں گے، اس پر غوروفکر بھی ساتھ ساتھ چلتا تھا۔ کیونکہ، ہم کسی چیز کے خلاف ہیں، صرف یہی اہم نہیں ہوتا۔ ہم کس سوچ کے، کس خیال کے لئے ایک ساتھ ہیں،  یہ بھی بہت زیادہ اہم ہوتا ہے۔ اسی لئے، ہماری جدو جہد آزادی سے اتنے عظیم خیالات کی روایت چل پڑی۔ ہر دور میں نئےمفکر ملے، بھارت کے لئے اتنے عہد، اتنے خواب ایک ساتھ کھڑے ہوئے ۔ ملک کے الگ الگ حصوں سے لیڈر اور اعظیم لوگ  ایک دوسرے سے ملتے تھے، ایک دوسرے سے سیکھتے تھے۔ آج ٹیکنالوجی کے زمانے میں ہمیں یہ سب بہت آسان لگتا ہے، لیکن اس دور میں یہ سہولیات، یہ سوشل میڈیا اور موبائل کا زمانہ نہیں تھا۔لیکن پھر بھی یہ عوام ، عوامی لیڈر، یہ رہنما ایک ساتھ مل کر غوروفکر کرتے تھے، جدید بھارت کا خاکہ بناتے تھے۔ آپ دیکھئے، 1922 میں ملک کے مشرقی حصے سے گرو دیو رابندر ناتھ ٹیگور، یہاں جنوب میں آ کر  نارائن گرو س ے ملتے تھے۔ تب گرو سے ملنے کے بعد گرودیو نے کہا تھا کہ ‘‘ میں نے آج تک نارائن گرو سے عظیم روحانی شخصیت نہیں دیکھی ہے’’۔ 1925 میں مہاتما گاندھی جی، گجرات سے، سابر متنی کے تٹ سے، ملک کے مغربی حصے سے چل کر یہاں آتے ہیں، سری نارائن گرو سے ملتے ہیں، ان کے ساتھ ہوئی بات چیت نے  گاندھی جی کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ سوامی وویکا نند جی خود نارائن گرو سے ملنے پہنچ گئے تھے۔ ایسی کتنی ہی عظیم شخصیات نارائن گرو کے قدموں میں بیٹھ کر سَت سَنگ کیا کرتی تھیں۔ کتنے خیالات پر غور ہوتا تھا۔ یہ خیالات سیکڑوں سالوں کی غلامی کے بعد ایک ملک کی صورت میں بھارت کی تعمیر نو کی طرح تھے۔ ایسے کتنے ہی سماجی، سیاسی اور روحانی شخصیات ایک ساتھ آئیں ، انہوں نے ملک میں بیداری پیدا کی، ملک کو    تحریک دی،  ملک کو    سمت دینے کا کام کیا۔   آج ہم جو بھارت دیکھ رہے ہیں، آزادی کے ان 75سالوں کے اس سفر کو ہم نے دیکھا ہے، یہ انہیں عظیم شخصیتوں کی غوروفکر کا نتیجہ ہے، جو آج سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔

 

ساتھیو،

 

آزادی کے  ہمارے  متوالوں نے جو راستہ دکھایا تھا، آج بھارت ان اہداف کے قریب پہنچ رہا ہے۔ اب ہمیں نئے اہداف بنانے ہیں، ایک نیا عہد لینا ہے۔ آج سے 25 سال بعد ملک اپنی آزادی کے 100 سال مکمل ہونے  کا جشن منائے گا اور 10 سال بعد ہر تیرتھ دانم کے 100 سالوں  کا یہ سفر بھی، اس کا بھی جشن منائیں گے۔ان 100 سالوں کے سفر میں ہماری حصولیابیاں عالمی ہونی چاہئے اور اس کے لئے ہمارا  ویژن بھی عالمی ہونا چاہئے۔

 

بھائیوں اور بہنوں،

 

آ ج دنیا کے سامنے بہت سے مشترکہ چیلنج ہیں، مشترکہ بحران ہیں۔   کورونا کی عالمی کے وقت اس کی ایک جھلک ہم نے دیکھی ہے۔  انسانیت کے سامنے درپیش مستقبل کے سوالوں کا جواب  بھارت کے تجربات اور بھارت کی ثقافتی تعاون سے ہی نکل سکتا ہے۔ اس میں ہمارے روحانی گرو کو اس عظیم روایت کو پورا کرنے میں ایک بہت بڑا کردا ر ادا کرنا ہے۔ تیرتھ دانم کے بودھک فکر اور تجربات میں ہماری نئی پیڑھی کو بہت کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ شیو گری تیرتھ دانم کی یہ یاترا ایسے ہی مسلسل چلتی رہے گی۔ بہبود اور اتحاد کی علامت  اور  سبک رفتاری کی علامت تیرتھ یاترائیں بھارت کو اس کے منزل تک پہنچانے کا ایک     مضبوط وسیلہ بنیں گی۔ اسی جذبے کے ساتھ میں پھر ایک بار آپ سب کا ، جو یہاں موجود ہیں، میں دل سے شکر گزار ہوں اور مجھے یقین ہے کہ ہم سب مل کر جو سپنے، جو عہد آپ نے کئے ہیں، مجھے بھی ایک   سَت سنگی کے طور پر ، ایک بھگت کے طور پر ان عہد کے ساتھ جڑنا میری خوش قسمتی ہوگی، میرے لئے فخر کا باعث ہوگی۔ میں پھر ایک بار آپ سب کا استقبال کرتے ہوئے، آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

*********

U-4694

ش ح-و ا-ک ا

 



(Release ID: 1820291) Visitor Counter : 150