امور داخلہ کی وزارت

داخلی امور اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے بائیں بازو کی انتہا پسندی کے بارے میں  نئی دہلی میں ایک جائزہ میٹنگ کی صدارت کی


وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت نکسلیوں سے متاثرہ علاقوں میں ترقی کے تئیں عہد بند ہے

وزیراعظم کی قیادت میں بائیں بازو کی انتہا پسندی کے خاتمہ کی غرض سے مرکز اور ریاستوں کی جانب سے کی گئی مشترکہ کوششوں کی بدولت کافی کامیابی حاصل ہوئی ہے

دہائیوں سے جاری لڑائی کے بعد اب  ہم اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں پہلی مرتبہ مرنے والوں کی تعداد 200 سے کم ہے اور یہ ہم سب کی  مشترکہ اور بڑی حصولیابی ہے

جب تک ہم مکمل طور پر بائیں بازو کی انتہا پسندی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرلیتے، ملک اور بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ ریاستوں کی مکمل ترقی ممکن نہیں ہے

وزیراعظم جناب نریندر مودی نے مرکزی مسلح پولیس فورسز(سی اے پی ایفس) کی تعیناتی کے سلسلے میں ریاستوں کے مستقل اخراجات کو کم کرنے کا ایک اہم فیصلہ کیا ہے

اس کے نتیجے میں سی اے پی ایفس کی تعیناتی کے سلسلے میں ریاستوں کے مستقل اخراجات میں  سال 2019-2018  کے مقابلے سال 2020-2019 میں لگ بھگ 2900 کروڑ روپے کی کمی ہوئی ہے

حکومت ہند، سیاسی پارٹیوں کو توجہ دیئے بغیر ، کئی سال سے دو محاذوں پر ایک جنگ لڑرہی ہے، ان لوگوں کا جو ہتھیار  ڈال دینا چاہتے ہیں اور خود سپردگی کرناچاہتے ہیں اور جمہوریت کاایک حصہ بننا چاہتے ہیں  ان کاگرمجوشی کے ساتھ استقبال ہے، لیکن جو لوگ ہتھیار اٹھاناچاہتے ہیں اور بے قصور افراد اور پولیس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کو انہی کی زبان میں جواب دیاجائے گا

آزادی کےبعد چھ دہائیوں میں ترقی میں کمی، بے اطمینانی کی اصل وجہ ہے، لیکن اب وزیراعظم کی قیادت میں ترقیاتی کام  ہورہے ہیں اور نکسلیوں نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے کہ اب وہ معصوم لوگوں کو گمراہ نہیں کرپائیں گے، یہی وجہ ہے کہ اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ ترقیاتی کاموں کو تیز رفتاری سے جاری رکھا جائے

ایک مسئلے کے خلاف یہ لڑائی، جس میں گزشتہ 40 سال کے دوران 16000  سے زیادہ سویلین افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اب اپنے آخری مراحل میں پہنچ گئی ہے اور اب اس میں تیزی  لانے اور اسے فیصلہ کن بنانے کی ضرورت ہے

حکومت ہند ، حال ہی میں، شورش پسند گروپوں سے خاص طور پر شمال مشرق میں ہتھیار ڈالنے اور خودسپردگی کرانے پر کامیاب ہوئی ہے۔ اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ بائیں بازو کے انتہا پسندوں کی آمدنی کے ذرائع کو ختم کردیاجائے

Posted On: 26 SEP 2021 4:35PM by PIB Delhi

داخلی امور اور امداد باہمی کے مرکزی وزیر جناب امت شاہ نے آج نئی دہلی میں بائیں بازو کی انتہا پسندی کے بارے میں ایک جائزہ میٹنگ کی صدارت کی۔ اس میٹنگ میں دیہی ترقی اور پنچایتی راج کے مرکزی وزیر جناب گری راج سنگھ، قبائلی امور کے وزیر جناب ارجن منڈا، مواصلات، اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور ریلویز کے وزیر جناب اشونی ویشنو، سڑک ٹرانسپورٹ اور شاہراہوں کے وزیرمملکت جنرل وی کے سنگھ، داخلی امور کے وزیرمملکت جناب نتیا نند رائے، بہار، اڈیشہ، مہاراشٹر، تلنگانہ، مدھیہ پردیش اور جھار کھنڈ کے وزرائے اعلی اور آندھرا پردیش کے وزیر داخلہ، چھتیس گڑھ ، مغربی بنگال اور کیرالہ کے سینئر عہدیداروں ، مرکزی داخلہ سکریٹری، مرکزی مسلح پولیس فورسز کے  اعلی عہدیداروں اور مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے بہت سے سینئر عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔

a.jpg

جناب امت شاہ نے کہا کہ وزیراعظم جناب نریندر مودی کی قیادت میں حکومت ہند، بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ ریاستوں کی ترقی کے تئیں عہد بند ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ  مجھےیہ بتاتے  ہوئے خوشی ہے کہ وزیراعظم کی قیادت میں ، مرکز اور ریاستوں کی مشترکہ کوششوں کے نتیجے میں بائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف سخت کارروائی میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب ، جبکہ بائیں بازو کی انتہا پسندی کےواقعات میں 23 فیصد تک کی کمی درج کی گئی ہے ۔ مرنے والوں کی تعداد میں بھی 21 فیصد کی کمی ہوئی ہے۔ جناب امت شاہ نے کہا کہ دہائیوں سے جاری لڑائی کے بعد ہم اس مقام تک پہنچ گئے ہیں جہاں پہلی مرتبہ مرنے والوں کی تعداد 200 سے کم ہے اور یہ ہم سب کی  مشترکہ اور بڑی حصولیابی ہے۔

انہوں کہاکہ ہم سب یہ بات جانتے ہیں کہ جب تک ہم مکمل طور پر بائیں بازو کی انتہا پسندی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرلیتے، ملک اور بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ ریاستوں کی مکمل ترقی ممکن نہیں ہے۔مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ اس لعنت کا خاتمہ کئے بغیر نہ تو ہم عام لوگوں تک جمہوریت پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی ہم کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کرسکتے ہیں۔ اس لئے، بجائے اس کے کہ ہم اب تک حاصل کی گئی کامیابی پر مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں، ہمں جو کچھ بھی حاصل ہونے سے رہ گیا ہے اسے حاصل کرنے کی غرض سے اپنے کام کی رفتار تیز کردینی چاہئے۔

b.jpg

داخلی امور اور امدا د باہمی کے مرکزی وزیر نے کہا کہ حکومت ہند، سیاسی پارٹیوں کو توجہ دیئے بغیر ، کئی سال سے دو محاذوں پر ایک جنگ لڑرہی ہے، ان لوگوں کا جو ہتھیار رکھنا چاہتے ہیں اور خود سپردگی کرناچاہے اور جمہوریت کاایک حصہ بننا چاہتے ہیں  ان کاگرمجوشی کے ساتھاستقبال ہے، لیکن جو لوگ ہتھیار اٹھاناچاہتے ہیں اور بے قصور افراد اور پولیس کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں ان کو انہی کی زبان میں جواب دیاجائے گا۔انہوں نے کہا کہ آزادی کےبعد چھ دہائیوں میں ترقی میں کمی بے اطمینانی کی اصل وجہ ہے، لیکن اب وزیراعظم کی قیادت میں ترقیاتی کام  ہورہے ہیں اور نکسلیوں نے بھی یہ بات سمجھ لی ہے کہ اب وہ معصوم لوگوں کو گمراہ نہیں کرپائیں گے، یہی وجہ ہے کہ اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ ترقیاتی کاموں کو تیز رفتاری سے جاری رکھا جائے۔ان دونوں محاذوں پر کامیاب ہونے کی غرض سے اس میٹنگ کی بہت اہمیت ہے۔ جناب شاہ نے ریاستوں پر زور دیا کہ متاثرہ ریاستوں کی چیف سکریٹریوں کو، بائیں بازو کی انتہا پسندی سے نمٹنے کے مقصد سے ڈی جی پیز اورمرکزی ایجنسیوں کے افسران کے ساتھ کم از کم ہر تین مہینے میں ایک جائزہ میٹنگ کرنی چاہئے اور صرف اسی صورت میں ہم اس لڑائی کو آگے لےجاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ دو سال کے دوران ان علاقوں میں سیکوریٹی کیمپوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا ہے جہاں ان کی کمی محسوس کی گئی تھی۔ خاص طور پر چھتیس گڑھ، مہاراشٹر اور اڈیشہ میں سیکوریٹی کیمپوں کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جناب شاہ نے کہا کہ اگر وزیراعلی، چیف سکریٹری اور ڈی جی پی کی سطح پر باضابطہ طور پر جائزہ لیاجاتا ہے تو نچلی سطح پر تال میل کی کمی کا مسئلہ خود بخود حل ہوجائے گا۔ جناب شاہ نے کہا کہ ایک مسئلے کے خلاف لڑائی، جس میں گزشتہ 40 سال کے دوران 16000  سے زیادہ سویلین افراد ہلاک ہوچکے ہیں، اب اپنے آخری مراحل میں پہنچ گئی ہے اور اب اس میں تیزی  لانے اور اسے فیصلہ کن بنانے کی ضرورت ہے۔

 

c.jpg

 جناب امت شاہ نے کہا کہ حکومت ہند ، حال ہی میں، شورش پسند گروپوں نے خاص طور پر شمال مشرق میں ہتھیار ڈالنے اور خودسپردگی کرانے پر کامیاب ہوئی ہے۔ اس بات کی بہت اہمیت ہے کہ بائیں بازو کے انتہا پسندوں کی آمدنی کے ذرائع کو ختم کردیاجائے۔ابھی تک لگ بھیگ 16000 کاڈرس سماج کے اصل دھارے میں شامل ہوچکے ہیں ان میں بوڈو لینڈ معاہدہ، سی برو معاہدہ، دی کربی آنگ لانگ معاہدہ اور تریپورہ کے خودسپردگی کرنے والے کاڈرس شامل ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم ان تمام لوگوں کاخیر مقدم کرتے ہیں جو تشدد کاراستہ ترک کرکے  اصل دھارے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

جناب امت شاہ نے کہا کہ ریاستی انتظامیہ کو زیادہ سرگرم ہوناچاہئے اور مرکزی فورسز کے ساتھ تامل میل قائم کرکے آگے بڑھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی فورسز کی تعیناتی کے سلسلے میں ریاستوں کی مانگوں کو پورا کرنے کی خاطر کوششیں کی گئی ہیں۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیراعظم جناب نریندر مودی نے جب تک ہم مکمل طور پر بائیں بازو کی انتہا پسندی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرلیتے، ملک اور بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ ریاستوں کی مکمل ترقی ممکن نہیں ہے اوروزیراعظم جناب نریندر مودی نے مرکزی سطح پولیس فورسز(سی اے پی ایفس) کی تعیناتی کے سلسلے میں ریاستوں کے مستقل اخراجات کو کم کرنے کا ایک اہم فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم لگاتار اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس سلسلے میں مسلسل ہماری رہنمائی کررہے ہیں۔

مرکزی وزیر داخلہ نے کہا بائیں بازو کی انتہا پسندی کے آمدنی کے ذرائع کو ختم کرنے کی بہت ضرورت ہے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی ایجنسیوں کو آپس میں ایک نظام تیار کرکے اسے روکنے کی کوشش کرنی چاہئے۔انہوں نے تمام وزرائے اعلی پر زور دیا کہ وہ اگلے ایک سال کے لئے بائیں بازو کی انتہا پسندی کے مسئلے سے نمٹنے کو ترجیح دیںتاکہ اس مسئلے کا کوئی مستقل حل تلاش کیاجاسکے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے دباؤ بنانے، رفتار میں اضافہ کرنے اور بہتر اشتراک کی ضرورت ہے۔

d.jpg

بائیں بازو کی انتہا پسندی(ایل ڈبلیو ای) گزشتہ کئی دہائیوں سے سیکوریٹی کے لئے ایک اہم چیلنج بنی ہوئی ہے۔ حالانکہ بنیاڈی طور پر یہ ایک ریاستی معاملہ ہے، وزارت داخلہ( ایم ایچ اے) کے بائیں بازو کی انتہا پسندی کی لعنت سے مکمل طور پر نمٹنے کی غرض سے 2015 سے ایک ‘‘ نیشنل پالیسی اور عملی منصوبہ’’ پر عمل درآمد کررہی ہے اور اس سلسلے میں پیش رفت اور صورتحال پر سخت نظر رکھی جارہی ہے اور یہ پالیسی ، کثیر رخی ، حکمت عملی پر مشتمل ہے۔

اس پالیسی کی اہم خصوصیات میں تشدد کو بالکل بھی برداشت نہ کرنا اور ترقیاتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ تیزی لانا شامل ہیں تاکہ ترقی کے فوائد ، متاثرہ علاقوں کے غریب اور زد پذیر لوگوں تک پہنچ سکیں۔اس پالیسی کی پیروی کرتے ہوئے، وزارت داخلہ ، سی اے پی ایف بٹالینوں کی تعیناتی کرکے ریاستی حکومتوں کی صلاحیت سازی اور سیکورٹی سے متعلق صورتحال کو مستحکم بنانے میں مددکررہی ہے۔

اس کے علاوہ ہیلی کاپٹروںاور یو اے ویز کے بندوبست، انڈین ریزرو بٹالینوں اور اسپیشل انڈیا ریزرو بٹالینوں کو منظوری دے کر بھی ریاستی حکومتوں کی مدد کی جارہی ہے اس کے علاوہ پولیس فورسز کی جدید کاری، سیکورٹی سے متعلق اخراجات کی اسکیم وغیرہ کے لئے بھی فنڈ فراہم کئے جارہے ہیں۔

بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ علاقوں کی ترقی کے مقصد سے، حکومت ہند نے بہت سے ترقیاتی پیش قدمیاں کی ہیں۔ جس کے تحت 17600 کلو میٹر سڑک تعمیر کیاجاناشامل ہے جس میں سے 9343 نئے موبائل ٹاورس نصب کئے گئے ہیں اور 2542 اضافی ٹاورس آئندہ 18 ماہ میں نصب کردیئے جائیں گے۔ ان متاثرہ اضلاع میں عوام کی مالی شمولیت کے مقصد سے 1789 ڈاک خانے، 1236 بینک شاخیں، 1077 اے ٹی ایمس قائم کئے گئے ہیں اور اگلے ایک سال میں مزید 3114 ڈاک خاے کھولے جائیں گے۔ بائیں بازو کی انتہا پسندی سے متاثرہ علاقو کے نوجوانوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنے کی غرض سے ایکلویہ ماڈل رہائشی اسکول کھولنے پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے اور ان علاقوں میں 234 ایسے اسکول کھولنے کی منظوری دی جاچکی ہے جبکہ 119 اسکولوں میں تعلیم دی جارہی ہے۔

سب سے زیادہ متاثرہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کو مزید تقویت بہم پہنچانے کے لئے خصوصی مرکزی امداد(ایس سی اے) سے متعلق اسکیم کے تحت 10 ہزار سے زیادہ پروجیکٹ شروع کئے گئے ہیں جن میں سے 80 فیصد سے زیادہ پروجیکٹ پہلے ہی مکمل  ہوچکے ہیں۔ اس اسکیم کے تحت بائیں بازو کی انتہا پسندی ایل ڈبلیو ای سے  متاثرہ ریاستوں کے لئے 2698.24 کروڑ روپے جاری کئے گئے ہیں۔ ایس آئی ایس پروجیکٹ کے تحت 992 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں جس کے لئے 152 کروڑ روپے جاری کئے جاچکے ہیں۔

امور داخلہ کی وزارت نے بعض ضلعوں کی ایل ڈبلیو ای سے متاثرہ ضلعوں کے طور پر درجہ بندی کی ہے اور ان کا سیکورٹی سے متعلق اخراجات( ایس آر ای) اسکیم کے تحت احاطہ کیا گیا ہے تاکہ ایل ڈبلیو ای سے نمٹنے سے متعلق اقدام کے لئے متاثرہ ریاستوں کو مخصوص وسائل کو اکٹھا کیاجاسکے۔

 گزشتہ دہائی کے دوران، تشدد سے متعلق واقعات اور جغرافیائی اعتبار سے اس کے پھیلاؤ دونوں ہی میں لگاتار کمی درج ہورہی ہے۔ ایل ڈبلیو ای سے متعلق تشدد کےواقعات میں 70 فیصد تک کی کمی ہوئی ہے۔ 2009 میں تشدد کے اب تک سب سے زیادہ 2258 واقعات درج ہوئے تھے جب کہ 2020 میں 665 واقعات درج ہوئے ہیں۔ ان واقعات کے نتیجے میں ہونے والی اموات میں بھی 82 فیصد کی کمی درج ہوئی ہے۔ سال 2010 میں یہ 96 اضلاع میں سرگرم تھے جب کہ 2020 میں یہ محض 53 اضلاع میں محدود کردیئے گئے ہیں۔

 اس سے بہتر ہوئی صورتحال کی وجہ سے گزشتہ تین سال میں دو مرتبہ ایس آر ای اضلاع کی  تعداد کاجائزہ لیا گیا ہے اور اپریل 2018 میں 126 ایسے ضلعوں کی تعداد کم  کرکے 90 کردی گئی ہے اور پھر جولائی 2021 میں انہیں مزید کم کرکے 70 کردیا گیا ہے۔ایل ڈبلیو ای سے سب سے  زیادہ متاثرہ اضلاع کی تعداد میں بھی خاطر خواہ کمی  ہوئی ہے اپریل 2018 میں انہیں 35 سے کم کرکے 30 کردیا گیا اور پھر جولائی 2021 میں انہیں مزید کم کرکے 25 کردیا گیا ہے۔

بعض نئے علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں اس لعنت کےابھرنے کاامکان ہے سی پی آئی(ماؤ نواز) کی توسیع سے نمٹنے اور حال ہی میں ایل ڈبلیو ای کے اثر والے علاقوں میں ان کے پھر سے سرگرم ہونے پر روک تھام  لگانے کی غرض سے 8ضلعوں کی ‘‘تشویش کے اضلاع’’ کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ نظرثانی شدہ درجہ بندی ، حالیہ ایل ڈبلیو ای منظرنامہ کی زیادہ حقیقی نمائندگی ہے۔

ایل ڈبلیو ای لعنت کے خلاف جنگ ، اس وقت بہت اہم مرحلہ میں پہنچ گئی ہے اور حکومت کے جلد از جلد اس لعنت میں خاطر خواہ سطح تک کمی لانے کی پوری طرح پرامید ہے۔

e.jpg

ایل ڈبلیو ای

f.jpg

ایل ڈبلیو ای واقعات

g.jpg

ایل ڈبلیو ای کے سبب  ہونے والی اموات

h.jpg

 

i.jpg

 

****************

(ش ح۔ع م ۔ رض)

U NO. 9421



(Release ID: 1758519) Visitor Counter : 211