محنت اور روزگار کی وزارت

پارلیمنٹ نے محنت سے متعلق 3 کوڈز منظور کردیے ہیں تاکہ ‘‘حالات تبدیل کرنے والے’’ تاریخی محنت کےقوانین پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہوسکے


محنت کوڈز نے کارکنوں اور صنعت کی ضرورتوں کے درمیان خوش آہنگی پیدا کردی ہے اور یہ کارکنوں کی بھلائی کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گے: جناب گنگوار

لیبر کوڈز سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کو ایک بڑی جلا دیں گے: جناب گنگوار

نئے لیبر کوڈز سے منظم، غیر منظم اور اپنا کام خود چلانے والے 50 کروڑ سے زیادہ کارکنوں کا کم از کم اجرت اور سماجی سکیورٹی کے سلسلے میں احاطہ کیا جائے گا

جی آئی جی اور پلیٹ فارم پر کام کرنے والوں کے ساتھ 40 کروڑ غیر منظم کارکنوں کے لیے ‘‘سوشل سکیورٹی فنڈ’’ کے قیام سے سبھی کو سماجی سکیورٹی کے تحت لانے میں مدد ملے گی

خاتون کارکنوں کو اپنے مرد کارکنوں کے برابر تنخواہ ملے گی

ورکنگ صحافیوں کی تشریح میں ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کو شامل کیا جائے گا

مائیگرینٹ کارکنوں کی مشکلات پر توجہ دینے کے لیے ہیلپ لائن قائم کی جائے گی

لیبر کوڈز سے ایک شفاف، جوابدہ اور آسان میکنزم قائم ہوگا

Posted On: 23 SEP 2020 4:28PM by PIB Delhi

نئی دہلی،23 ستمبر،       راجیہ سبھا نے آج تین لیبر کوڈز منظور کیے، یعنی صنعتی تعلقات کا کوڈ، 2020، (2) پیشہ ورانہ تحفظ، صحت اور کام کے حالات کا کوڈ 2020 اور (3) سماجی تحفظ کا کوڈ 2020۔ اس طرح ان کوڈز پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہوگئی ہے کیونکہ لوک سبھا ان بلوں کو کل ہی منظور کرچکی تھی۔

بلوں پر بحث کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے، جناب گنگوار نے بلوں کو مکمل حالات تبدیل کرنے والا تاریخی قدم قرار دیا جس سے کارکنوں، صنعتوں اور دیگر متعلقہ فریقوں کی ضرورتوں کے درمیان  خوشگوار، ہم آہنگی پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ لیبر کوڈز ملک میں کارکنوں کی فلاح وبہبود کے سلسلے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔ جناب گنگوار نے بتایا کہ 2014 سے اب تک ہماری حکومت نے کارکنوں کی بھلائی کے لیے بہت سے اقدامات کیے ہیں اور ان لیبر کوڈز کے ذریعے مجموعی لیبر اصلاحات کا ہمارا خواب پورا ہو رہا ہے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ  او ایس ایچ کوڈ میں کارکنوں خاص طور پر خاتون کارکنوں کے لیے کام کے محفوظ ماحول کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ وزیر موصوف نے مزید کہا کہ صنعتی تعلقات کے کوڈز کے ذریعے تنازعات کے مؤثر حل کے ایک میکنزم کو یقینی بنایا گیا ہے اور ہر ادارے میں تنازعات کو  وقت پر حل کرنے کا نظام قائم کردیا گیا ہے۔جناب گنگوار نے مزید کہا کہ سماجی سکیورٹی کوڈمنظم اور غیر منظم دونوں طرح کے کارکنوں کو ایک جامع سماجی سکیورٹی  فریم ورک فراہم کرتا ہے۔

جناب گنگوار نے کہا ‘‘اس کوڈ کے ذریعے ہم یونیورسل سوشل سکیورٹی کے وزیر اعظم کے وژن کو پورا کرنے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں’’۔

جناب گنگوار نے مزید کہا کہ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کی انقلابی قیادت میں اس حکومت نے 2014 سے بابا صاحب امبیڈکر کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے بہت اقدامات کیے ہیں اور اس حکومت نے ‘شرمیوجیئتے’’ اور ’’ستیہ میو جیئتے’’ کو برابر کی اہمیت دی ہے۔ میری وزارت منظم اور غیر منظم دونوں زمروں کے کارکنوں کو سماجی سکیورٹی اور بھلائی کے دیگر فائدے فراہم کرنے کے لیے انتھک  کام کر رہی ہے اور اس نے کووڈ-19 وبائی بیماری کے دوران بھی ایسا ہی کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت نے بہت سے ایسے اقدامات کیے ہیں جن کی پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی اور بہت سی فلاح وبہبود کی اسکیمیں شروع کی ہیں۔ مثلاً ہماری بہنوں کے لیے  ولادت کے سلسلے میں دی جانے والی چھٹیوں کو 12 ہفتے سے بڑھا کر 26 ہفتے کرنا اور خواتین کو پردھان منتری روزگار پروتساہن یوجنا کے تحت ، کانوں میں کام کرنے کی اجازت دینا۔ ای پی ایف او میں  آسانی کے ساتھ باضابطہ روزگار میں اضافہ کیا گیا ہے اور ہمارے ساتھیوں کے لیے فلاح وبہبود کی اسکیمیں نیز ایس ایس آئی سی میں توسیع کی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں۔

29 لیبر قوانین کو چار لیبر کوڈز میں ضم کرنے کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے جناب گنگوار نے بتایا کہ حکومت نے لیبر کوڈ کو قطعی شکل دینے سے پہلے بڑے پیمانے پر صلاح ومشورہ کیا۔ یہ صلاح ومشورہ 9 سہ فریقی میٹنگوں، 4 ذیلی کمیٹیوں، 10 بین وزارتی صلاح ومشوروں ، ٹریڈ یونینوں، ملازمین کی ایسوسی ایشنوں، ریاستی حکومتوں، ماہرین، بین الاقوامی اداروں کے ساتھ کیا گیا اور دو تین مہینے تک ان تجویزوں کو عوام کے سامنے رکھ کے ان کے مشورے اور ان کی رائے مانگی گئی۔

وزیر موصوف نے اس بات پر زور دیا کہ لیبر اصلاحات کا مقصد لیبر قوانین کو کام کی جگہ کے سلسلے میں  دنیا میں آنے والی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنا ہے اور ایک  موثر اور شفاف نظام فراہم کرنا ہے جس میں کارکنوں اور صنعتوں کی ضرورتوں میں توازن  رہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ 73 سال کی آزادی کے اس سفر میں ماحول، ٹیکنالوجیکل طریقے، کام کے طریقے اور کام کی نوعیت میں آج کے نئے بھارت میں زبردست تبدیلی آئی ہے۔ اس تبدیلی کے ساتھ اگر بھارت لیبر قوانین میں ضروری تبدیلیاں نہیں کرتا تو ہم کارکنوں کی فلاح وبہبود اور صنعتوں کی ترقی دونوں کاموں میں پیچھے رہ جائیں گے۔

انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلاح وبہبود اور آتم نربھر شرمک کے حقوق کا ڈھانچہ چار ستونوں پر قائم ہے۔ پہلے ستون کے بارے میں جس میں تنخواہوں کے تحفظ کی بات کہی گئی ہے وزیر موصوف نے کہا کہ آزادی کے 73 سال بعد بھی اور 44 لیبر قوانین کے بعد بھی بھارت کے 50 کروڑ  کارکنوں کے تقریباً صرف 30 فیصد  کو کم ا ز کم اجرت کا قانونی حق حاصل ہے۔ اور تمام کارکنوں کو اجرت وقت پر ادا نہیں کی جاتی۔ جناب گنگوار نے کہا ‘‘پہلی مرتبہ ہماری حکومت نے اس خامی صحیح کرنے کے لیے کام کیا ہے اور سب کے سب پچاس کروڑ منظم اور غیر منظم سیکٹر کے کارکنوں کو یہ قانونی حق دیا ہے کہ انہیں کم از کم اجرت ملے اور اجرت کی وقت پر ادائیگی ہو’’۔

جناب گنگوار نے کہا کہ ہمارے کارکنوں کی حفاظت کا دوسرا اہم ستون انھیں کام کا محفوظ ماحول فراہم کرنا ہے تاکہ ان کی صحت کا تحفظ ہوسکے اور وہ ایک خوشگوار زندگی گزار سکیں۔ انھوں نے کہا کہ اس کے لیے پہلی مرتبہ او ایس ایچ کوڈ میں ایک خاص عمر کے بعد کارکنوں کے لیے صحت کے سالانہ چیک اپ کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔کارکنوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے کارکنوں اور مالکان کو مل کرطے کرنا ہے۔ اور  اس کے لیے  تمام اداروں میں ایک سیفٹی کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔

یہ بتاتے ہوئے کہ خواتین کو بھی وہی کام کرنے کی آزادی ہے جو مرد کرتے ہیں۔ جناب گنگوار نے کہا کہ پہلی مرتبہ یہ ضابطہ بنایا گیا ہے کہ کسی بھی طرح کے ادارے میں رات کے وقت خواتین اپنی مرضی سے کام کرسکتی ہیں۔ البتہ انھوں نے کہا کہ ‘‘مالکان کو تمام ضروری سکیورٹی انتظامات کرنے ہوں گے جن کا فیصلہ  متعلقہ حکومت کرے گی’’۔

انھوں نے بتایا کہ کارکنوں کے لیے تیسرا اہم ستون جامع سماجی سکیورٹی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ایس ایس آئی سی اور ای پی ایف او کا سلسلہ سماجی سکیورٹی کوڈ میں بڑھا دیا گیا ہے۔ ای ایس آئی سی میں توسیع کے لیے ایک ضابطہ یہ شامل کیا گیا ہے کہ اب اس کا اطلاق  ملک کے تمام  740 اضلاع میں ہوگا۔ اس کے علاوہ ای ایس آئی سی  کا متبادل چاہے باغات میں کام کرنے والوں، غیر منظم سیکٹر کے کارکنوں، جی آئی جی اور پلیٹ فارم کارکنوں نیز ان اداروں پر بھی ہوگا جن میں 10 سے کم کارکن کام کرتے ہیں۔

چوتھے ستون کے بارے میں بات کرتے ہوئے جناب گنگوار نے کہا کہ ہم نے آئی آر کوڈ کو مؤثر اور آسان بنا دیا ہے  تاکہ صنعتی  یونٹوں میں امن اور ہم آہنگی قائم رہے۔ جناب گنوار نے اس بات پر زور دیا کہ آئی آر کوڈ میں ہڑتال کے ضابطوں سے کسی کارکن کے لیے ہڑتال پر جانے کے حق کو واپس نہیں لیا گیا ہے۔ہڑتال پر جانے سے پہلے 14 دن کا نوٹس دینے کو لازمی بنا دیا گیا ہے تاکہ اس مدت کے دوران تنازع کو باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہڑتال سے نہ تو کارکنوں کو فائدہ ہوتا ہے اور نہ ہی صنعت کو۔

جناب گنوار نے کہا کہ ٹریڈ یونینیں اداروں میں کارکنوں کو ان کا حق دلانے میں ایک اہم رول ادا کرتی ہیں۔ اس رول کو تسلیم کرتے ہوئے قانون میں پہلی مرتبہ ٹریڈ یونینوں کو ادارہ جاتی سطح پر، ریاستی سطح پر اور مرکزی سطح پر منظور کیا گیا ہے۔

کووڈ-19 کے پس منظر میں مائیگرینٹ کارکنوں کے حقوق کو مستحکم بنانے کے سلسلے میں خصوصی ضابطوں کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ مائیگرینٹ کارکنوں کی تشریح میں توسیع کردی گئی ہے۔ اب تمام ایسے کارکن جو ایک ریاست سے دوسری ریاست میں جاتے ہیں اور جن کی تنخواہ 18 ہزار روپئے سے کم ہے وہ مائیگرینٹ کارکن کی تشریح کے تحت آئیں گے اور انھیں حکومت کی تمام فلاحی اسکیموں سے فائدہ پہنچے گا۔اس کے علاوہ ایک ضابطہ یہ بھی ہے کہ مائیگرینٹ کارکنوں کا ایک ڈاٹا بیس تیار کیا جائے خاص طور پر ان کی فلاحی اسکیموں کے سلسلے میں ایک علاحدہ ہیلپ لائن کا انتظام کیا جائے اور مالکان  سال میں ایک مرتبہ  اپنے کارکنوں کو ان کے وطن جانے کے لیے سفری الاؤنس فراہم کریں۔

جناب گنگوار نے بتایا کہ مختلف لیبر قوانین کے تحت صنعتیں قائم کرنے کے لیے مختلف رجسٹریشن کرانے اور کئی لائسنس حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ ‘‘جہاں تک ممکن ہوگا ہم رجسٹریشن اور لائسنس وغیرہ مقررہ وقت کے اندر اور آن لائن طریقے سے فراہم کرنے کا انتظام کریں گے’’۔

جناب گنگوار نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات ختم کی کہ ان چار لیبر کوڈز کے ذریعے ہم ایک طرف تو کارکنوں کی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کی کوشش کر  رہے ہیں اور دوسری طرف ایک آسان نظام کے ذریعے نئی صنعتوں کو ترقی دی جارہی ہے۔ جس سے ہمارے کارکنوں کے لیے کام مہیا ہوگا۔ نئے مواقع پیدا کیےجانے چاہئیں۔ جناب گنگوار نے زور دے کر کہا کہ ‘‘نئے لیبر کوڈز بنائ جانے سے سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کے ہمارے وزیر اعظم کے وژن کو بڑا فروغ حاصل ہوگا اور بھارت ترقی یافتہ ملکوں کی اگلی  صف کی طرف پیش قدمی کرے گا’’۔

****************

م ن۔ اج ۔ ر ا

U:5771


(Release ID: 1658502) Visitor Counter : 329