سائنس اور ٹیکنالوجی کی وزارت

بھارتی محققین نے کورونا وائرس جرثومے کی جینیاتی ترتیب اور تجزیئے پر تحقیق شروع کی

Posted On: 08 APR 2020 11:23AM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،8؍اپریل، اپنے طرح کے نئے  وبائی مرض کورونا وائرس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک نئی نوعیت کا وائرس ہے اور اب محققین یہ پتہ لگانے کے لئے کوشاں ہیں یہ اس جرثومے یا وائرس کے مختلف پہلو کیا کیا ہیں۔ مرکز کے دو اداروں یعنی سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ کے مرکز ( سی ایس آئی آر) اور  سلیولر اینڈ مولیکیولر بائیولوجی (سی سی ایم بی)  مرکز  واقع حیدر آباد  نیز  نئی دہلی میں واقع  انسٹی ٹیوٹ آف جینومکس اینڈ انٹیگریٹو بائیولوجی (آئی جی آئی بی)  نے باہم مل کر نوول کورونا وائرس کی جینوم ترتیب یا جینیاتی تجزیئے پر کام شروع کردیا ہے۔

سی سی ایم بی کے ڈائریکٹر  ڈاکٹر راکیش مشرا نے انڈیا سائنس وائر ڈی ایس ٹی کی سینئر سائنس داں جیوتی شرما سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ اس کی مدد سے ہم  یہ سمجھنے میں کامیاب ہوسکیں گے کہ یہ وائرس کیسے نشو نما پاتا ہے، اس کی رفتار کیا ہے اور یہ کتنی تیزی سے خود کو آگے بڑھا سکتا ہے۔ مذکورہ مطالع سے ہم یہ جان سکیں گے کہ اس کی نشو نما کی رفتار کیا ہے اور اس کے مستقبل کے کیا کیا پہلو ہوسکتے ہیں۔

 واضح رہے کہ جینیات کی  ترتیب یا  مکمل جینیاتی تجزیئے کا عمل، وہ طریقہ کار ہے جس کا استعمال ایک مخصوص  حیاتیاتی جین کی  مکمل ڈی این اے ترتیب کے تعین کے لئے کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں جو  کورونا  وائرس  زیر غور ہے، اس کے تجزیئے کی ترتیب سمجھنے کے لئے ضروری ہوگا کہ ان مریضوں کے نمونے حاصل کئے جائیں جو اس جرثومے کے حامل پائے جائیں اور ان نمونوں کو ترتیب کا تجزیہ کرنے والے مراکز کر ارسال کیا جائے۔ واضح رہے کہ جینوم کی ترتیب کا تعین کرنے کے لئے مطالعے کی غرض سے بڑی تعداد میں نمونے درکار ہوتے ہیں۔ اگر آپ بڑے  پیمانے پر اعداد وشمار کا استعمال نہیں کرتے تو آپ جو نتیجہ اخذ کریں گے، ضروری نہیں کہ وہ صحیح بھی ہو۔ فی الحال ہم زیادہ سے زیادہ نمونے تجزیئے کی غرض سے جمع کررہے  ہیں اور جب یہ نمونے ایک مرتبہ جمع ہوجائیں گے تب ہمارے پاس  کئی سو نمونے ہوں گے، جن کی بنیاد پر ہم مختلف حیاتیاتی پہلوؤں سے وائرس کے بارے میں مطالب اخذ کرسکیں گے۔

 ہر ایک ادارے کے تین سے چار افراد لگا تار مکمل جینیاتی ترتیب تجزیئے کے پہلو پر کام کررہے ہیں۔ آئندہ تین چار ہفتوں میں محققین 200 سے 300  تک کی تعداد میں الگ تھلگ کئے گئے افراد کے نمونے حاصل کرسکیں گے اور یہی اطلاعات  اس وائرس کے برتاؤ کے بارے میں انہیں کسی نتیجے پر پہنچنے میں مدد دیں گے۔ اس مقصد کے لئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف وائیرولوجی (این آئی بی)  واقع پونے سے بھی گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنی جانب سے مختلف مقامات سے الگ تھلگ کئے گئے لوگوں کے نمونے فراہم کرائے ، اس سے سائنس داں حضرات کو وسیع اور واضح تصویر سمجھنے اور نتائج اخذ کرنے میں مدد ملے گی۔ اس کی روشنی میں ادارے اس وائرس کا شجرہ ترتیب دے سکیں گے۔ ڈاکٹر مشرا نے بتایا کہ  انہیں بنیادوں پر سائنس داں حضرات اس امر کا تعین کرسکیں گے کہ یہ وائرس کہاں سے آیا ہے اور اس کی مماثلت کہاں کہاں زیادہ پائی جاتی ہے، مختلف النوع نمونے اور وہ عوامل جو اسے کمزور کرتے ہیں، ان کا تعین کیا جاسکے گا ، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی جانا جاسکے گاکہ اس وائرس کے کون سے پہلو زیادہ مضبوط ہیں، اس کی روشنی میں اس وائرس کو سمجھنے کے کچھ کلیدی  اصول ہاتھ آسکیں گے اور  مریضوں کو الگ تھلگ کرنے کے کام کو  زیادہ بہتر طریقے پر کیا جاسکے گا۔

اس کے علاوہ ادارے نے اپنی جانچ پڑتال کی صلاحیت میں بھی اضافہ کیا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگوں کو جانچ کے عمل سے گز ارا جارہا ہے اور  اس کی ماس سکریننگ بھی کی جارہی ہے۔ اس کی مدد سے مثبت معاملات کی شناخت کرنے میں آسانی ہوگی اور متاثرہ افراد کو قرنطائن میں بھیجا جاسکے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۰۰۰۰۰۰۰۰

(م ن-- ق ر)

U-1540



(Release ID: 1612248) Visitor Counter : 223