وزیراعظم کا دفتر
صدر جمہوریہ کے خطاب پر راجیہ سبھا میں وزیراعظم کی تحریک تشکر کا متن
Posted On:
06 FEB 2020 8:00PM by PIB Delhi
معزز چیئرمین ، محترم صدر جمہوریہ کے مشترکہ اجلاس کو جو سبق حاصل ہوا ہے، ان کا جو خطاب ہے، وہ 130 کروڑ ہندوستانیوں کی خواہشات اور توقعات کو رفلیکٹ کرتا ہے۔ میں اس ایوان میں معزز صدر جمہوریہ کے خطاب پر حمایت کے لئے آپ کے درمیان حاضر ہوں۔
45 سے زیادہ معزز اراکین نے اس خطاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ یہ سینئرز کا ہاؤس ہے، تجربہ کار عظیم شخصیات کا ہاؤس ہے۔ بحث و مباحثے کو جامع کرنے کی ہر کسی کوشش رہی ہے۔ جناب غلام نبی جی، جناب نند شرما، بھوپندر یادو جی، سدھاشوترویدی جی، سدھاکر شیکھر جی، رام چندر پرساد جی، رام گوپال جی، ستیش چندر مشرا جی، سنجے راوت جی، سوپنداس جی، پرسنا آچاریہ، اے۔ نونیت جی، ایسے تمام معزز اراکین نے اپنے خیالات پیش کیے۔
جب میں آپ کی تمام تقریروں کے بارےمیں معلومات حاصل رہا تھا،تو کئی نئی باتیں ابھر کرسامنے آئیں۔ یہ ایوان اس بات پر فخر کر سکتا ہے کہ ایک طرح سے پچھلا اجلاس بہت ہی پروڈکٹیو رہا اور تمام معزز اراکین کے تعاون کی وجہ سے یہ ممکن ہوا۔ اس کے لئے ایوان کے تمام معزز اراکین مبارکباد کے مستحق ہیں۔
لیکن یہ تجربہ کار اور سینئر معززین کا ہاؤس ہے، اس لئے فطری بات ہے کہ ملک کو ان سے بہت ساری توقعات وابستہ تھیں، ٹریژری بینچ پر بیٹھے ہوئے لوگوں کی بہت سی توقعات تھیں اور مجھے خودبھی ان سے کافی توقعات تھیں کہ آپ کوشش سے بہت اچھی باتیں ملک کے کام کے لئے ملیں گی، اچھی رہنمائی مجھ جیسے نئے لوگوں کو حاصل ہوگی۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ جو نئی دہائی میں میری جو توقعات تھیں، اس میں مجھے مایوسی ملی ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ آپ جہاں ٹھہر گئے ہیں وہاں سے آگے بڑھنے کا نام ہی نہیں لیتے، وہیں رکے ہوئے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو لگتا ہے کہ پیچھے جارہے ہیں۔ اچھا ہوتا بدحواسی م اورمایوسی کا ماحول برقرار رہے بغیر، نئی امنگ، نئے خیال، نئی توانائی، کے ساتھ آپ سب سے ملک کو راہ ملتی، حکومت کو رہنمائی حاصل ہوتی۔ لیکن شاید ٹھہراؤ کو ہی آپ نے اپنا ورچو (قسمت) بنا لیا ہے۔ اور اس میں مجھے کاکا ہاتھرسی کا ایک مزاحیہ شعر یاد آتا ہے۔
بڑے اچھے ڈھنگ سے انہوں نے کہا تھا
پرکرتی بدلی چھن چھن دیکھو،
بدل رہے انو ، کن کن دیکھو
تم نکشریئے سے پڑے ہوئے ہو
بھاگیہ واد پر اڑے ہوئے ہو
چھوڑو متر پرانی ڈفلی
جیون میں پریورتن لاؤ
پرمپرا سے اونچے اٹھ کر
کچھ تو اسٹینڈرڈ بناؤ
معزز چیئرمین جی!
بحث کا آغاز کرتے ہوئے جب غلام نبی جی بات بتا رہے تھے، کچھ غصہ بھی تھا، حکومت کی کئی باتوں سے تنقید کی کوشش بھی کی جارہی تھی، لیکن وہ بہت حقیقی موضوع ہے۔ لیکن جب انہوں نے کچھ باتیں ایسی کہیں جو بےمیل تھیں۔ اب جیسے انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر کا فیصلہ ایوان میں بغیر بحث کے ہوا۔ ملک نے ٹی وی پر پورے دن بھر بحث دیکھی ہے، سنی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ 2 بجے تک کچھ لوگ وین میں تھے لیکن باہر سے جب خبریں آنے لگیں تو سب سمجھ گئے کہ بھئی اب ذرا واپس جانا ہی بہتر ہے۔ ملک نے دیکھا ہے، وسیع بحث ہوئی ہے، تفصیل سے بحث ہوئی ہے اور تفصیل سے بحث ہونے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے اور ایوان نے فیصلہ کیا ہے۔ معزز اراکین نے اپنے ووٹ دے کر فیصلہ کیا ہے۔
لیکن جب یہ بات ہم سناتے ہیں تو یہ بھی یاد رکھیں، اور آزاد صاحب میں آپ کی ياداشت کو ذرا تازہ کرانا چاہتا ہوں۔ پرانے کارنامے اتنا جلدی لوگ بھولتے نہیں ہیں۔ جب تلنگانہ بنا تو اس وقت اس ایوان کا حال کیا تھا۔ دروازے بند کر دیے گئے تھے، ٹی وی کا ٹیلی كاسٹ بند کر دیا گیا تھا۔ بحث کی تو کوئی جگہ ہی نہیں بچی تھی اور جس حالت میں وہ منظور کیا گیا تھا وہ کوئی بھول نہیں سکتا ہے۔ اس لئے ہمیں آپ نصیحت دیں، آپ سینئر ہیں، لیکن پھر بھی سچائی کو بھی قبول کرنا ہوگا۔
دہائیوں کے بعد آپ کو ایک نئی ریاست بنانے کا موقع ملا تھا۔ امنگ، جوش کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر کے آپ یہ کام کر سکتے تھے۔ لیکن آنند جی کہہ رہے تھے کہ ریاستوں کو پوچھا، فلانے سے پوچھا، ڈھكانے سےپوچھا، بہت کچھ کہہ رہے تھے۔ ارے کم سے کم آندھرا-تلنگانہ والوں کو تو پوچھ لیتے کہ ان کی کیا خواہش تھی۔ لیکن آپ نے جو کیا وہ تاریخ ہے اور اس وقت، اس وقت کے وزیر اعظم محترم منموہن سنگھ جی نے لوک سبھا میں ایک بات کہی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کو ہمیں آج یاد کرنا چاہئے۔
انہوں نے کہا تھا‘‘ ڈیموکریسی ان انڈیا از بینگ ہارم ایز ریزلٹ آف دی آن گوئنگ پروٹیسٹ اوور دی تلنگانہ ایشو’’اٹل جی کی سرکار نے اتراکھنڈ بنایا، جھارکھنڈ بنایا، چھتیس گڑھ بنایا، پورے احترام کے ساتھ، امن وآشتی کے ساتھ، ہم آہنگی کے ساتھ۔ اور آج یہ تینو نئی ریاستیں اپنے اپنے طریقے سے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ جموں و کشمیر اور لداخ کے تعلق سے جو بھی فیصلے لئے گئے، اس پر پوری بحث ہوی اور طویل بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیاہے۔
یہاں پر جموں کشمیر کی صورت حال پر کچھ اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں ۔ کچھ اعداد و شمار میرے پاس بھی ہیں۔ مجھے بھی لگتا ہے کہ اس ایوان کے سامنے مجھے بھی وہ تفصیل بتادینی چاہیے۔
20 جون، 2018- وہاں کی حکومت جانے کے بعد نیا نظام بنا۔ گورنر رول لگا تھا، اس کے بعد صدر راج آیا اور 370 ہٹانے کا بھی فیصلہ ہوا۔ اور اس کے بعد میں کہنا چاہوں گا پہلی بار وہاں کے غریب عام طبقے کو ریزرویشن کا فائدہ ملا۔
جموں و کشمیر میں پہلی بار پہاڑی بولنے والے لوگوں کو ریزرویشن کا فائدہ ملا۔
جموں و کشمیر میں پہلی بار خواتین کو یہ حق ملا کہ وہ اگر ریاست کے باہر شادی کرتی ہیں تو ان کی جائیداد چھینی نہیں جائے گی۔
پہلی بار آزادی کے بعد وہاں بلاک ڈیولپمنٹ کونسل کے الیکشن ہوئے۔
پہلی بار جموں و کشمیر میں ریرا کا قانون نافذ ہوا۔
پہلی بار جموں و کشمیر میں اسٹارٹ اپ پالیسی ،ٹریڈ اینڈ ایکسپورٹ پالیسی، لاجسٹک پالیسی بنی بھی اور لاگو بھی ہو گئی۔
پہلی بار، اور یہ تو ملک کو حیرت ہوگی کہ پہلی بار جموں و کشمیر میں اینٹی کرپشن بیورو کا قیام عمل میں آیا۔
پہلی بار جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں کو سرحد پار سے ہو رہی فنڈنگ کوکنٹرول کیا۔
پہلی بار جموں و کشمیر میں علیحدگی پسندوں کے مان منول کی روایت ختم ہو گئی۔
پہلی بار جموں و کشمیر میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف وہاں جموں و کشمیر پولیس اور سیکورٹی فورس مل کر فیصلہ کن کارروائی کر رہے ہیں۔
پہلی بار جموں و کشمیر کے پولیس اہلکاروں کو ان مراعات کا فائدہ ملا ہے جو دیگر مرکزی ملازمین کو دہائیوں سے ملتی رہی ہیں۔
پہلی بار اب جموں و کشمیر کے پولیس اہلکار ایل ٹی سی لے کر کنیا کماری، نارتھ ایسٹ یا انڈومان نکورگھومنے جا سکتے ہیں۔
محترم چیئرمین جی، گورنر رول کے بعد 18 ماہ میں وہاں 4400 سے زائد سرپنچوں اور 35 ہزار سے زیادہ پنچوں کے لئے پرامن انتخابا ت ہوئے۔
18 مہینوں میں جموں و کشمیر میں 2.5 لاکھ بیت الخلاء تعمیر ہوئے،
18 مہینوں میں جموں و کشمیر میں 3 لاکھ 30 ہزار گھروں میں بجلی کا کنکشن دیا گیا۔
18 مہینوں میں جموں و کشمیر میں 3.5 لاکھ سے زیادہ لوگوں کو ايوشمان اسکیم کے گولڈ کارڈ دیے جا چکے ہیں۔
صرف 18 مہینوں میں جموں و کشمیر میں وہاں ڈیڑھ لاکھ معمر افراد، خواتین اور دويانگوں کو پنشن کی اسکیم میں شامل کیاگیا ہے۔
آزاد صاحب نے یہ بھی کہا کہ ترقی تو پہلے بھی ہوتی تھی۔ ہم نے کبھی ایسا نہیں کہا۔ لیکن ترقی کس طرح ہوتی تھی، میں اس کی ضرور ایک مثال دینا چاہوں گا۔
پی ایم آواس یوجنا کے تحت مارچ 2018 تک صرف3.5 ہزار مکان بنے تھے۔ پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت ساڑھے تین ہزار۔ 2 سال سے بھی کم وقت میں اسی اسکیم کے تحت 24 ہزار سے زیادہ مکان تعمیر کئے گئے ہیں۔
ابھی کنکٹی وٹی کو بہتر بنانے، اسکولوں کی حالت بہتر بنانے، اسپتالوں کی جدید کاری، آبپاشی کی حالت کو بہتر بنانے ، سیاحت کے فروغ کے لئے پی ایم پیکج سمیت دیگر متعدد اسکیموں کو تیزی سے آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
محترم وائیکو جی، ان کا ایک اسٹائل ہے، وہ ہمیشہ ایموشنل رہتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 5 اگست 2019 جموں و کشمیر کے لئے سیاہ دن ہے۔ وائیکو جی، یہ بلیک ڈے نہیں ہے، یہ دہشت گردی اور علیحدگی پسندوں کو فروغ دینے والوں کے لئے بلیک ڈے ثابت ہو چکا ہے۔ وہاں کے لاکھوں خاندانوں کے لئے ایک نیا اعتماد، ایک نئی امید کی کرن آج نظر آ رہی ہے۔
محترم چیئرمین جی، یہاں پر نارتھ ایسٹ کی بھی بحث ہوئی ہے۔ آزاد صاحب کہہ رہے ہیں کہ نارتھ ایسٹ جل رہا ہے۔ اگر جلتاہوتا تو سب سے پہلے آپ نے اپنے ایم پیوں کا وفد وہاں بھیجا ہی ہوتا اور پریس کانفرنس تو ضرور کی ہوتی، تصویر بھی نکلوائی ہوتی۔ اور اس وجہ سے مجھے لگتا ہے کہ آزاد صاحب کی معلومات 2014 کے پہلے کی ہیں۔ اور اس لئے میں اپ ڈیٹ کرنا چاہوں گا کہ نارتھ ایسٹ بے مثال امن کے ساتھ آج بھارت کی ترقی کے سفر کا ایک پہلا پارٹنر بنا ہے۔ 40-40، 50-50 سال سے نارتھ ایسٹ میں جو پرتشدد تحریکیں چلتی تھیں، بلاکیڈ چلتے تھے اور ہر کوئی جانتا ہے کہ کتنی بڑی تشویش کی بات تھی۔ لیکن آج یہ تحریک ختم ہوچکی ہے، بلاکیڈ بند ہوئے ہیں اور امن کی راہ پر پورا نارتھ ایسٹ آگے بڑھ رہا ہے۔
میں ایک بات کا ذکرضرور کرنا چاہوں گا۔تقریباً 30-25 سال سے برو قبیلے کے مسائل سے آپ بھی واقف ہیں، ہم بھی واقف ہیں۔ تقریباً 30 ہزار لوگ بے یقینی کی زندگی گزار رہے تھے۔ اتنے چھوٹے سے کمرے میں، وہ بھی ایک چھوٹا سا ہٹ بنایا ہوا ٹیمپریری۔ جس میں 100-100 لوگوں کو رہنے کے لئے مجبور ہونا پڑا۔ تین تین دہائی سے ایسا ہی چل رہا تھا، اذیتیں کم نہیں ہیں۔ اور گناہ کچھ نہیں تھا ان کا۔ اب مزہ دیکھئے، نارتھ ایسٹ میں اکثر و بیشتر آپ ہی پارٹی کی حکومتیں تھیں۔ ابھی تریپورہ میں آپ کی ساتھی پارٹی کی حکومت تھی، آپ کے دوست تھے، عزیز دوست۔ آپ نے چاہا ہوتا تو میزورم حکومت آپ کے پاس تھی، تریپورہ میں آپ کے دوست بیٹھے تھے، مرکز میں آپ بیٹھے تھے۔ اگر آپ چاہتے تو برو قبیلے کے مسئلہ کا خوشگوار حل نکال سکتے تھے۔ لیکن آج، اتنے سالوں کے بعد اس مسئلہ کو حل کرنے اور مستقل حل کرنے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں۔
میں کبھی سوچتا ہوں کہ اتنا بڑا مسئلےپر اتنی بے حسی کیوں تھی؟ لیکن اب مجھے سمجھ میں آنے لگا ہے کہ بے حسی کی وجہ یہ تھی کہ برو قبیلے کے جو لوگ اپنے گھر سے، گاؤں سے بچھڑ گئے تھے، ان کو برباد کر دیا گیا تھا، ان کا درد تو لامحدود تھا، لیکن ووٹ بہت محدود تھا۔ اور یہ ووٹ کا ہی کھیل تھا جس کی وجہ سے ان کے لا محدود درد کو ہم کبھی محسوس نہیں کر پائے اور ان کومسئلہ ہم حل نہیں کر پائے۔ یہ ہماری پرانی تاریخ ہے، ہم نہ بھولیں۔
ہماری سوچ مختلف ہے، ہم سب کا ساتھ سب کو وکاس۔سب کا وشواس ،اس منتر کے ساتھ پوری ذمہ داری اور سنجیدگی کے ساتھ، جو بھی ہم سے بن سکے، ہم مسائل کو حل کرنے میں مصروف ہیں۔ اور ہم ان کی تکلیف کو سمجھتے ہیں۔ آج ملک بڑا فخر کر سکتا ہے کہ 29 ہزار لوگوں کو اپنا گھر ملے گا، اپنی ایک شناخت بنے گی، اپنی ایک جگہ ملے گی۔ وہ اپنے خواب بن پائیں گے، اپنے بچوں کے مستقبل کا وہ فیصلہ کر پائیں گے۔ اور اس وجہ سے برو قبیلے کے تئیں، اور یہ پورے نارتھ ایسٹ کے مسائل کے حل کے راستے ہیں۔
میں بوڈو کے سلسلے میں تفصیل سے کہنا نہیں چاہتا، لیکن وہ بھی اپنے آپ میں ایک بہت بہت اہم کام ہوا ہے۔ اور اس کی خاص بات ہے کہ سبھی مسلح گروپ، سبھی تشدد کے راستے پر گئے ہوئے گروپ، ایک ساتھ آئے۔ اور سب نے معاہدہ میں لکھا ہے کہ اس کے بعد بوڈو تحریک کے تمام مطالبات ختم ہوگئے ہیں، کوئی باقی نہیں ہے، یہ معاہدہ میں لکھا ہے۔
جناب سكھیندو شیکھر جی سمیت کئی ساتھیوں نے یہاں اقتصادی موضوعات پر بحث کی ہے۔ جب آل پارٹی میٹنگ ہوئی تھی تب بھی میں نے سب سے اپیل کی تھی کہ یہ سیشن پورا کا پورا ہمیں اقتصادی موضوعات پر بحث کے لئے وقف کردینا چاہئے۔ شدید بحث ہونی چاہئے۔ تمام پہلو واضح طور پر سامنے آنے چاہئیں۔ اور جو بھی ٹیلنٹ ہم لوگوں کے قریب ہے، یہاں ہو، وہاں ہو، کوئی الگ بات ہے۔ لیکن ہم مل کر ایسی نئی چیزیں بتائیں، ایسی نئی چیزیں تلاش کریں، نئے راستے ڈیولپ کریں اور آج جو عالمی اقتصادی صورت حال ہے، اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ بھارت کیسے اٹھا سکتا ہے، بھارت اپنی جڑیں کس طرح مضبوط کر سکتا ہے، بھارت کس طرح اپنے اقتصادی مفادات میں توسیع کر سکتا ہے، اس پر ہم سنجیدگی سے غور و خوض کریں، یہ میں نے آل پارٹی میٹنگ میں سب کے سامنے ركویسٹ کی تھی۔ اور میں چاہوں گا اس سیشن کو پوری طرح سے ملک کے اقتصادی موضوعات کے لئے وقف کرنا چاہئے۔
بجٹ پر بحث ہونی ہے۔ اس پر مزید تفصیل سے ہم گفتگو کریں گے اور اس سے امرت ہی نکلے گا۔ کچھ چھینٹا کشی ہو جائے گی، تو تو-میں میں ہو جائے گی، کچھ الزام تراشیاں ہو جائیں گی، پھر بھی میں سمجھتا ہوں اس غور و خوض سے امرت ہی نکلے گا اور اس بات کی میں سب کو دوبارہ دعوت دیتا ہوں کہ معیشت پر، اقتصادی صورتحال پر، اقتصادی پالیسیوں پر، اقتصادی حالات پر اور ڈاکٹر منموہن جی جیسی تجربہ کار شخصیت ہمارے درمیان میں ہے، اس کا ضرور ملک کو فائدہ ملے گا۔ اور ہمیں کرنا چاہئے، ہمارا دماغ اس معاملے میں کھلا ہوا ہے۔
لیکن یہاں جو معیشت کے سلسلے میں بحث ہوئی ہے،اس سے ملک کو مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اور مایوسی پھیلا کر کچھ پانے والے بھی نہیں ہیں۔ آج بھی ملک کے معیشت کے جو بنیادی اصول ہیں، پیمانے ہیں، ان تمام پیمانوں میں آج بھی ملک کی معیشت مضبوط ہے، مضبوط ہے اور آگے جانے کی پوری طاقت رکھتی ہے۔ انہرینٹ یہ کوالٹی اس کے اندر ہے۔
اور کوئی بھی ملک چھوٹی سوچ سے آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ اب ملک کی نوجوان نسل ہم سے یہ امید رکھتی ہے کہ ہم بڑا سوچیں، دور کا سوچیں، زیادہ سوچیں اور زیادہ طاقت سے آگے بڑھیں۔ اسی بنیادی منتر کے ساتھ 5 ٹریلین ڈالر کی اکنامی کے لئے ہم ملک کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے، شامل کرنے کی کوشش کریں گے۔ مایوس کرنے والی کوئی بات نہیں ہے۔ پہلے ہی دن ہم کہہ دیں، نہیں نہیں یہ تو ممکن ہی نہیں ہے۔ ارے بھئی جو ممکن نہیں ہے تو پھر کیا ممکن ہے وہی کرنا ہے کیا۔ ہر بار ہم نے اتنا ہی کرنا ہے، کوئی دو قدم چلتا ہے وہیں چلنا چاہئے کیا۔ ارے کبھی تو پانچ قدم کے لئے ہمت کریں، کبھی تو سات قدم کے لئے ہمت کریں، کبھی تو میرے ساتھ آئیے۔
یہ مایوسی ملک کا بھلا کبھی نہیں کرتی، اور اس وجہ سے 5 ٹریلین ڈالر کی اکنامی کی بات کرنے کا خوشگوار نتیجہ یہ ہوا ہے کہ جو مخالفت کرتے ہیں، انہیں بھی 5 ٹریلین ڈالر کی بات کرنی پڑتی ہے۔ ہر کسی کو بنیاد 5 ٹریلین ڈالر اکنامی بنانا پڑ رہا ہے۔ یہ تو بہت بڑی تبدیلی ہے۔ ورنہ ہم ایسے ہی معاملے میں کھیلتے رہتے تھے۔ اب دنیا کے سامنے کھیلنے کا ایک کینوس تو کھڑا کر دیا ہے۔ ذہنیت تو بدلی ہے ہم نے۔اور اس خواب کو پورا کرنے کے لئے گاؤں اور شہر میں انفراسٹرکچر ہو، ایم ایس ایم ای ہو، ٹیکسٹائل کا شعبہ ہو، جہاں روزگار کا امکانات ہیں۔
ہم نے ٹیکنالوجی کا فروغ ہو، اسٹارٹ اپ کو بڑھاو املے۔ ٹورازم ایک بہت بڑا موقع ہے۔ ہمیں جتنا گزشتہ 70 سال میں ٹورازم کو، بھارت کو جس طرح سے برانڈڈ کرنا چاہئے تھا، کسی نہ کسی وجہ سے ہم وہ مس کر گئے ہیں۔ آج بھی موقع ہے اور آج بھارت کو ہندوستان کی نظر سے سیاحت کو ڈیولپ کرنا چاہئے، مغربی نظر سے بھارت کے سیاحت کو ہم ڈیولپ نہیں کر سکتے۔ دنیا بھارت کو دیکھنے آنی چاہئے۔ ورنہ اس کو ہنسی کھلی کی دنیا دیکھنی ہے تو دنیا میں بہت دکھاتے ہیں، وہ وہاں چلے جاتے ہیں۔
میک ان انڈیا پر ہم نے زور دیا ہے، اس کی کامیابی نظر آ رہی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے اعداد و شمار آپ کو دیکھ ہوں گے۔
ٹیکس اسٹرکچر کے تعلق سے سارے پروسیس کو آسان بنانے کے لئے ہم نے مسلسل کوششیں کی ہیں۔ اور دنیا میں بھی ایز آف ڈوئنگ بزنس رینکنگ کی بات ہو یا بھارت میں ایز آف لیونگ کا موضوع ہو، ہم نے ایک ساتھ دونوں کو ۔ ۔ ۔ بینکنگ سیکٹر میں مجھے برابر یاد ہے جب میں گجرات میں تھا تو بہت سے بڑے دانشور جو ایک آرٹیکل لکھتے تھے، وہ کہتے تھے ہمارے ملک میں بینکوں کا مرجر ہونا چاہئے۔ اور اگر یہ ہو جائے تو بہت بڑا ریفارم تصور کیا جائے گا ۔ ایسا ہم نے کئی بار پڑھا ہے۔ یہ حکومت ہے جس نے بہت سے بینکوں کا مرکردیا، آسانی سے کر دیا۔ اور آج طاقت ور بینکوں کا سیکٹر تیار ہو گیا ہےجو آنے والے دنوں میں ملک کی فنانشیل ریڑھ کو مضبوطی دے گا، رفتار دے گا۔
آج مینوفیکچرنگ کے سیکٹر میں ایک نیا نقطہ نظر بھی دیکھنا ہوگا کہ جو بینکوں میں پیسے پھنسے، کیا وجہ تھی۔ میں نے پچھلی حکومت کے وقت پر تفصیل سے کہا تھا اور میں بار بار کسی کو بھی نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کرتا ہوں۔ ملک کے سامنے جو سچ رکھنا چاہئے، رکھ کرکے میں آگے بڑھنے میں ہی اپنا ذہن لگاتا ہوں۔ ایسی چیزوں میں اپنا وقت بیکار میں گواتا نہیں ہوں، ورنہ کہنے کے لئے بہت کچھ ہے۔
ایک موضوع ایسا بحث آیا کہ جی ایس ٹی میں بار بار تبدیلی آئی۔ اس کو اچھا مانیں یا برا مانیں۔ میں حیران ہوں، بھارت کے فیڈرل اسٹرکچر کی ایک بہت بڑی اچیومنٹ ہے جی ایس ٹی کی تخلیق۔ اب ریاستوں کے جذبات کا اس میں اظہار ہوتا ہے۔ كانگریسی حکومت والی ریاستوں کی جانب سے بھی وہاں یہ بات آتی ہے۔ کیا ہم یہ کہہ کر بند کر دیں کہ نہیں ہم نے جو کیا وہ فائنل، ساری عقل خدا نے ہم کو ہی دی ہے؟ کوئی اصلاح نہیں ہو گی، چلو، ایسا کریں گے کیا؟ ایسا ہمارا خیال نہیں ہے، ہمارا خیال ہے کے وقت کے مطابق جہاں تبدیلیاں ضروری ہیں، وہاں کرنی چاہئیں۔ اتنا بڑا ملک ہے، اتنے بڑے موضوعات ہیں۔ جب ریاستوں کے بجٹ آتے ہیں، تو سیل ٹیکس میں آپ نے دیکھا ہو گا کہ بجٹ مکمل ہوتے ہوتے سیل ٹیکس ہو یا دیگر کوئی ٹیکسز ہوں، کوئی بات آتی ہے اور بعد میں آخر میں ریاست کو ان میں تبدیلی بھی لانی پڑتی ہے۔ اب وہ موضوع ریاستوں سے ہٹ کر ایک ہو گیا ہے تو ذرا زیادہ لگتا ہے۔
دیکھئے، میں سمجھتا ہوں کہ یہاں کہا گیا ہے کہ جی ایس ٹی بہت آسان ہونا چاہئے، ڈِھكنا ہونا چاہیے تھا، فلانا ہونا چاہیے تھا۔ میں ذرا پوچھنا چاہتا ہوں اگر اتنا ہی علم آپ کے پاس تھا، اتنا ہی آسان بنانے کا کلیئر ویژن تھا تو اس کو لٹکائے کیوں رکھا تھا بھائی۔ جی ہاں، یہ بھرم مت پھیلایئے۔
میں بتاتا ہوں، میں سناتا ہوں، آج آپ کو سننا چاہئے۔ پرنب دا جب وزیر خزانہ تھے تب گجرات آئے تھے، ہماری تفصیل سے بات ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دادا یہ ٹکنالوجی پر مبنی نظام ہے۔اس سلسلے میں کیا ہوا ہے۔ اس کے بغیر تو چل ہی نہیں سکتا ہے۔ تو دادا نے کہا، ٹھہرو بھائی، تمہارا سوال: انہوں نے اپنے سیکرٹری کو بلایا۔ اور انہوں نے کہا، دیکھو بھائی، یہ مودی جی کیا کہہ رہے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ دیکھئے بھائی یہ تو ٹکنالوجی پر مبنی نظام ہے تو ٹیکنالوجی کے بغیر آگے بڑھنا نہیں ہے۔ تو انہوں نے کہا، نہیں، ابھی ابھی ہم نے فیصلہ کیا ہے اور ہم کسی کمپنی کو ہائر کریں گے اور ہم کرنے والے ہیں۔ میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جب مجھے جی ایس ٹی کے بارے میں بتانے آئے تھے، تب بھی یہ نظام نہیں تھا۔ دوسری بات، تب میں نے کہی تھی کہ آپ کو جی ایس ٹی کامیاب کرنے کے لئے جب مینوفیکچرنگ اسٹیٹ ہیں ان کی مشکلات پر آپ کو ایڈریس کرنا ہوگا۔ تمل ناڈو ہے، کرناٹک ہے، گجرات ہے، مہاراشٹر ہے۔ بائی ان لارج دے آر مینوفیکچرنگ اسٹیٹس۔ جو صارف ریاست ہے ، جو کنزیومر اسٹیٹ ہیں ان کے لئے اتنی مشکل نہیں ہے۔ اور میں آج بڑے فخر سے کہتا ہوں کہ جب ارون جیٹلی وزیر خزانہ تھے انہوں نے ان باتوں کو ایڈریس کیا، اس کا حل نکالا۔ اس کے بعد جی ایس ٹی میں پورا ملک ساتھ چلا ہے۔
اور اس وجہ سے میں نے وزیر اعلی کے ناطے جو مسئلے اٹھائے تھے ، وزیر اعظم کے ناطے ان مسائل کو حل کیا ہے۔ اور سلجھا کر جی ایس ٹی کا راستہ ہموار کیا ہے۔
اتنا ہی نہیں، اگر ہم تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو کبھی کہتے ہیں کہ بھئی بار بار تبدیلی کیوں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری عظیم شخصیات نے اتنا بڑا عظیم آئین دیا، اس میں بھی انہوں نے بہتری کی گنجائش رکھی ہے۔ ہر نظام میں بہتری کا ہمیشہ خیرمقدم ہونا چاہئے اور ہم ملک کے مفاد میں ہر نئی اور اچھی تجاویز کا خیر مقدم کرنے والے خیالات کو لے کر چلتے ہیں۔
محترم چیئرمین جی، بھارت کی معیشت میں ایک ہی چیز ہے جو اب بھی بہت واضح نہیں ہے ، جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ملک میں یہ جو بڑی تبدیلی آ رہی ہے اس میں ہمارے ٹیئر- 2، ٹیئر- 3 سٹی بہت تیزی سے پرو ایکٹیولی تعاون کر رہے ہیں۔ آپ اسپورٹس میں دیکھئے ٹیئر- 2، ٹیئر- 3 سٹی کے بچے آگے آ رہے ہیں۔ آپ تعلیم میں دیکھئے ٹیئر- 2، ٹیئر- 3 سٹی کے بچے آگے آ رہے ہیں۔ اسٹارٹ اپ دیکھئے، ٹیئر- 2، ٹیئر- 3 سٹی میں سب سے زیادہ اسٹارٹ اپ آگے بڑھ رہے ہیں۔
اور اس لئے ہمارے ملک کا جو خواہشمند نوجوان ہے، جو تام جھام کے بوجھ میں دبا ہوا نہیں ہے، وہ ایک بڑی نئی طاقت کے ساتھ ابھر رہا ہے اور ہم نے ان چھوٹے شہر، چھوٹے قصبے، اس معیشتوں میں کچھ نہ کچھ پیش رفت آئی، اس سمت میں بہت قریب سے کام کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہمارے ملک میں ڈیجیٹل ٹرانجكشن، اسی ایوان میں ڈیجیٹل ٹرانجكشن کے جو تقریر، تقریر کرنے والے بھی اپنی تقریر نکال کر پڑھیں گے تو ان کو حیرت ہوگی کہ میں نے ایسا بولا تھا؟ کچھ لوگوں نے تو موبائل کا مذاق اڑایا تھا۔ ان لوگوں نے ڈیجیٹل بینکنگ، بلنگ کے نظام کے ۔ ۔ ۔ یعنی میں حیران ہو گیا کہ آج چھوٹی چھوٹی جگہوں پر ڈیجیٹل ٹرانجكشن سب سے زیادہ دیکھنے کو مل رہی ہے اور جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی ٹیئر- 2، ٹیئر- 3 سٹی آگے بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے ریلوے، ہمارےہائی وے، ہمارے ہوائی اڈے، اس کی پوری سیریز- اب دیکھئے ہوابازی کی اسکیم، ابھی ابھی پرسوں 250 واں روٹ لانچ ہو گیا،ٹو ہنڈریڈ اینڈ فیفٹی روٹ ویدن انڈیا۔ کتنی تیزی سے ہمارے ہوائی سفر کا نظام بدل رہا ہے۔ اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔
ہم نے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ، ہمارے پاس آپریشنل 65 ایئرپورٹ تھے، آج ہم نے 100 کا ہندسہ پار کر لیا ہے۔ 65 آپریشنل میں سے 100 آپریشنل کر دیئے ہیں۔ اور یہ سارے اس نئے نئے علاقوں کی طاقت کو بڑھانے والے ہیں۔
اسی طرح سے ہم نے گزشتہ پانچ سال میں صرف حکومت ہی نہیں بدلی، ہم نے سوچ بھی بدلی ہے، ہم نے کام کرنے کا طریقہ بھی بدلا ہے۔ ہم نے اپروچ بھی بدلی ہے۔ اب ڈیجیٹل انڈیا کی بات کریں۔ براڈ بینڈ کنکٹی وٹی ، اب براڈ بینڈ کنکٹی وٹی کی بات آئے تو پہلے کام شروع تو ہوا، اسکیم بنی ، لیکن اس کی اسکیم کا طریقہ اور سوچ کی اتنی حد رہی کہ صرف 59 گرام پنچایت تک براڈ بینڈ کنکٹی وٹی پہنچی۔ آج پانچ سال میں سوا لاکھ سے زیادہ دیہات میں براڈ بینڈ کنکٹی وٹی پہنچ گئی ہے۔ اور صرف براڈ بینڈ پہنچنا ہی نہیں، پبلک اسکول، گاؤں اور دوسرے دفتروں تک اور سب سے بڑی بات کامن سروس سینٹر، اس کو بھی شروع کیا گیا ہے۔
2014 میں جب ہم آئے، پھر ہمارے ملک میں 80 ہزار کامن سروس سینٹر تھے۔ آج ان کی تعداد بڑھ کر 3 لاکھ 65 ہزار کامن سروس سینٹر کی ہوگئی ہے اور گاؤں کا نوجوان اسے چلا رہا ہے۔ اور گاؤں کی ضروریات کی تکمیل کے لئے وہ پوری طرح ٹیکنالوجی کی خدمات دے رہا ہے۔
12 لاکھ سے زیادہ دیہی نوجوان اپنے ہی گاؤں میں رہ رہے ہیں۔ شام کو ماں باپ کی بھی مدد کرتے ہیں، کھیٹ کا بھی کبھی کام لیتے ہیں۔ 12 لاکھ دیہی نوجوان اس روزگار کے اندر نئے جڑ گئے ہیں۔
اس ملک کو فخر ہو گا اور ہونا چاہئے۔ ہم نے حکومت پر تنقید کرنے کے لئے ڈیجیٹل ٹرانزیکشن وغیرہ کا مذاق اڑایا تھا، بھیم ایپ ان دنوں دنیا کا فائننسر ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کے لئے بہت ہی ہی طاقت ور اور محفوظ پلیٹ فارم کے طور پر اسے تسلیم کیا جارہا ہے۔۔ دنیا کے کئی ملک اس سلسلے میں معلومات حاصل کرنے کے لئے براہ راست رابطہ کر رہے ہیں۔ یہ ملک کے لئے فخر کی بات ہے، یہ کوئی نریندر مودی نے نہیں بنایا ہے۔ ہمارے ملک کے نوجوانوں کی ذہنی صلاحیت کا نتیجہ ہے کہ آج ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کے لئے ایک بہترین سے بہترین پلیٹ فارم ہمارے پاس ہے۔
اور اسی جنوری مہینے میں، چیئرمین جی، اسی جنوری مہینے میں بھیم ایپ سے موبائل فون سے اپنا منی ٹرانزیکشن دو لاکھ 16 ہزار کروڑ روپے ہوا ہے، یکم جنوری میں۔ یعنی ہمارا ملک کس طرح تبدیلی کو قبول کر رہا ہے۔
روپے کارڈ- روپے کارڈ کا آغاز آپ لوگوں کو معلوم ہے۔ بہت کم تعداد میں، ہزاروں کی تعداد میں کچھ روپے کارڈ تھے اور کہتے ہیں کہ شاید یہ ڈیبٹ کارڈ وغیرہ کی دنیا میں پوائنٹ 6 فیصد ہمارا کنٹری بوشن رہا ہے۔ آج یہ تعاون تقریباً 50 فیصد تک پہنچا ہے۔ آج پورے ڈیبٹ کارڈ بین الاقوامی سطح پر متعدد ممالک میں اس کو قبول کرنے کی رفتار تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ بھارت کا روپے کارڈ اپنی ایک جگہ بنارہا ہے ، جو کہ ہم سب کے لئے فخر کی بات ہے۔
معزز چیئرمین جی، اس طرح حکومت کا اپروچ ایک اور بھی موضوع ہے جیسے جن جیون مشن ہم نے بنیادی مسائل کے حل کے لئے صد فیصد کی سمت میں جانے کی کوشش کی ہے۔
ٹوائلیٹ- صد فیصد
گھر- صد فیصد
بجلی- صد فیصد
گاؤں میں بجلی صد فیصد
ہم ایک ایک چیز سے ملک کو دشوایوں سے آزادی دلانے کے اپروچ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ ہم نے گھروں میں صاف ستھرا پانی پہنچانے کا بڑا بیڑا اٹھا یا ہے اور یہ مشن ، جس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بھلے ہی مرکزی حکومت کا مشن ہے، اس پر رقم مرکزی حکومت خرچ کرنے والی ہے۔ اس معاملے میں ڈرائیونگ فورس مرکزی حکومت ہوگی لیکن حقیقت میں عمل درآمد واضح طور پر ہم کہہ سکتے ہیں ، فیڈرلزم کی مائیکرو یونٹ یعنی ہمارا گاؤں ، گاؤں کے بلدیاتی ادارے، وہ خود اسے طے کریں گے، وہ ہی اس کی اسکیم بنائیں گے اور ان کے ذریعہ گھر گھر پانی پہنچانے کا نظام قائم ہوگا۔ اس اسکیم کو بھی ہم آگے بڑھا رہے ہیں۔
ہمارے کوآپریٹو فیڈرلزم کی ایک بہترین مثال 100 سے زیادہ توقعاتی اضلاع ہیں۔ ہمارے ملک میں ووٹ بینک کی سیاست کے لئے اعلیٰ-پسماندہ بہت کچھ کیا گیا لیکن اس ملک کے علاقے بھی پسماندہ رہ گئے۔ ان کی طرف اگر ہم نے دھیان دینے کی ضرورت کی جس میں ہم کافی لیٹ ہو گئے۔ میں نے پڑھا کہ کئی ایسے پیرامیٹرس ہیں جس میں کئی ریاستوں کے کچھ اضلاع پوری طرح پسماندہ ہیں۔ اگر ہم اس کو بھی ٹھیک کر لیں تو ملک کا ایوریج بہت بڑی مقدار میں سدھر جائے گا اور کبھی کبھی تو ایسا ضلع کہ جہاں افسر بھی ریٹائر ہونے والا ہو ، ایسے ہی رکھے گا۔یعنی توانائی سے بھر پور اور اقبال مند افسروں کو کوئی وہاں چھوڑتا بھی نہیں تھا۔ ان کو لگتا تھا کہ یہ تو گیا۔ ہم نے اس کو بدلا ہے۔توقعاتی 100 سے زیادہ اضلاع کی نشاندہی کی ہے، الگ الگ ریاستوں کے اضلاع ہیں اور ریاستوں سے بھی کہا ہے کہ آپ بھی اپنے یہاں پچاس ایسے توقعاتی بلاکوں کی نشاندہی کی کیجئے اور خصوصی توجہ دے کر ان کے انتظامی نظامی ، گورننس میں بدلاؤ لایئے اور اسمیں تبدیلی لانے کی کوشش کیجیئے ۔
آج تجربہ آیا ہے کہ ضلع سطح بھی ق، یہ توقعاتی اضلاع ایک کوآپریٹیو فیڈرلزم کو نافذ کرنے والی ایجنسی کی شکل میں ایک بہت ہی خوش آئند تجربے کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور ایک طرح سے ضلع کی افسروں کے درمیان جو مسابقت چلتی ہے آن لائن، ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ وہ ضلع ٹیکہ کاری میں آگے نکل گیا ہے، میں بھی اس ہفتے کام کروں گا، میں ٹیکہ کاری میں آگے نکلوں گا۔ یعنی ایک طرح سے لوگوں کی سہولتوں میں اضافہ کرنے کے لئے ایک اچھاکام وہاں ہو رہا ہے ۔
ہم نےآیوشمان بھارت میں بھی، کیونکہ یہ ضلع ایسا ہے جہاں صحت خدمات بھی اسی طرح کی ہے ۔ اس بات اہم نے ترجیح دی ہے کہ وہاں صحت کے شعبے کو ترجیح دی جائے تاکہ وہ علاقہ آگے بڑھ سکے۔
آگے توقعاتی اضلاع کے لوگوں میں ہمارے آدیواسی بھائی بہن ہوں ، ہمارے دویانگ ہوں ، حکومت پوری حساسیت کے ساتھ کام کرنے کی سمت میں کوشش کر رہی ہے۔
گذشتہ پانچ برسوں سے ہی ملک کے سبھی آدیواسی مجاہدین آزادی کو نوازنے کا کام کیا جا رہا ہے۔ ملک بھر میں آدیواسیوں نے ملک کی آزادی کے لئے جو تعاون دیا ہے اس کو لے کر کے میوزیم بنے ، ریچرچ ادارے بنے اور ملک کو بنانے –بچانے میں ا ن کا کتنا بڑا رول تھا، وہ ایک ترغیب کا باعث بنے گا، ملک کو جوڑنے کا بھی سبب بنے گا اور اس کے لئے بھی کام ہو رہا ہے ۔
ہمارے آدیواسی بچوں میں کئی ہونہار بچے ہوتے ہیں ۔ان کو مواقع نہیں ملتے ہیں، کھیل کود ہو ، تعلیم ہو، اگران کو موقع ملے تو وہ اچھا کر سکتے ہیں۔ ہم نے ایکلو اسکولوں کے ذریعے عمدہ قسم کے اسکولوں کی تعمیر کر کے ایسے ہونہار بچوں کو موقع دینے کی سمت میں بہت بڑا کام کیا ہے۔
آدیواسی بچوں کے ساتھ ساتھ تقریباً 30 ہزار خود امدادی گروپ انہی علاقوں میں اورون-دھن جو جنگلوں کی پیداوار ہے ان کیلئے بھی ایم ایس پی ، اس پر زور دے کر کے ہم نے آگے بڑھانے کی سمت میں کام کیا ہے۔
خواتین کو با اختیار بنانے کے شعبے میں بھی صدر موصوف کے خطبے میں ان چیزوں کا بہت اختصار میں ذکر ہے۔ لیکن ہم نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار فوجی اسکولوں میں بیٹیوں کے لئے داخلے کو منظوری دے دی ہے۔ ملیٹری پولیس میں خواتین کی تقرری کا کام جاری ہے۔
ملک میں خواتین کے تحفظ کے نقطہ نظر سے 600 سے زیادہ ون اسٹاپ سینٹر بنائے جا چکے ہیں۔ ملک کے ہر اسکول میں چھٹی کلاس سے بارہویں کلاس تک کی طالبات کو سیلف ڈیفینس کی ٹریننگ بھی دی جا رہی ہے۔
جنسی جرائم کرنے والوں کی پہچان کرنے کے لئے ایک قومی ڈیٹا بیس تیارکیا گیا ہے جسمیں ایسے لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی اس کے علاوہ انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف بھی ایک یونٹ قائم کرنےکا بھی ہم نے منصوبہ بنایا ہے۔
بچوں کے خلاف جنسی تشدد کے سنگین معاملات سے نمٹنے کے لئے پوسکو قانون میں ترمیم کر کے اس کے تحت آنے والے جرائم کا دائرہ بھی ہم نے بڑھایا ہے تاکہ ان جرائم کو ہم سزا کےدائرے میں لا سکیں۔ ایسے معاملات میں انصاف تیزی سے ملے اس لئے ملک بھر میں ایک ہزار سے زیادہ فاسٹ ٹریک کورٹ بنائے جائیں گے۔
قابل احترام چیئرمین صاحب ، ایوان میں سی اے اے پر کوئی بحث ہوئی ہے۔ یہاں بار بار یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے کے نام پر انارکی پھیلائی گئی ، جو تشدد ہوا اسی کو تحریک چلانے کا حق مان لیا گیا ہے۔بار بار آئین کی دہائی اسی کے نام پر غیر جمہوری سرگرمی کو کور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ مجھے کانگریس کی مجبوری سمجھ آتی ہے۔لیکن کیرل کے بائیں بازو کے ہمارے جو دوست ہیں، ان کو ذرا سمجھنا چاہئے، ان کو پتہ ہوناچاہئے۔ یہاں آنے سے پہلے کہ کیرل کے وزیراعلیٰ ، انہوں نے کہا ہے کہ کیرل میں جو مظاہرے ہو رہے ہیں، ان میں انتہا پسند گروپوں کا ہاتھ ہونےکی بات انہوں نے اسمبلی میں کہی ہے۔
یہی نہیں انہوں نے سخت کارروائی کا انتباہ بھی دیا ہے۔ جس لا قانونیت سے آپ کیرل میں پریشان ہیں ،اس کی حمایت آپ دلی میں یا ملک کے دیگر حصوں میں کیسے کر سکتے ہیں۔
شہریت ترمیمی قانون کو لے کر جو کچھ بھی کہا جا رہا ہے اور جس بات کی تشہیر کی جا رہی ہے ، اس کو لے کر سبھی ساتھیوں کو خود سے سوال پوچھنا چاہئے۔ کیا ملک کو غلط اطلاع دینا ، گمراہ کرنا ، اس رجحان کو ہم سب کو روکنا چاہئے کہ نہیں روکنا چاہئے۔ کیا یہ ہم سب کا فرض ہے کہ نہیں ، کیا ہمیں ایسی مہم کا حصہ بن جانا چاہئے؟ اب مان لیجئے کسی کا سیاسی بھلا ہونے والا نہیں ہے ، مان کے چلیئے ۔ اس لئے یہ راستہ صحیح نہیں ہے، مل بیٹھ کر کے ذرا سوچیں کہ ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں کیا ۔ اور یہ کیسا دوہرا کردار ہے، آپ 24 گھنٹے اقلیتوں کی دہائی دیتے ہیں ، بہت شاندار الفاظ کا استعمال کر کے کہہ رہے ہیں ، آنند جی کو ابھی میں سن رہا تھا۔ لیکن ماضی کی غلطیوں کے سبب پڑوس میں جو اقلیت بن گئے ، ان کے خلاف جو چل رہا ہے، اس کا درد آپ کو کیوں نہیں ہو رہا ہے؟ ملک کی توقع ہے کہ اس حساس معاملے پر لوگوں کو ڈرانے کی بجائے صحیح جانکاری دی جائے ۔ یہ ہم سب کا فرض ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اپوزیشن کے متعدد ساتھی ان دنوں بہت پُر جوش ہو گئے ہیں جو کبھی خاموش تھے آج کل پُر تشدد ہیں۔ چیئرمین صاحب کا اثر ہے۔ لیکن میں آج چاہتا ہوں کہ یہ ایوان بڑے سینئر لوگوں کا ہے تو کچھ عظیم شخصیتوں کی باتیں میں آج ذرا آپ کو پڑھ کر بتانا چاہتا ہوں ۔
پہلا بیان ہے :
“This House / is of the opinion that /in view of the insecurity/ of the life, property and honour/ of the minority communities /living in the Eastern Wing of Pakistan /and general denial of /all human rights to them /in that part of Pakistan/, the Government of India should /in addition to relaxing restrictions /in migration of people /belonging to the minority communities/ from East Pakistan to Indian Union /also consider steps for/ enlisting the world opinion.”
یہ ایوان میں کہی گئی بات ہے۔ اب آپ کو لگے گا یہ کوئی جن سنگھ کے لیڈر ہی بول سکتے ہیں ، یہ تو کون بول سکتا ہے ایسی باتیں ۔ اس وقت تو بی جے پی تھی اور نہ ہی جن سنگھ۔ تو انہوں نے سوچا ہوگا جن سنگھ والا بول سکتا ہے۔لیکن یہ بیان کسی بی جےپی یا جن سنگھ کے لیڈر کا نہیں ہے ۔
اسی عظیم شخصیت کا ایک دوسر اجملہ میں بتانا چاہتا ہوں۔ انہوں نے کہا ہے –’’ جہاں تک مشرقی پاکستان کا تعلق ہے ، اس کا یہ فیصلہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں سے غیر مسلم جتنے ہیں سب نکال دیئے جائیں۔ وہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ ایک اسلامی ریاست کے ناطے وہ یہ سوچا ہے کہ یہاں اس نام کو ماننے والے ہی رہ سکتے ہیں اور غیر مسلم لوگ نہیں رہ سکتے ہیں۔ لہذا ہندو نکالے جا رہے ہیں، عیسائی نکالے جا رہےہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ تقریباً 37 ہزار سے زیادہ عیسائی آج وہاں سے ہندوستان میں آ گئے ہیں۔ بدھسٹ بھی وہاں سے نکلے جا رہے ہیں۔
یہ بھی کسی جن سنگھ یا بی جے پی کے لیڈر کا جملہ نہیں ہے۔ اور ایوان کو میں بتانا چاہوں گا کہ یہ الفاظ اس عظیم شخص کے ہیں جو ملک کے مقبول وزرائے اعظم میں سے ایک رہے ہیں، وہ قابل احترام لال بہادر شاستری جی کے جملے ہیں۔ اب آپ ان کو بھی کمیونل کہہ دیں گے۔ آپ ان کو بھی ہندو اور مسلم میں تقسیم کرنےوالا کہہ دیں گے۔
یہ بیان لال بہادر شاستری جی نے پارلیمنٹ میں تین اپریل 1964 کو دیا تھا۔ نہرو جی اس وقت وزیراعظم تھے۔ تب مذہبی زیادتی کی وجہ سے بھارت آ رہے پناہ گزینوں پر پارلیمنٹ میں بحث ہو رہی تھی۔ اسی درمیان شاستری جی نے یہ بات کہی تھی۔
جناب چیئرمین صاحب، اب میں ایوان کو ایک اور بیان کےبارے میں بتاتا ہوں۔ اور یہ خاص کر کے میرے سماجوادی دوستوں کو خاص طور سے منسوب کر رہا ہوں۔ کیونکہ شاید یہی ہے جہاں سے ترغیب مل سکتی ہے۔ ذرا دھیان سے سنیں۔
‘‘ہندوستان کا مسلمان جیئے اور پاکستان کا ہندو جیئے۔ میں اس بات کو بالکل ٹھکراتا ہوں کہ پاکستان کے ہندو، پاکستان کے شہری ہیں اس لئے ہمیں ان کی پرواہ نہیں کرنی ہے۔ پاکستان کا ہندو چاہے کہیں کا شہری ہو ، لیکن اس کی حفاظت کرنا ہمارا اتنا ہی فرض ہے جتنا ہندوستان کے ہندو یا مسلمان کا ۔’’
یہ کس نے کہا تھا۔ یہ بھی کسی جن سنگھ ، بی جے پی والے کا نہیں ہے۔ یہ جناب رام منوہر لوہیا جی کی بات ہے۔ ہمارے سماجوادی دوستو، ہمیں مانیں یا نہ مانیں ، لیکن کم سے کم لوہیا جی کو آپ مسترد کرنے کا کام نہ کریں ، یہی میری ان سے درخواست ہے۔
جناب چیئرمین صاحب، میں اس ایوان میں شاستری جی کا ایک اور بیان پڑھنا چاہتا ہوں ۔ یہ بیان انہوں نے پناہ گزینوں پر ریاستی حکومتوں کے رول کے بارے میں دیا تھا۔ آج ووٹ بینک کی سیاست کی وجہ سے ریاستوں کے اندر اسمبلیوں میں قرار داد منظور کر کے جس طرح کا کھیل کھیلا جا رہا ہے، لال بہادر شاستری جی کی اس تقریر کو سن لیجئےآپ ۔ آپ کو پتہ چلے گا کہ آپ کہاں جا رہے تھے ، کہاں تھے، کیا ہو گیا ہے آپ لوگوں کو۔
چیئرمین صاحب، لال بہادر شاستری جی نے کہا تھا:
‘‘ہماری تمام ریاستی حکومت نے اس کو یعنی پناہ گزینوں کے سیٹلمینٹ کو قومی سوال کی شکل میں مانا ہے۔ اس کے لئے ہم ان کو مبارکباد دیتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے۔ کیا بہار اور کیا اڈیشہ، کیا مدھیہ پردیش اور کیا اترپردیش ،یا مہاراشٹر یا آندھر، سبھی صوبوں نے ، سبھی ریاستوں نے بھارت سرکار کو لکھا ہے کہ وہ ان کو اپنے یہاں بسانے کےلئے تیا رہیں۔ کسی نے کہا ہے پچاس ہزار آدمی ، کسی نے کہا ہے پندرہ ہزار فیملیز، کسی نے کہا دس ہزار فیملیز بسانے کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں۔ ’’
شاستری جی کا یہ بیان تب کا ہے جب 1964 میں ملک میں زیادہ تر کانگریس کی ہی حکومت ہوا کرتی تھی۔ آج مگر یہ ہم اچھا کام ہی کر رہے ہیں، اور آپ روڑے اٹکا رہے ہیں کیونکہ آپ کی ووٹ بینک کی سیاست ہے۔
جناب چیئرمین صاحب، میں ایک اور مثال دینا چاہتا ہوں۔ 25 نومبر 1947 کو ، ملک آزاد ہونے کے کچھ ہی مہینوں میں کانگریس ورکنگ کمیٹی نے ایک قرار داد منظور کی تھی۔ 25 نومبر 1947 کی کانگریس ورکنگ کمیٹی کی قرار داد کیا کہتی ہے۔
“Congress is /further bound to /afford full protection to/all those non-Muslims /from Pakistan /who have crossed the border /and come over to India /or may do so /to save their life /and honour.”
یہ غیر مسلموں کیلئے آپ آج جو زبان بول رہے ہیں۔
جناب چیئرمین صاحب، میں نہیں مانتا ہوں کہ 25 نومبر 1947 کو کانگریس فرقہ پرست تھی ، میں نہیں مانتا ہوں اور آج اچانک سیکولر ہو گئی ، ایسا بھی میں نہیں مانتا ہوں۔ 25 نومبر 1947 آپ نے نن-مسلمس لکھنے کے بجائے آپ لکھ سکتےتھے کہ پاکستان سے آنے والے سب لوگوں کو ، کیونکہ نہیں لکھا ایسا ، کیوں نن- مسلمس لکھا؟
تقسیم کے بعد جو ہندو پاکستان میں رہ گئے تھے ، ان میں سے زیادہ تر ہمارے دلت بھائی بہن اور ان لوگوں کو بابا صاحب امبیڈکر نے کہا تھا –
“I would like to tell /the Scheduled Castes /who happen today to be/ impounded inside Pakistan /to come over to India….”
بابا صاحب امبیڈکر نے بھی یہی پیغام دیا تھا۔ یہ سارے بیان جن عظیم ہستیوں کے ہیں، وہ اس ملک کے معمار ہیں ، کیا وہ سبھی کمیونل تھے؟ کانگریس اور اس کے ساتھی ملک کے معماروں کو بھی ووٹ بینک کی سیاست کے سبب بھولنے لگے ہیں۔ یہ ملک کے لئے تشویش کی بات ہے۔
جناب چیئرمین صاحب ، 1997 میں یہاں متعدد ساتھی موجود ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ایوان میں بھی کوئی ہو ۔یہ ہو سال تھا جب سے اس وقت کی حکومت ہدایات میں ہندو اور سکھوں کا استعمال شروع ہوا ۔ پہلے نہیں ہوتا تھا ، جوڑا گیا ہے اسکو۔2011 میں اس میں پاکستان سے آنے والے عیسائی اور بدھسٹ الفاظ کے زمرے کو بھی بنایا گیا۔ یہ سب 2011 میں ہوا ہے۔
سال 2003 میں لوک سبھا میں شہریت ترمیمی بل پیش کیا گیا۔ شہریت ترمیمی بل 2003 پر پارلیمنٹ کی جس قائمہ کمیٹی نے بحث کی اور پھر اسے آگے بڑھایا، اس کمیٹی میں کانگریس کے متعدد اراکین آج بھی یہاں ہیں۔ جو اس کمیٹی میں تھے اور پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے: ’’پڑوسی ملکوں سے آ رہے اقلیتوں کو دو حصوں میں دیکھا جائے۔ ایک جو مذہبی زیادتی کی وجہ سے آتے ہیں اور دوسرا وہ جوغیر قانونی مائیگرینٹ جو شہری بد امنی کی وجہ سے آتے ہیں‘‘ اس کمیٹی کی رپورٹ ہے۔ آج جب یہ سرکار یہی بات کر رہی ہے تو اس پر 17 سال بعد ہنگامہ کیوں ہو رہا ہے۔
28 فروری ، چیئرمین صاحب ،28 فروری 2004 کو مرکزی حکومت نے راجستھان کے وزیراعلیٰ کی درخواست پر راجستھان کےد و اضلاع اور گجرات اور کے چار اضلاع کے کلٹروں کو یہ حق دیا کہ وہ پاکستان ے آئی اقلیتی ہندو برادری کے لوگوں کو بھارتی شہریت دے سکیں۔یہ ضابطہ 2005 اور 2006 میں بھی نافض رہا۔ 2005 اور 2006 میں آپ ہی تھے۔ تب آئین کی بنیادی روح کو کوئی خطرہ نہیں ہوا تھا، اس کے خلاف نہیں تھا۔
جناب چیئرمین صاحب اگر آپ مردم شماری بھی دیکھیں گے تو ملک آزاد ہونے کے بعد پہلی دہائی میں کچھ سوال ہوں گے، دوسری دہائی میں کچھ سوال نکال دیئےہوں گے ،کچھ جوڑے ہوں گے۔ جیسی جیسی ضرورت رہتی ہے، ہر چیز میں یہ گورنینس کا موضوع ہے، چھوٹی موٹی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ ہم افواہیں پھیلانے کا کام نہ کریں۔ ہمارے ملک میں پہلے مادری زبان کا اتنا بڑا بحران کبھی نہیں تھا۔ آج سورت کے اندر اڈیشہ سے مائیگریٹ ہو کر کے بہت بڑی تعداد میں لوگ آئے ہیں اور گجرات سرکار یہ کہے کہ ہم اڑیہ اسکول نہیں چلائیں گے تو کب تک چکے گا۔ میں مانتا ہوں کہ حکومت کے پاس جانکاری ہونی چاہئے کہ کون ، کون سی مادری زبان بولتا ہے ، اس کے والد کون سی زبان بولتے تھے۔ تب جا کر کے سورت میں اڑیہ اسکول شروع کیا جا سکتا ہے۔ پہلے مائیگریشن نہیں ہوتا تھا ، آج جب مائیگریشن ہوتا ہے تب یہ ضروری ہوتا ہے۔
جناب چیئرمین صاحب، پہلے ہمارے ملک میں مائیگریشن بہت کم تعداد میں ہوتا تھا۔ وقت رہتے رہتے شہروں کے تئیں لگاؤ بڑھنا ، شہروں کی ترقی ہونا ، لوگوں کی توقعات بدلنا ، تو گذشتہ 40-30 سال میں ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں کہ مائیگریشن نظر آتا ہے۔ اب یہ مائیگریشن کا میں بھی ، آج جب تک کن اضلاع سے زیادہ مائیگریشن ہوتا ہے، کون ضلع چھوڑ کر جا رہے ہیں، اس کی جانکاری کے بغیر اس ضلعے کی ترقی کو آپ ترجیح نہیں دے سکتے۔
آپ کے لئے ضروری ہے کہ آپ نے اور یہ سارے اور دوسرا اتنی افواہیں پھیلا رہے ہو ،لوگوں کو گمراہ کر رہے ہو ، آپ بھی تو 2010 ء میں این پی آر لائے ۔ ہم 2014 ء سے یہاں بیٹھے ہیں ، کیا اسی این پی آر کولے کر کے کسی کے لئے سوالیہ نشان ہم نے کھڑا کیا ، کیا ریکارڈ تو ہمارے پاس ہے ۔ آپ کے این پی آر کا ریکارڈ ہمارے پاس ہے ۔ آپ کے وقت کا این پی آر ریکارڈ ہے ۔ اس ملک کے کسی بھی شہری کو اُس این پی آر کی بنیاد پر جبر کا نشانہ نہیں بنایا گیا ۔
اتنا ہی نہیں ، صدر محترم ، یو پی اے کے اُس وقت کے وزیر داخلہ نے این پی آر کے افتتاح کے موقع پر ہر عام باشندہ ، یوزوول ریزیڈنٹ کے این پی آر میں اینرولمنٹ کی ضرورت پر خصوصی زور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہر کسی کو اس کوشش کا حصہ بننا چاہیئے ۔ انہوں نے با قاعدہ میڈیا سے بھی اپیل کی تھی کہ میڈیا این پی آر کی تشہیر کرے ، لوگوں کو ایجوکیٹ کرے ، لوگ این پی آر سے جڑیں ، تو اس وقت کے وزیر داخلہ نے عوامی طور پر اپیل کی تھی ۔
یو پی اے نے 2010 ء میں این پی آر نافذ کروایا ، 2011 ء میں این پی آر کے لئے بایو میٹرک ڈیٹا بھی جمع کرنا شروع کیا۔ آپ جب 2014 ء میں سرکار سے گئے ، اس وقت تک این پی آر کے تحت کروڑوں شہریوں کی تصویر اسکین کرکے ریکارڈ مینٹین کرنے کا کام پورا کر لیا گیا تھا اور بایو میٹرک ڈیٹا کلیکشن کا کام تیزی پر تھا ۔ یہ آپ کی مدت کار کی میں بات کر رہا ہوں ۔
آج جب ہم نے اپنے آپ کے ذریعے تیار ان این پی آر ریکارڈس کو 2015 ء میں اپ ڈیٹ کیا اور ان این پی آر ریکارڈس کے ذریعے سے پردھان منتری جن دھن یوجنا ، فوائد کی راست منتقلی جیسی حکومت کی اسکیموں میں ، جو چھوٹ گئے مستفیدین تھے ، ان کو شامل کرنے کے لئے آپ کے ذریعے تیار کیا گیا این پی آر کے ریکارڈ کا مثبت استعمال ہم نے کیا اور غریبوں کو فائدہ پہنچایا ۔
لیکن آج سیاسی ماحول بنا کر آپ این پی آر کی مخالفت کر رہے ہیں اور کروڑوں غریبوں کو حکومت کی ان عوامی فلاح و بہبود والی اسکیموں کا حصہ بننے سے روکنے کا پاپ کر رہے ہیں ۔ اپنے حقیر سیاسی بیانئے کے لئے ، جو بھی یہ کر رہے ہیں ، ان کی غریب مخالف ذہنیت آشکار ہو رہی ہے ۔
2020 ء کی مردم شماری کے ساتھ ساتھ ہم این پی آر ریکارڈ کو اپ ڈیٹ کرنا چاہتے ہیں تاکہ غریبوں کے لئے چلائی جا رہی یہ اسکیمیں اور زیادہ موثر طریقے سے اور ایمانداری کے ساتھ ان تک پہنچ سکیں لیکن چونکہ اب آپ اپوزیشن میں ہیں ، تو آپ ہی کے ذریعے شروع کیا گیا این پی آر آپ ہی کو برا دکھائی دینے لگا ہے ۔
سبھی ریاستوں نے ، صدر محترم ، سبھی ریاستوں نے این پی آر کو با قاعدہ گزٹ نوٹفکیشن جاری کرکے منظوری دی ہے۔ اب کچھ ریاستوں نے اچانک یو ٹرن لے لیا ہے اور اس میں رخنہ ڈال رہے ہیں اور جان بوجھ کر اس کی اہمیت اور غریبوں کے لئے اس کے فائدوں کی ان دیکھی کر رہے ہیں ۔ جن کاموں کو آپ نے 70 برسوں میں نہیں کیا ، انہیں اپوزیشن میں بیٹھ کر اس طرح کی باتیں کرکے انہیں زیب نہیں دیتا ۔
لیکن جس کام کو با قاعدہ آپ لائے ، آگے بڑھایا ، میڈیا میں تشہیر کرائی ، اب اسے ہی اچھوت بتا کر اس کی مخالفت کرنے میں مصروف ہو گئے ہو ۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کے بیانئے صرف اور صرف ووٹ بینک کی سیاست سے طے ہوتے ہیں اگر ناز برداری کا سوال ہو تو ترقی اور تقسیم میں سے آپ ڈنکے کی چوٹ پر تقسیم کا راستہ اختیار کرتے ہیں ۔
ایسے مفاد پرستانہ مخالفت سے کسی بھی پارٹی کو فائدہ یا نقصان تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے ملک کو نقصان یقینی طور پر ہوتا ہے ۔ ملک میں بے اعتمادی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس لئے میری درخواست رہے گی کہ ہم سچ کو ، صحیح صورت حال کو ہی عوام کے درمیان لے جائیں ۔
اس دہائی میں دنیا کی بھارت سے بہت توقعات ہیں اور بھارتیوں کو ہم سے بہت ساری توقعات ہیں ۔ ان توقعات کی تکمیل کے لئے ہم سبھی کی کوشش 130 کروڑ بھارتیوں کی توقعات کے مطابق ہونی چاہئیں ۔
یہ تبھی ممکن ہے ، جب قومی مفاد کے سبھی معاملات میں یہ ایوان سنگچھ دھووم ، سنود دھووم یعنی ساتھ چلو ، ایک سُر میں آگے بڑھے ، اس عہد سے چلتے ہیں ، مباحثہ ہو ، تبادلۂ خیال ہو اور پھر فیصلہ ہو ۔
جناب دگ وجے سنگھ جی نے یہاں ایک نظم سنائی تو مجھے بھی ایک نظم یاد آ گئی ۔
I have No House, Only Open Spaces
Filled with Truth Kindness, Desire and Dreams
Desire to see my country Developed and Great,
Dreams to see Happiness and peace around!!
مجھے بھارت کے عظیم سپوت ، سابق صدر ڈاکٹر اے پی جے کلام کی یہ لائنیں اچھی لگیں ، مجھے یہ اچھا لگا اور آپ کو آپ کی پسندکی لائنیں اچھی لگیں ۔ وہ کہاوت بھی آپ نے خوب سنی ہو گی ، ’’ جا کی رہی بھاونا جیسی ، پربھو مورت دیکھی تن تیسی ‘‘ ۔ اب یہ آپ کو کرنا ہے کہ اپنی پسند بدلیں یا پھر 21 ویں صدی میں 20 ویں صدی کے نوسٹیلجیا کو لے کر جیتے رہیں ۔
یہ نیا بھارت آگے بڑھ چلا ہے ۔یہ فرائض کی راہ پر بڑھ چلا ہے اور فرض میں ہی سارے حقوق کا خلاصہ ہے ، یہ تو مہاتما گاندھی جی کا پیغام ہے ۔
آئیے ، ہم گاندھی جی کے بتائے فرض کی راہ پر آگے بڑھتے ہوئے ، ایک خوشحال ، اہل اور پُر عزم نئے بھارت کی تعمیر میں جٹ جائیں ۔ ہم سبھی کی اجتماعی کوششوں سے ہی بھارت کی ہر خواہش ، ہر عہد کی تکمیل ہو گی ۔
ایک بار پھر صدر محترم کا اور آپ سبھی اراکین کا میں دِل سے بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں اس جذبے کے ساتھ کہ ملک کی وحدت اور سالمیت کو ترجیح دیتے ہوئے ، بھارت کے آئین کی اعلیٰ قدروں کو احترام کرتے ہوئے ہم سب مل کر چلیں ، ملک کو آگے بڑھانے کے لئے ہم اپنا تعاون دیں، اسی جذبے کے ساتھ میں پھر ایک بار صدر محترم کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس بحث کو باوقار بنانے والے سبھی قابل احترام اراکین کا بھی شکریہ ادا کرتاہوں ۔
بہت بہت شکریہ ۔
(Release ID: 1605783)
Visitor Counter : 1084
Read this release in:
Assamese
,
English
,
Hindi
,
Marathi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam