وزیراعظم کا دفتر

من کی بات 2.0، کی آٹھویں کڑی میں وزیراعظم نریندر مودی کے خطاب کا اصل متن) 26.01.2020(

Posted On: 26 JAN 2020 6:35PM by PIB Delhi

 

نئی دہلی،26؍جنوری،

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔

آج 26؍ جنوری ہے۔ جشن جمہوریہ کی بہت بہت نیک خواہشات۔2020 کا یہ  پہلا ‘ من کی بات’ کی ملاقات ہے۔ اس سال کا بھی یہ پہلا پروگرام ہے، اس دہائی کا بھی یہ پہلا پروگرام ہے۔ ساتھیو، اس بار ‘ یوم جمہوریہ’ تقریب کی وجہ سے آپ سے ‘ من کی بات’،  اس کے وقت میں تبدیلی کرنا، مناسب لگا اور اِسی لئے، ایک الگ وقت مقرر کرکے آج آپ سے ‘من کی بات’ کر رہا ہوں۔ ساتھیو، دن بدلتے ہیں، ہفتے بدل جاتے ہیں، مہینے بھی بدلتے ہیں، سال بدل جاتے ہیں، لیکن، بھارت کے لوگوں کا جوش اور ہم بھی کچھ کم نہیں ہیں، ہم بھی کچھ کر کے رہیں گے۔ ‘کین ڈو’، یہ ‘ کین ڈو’ کا جذبہ، عزم کی شکل ابھر رہا ہے۔ ملک اور سماج کیلئے کچھ کر گزرنے کا جذبہ، ہر دن، پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ ساتھیو، ‘ من کی بات’ کے اسٹیج پر ، ہم سب، ایک بار پھر اکٹھا ہوئےہیں۔ نئے نئے موضوعات پر بات چیت کرنے کیلئے اور اہل وطن کی نئی نئی حصولیابیوں کو جشن منانے کیلئے ،  بھارت کا جشن منانے کیلئے  ‘من کی بات’ شیئرنگ، لرننگ اور گرووِنگ ٹوگیدر،  کا ایک اچھا اور آسان پلیٹ فارم بن گیا ہے۔ ہر مہینے ہزاروں کی تعداد میں لوگ، اپنے مشورے، اپنی کوششیں، اپنے تجربات شیئر کرتے ہیں۔ ان میں سے، سماج کو ترغیب ملے، ایسی کچھ باتوں، لوگوں کی غیر معمولی کوششوں پر ہمیں بات کرنے کا موقع ملتا ہے۔

‘ کسی   نے کر کے دکھایا ہے’، تو کیا ہم بھی کر سکتے ہیں؟ کیا اُس تجربے کو پورے ملک میں استعمال کر کےایک بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں؟ کیا اس کو، سماج کی ایک عام عادت کی شکل میں فروغ دے  کر، اس تبدیلی کو ، مستقل بنا سکتے ہیں؟۔ ایسے ہی کچھ سوالوں کے جواب تلاش کرتے-کرتے ، ہر مہینے ‘من کی بات’ میں ، کچھ اپیل، کچھ درخواست، کچھ کر دکھانے کے عزائم کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں میں ہم نے بہت سے چھوٹے چھوٹے عہد لئے ہوں گے، جیسےایک ہی بار استعمال میں آ سکنے والی پلاسٹک کومسترد کرنا، کھادی اور مقامی اشیاء خریدنے کی بات، سووچھتا کی بات ہو، بیٹیوں کے احترام  اور وقار کی بات ہو، لیس کیش اکنامی کا یہ نیا پہلو، اس پر زوردیناہو، ایسے ڈھیرسارے عزائم کا جنم ہماری ان ہلکی پھلکی من کی باتوں سے ہوا ہے اور اسے طاقت بھی آپ ہی لوگوں نے دی ہے ۔

مجھے ایک بہت ہی پیارا خط ملا ہے۔ بہار کے جناب شیلیش کا۔ ویسے تو ابھی وہ بہار میں نہیں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا ہے کہ وہ دلی میں رہ کر کسی این جی او میں کام کرتے ہیں۔ جناب شیلیش جی لکھتے ہیں ‘‘ مودی جی آپ ہر من کی بات میں کچھ اپیل کرتے ہیں۔ میں نے ان میں سے کئی چیزوں کو کیا ہے۔ ان سردیوں میں، میں نے لوگوں کے گھروں میں سے کپڑے جمع کر کے ضرورت مندوں کے درمیان تقسیم کئے ہیں۔ میں نے من کی بات سے لے کر کئی چیزوں کو کرنا شروع کیا ہے، لیکن پھر دھیرے دھیرے کچھ میں بھول گیااور کچھ چیزیں چھوٹ گئیں۔ میں نے اس نئے سال پر ایک من کی بات پر چارٹر بنایا ہے، جس میں ان سبھی چیزوں کی ایک فہرست بنا ڈالی ہے۔ جیسے لوگ نئے سال  پرنئے سال کے لئے عہد و پیماں تیار کرتے ہیں۔ مودی جی یہ میرے نئے سال کا سماجی پیمان ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ سب چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں، لیکن بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ کیا آپ چارٹرپر اپنا آٹوگراف دے کر مجھے واپس بھیج سکتے ہیں۔ شیلیش جی آپ کا بہت بہت شکریہ اور مبارکباد۔ آپ کے نئے سال کے عہد کے لئے من کی بات چارٹر ، یہ بہت ہی اختراعاتی ہے۔ میں اپنی طرف سے مبارکباد لکھ کر اسے ضرورآپ کو واپس بھیجوں گا۔ ساتھیوں اس من کی بات چارٹر کو جب میں پڑھ رہا تھا، جب مجھے بھی حیرت ہوئی کہ اتنی ساری باتیں ہیں! اتنے سارے ہیش ٹیگس ہیں ! اور ہم سب نے مل کر ڈھیر ساری کوششیں بھی کی ہیں۔ کبھی ہم نے سندیش ٹوسولجرس کے ساتھ اپنے جوانوں سے جذباتی طورپر اور مضبوطی سے جڑنے کی مہم چلائی۔ ‘کھادی فار نیشن- کھادی فار فیشن’ کے ساتھ کھادی کی فروخت کونئے مقام پر پہنچایا۔ ‘ بائی لوکل’ کا اصول اپنایا۔ ‘ ہم فٹ تو انڈیا فِٹ’ سے فٹنس کے تئیں بیداری پیدا کی۔ ‘مائی کلین انڈیا’ یا ‘ اسٹیچو کلیننگ’ کی کوششوں سے سووچھتا کو عوامی تحریک بنایا۔ ہیش ٹیگ نوٹو ڈرگس، ہیش ٹیگ بھارت کی لکشمی ، ہیش ٹیگ سیلف فار سوسائٹی، ہیش ٹیگ اسٹریس فِری ایگزام، ہیش ٹیگ سرکشا بندھن، ہیش ٹیگ ڈیجیٹل اکنامی، ہیش ٹیگ روڈ سیفٹی، او ہو ہو! بے شمار ہیں۔

شیلیش جی آپ کے اس من کی بات کے چارٹر کو دیکھ کر احساس ہوا کہ واقعی یہ لسٹ بہت لمبی ہے۔ آئیے اس سفر کو مسلسل جاری رکھیں۔ اس من کی بات چارٹر میں سے اپنی دلچسپی کے کسی بھی کاز سے جڑیں۔ ہیش ٹیگ یوز کرکے سب کے ساتھ فخر سے اپنے تعاون کو  مشترک کریں۔ دوستوں کو ، اہل خانہ کو اور سبھی کو رغبت دلائیں۔ جب ہر بھارت واسی ایک قدم چلتا ہے، تو ہمارا بھارت وَرش 130کروڑقدم آگے بڑھتا ہے۔ اسی لئے چریویتی-چریویتی-چریویتی، چلتے رہو، چلتے رہو، چلتے رہو، کا منتر لئے اپنی کوشش کرتے رہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو! ہم نے من کی بات چارٹر کے بارے میں بات کی۔ سووچھتا کے بعد جن بھاگیداری کا جذبہ پارٹیسپیٹیو اِسپرٹ آج ایک اور شعبے میں تیزی سے بڑھ رہی ہےاور وہ ہےجَل سنرکشن یعنی آبی تحفظ۔ آبی تحفظ کے لئے کئی وسیع اور اختراعاتی کوششیں ملک کے ہر کونے میں ہو رہی ہیں۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ گزشتہ مانسون کے وقت شروع کی گئی یہ جَل شکتی مہم جن بھاگیداری سے انتہائی کامیابی کی طرف آگے بڑھ رہی ہے۔ بڑی تعداد میں تالابوں، پوکھروں آدی کی تعمیر کی گئی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس مہم میں سماج کے ہر طبقے کے لوگوں نے اپنا تعاون دیا۔ اب راجستھان کے جھارلو ضلعے کو ہی دیکھ لیجئے۔ یہاں کی دو تاریخی باؤڑیاں کوڑے اور گندے پانی کا ذخیرہ بن گئی تھیں۔ پھر کیا تھا! بھدرایوں اور تھان والا پنچایت کے سیکڑوں لوگوں نے جل شکتی ابھیان کے تحت اس کی بازیابی کا بیڑا اٹھایا۔ بارش سے پہلے ہی وہ لوگ ان باؤڑیوں میں جمعے ہوئے گندے پانی، کوڑے اور کیچڑ کو صاف کرنے میں جُٹ گئے۔ اس مہم کے لئے کسی نے شرم دان کیا، تو کسی نے دھن کا دان کیا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ یہ باؤڑیاں آج وہاں کی لائف لائن بن گئی ہیں۔ کچھ  ایسی ہی کہانی ہے، اترپردیش کے بارہ بنکی کی۔ یہاں 43 ہیکٹیئرعلاقے میں پھیلی سَراہی جھیل اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی، لیکن گاؤں والوں نے اپنی قوت ارادی سے اس میں نئی جان ڈال دی۔ اتنے بڑے مشن کے راستے میں انہوں نے کسی بھی کمی کو     آڑے نہیں آنے دیا۔ ایک کے بعد ایک کئی گاؤں آپس میں جڑتے چلے گئے۔ انہوں نے جھیل کے چاروں طرف ایک میٹر اونچا پُشتہ بنا ڈالا۔ اب جھیل پانی سے لبالب ہے اورآس پاس کا ماحول پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونج رہا ہے۔

اتراکھنڈ کے الموڑہ-ہلدوانی ہائی وے سے متصل سُنیا کوٹ گاؤں سے بھی عوامی شراکت داری کی ایک ایسی ہی مثال سامنے آئی ہے۔ گاؤں والوں نے پانی کے بحران سے نمٹنے کیلئے خود ہی گاؤں تک پانی لانے کا عہد کیا۔پھر کیا تھا لوگوں نے آپس میں پیسے جمع کئے، منصوبہ بنایا، شرم دان ہوا اور تقریباً ایک کلومیٹر دور سے گاؤں تک پائپ بچھائی گئی، پمپنگ اسٹیشن لگایا گیااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دو دہائی پُرانا مسئلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا۔ دوسری طرف تمل ناڈو میں بورویل کو رین واٹر ہارویسٹنگ یعنی بارش کا پانی جمع کرنے کا ذریعہ بنانے کا بہت ہی اختراعاتی تصور سامنے آیا ہے۔ ملک بھر میں پانی کے تحفظ سے متعلق ایسی بے شمار کہانیاں ہیں، جو نیو انڈیا کے عزائم کو تقویت دے رہی ہیں۔ آج ہمارے جَل شکتی چمپئنس کی کہانیاں سننے کا پورا  ملک شائق ہے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ پانی جمع کرنے اور پانی کے تحفظ کے لئے کئے گئے اپنی یا اپنے قرب و جوار میں ہورہی کوششوں کی کہانیاں، تصاویر اور ویڈیو ہیش جل شکتی فار انڈیا(#jalshakti4India) پر ضرورشیئر کریں۔

میرے پیارے ہم وطنو! اور خاص طور پر میرےنوجوان ساتھیو!آج من کی بات  کے ذریعے میں آسام کی حکومت اور آسام کے لوگوں کو ‘ کھیلو انڈیا’ کی شاندار میزبانی کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ ساتھیو! 22؍ جنوری کو ہی گوہاٹی میں تیسرے کھیلو انڈیا گیمز کا اختتام ہوا ہے۔ اس میں مختلف ریاستوں کے تقریباً 6000کھلاڑیوں نے حصہ لیا۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ کھیلوں کی اس تقریب کے اندر 80 ریکارڈ ٹوٹے اور مجھے فخر ہے کہ ان میں سے 56 ریکارڈ توڑنے کا کام ہماری بیٹیوں نے کیا ہے۔ یہ حصولیابی بیٹیوں کے نام رہی ہے۔ میں سبھی فاتحین کے ساتھ، اس میں حصہ لینے والے سبھی شرکا کو مبارکباد دیتاہوں۔ ساتھ ہی کھیلو انڈیا گیمز کے کامیاب انعقاد کےلئے اس سے وابستہ سبھی لوگوں تربیت دینے والوں او ر تکنیکی افسروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ یہ ہم سب کے لئے بہت ہی خوش آئند ہے کہ سال در سال ‘ کھیلو انڈیا گیمز’ میں کھلاڑیوں کی حصہ داری بڑھ رہی ہے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ 2018 میں جب  کھیلو انڈیا گیمز کی شروعات ہوئی تھی، جب اس میں 3500 کھلاڑیوں نے حصہ لیاتھا، لیکن محض 3 برسوں میں کھلاڑیوں کی تعداد 6000سے زیادہ ہو گئی ہے۔ یعنی تقریباً دو گنی۔ اتنا ہی نہیں، صرف 3برسوں میں کھیلو انڈیا گیمز کے ذریعے 3200ہونہار بچے ابھرکرسامنے آئے ہیں۔ ان میں سے کئی بچے ایسے ہیں، جو محرومی اور غریبی کے درمیان پلے بڑھے ہیں۔ کھیلو انڈیا گیمز میں شامل ہونےوالے بچے ا ور ان کے والدین کے تحمل اور عزم مصمم کی کہانیاں ایسی ہیں، جو ہر ہندوستانی کو ترغیب دیں گی۔ اب گوہاٹی کی پورنیما منڈل کو ہی لے لیجئے۔ وہ خود گوہاٹی میونسپل کارپوریشن میں ایک صفائی ملازمہ ہیں، لیکن ان کی بیٹی مالویکا نے جہاں فُٹ بال میں دَم دکھایا، وہیں ان کے ایک بیٹے سُجیت نے کھوکھو میں ، تو دوسرے بیٹے پردیپ نے ہاکی میں آسام کی نمائندگی کی۔

کچھ ایسی ہی فخر سے بھردینے والی کہانی تملناڈو کے یوگا ننتھن کی ہے۔ وہ خود تو تمل ناڈو میں  بیڑی بنانے کا کام کرتے ہیں، لیکن ان کی بیٹی پورنا شری نے ویٹ لفٹنگ کا گولڈمیڈل حاصل کر کے ہر کسی کا دل جیت لیا۔ جب میں ڈیوڈ بیکھم کا نام لوں گا، تو آپ کہیں گے، مشہور بین الاقوامی فُٹ بالر، لیکن اب اپنے پاس بھی ایک ڈیوڈ بیکھم ہیں اور اس نے گوہاٹی کے یوتھ گیمز میں سونے کا تمغہ جیتا ہے، وہ بھی سائکلنگ مقابلے کے 200 میڑ کے اسپرنٹ ایونٹ میں ۔ میں  جب انڈمان –نکوبار گیاتھا، کار-نکوبار جزیرے کے رہنے والے ڈیوڈ کے سرسے بچپن میں ہی والدین کا سایہ اٹھ گیا تھا۔ چچا انہی فُٹ بالر بنانا چاہتے تھے، تو مشہور فٹبالر کے نام پر ان کا نام رکھ دیا، لیکن ان کا من تو سائیکلنگ میں بسا ہوا تھا۔ کھیلو انڈیا اسکیم کے تحت ان کا انتخاب بھی ہو گیا اور آج دیکھئے انہوں نے سائیکلنگ میں ایک نیا ریکارڈ بنا ڈالا۔

بھوانی کے پرشانت سنگھ کنہیا نے پول وال ایونٹ میں خود اپنا ہی نیشنل ریکارڈ بریک کیا ہے۔ 19 سال کے پرشانت ایک کسان کنبے سے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ پرشانت مٹی میں پول والٹ کی پریکٹس کرتے تھے۔ یہ جاننے کے بعد محکمہ کھیل نے ان کے کوچ کو دلی کے جواہر لال نہرو اسٹیڈیم میں اکیڈمی چلانے میں مدد کی اور آج پرشانت وہاں پر تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

ممبئی کی کرینہ شانکتا کی کہانی میں کسی بھی حالت میں ہار نہیں ماننے کا ایک جذبہ ہر کسی کو تحریک دلاتا ہے۔ کرینہ نے تیراکی میں  100 میٹر بریسٹ –اسٹروک مقابلے کی انڈر-17زمرے میں گولڈ میڈل جیتا اور  نیا نیشنل ریکارڈ بنایا۔ 10ویں زیر تعلیم کرینہ کے لئے ایک وقت ایسا بھی آیا، جب گھٹنے کے زخم کے سبب ٹریننگ چھوڑنی پڑی تھی، لیکن کرینہ اور ان کی ماں نے ہمت نہیں ہاری اورآج نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔ میں سبھی کھلاڑیوں کے روشن مستقبل کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی میں سبھی ہم وطنو کی طرف سے ان سب کے والدین کو بھی سلام کرتا ہوں، جنہوں نے غریبی کو بچوں کے مستقبل کا روڑا نہیں بننے  دیا۔ ہم سبھی جانتے ہیں کہ قومی کھیل مقابلوں کے ذریعہ جہاں کھلاڑیوں کو اپنا پیشن دکھانے کا موقع ملتا ہے، وہیں وہ دوسری ریاستوں کی ثقافت سے بھی روبرو ہوتے ہیں۔ اس لئے ہم نے کھیلو انڈیا یوتھ گیمز کی طرز پر ہی ہر سال کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز بھی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ساتھیو !آئندہ ماہ 22؍ فروری سے یکم مارچ تک اڈیشہ کے کٹک اور بھونیشور میں پہلے کھیلو انڈیا یونیورسٹی گیمز منعقد ہو رہے ہیں۔ اس میں حصہ لینے کے لئے 3000سے زیادہ کھلاڑی کوالیفائی کر چکے ہیں۔

میرے پیارے ہم وطنو! امتحان کا موسم آ چکا ہے، تو ظاہر ہے ، سبھی طلبا اپنی اپنی تیاریوں کو آخری شکل دینے میں جٹے ہوں گے۔ ملک کے کروڑوں طلبہ ساتھیوں کے ساتھ ‘ پریکشا پے چرچا’ کے تجربے کے بعد میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ ملک کا نوجوان خود اعتمادی سے لبریز ہے اور ہر چیلنج کے لئے تیار ہے۔

ساتھیو! ایک طرف امتحانات اور دوسری طرف سردی کا موسم۔ ان دونوں کے درمیان میری گزارش ہے کہ خود کوفِٹ ضرور رکھیں۔ تھوڑی بہت کسرت ضرور کریں، تھوڑا کھیلیں کودیں، کھیل کود فٹ رہنے کا بنیادی اصول ہے۔ ویسے میں ان دنوں دیکھتا ہوں کہ فٹ انڈیا کے تعلق سے کئی سارے ایونٹ  ہوتے ہیں۔ 18؍جنوری کو نوجوانوں نے ملک بھر میں سائیکلوتھن کا انعقاد کیا، جس میں شامل لاکھوں ہم وطنوں نے فٹنس کا پیغام دیا۔   ہمارا نیو انڈیا پوری طرح سے فٹ رہے، اس کے لئے ہر سطح پر جو کوشش دیکھنے کو مل رہی ہیں، وہ جوش و جذبے سے بھر دینے والی ہیں۔ گزشتہ برس نومبر میں شروع ہوئی ‘فٹ انڈیا اسکول’ کی مہم بھی اب رنگ لا رہی ہے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ اب تک 65000 سے زیادہ اسکولوں نے آن لائن رجسٹریشن کر کے ‘ فٹ انڈیا اسکول’ سرٹیفکیٹ حاصل کیا ہے۔ ملک کے باقی   سبھی اسکولوں سے بھی میری درخواست ہے کہ وہ فزیکل ایکٹیویٹی اور کھیلوں کو پڑھائی کے ساتھ جوڑ کر ‘ فٹ اسکول’ ضروربنیں۔ اس کے ساتھ ہی میں سبھی ہم وطنوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی معمولات زندگی میں فزیکل ایکٹیویٹی کو زیادہ سے زیادہ بڑھاوادیں۔ روز اپنے آپ کو یاد دلائیں کہ ہم فٹ، تو انڈیا فٹ۔

میرے پیارے ہم وطنو! 2 ہفتہ پہلے ہندوستان کے الگ الگ حصوں میں، الگ الگ تہواروں کی دھوم تھی۔ جب پنجاب میں لوہڑی، جوش و جذبے کی گرماہٹ پھیلا رہی تھی،  تمل ناڈو کی بہنیں اور بھائی  پونگل کا تہوار منا رہے تھے، ترو ولور کی جینتی منا رہے تھے،  آسام میں بیہو کا دلفریب نظارہ دیکھنے کو مل رہا تھا،  گجرات میں ہر طرف اُتّرائن کی دھوم اور پتنگوں سے بھرا آسمان تھا۔ ایسے وقت میں دلی ایک تاریخی واقعے کی گواہ بن رہی تھی۔ دلی میں ایک اہم معاہدے پر دستخط کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی تقریباً 25 سال  پرانے بُرورِیانگ پناہ گزیں  بحران کے ایک دردناک باب کا خاتمہ ہوا۔ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے۔ اپنے مصروف اوقات اور تہواروں کے موسم کے سبب آپ شائد اس تاریخی معاہدے کے بارے میں تفصیل سے نہیں جان پائے ہوں۔ اس لئے مجھے لگا کہ اس کے بارے میں من کی بات میں آپ سے اس کا ذکر ضرور کروں۔  یہ مسئلہ 90 کی دہائی کا ہے۔ 1997 میں نسلی کشیدگی کے سبب بُروریانگ درج فہرست قبائل کے لوگوں کو میزورم سے نکل تریپورہ  میں پناہ  لینی پڑی تھی.۔ ان پناہ گزینوں کو شمالی تریپورہ کے کنچن پور واقع عارضی کیمپوں میں رکھا گیا۔ یہ انتۃائی تکلیف دہ  ہے کہ گروریانگ برادری کے لوگوں نے پناہ گزینوں کی شکل میں اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ گنوا دیا۔ ان کے لئے کیمپوں میں زندگی گزارنے کا مطلب تھا، ہر بنیادی سہولت سے محروم  ہونا۔ 23 سال تک نہ گھر، نہ زمین، نہ خاندان کے  لوگوں کی بیماریوں کے لئے علاج کا انتظام اور نا ہی بچوں کی تعلیم کی فکر یا ان کے لئے سہولت۔ ذرا سوچئے کہ 23 سال تک کیمپوں میں مشکل حالات میں زندگی گزارنا ان کے لئے کتنا تکلیف دہ رہا ہوگا۔ زندگی کے ہر پل ، ہر دن کا ایک غیرمعینہ مستقبل کے ساتھ بڑھنا، کتنا تکلیف دہ رہا ہوگا۔ حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، لیکن اتنی بڑی تکلیف کا حل نہیں نکل پایا۔ تاہم اتنی تکلیف کے باوجود ہندوستانی آئین اور ثقافت کے تئیں ان کا بھروسہ غیر متزلزل رہا اور اسی بھروسے کا نتیجہ ہے کہ ان کی زندگی میں آج ایک نیا سویرا آیا ہے۔ معاہدے کے تحت  اب ان کے لئے با وقار زندگی جینے کی راہ کھل گئی ہے۔ آخر کا ر2020 کی نئی دہائی بروریانگ برادری کی زندگی میں ایک نئی امیداورامنگوں کی کرن لے کر آئی ہے۔ تقریباً 34 ہزار برو پناہ گزینوں کو تریپورہ میں بسایا جائے گا۔ اتنا ہی نہیں  ان کی بازآبادکاری اور جامع ترقی کے لئے مرکزی حکومت تقریباً 600کروڑروپے کی مدد بھی دے گی۔ ہر ایک بے گھر ہوئے کنبےکو زمین دی جائے گی۔ گھر بنانے میں ان کی مدد کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ہی ان کے راشن کا انتظام بھی  کیا جائے گا۔ وہ اب مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی فلاح و بہبود سے  متعلق اسکیموں کا فائدہ اٹھا سکیں گے۔ یہ معاہدہ دونوں ریاستوں کے عوام کی رضا مندی اور نیک خواہشات سے ہی ممکن ہوا ہے۔ اس کے لئے میں دونوں ریاستوں کی عوام کا ، وہاں کے وزرائے اعلیٰ کا خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ یہ معاہدہ ہندوستانی ثقافت میں شامل رحم اور فیاضی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سبھی کو اپنا مان کر چلنا اور اتحاد کے ساتھ رہنا اس مقدس سرزمین کے سنسکاروں میں رچا بسا ہے۔ ایک بار پھر ان ریاستوں کے باشندوں اور بروریانگ برادری کے لوگوں کو میں خاص طو رپر مبارکباد دیتا ہوں۔

میرے ہم وطنو! اتنے بڑے کھیلو انڈیا گیمز کا کامیاب انعقاد کرنے والے آسام میں ایک اور بڑا کا م ہو اہے۔ آپ نے بھی نیوز میں دیکھا ہوگا کہ ابھی کچھ دنوں پہلے آسام میں 8 الگ-الگ ملیٹینٹ گروپوں کے 644 لوگوں نے اپنے ہتھیاروں کے ساتھ خودسپردگی کی، جو پہلے تشدد کی راہ پر چلے گئے تھے، انہوں نے اپنا یقین امن میں جتایا اور ملک کی ترقی میں شراکت دار بننے کا فیصلہ کیا ہے۔ قومی دھارے میں واپس آئے ہیں۔ گزشتہ برس تریپور ہ میں بھی 80 سے زیادہ لوگ تشدد کا راستہ چھوڑ کر قومی دھارے میں شام ہوئے۔ جنہوں نے یہ سوچ کر ہتھیار اٹھا لئے تھے کہ تشدد سے مسائل  کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ یقین پختہ ہوا ہے کہ امن اور اتحاد ہی کسی بھی تنازعے کو حل کرنے کا واحد راستہ ہے۔ ہم وطنو کو یہ جان کر بہت خوشی ہوگی کہ شمال-مشرق میں شورش بہت حد تک کم ہوئی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ  یہ ہے کہ اس علاقےسے متعلق ہر ایک معاملے کو امن کے ساتھ ، ایمانداری سے، بات چیت کے ذریعے حل کیا جا رہا ہے۔ ملک کے کسی بھی کونے میں اب بھی تشدد اور ہتھیار کے زور پر مسائل کا حل تلاش کرنے والے لوگوں سےآج اس یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ واپس لوٹ آئیں۔ مسائل کو پُرامن طریقے سے حل کرنے میں اپنی اور اس ملک کی صلاحیتوں پر بھروسہ رکھیں۔ ہم 21ویں صدی میں ہیں، جو علم و سائنس او ر جمہوریت  کا دور ہے۔ کیا آپ نے کسی ایسی جگہ کے بارے میں سنا ہے، جہاں تشدد سے زندگی بہتر ہوئی ہو۔ کیا آپ نےکسی ایسی جگہ کےبارے میں سنا ہے، جہاں امن و ہم آہنگی زندگی کے لئے مصیبت بنے ہوں۔ تشدد کسی  مسئلے کا حل نہیں کرتا۔ دنیا کے کسی مسئلے کا حل کوئی دوسرا مسئلہ پیدا کرنے سے نہیں ، بلکہ زیادہ سے زیادہ حل ڈھونڈ کر ہی ہو سکتا ہے۔ آئیے ہم سب مل کر ایک ایسے نئے بھارت کی تعمیر میں جُٹ جائیں، جہاں امن، ہر سوال کے جواب کی بنیاد ہو۔اتحاد ہر مسئلے کے حل کی کوشش میں ہو اور بھائی چارہ ہر تقسیم اور  بٹوارے کی کوشش کو نا کام کرے۔

میرے پیارے ہم وطنو، آج یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر مجھے ‘گگن یان’ کے بارے میں بتاتے ہوئےانتہائی خوشی ہورہی ہے۔ ملک ، اس سمت میں ایک قدم اور آگے کی طرف گامزن ہے۔ 2022 میں، ہماری آزادی کے 75 سال پورے ہونے والے ہیں اور اس موقع پر ہمیں‘ گگن یان مشن’ کے ساتھ ایک بھارتی  شہری کو خلاء میں لے جانے کے اپنے عہد کو پورا کرنا ہے۔ ‘ گگن یان مشن’ 21ویں صدی میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں بھارت کی ایک تاریخی حصولیابی ہوگا۔ نئے بھارت کیلئے، یہ ایک ‘میل کا پتھر’ ثابت ہوگا۔

ساتھیو، آپ ک وپتہ ہی ہوگا کہ اس مشن میں ایسٹرناٹ یعنی خلانوردی کیلئے 4 امیدواروں کو منتخب کر لیا گیا ہے۔ یہ چاروں نوجوان بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ہیں۔ یہ ہونہار نوجوان، بھارت کی ہنرمندی، صلاحیت، اہلیت، ہمت اور سپنوں  کی علامت ہیں۔ ہمارے چاروں دوست، اگلے کچھ ہی دنوں میں تربیت کیلئے روس جانے والے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ بھارت اور روس کے درمیان دوستی اور تعاون کا ایک اور سنہرا باب بنے گا۔ انہیں ایک سال سے زیادہ وقت تک تربیت دی جائے گی۔ اس کے بعد ملک کی امیدوں اور توقعات کی پرواز کو خلاء تک لے جانے کا دارومدار، انہیں میں سے کسی ایک پر ہوگا۔ آج یوم جمہوریہ کے مبارک موقع پر ان چاروں نوجوانوں اور اس مشن سے مربوط بھارت اور روس کے سائنسدانوں اور انجینئروں کو میں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

میرے عزیز ہم وطنو،

گزشتہ مارچ میں ایک ویڈیو، میڈیا، سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنا ہوا تھا۔ موضوع یہ تھا کہ کیسے 107 سال کی بزرگ ماں، راشٹر پتی بھون کی تقریب میں  پروٹوکول توڑ کر صدر جمہوریہ ہند کو دعائیں دیتی ہے۔ یہ خاتون تھیں، سالو مردا تھمکّا، جو کرناٹک میں ورِکش ماتا کے نام سے معروف ہیں اور وہ تقریب تھی پدم انعامات کی۔ بہت ہی عام قسم کے پس منظر سے آنے والی تھمکا کے غیر معمولی تعاون کو ملک نے جانا، سمجھا اور احترام دیا۔ انہیں پدم شری کا اعزاز مل رہا تھا۔

ساتھیو! آج بھارت ان عزیم شخصیات کو لے کر فخر کا احساس کرتا ہے۔ زمین سے وابستہ لوگوں کو اعزاز سے نواز کر فخر کا احساس کرتا ہے۔ ہر سال کی طرح کل شام کو پدم انعامات کا اعلان کیا گیا۔ میرا اصرار ہے کہ آپ سب ان لوگوں کےبارے میں ضرور پڑھیں۔ ان کے تعاون کے بارے میں ذکر کریں۔ 2020 کے پدم انعامات کے لئے اس سال 46 ہزار سے زیادہ نامزدگیاں حاصل ہوئی ہیں۔ یہ تعداد 2014 کے مقابلے 20گنا سے بھی زائد ہے۔ یہ اعداد و شمار عوام الناس کے اس اعتماد کا مظہر ہے کہ پدم انعامات اب عوامی انعامات بن چکے ہیں۔ آج پدم اعزاز سے متعلق سبھی عمل آن لائن ہیں۔ پہلے جو فیصلے محدود لوگوں کے درمیان ہوتے تھے، وہ آج پوری طرح سےعوا م پر منحصر ہے۔ ایک طرح سے کہیں، تو پدم اعزازات کے تئیں ملک میں ایک نیا بھروسہ اور احترام پیدا ہوا ہے۔ اب اعزاز پانےوالوں میں سے کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں، جوسخت جدو جہدکے بعد زمین سے اٹھے ہیں۔ محدود وسائل کی رکاوٹوں اور اپنے آس پاس کی سخت ترین مایوسی کو توڑ کر آگے بڑھے ہیں۔ در حقیقت ، اس کی خدمت کے بے غرض اور بے لوث جذبے، ہم سب کو متاثرکرتے ہیں۔ میں ایک بار پھر تمام پدم ایوارڈ جیتنے والوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوںاور آپ سبھی سے ان کے بارے میں پڑھنے کیلئے اور مزید معلومات کیلئے خاص طور سے اپیل کرتا ہوں۔  ان کی زندگی کی غیر معمولی کہانیاں، معاشرے کو حقیقی معنوں میں متاثر کریں گی۔

میرے پیارے ہم وطنو! ایک بار پھر یوم جمہوریہ کی بہت بہت مبارکباد۔ یہ پوری دہائی ، آپ کی زندگی میں ، ہندوستان کیلئے ، نئے عہد والا بنےاور دنیا کو ہندوستان سے جو توقعات ہیں،  ان توقعات کو پورا کرنے کی اہلیت، ہندوستان حاصل کر کے رہے۔ یقین  کے ساتھ آئیے  ہم نئی دہائی کا آغاز کرتے ہیں۔ نئے عزائم  کے ساتھ ، ماں  بھارتی کیلئے جُٹ جاتے ہیں۔

 بہت بہت شکریہ! نمسکار

۰۰۰۰۰۰۰۰

 (م ن- م م  -ک  ا)

U- 369



(Release ID: 1600732) Visitor Counter : 172