وزیراعظم کا دفتر
لوک سبھا میں وندے ماترم کے 150 سال پر خصوصی بحث کے دوران وزیر اعظم کے خطاب کا متن
प्रविष्टि तिथि:
08 DEC 2025 4:30PM by PIB Delhi
محترم جناب صدر،
میں آپ کا اور ایوان کے تمام معزز اراکین کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہم نے اس اہم موقع پر ایک اجتماعی بحث کا راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ منتر، وہ جے گھوش جس نے ملک کی آزادی کی تحریک کو توانائی بخشی، تحریک دی، قربانی اور تپسیا کا راستہ دکھایا، اُس ’وندے ماترم‘ کو اس مقدس ایوان میں یاد کرنا ہم سب کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے اور ہمارے لیے یہ فخر کی بات ہے کہ وندے ماترم کے 150 برس کے موقع کے ہم گواہ بن رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا دور ہے جو ہمارے سامنے تاریخ کے بے شمار واقعات کو لے کر آتا ہے۔ اگر ہم سب مل کر اس کا صحیح استعمال کریں تو یہ بحث نہ صرف اس ایوان کی عزم و وابستگی کو ظاہر کرے گی بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی، نسل در نسل، یہ ایک درس کا باعث بن سکتی ہے ۔
صدرِ محترم،
یہ ایک ایسا دور ہے جب تاریخ کے بہت سے محرک ابواب دوبارہ ہمارے سامنے روشن ہوئے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہم نے اپنے آئین کے 75 سال فخر کے ساتھ منائے ہیں۔ آج ملک سردار ولبھ بھائی پٹیل اور بھگوان بیرسا منڈا کی 150ویں جینتی بھی منا رہا ہے اور ابھی کچھ عرصہ قبل ہم نے گرو تیغ بہادر جی کا 350واں شہیدی دیوس بھی منایا ہے اور آج ہم وندے ماترم کے 150 سال کے موقع پر ایوان کی ایک اجتماعی توانائی کو محسوس کرنے کی ایک کوشش کر رہے ہیں۔ وندے ماترم کے 150 سال کا یہ سفر بہت سے مراحل سے گزر ا ہے۔
لیکن صدرِ محترم،
جب وندے ماترم کو 50 سال ہوئے، اس وقت ملک غلامی میں جینے پر مجبور تھا اور جب وندے ماترم کے 100 سال پورے ہوئے، تب ملک ایمرجنسی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا۔ جب وندے ماترم کے 100 سال کا انتہائی اہم موقع تھا، اسی وقت بھارت کے آئین کا گلا گھونٹ دیا گیا تھا۔ جب وندے ماترم 100 سال کا ہوا، تب وطن سے محبت کے جذبے سے جینے اور مرنے والے لوگوں کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دیا گیا تھا۔ وہی وندے ماترم جس کے گیت نے ملک کو آزادی کی توانائی دی تھی، اس کے 100 سال پورے ہونے پر بدقسمتی سے ہماری تاریخ میں ایک سیاہ دور سامنے آیا۔ ہم جمہوریت کے (غیر واضح) گروہ میں تھے۔
صدرِ محترم،
150 سال اس عظیم باب، اس شان و شوکت کو دوبارہ قائم کرنے کا ایک موقع ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نہ ایوان کو اور نہ ہی ملک کو اس موقع کو جانے دینا چاہیے۔ یہی وندے ماترم ہے جس نے 1947 میں ملک کو آزادی دلائی۔ آزادی کی جدوجہد کی جذباتی قیادت اسی وندے ماترم کے جے گھوش میں تھی۔
صدرِ محترم،
آپ کے سامنے آج جب میں وندے ماترم کے 150 سال پورے ہونے کے موقع پر بحث کے آغاز کے لیے کھڑا ہوا ہوں، یہاں کوئی حکومت و اپوزیشن نہیں ہے، کیونکہ یہاں بیٹھے ہم سب کے لیے دراصل یہ اظہار تشکر ادا کرنے کا موقع ہے۔ جس وندے ماترم کی وجہ سے مقصد پر یقین رکھنے والے لوگوں نے آزادی کی تحریک چلائی اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہم سب یہاں بیٹھے ہیں۔ اسی لیے ہم تمام اراکینِ پارلیمنٹ، ہم تمام عوامی نمائندوں کے لیے وندے ماترم کے ہم پر احسان کو قبول کرنے کا یہ ‘پوتر’ موقع ہےاور اسی سے ہمیں تحریک لے کر، جس وندے ماترم کی روح نے ملک کی آزادی کی جنگ لڑی، شمال، جنوب، مشرق، مغرب—پورا ملک ایک آواز میں وندے ماترم کہہ کر آگے بڑھا، ایک بار پھر یہ موقع ہے کہ آئیں، ہم سب مل کر چلیں، ملک کو اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ آزادی کے متوالوں نے جو خواب دیکھے تھے، انہیں پورا کرنے کے لیے وندے ماترم کے 150 سال ہم سب کی تحریک بنے، ہم سب کی توانائی بنے اور ملک خود کفیل بنے ، 2047 تک ملک کو ہم وکست بھارت بنا کر ہم رہیں۔اس عزم کو دہرانے کے لیے وندے ماترم ہمارے لیے بہت بڑا موقع ہے۔
صدرِ محترم،
دادا طبیعت تو ٹھیک ہے نا! نہیں، کبھی کبھی اس عمر میں ایسا ہو جاتا ہے۔
صدرِ محترم،
وندے ماترم کے اس سفر کا آغاز بنکیم چندر جی نے 1875 میں کیا تھا اور یہ گیت ایسے وقت لکھا گیا جب 1857 کی آزادی کی جنگ کے بعد انگریز سلطنت بوکھلائی ہوئی تھی۔ بھارت پر مختلف قسم کے دباؤ ڈالے جا رہے تھے، مختلف ظلم کیے جا رہے تھے اور بھارت کے لوگوں کو انگریزوں کی طرف سے مجبور کیا جا رہا تھا۔ اُس وقت ان کا قومی گیت،‘‘God Save The Queen’’، اس کو بھارت میں ہر گھر تک پہنچانے کی سازش کی جا رہی تھی۔ ایسے وقت میں بنکیم دا نے چیلنج دیا اور اینٹ کا جواب پتھر سے دیا اور اسی سے وندے ماترم کاجنم ہوا۔ چند سال بعد، 1882 میں جب انہوں نے ‘‘آنند مٹھ’’ لکھا، تو اس گیت کو اس میں شامل کیا گیا۔
صدرِ محترم،
وندے ماترم نے اُس نظریے کو دوبارہ زندہ کیا تھا، جو ہزاروں سال سے بھارت کی رگ رگ میں بسا ہوا تھا۔ اسی جذبے کو، اسی اقدار کو، اسی ثقافت کو، اسی روایت کو انہوں نے انتہائی خوبصورت الفاظ میں، بہترین احساس کے ساتھ، وندے ماترم کی شکل میں ہم سب کو ایک بہت بڑی سوغات دی تھی۔ وندے ماترم صرف سیاسی آزادی کی جنگ کا نعرہ نہیں تھا، صرف یہ کہ ہم انگریزوں سے آزاد ہو جائیں اور اپنی راہ پر چلیں—وندے ماترم اس حد تک محدود نہیں تھا، یہ اس سے کہیں آگے تھا۔ آزادی کی جنگ اس مادرِ وطن کو آزاد کرنے کی بھی لڑائی تھی۔ اپنی ماں بھارتی کو ان زنجیروں سے آزاد کرانے کی ایک پوتر جنگ تھی اور اگر ہم وندے ماترم کے پس منظر اور اس کی اقدار کو دیکھیں، تو یہاں ویدک دور سے ایک بات بار بار ہمارے سامنے آتی ہے۔ جب وندے ماترم کہا جاتا ہے، تو وہی ویدک دور کی بات ہمیں یاد آتی ہے۔ ویدک دور میں کہا گیا ہے:‘‘ "माता भूमिः पुत्रोऽहं पृथिव्याः ’’ یعنی یہ دھرتی میری ماں ہے اور میں اس دھرتی کا بیٹا ہوں۔
صدرِ محترم،
یہی وہ نظریہ ہے جسے پر بھو شری رام نے بھی لنکا کی شان و شوکت کو چھوڑتے ہوئے کہا تھا:‘‘ जननी जन्मभूमिश्च स्वर्गादपि गरीयसी ’’ ۔ وندے ماترم، یہی عظیم ثقافتی روایت کا ایک جدید روپ ہے۔
محترم صدر،
جب بنکیم دا نے وندے ماترم کی تخلیق کی، تو فطری طور پر یہ آزادی کی تحریک کا نعرہ بن گیا۔ مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب—وندے ماترم ہر بھارتی کا عزم بن گیا۔ اسی لیے وندے ماترم کے ستائش میں لکھا گیا:
“मातृभूमि स्वतंत्रता की वेदिका पर मोदमय, मातृभूमि स्वतंत्रता की वेदिका पर मोदमय, स्वार्थ का बलिदान है, ये शब्द हैं वंदे मातरम, है सजीवन मंत्र भी, यह विश्व विजयी मंत्र भी, शक्ति का आह्वान है, यह शब्द वंदे मातरम। उष्ण शोणित से लिखो, वक्तस्थलि को चीरकर वीर का अभिमान है, यह शब्द वंदे मातरम।”
محترم صدر،
چند دن قبل، جب ‘وندے ماترم 150’ کا آغاز ہو رہا تھا، تو میں نے اس تقریب میں کہا تھا کہ وندے ماترم ہزاروں سال کی ثقافتی توانائی بھی تھی۔ اس میں آزادی کا جذبہ بھی تھا اور آزاد بھارت کا وژن بھی تھا۔ انگریزوں کے اُس دور میں ایک فیشن بن گئی تھی کہ بھارت کو کمزور، ناکارہ، سست اور بے عمل کے طور پر پیش کیا جائے، یعنی جتنا ممکن ہو سکے بھارت کو نیچا دکھایا جائے اور اس میں یہاں بھی، جنہوں نے تیار کیا تھا، وہ لوگ بھی وہی زبان بول رہے تھے۔ تب بنکیم دا نے اسی احساس کمتری کو جھنجھوڑنے اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے، وندے ماترم کے بھارت کی طاقتور شکل کو ظاہر کرتے ہوئے لکھا تھا:
त्वं हि दुर्गा दशप्रहरणधारिणी,कमला कमलदलविहारिणी, वाणी विद्यादायिनी। नमामि त्वां नमामि कमलाम्, अमलाम् अतुलां सुजलां सुफलां मातरम्॥ वन्दे मातरम्॥
یعنی بھارت ماتا علم اور خوشحالی کی دیوی بھی ہیں اور دشمنوں کے سامنے ہتھیار اٹھانے والی چنڈی بھی ہیں۔
صدرِ محترم،
یہ الفاظ، یہ جذبہ، یہ تحریک، غلامی کی مایوسی میں ہم بھارتیوں کو حوصلہ دینے والے تھے۔ ان جملوں نے تب کروڑوں ملک والوں کو یہ احساس دلایا کہ یہ جنگ کسی زمین کے ٹکڑے کے لیے نہیں ہے، یہ جنگ صرف اقتدار کی کرسی پر قبضہ کرنے کے لیے نہیں ہے، بلکہ یہ غلامی کی زنجیروں کو آزاد کر کے ہزاروں سال کی عظیم روایتوں، عظیم ثقافت اور شاندار تاریخ کو دوبارہ جنم دینے کے عزم کی جنگ ہے۔
محترم صدر
وندے ماترم، جس کا ہر فرد سے گہرا تعلق تھا، یہ ہماری آزادی کی تحریک کی ایک طویل داستان کو ظاہر کرتا ہے۔
صدرِ محترم،
جب بھی کسی ندی کا ذکر ہوتا ہے، چاہے وہ سندھ ہو، سرسوتی ہو، کاویری ہو، گوداوری ہو، گنگا ہو، جمنا ہو، اُس ندی کے ساتھ ایک ثقافتی سلسلہ، ایک ترقی کا سفر اور عوامی زندگی کا سفر بھی جُڑ جاتا ہے۔ لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ آزادی کی جنگ کے ہر مرحلے میں یہ مکمل سفر وندے ماترم کے جذبات سے گزرتا تھا۔ اس کے کناروں پر جو پھلتے پھولتے جذبات تھے، ایسا کلام شاید دنیا میں کہیں اور دستیاب نہ ہو۔
محترم صدر،
انگریز سمجھ چکے تھے کہ 1857 کے بعد بھارت میں طویل عرصے تک ٹکا رہنا ان کے لیے مشکل ہوگا اور جس طرح وہ اپنے خواب لے کر آئے تھے، انہیں لگا کہ جب تک بھارت کو تقسیم نہیں کریں گے، جب تک بھارت کو ٹکڑوں میں نہیں بانٹیں گے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑائیں گے نہیں، تب تک یہاں حکمرانی مشکل ہے۔ اسی لیے انگریزوں نے ‘‘بانٹو اور راج کرو’’ کی پالیسی اختیار کی اور اس کے لیے انہوں نے بنگال کو اپنی تجربہ گاہ بنایا، کیونکہ انگریز بھی جانتے تھے کہ ایک وقت تھا جب بنگال کی علمی طاقت ملک کو سمت دیتی تھی، ملک کو قوت دیتی تھی اور ملک کو تحریک دیتی تھی۔ اسی لیے انگریز چاہتے تھے کہ بنگال کی یہ طاقت پورے ملک کی قوت کا ایک مرکز ہو۔اس لیے انگریزوں نے سب سے پہلے بنگال کو تقسیم کرنے کی سمت میں کام کیا اور انگریزوں کا ماننا تھا کہ ایک بار بنگال ٹوٹ گیا تو یہ ملک بھی ٹوٹ جائے گا اور وہ یورپی حکمرانی قائم رکھ سکیں گے، یہی ان کی سوچ تھی۔ 1905 میں انگریزوں نے بنگال کی تقسیم کی، لیکن جب انگریزوں نے 1905 میں یہ جرم کیا، تو وندے ماترم چٹان کی طرح کھڑا رہا۔ بنگال کی یکجہتی کے لیے وندے ماترم گلی گلی کا نعرہ بن گیا اور یہی نعرہ تحریک دیتا رہا۔ انگریزوں نے بنگال کی تقسیم کے ساتھ ہی بھارت کو کمزور کرنے کے مزید بیج بو دیے، لیکن وندے ماترم ایک آواز، ایک دھاگے کے طور پر انگریزوں کے لیے چیلنج بن گیا اور ملک کے لیے چٹان ثابت ہوا۔
صدرِ محترم،
بنگال کی تقسیم تو ہو گئی، لیکن ایک بہت بڑا سودیشی تحریک پھوٹ پڑی اور تب وندے ماترم ہر طرف گونج رہا تھا۔ انگریز سمجھ گئے تھے کہ بنگال کی زمین سے نکلا یہ بنکیم دا کا جذبہ، بنکیم بابو بولیں—اچھا، تھینک یو، تھینک یو، تھینک یو، آپ کے جذبات کی میں قدر کرتا ہوں۔ بنکیم بابو نے جو جذبہ دنیا کے لیے تیار کیا، اس کے گیت کے ذریعے انہوں نے انگریزوں کو ہلا دیا اور انگریزوں نے دیکھا کہ کتنی کمزوری ہوگی اور اس گیت کی طاقت کتنی ہوگی اور انہیں مجبور ہو کر قانونی طور پر اس پر پابندی لگانا پڑی۔ گانے پر سزا، چھاپنے پر سزا، اتنا ہی نہیں بلکہ وندے ماترم کے الفاظ بولنے پر بھی سخت سزا مقرر کی گئی۔ہمارے ملک کی آزادی کی تحریک میں سیکڑوں خواتین نے قیادت کی، بہت سی خواتین نے تعاون دیا۔ ایک واقعہ کا میں ذکر کرنا چاہوں گا: باریسال میں وندے ماترم گانے پر سب سے زیادہ ظلم ہوئے۔ وہ باریسال آج بھارت کا حصہ نہیں ہے اور اُس وقت باریسال کی ہماری مائیں، بہنیں، بچے میدان میں اترے تھے، وندے ماترم کے خوداعتمادی کے لیے، اس پابندی کے خلاف لڑنے کے لیے۔ تب باریسال کی یہ بہادر خاتون، محترمہ سروجنی گھوش، جنہوں نے اس زمانے میں وہاں کے جذبات دیکھے، کہا کہ وندے ماترم پر لگائی گئی یہ پابندی جب تک نہیں ہٹتی، میں اپنی چوڑیاں جو پہنتی ہوں، وہ اتار دوں گی۔ اُس زمانے میں بھارت میں چوڑی اتارنا یعنی عورت کی زندگی کا ایک بہت بڑا واقعہ سمجھا جاتا تھا، لیکن ان کے لیے وندے ماترم وہ جذبہ تھا۔ انہوں نے اپنی سونے کی چوڑیاں، جب تک وندے ماترم پر پابندی نہیں ہٹتی، دوبارہ نہیں پہنوگی، ایسا بڑا ورت لے لیا تھا۔ہمارے ملک کے بچے بھی پیچھے نہیں رہے، ان پر کوڑے کی سزا ہوتی تھی، چھوٹی عمر میں جیل میں بند کر دیا جاتا تھا اور ان دنوں خاص طور پر بنگال کی گلیوں میں وندے ماترم کے لیے صبح کی ریلیاں نکلتی تھیں۔ یہ انگریزوں کی ناک میں دم کر رہی تھیں۔ اُس وقت ایک گیت گونجتا تھا بنگال میں:
जाए जाबे जीवोनो चोले, जाए जाबे जीवोनो चोले, जोगोतो माझे तोमार काँधे वन्दे मातरम बोले (In Bengali)
یعنی اے ماں، اگر دنیا میں تمہارے کام کے لیے زندگی بھی گزر جائے اور وندے ماترم کہتے ہوئے یہ زندگی بھی گذرے، تو وہ زندگی بھی کامیاب ہے۔ یہ گیت بچوں کے حوصلے کی آواز تھی اور ان بچوں کے حوصلے نے ملک کو حوصلہ دیا۔ بنگال کی گلیوں سے نکلی یہ آواز ملک کی آواز بن گئی۔1905 میں ہرِت پور کے ایک گاؤں میں بہت چھوٹے بچے جب وندے ماترم کے نعرے لگا رہے تھے، انگریزوں نے بے رحمی سے ان پر کوڑے برسائے۔ ہر طرح سے زندگی اور موت کے درمیان لڑنے پر مجبور کیا گیا ، اتنا ظلم ہوا تھا۔ 1906 میں ناگپور میں نیل سٹی ہائی اسکول کے بچوں پر بھی یہی ظلم ہوئے۔ گناہ صرف یہ تھا کہ وہ ایک آواز میں وندے ماترم بول رہے تھے۔ انہوں نے وندے ماترم کے لیے، اس نعرے کی عظمت کو اپنی طاقت سے ثابت کرنے کی کوشش کی۔ہمارے بہادر سپوت بغیر کسی خوف کے پھانسی کے تخت پر چڑھتے اور آخری سانس تک وندے ماترم، وندے ماترم، وندے ماترم کہتے رہتے تھے۔ خودی رام بوس، مدن لال ڈھینگرا، رام پرساد بسمِل، اشفاق اللہ خان، روشَن سنگھ، راجندر ناتھ لاہیڑی، رام کرشن وشواس-بے شمار لوگوں نے وندے ماترم کہتے کہتے پھانسی کے پھندے کو اپنے گلے کا ہار بنایا۔ لیکن دیکھیں، یہ مختلف جیلوں میں ہوتا تھا، مختلف علاقوں میں ہوتا تھا، عمل کرنے والے چہرے مختلف تھے، لوگ مختلف تھے، جن پر ظلم ہو رہا تھا، ان کی زبان بھی مختلف تھی، لیکن ایک بھارت، سریشٹھ بھارت، ان سب کا نعرہ ایک ہی تھا: وندے ماترم۔چٹ گاؤں کی سوراج کرانتی میں جو نوجوانوں نے انگریزوں کو چیلنج دیا، وہ بھی تاریخ کے چمکتے ہوئے نام ہیں: ہرگوپال کول، پلن وکاش گھوش، تریپور سین-ان سب نے ملک کے لیے اپنی قربانی دی۔ ماسٹر سوری سین کو 1934 میں جب پھانسی دی گئی، تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کو ایک خط لکھا، اور اس خط میں ایک ہی لفظ کی گونج تھی اور وہ لفظ تھا: وندے ماترم۔
صدرِ محترم،
ہمیں بطور شہری فخر ہونا چاہیے، دنیا کی تاریخ میں کہیں بھی ایسا کوئی کلام نہیں ہو سکتا، ایسا کوئی جذباتی گیت نہیں ہو سکتا جو صدیوں تک ایک مقصد کے لیے لاکھوں لوگوں کو متاثر کرے اور اپنی زندگی قربان کرنے کے لیے نکل کھڑے ہوں۔ دنیا میں ایسا کوئی جذباتی گیت نہیں ہو سکتا، جو وندے ماترم ہے۔ پوری دنیا کو معلوم ہونا چاہیے کہ غلامی کے دور میں بھی ہمارے یہاں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو اس قسم کے جذباتی گیت کی تخلیق کر سکتے تھے۔ یہ دنیا کے لیے ایک عجوبہ ہے۔ ہمیں فخر سے کہنا چاہیے، تو دنیا بھی اسے منانا شروع کرے گی۔یہ ہماری آزادی کا نعرہ تھا، یہ قربانی کا نعرہ تھا، یہ توانائی کا نعرہ تھا، یہ سادگی اور پاکیزگی کا نعرہ تھا، یہ خود کو وقف کردینے کا نعرہ تھا، یہ تیاگ اور تپسیاکا نعرہ تھا، یہ مشکلات کو برداشت کرنے کی طاقت دینے کا نعرہ تھا اور وہ نعرہ وندے ماترم تھا۔اسی لیے گرو دیو رویندر ناتھ ٹیگور نے لکھا تھا، انہوں نے لکھا تھا:
एक कार्ये सोंपियाछि सहस्र जीवन—वन्दे मातरम् (In Bengali)
یعنی ایک رشتے میں بندھے ہوئے ہزاروں دل، ایک ہی کام میں وقف ہزاروں زندگی، وندے ماترم۔ یہ عبارت رویندر ناتھ ٹیگور جی نے لکھی تھی۔
محترم صدر،
اسی دور میں وندے ماترم کی ریکارڈنگ دنیا کے مختلف حصوں تک پہنچ گئی اور لندن میں جو انقلابیوں کے لیے ایک طرح کا پوتر مقام بن گیا تھا، وہ لندن کا انڈیا ہاؤس، جہاں ویر ساورکر جی نے وہاں وندے ماترم گیت گایا اور وہ گیت بار بار وہاں گونجتا رہا۔ ملک کے لیے جینے مرنے والوں کے لیے یہ ایک بہت بڑا تحریک کا موقع تھا۔اسی وقت وپن چندر پال اور مہارشی اروِند گھوش نے اخبار نکالا اور اس اخبار کا نام بھی انہوں نے وندے ماترم رکھا۔ یعنی ہر راستے پر انگریزوں کی نیند حرام کرنے کے لیے وندے ماترم کافی تھا اور اسی لیے انہوں نے یہ نام رکھا۔ جب انگریزوں نے اخبارات پر پابندی لگا دی، تو میڈم بھیکاجی کاما نے پیرس میں ایک اخبار نکالا اور اس کا نام بھی انہوں نے وندے ماترم رکھا۔
صدرِ محترم،
وندے ماترم نے بھارت کو خود انحصاری کا راستہ بھی دکھایا۔ اُس وقت ماچس کی ڈبیہ، میچ باکس اور یہاں تک کہ بڑے بڑے جہازوں پر بھی وندے ماترم لکھنے کی روایت بن گئی اور یہ بیرونی کمپنیوں کو چیلنج دینے کا ایک ذریعہ بن گیا، یعنی یہ سودیشی کا ایک منتر بن گیا۔ آزادی کا نعرہ سودیشی کے منتر کی طرح پھیلتا گیا۔
صدرِ محترم،
میں ایک اور واقعے کا ذکر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ 1907 میں جب وی او چدمبرم پلئی نے سودیشی کمپنی کا جہاز بنایا، تو اُس پر بھی وندے ماترم لکھا ہوا تھا۔ قومی شاعر سبرمنیم بھارتی نے وندے ماترم کو تمل میں ترجمہ کیا اور ستائش کے گیت لکھے۔ اُن کے کئی تمل حب الوطنی کے نغموں میں وندے ماترم کی عقیدت واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ شاید سب لوگوں کو معلوم ہو کہ تمل ناڈو کے لوگوں کو پتا ہو، لیکن سب کو یہ بات معلوم نہیں کہ بھارت کا دھوج گیت وی سبرمنیم بھارتی نے ہی لکھا تھا۔اُس دھوج گیت کی وضاحت، جس پر وندے ماترم لکھا ہوا تھا، تمل میں اس دھوج گیت کا عنوان تھا:
Thayin manikodi pareer, thazhndu panintu Pukazhnthida Vareer! (In Tamil)
یعنی دیش پریمیوں، درشن کرلو،سرجھکا کر سلام کرلو، میری ماں کے دیویہ دھوج کا وندن کرلو۔
صدرِ محترم،
میں آج اس ایوان میں وندے ماترم کے بارے میں مہاتما گاندھی کے جذبات بھی بیان کرنا چاہتا ہوں۔ جنوبی افریقہ سے شائع ہونے والی ایک ہفتہ وار رسالہ، ‘‘انڈین اوپینین’’ میں مہاتما گاندھی نے 2 دسمبر 1905 کو جو لکھا، میں اسے اقتباس کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔
مہاتما گاندھی نے لکھا:
“गीत वंदे मातरम जिसे बंकिम चंद्र ने रचा है, पूरे बंगाल में अत्यंत लोकप्रिय हो गया है, स्वदेशी आंदोलन के दौरान बंगाल में विशाल सभाएं हुईं, जहां लाखों लोग इकट्ठा हुए और बंकिम का यह गीत गाया।”
گاندھی جی آگے لکھتے ہیں کہ یہ بہت اہم ہے، وہ لکھتے ہیں کہ یہ 1905 کی بات ہے۔ انہوں نے لکھا:
“यह गीत इतना लोकप्रिय हो गया है, जैसे यह हमारा नेशनल एंथम बन गया है। इसकी भावनाएं महान हैं और यह अन्य राष्ट्रों के गीतों से अधिक मधुर है। इसका एकमात्र उद्देश्य हम में देशभक्ति की भावना जगाना है। यह भारत को मां के रूप में देखता है और उसकी स्तुति करता है।”
صدرِ محترم،
جو وندے ماترم 1905 میں مہاتما گاندھی کے لیے قومی گیت کے طور پر نظر آتا تھا، وہ ملک کے ہر کونے میں، ہر فرد کی زندگی میں، جو بھی ملک کے لیے جاگتا اور بیدار رہتا تھا، اُن سب کے لیے وندے ماترم کی طاقت بہت بڑی تھی۔ وندے ماترم اتنا عظیم تھا اور اس کا جذبہ اتنا بلند تھا، تو پھر پچھلی صدی میں اس کے ساتھ اتنا بڑا ظلم کیوں ہوا؟ وندے ماترم کے ساتھ دھوکہ کیوں کیا گیا؟ یہ ظلم کیوں ہوا؟ وہ کون سی طاقت تھی، جس کی خواہش خود پوجے جانے والے باپو کے جذبات پر بھی بھاری پڑ گئی؟ جس نے وندے ماترم جیسے پاکیزہ جذبے کو بھی تنازعات کا حصہ بنا دیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ آج جب ہم وندے ماترم کے 150 سال کا جشن منا رہے ہیں اور اس پر بحث کر رہے ہیں، تو ہمیں ان حالات کو اپنی نئی نسل کو بتانا ہمارا فرض ہے، جن کی وجہ سے وندے ماترم کے ساتھ دھوکہ ہوا۔ وندے ماترم کے خلاف مسلم لیگ کی سیاسی مخالفت تیز ہوتی جا رہی تھی۔ محمد علی جناح نے لکھنؤ سے 15 اکتوبر 1937 کو وندے ماترم کے خلاف نعرہ بلند کیا۔ پھر کانگریس کے اُس وقت کے صدر جواہر لال نہرو کو اپنے ہاتھ سے اقتدار جاتا ہوا محسوس ہوا۔بجائے اس کے کہ نہرو جی مسلم لیگ کے بے بنیاد بیانات کا سخت جواب دیتے، ان کی مذمت کرتے اور وندے ماترم کے لیے اپنی اور کانگریس پارٹی کی وفاداری ظاہر کرتے، الٹا ہوا۔ وہ ایسا کیوں کر رہے تھے، یہ پوچھا ہی نہیں گیا، نہ جانا گیا، لیکن انہوں نے وندے ماترم کی پڑتال شروع کر دی۔ جناح کی مخالفت کے پانچ دن بعد، یعنی 20 اکتوبر کو، نہرو جی نے نیتاجی سبھاش بابو کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں جناح کے جذبات سے نہرو جی نے اتفاق ظاہر کیا کہ وندے ماترم کی ‘‘آنندمٹھ’’ والی پس منظر مسلموں کو ناراض کر سکتی ہے۔میں نہرو جی کا اقتباس پڑھتا ہوں: نہرو جی نے کہا،
“मैंने वंदे मातरम गीत का बैकग्राउंड पड़ा है।”
نہرو جی پھر لکھتے ہیں،
“मुझे लगता है कि यह जो बैकग्राउंड है, इससे मुस्लिम भड़केंगे।”
یعنی نہرو جی نے وندے ماترم کے پس منظر کی وجہ سے مسلم کمیونٹی کے جذبات کے بھڑکنے کا امکان ظاہر کیا۔
ساتھیو،
اس کے بعد کانگریس کی طرف سے بیان آیا کہ 26 اکتوبر سے کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کا ایک اجلاس کولکتہ میں ہوگا، جس میں وندے ماترم کے استعمال کا جائزہ لیا جائے گا۔ بنکیم بابو کا بنگال، بنکیم بابو کا کولکتہ اور یہ جگہ منتخب کی گئی تاکہ وہاں جائزہ لیا جا سکے۔ پورا ملک حیران و پریشان تھا، پورے ملک میں وطن پرستوں نے اس تجویز کے خلاف ملک کے کونے کونے میں صبح کی ریلیاں نکالیں، وندے ماترم کے گیت گائے، لیکن ملک کی بدقسمتی یہ تھی کہ 26 اکتوبر کو کانگریس نے وندے ماترم پر سمجھوتہ کر لیا۔ وندے ماترم کو تقسیم کرنے کے فیصلے میں وندے ماترم کو ٹکڑے کر دیا گیا۔اس فیصلے کے پیچھے نقاب یہ پہنا گیا، چولا یہ پہنا گیا، یہ تو سماجی ہم آہنگی کا کام ہے، لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کانگریس نے مسلم لیگ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اور مسلم لیگ کے دباؤ میں یہ فیصلہ کیا۔ کانگریس کا یہ عمل دراصل خوشنودی کی سیاست کا ایک طریقہ تھا۔
صدرِ محترم،
خوشنودی کی سیاست کے دباؤ میں کانگریس وندے ماترم کے بٹوارے کے لیے جھکی، اسی لیے کانگریس کو ایک دن بھارت کے بٹوارے کے لیے جھکنا پڑا۔ میرا خیال ہے کہ کانگریس نے یہ ذمہ داری کسی اور پر ڈال دی۔ بدقسمتی سے کانگریس کی پالیسیاں ویسی کی ویسی ہیں اور اتنا ہی نہیں، کانگریس چلتے چلتے ایم ایم سی بن گئی۔ آج بھی کانگریس اور اس کے ساتھی اور جن جن کے نام کانگریس سے جڑے ہیں، وندے ماترم پر تنازعہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
صدرِ محترم،
کسی بھی قوم کا کردار اس کی ثابت قدمی اور حوصلے کے ذریعے زیادہ واضح ہوتا ہے، خاص طور پر اُس وقت جب چیلنجز اور بحران کا دور ہوتا ہے۔ یہی وقت ہوتا ہے جب قوم کی اصل طاقت اور صلاحیتیں پرکھی جاتی ہیں۔ 1947 میں ملک کی آزادی کے بعد، ملک کے چیلنجز بدل گئے، ملک کی ترجیحات بدل گئیں، لیکن ملک کا کردار، ملک کی حوصلہ مندی، وہی رہی اور وہی تحریک ہمیں ملتی رہی۔بھارت کو جب بھی بحران کا سامنا ہوا، ملک ہر بار وندے ماترم کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھا۔ درمیان کا دور کیسا گیا، اسے جانے دو، لیکن آج بھی 15 اگست، 26 جنوری کے موقع پر ہر گھر میں ترنگا (قومی پرچم) کی بات آتی ہے، ہر طرف وہ جذبہ نظر آتا ہے۔ پرچم لہراتے ہیں۔ایک وقت ایسا بھی آیا جب ملک میں خوراک کا بحران تھا، تب بھی وندے ماترم کے جذبے نے کام کیا، میرے ملک کے کسانوں نے اناج کے ذخیرے بھر دیے اور اس کے پیچھے وندے ماترم کی روح تھی۔ جب ملک کی آزادی کو دبانے کی کوشش ہوئی، دستور کو زک پہنچائی گئی، ایمرجنسی لگائی گئی، تب بھی وندے ماترم کی طاقت تھی جس نے ملک کو متحدکیا اور کامیاب بنایا۔جب بھی ملک پر جنگ تھوپی گئی، جب بھی لڑائی کی نوبت آئی، وہی وندے ماترم کا جذبہ تھا جس نے ملک کے جوانوں کو سرحدوں پر مضبوط رکھا اور ماں بھارتی کا پرچم لہرایا، فتح حاصل کی۔ کورونا جیسے عالمی بحران کے دوران بھی ملک اسی جذبے کے ساتھ ڈٹا رہا اور اسے شکست دے کر آگے بڑھا۔
صدرِ محترم،
یہ ملک کی طاقت ہے، یہ ملک کو جذبات سے جوڑنے والی ایک مضبوط توانائی ہے۔ یہ بیداری ہے، یہ ثقافت کی مسلسل روانی کا عکس اور اظہار ہے۔ وندے ماترم ہمارے لیے صرف یاد کرنے کا وقت نہیں، بلکہ نئی توانائی اور نئی تحریک حاصل کرنے کا موقع بن جائے اور ہم اس کے لیے وقف رہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا، ہم سب پر وندے ماترم کا قرض ہے، وہی وندے ماترم ہے جس نے وہ راستہ بنایا جس کے ذریعے ہم یہاں پہنچے ہیں اور اسی لیے ہمارا فرض بنتا ہے۔بھارت ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وندے ماترم کے جذبے میں وہ طاقت ہے۔ وندے ماترم صرف ایک گیت یا جذباتی گیت نہیں، یہ ہمارے لیے تحریک ہے، ملک کے لیے ذمہ داریوں کے لیے ہمیں بیدار کرنے والا ذریعہ ہے اور اسی لیے ہمیں مسلسل اسے زندہ رکھنا ہوگا۔ ہم آتم نربھر بھارت کا خواب لے کر چل رہے ہیں، اسے پورا کرنا ہے۔ وندے ماترم ہماری تحریک ہے۔ہم سودیشی تحریک کو طاقت دینا چاہتے ہیں۔ وقت بدلا ہوگا، صورتیں بدلی ہوں گی، لیکن محترم گاندھی نے جو جذبہ ظاہر کیا، اس جذبے کی طاقت آج بھی ہمارے ساتھ ہے اور وندے ماترم ہمیں ایک دوسرے سے جوڑتا ہے۔ ملک کے عظیم رہنماؤں کا خواب آزاد بھارت کا تھا، آج کی نسل کا خواب خوشحال بھارت کا ہے۔ آزاد بھارت کے خواب کو سینچا وندے ماترم کی روح نے، وندے ماترم کی روح خوشحال بھارت کے خواب کو بھی سینچے گی۔ اسی جذبے کے ساتھ ہمیں آگے بڑھنا ہے۔ ہمیں آتم نربھر بھارت بنانا ہے اور 2047 تک ملک کو وکست بھارت بنانا ہے۔اگر آزادی کے 50 سال پہلے کوئی آزاد بھارت کا خواب دیکھ سکتا تھا، تو 25 سال پہلے ہم بھی خوشحال بھارت کا خواب دیکھ سکتے ہیں،وکست بھارت کا خواب دیکھ سکتے ہیں اور اس خواب کے لیے اپنے آپ کو قربان بھی کر سکتے ہیں۔ اسی نعرے اور اسی عزم کے ساتھ وندے ماترم ہمیں تحریک دیتا رہے، وندے ماترم کا ہم قرض قبول کریں، وندے ماترم کے جذبات کو ساتھ لے کر چلیں، ملک کے شہریوں کو ساتھ لے کر چلیں، ہم سب مل کر چلیں اور اس خواب کو پورا کریں۔اسی جذبے کے ساتھ آج یہ بحث کا آغاز ہو رہا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ دونوں ایوانوں میں یہ جذبہ پھر نئے جوش کا سبب بنے گا، ملک کو تحریک دینے والا سبب بنے گا، ملک کی نئی نسل کو توانائی دینے والا سبب بنے گا۔ انہی الفاظ کے ساتھ آپ نے مجھے یہ موقع دیا، میں آپ کا دل سے بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ!
وندے ماترم!
وندے ماترم!
وندے ماترم!
********
ش ح۔ا ع خ۔ع د
U. No- 2641
(रिलीज़ आईडी: 2200539)
आगंतुक पटल : 8