وزیراعظم کا دفتر
کرناٹک کے اڈوپی میں شری کرشن مٹھ میں منعقدہ لکشیہ کانتھا گیتا پرائن پروگرام کے دوران وزیر اعظم کی تقریر کا متن
प्रविष्टि तिथि:
28 NOV 2025 3:26PM by PIB Delhi
اَیلّاریگو نمسکارا!
جئے شری کرشن!
جئے شری کرشن!
جئے شری کرشن!
میں اپنی بات بیان کرنا شروع کروں اس سے پہلے، یہاں کچھ بچے اپنی بنائی ہوئی تصویریں لے کر آئے ہیں۔ ذرا ایس پی جی کے لوگ اور مقامی پولیس کے اہلکار مدد کریں، ان کو جمع کر لیں۔ اگر آپ نے اپنے پتے تصویر کے پیچھے لکھے ہوں گے، تو میں ضرور آپ کو شکریہ کا خط ارسال کروں گا۔ جس کے پاس کچھ ہے، دے دیجیے، وہ جمع کر لیں گے، اور آپ پھر اطمینان سے بیٹھ جائیں۔ یہ بچے اتنی محنت کرتے ہیں، اور کبھی کبھی میں ان کے ساتھ ناانصافی کر بیٹھتا ہوں، تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔
جئے شری کرشن!
بھگوان شری کرشن کے دیویہ درشنوں کی تسکین، شریمد بھگوت گیتا کے منترُوں کا یہ روحانی تجربہ، اور اتنے سارےپجیہ سنتوں، گروؤں کی یہ موجودگی میرے لیے عظیم اعزاز ہے۔ میرے لیے یہ بے شمار پُنّیوں کے حصول کے مترادف ہے۔ اور جو مجھے اعزاز دیا گیا، میرے لیے جو جذبات ظاہر کیے گئے، شاید مجھے اتنے آشیرواد ملیں کہ میں اس قابل بن سکوں کہ میرے بارے میں جو کچھ کہا جاتا ہے، اس پر پورا اتروں، مزید محنت کروں اور جو توقعات مجھ سے ہیں، انہیں پوری کر سکوں۔
بھائیو اور بہنو،
تین دن پہلے ہی میں گیتا کی دھرتی، کرّوکشیتر میں تھا۔ اور آج بھگوان شری کرشن کے آشیرواد اور جگد گرو شری مدھواچاریہ جی کی شان سے معمور اس سرزمین پر آنا میرے لیے بے پناہ مسرت کا باعث ہے۔ آج کے اس موقع پر، جب ایک لاکھ لوگوں نے بیک آواز شریمد بھگوت گیتا کے شلوک پڑھے، تو پوری دنیا نے ہندوستان کی ہزاروں سال کی دیوتہ(تقدس) کا براہِ راست مشاہدہ کیا۔ اس پروگرام میں ہمیں آشیرواد دینے کے لیے تشریف لائے ہوئے شری شری سوگنیندر تیرتھا سوامی جی، شری شری سشیندرا تیرتھا سوامی جی، کرناٹک کے گورنر تھاورچند گہلوت جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی، ریاستی حکومت کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ، ارکانِ اسمبلی، اُڈوپی کے اَشت(آٹھ) مٹھوں کے تمام پیروکار، دیگر موجود سنت گن، خواتین و حضرات!
کرناٹک کی اس سرزمین پر، یہاں کے محبت کرنے والے لوگوں کے درمیان رہنا میرے لیے ہمیشہ ایک منفرد اور خاص احساس پیدا کرتا ہے۔ اور اڈوپی کی سرزمین پر آنا بھی ہر بار ایک حیرت انگیز تجربہ ہوتا ہے۔ میں گجرات میں پیدا ہوا، اور گجرات اور اڈوپی کے درمیان ایک گہرا اور خاص تعلق ہمیشہ رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں نصب بھگوان کرشن کی مورتی کی پہلی پوجا دوارکا میں ماتا رکمنی نے کی تھی، اور بعد میں جگد گرو شری مادھواچاریہ جی نے یہ مجسمہ یہاں نصب کیا۔آپ جان سکتے ہیں، پچھلے سال ہی میں سمندر کے نیچے شری دوارکا جی سے ملاقات کے لیے گیا تھا، اور وہاں سے آشیرواد بھی حاصل کیا تھا۔ اس مجسمے کو دیکھ کر میرے دل میں جو جذبات ابھرے، وہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اس منظر نے مجھے گہری روحانی خوشی اور سکون بخشی۔
دوستو،
اڈوپی آنا میرے لیے ایک اور وجہ سے بھی خاص ہے۔ یہ سرزمین جن سنگھ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی بہترین حکمرانی کے ماڈل کی کرم بھومی رہی ہے۔ 1968 میں، اڈوپی کے عوام نے یہاں کی میونسپل کونسل میں جن سنگھ کے ہمارے وی ایس آچاریہ کو کامیابی دلوائی تھی۔اسی کے ساتھ، اڈوپی نے ایک نئے گورننس ماڈل کی بنیاد بھی رکھی۔ آج جس صفائی مہم کو ہم ملکی سطح پر دیکھ رہے ہیں، اس کی ابتدا اڈوپی نے پچاس سال قبل کی تھی۔ اڈوپی نے 1970 کی دہائی میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے نظام میں ایک نیا ماڈل متعارف کرایا، جو آج ملکی ترقی اور قومی ترجیح کا حصہ بن کر رہنمائی کر رہا ہے۔
ساتھیو،
رام چرت مانس میں لکھا ہے- "کلی یوگ میں صرف ہری کے گُن گاؤ۔ گاتا نَر پاؤ ہے بھَو تھاہ۔" یعنی، کلی یوگ میں صرف بھگوت نام اور ان کی لیلا کے کیرتن ہی سب سے اعلیٰ ذریعہ ہیں۔ ان کے گانے اور کیرتن سے، بھوساگر سے نجات ملتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں منتر، گیتا کے شلوکوں کا مطالعہ صدیوں سے ہوتا آ رہا ہے، لیکن جب ایک لاکھ آوازیں، ایک ہی سر میں، ان شلوکوں کا ایسا تلفظ کرتے ہیں، جب اتنے لوگ، گیتا جیسے پونیو گرنتھ کا مطالعہ کرتے ہیں، جب ایسے دیویہ لفظ ایک جگہ، ایک ساتھ گونجتے ہیں، تو ایک ایسی توانائی پیدا ہوتی ہے، جو ہمارے ذہن اور دماغ کو ایک نیا سپندن، ایک نئی طاقت دیتی ہے۔ یہی توانائی، روحانیت کی طاقت ہے، یہی توانائی، سماجی اتحاد کی طاقت ہے۔ اس لیے آج لاکھ کانتھ گیتا کا یہ موقع ایک عظیم توانائی-پنڈ کا تجربہ کرنے کا موقع بن گیا ہے۔ یہ دنیا کو اجتماعی شعور، یعنی کی طاقت بھی دکھا رہا ہے۔
ساتھیو،
آج کے دن، خاص طور پر میں پرمپوجیا شری شری سوگنندرا تیرتھ سوامی جی کو پرنام کرتا ہوں۔ انہوں نے لاکھ کانتھ گیتا کے اس خیال کو اتنے دیویہ روپ میں حقیقت بنایا ہے۔ پورے دنیا میں لوگوں کو اپنے ہاتھ سے گیتا لکھنے کا خیال دے کر، انہوں نے جس کوٹِی گیتا لکھائی یگ کی شروعات کی ہے، وہ مہم سنتان پرمپرہ کا ایک عالمی عوامی تحریک ہے۔ جس طرح ہمارا نوجوان بھگوت گیتا کے جذبات اور تعلیمات سے جڑ رہا ہے، وہ اپنے آپ میں بہت بڑی تحریک ہے۔ صدیوں سے بھارت میں وید، اپنشد، اور شاستر کے علم کو اگلی نسل تک پہنچانے کی روایت رہی ہے۔ اور یہ پروگرام بھی اسی روایت کا بھگوت گیتا کے ذریعے اگلی نسل کو جوڑنے کا ایک مفید اور معنوی اقدام بن گیا ہے۔
ساتھیو،
یہاں آنے سے تین دن پہلے میں ایودھیا میں بھی تھا۔ 25 نومبر کو، ویواہ پنچمی کے پونیو دن ایودھیا کے رام جنم بھومی مندر میں دھرم دھوجا کی قیام ہوئی ہے۔ ایودھیا سے اُڈُپی تک بے شمار رام بھکت اس دیوی اور بھویہ تہوار کے شاہد بنے ہیں۔ رام مندر تحریک میں اُڈُپی کی اہمیت کتنی بڑی ہے، پورا ملک اسے جانتا ہے۔ پرمپوجیا سوَرجی وشویش تیرتھ سوامی جی نے دہائیوں پہلے رام مندر کی پوری تحریک کو جو رہنمائی دی، دھوجاروںھن تقریب اسی کردار کی کامیابی کا تہوار بن گیا ہے۔ اُڈُپی کے لیے رام مندر کی تعمیر ایک اور وجہ سے خاص ہے۔ نئے مندر میں جگدگرو مدھوآچاریہ جی کے نام پر ایک عظیم دروازہ بھی بنایا گیا ہے۔ بھگوت رام کے اننِی بھکت، جگدگرو مدھوآچاریہ جی نے لکھا تھا- "رامائے شاشوت سُوِسترت شڈ گُناۓ، سرویشورائے بل-ویریہ مہارنَوائے"، یعنی، بھگوت شری رام چھ (6) دیوی گُنو سے مزین، سرویشور، اور بے پناہ طاقت و بہادری کے سمندر ہیں۔ اسی لیے رام مندر کے احاطے میں ایک دروازہ ان کے نام پر ہونا اُڈُپی، کرناٹک اور پورے ملک کے لیے بہت فخر کی بات ہے۔
ساتھیو،
جگدگرو شری مدھوآچاریہ جی بھارت کے دوائت دَرشن کے بانی اور ویدانت کے روشنی کے ستون ہیں۔ ان کے ذریعے قائم کیے گئے اُڈُپی کے اشٹ مٹھوں کی نظام، اداروں اور نئی روایتوں کی تخلیق ایک عملی مثال ہے۔ یہاں بھگوت شری کرشن کی بھکتی ہے، ویدانت کا علم ہے، اور ہزاروں لوگوں کی انّ سِوا کا عزم ہے۔ ایک طرح سے یہ مقام علم، بھکتی اور خدمت کا سنگم تِرتھ ہے۔
ساتھیو،
جس دور میں جگدگرو مدھوآچاریہ جی پیدا ہوئے، اُس دور میں بھارت بہت سی اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے جوجھ رہا تھا۔ اس وقت انہوں نے بھکتی کا وہ راستہ دکھایا، جس سے معاشرے کا ہر طبقہ اور ہر عقیدہ جڑ سکتا تھا۔ اور اسی رہنمائی کی وجہ سے آج کئی صدیوں بعد بھی ان کے قائم کیے ہوئے متھ روزانہ لاکھوں لوگوں کی خدمت کا کام کر رہے ہیں۔ ان کی تحریک کی وجہ سے دوائت روایت میں کئی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں، جنہوں نے ہمیشہ دھرم، خدمت اور معاشرتی تعمیر کا کام آگے بڑھایا۔ اور عوامی خدمت کی یہ ہمیشہ کی روایت اُڈُپی کی سب سے بڑی وراثت ہے۔
ساتھیو،
جگدگرو مدھوآچاریہ کی روایت نے ہی ہریداس پرمپرہ کو توانائی دی۔ پورندر داس، کنک داس جیسے مہا پُرُشوں نے بھکتی کو سادہ، رواں اور عام کناڈا زبان میں عوام تک پہنچایا۔ ان کی یہ تخلیقات ہر دل تک، سب سے کمزور طبقے تک پہنچیں، اور انہیں دھرم اور سناتن خیالات سے جوڑا۔ یہ تخلیقات آج کی نسل میں بھی ویسی کی ویسی ہیں۔ آج بھی ہمارے نوجوان سوشل میڈیا کی ریلز میں، شری پورندر داس کے ذریعہ تخلیق شدہ چندرچوڑ شیوا شَنکر پاروتی سن کر ایک مختلف جذبات میں پہنچ جاتے ہیں۔ آج بھی جب اُڈُپی میں کوئی جیسے میں چھوٹی کھڑکی سے بھگوت شری کرشن کا درشن کرتا ہے، اسے کنک داس جی کی بھکتی سے جڑنے کا موقع ملتا ہے۔ اور میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے پہلے بھی یہ سعادت حاصل ہوئی ہے۔ کنک داس جی کو نمن کرنے کا موقع ملا۔
ساتھیو،
بھگوت شری کرشن کے اُپدیش، ان کی تعلیم ہر دور میں عملی ہیں۔ گیتا کے الفاظ صرف فرد نہیں بلکہ ملک کی پالیسی کو بھی رہنمائی دیتے ہیں۔ بھگوت گیتا میں شری کرشن نے کہا- "سرو بھوت ہِتے رتہ:" یعنی، ہم سب کے بھلے کے لیے کام کریں۔ گیتا میں کہا گیا ہے- "لوک سنگرہم ایواپی سم پشَن کرتُم ارہسی!" ان دونوںشلوکھوں کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں عوام کے بھلے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ جگدگرو مدھوآچاریہ جی نے بھی اپنی پوری زندگی میں ان خیالات کو اپناتے ہوئے بھارت کی ایکتا کو مضبوط کیا۔
ساتھیو،
آج سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کی بھلائی، سب کی خوشی، یہ ہماری پالیسیوں کی بنیاد بھی بھگوت شری کرشن کے انہی شلوکوں سے ہے۔ بھگوت شری کرشن ہمیں غریبوں کی مدد کا اصول دیتے ہیں، اور اسی اصول سے آیوشمان بھارت اور پی ایم آواس جیسی اسکیمیں بنتی ہیں۔ بھگوت شری کرشن ہمیں خواتین کی حفاظت اور خواتین کے بااختیار بنانے کا علم دیتے ہیں، اور اسی علم سے ملک میں ناری شکتی وندن ایکٹ کا تاریخی فیصلہ ہوا۔ شری کرشن ہمیں سب کے بھلے کی تعلیم دیتے ہیں، اور یہی اصول ویکسین میتری، سولر الائنس اور وسو دھیو کُٹمبکم جیسی ہماری پالیسیوں کی بنیاد بنتا ہے۔
ساتھیو،
شری کرشن نے گیتا کا پیغام جنگ کے میدان میں دیا تھا۔ اور بھگوت گیتا ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ امن اور سچائی کے قیام کے لیے ظالموں کا خاتمہ ضروری ہے۔ملک کی حفاظت کی پالیسی کا اصل اصول یہی ہے۔ ہم وسو دھیو کُٹمبکم بھی کہتے ہیں، اور ہم دھرمُو رکشتی رکشِت: کا اصول بھی دہراتے ہیں۔ ہم لال قلعے سے شری کرشن کا کرونا پیغام بھی دیتے ہیں، اور اسی مقام سے مشن سُدَرشن چکر کا اعلان بھی کرتے ہیں۔ مشن سُدَرشن چکر، یعنی، ملک کے اہم مقامات، صنعتی اور عوامی شعبوں کی حفاظت کی ایک ایسی دیوار بنانا، جسے دشمن نہ توڑ سکے، اور اگر دشمن بے جُراتی کرے تو ہمارا سُدَرشن چکر اسے تباہ کر دے۔
ساتھیو،
آپریشن سندور کی کارروائی میں بھی ملک نے ہمارا یہ عزم دیکھا ہے۔ پہلگام کے دہشت گرد حملے میں کئی شہریوں نے اپنی جان گنوائی۔ ان میں میرے کرناٹک کے بھائی اور بہنیں بھی شامل تھے۔ لیکن پہلے جب ایسے دہشت گرد حملے ہوتے تھے، تو حکومتیں بیٹھ کر دیکھتی رہتی تھیں۔ لیکن یہ نیا بھارت ہے، یہ نہ کسی کے آگے جھکتا ہے، اور نہ اپنے شہریوں کی حفاظت کے فرض سے پیچھے ہٹتا ہے۔ ہم امن قائم کرنا بھی جانتے ہیں، اور امن کی حفاظت بھی جانتے ہیں۔
ساتھیو،
بھگوت گیتا ہمیں ہمارے فرائض اور زندگی کے عزم کا علم دیتی ہے۔ اور اسی تحریک سے میں آج آپ سب سے کچھ عزم کرنے کی درخواست کروں گا۔ یہ درخواست، 9 عزم کی طرح ہیں، جو ہمارے حال اور مستقبل کے لیے بہت ضروری ہیں۔ سنت سماج جب ان درخواستوں پر اپنی دعا دے دے گا، تو انہیں عوام تک پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
ساتھیو،
ہمارا پہلا عزم یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں پانی کا تحفظ کرنا ہے، پانی بچانا ہے، دریاؤں کو بچانا ہے۔ دوسرا عزم یہ ہونا چاہیے کہ ہم درخت لگائیں، ملک بھر میں "ایک درخت ماں کے نام" مہم کو رفتار دیں۔ اس مہم کے ساتھ اگر تمام مٹھوں کی طاقت شامل ہو جائے تو اثر اور بھی وسیع ہوگا۔ تیسرا عزم یہ کہ ہم ملک کے کم از کم ایک غریب کی زندگی بہتر بنانے کی کوشش کریں، میں زیادہ نہیں کہہ رہا۔ چوتھا عزم وطن پرستی کا ہونا چاہیے۔ ایک ذمہ دار شہری کی حیثیت سے ہم سب وطن پرستی کو اپنائیں۔ آج بھارت آتم نربھر بھارت اور سودیشی کے منتر کے اصول پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ہماری معیشت، ہماری صنعتیں، ہماری ٹیکنالوجی، سب مضبوط قدموں پر کھڑی ہیں۔ اس لیے ہمیں اسے بلند آواز میں کہنا چاہیے ۔ ووکل فار لوکل ۔ ووکل فار لوکل ۔ ووکل فار لوکل ۔ ووکل فار لوکل ۔
ساتھیو،
پانچواں عزم یہ ہے کہ ہم نیچرل فارمنگ کو بڑھائیں۔ چھٹا عزم یہ کہ ہم صحت مند طرزِ زندگی اپنائیں، ملیٹس کھائیں، اور کھانے میں تیل کی مقدار کم کریں۔ ساتواں عزم یہ کہ ہم یوگا اپنائیں، اسے زندگی کا حصہ بنائیں۔ آٹھواں عزم یہ کہ ہم پرانے نسخے، پینڈولیپیوں کے تحفظ میں تعاون کریں۔ ہمارے ملک کا بہت سا پرانا علم پینڈولیپیوں میں چھپا ہوا ہے۔ اس علم کو محفوظ رکھنے کے لیے مرکزی حکومت "گنہ بھارتم" مشن پر کام کر رہی ہے۔ آپ کا تعاون اس قیمتی وراثت کو بچانے میں مدد کرے گا۔
ساتھیو،
نواں عزم یہ کہ ہم کم از کم ملک کے 25 ایسے مقامات کا درشن کریں جو ہماری وراثت سے جڑے ہیں۔ جیسے میں آپ کو کچھ مشورہ دیتا ہوں۔ 3-4 دن پہلے، کرُکشیتر میں مہابھارت تجربہ مرکز کی شروعات ہوئی ہے۔ میرا اصرار ہے کہ آپ اس مرکز میں جا کر بھگوت شری کرشن کی زندگی کا تجربہ دیکھیں۔ گجرات میں ہر سال بھگوت شری کرشن اور ماں رُکمنی کی شادی کے لیے مادھو پور میلہ بھی لگتا ہے۔ ملک کے ہر کونے سے اور خاص طور پر نارتھ ایسٹ سے لوگ اس میلے میں خصوصی طور پر پہنچتے ہیں۔ آپ بھی اگلے سال اس میں جانے کی کوشش کریں۔
ساتھیو،
بھگوت شری کرشن کی پوری زندگی، گیتا کا ہر باب، کام، فرض اور بھلے کا پیغام دیتا ہے۔ ہم بھارتیوں کے لیے 2047 کا وقت صرف امرت کل نہیں بلکہ ترقی یافتہ بھارت کے قیام کا ایک فرض بھی ہے۔ ملک کے ہر شہری، ہر بھارتی کی اپنی ذمہ داری ہے۔ ہر فرد، ہر ادارہ کا اپنا فرض ہے، اور ان فرائض کی تکمیل میں کرناٹک کے محنتی لوگوں کی اہمیت بہت بڑی ہے۔ ہمارا ہر کوشش ملک کے لیے ہونا چاہیے۔ فرض کی اسی تحریک پر چل کر ترقی یافتہ (وکست )کرناٹک، ترقی یافتہ بھارت(وکست بھارت) کا خواب بھی حقیقت بنے گا۔ اسی کامنا (دعا)کے ساتھ اُڈُپی کی زمین سے نکلنے والی یہ توانائی، ترقی یافتہ بھارت (وکست بھارت)کے عزم میں ہمارا رہنمائی کرتی رہے۔ ایک بار پھر اس مقدس پروگرام سے جڑے ہر شریک کو میری دلی مبارکباد۔
اور سب کو- جئے شری کرشنا! جئے شری کرشنا! جئے شری کرشنا!
********
( ش ح۔ اس ک۔ش ب ن)
U.No.1989
(रिलीज़ आईडी: 2195993)
आगंतुक पटल : 11