آئی ایف ایف آئی میں تین سنیمائی دنیا ایک ساتھ جلوہ گر — ‘نیلگری’، ‘مو. پو. بمبل واڑی’ اور ‘سِکار’ مرکزی توجہ رہے
سِکار کی کاسٹ اور عملے نے زوبین گرگ کو خراجِ عقیدت پیش کیا، براعظموں پر محیط اپنے تخلیقی سفر کی یادیں تازہ کیں
نیلگری کے فلم سازوں نے صبراور محنت کی داستانیں شیئر کیں؛ ایک ساتھ رہنے کی اہمیت پر زور دیا
بمبل واڑی کے میکرز نے اپنی جنگی طنز پر مبنی فلم کے پیچھے چھپی تخلیقی جادوگری بیان کی
انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا میں آج ثقافتی تنوع اور صنفی انداز کا حسین امتزاج اس وقت مرکزِ نگاہ بنا جب تین پرکشش فلموں کے اداکار اور عملہ ایک دلچسپ پریس کانفرنس میں ایک ساتھ جلوہ گر ہوئے، جو بصیرت، جذبات اور مزاح سے بھرپور تھی۔ دلچسپ بات چیت کے دوران ‘نیلگری : اے شیئرڈ وائلڈرنیس’، ‘مُکّام پوسٹ بمبل واڑی’ اور ‘سِکار’ کے تخلیق کاروں نے اپنی فلموں کی گہرائیوں، متنوع موضوعات اور آج کے دورمیں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

‘سِکار’: آسام کے لیے ایک خراج تحسین، ایک سفراور سب سے پہلا سنیما
سیشن کا آغاز ایک نہایت جذباتی لمحہ کے ساتھ ہوا، جب ‘سِکار’ کے ڈائریکٹر دیبانکر بورگوہائن نے فلم کے مرکزی اداکار اور موسیقار زوبین گرگ کو یاد کیا، جن کا حال ہی میں انتقال ہو گیا تھا۔ تقریباً دو دہائیوں پر محیط باہمی رفاقت کو یاد کرتے ہوئے دیبانکر نے بتایا کہ ابتدا میں وہ زوبین کے پاس صرف موسیقی کے لیے گئے تھے۔“انہوں نے کہانی سنی اور فوراً کہا کہ وہ اداکاری کرنا چاہتے ہیں،” وہ مسکراتے ہوئے بولے، پھر دھیمے لہجے میں کہا؛“یہ ان کی وہ آخری فلم ہے جو ان کے ہمارے ساتھ رہے ہوئےریلیز ہوئی۔ انہیں گزرے ہوئے 64 دن ہو چکے ہیں۔ وہ آج یہاں ہوتے تو بہت خوش ہوتے۔”

دیبانکر نے ‘سِکار’ کی غیر معمولی پروڈکشن کے سفر پر بھی روشنی ڈالی۔انہوں نے کہاکہ یہ پہلی آسام کی فلم ہے جس کی شوٹنگ کا بڑا حصہ بیرونِ ملک میں ہوا اور تقریباً 70 فیصد مناظر لندن میں فلمائے گئے۔ چونکہ ٹیم کے بیشتر اراکین سفر نہیں کر سکے، اس لیے ڈائریکٹر نے گوہاٹی سے ہی دور بیٹھ کر براہِ راست نشریات کے ذریعے شوٹنگ کی نگرانی کی—اکثر “مچھر دانی کے اندر بیٹھ کر” ڈائریکٹ کرتے ہے، جس پر پورا ہال مسکراہٹوں اور قہقہوں سے گونج اٹھا۔
انہوں نے آئی ایف ایف آئی میں فلم کو ملنے والی بے پناہ پذیرائی پر مسرت کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا، “ہاؤس فل شوز دیکھ کر اور ملک کے مختلف حصوں سے آنے والے لوگوں کو فلم سراہتے ہوئے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ میں حقیقی آسام کو پیش کرنا چاہتا ہوں—ایک ایسا آسام جو وقار اور قوت سے بھرپور ہے۔”
او ٹی ٹی پلیٹ فارمز پر علاقائی فلموں کی نمائش کے حوالے سے فکر پر بات کرتے ہوئے دیبانکر نے کہا کہ اگرچہ ان پلیٹ فارمز نے عالمی سطح پر رسائی کو وسیع کیا ہے، لیکن اکثر علاقائی سنیما کو وہ نمایاں مقام نہیں مل پاتا جس کا وہ حق دار ہے۔
‘نیلگری : اے شیئرڈ وائلڈرنیس’ — ایک جیتی جاگتی حیاتیاتی دنیا کی عکاسی
جہاں ‘سِکار’ نے ماحول کو جذبات سے بھر دیا، وہیں ‘نیلگری – اے شیئرڈ وائلڈرنیس’ کی ٹیم حاضرین کو حیرت و تجسس کی دنیا میں لے گئی۔ ایسوسی ایٹ پروڈیوسر آدرش این سی نے اس صبر آزما محنت پر بات کی جو ایک وائلڈ لائف ڈاکیومنٹری بنانے کے لیے درکار ہوتی ہے، خاص طور پر ایسی فلم جو 8کے اور 12کے میں فلمائی گئی ہو اور جس میں ایسے نایاب جانداروں کو قید کیا گیا ہو جو اربوں سال میں تشکیل پائی ہوئی اس خطّے کی اصل روح ہیں۔
انہوں نے ہنستے ہوئے کہا، “ہماری فلم کے اصل اسٹار تو جنگلی حیات ہیں۔ وہ وقت پر نہیں آتے اور نہ ہی ری ٹیک کا کوئی تصور ہوتا ہے۔ بعض اوقات ایک شاٹ حاصل کرنے میں تین ماہ گزر جاتے ہیں۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ ڈاکیومنٹری بقائے باہمی کا پیغام بھی دیتی ہے۔“یہ اس بارے میں ہے کہ ہم اپنے آس پاس کے جنگل کو کیسے شیئر کرتے ہیں۔ ہم لوگوں کے گھروں میں گئے تاکہ ان پرجاتیوں کی تلاش کی جا سکیں جو بالکل ہمارے پہلو بہ پہلو رہتی ہیں۔”

ٹیم کے رکن سری ہارشہ نے اس نوعیت کی فلم سازی کی غیر متوقع اور بے ساختہ فطرت کو بیان کرتے ہوئے کہا:“ہمیں اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم کیا فلمانے جا رہے ہیں۔ ہمیں یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ جانور کہاں ہیں۔ کیمرے کے پیچھے ایک بڑی تحقیقی ٹیم موجود ہوتی تھی، جو جنگلی حیات کی نقل و حرکت پر مسلسل اپڈیٹس دیتی تھی۔ آخر کار آپ کو آہستہ آہستہ اس کہانی کا احساس ہونے لگتا ہے جو آپ بنا رہے ہوتے ہیں۔”
جب پوچھا گیا کہ کیا عالمی ڈاکیومنٹری ادارے بھی اس فلم سے متاثر ہوئے تو آدرش نے جواب دیا:“‘نیلگری ’ ایک میک اِن انڈیا فلم ہے۔ اس کے پیچھے کام کرنے والا ہر فرد ہندوستانی ہے۔”ہارشہ نے مزید کہاکہ “ہم عالمی ٹیکنالوجی اور ٹیلنٹ سے سیکھتے ہیں اور اسے ہندوستانی نظام میں ڈھالتے ہیں۔ کبھی ہم امید کرتے ہیں کہ ہم خود عالمی صنعت کے لیے ایک ماڈل بن جائیں۔”
آدرش نے یہ بھی بتایا کہ اگرچہ او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کی جانب سے کافی دلچسپی دکھائی جا رہی ہے، لیکن ٹیم چاہتی ہے کہ ناظرین ‘نیلگری ’ کو بڑے پردے پر دیکھیں۔انہوں نے کہا، “زیادہ تر ڈاکیومنٹریز تھیٹر تک نہیں پہنچ پاتیں، لیکن ‘نیلگری ’ اچھی چل رہی ہے۔ او ٹی ٹی اہم ہے، لیکن بعد میں۔”
‘مُکام پوسٹ بمبل واڑی’: مزاح اور نوآبادیاتی دور کی ہنگامہ خیزی کا امتزاج
توانائی میں واضح تبدیلی لاتے ہوئے، ‘مُکّام پوسٹ بمبل واڑی’ کی ٹیم اپنے مزاح بمقابلہ تاریخ بیانیے کے ساتھ پورا ہال قہقہوں سے بھر گئی۔ ڈائریکٹر پریش موکاشی اور پروڈیوسر بھارت شیٹولے نے اپنے اصل اسٹیج پلے کو ایک فلم میں ڈھالنے کی خوشگوار مگر چیلنج سے بھرپور جدوجہد پر گفتگو کی, وہ بھی 1942 کے پس منظر میں، جب ایک پرسکون ساحلی مراٹھی گاؤں آزادی کی تحریک اور دوسری جنگِ عظیم کی افراتفری کے جال میں پھنس جاتا ہے۔
کامیڈی کے اتنے سیرئس بیک گراؤنڈ کے ساتھ ملانے پرپریش نے کہا:“غربت جیسے موضوع پر بھی تاریخ کی عظیم ترین کامیڈیز بن چکی ہیں۔”انہوں نے مزید وضاحت کی کہ مزاح سچائی کو کمزور نہیں کرتا، بلکہ اکثر اسے زیادہ مؤثر انداز میں دکھاتا ہے۔

او ٹی ٹی پلیٹ فارمز کے ذریعے علاقائی سنیما کی صورت گری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے پریش نے کہا کہ یہ سفر گھر سے شروع ہوتا ہے۔انہوں نے کہا، “علاقائی فلموں کو عالمی سطح پر جانے سے پہلے مقامی ناظرین کی سرپرستی حاصل کرنا ضروری ہے۔”پروڈیوسر بھرت شیٹولے نے بھی اس خیال سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ او ٹی ٹی نے مواقع کو وسیع کیا ہے، لیکن علاقائی فلموں کو اب بھی ان پلیٹ فارمز پر مساوی نمائش اور مرئیّت کی ضرورت ہے۔
پریس کانفرنس نے ہندوستانی سنیما کی رنگا رنگ دنیا کی ایک جامع جھلک پیش کی۔نیلگری کے پاکیزہ ماحولیاتی نظام سے لے کر بمبل واڑی کادلچسپ ہنسی مذاق اور توانائی سے بھرپور کہانیوں اور براعظموں میں پھیلی آسام کی زندگیوں کے جذباتی سفر کی سفر شامل تھی۔۔ ہر ٹیم نے گفتگو میں دیانت، اپناپن،گرمجوشی اور تخلیقی وضاحت دکھائی اور یہ سیشن ایک بار پھر اس حقیقت کی یاد دہانی بن گیا کہ آئی ایف ایف آئی کس چیز کا جشن مناتا رہتاہے،ایک ایسا فلمی ماحول جہاں ہر کہانی اہم ہے، ہر خطّہ اپنی آواز رکھتا ہے اور ہر فلم ساز اپنی ایک الگ دنیا ساتھ لاتا ہے۔
پی سی لنک:
آئی ایف ایف آئی کے بارے میں
1952 میں تشکیل دیاگیا انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا (افی) جنوبی ایشیا کے سب سے قدیم اور سب سے بڑے سنیما فیسٹیول کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن (این ایف ڈی سی)، وزارتِ اطلاعات و نشریات، حکومتِ ہند اور انٹرٹینمنٹ سوسائٹی آف گوا (ای ایس جی)، حکومتِ گوا کی شراکت سے منعقد ہونے والا یہ جشن، آج ایک عالمی فلمی طاقت کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہےجہاں ریسٹور کئے گئے کلاسک بولڈ تجربات سے ملتے ہیں اور سنیما کے عظیم استادنئی نسل کے بے خوف فلم سازوں کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم شیئر کرتے ہیں۔آئی ایف ایف آئی کو جو چیز حقیقت میں شاندار بناتی ہے وہ ہے اس کا الیٹرک مکس-بین الاقوامی مقابلے، ثقافتی نمائشیں، ماسٹر کلاسز، ٹریبیوٹس،اور سب سے بڑھ کر ہائی انرجی ویوز فلم بازار جہاں خیالات، معاہدے اور عالمی تعاون پروان چڑھتے ہیں۔20 سے 28 نومبر تک گوا کے دلکش ساحلی بیک گراؤنڈ میں منعقد ہونے والا 56 واں ایڈیشن زبانوں، موضوعات، اصناف، جدت اور تخلیقی آوازوں کے ایک دلکش اور بے مثال رنگارنگ میل کو پیش کرنے کا وعدہ کرتا ہے ۔یہ پروگرام دنیا کے فلمی منظرنامے پر ہندوستانی تخلیقی ذہانت اور فنونِ لطیفہ کا حقیقی، ہمہ گیر اور مسحور کن جشن ہے۔
مزید معلومات کے لیےمذکورہ لنکس پر کلک کریں:
افی ویب سائٹ: https://www.iffigoa.org/
پی آئی بی کی آئی ایف ایف آئی مائیکرو سائٹ: https://www.pib.gov.in/iffi/56/
پی آئی بی افی ووڈبراڈکاسٹ چینل: https://whatsapp.com/channel/0029VaEiBaML2AU6gnzWOm3F
ایکس ہینڈلز: @IFFIGoa، @PIB_India، @PIB_Panaji
********
(ش ح ۔ع ح۔ع ر)
U. No. 1694
Release ID:
2193395
| Visitor Counter:
9