وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

نئی دہلی میں چھٹے رام ناتھ گوئنکا لیکچر میں وزیراعظم کے خطاب کامتن

Posted On: 17 NOV 2025 10:16PM by PIB Delhi

وویک گوئنکا جی، بھائی اننت جی، جارج وارگیز جی، راج کمل جھا، انڈین ایکسپریس گروپ کے تمام دیگر ساتھیوں، معززین، یہاں موجود دیگر مہمانان گرامی، خواتین و حضرات!

آج ہم سب یہاں ایک ایسی شخصیت کے اعزاز میں آئے ہیں، جنہوں نے ہندوستانی جمہوریت میں، صحافت، اظہارِ رائے اور عوامی تحریک کی طاقت کو نئی بلندی عطا کی ہے۔ رام ناتھ جی نے ایک وژنری کے طور پر، ایک ادارہ ساز کے طور پر، ایک قومی کارکن کے طور پر اور ایک میڈیا لیڈر کے طور پرانڈین ایکسپریس گروپ کو صرف ایک اخبار نہیں، بلکہ ایک مشن کے طور پر ہندوستان کے عوام کے درمیان قائم کیا۔ ان کی قیادت میں یہ گروپ ہندوستان کے جمہوری اقدار اور قومی مفادات کی آواز بن گیا۔ اس لیے اکیسویں صدی کے اس دور میں جب  ہندوستان ترقی کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، تو رام ناتھ جی کا عزم، ان کی کوششیں اور ان کا وژن ہمارے لیے بہت بڑی تحریک ہیں۔ میں انڈین ایکسپریس گروپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے اس لیکچر میں مدعو کیا اور میں آپ سبھی کاشکریہ ادا کرتا ہوں۔

ساتھیو!

رام ناتھ جی گیتا کے ایک شلوک سے بہت متاثر ہوتے تھے:’سکھ دکھ،سمے-کرتوا،لابھا-لابھو جیا-جیو، تاتو یودھائے، یوجیسو، نیو پاپ اواپسیاس‘یعنی: دکھ، سکھ، فائدہ اور نقصان، جیت اور شکست کو یکساں نظریے سے دیکھ کر اپنے فرائض انجام دو، اس طرح تم گناہ کے شریک نہیں بنو گے۔رام ناتھ جی آزادی کی تحریک کے دوران کانگریس کے حامی رہے، بعد میں جنتا پارٹی کے بھی حامی رہے، پھر جن سنگھ کے ٹکٹ پر انتخابات بھی لڑے۔ان کانظریہ کوئی بھی ہو، انہوں نے ہمیشہ ملک کے مفاد کو ترجیح دی۔جن لوگوں نے رام ناتھ جی کے ساتھ برسوں کام کیا، وہ بے شمار قصے سناتے ہیں جو رام ناتھ جی نے انہیں سنائے تھے۔ آزادی کے بعد جب حیدرآباد اور رضا کاروں کے ظلم کا معاملہ سامنے آیا، تو رام ناتھ جی نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کی مدد کیسے کی۔ ستر کی دہائی میں جب بہار میں طلبہ تحریک کو قیادت کی ضرورت تھی، تب رام ناتھ جی نے نانا جی دیشمکھ کے ساتھ مل کر جے پی کو اس تحریک کی قیادت کے لیے تیار کیا۔ایمرجنسی کے دوران، جب رام ناتھ جی کو اندرا گاندھی کے سب سے قریبی وزیر نے بلا کر دھمکی دی کہ ’’میں تمہیں جیل میں ڈال دوں گا”، تو اس دھمکی کے جواب میں رام ناتھ جی نے جو کہا تھا، یہ سب تاریخ کے چھپے ہوئے دستاویزات ہیں۔ کچھ باتیں عوامی ہوئیں، کچھ نہیں ہوئیں، لیکن یہ باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ رام ناتھ جی نے ہمیشہ سچائی کے ساتھ قدم بڑھایا، ہمیشہ فرض کو سب سے اوپر رکھا، چاہے سامنے کتنی بھی بڑی طاقت کیوں نہ ہو۔

ساتھیو!

رام ناتھ جی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بہت پرسکون شخصیت کے مالک تھے۔ یہ بے صبری منفی معنی میں نہیں بلکہ مثبت معنی میں تھی۔ وہ بے صبری جو تبدیلی کے لیے محنت کی انتہا تک پہنچاتی ہے، وہ بے صبری جو ٹھہرے ہوئے پانی میں بھی ہلچل پیدا کر دیتی ہے۔ بالکل اسی طرح، آج کا ہندوستان بھی بے صبر ہے۔ ہندوستان ترقی کے لیے بے صبر ہے، ہندوستان خود مختار ہونے کے لیے بے صبر ہے۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی کے پچیس سال کتنی تیزی سے گزرے ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک چیلنجز آئے، لیکن وہ ہندوستان کی رفتار کو روک نہیں پائے۔

ساتھیو!

آپ نے دیکھا ہے کہ گزشتہ چار پانچ سال کیسے پوری دنیا کے لیے چیلنجز سے بھرے رہے ہیں۔ 2020 میں کورونا وبا کا بحران آیا، پوری دنیا کی معیشتیں غیر یقینی صورتحال سے گھیر گئی۔ عالمی سپلائی چین پر بہت بڑا اثر پڑا اور ساری دنیا مایوسی کی طرف جانے لگا۔ کچھ وقت بعد حالات آہستہ آہستہ سنبھلنے لگے، تو ایسے میں ہمارے پڑوسی ممالک میں افراتفری شروع ہوگئی۔ ان تمام بحرانوں کے باوجود ہماری معیشت نے اعلیٰ شرح نمو حاصل کی اور دکھایا۔سال 2022 میں یورپی بحران کی وجہ سے پوری دنیا کی سپلائی چین اور توانائی کے بازار متاثر ہوئے۔ اس کا اثر پوری دنیا پر پڑا، اس کے باوجود بھی 23-2022 میں ہماری معیشت کی نمو تیزی سے جاری رہی۔ سال 2023 میں مغربی ایشیا میں حالات خراب ہوئے، تب بھی ہماری شرح نمو تیز رہی اور اس سال بھی جب دنیا میں غیر یقینی صورتحال ہے، ہماری شرح نمو تقریباً سات فیصد کے آس پاس ہے۔

ساتھیو!

آج جب دنیا خلل(Disruption) سے ڈر رہی ہے، ہندوستان متحرک مستقبل( Vibrant Future )کی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ آج انڈین ایکسپریس کے اس پلیٹ فارم سے میں کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستان صرف ایک ابھرتی ہوئی مارکیٹ نہیں ہے، ہندوستان ایک ابھرتا ہوا ماڈل بھی ہے۔ آج دنیاہندوستان کے ترقی کے ماڈل کو امید کا ماڈل مان رہی ہے۔

ساتھیو!

ایک مضبوط جمہوریت کی کئی آزمائشیں ہوتی ہیں اور ان میں سے ایک بڑی آزمائش جمہوریت میں عوام کی شرکت ہے۔ عوام جمہوریت کے بارے میں کتنے مطمئن ہیں، لوگ کتنے پرامید ہیں، یہ انتخابات کے دوران سب سے زیادہ ظاہر ہوتا ہے۔ ابھی 14 نومبر کو جو نتائج آئے، وہ آپ کو یاد ہوں گے اور رام ناتھ جی کا بھی بہار سے تعلق رہا تھا، اس لیے یہ ذکر بالکل فطری ہے۔ان تاریخی نتائج کے ساتھ ایک اور بات بہت اہم رہی ہے۔ کوئی بھی جمہوریت میں عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ اس بار بہار کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹر ٹرن -آؤٹ ہوا۔ آپ سوچیں، خواتین کا ٹرن آؤٹ مردوں سے تقریباً 9 فیصد زیادہ رہا۔ یہ بھی جمہوریت کی فتح ہے۔

ساتھیو!

بہار کے نتائج نے پھر دکھایا ہے کہ ہندوستان کے عوام کی خواہشات، ان کی امیدیں کتنی زیادہ ہیں۔ ہندوستان کے لوگ آج ان سیاسی جماعتوں پر اعتماد کرتے ہیں جو نیک نیت سے عوام کی ان خواہشات کو پورا کرتی ہیں اور ترقی کو ترجیح دیتی ہیںاور آج انڈین ایکسپریس کے اس پلیٹ فارم سے میں ملک کی ہر ریاستی حکومت، ہر جماعت کی ریاستی حکومت کو بہت عاجزی سے کہوں گا، لیفٹ، رائٹ، سینٹر، ہر نظریے کی حکومت کو میں درخواست کروں گاکہ بہار کے نتائج ہمیں یہ سبق دیتے ہیں کہ آپ آج کس طرح کی حکومت چلا رہے ہیں۔ یہ آنے والے سالوں میں آپ کی سیاسی جماعت کا مستقبل طے کریں گے۔آر جے ڈی کی حکومت کو بہار کے عوام نے 15 سال کا موقع دیا، لالو یادو جی اگر چاہتے تو بہار کی ترقی کے لیے بہت کچھ کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے جنگل راج کا راستہ منتخب کیا۔ بہار کے لوگ اس دھوکہ دہی کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔اس لیے آج ملک میں جو بھی حکومتیں ہیں، چاہے مرکز میں ہماری حکومت ہو یا پھر ریاستوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتیں، ہماری سب سے بڑی ترجیح صرف ایک ہونی چاہیے: ترقی، ترقی اور صرف ترقیاور اس لیے میں ہر ریاستی حکومت سے کہتا ہوں، آپ اپنے یہاں بہتر سرمایہ کاری کا ماحول بنانے کے لیے مقابلہ کریں،کاروبار کے لیے آسانیاں( Ease of Doing Business )کے لیے مقابلہ کریں، ترقی کے پیرامیٹرز میں آگے جانے کے لیے مقابلہ کریں، پھر دیکھیں، عوام کیسے آپ پر اپنا اعتماد ظاہر کرتی ہے۔

ساتھیو!

بہار کے انتخابات جیتنے کے بعد کچھ لوگوں نے ،میڈیا کے کچھ مودی پریمیوں نے دوبارہ یہ کہنا شروع کردیا کہ بی جے پی، مودی، ہمیشہ ساتوں دن، چوبیس گھنٹے(24x7)الیکشن موڈ میں رہتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں، انتخابات جیتنے کے لیے الیکشن موڈ میں رہنا ضروری نہیں، بلکہ چوبیس گھنٹے الیکشن موڈ میں رہنا ضروری ہوتا ہے۔ جب دل کے اندر ایک بے چینی سی ہوتی ہے کہ ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا، غریب کی زندگی کی مشکلات کم کرنے کے لیے، غریب کو روزگار کے لیے، غریب کو علاج کے لیے، متوسط طبقے کی خواہشات پورا کرنے کے لیے، بس محنت کرتے رہنا ہے۔ اس جذبے اور احساس کے ساتھ حکومت مسلسل مصروف عمل رہتی ہے، تو اس کے نتائج ہمیں انتخابات کے دن نظر آتے ہیں۔ بہار میں بھی ہم نے ابھی یہی ہوتے دیکھا ہے۔

ساتھیو!

رام ناتھ جی سے جُڑے ایک اور قصے کا مجھے کسی نے ذکر کیا تھا، یہ بات اس وقت کی ہے، جب رام ناتھ جی کو ویدیشہ سے جن سنگھ کا ٹکٹ ملا تھا۔ اس وقت نانا جی دیشمکھ جی سے ان کی اس بات پر گفتگو ہو رہی تھی کہ تنظیم زیادہ اہم ہوتی ہے یا چہرہ۔ تب نانا جی دیشمکھ نے رام ناتھ جی سے کہا تھا کہ آپ صرف نامزدگی کے لیے آئیں گے اور پھر انتخاب جیتنے کے بعد اپنا سرٹیفکیٹ لینے آ جائیے گا۔ پھر نانا جی نے پارٹی کارکنوں کی محنت سے رام ناتھ جی کا انتخاب لڑا اور انہیں جتوا کر دکھایا۔ویسے یہ قصہ سنانے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ امیدوار صرف نامزدگی کے لیے جائیں، میرا مقصد بی جے پی کے بے شمار فرض شناس کارکنوں کی لگن اور محنت کی طرف آپ کی توجہ مبذول کراناہے۔

ساتھیو!

بھارتیہ جنتا پارٹی کے لاکھوں- کروڑوں کارکنوں نے اپنی محنت اور پسینے سے بی جے پی کی جڑوں کو سینچا ہے اور آج بھی پرو رہے ہیں اور اتنا ہی نہیں، کیرالہ، مغربی بنگال، جموں و کشمیر جیسی کچھ ریاستوں میں ہمارے سیکڑوں کارکنوں نے اپنے خون سے بھی بی جے پی کی جڑوں کو سینچا ہے۔ جس پارٹی کے پاس ایسے وقف کارکن ہوں، ان کے لیے صرف انتخابات جیتنا مقصد نہیں ہوتا، بلکہ وہ عوام کا دل جیتنے کے لیے ،خدمت کے جذبے سے ان کے لیے مسلسل کام کرتے ہیں۔

ساتھیو!

ملک کی ترقی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ترقی کا فائدہ سبھی تک پہنچے۔ دلت، مظلوم، محروم اور پسماندہ طبقے تک جب سرکاری منصوبوں کا فائدہ پہنچتا ہے،تب سماجی انصاف یقینی ہوتا ہے، لیکن ہم نے دیکھا کہ گزشتہ دہائیوں میں کس طرح سماجی انصاف کے نام پر کچھ جماعتوں اور کچھ خاندانوں نے اپنا ہی مفاد ثابت کیا ہے۔

ساتھیو!

مجھے اطمینان ہے کہ آج ملک سماجی انصاف کو حقیقت میں بدلتے دیکھ رہا ہے۔ سچا سماجی انصاف کیا ہوتا ہے، یہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں۔ 12 کروڑ بیت الخلاء کے تعمیراتی منصوبے نے ان غریب لوگوں کی زندگی کو عزت و وقار بخشا، جو کھلے میں رفع حاجت کے لیے مجبور تھے۔ 57 کروڑ جن دھن بینک کھاتوں نے ان لوگوں کو مالی شمولیت دی، جنہیں گزشتہ حکومتوں نے ایک بینک کھاتے کے لائق بھی نہیں سمجھا تھا۔ 4 کروڑ غریبوں کو پکے گھروں نے نئے خواب دیکھنے کی ہمت دی، ان  میں خطرہ مول لینے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا۔

ساتھیو!

گزشتہ 11 برسوں میں سماجی تحفظ پر جو کام ہوا ہے، وہ بے مثال ہے۔ آج ہندوستان کے تقریباً 94 کروڑ لوگ سماجی تحفظ کے دائرے میں آ چکے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ 10 برس قبل کیا صورتحال تھی؟ صرف 25 کروڑ لوگ سماجی سیکورٹی کے دائرے میں تھے، یعنی صرف 25 کروڑ لوگوں تک حکومت کی سماجی تحفظ کی اسکیموں کا فائدہ پہنچ رہا تھا۔آج یہ تعداد بڑھ کر 94 کروڑ ہو گئی ہے اور یہی تو سچا سماجی انصاف ہے اور ہم نے صرف سماجی تحفظ کے دائرے کو ہی نہیں بڑھایا، ہم مسلسل سیچوریشن(رابطے) کے مشن پر کام کر رہے ہیں، یعنی کسی بھی اسکیم کے فائدے سے ایک بھی مستفید محروم نہ رہےاور جب کوئی حکومت اس مقصد کے ساتھ کام کرتی ہے، ہر مستفید تک پہنچنا چاہتی ہے، تو کسی بھی قسم کے امتیاز کی گنجائش بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ایسی ہی کوششوں کی وجہ سے گزشتہ 11 سالوں میں 25 کروڑ لوگوں نے غربت کو شکست دے کر دکھایاہے اور اسی لیے آج دنیا بھی یہ مان رہی ہے: ڈیموکریسی ڈلیورس۔

ساتھیو!

میں آپ کو ایک اور مثال دوں گا۔ آپ ہمارےاسپرشنل ڈسٹرکٹ پروگرام(خواہش مند اضلاع) کا مطالعہ کریں، ملک کے 100 سے زیادہ اضلاع ایسے تھے ،جنہیں گزشتہ حکومتوں نے پسماندہ قرار دے کر بھلا دیا تھا۔ یہ سوچا جاتا تھا کہ یہاں ترقی کرنا بہت مشکل ہے، اب کون ایسے اضلاع میں محنت کرے گا۔ جب کسی افسر کو سزا کی پوسٹنگ دینی ہوتی تھی، تو اسے انہی پسماندہ اضلاع میں بھیج دیا جاتا تھا کہ جاؤ، وہیں رہو۔آپ جانتے ہیں، ان پسماندہ اضلاع میں ملک کی کتنی آبادی رہتی تھی؟ ملک کے 25 کروڑ سے زیادہ شہری انہی پسماندہ اضلاع میں رہتے تھے۔

ساتھیو!

اگر یہ پسماندہ اضلاع پسماندہ ہی رہ جاتے، تو ہندوستان اگلے 100 سال میں بھی ترقی نہیں کر پاتا۔ اس لیے ہماری حکومت نے ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ ہم نے ریاستی حکومتوں کو شامل کیا، یہ دیکھا کہ کون سا ضلع کس ترقیاتی پیرامیٹر میں کتنا پیچھے ہے، اس کا مطالعہ کر کے ہر ضلع کے لیے الگ حکمت عملی تیار کی۔ ملک کے بہترین افسران، روشن خیال اور جدید ذہنوں والے نوجوانوں کو وہاں تعینات کیا، ان اضلاع کو پسماندہ نہیں بلکہ خواہش مند اضلاع قرار دیا۔اور آج دیکھیں، ملک کے یہ خواہش مند اضلاع، کئی ترقیاتی پیرامیٹرز میں اپنی ہی ریاستوں کے دیگر اضلاع سے بہت بہتر کام کر رہے ہیں۔ چھتیس گڑھ کا بستر، یہ آپ سب کا بہت پسندیدہ رہا ہے۔ ایک وقت تھا، جب آپ صحافیوں کو وہاں جانا ہوتا تھا، تب انتظامیہ سے زیادہ دوسرے تنظیموں سے اجازت لینی پڑتی تھی ، لیکن آج وہی بستر ترقی کے راستے پرگامزن ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ انڈین ایکسپریس نے بستر اولمپکس کو کتنی کوریج دی، لیکن آج رام ناتھ جی یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے کہ کیسے بستر میں اب وہاں کے نوجوان بستر اولمپکس جیسے پروگرام کا انعقاد کر رہے ہیں۔

ساتھیو!

جب بستر کی بات آئی ہے، تو میں اس پلیٹ فارم سے نکسل ازم یعنی ماؤ وادی دہشت گردی کی بھی بات کروں گا۔ پورے ملک میں نکسل ازم-ماؤ وادی دہشت گردی کا دائرہ بہت تیزی سے سکڑ رہا ہے، لیکن کانگریس  کے دور میں یہ اتنا ہی فعال ہوتا جا رہا تھا۔ آپ بھی جانتے ہیں، گزشتہ پانچ دہائیوں تک ملک کی تقریباً ہر بڑی ریاست ماؤنوازوں کی دہشت گردی کے زد میں رہی ،لیکن یہ ملک کی بدقسمتی تھی کہ کانگریس ہندوستان کے آئین کو نامنظور کرنے والےماؤنوازدہشت گردوں کو پروان چڑھاتی رہی اور صرف دور دراز کے علاقوں میں جنگلات تک محدود نہیں رہی، بلکہ کانگریس نے شہروں میں بھی نکسل ازم کی جڑوں کو خوراک اور پانی دیا۔ کانگریس نے بڑے بڑے اداروں میں اربن نکسلیوں کو قائم کیا ہے۔

ساتھیو!

دس پندرہ برس قبل کانگریس میں جو اربن نکسلی، ماؤ ونوازوں نے جڑیں جما رکھی تھیں، وہ اب کانگریس کو مسلم لیگی-ماؤ وادی کانگریس(ایم ایم سی) بنا چکے ہیں اور میں آج پوری ذمہ داری کے ساتھ کہوں گا کہ یہ مسلم لیگ-ماؤ وادی کانگریس اپنے ذاتی مفاد میں ملک کے مفاد کو قربان کر چکی ہے۔ آج کی مسلم لیگی-ماؤ وادی کانگریس، ملک کی یکجہتی کے سامنے ایک بہت بڑا خطرہ بنتی جا رہی ہے۔

ساتھیو!

آج جب  ہندوستان کی ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہے، تب رام ناتھ گوئنکا جی کی میراث اور بھی زیادہ متعلقہ ہو گئی ہے۔ رام ناتھ جی نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا، انہوں نے اپنے ایک ایڈیٹوریل میں لکھا تھا کہ میں انگریزوں کے احکامات پر عمل کرنے کے بجائے اخبار بند کرنا پسند کروں گا۔اسی طرح جب ایمرجنسی کے طور پر ملک کو غلام بنانے کی ایک اور کوشش ہوئی، تب بھی رام ناتھ جی ڈٹ کر کھڑے رہے اور یہ سال ایمرجنسی کے پچاس سال مکمل ہونے کا بھی ہے اور انڈین ایکسپریس نے پچاس سال قبل یہ دکھایا کہ ’بلینک ایڈیٹوریلس‘ بھی عوام کو غلام بنانے والی سوچ کو چیلنج کر سکتے ہیں۔

ساتھیو!

آج آپ کے اس پروقار پلیٹ فارم سے میں غلامی کی سوچ سے آزادی کے اس موضوع پر بھی تفصیل سے بات کروں گا، لیکن اس کے لیے ہمیں 190 سال پیچھے جانا پڑے گا۔ 1857 کے آزادی کے سب سے بڑے انقلاب سے بھی پہلے، وہ سال 1835 تھا۔ 1835 میں برطانوی رکن پارلیمنٹ تھامس بیبنگٹن میکالے نے  ہندوستان کو اس کی جڑوں سے اُکھاڑنے کے لیے ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا تھا۔ اس نے اعلان کیا تھا کہ میں ایسے ہندوستانی بناؤں گا جو دکھنے میں ہندوستانی ہوں گے ،لیکن دل سے انگریز ہوں گےاور اس کے لیے میکالے نے ہندوستان کے تعلیمی نظام میں محض اصلاحات نہیں کیے، بلکہ اسے جڑ سے ختم کر دیا۔ خود گاندھی جی نے بھی کہا تھا کہ ہندوستان کا قدیم تعلیمی نظام ایک خوبصورت درخت تھا، جسے جڑ سے ہٹا کر تباہ کر دیا گیا۔

ساتھیو!

ہندوستان کے تعلیمی نظام میں ہمیں اپنی ثقافت پر فخر کرنا سکھایا جاتا تھا، ہندوستان کے تعلیمی نظام میں تعلیم کے ساتھ ساتھ مہارت پر بھی اتنا ہی زور تھا، اس لیے میکالے نے  ہندوستان کے تعلیمی نظام کی کمر توڑنے کا فیصلہ کیا اور اس میں کامیاب بھی رہا۔ میکالے نے یہ یقینی بنایا کہ اُس دور میں برطانوی زبان اور برطانوی سوچ کو زیادہ اہمیت دی جائے اور اس کا خمیازہ  ہندوستان نے آنے والی صدیوں میں بھگتا۔

ساتھیو!

میکالے نے ہماری خود اعتمادی توڑ دیا، ہمارے اندر حقارت کا جذبہ پیدا کیا۔ میکالے نے ایک جھٹکے میں ہزاروں سال کے ہمارے علم و سائنس، ہماری فن و ثقافت، ہماری پوری زندگی کے طریقے کو ہی کوڑے دان میں پھینک دیا تھا۔یہیں وہ بیج پڑا کہ اگر ہندوستانیوں کو آگے بڑھناہے، اگر کچھ بڑا کرنا ہے، تو انہیں غیر ملکی طریقوں سے ہی کرنا ہوگا، اور یہ جو جذبہ تھا، آزادی کے بعد بھی مزید مضبوط ہوا۔ ہماری تعلیم، ہماری معیشت، ہمارے معاشرے کی خواہشات، سب کچھ بیرون ملک کے ساتھ جڑ گیا۔ جو اپنا تھا، اس پر فخر کرنے کا جذبہ کم ہوتا گیا۔گاندھی جی نے جس سودیشی کو آزادی کی بنیاد بنایا تھا، اس کا پوچھنے والا ہی کوئی نہ رہا۔ ہم نے حکمرانی کے ماڈل باہر سے تلاش کرنا شروع کر دیے۔ ہم جدت کے لیے بیرون ملک کی طرف دیکھنے لگے۔ یہی ذہنیت رہی، جس کی وجہ سے درآمد شدہ خیالات، درآمد شدہ سامان اور خدمات، سب کو اعلیٰ سمجھنے کا رجحان معاشرے میں قائم ہو گیا۔

ساتھیو!،

جب آپ اپنے ملک کو عزت نہیں دیتے ہیں، تو آپ سودیشی ایکو سسٹم کو رد کرتے ہیں، میڈ ان انڈیا مینوفیکچرنگ ایکو سسٹم کومستردکرتے ہیں۔ میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں، ٹورزم کی بات کرتا ہوں۔ آپ دیکھیں گے کہ جس بھی ملک میں ٹورزم پھلا پھولا، وہ ملک اور وہاں کے لوگ اپنی تاریخی میراث پر فخر کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں اس کا برعکس ہوا۔ ہندوستان میں آزادی کے بعد اپنی میراث کو نظر انداز کرنے کی ہی کوششیں کی گئیں۔ جب اپنی میراث پر فخر نہیں ہوگا تو اس کا تحفظ بھی نہیں ہوگا۔ جب تحفظ نہیں ہوگا، تو ہم اسے اینٹ پتھر کے کھنڈر کی طرح ہی سلوک کرتے رہیں گے اور ایسا واقعی ہوا۔ اپنی میراث پر فخر ہونا، ٹورزم کی ترقی کے لیے بھی ضروری شرط ہے۔

ساتھیو!

اسی طرح مقامی زبانوں کی بات ہے۔ کس ملک میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں کی زبانوں کو نظر انداز کیا جائے؟ جاپان، چین اور کوریا جیسے ممالک، جنہوں نے مغرب کے کئی طریقے اپنائے، لیکن اپنی زبان برقرار رکھی، اپنی زبان پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس لیے ہم نے نئیقومی تعلیمی پالیسی میں مقامی زبانوں میں تعلیم پر خصوصی زور دیا ہے اور میں بہت واضح طور پر کہوں گا، ہم انگریزی زبان کے خلاف نہیں ہیں، ہم ہندوستانی زبانوں کے حق میں ہیں۔

ساتھیو!

میکالے کے ذریعےکیاگیا جرم جو 1835 میں ہوا، 2035 میں، یعنی 10 سال بعد 200 سال مکمل ہو جائیں گے اور اسی لیے آج میں آپ کے ذریعے پورے ملک سے ایک اپیل کرنا چاہتا ہوں، اگلے 10 سالوں میں ہمیں عہد کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کہ میکالے نے ہندوستان کو جس غلامی کی سوچ سے بھر دیا ہے، اس سوچ سے آزادی حاصل کریں گے۔ یہ 10 سال ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔مجھے ایک چھوٹا سا واقعہ یاد ہے، گجرات میں جذام (Leprosy) کے لیے ایک ہسپتال بنایا جا رہا تھا، تو وہ تمام لوگ مہاتما گاندھی جی سے اس کے افتتاح کے لیے ملے، تب مہاتما جی نے کہا کہ میں جذام کے ہسپتال کے افتتاح کے حق میں نہیں ہوں، میں نہیں آؤں گا، لیکن اگر تالہ لگانا ہو، تو اس دن مجھے بلانا، میں تالہ لگانے آؤں گا۔ گاندھی جی کی حیات کے دوران اس ہسپتال کو تالہ نہیں لگایا گیا، لیکن جب میں وزیر اعلیٰ بنا،گجرات جذام سے پاک ہوا اور مجھے اس ہسپتال کو تالہ لگانے کا موقع ملا۔1835 سے شروع ہوا یہ سفر 2035 تک ہمیں ختم کرنا ہے۔ جیسے گاندھی جی کا خواب تھا کہ میں تالہ لگاؤں گا، میرا بھی یہ خواب ہے کہ ہم تالہ لگائیں گے۔

ساتھیو!

ہم نے آپ سے بہت سے موضوعات پر بات کی ہے۔ اب میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتا ۔ انڈین ایکسپریس گروپ ملک کی ہر تبدیلی اور ملک کی ہر ترقیاتی کہانی کا گواہ رہا ہے اور آج جب ملک’وکست بھارت‘ کے ہدف کی جانب بڑھ رہا ہے، تو یہ اس سفر کے بھی ساتھی بن رہے ہیں۔میں آپ کو مبارکباد پیش کروں گا کہ آپ رام ناتھ جی کے خیالات کو پوری لگن سے محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک بار پھر، آج کے اس شاندار پروگرام کے لیے آپ سب کو میری دلی نیک خواہشات اور رام ناتھ گوئنکا جی کو احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے میں اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

بہت، بہت شکریہ!

*****

 ( ش ح ۔م  ع ن۔ ع ن)

U. No. 1408


(Release ID: 2191180) Visitor Counter : 4