وزیراعظم کا دفتر
نئی دہلی میں کرشی پروگرام میں کسانوں کے ساتھ وزیر اعظم کی بات چیت کا متن
Posted On:
12 OCT 2025 6:45PM by PIB Delhi
وزیر اعظم ۔ رام-رام!
کسان ۔ رام-رام! میں ہریانہ کے ہسار ضلع کا ہوں جی میں۔ میں نے کابلی چنا بونے سے کھیتی شروع کی تھی۔ تو پہلے تھوڑی...
وزیر اعظم ۔ یہ کتنے سال پہلے کیا آپ نے؟
کسان ۔ چار سال ہو گئے ہیں جی اب۔ مجھے کابلی چنے کی فی ایکڑ 10 کوئنٹل پیداوار ملتی ہے۔
وزیر اعظم ۔ کچھ فصل ایسی ہے، اس کے درمیان بھی ڈال دیتے ہو، تو بھی دال ہوتی ہے۔
کسان ۔ ہاں۔
وزیر اعظم ۔ تو یہ اضافی آمدنی ہوتی ہے، تھوڑی محنت پڑتی ہے۔ تو اور بھی کسان سوچتے ہیں کہ ہم بھی دالوں کی طرف جائیں، ہماری زمین پھر سے زنده ہو جائے گی؟
کسان ۔ ہاں، لگے ہوئے ہیں جی۔ ایسا سوچتے ہیں، میں کسانوں کو بتاتا ہوں کہ بھائی ہم دال کی فصل چنے کی بوئیں گے، تو ہمیں یہ فصل تو ملے گی ہی، اور اگلی فصل کے لیے بھی چنا یا دیگر دالوں والی فصلیں ہماری زمین میں نائٹروجن چھوڑتی ہیں، تو اگلی فصل بھی اچھی ہوتی ہے۔
کسان ۔ زندگی میں یہ پہلا موقع ملا ہے کہ ہم وزیر اعظم سے ملے ہیں۔ بہت اچھے وزیر اعظم ہیں۔ کسان سے لے کر ایک عام آدمی تک ان کا لگاؤ ہے۔
کسان ۔ اور میں کسان پدک تنظیم ابھی دیکھ رہا ہوں سر۔ میں اس میں چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہوں اور میں دال کی کاشت بھی کرتا ہوں، ہمارے گھر کی 16 بیگھہ زمین ہے۔ میں چنا کرتا ہوں جی۔ اور ہم نے گاؤں میں 20-20 خواتین کا گروپ بنا رکھا ہے، تو ہم ان سے چنا، لہسن، پاپڑ بنا رہے ہیں، کیونکہ ہمارے جو آڈیو (واضح نہیں) اس میں لہسن...
وزیر اعظم ۔ اچھا، وہاں پر آپ کا پروڈکٹ بھی کرتے لیتے ہیں؟
کسان ۔ ہاں، ہاں، ہاں۔
وزیر اعظم ۔ تو کسی پروڈکٹ کا نام رکھا ہے کہ ایسے؟
کسان ۔ جو ہمارا گاؤں ڈوگاری ہے سر، اسی کے نام سے ہم نے برانڈ نام رکھا ہے ڈوگاری والے۔
وزیر اعظم ۔ اچھا۔
کسان ۔ ہاں، چنا، لہسن، پاپڑ، ڈوگاری والے چنا، لہسن، پاپڑ۔
وزیر اعظم ۔ تو لوگ، لوگ خریدتے ہیں؟
کسان ۔ جی سر۔ ہمارے پاس جی ایم ہے، گورنمنٹ پورٹل ہے جی ای ایم، اس پر رجسٹرڈ ہیں، تو سرآرمی والے سر وہاں سے خریدتے ہیں۔
وزیر اعظم ۔ تو پورے راجستھان میں معلوم ہے یہ؟
کسان ۔ سر، آل انڈیا میں سر، بیچ رہا ہے سر۔
وزیر اعظم ۔ اچھا۔
کسان ۔ ہاں۔
وزیر اعظم ۔ اور بھی لوگ بناتے ہیں کیا؟
کسان ۔لےکے لاتے ہیں۔ اور بھی لوگ بناتے ہوں گے سر، ہمارے جو کسان کی خواتین ہیں وہ...
وزیر اعظم ۔ یہ آپ سب کو کھلانا پڑے گا؟
کسان ۔ ہاں بالکل سر، بالکل۔
کسان ۔ ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے کہ سر سے کیسے ملیں گے۔ جیسے وہ آئے تو ان کی چمک دیکھ کر ہم، الفاظ نہیں کہ کیا کہیں اب۔ ایک بالکل الگ لمحہ تھا۔
کسان ۔ دال کی کھیتی کرتا ہوں جی میں 2013-14 سے، ایک ایکڑ سے شروع کرکے 13-14 ایکڑ تک میں نے چنے کی کھیتی کی ہے جی۔
وزیر اعظم ۔ ہاں۔ پہلے ایک ایکڑ پر چنا کیا، باقی جگہ پر دوسرا کر رہے تھے؟
کسان ۔ ہاں جی، دوسرا۔
وزیر اعظم ۔ ابھی آہستہ آہستہ آپ نے اسے بڑھا دیا۔
کسان ۔ وہ میں نے 13 سے 14 ایکڑ پر لے آیا جی میں اور...
وزیر اعظم ۔ آپ کی آمدنی میں کیا فرق آیا؟
کسان ۔ آمدنی میں تو جی اچھی کوالٹی کے بیج منتخب کرتے گئے، سال بہ سال اور پیداوار بڑھتی گئی۔
وزیر اعظم ۔ جو شاکاہاری لوگ ہیں، انہیں تو دالوں سے ہی پروٹین ملتا ہے؟
کسان ۔ جی سر۔
وزیر اعظم ۔ تو ایسی صورتحال میں آپ کو لگتا ہے کہ جب آپ دالیں اگاتے ہیں، تو صرف اپنی جیب بھرتے ہیں، ایسا نہیں ہے، آپ معاشرے کا بھی بہت بڑا فائدہ کرتے ہیں۔
کسان ۔ ٹھیک۔
وزیر اعظم ۔ ابھی ہمارے کھیت تو چھوٹے چھوٹے ہیں، جوت بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے کچھ بھی تجربہ کریں، تو بیچارہ اکیلا رہ جاتا ہے۔ لیکن مان لیجیے آپ نے 200 کسان اکٹھے کیے۔
کسان ۔ ہاں۔
وزیر اعظم ۔ اور فیصلہ کیا کہ بھائی ہم 200 کسانوں کی جتنی زمین بھی ہے، 400 بیگھہ، 500 بیگھہ، جو بھی ہے، ایک، ایک یا دو جو بھی چیز طے کریں، وہی کریں گے۔ اور پھر اس کی بڑی مارکیٹنگ کریں گے۔ ایسی صورت میں کیا کسانوں کو زیادہ فائدہ ہوتا ہے؟
کسان ۔ بالکل ہوتا ہے سر۔ ہم تقریباً 1200 ایکڑ میں ریزیڈیوز فری فارمنگ کر رہے ہیں کابلی کے اوپر۔ تو جو پہلے وہ مال بیچ رہے تھے، ان سے انہیں کافی فائدہ تھا۔
وزیر اعظم ۔ یعنی اب سب کسان مان گئے ہیں، اس کی وجہ سے آپ کی محنت بھی کم ہوتی ہوگی؟
کسان ۔ کیونکہ ہم نے ایک ایسا نظام بنا دیا ہے۔
کسان ۔ میں بیر ضلع سے ہوں۔
وزیر اعظم - کہاں سے؟ بیر ضلع۔ وہاں پانی کی کمی رہتی ہے؟
کسان - اسی لیے آپ نے جو ابھی مال اور اناج کی اسکیم شروع کی ہے، اس کے لیے آپ کا بہت شکریہ۔
وزیر اعظم ۔ چلیں شکریہ۔ جیسے ہم میلیٹ کے لیے لگے ہیں، ہر جگہ، جو ہماری پرانی روایت تھی، باجرہ ہو، جوار ہو، یہ ساری چیزیں۔ اب دنیا میں اس کا بڑا مارکیٹ بن رہا ہے۔ اور جہاں پانی نہیں ہے، ایسی زمین پر بھی کسان اپنی کمائی کر سکتا ہے۔
کسان ۔ ملٹس کی وجہ سے۔
وزیر اعظم ۔ ہاں۔ میلیٹ بھی کرتے ہیں؟
کسان - میلیٹ بھی کرتے ہیں۔
وزیر اعظم - کیا کیا کرتے ہیں اس میں؟
کسان - باجرہ ہے، جوار ہے، پھر بھونا چونہ۔
وزیر اعظم ۔ مطلب اب بھی لوگ کھاتے ہیں؟
کسان - کھاتے ہیں نا، سب کھاتے ہیں۔
وزیر اعظم ۔ اچھا۔
کسان - اور اسی کے ساتھ ساتھ جب ہم کسٹمر کو دیتے ہیں، بمبئی میں ہے۔
کسان - انہوں نے بات چیت اتنی کی اور ایسا لگا کہ یہ کوئی وزیر اعظم نہیں ہے، ہمارے گھر کا آدمی ہے۔
کسان - ہماری طرف میں ارہر کی کاشت کرتا ہوں۔ نوجوان کو میں کہوں گا کہ آپ اتنا دلچسپی دکھائیے، کسانوں کا بھی فائدہ ہوگا، آپ کا بھی یہ ایک بزنس کا موقع رہے گا۔
کسان - میں ایک گروپ سے منسلک خاتون ہوں۔ میں نے ابھی 2023 میں گروپ جوائن کیا تھا، اور میرے پاس پانچ بیگھہ زمین ہے، جس میں میں مونگ کی پیداوار شروع کی۔ صاحب، آپ کی جو پی ایم سمان نیدھی ہے، وہ ہمارے لیے بالکل رحمت(وردان ) ہے، ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ آپ سے جو 6000 روپے ملتے ہیں، ہمیں اس سے بہت آسانی ہوتی ہے۔ جیسے وقتاً فوقتاً ہم اس سے اپنے بیج لیتے ہیں، کھیت کی جتائی کرواتے ہیں، یہ ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔
وزیر اعظم - اچھا کبھی یہ دل کرتا ہے کہ بھئی آہستہ آہستہ کھاد کم کریں؟
کسان ۔ جی۔ ہم جو خواتین کو...
وزیر اعظم - کیونکہ کبھی ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے جی، یہ ہماری ماں ہے، اس ماں کو اگر ہم ایسی چیزیں کھلاتے پلاتے رہیں گے تو کتنے دن زندہ رہے گی؟
کسان ۔ صحیح بات ہے۔
وزیر اعظم - کیا یہ بات کسانوں میں ہوتی ہے؟
کسان ۔ ہاں۔
وزیر اعظم - تو جب اس کے ذہن میں یہ بیٹھ جاتا ہے کہ بھئی مجھے بچوں کو اچھی زمین دینی ہے،ایسی ہی ٹکڑا نہٰن دینا ہے ، ایسی زمین جو مکمل فصلوں سے بھری ہو، تو پھر اسے لگے گا کہ میں نقصان نہیں کروں گا۔ ایک کام آپ کسان مدد کر سکتے ہیں۔ جیسے فرض کریں کسی کے پاس چار بیگھہ زمین ہے۔
کسان ۔ ہاں۔
وزیر اعظم - اگر آپ اسے کہتے ہیں کہ یہ قدرتی کاشت ہے، تو وہ ہمت نہیں کرے گا۔
کسان ۔ نہیں ہوگا۔
وزیر اعظم - بھوکا مر جاؤں گا۔ لیکن اسے یہ کہیں گے، بھئی ٹھیک ہے، ہماری بات مت مانو۔ اس کو چار ٹکڑے کرو۔ ایک ایک بیگھہ میں ہم جو کہتے ہیں وہ کرو، تین میں تم جو کرتے تھے وہی کرو۔
کسان - صحیح ہے۔
وزیر اعظم - دو سال تک ہمارے ساتھ چلو۔ تو اسے کامیابی ملے گی۔ پھر وہ ایک کے ڈیڑھ کرے گا، ڈیڑھ کے دو کرے گا، پھر اس کا یقین آئے گا۔ ہم اچانک سے کہیں گے نہیں چار بیگھہ بند کر دو، اور یہ کر دو، تو ممکن نہیں ہے۔ وہ کھائے گا کیا؟ ڈرتا ہے وہ۔
کسان - میں چنے، مسور اور گوار کی کھیتی کرتا ہوں سر۔ اور ویسے تو زمین کم ہے میرے پاس، دو ایکڑ ہے زیادہ نہیں۔ پر تھوڑے تھوڑے وقت پر میں کر لیتا ہوں۔
وزیر اعظم ۔ دیکھیے کسان دو ایکڑ میں بھی معجزہ کر دیتا ہے۔
کسان ۔ تھوڑے تھوڑے کرکے...
وزیر اعظم - اس کی زمین کتنی چھوٹی ہے، بڑی نہیں، اس کا دماغ بہت بڑا ہوتا ہے جی، حوصلہ ہمت بہت بڑی ہوتی ہے۔
کسان ۔ جی۔
وزیر اعظم - اچھا، آپ کو کبھی یہ خیال آیا کہ چلو میڈ پر ہم باڑکریے ہیں؟ پڑوسی داخل نہ جائے۔ وہ بھی باڑ کرتا ہے اور ڈیڑھ دو میٹر زمین ہماری خراب ہو جاتی ہے۔ اگر مل کر وہاں سولر لگا دیں، اس کا سولر ادھر کی طرف جھکے گا، آپ کا سولر ادھر جھکے گا۔ آپ اپنی بجلی کما کے بیچ دو گے، وہ بجلی وہ بیچ دے گا۔
کسان ۔ بہت اچھا ہے، ہو سکتی ہے.....
وزیر اعظم ۔ ہاں، یہ اس طرف جانا چاہیے۔ اب حکومت پیسے دیتی ہے اس کے لیے۔ اسی طرف جانا چاہیے۔
کسان ۔ نہیں لے رہے ہیں لوگ، اچھا فائدہ لے رہے ہیں۔
وزیر اعظم - دوسرا ایک مجھے لگتا ہے، ریچارجنگ ویل کی طرف جانا چاہیے۔ ہم نے پانی جو بارش کا آتا ہے، نیچے جائے اس کے لیے کوشش کرنی ۔ تو پانی کی سطح اوپر آ جاتا ہے۔ اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے۔
کسان ۔ ہاں۔
وزیراعظم ۔ چلیے، بہت اچھا لگا۔ آپ لوگ بڑے باہمت کسان ہیں، اور بہت محنت کرنے والے لوگ ہیں۔ لیکن تجربے کر رہے ہیں، مجھے بہت خوشی ہوئی، کیونکہ ہم... بھئی میرے پتا جی بھی ایسا کرتے تھے، میرے چاچا بھی ایسا کرتے تھے، میں بھی ایسا کروں گا ۔ اب ہمیں نوجوانوں کو تھوڑا اس سے باہر نکالنا ہے۔
کسان ۔ جانوروں کی وزارت کی طرف سے ہم لوگوں کو 50 فیصد سبسڈی ملی ہے۔ پہلے میرے پاس کچھ گائیں تھیں، اب میرے پاس 250 سے زیادہ گِر گائیں ہیں۔ شروعات میں 2010 میں ہوٹل میں روم بوائے تھا۔ اب میں کروڑوں کی گاؤشالا کا مالک ہوں۔ بھارت سرکار نے بہت اچھا سپورٹ دیا ہے۔
وزیراعظم ۔ تو یہ روم بوائے سے یہاں کیسے پہنچ گئے بھئی؟
کسان ۔ سرکار کی کامیابی ہے سر۔
وزیراعظم ۔ آپ کے پاس اتنی گائیں ہیں، تو کیا خود ہی رکھتے ہیں یا گائیں دوسروں کو بھی دیتے ہیں؟
کسان ۔ ابھی میں نے جو ایک آدیواسی عورت ہے، جو آرگینک کھیتی کرتی ہے اور غریب ہے، اسے میں نے 63 گائیں تحفے میں دی ہیں، بچھڑیاں، میری طرف سے۔
وزیراعظم ۔ دیکھیے میں کاشی کا ایم پی ہوں، تو میں ایک تجربہ کرتا ہوں۔ میں نے وہاں گِر گائیں تقریباً 100 خاندانوں کو دی ہیں، اور ان سے شرط رکھی ہے کہ جو پہلی بچھڑی ہوگی، وہ مجھے واپس دینی ہے۔ جو واپس دیتے ہیں، وہ میں دوسرے خاندان کو دیتا ہوں۔
کسان ۔ 2020 کے وقت میں سر، جب پوری دنیا بند ہو گئی تھی، اس کے بعد تحقیق کی، تھوڑا سا اور پڑھا، پھر محکمہ گیا ہریدوار میں، تو وہاں سے پردھان منتری مچھلی سمپدا یوجنا کے بارے میں پتا چلا۔ اور مجھے لگتا ہے سر، وہ ایک زندگی بدل دینے والی اسکیم ہے ہمارے لیے۔ اور وہاں سے مجھے سبسڈی کے طور پر جو مدد ملی، اس کی وجہ سے مجھے بہت زیادہ فائدہ ہوا۔
وزیراعظم ۔ کتنے لوگوں کو کام دیتے ہیں؟
کسان ۔ 25 کے قریب جو لڑکے ہیں ہمارے گاؤں کے، اتراکھنڈ کے چھوٹے چھوٹے گاؤں سے، وہ ہمارے یہاں آ کر، سر کافی کچھ سیکھ کر...
وزیراعظم ۔ اچھا۔
کسان ۔ کچھ الگ الگ جگہوں پر، الگ الگ جگہوں پر وہ چلے گئے اور اپنا اپنا تھوڑا تھوڑا کام کر رہے ہیں۔
کسان ۔ میرا سجاوٹی مچھلی پہ پیرا۔
وزیراعظم ۔ اچھا... ایکوا کلچر۔
کسان ۔ میں نے پہلی بار سر یوپی میں شروع کیا۔
وزیراعظم ۔ ہاں ہاں۔ کیسے کر رہے ہیں آپ، اور کہاں سے یہ ساری ٹریننگ لی، کیا کیا؟
کسان ۔ سر میں پی ایچ ڈی ہوں، میرا مضمون یہی رہا ہے، تو میں نے سوچا کہ میں نوکری تلاش کرنے والا نہیں بلکہ نوکری دینے والا بنوں، تو پھر میں نے وہیں (جگہ کا نام واضح نہیں) میں آغاز کیا۔
وزیراعظم ۔ دنیا میں ایکوا کلچر میں بہت کام ہوتا ہے۔
کسان ۔ جی جی۔
وزیراعظم ۔ اور بھارت میں کئی خصوصیات بھی ہیں۔ اگر ہم اس طرف دھیان دیں تو بہت بڑا بازار ہے۔
کسان ۔ پردھان منتری مچھلی سمپدا یوجنا اسٹارٹ اپ کسانوں کے لیے بہت بڑی امید ہے۔
کسان ۔ آپ کا جو خواب ہے کہ اگر گاؤں خوشحال ہوگا تو ملک خوشحال ہوگا، تو میں سرائیکلا کے ہاتھی مارا گاؤں میں، وہاں 125 غریب قبائلی اور پسماندہ خاندانوں کو اپنایا ہے، اور وہاں ہم نے مربوط کھیتی کا نیا ماڈل شروع کیا۔
وزیراعظم ۔ آپ کی تعلیم بھی اسی میں ہوئی یا پہلے کہیں ٹریننگ لی، کیسے دل لگا اس میں؟
کسان ۔ سر، آپ میرے آئیڈیل رہے ہو۔
وزیراعظم ۔ ارے بھائی۔
کسان ۔ آپ نے ملک سے اپیل کی تھی کہ نوکری تلاش کرنے والے بننے کے بجائے نوکری دینے والے بنو۔ پوری دنیا میں ٹاٹا اسٹیل اپنا پروڈکٹ بیچتی ہے۔ میرا پروڈکٹ ٹاٹا اسٹیل بیچتی ہے۔
وزیراعظم ۔ واہ، بہت خوب۔
کسان ۔ سر آپ میرے لئے قابل تقلید ہیں،میرے لئےباعث ترغیب اور میرے استاد رہے ہیں ۔میری پوری زندگی پر آپ کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں اور باتوں کا گہرا اثر رہا ہے، جن سے میری زندگی میں مسلسل تبدیلی آتی رہی ہے۔
کسان – جی میں سخی آرگنائزیشن سے منسلک ہوں اور ہمارا سفر 20 خواتین سے شروع ہوا تھا، اور آج یہ90ہزارخواتین تک پہنچ گیا ہے...
وزیر اعظم – 90ہزار۔
کسان- جی سر۔ 90,000 خواتین کام کر رہی ہیں اور وہ دودھ بیچ کر اچھی آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔ اور آج تک ہم نے 14،000 سے زیادہ کروڑ پتی دیدیاں بنائی ہیں۔
وزیر اعظم – یہ تو ایک معجزے جیسا معلوم ہوتا ہے ۔
کسان - میرے یہاں بہت اچھی مچھلیاں ہیں۔
وزیر اعظم -ہاں۔
کسان - مچھلی پروری کو یہ فروغ آپ کی منصوبہ بندی کی وجہ سے حاصل ہوا ہے ۔ پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا کی وجہ سے ایسا ہو پایا ..
وزیراعظم - آپ کے ساتھ کتنے لوگ کام کرتے ہیں؟
کسان -میرے ساتھ 100 لوگ کام کرتے ہیں۔
وزیر اعظم - ٹھیک ہے۔ کیا دوسرے لوگ بھی ہیں جو یہ خیال رکھتے ہیں؟
کسان – جی سر۔ ہم حال ہی میں انڈومان آئے تھےاور ہم اس ماہی گیری بورڈ کو ٹھیک سے نہیں جان سکے تھے۔
وزیر اعظم - ہاں۔
کسان - پردھان منتری متسیا سمپدا یوجنا اسکیم کی وجہ سے بورڈ ابھی تک چل رہا ہے۔ ہمیں بھی برف مل رہی ہے سر۔ ہمیں یہاں مچھلی رکھنے کے لیے بھی جگہ ملتی ہے سر۔
وزیر اعظم - اوہ۔
کسان - میں کشمیر سے آ رہا ہوں۔ میں نے ایک پروگرام کے ذریعے آپ کی پی ایم ایم ایس وائی اسکیم کے بارے میں سنا ہے۔ میں وہاں گیا اور وہاں کام کیا، تو میں نے یہ کلچر شروع کیا۔ میں نے 3 ملازمین کے ساتھ یہ کام شروع کیا تھا جن کی تعداد اب بڑھ کر ۱۴ ہوگئی ہے۔
وزیر اعظم - اوہ۔
کسان - میرے 14 ملازم ہیں اور میں سالانہ 15 لاکھ روپے کا منافع کما رہا ہوں۔ مجھے ایک بہت اچھا بازار ملا ہے اور دوسروں نے بھی اس سے فائدہ اٹھایا ہے، کیونکہ...
وزیر اعظم - اب آپ کا سامان ٹرین سے لے جایا جا رہا ہے، تو کیا آپ کا سامان زیادہ تیزی سے پہنچے گا؟
کسان - بہت ترقی ہو رہی ہے۔ یہ سب آپ کی وجہ سے ہے اور مجھے نہیں لگتا کہ کسی اور وزیر اعظم کے زمانے میں ایسا ممکن تھا...
وزیر اعظم - نہیں، نہیں، جموں و کشمیر کے نوجوانوں میں بہت صلاحیت ہے، بھائی۔
کسان - یہ کشمیر میں آپ کے دور میں، آپ کے دور میں، آپ کی حکومت کے دوران ہوا ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ یہ کسی اور وجہ سے ہو سکتا ہے۔
کسان - ان سے ملنے کے بعد، میرا مطلب ہے، جو تھراپی ہمیں باغبانی اور آبی زراعت سے نہیں ملتی۔ ہم نے آج ان سے ملاقات کی اور چلتے ہوئے اس کے بارے میں بات کی، تو اچھا لگتا ہے کہ ایک قسم کی قدرتی تھراپی ملی۔
کسان - نمسکارم
وزیر اعظم –نمسکار۔
کسان – سرمیں دراصل 2014 میں امریکہ سے آیا تھا۔
پی ایم - اور آپ نے امریکہ چھوڑ دیا؟
کسان – ہاں، میں نے امریکہ چھوڑ دیا، میں اپنے لوگوں کو ملازم رکھنا چاہتا تھا۔ اور سر میں نے 10 ایکڑ کے چھوٹے فارم سے شروعات کی۔ اب کھیتی باڑی میں، میں300 سے زیادہ ایکڑ کھیتی باڑی کر رہا ہوں اور اس میں سب سے اوپر میری ہیچریاں ہیں۔ ہم 10,000 سے زیادہ ایکڑ کے لیے بیج تیار کر رہے ہیں۔ سرمیں نےایف آئی ڈی ایف سے فائدہ اٹھایا اور تقریباً مجھے 7فیصدشرح سود مل گئی۔ تو اس کی وجہ سے میں بہت زیادہ خرچ کرنے کے قابل تھا۔ سر اب میرے پاس 200 کے قریب ملازم ہیں ۔
وزیر اعظم- واہ۔ گریٹ!
کسان – نریندر مودی جی ہماری طرف چل رہے ہیں، یہ میری زندگی کے لئے ایک ٹھہراؤ کا لمحہ تھا۔ یہ انتہائی حیرت انگیز صورتحال تھی ۔
وزیر اعظم - نمستے، بھائی.
کسان – میں گجرات سے ہوں، امبریلی ضلع کے دھاری ایف پی او سے ہوں۔ میرا نام بھاؤنا گونداویہ ہےاور فی الحال میرےایف پی او میں1700 کسان ہیں اور سر ہم نےلگاتار چار سالوں سے 20فیصد۔۔۔
وزیر اعظم - 1700 کسان۔
کسان – جی سر۔
وزیر اعظم – سب کی ملا کر اور کتنی زمین ہوگی؟
کسان - سر، ہم 1,500 ایکڑ پر کاشتکاری کر رہے ہیں اور لگاتار چار سال تک 20فیصد ڈیویڈنڈ ادا کر رہے ہیں۔ 200 کروڑ سے زیادہ…
وزیر اعظم - کیا آپ ان سے مختلف فصلیں خریدتے ہیں؟یا کیا وہ فصلیں اگاتے ہیں جن کا آپ نے فیصلہ کیا ہے؟
کسان - ہم ایم ایس پی پر بھی کام کرتے ہیں اور سر، ہماری سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ حکومت، حکومت ہند کے پاس ایک ضمانتی اسکیم ہے۔ جب ہمارے ایف پی او کے پاس پیسے نہیں تھے تو ہمیں بغیر کسی گارنٹی کے 2 کروڑ روپے دیے گئے۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔
کسان –جناب وزیر اعظم نمسکار ۔۔ میرا نام سنیل کمار ہے۔ میں جیسلمیر راجستھان سے ہوں۔ ہم زیادہ تر آئی ایم پی زیرے میں کرتے ہیں۔انٹیگریٹڈ پیسٹ مینجمنٹ آرگینک زیرہ
وزیر اعظم -اچھا۔
کسان - تو سر، میرے ایف پی او میں 1,035 کسان ہیں، جن میں سے...
وزیر اعظم - سبھی زیرے والے ہیں۔
کسان -زیرہ اور اسپغول۔
وزیر اعظم – زیرےکا بازار کہاں ہے؟
کسان - سر، اب ہم جو بھیج رہے ہیں، ہم اسے گجرات کے مختلف برآمد کنندگان کو دیتے ہیں۔ پھر وہ اسے لے کر جاتے ہیں۔
وزیراعظم - کیا کبھی کسی نےاسپغول کی آئس کریم بنائی ہے؟
کسان - نہیں، نہیں۔
وزیر اعظم - اس کے بارے میں سوچو. یہ ایک بہت بڑی مارکیٹ ہو سکتی ہے۔
کسان - جیسا کہ اس نے قدر میں اضافے کی بات کی تھی۔ اس نے ایک چھوٹا سا خیال دیا۔ اب، یہ کہاں سے آیا؟ ہم نے پہلے آئس کریم کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ یہ پہلی بار ہے جب ہم نے اس کے بارے میں سوچا ہے۔ اب ہم اس کے بارے میں سوچیں گے اور یقینی طور پر اس کے بارے میں کچھ کریں گے۔
کسان: سر میں دھرمیندر کمار مور ہوں، مرزا پور، آپ کے پارلیمانی حلقہ وارانسی کے ساتھ والے ضلع سے۔ ہم جوار پر کام کر رہے ہیں۔
وزیر اعظم: جوار۔
کسان - جی سر۔ جن میں سے...
وزیراعظم - آپ پیکیجنگ، برانڈنگ وغیرہ کرتے ہیں اور بیچتے ہیں۔
کسان - جناب، ہم ڈیفنس اور این ڈی آر ایف کو بھی سپلائی کر رہے ہیں، ہمارا ان کے ساتھ ایم او یو ہے۔
کسان - میرا نام فیاض احمد ہے، میں کشمیر سے ہوں۔ ہم سیب پیدا کرتے ہیں۔
وزیر اعظم - کیا آپ سیب فروش ہیں؟
کسان - ہم ایک سیب فروش ہیں۔
وزیر اعظم - کیا اب آپ کو سیب لے جانے کے لیے کوئی گاڑی مل گئی ہے؟
کسان – ہاں۔ گاڑی تو مل گئی ہے
وزیر اعظم - آپ کے 60,000 ٹن پھل، سبزیاں اور پھول ریل کے ذریعے دہلی پہنچ چکے ہیں۔
کسان - یہاں دہلی پہنچ چکے ہیں اور دوسری جگہوں پر پہنچ گئے ہیں۔
وزیر اعظم - یہ بہت بڑا اقدام ہے، جناب۔
کسان - لیکن۔
وزیراعظم-‘ ٹرکوں میں بہت وقت لگتا ہے۔
کسان - میرا نام روشک سکھلام (نام واضح نہیں) ہے، میں جبل پور، مدھیہ پردیش سے ہوں۔ سر، ہم میروپونکس کے ذریعے آلو کے بیج تیار کرتے ہیں۔
وزیر اعظم – ایسا ہی۔
کسان - جی سر۔ یہ عمودی کاشتکاری ہے، ہم افقی فارمنگ کرتے ہیں۔ سریہ آلو کے بیج ہیں۔ سر ہم آلو سے سونا تو نہیں بناتے بلکہ وہ آلو میں سونے کی طرح ہوتے ہیں کیونکہ ہم اسی کوکھیت میں بڑھاتے ہیں اور کسان خود کی ۔۔۔
وزیر اعظم - اس کا مطلب ہے کہ آپ یہ سب سے اوپر کرتے ہیں ...
کسان - جی سر۔
وزیر اعظم - آلو
کسان - سر اس میں لٹکتے ہوئے آلو ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم - اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ جینوں کے لیے ہے۔ یہ جین آلو ہیں۔ اگر وہ زمین میں ہوں تو جین انہیں نہیں کھاتے، لیکن اگر وہ باہر ہیں تو کھاتے ہیں۔
کسان- جب ہم نریندر مودی سے ملے تو ہم نے انہیں یہ چھوٹے ٹیوبرس دکھائے۔ انہوں نے ان آلوؤں کو دیکھا، وہ ان کے بارے میں، افقی فارمنگ اور ایروپونکس کے بارے میں جانتے تھے۔تو انہوں نےان کو دیکھتے ہی بولا کہ یہ جین آلو ہیں۔ انہوں نےاس آلو کو جین آلوکا خطاب دیا ہے۔
کسان – سرنمسکار۔ میرا نام محمد اسلم ہے۔ میں ضلع باران سے ہوں سر۔ لہسن کی وجہ سے ہمارے...
وزیر اعظم - آپ کہاں سے ہیں؟
کسان – باران ضلع، راجستھان سے۔
وزیر اعظم - باران، راجستھان۔
کسان – جی سر۔ ہم اپنے لہسن کی قیمت میں اضافہ کر رہے ہیں، پاؤڈر اور پیسٹ بنا رہے ہیں اور ہم نے ابھی برآمدی لائسنس کے لیے درخواست دی ہے...
وزیر اعظم - مجھے ابھی ایک نوجوان ملا جس نے کہا کہ ہم بیسن اور لہسن سے پاپڑ بناتے ہیں۔
کسان – سر، مجھے آپ کو یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے ۔میں من کی بات پروگرام میں آپ ذریعہ اعزاز سے بھی سرفراز کیا جا چکا ہوں
وزیر اعظم - واہ۔ ٹھیک ہے، بھائی آپ کا بہت بہت شکریہ۔
****
ش ح۔ ش آ ۔م ح۔م ش۔خ م
U. No-7469
(Release ID: 2178470)
Visitor Counter : 7