وزیراعظم کا دفتر
نئی دہلی میں ایم ایس سوامی ناتھن صد سالہ بین الاقوامی کانفرنس میں وزیراعظم کےخطاب کا متن
Posted On:
07 AUG 2025 11:09AM by PIB Delhi
میرے کابینہ کے ساتھی شیوراج سنگھ چوہان جی، ایم ایس سوامی ناتھن ریسرچ فاؤنڈیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر سومیا سوامی ناتھن جی، نیتی آیوگ کے رکن ڈاکٹر رمیش چند جی، میں دیکھ رہا ہوں کہ سوامی ناتھن جی کے کنبے کے سبھی افرادیہاں موجود ہیں، میں انہیں بھی سلام کرتا ہوں۔ تمام سائنسدانوں، دیگر معززین، خواتین و حضرات!
کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جن کی خدمات کسی ایک دور یا کسی ایک خطہ تک محدود نہیں ہوتی ہیں۔ پروفیسر ایم ایس سوامی ناتھن ایسے ہی ایک عظیم سائنسداں تھے، جو مادروطن کے سپوت تھے۔ انہوں نے سائنس کو عوامی خدمت کا ذریعہ بنایا۔ انہوں نے ملک میں خوراک کی یقینی فراہمی کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔ انہوں نے ایسا شعور بیدار کیا جو آنے والی صدیوں تک ہندوستان کی پالیسیوں اور ترجیحات کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ میں آپ سب کو سوامی ناتھن کی پیدائش کی صد سالہ تقریب پر نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔
ساتھیو،
آج 7 اگست کو ہینڈلوم کا قومی دن بھی ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں ہینڈلوم سیکٹر نے ملک بھر میں نئی شناخت اور طاقت حاصل کی ہے۔ میں آپ سب کو، ہینڈلوم سیکٹر سے وابستہ لوگوں کو، قومی یوم ہتھ کرگھا پر مبارکباد دیتا ہوں۔
ساتھیو،
ڈاکٹر سوامی ناتھن کے ساتھ میری وابستگی کئی سال پرانی تھی۔ بہت سے لوگ گجرات کے پہلے کے حالات جانتے ہیں، پہلے خشک سالی اور طوفانوں کی وجہ سے زراعت پر بہت بحران تھا، کچھ کا ریگستان بڑھتا جا رہا تھا۔ جب میں وزیر اعلیٰ تھا، اس دوران ہم نے سوائل ہیلتھ کارڈ سکیم پر کام شروع کیا۔ مجھے یاد ہے، پروفیسر سوامی ناتھن نے اس میں بہت دلچسپی دکھائی تھی۔ انہوں نے ہمیں تجاویز دیں اور دل سے ہماری رہنمائی کی۔ ان کے تعاون کی وجہ سے اس اقدام کو زبردست کامیابی بھی ملی۔ تقریباً 20 برس ہو گئے ہیں، جب میں نے تمل ناڈو میں ان کی ریسرچ فاؤنڈیشن کے مرکز کا دورہ کیاتھا۔ سال 2017 میں مجھے ان کی کتاب ‘ دی کویسٹ فار اے ورلڈ وداؤٹ ہنگر’ کے اجرا کا موقع ملا تھا۔ سال 2018 میں، جب وارانسی میں انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے علاقائی مرکز کا افتتاح ہوا، ہمیں ان کی رہنمائی بھی ملی۔ ان کے ساتھ ہر ملاقات میرے لیے سیکھنے کا تجربہ تھی، انھوں نے ایک بار کہا تھا، سائنس صرف دریافت نہیں بلکہ ترسیل کے لیے ہے۔ اور انہوں نے اپنے کام سے ثابت کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف تحقیق کی بلکہ کسانوں کو کاشتکاری کے طریقے بدلنے کی ترغیب دی۔ آج بھی ہندوستان کے زرعی شعبے میں ان کے بتائے اصول و نظریات پر عمل کیا جاتا ہے۔ وہ صحیح معنوں میں بھارت کے انمول رتن تھے۔ میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ ہماری حکومت کو ڈاکٹر سوامی ناتھن کو بھارت رتن سے نوازنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
ساتھیو،
ڈاکٹر سوامی ناتھن نے ہندوستان کو غذائی اجناس میں خود کفیل بنانے کی مہم شروع کی، لیکن ان کی شناخت سبز انقلاب سے ماورا تھی۔ وہ کسانوں کو کاشتکاری میں کیمیکلز کے بڑھتے ہوئے استعمال اور مونو کلچر فارمنگ کے خطرات سے آگاہ کرتے رہے۔ یعنی ایک طرف وہ اناج کی پیداوار بڑھانے کی کوشش کر رہےتھےاور ساتھ ہی انہیں ماحولیات کی بھی فکر تھی۔ دونوں کے درمیان توازن قائم کرنے اور چیلنجز کو حل کرنے کے لیے انہوں نے سدا بہار انقلاب کا تصور دیا۔ انہوں نے بایو ولیج کا تصور دیا، جس کے ذریعے گاؤں کے لوگوں اور کسانوں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کمیونٹی سیڈ بینک، اور اپارچونیٹی کراپس جیسے خیالات کو فروغ دیا۔
ساتھیو،
ڈاکٹر سوامی ناتھن کا خیال تھا کہ موسمیاتی تبدیلی اور غذائیت کے چیلنج کا حل انہی فصلوں میں پنہاں ہے جنہیں ہم بھول چکے ہیں۔ ان کی توجہ ڈراؤٹ-ٹالرینس اورسالٹ –ٹالرینس پر تھی۔ انہوں نے ملیٹس-شری اَنّ پرایسے وقت میں کام کیا جب ملیٹس کو کوئی پوچتھا نہیں تھا۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن نے برسوں پہلے مشورہ دیا تھا کہ مینگرووز کی جینیاتی کوالٹی کو چاول میں منتقل کیا جانا چاہیے۔ اس سے فصلیں آب و ہوا کے موافق بھی ہو جائیں گی۔ آج جب ہم آب و ہوا کے موافقت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کتنا آگے کا سوچا تھا۔
ساتھیو،
آج پوری دنیا میں حیاتیاتی تنوع کا چرچا ہے، حکومتیں اس کے تحفظ کے لیے بہت سے اقدامات کر رہی ہیں۔ لیکن ڈاکٹر سوامی ناتھن نے ایک قدم آگے بڑھ کر بایوہیپی نیس کا خیال دیا۔ آج ہم یہاں اسی خیال کا جشن منا رہے ہیں۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن کہتے تھے کہ حیاتیاتی تنوع کی طاقت سے ہم مقامی لوگوں کی زندگیوں میں بہت بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں، ہم مقامی وسائل کا استعمال کر کے لوگوں کے لیے روزی روٹی کے نئے ذرائع پیدا کر سکتے ہیں اور جیسا کہ ان کی شخصیت تھی، وہ اپنے خیالات کوحقیقت کا روپ دینے میں ماہر تھے۔ اپنی ریسرچ فاؤنڈیشن کے ذریعے وہ مسلسل نئی دریافتوں کے فوائد کسانوں تک پہنچانے کی کوشش کرتے رہے۔ ہمارے چھوٹے کسان، ہمارے ماہی گیر بھائی بہن، ہماری قبائلی برادری، ان سب کو ان کی کوششوں سے بہت فائدہ ہوا ہے۔
ساتھیو،
آج مجھےاس بات کی خاص طور پر خوشی ہے کہ پروفیسر سوامی ناتھن کی وراثت کا احترام کرنے کے لیے، ایم ایس سوامی ناتھن ایوارڈ فار فوڈ اینڈ پیس شروع ہو گیا ہے۔ یہ بین الاقوامی ایوارڈ ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کو دیا جائے گا، جنہوں نے غذائی تحفظ کے حوالے سے شاندار کام کیا ہے۔ فوڈ اینڈ پیس، خوراک اور امن کا رشتہ جتنا فلسفیانہ ہے ، اتنا ہی عملی بھی ہے۔ ہمارےیہاں،اپنشدوں میں کہا گیا ہے – انم نا نندیت، تد ورتم۔ پرانو و انّم۔ شری رم انادم۔ پرانے شری رم پرتشٹھم یعنی ہمیں خوراک اور اناج کو نظر انداز یا کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ پران یعنی زندگی ، اناج ہی ہے۔
اس لیےساتھیو،
اگر خوراک کا بحران ہے تو زندگی کا بحران ہے اور جب ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہوں تو عالمی بے چینی بھی فطری ہے۔ لہذا، ایم ایس سوامی ناتھن ایوارڈفار فوڈ اینڈ پیس بہت اہم ہے۔ میں نائیجیریا سے تعلق رکھنے والے ایک باصلاحیت سائنسداں پروفیسراڈیمولا آڈینلے کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے پہلی بار یہ اعزاز حاصل کیا۔
ساتھیو،
ہندوستانی زراعت آج جس بلندی پر ہے ڈاکٹر سوامی ناتھن جہاں کہیں بھی ہوں گے، انہیں یہ دیکھ کر فخر ہوتا ہوگا۔ آج بھارت دودھ، دالوں اور جوٹ کی پیداوار میں پہلے نمبر پر ہے۔ آج ہندوستان چاول، گندم، کپاس، پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار میں دوسرے نمبر پر ہے۔ آج بھارت دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مچھلی پیدا کرنے والا ملک بھی ہے۔ پچھلے سال، ہندوستان نے سب سے زیادہ غذائی اجناس کی پیداوار کی ہے۔ ہم تلہن میں بھی ریکارڈ بنا رہے ہیں۔ سویابین، سرسوں، مونگ پھلی، سب کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔
ساتھیو،
ہمارے لیے، ہمارے کسانوں کی فلاح و بہبود ہماری اولین ترجیح ہے۔ ہندوستان اپنے کسانوں، مویشی پالنے والوں اور ماہی گیروں کے مفادات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرے گا اور میں جانتا ہوں کہ مجھے ذاتی طور پر بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی، لیکن میں اس کے لیے تیار ہوں۔ آج ہندوستان میرے ملک کے کسانوں کے لیے، میرے ملک کے ماہی گیروں کے لیے، میرے ملک کے مویشیوں کے کسانوں کے لیے تیار ہے۔ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ، کاشتکاری پر اخراجات کو کم کرنا، آمدنی کے نئے ذرائع پیدا کرناہم ان اہداف پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔
ساتھیو،
ہماری حکومت نے کسانوں کی طاقت کو ملک کی ترقی کی بنیاد سمجھا ہے۔ اس لیے گزشتہ برسوں میں بنائی گئی پالیسیوں سے نہ صرف مدد ملی بلکہ کسانوں میں اعتماد بڑھانے کی کوشش بھی ہوئی۔ وزیر اعظم کسان سمان ندھی کی طرف سے براہ راست مدد ملنے سے چھوٹے کسانوں میں خود اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ پی ایم فصل بیمہ یوجنا نے کسانوں کو خطرے سے تحفظ فراہم کیا ہے۔ پی ایم کرشی سینچائی یوجنا کے ذریعے آبپاشی سے متعلق مسائل کو حل کیا گیا ہے۔ 10 ہزار ایف پی اوز کی تشکیل سے چھوٹے کسانوں کی منظم طاقت میں اضافہ ہوا ہے، کوآپریٹیو اور سیلف ہیلپ گروپس کو مالی امداد نے دیہی معیشت کو نئی تحریک دی ہے۔ ای-این اے ایم کی وجہ سے کسانوں کے لیے اپنی پیداوار فروخت کرنا آسان ہو گیا ہے۔ پی ایم کسان سمپدا یوجنا نے نئے فوڈ پروسیسنگ یونٹس اور اسٹوریج کی مہم کو بھی تیز کیا ہے۔ حال ہی میں پی ایم دھن دھان یوجنا کو بھی منظوری دی گئی ہے۔ اس کے تحت 100 ایسے اضلاع کا انتخاب کیا گیا ہے جہاں زراعت پسماندہ رہی۔ یہاں پر سہولیات فراہم کرنے اور کسانوں کو مالی مدد دینے سے زراعت میں نیا اعتماد پیدا ہو رہا ہے۔
ساتھیو،
21ویں صدی کا ہندوستان ترقی یافتہ بننے کے لیے سخت محنت کر رہا ہے اور یہ مقصد ہر طبقے اور ہر پیشے کے تعاون سے ہی حاصل ہوگا۔ ڈاکٹر سوامی ناتھن سے تحریک لے کر اب ملک کے سائنسدانوں کے پاس ایک بار پھر تاریخ رقم کرنے کا موقع ہے۔ پچھلی نسل کے سائنسدانوں نے خوراک کی حفاظت کو یقینی بنایا۔ اب غذائی تحفظ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بائیو فورٹیفائیڈ اور غذائیت سے بھرپور فصلیں بڑے پیمانے پر اگانی ہوں گی، تاکہ لوگوں کی صحت بہتر ہو۔ ہمیں کیمیکلز کے استعمال کو کم کرنے اور قدرتی کھیتی کو فروغ دینے کے لیے مزید تیاری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
ساتھیو،
آپ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمیں آب و ہوا کے لیے لچکدار فصلوں کی زیادہ سے زیادہ اقسام تیار کرنی ہوں گی۔ ہمیں خشک سالی برداشت کرنے والی، گرمی سے بچنے والی اور سیلاب سے موافقت پذیر فصلوں پر توجہ دینی ہوگی۔ فصل کے چکر کو کیسے بدلا جائے، کونسی مٹی کے لیے موزوں ہے اس پر مزید تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کے ساتھ، ہمیں مٹی کی جانچ کے سستے آلات اور غذائیت کے انتظام کے طریقے بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ساتھیو،
ہمیں شمسی توانائی سے چلنے والی مائیکرو اریگیشن کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ڈرپ سسٹم اور درست آبپاشی کو زیادہ جامع اور موثر بنانے کی ضرورت ہے۔ کیا ہم سیٹلائٹ ڈیٹا، اے آئی اور مشین لرننگ کو یکجا کر سکتے ہیں؟ کیا ہم ایسا نظام بنا سکتے ہیں جو پیداوارکو امید کے مطابق دے سکے، کیڑوں کی نگرانی کر سکے اور بوائی کی رہنمائی کر سکے؟ کیا اس طرح کا حقیقی وقتی فیصلہ سازی کا نظام ہر ضلع تک پہنچایا جا سکتا ہے؟ آپ کو تمام ایگری ٹیک اسٹارٹ اپس کی رہنمائی جاری رکھنی چاہیے۔ آج، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کاشتکاری کے مسائل کا حل تلاش کرنے میں مصروف ہے۔ اگر آپ، جو تجربہ کار لوگ ہیں، ان کی رہنمائی کریں، تو ان کی بنائی ہوئی مصنوعات زیادہ موثر اور صارف دوست ہوں گی۔
ساتھیو،
ہمارے کسانوں اور ہماری کاشتکاری برادریوں کے پاس روایتی علم کا خزانہ ہے۔ روایتی ہندوستانی زرعی طریقوں اور جدید سائنس کو ملا کر ایک جامع علم کی بنیاد بنائی جا سکتی ہے۔ فصلوں کی تنوع بھی آج ایک قومی ترجیح ہے۔ ہمیں اپنے کسانوں کو بتانا ہوگا کہ اس کی اہمیت کیا ہے۔ ہمیں یہ بتانا ہے کہ اس سے کیا فوائد حاصل ہوں گے اور یہ بھی بتانا ہے کہ ایسا نہ کرنے کے کیا نقصانات ہوں گے۔ اور اس کے لیے آپ زیادہ بہتر طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔
ساتھیو،
پچھلے سال، جب میں 11 اگست کو پوسا کیمپس آیا تھا، تو میں نے کہا تھا کہ ہمیں زرعی ٹیکنالوجی کو لیب سے لے کر لینڈ تک لے جانے کی کوششیں بڑھانی چاہئیں۔ مجھے خوشی ہے کہ ‘‘وکست کرشی سنکلپ ابھیان’’ مئی-جون کے مہینے میں شروع کیا گیا تھا۔ پہلی بار، سائنسدانوں کی تقریباً 2200 ٹیموں نے ملک کے 700 سے زیادہ اضلاع میں حصہ لیا، 60 ہزار سے زیادہ پروگرام کئے اور یہی نہیں، ہم نے تقریباً 1.25 کروڑ سرگرم عمل کسانوں سے براہ راست بات چیت کی۔ ہمارے سائنسدانوں کی زیادہ سے زیادہ کسانوں تک پہنچنے کی یہ کوشش بہت قابل تعریف ہے۔
ساتھیو،
ڈاکٹر ایم ایس سوامی ناتھن نے ہمیں سکھایا تھا کہ کھیتی صرف فصل کی نہیں ہوتی، کھیتی لوگوں کی زندگی ہوتی ہے۔ کھیت سے وابستہ ہر فرد کا وقار، ہر کمیونٹی کی خوشحالی اور فطرت کا تحفظ، یہ ہماری حکومت کی زرعی پالیسی کی طاقت ہے۔ ہمیں سائنس اور معاشرے کو ایک دھاگے میں جوڑنا ہے، چھوٹے کسانوں کے مفادات کو مقدم رکھنا ہے اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو بااختیار بنانا ہے۔ ہم اسی مقصد کے ساتھ آگے بڑھیں، ڈاکٹر سوامی ناتھن کی ترغیبات ہم سبھی کے ساتھ ہیں۔ میں ایک بار پھر آپ سبھی کو اس تقریب کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
آپ کا بہت بہت شکریہ!
*****
ش ح۔ ک ا۔ ع د
U-No. 4266
(Release ID: 2153465)
Read this release in:
English
,
Hindi
,
Marathi
,
Manipuri
,
Bengali
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Telugu
,
Kannada