وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

نیوز 18 رائزنگ بھارت سمٹ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 08 APR 2025 11:20PM by PIB Delhi

نمسکار!

آپ نے مجھے اس سمٹ کے ذریعے ملک اور دنیا کے معزز مہمانوں سے، آپ کے حاضرین سے جڑنے کا موقع دیا ہے، میں نیٹ ورک 18 کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اس سال کی سمٹ کو بھارت کے نوجوانوں کی اُمنگوں سے جوڑا ہے۔اس سال کے آغاز میں، ویوکانند جینتی کے دن، یہیں بھارت منڈپ میں وکست بھارت ینگ لیڈرز ڈائیلاگ ہوا تھا۔ تب میں نے نوجوانوں کی آنکھوں میں دیکھا تھا، خوابوں کی چمک، عزم کی طاقت اور بھارت کو ترقی یافتہ بنانے کا جنون، 2047 تک ہم بھارت کو جس بلندی پر لے جانا چاہتے ہیں، جس روڈ میپ کو لے کر ہم چل رہے ہیں، اس کے قدم قدم پر اگر منتھن ہوگا، تو یقیناً امرت نکلے گا۔ اور یہی امرت، امرت کال کی پیڑھی کو توانائی دے گا، سمت دے گا اور بھارت کو رفتار دے گا۔ میں آپ کو اس سمٹ کی مبارکباد دیتا ہوں، نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو!

آج دنیا کی نظر بھی بھارت پر ہے اور دنیا کی امید بھی بھارت سے ہے۔ کچھ ہی برسوں میں ہم دنیا کی 11ویں سے 5ویں سب سے بڑی معیشت بنے ہیں، بہت کم وقت میں، طرح طرح کے عالمی چیلنجز آئے لیکن بھارت رُکا نہیں، بھارت نے دوگنا رفتار سے دوڑ لگائی۔ اور ایک دہائی میں اپنی کے سائز کو دوگنا کرکے دکھایا ہے۔ جو سوچتے تھے کہ بھارت دھیما اور متوازن چلے گا، انہیں اب تیز رفتار اور نِڈر انڈیا دکھائی دے رہا ہے اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جلد ہی بھارت کی دنیا کی تیسری معیشت بننا طے ہے۔ ترقی کی اس انوکھی رفتار کو کون تحریک دےرہا ہے؟ اسے تحریک دے رہے ہیں بھارت کے نوجوان، ان کے عزائم اور ان کی اُمنگیں، یُوا بھارت کے انہی عزائم اور امنگوں پر توجہ دینا آج ملک کی ترجیح بھی ہے۔

ساتھیو!

آج 8 اپریل ہے، کل پرسوں ہی 2025 کے 100 دن پورے ہو رہے ہیں، 100 دن2025 کا پہلا پڑاؤ، ان 100 دنوں میں جو فیصلے ہوئے ہیں، ان میں بھی آپ کو نوجوانوں کی امنگوں کی ہی جھلک دکھائی دے گی۔

ساتھیو!

ان 100 دنوں میں ہم نے صرف فیصلے نہیں لیے ہیں، ہم نے مستقبل کی مضبوط بنیاد رکھی ہے۔ ہم نے پالیسیوں سے امکانات کی راہ کھولی ہے۔ 12 لاکھ روپے تک کی آمدنی تک ٹیکس صفر، شکریہ! اس کا سب سے بڑا فائدہ ہمارےنوجوان پروفیشنلز اور کاروباریوں کو مل رہا ہے۔ میڈیکل کی 10 ہزار نئی سیٹیں، آئی آئی ٹی میں 6500 نئی سیٹیں یعنی تعلیم کی توسیع، اختراع کی تیری، 50 ہزار نئی اٹل ٹنکرنگ لیب یعنی اب ملک کے ہر کونے میں اختراع کا دیپ جلے گا اور ایک دیپ سے جلے دیپ انیک! اے آئی اور ہنرمندی کی ترقی کے لیے سینٹر آف ایکسیلینس یوتھ کو ملے گا مستقبل کے لیے تیار ہونے کا موقع، 10 ہزار نئی پی ایم ریسرچ فیلوشپ، اب آئیڈیا سے امپیکٹ تک کا سفر اور آسان ہونے والا ہے۔ جیسے خلا کا سیکٹر کھولا گیا، ویسے ہی اب نیوکلیئر انرجی سیکٹر بھی کھولا گیا، اختراع کو اب حدود نہیں، مدد ملے گی۔ گگ اکانومی سے جڑے نوجوانوں کو پہلی بار سوشل سیکورٹی کا کور دیا جائے گا۔ جو پہلے دوسروں کے لیے دستیاب نہیں تھے، اب وہ پالیسیوں کے مرکز میں ہیں اور ایس سی، ایس ٹی اور خواتین کاروباریوں کے لیے دو کروڑ کے ٹرم لون شمولیت محض ایک وعدہ نہیں ہے، یہ ایک پالیسی ہے۔ اِن سبھی فیصلوں کا سیدھا سادہ فائدہ بھارت کے نوجوانوں کو ملنے والا ہے کیونکہ جب نوجوان آگے بڑھے گا، تبھی بھارت آگے بڑھے گا۔

ساتھیو!

ان 100 دنوں میں بھارت نے جو کیا ہے، وہ دکھاتا ہے کہ بھارت رُکنے والا نہیں ہے، بھارت جھکنے والا بھی نہیں ہے، بھارت اب تھمنے والا بھی نہیں ہے۔ ان 100 دنوں میں بھارت دنیا کا چوتھا ایسا ملک بنا، جس نےسیارچوں کی ڈاکنگ اور اَن ڈاکنگ کی صلاحیت حاصل کی۔ بھارت نے سیمی کرائیوجینک انجن کا کامیاب تجربہ کرکے دکھایا۔ بھارت نے 100 گیگاواٹ سولر کیپیسٹی کا تاریخی پڑاؤ پار کر لیا۔ بھارت نے 1 ہزار ملین ٹن کا ریکارڈ بنایا۔انتہائی اہم معدنیات کے قومی مشن کی شروعات ہوئی اور انہی 100 دنوں میں ملازمین کے لیے 8ویں تنخواہ کمیشن تشکیل دینے کا فیصلہ ہوا۔ کسانوں کے لیے کھاد پر سبسڈی میں اضافے کا فیصلہ ہوا یعنی انادتا کی فکر سرکار کی ترجیح ہے۔ چھتیس گڑھ میں 3 لاکھ سے زیادہ خاندانوں نے ایک ساتھ نئے گھروں میں گِرہ پرویش کیا۔ سوامتو یوجنا کے تحت 65 لاکھ سے زیادہ پراپرٹی کارڈ سونپے گئے اور اتنا ہی نہیں انہی 100 دنوں میں دنیا کی سب سے اونچی سرنگوں میں سے ایک سون مرگ سرنگ قوم کو وقف کی گئی۔ آئی این ایس سورت، آئی این ایس نیلگری، آئی این ایس واگھشیر بھارتی بحریہ کی طاقت میں نئے نگینے جڑ گئے۔ فوج کے لیے میڈ ان انڈیا لائٹ کمبیٹ ہیلی کاپٹر خریدی کو ہری جھنڈی ملی اور وقف کے، وقف قانون میں ترمیم کا بل پاس ہوا یعنی سماجی انصاف کے لیے ایک اور بڑا اور ٹھوس قدم اٹھایا گیا۔ یہ 100 دن، 100 فیصلوں سے بھی بڑھ کر ہیں۔ یہ 100 وعدوں کی تکمیل کے دن ہیں۔

ساتھیو!

پرفارمنس کا یہی منتر رائزنگ بھارت کے پیچھے کی اصلی توانائی ہے۔ آپ جانتے ہیں، ابھی دو دن پہلے ہی میں رامیشورم میں تھا۔ وہاں مجھے تاریخی پمبن پل کے افتتاح کا موقع ملا۔ قریب سوا سو سال پہلے انگریزوں نے وہاں ایک پل بنوایا تھا۔ اس پل نے تاریخ دیکھی، اس نے آندھیاں سہیں، ایک بار سونامی نے، سمندری طوفان نے اس پل کو بہت نقصان پہنچایا۔ برسوں تک ملک انتظار کرتا رہا، لوگ مانگ کرتے رہے، لیکن پہلے کی سرکاروں کی نیند نہیں ٹوٹی، جب ہماری سرکار آئی، تو نئے پمبن پُل کے لیے کام شروع ہوا۔ اور اب ملک کو اپنا پہلا ورٹیکل لفٹ ریل-سی پُل مِل گیا ہے۔

ساتھیو!

پروجیکٹس کو لٹکاتے رہنے سے ملک نہیں چلتا، ملک چلتا ہے، پرفارم کرنے سے، تیزی سے کام کرنے سے۔تاخیر ترقی کی دشمن ہوتی ہےاور ہم نے اس دشمن کو ہرانے کی ٹھان لی ہے۔ میں آپ کو اور بھی مثالیں دوں گا۔ جیسے آسام کا بوگیبیل پُل، ہمارے سابق وزیراعظم دیو گوڑا جی نے 1997 میں اس کی بنیاد رکھی۔ واجپائی جی کی سرکار آئی، انہوں نے کام شروع کروایا۔ واجپائی جی کی سرکار گئی، کانگریس کی سرکار آئی، تو پُل کا کام بھی لٹک گیا۔ اروناچل اور آسام کے لاکھوں لوگ پریشان ہوتے رہے، لیکن تب کی سرکار پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ 2014 میں آپ نے جب ہمیں خدمت کا موقع دیا اور یہ پروجیکٹ پھر سے شروع ہوا۔ اور صرف 4 سال میں، 2018 میں پُل کا کام پورا ہو گیا۔اسی طرح کیرالہ میں کولم بائی پاس روڈ پروجیکٹ کی بھی مثال ہے۔ یہ 1972 سے اٹکا ہوا تھا، سوچیے! 50 سال!ایل ڈی ایف ہو یا یو ڈی ایف، کسی سرکار نے 50 سال تک اس پر کوئی کام نہیں کروایا۔ ہم نے سرکار بننے کے 5 سال کے اندر اس کا کام پورا کر دیا۔

ساتھیو!

نوی ممبئی ایئرپورٹ پر بھی 1997 سے چرچا شروع ہوئی تھی،   2007   میں اسے منظوری ملی، لیکن کانگریس کی سرکار نے اس پر کام نہیں کیا۔ ہماری سرکار نے اس پروجیکٹ کو بھی تیزی سے پورا کیا۔ وہ دن دور نہیں جب نوی ممبئی ایئرپورٹ سے تجارتی پروازیں بھی شروع ہو جائیں گی۔

ساتھیو!

یہ جو میں گنا رہا ہوں، اس میں   پارلیمنٹ بھون   بھی آئے گا، یہ   بھارت منڈپم   بھی آئے گا۔

ساتھیو!

آج   8 اپریل   کی ایک اور وجہ سے بہت اہمیت ہے۔ آج ہی   مُدْرَا اسکیم   کے   10 سال   پورے ہوئے ہیں۔ یہاں جو نوجوان ساتھی بیٹھے ہیں، انہوں نے تو اپنے والدین سے ضرور کہانیاں سنی ہوں گی کہ پہلے بغیر گارنٹی کے بینک اکاؤنٹ تک نہیں کھلتا تھا۔ اکاؤنٹ کھولنے کے لیے گارنٹی چاہیے، کسی اور کی مدد چاہیے۔ بینک لوں، یہ عام خاندان کے لیے تو خواب ہوا کرتا تھا۔ غریب خاندان، ایس سی/ایس ٹی، او بی سی ، بے زمین مزدور، خواتین، جو صرف محنت کر سکتے تھے، لیکن جن کے پاس رہن رکھنے کو کچھ نہیں تھا، کیا ان کے خوابوں کی کوئی قیمت نہیں تھی؟ کیا ان کی امنگیں  کم تھیں؟ کیا ان کی محنت کا کوئی مول نہیں تھا؟ ہماری   مُدْرَہ اسکیم   نے، ان کی امنگوں پر توجہ دی، یوتھ کو ایک نیا راستہ دیا۔ پچھلے   10 سال   میں مُدْرَہ اسکیم کے تحت   52 کروڑ   لون، بغیر گارنٹی دیے گئے،   52 کروڑ!   اور مُدْرَہ اسکیم کی  وسعت   ہی نہیں،  رفتار   بھی حیرت انگیز ہے۔  جب تک ٹریفک لائٹ   ریڈ سے گرین   ہوتی ہے، تب تک   100 مُدْرَہ لون   کلیئر ہو جاتے ہیں۔  جب تک آپ برش کرکے فری ہوتے ہیں، تب تک   200 مُدْرَہ لون   منظور ہو جاتے ہیں۔  جب تک آپ کسی ریڈیو چینل پر اپنا پسندیدہ گانا سن کر ختم کرتے ہیں، تب تک   400 مُدْرَہ لون   منظور ہو جاتے ہیں۔  آج کل اِنسٹینٹ ڈلیوری ایپس  کا بڑا چلن ہے۔ آپ کے آرڈر کے بعد جتنی دیر میں ڈیلیوری ہوتی ہے، اتنی دیر میں   ایک ہزار مُدْرَہ لون   منظور ہو جاتے ہیں۔  جب تک آپ کسی او ٹی ٹی  پر ایک ایپی سوڈ ختم کرتے ہیں، تب تک   5 ہزار مُدْرَہ   بزنس کی بنیاد بن جاتی ہے۔

ساتھیو!

مُدْرَہ اسکیم نے گارنٹی نہیں مانگی، اس نےبھروسہ کیا۔ اور آپ سب کو جان کر اچھا لگے گا کہ مُدْرَہ اسکیم کی وجہ سے 11 کروڑ لوگوں کو پہلی بار اپنا کوئی کام کرنے کے لیے خودروزگار کا قرض ملا ہے۔ یہ 11 کروڑ لوگ اب پہلی بار کاروباری بنے ہیں۔ یعنی 10 سال میں، 11 کروڑ نئے خوابوں کو پرواز ملی ہے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ مُدْرَہ سے کتنا پیسہ، گاؤں اور چھوٹے شہروں میں پہنچا ہے؟ تقریباً 33 لاکھ کروڑ روپے! تینتیس لاکھ کروڑ روپے! اتنی تو کئی ممالک کی جی ڈی پی بھی نہیں ہے۔یہ کوئی مائکروفائنانس نہیں ، یہ زمینی سطح پر ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔

ساتھیو!

ایسی ہی مثال ’’امنگوں والے اضلاع‘‘ اور ’’امنگوں والے بلاکس‘‘ کی ہے۔ پہلے کی سرکاروں نے ملک کےسو سے زیادہ ایسے ضلعوں کو پسماندہ قرار دے کر انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیا تھا۔ ان میں سے کئی ضلعے شمال مشرق میں تھے، ٹرائبل بیلٹ میں تھے۔ کرنا تو یہ چاہیے تھا کہ ان اضلاع میں سرکار اپنا بہترین ٹیلنٹ بھیجتی، لیکن ہوتا یہ تھا کہ ان اضلاع میں افسروں کوبطور سزاتعیناتی پر بھیجا جاتا تھا۔ یہی تو پرانی سوچ تھی’’پسماندہ کو پسماندہ ہی رہنے دو‘‘۔ ہم نے یہ طریقۂ کار بدلا اور ان ضلعوں کو’’امنگوں والے اضلاع‘‘ قرار دیا۔ ہم نے ان ضلعوں کی انتظامیہ پر توجہ دی ہے، اپنی فلیگ شپ اسکیمز کو مشن موڈمیں ان ضلعوں میں نافذ کیا۔ مختلف پیرامیٹرز کی بنیاد پر ان ضلعوں کی ترقی کو مانیٹر کیا گیا۔ آج وہی امنگوں والے اضلاع کئی ریاستوں کے اوسط سے بہتر اور کئی تو قومی اوسط سے آگے نکل چکے ہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا فائدہ وہاں کے نوجوانوں کو ملا ہے۔ اب وہاں کے نوجوان کہتے ہیں ’’ہم بھی کر سکتے ہیں، ہم بھی آگے بڑھ سکتے ہیں‘‘۔ آج دنیا کے کئی معتبر ادارے اورجریدے، امنگوں والے اضلاع کے پروگرام کی تعریف کرتے ہیں۔ اسی کامیابی سےمتاثرہو کر اب ہم 500 امنگوں والے بلاکس پر کام کر رہے ہیں۔ جب ترقی کو امنگیں تحریک دیتی ہیں، تو وہ شمولیتی بھی ہوتی ہے اور پائیداربھی۔

ساتھیو!

کسی بھی ملک کی تیز ترقی کے لیے بہت ضروری ہے کہ ملک میں امن، استحکام اور تحفظ کا احساس ہو۔ گرو دیو ٹیگور کی خواہش تھی ’’چت جیتھا بھے شونیو، اُچّ جیتھا شیر‘‘ ،جہاں ذہن بے خوف ہو اور سر بلند ہو۔لیکن دہائیوں تک بھارت میں خوف، دہشت اور دہشت گردی کا ماحول بڑھتا ہی گیا۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان بھی نوجوانوں کو ہوا۔تشدد،علیحدگی پسندی اور دہشت کی آگ میں سب سے زیادہ ملک کا نوجوان ہی جھلسا ہے۔جموں و کشمیرمیں دہائیوں تک نوجوانوں کی کئی نسلیں بم، بندوق اور پتھر بازی میں ضائع ہو گئیں۔ لیکن دہائیوں تک ملک پر حکومت کرنے والوں نے اس آگ کو بجھانے کی ہمت نہیں دکھائی۔ ہماری سرکار کے مضبوط سیاسی عزم اور حساسیت کی وجہ سے آج وہاں حالات بدل چکے ہیں۔ آج جموں و کشمیر کا نوجوان ترقی سے جڑچکا ہے۔

ساتھیو!

آپ نکسل واد کو بھی دیکھیں، ملک کے سوا سو سے زیادہ اضلاع نکسل واد کی لپیٹ میں، تشدد کی زد میں تھے، سوا سو اضلاع!جہاں سے نکسل واد شروع ہوتا تھا، وہاں سرکار کی حد ختم ہو جاتی تھی۔ بڑی تعداد میں نوجوان نکسل واد سے متاثر تھے۔ ہم نے ایسے نوجوانوں کومرکزی دھارے میں لانے کی کوشش کی۔ پچھلے 10 برسوں میں 8 ہزار سے زیادہ نکسلیوں نے ہتھیار ڈال دیے، تشدد کا راستہ چھوڑ دیا۔ آج نکسل متاثرہ اضلاع کی تعداد بھی 20 سے کم رہ گئی ہے۔  ہمارے شمال مشرق میں بھی دہائیوں سے علیحدگی پسندی اور تشدد کا ایک لامتناہی سلسلہ چل رہا تھا۔ ہماری سرکار نے، پچھلے10 برسوں میں 10 بڑے امن معاہدے کیے۔ اس دوران، 10 ہزار سے زیادہ نوجوانوں نے ہتھیار چھوڑے اور ترقی کے اصل دھارےمیں شامل ہوئے ہیں۔ کامیابی صرف یہ نہیں ہے کہ ہزاروں نوجوانوں نے ہتھیار چھوڑے، کامیابی یہ بھی ہے کہ اس نے ہزاروں نوجوانوں کاحال اور مستقبل بچایا ہے۔

ساتھیو!

ہمارے یہاں دہائیوں تک ایک رجحان چلا۔ قومی چیلنجوں کو پہچاننے کے بجائے، انہیں سیاسی قالین کے نیچے چھپا دیا گیا۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ایسے مسائل سے آنکھیں نہ چُرائیں۔ 21ویں صدی کی نسلوں کو ہم 20ویں صدی کی سیاسی غلطیوں کا بوجھ نہیں دے سکتے۔ بھارت کی ترقی میں، مصالحت خواہی کی سیاست ایک بہت بڑا چیلنج رہا ہے۔ ابھی پارلیمنٹ میں وقف سے جڑے قانون میں ترمیم ہوئی ہے۔ اس پر آپ کے نیٹ ورک نے بھی کافی بحث کی ہے۔ یہ جو وقف سے جڑی بحث ہے، اس کی جڑ میں مصالحت خواہی کی سیاست ہے، پالیٹکس آف اپیزمنٹ ہے۔ یہ مصالحت خواہی کی سیاست کوئی نئی نہیں ہے۔ اس کا بیج، ہمارے آزادی کی جدوجہد کے وقت ہی بو دیا گیا تھا۔ آپ سوچیں، بھارت سے پہلے، بھارت کے ساتھ ساتھ اور ہمارے بعد، دنیا میں کئی ممالک آزاد ہوئے۔ لیکن کتنے ممالک ایسے ہیں، جن کی آزادی کی شرط تقسیم تھی؟ کتنے ممالک ہیں، جو آزادی کے ساتھ ہی ٹوٹ گئے؟بھارت کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا؟کیونکہ اس وقت قوم کے مفاد سے اوپراقتدار کی ہوس رکھ دی گئی۔ الگ ملک کا خیال عام مسلم خاندانوں کا نہیں تھا۔ بلکہ کچھ انتہا پسندوں کا تھا۔ جسے کچھ کانگریس لیڈروں نے پروان چڑھایا۔ تاکہ وہ اقتدار کے واحد دعویدار بن سکیں۔ 

ساتھیو! 

مصالحت خواہی کی اس سیاست میں کانگریس کو اقتدار ملا،کچھ انتہا پسند لیڈروں کوطاقت اور دولت ملی لیکن سوال یہ ہے، عام مسلمان کو کیا ملا؟ غریب، پسماندہ مسلمان کو کیا ملا؟  اسے ملا توہین۔ اسے ملی جہالت۔ اسے ملی بے روزگاری۔ اورمسلم خواتین کو کیا ملا؟انہیں ملا، شاہ بانو جیسا انصاف۔ جہاں ان کا آئینی حق انتہا پسندی کی بھینٹ چڑھ گیا۔ انہیں ملا،خاموش رہنے کا حکم،سوال نہ پوچھنے کا دباؤ۔ اور انتہا پسندوں کو مل گیا کھلا لائسنس، خواتین کے حقوق کوکچلنے کا۔

ساتھیو!

مصالحت پسندی یعنی پالیٹکس آف اپیزمنٹ بھارت کے سماجی انصاف کے بنیادی تصور کے مکمل طور پر خلاف ہے۔ لیکن کانگریس نے اسے ووٹ بینک کی سیاست کا ہتھیار بنا دیا۔ 2013میں وقف قانون میں کی گئی ترمیم مسلم انتہا پسندوں اور زمین مافیا کو خوش کرنے کی کوشش تھی۔ اس قانون کو ایسی شکل دی گئی کہ اس نے آئین کے اوپر کھڑے ہونے کا وہم پیدا کر دیا۔ جس آئین نے انصاف کے راستے کھولے، انہی راستوں کو وقف قانون میں تنگ کر دیا گیا۔ اور اس کے منفی نتائج کیا ہوئے؟   انتہا پسندوں اور زمین مافیا کے حوصلے بلند ہوئے۔  کیرالہ میں عیسائی سماج کے دیہاتیوں کی زمین پروقف کے دعوے، ہریانہ میں گردواروں کی زمین کے تنازعات ، کرناٹک میں کسانوں کی زمین پر دعویٰ ، کئی ریاستوں میں گاؤں کے گاؤں، ہزاروں ہیکٹیئر زمین اب این او سی اور قانونی الجھنوں میں پھنسی پڑی ہیں۔مندرہوں، گرجا گھرہوں، گردوارے ہوں، کھیت ہوں، سرکاری زمین ہوں کسی کو اب یہ بھروسہ نہیں رہا گیا تھا کہ ان کی زمین ان کی ہی رہے گی۔ بس ایک نوٹس آتا تھا اور لوگ اپنے ہی گھر اور کھیت کے لیےکاغذات ڈھونڈتے رہ جاتے تھے۔ جو قانون انصاف کے لیے تھا، وہ خوف کا سبب بن گیا، یہ کیسا قانون تھا؟

ساتھیو!

میں ملک کی پارلیمنٹ کو، پورے سماج کے مفاد میں، مسلم سماج کے مفاد میں ایک شاندار قانون بنانے کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ اب وقف پاکیزہ جذبے کی بھی حفاظت ہوگی اور غریب-پسماندہ مسلمان، عورت-بچے، سب کے حق بھی محفوظ رہیں گے۔ وقف بل پر ہوئی بحث، ہماری پارلیمانی تاریخ کی دوسری سب سے لمبی بحث تھی، یعنی 75 سال میں دوسری سب سے لمبی بحث۔ اس بِل کو لے کر دونوں ایوانوں کو ملا کر 16 گھنٹے چرچا ہوئی۔ جے پی سی کے 38 اجلاس ہوئے، 128 گھنٹے بحث ہوئی۔ ملک بھر سے تقریباً ایک کروڑ آن لائن آراء آئیں۔ یہ دکھاتا ہے کہ، آج بھارت میں جمہوریت صرف پالیمنٹ کی چار دیواروں تک محدود نہیں ہے۔ ہماری جمہوریت جن-بھاگیداری سے اور زیادہ مضبوط ہو رہی ہے۔ 

ساتھیو!

آج دنیا تیزی سے ٹیکنالوجی اور اے آئی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اسی لیے اب یہ زیادہ ضروری ہے کہ ہم ہماری سافٹر سائڈس پر آرٹ، میوزک، کلچر، تخلیقیت، کیونکہ ہم روبوٹ تیار کرنا نہیں چاہتے، ہم انسان تیار کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی جو کچھ بھی ہمیں مشینوں کے سہارے چلتا ہے، ان پر انسانیّت کے لیے، حساسیت پر زیادہ کام کریں۔ انٹرٹینمنٹ، آج دنیا کی سب سے بڑی صنعت میں سے ایک ہے اور آنے والے وقت میں اس کی اور وسعت ہوگی۔ ایسے ہی وقت میں، ہم نے آرٹ اور کلچر کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے، اسے منانے  کرنے کے لیے،ویوزاور ابھی راہل جب تقریر کر رہے تھے، شاید 10 بار آئے، 10 بارویوزلفظ تھا، لیکن وہ ویوز  2014 میں ہی شروع ہوا ہے، ایسا نہیں، ہر 10 سال میں نئے رنگ روپ کے ساتھ آتا ہے اور آج جب میں اس ویوز کی بات کر رہا ہوں یعنی ویوز یعنی ورلڈ آڈیو-ویژوئل اینڈ انٹرٹینمنٹ سمٹ، اس ویوز نام کا پلیٹ فارم بنایا گیا ہے۔ اگلے مہینے ممبئی میں اس کا بہت بڑا اہتمام ہونے جا رہا ہے اور یہ لگاتار ہوتے رہنے والا ہے، ایک لمبی تنظیم کھڑی ہو رہی ہے۔ آپ سب جانتے ہیں، ہمارے یہاں فلمیں، پوڈکاسٹ، گیمنگ، میوزک،اے آر اور وی آر کی بہت رنگارنگ اور تخلیقی صنعت ہے۔ ہم نے کریئیٹ اِن انڈیا کا منتر لے کر اسےاگلی سطح پر لے جانے کا فیصلہ لیا ہے۔ ویوز،بھارتی فنکاروں کوکنٹنٹ بنانے اورعالمی بنانے کے لیے حوصلہ افزائی کرے گا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ کریئیٹ اِن انڈیا، دنیا بھر کے فنکاروں کو بھارت میں آنے کا موقع بھی دے گا۔ میں نیٹ ورک 18 کے ساتھیوں سے بھی کہوں گا کہ وہ ویوز کے پلیٹ فارم کو مقبول بنانےکے لیے آگے آئیں۔ یہاں بڑی تعداد می کریئیٹو ڈومینز میں کام کرنے والے جوان ساتھی ہیں، کچھ لوگوں سے مجھے ملنے کا موقع بھی ملا۔ میں انہیں بھی کہوں گا، وہ اس تحریک، اس پلیٹ فارم کا حصہ بنیں۔ ویوز کی لہر، ہر گھر، ہر دل تک پہنچنی چاہیے! آپ لوگ یہ کریں گے، یہ مجھے پورا یقین ہے۔ 

ساتھیو!

نیٹ ورک18 نے اس سمٹ کے ذریعے ملک کے جوانوں کی تخلیقیت، ان کی سوچ، ان کی سنکلپ-شکتی کو جس طرح سامنے رکھا ہے، وہ قابل ستائش ہے۔ آپ نے نوجوانوں کوشامل کیا، انہیں ملک کے مسائل پر سوچنے، مشورے دینے اور حل تلاش کرنے کا موقع دیا اور سب سے بڑی بات، انہیں صرف شائقین نہیں، تبدیلی کا حصہ دار بنایا۔ اب میں ملک کی یونیورسٹیوں، کالجوں اور تحقیقی اداروں سے گزارش کرتا ہوں کہ اس سمٹ کی مصروفیت کو آگے لے جائیں۔ جواہم معلومات نکلی ہیں، جو مشورے آئے ہیں، انہیں درج کریں،مطالعہ کریں، اورپالیسی  تک پہنچائیں۔ تبھی یہ سمٹ صرف ایک تقریب نہیں، ایک   تاثر بن پائے گی۔ آپ کا جوش، آپ کی سوچ، آپ کی حصہ داری ہی ، بھارت کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے ہدف کی طاقت ہے۔ میں ایک بار  پھر اس تقریب سےمتعلق سبھی ساتھیوں کو اور خاص طور پر ہمارے نوجوان ساتھیوں کو  بہت بہت مبارک باد دیتا ہوں۔

بہت بہت مبارک باد!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ک ح۔ رض

Urdu No. 9705

 


(Release ID: 2120304) Visitor Counter : 35