وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav g20-india-2023

’من کی بات‘ کی 114ویں قسط میں وزیر اعظم کے خطاب کا اصل متن(29.09.2024)

Posted On: 29 SEP 2024 12:09PM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنو، نمسکار۔ ایک بار پھر ہمیں ’من کی بات‘ سے جڑنے کا موقع ملا ہے۔ آج کا ایپی سوڈ مجھے جذباتی کرنے والا ہے، یہ مجھے کئی پرانی یادوں سے گھیر رہا  ہے- وجہ یہ ہے کہ ہمارے ’من کی بات‘ کے سفر کو 10 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ 10 سال پہلے 3 اکتوبر کو وجئے دشمی کے دن ’من کی بات‘ شروع کی گئی تھی اور یہ کتنا مقدس اتفاق ہے کہ جب ’من کی بات‘ کو اس سال 3 اکتوبر کو 10 سال مکمل ہوں گے، تب نوراتری کا پہلا دن ہوگا۔’من کی بات‘ کے اس طویل سفر میں کئی سنگ میل ہیں، جنہیں میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ’من کی بات‘ کے کروڑوں سننے والے ہمارے سفر کے ایسے ساتھی ہیں، جن سے مجھے مسلسل تعاون ملتا رہا۔ انہوں نے ملک کے کونے کونے سے معلومات فراہم کیں۔

’من کی بات‘  کے سامعین ہی اس پروگرام کے حقیقی سہولت کار ہیں۔ عام طور پر یہ تاثر قائم ہو گیا ہے کہ جب تک چٹ پٹی یا منفی باتیں نہ ہوں اس کوزیادہ توجہ نہیں ملتی۔ لیکن 'من کی بات' نے ثابت کر دیا ہے کہ ملک کے لوگ مثبت معلومات کے کتنے بھوکے ہیں۔ لوگ مثبت چیزیں، متاثر کن مثالیں، حوصلہ افزا کہانیاں پسند کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر 'چکور' نامی ایک پرندہ ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ صرف بارش کی بوندیں پیتا ہے۔ 'من کی بات' میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح لوگ 'چکور' پرندے کی طرح ملک کی کامیابیوں اور لوگوں کی اجتماعی کامیابیوں کو اتنے فخر سے سنتے ہیں۔ 'من کی بات' کے 10 سالہ سفر نے ایک ایسی سیریز بنائی ہے جس میں ہر قسط کے ساتھ نئی کہانیاں، نئے ریکارڈ اور نئی شخصیات شامل ہوتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں اجتماعیت کے جذبے سے جو بھی کام ہو رہا ہے، اسے 'من کی بات' کے ذریعے عزت ملتی ہے۔ میرا دل بھی اس  وقت فخر سے لبریز ہوجاتا ہے جب میں 'من کی بات' کے لیے موصول ہونے والے خطوط کو پڑھتا ہوں۔

ہمارے ملک میں کتنے باصلاحیت لوگ ہیں، ان میں ملک اور معاشرے کی خدمت کا کتنا جذبہ ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی عوام کی بے لوث خدمت کیلئے وقف کردی۔ ان کے بارے میں جاننا مجھے توانائی سے بھر دیتا ہے۔ 'من کی بات' کا یہ پورا عمل میرے لیے مندر میں جانے اور بھگوان کو دیکھنے جیسا ہے۔ جب مجھے 'من کی بات' کی ہر بات، ہر واقعہ، ہر حرف یاد آتا ہے تو مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میں جنتا جناردن، جو میرے لیے بھگوان کا روپ ہیں، کا درشن کررہا ہوں۔

ساتھیو، آج میں دوردرشن، پرسار بھارتی اور آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ تمام لوگوں کی بھی تعریف کرنا چاہوں گا۔ ان کی انتھک کوششوں سے 'من کی بات' اس اہم مرحلے تک پہنچی ہے۔ میں علاقائی ٹی وی چینلوں سمیت مختلف ٹی وی چینلوں کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے اسے مسلسل دکھایا۔ کئی میڈیا ہاؤسز نے ان مسائل پر مہم بھی چلائی جو ہم نے 'من کی بات' کے ذریعے اٹھائے۔ میں پرنٹ میڈیا کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اسے ہر گھر تک پہنچایا۔ میں ان یوٹیوبرز کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے 'من کی بات' پر بہت سے پروگرام کیے ہیں۔ یہ پروگرام 12 غیر ملکی زبانوں کے ساتھ ملک کی 22 زبانوں میں سنا جا سکتا ہے۔ مجھے یہ اچھا لگتا ہے جب لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی مقامی زبان میں پروگرام 'من کی بات' سنی۔ آپ میں سے بہت سے لوگ جانتے ہوں گے کہ پروگرام 'من کی بات' پر مبنی کوئز مقابلہ بھی جاری ہے، جس میں کوئی بھی شخص حصہ لے سکتا ہے۔  MyGov.in پر جا کر آپ اس مقابلے میں حصہ لے سکتے ہیں اور انعامات بھی جیت سکتے ہیں۔ آج اس اہم موڑ پر میں ایک بار پھر آپ سب سے دعاؤں کا طلب گار ہوں۔ صاف ستھرے من اور پوری لگن کے ساتھ، میں ہندوستان کے لوگوں کی عظمت کے گیت گاتا رہوں۔ ہم سب، ملک کی اجتماعی طاقت کا جشن اسی طرح مناتے رہیں – یہی میری ایشور سے پرارتھنا ہے، جنتا جناردن سے درخواست ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، گزشتہ چند ہفتوں سے ملک کے مختلف حصوں میں موسلادھار بارش ہو رہی ہے۔ یہ برسات کا موسم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ'پانی کا تحفظ' کتنا ضروری ہے، پانی کو بچانا کتنا ضروری ہے۔ بارش کے دنوں میں بچایا جانے والا پانی، پانی کے بحران کے مہینوں میں بہت مدد کرتا ہے، اور یہی 'کیچ دی رین'   جیسی مہموں کی روح ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ بہت سے لوگ پانی کے تحفظ کے حوالے سے نئے اقدامات کر رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش اتر پردیش کے جھانسی میں دیکھنے کو ملی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ 'جھانسی' بندیل کھنڈ میں ہے، جس کی شناخت پانی کی کمی سے جڑی ہوئی ہے۔ یہاں جھانسی میں کچھ خواتین نے گھوراری ندی کو نئی زندگی دی ہے۔ یہ خواتین سیلف ہیلپ گروپ سے وابستہ ہیں اور 'جل سہیلی' بن کر اس مہم کی قیادت کر رہی ہیں۔ ان خواتین نے جس طرح مرتے ہوئے دریائے گھوراری کو بچایا ہے اس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ان جل سہیلیوں نے بوریوں میں ریت بھر کر چیک ڈیم تیار کیا، جس سے بارش کا پانی ضائع ہونے سے بچ گیا اور دریا کو پانی سے بھر دیا۔ ان خواتین نے سیکڑوں آبی ذخائر کی تعمیر اور بحالی میں بھی بڑے پیمانے پر تعاون کیا ہے۔ اس سے نہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا پانی کا مسئلہ حل ہوا ہے، بلکہ ان کے چہروں پر خوشیاں بھی لوٹ آئی ہیں۔

ساتھیو، کہیں ناری شکتی (خواتین کی طاقت، جل شکتی (پانی کی طاقت) کو بڑھاتی ہے تو کہیں جل شکتی بھی ناری شکتی کو مضبوط کرتی ہے۔ مجھے مدھیہ پردیش کی دو بہت متاثر کن کوششوں کے بارے میں معلوم ہوا ہے۔ یہاں ڈنڈوری کے رَئے پورہ گاؤں میں ایک بڑا تالاب بننے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح   کافی بڑھ گئی ہے۔ اس کا فائدہ اس گاؤں کی خواتین  کو ملا ۔ یہاں 'شاردا آجیویکا سیلف ہیلپ گروپ' سے وابستہ خواتین کو بھی ماہی پروری کا نیا کاروبار ملا۔ ان خواتین نے فش پارلر بھی شروع کیا ہے، جہاں مچھلی کی فروخت سے ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ مدھیہ پردیش کے چھترپور میں بھی خواتین کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ یہاں کے کھونپ گاؤں کا بڑا تالاب جب خشک ہونے لگا تو خواتین نے اسے بحال کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ 'ہری بگیا سیلف ہیلپ گروپ' کی ان خواتین نے تالاب سے بڑی مقدار میں گاد نکالا اور اسے بنجر زمین پر فروٹ فاریسٹ بنانے کے لیے استعمال کیا۔ ان خواتین کی محنت سے نہ صرف تالاب وافر پانی سے بھر گیا، بلکہ فصل کی پیداوار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ ملک کے کونے کونے میں 'پانی کے تحفظ' کی اس طرح کی کوششیں پانی کے بحران سے نمٹنے میں بہت مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ بھی اپنے اردگرد ہونے والی ایسی کوششوں میں ضرور شامل ہوں گے۔

میرے پیارے ہم وطنو، اتراکھنڈ کے اترکاشی میں ایک سرحدی گاؤں 'جھالا' ہے۔ یہاں کے نوجوانوں نے اپنے گاؤں کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے ایک خاص پہل شروع کی ہے۔ وہ اپنے گاؤں میں 'دھنیہ واد پرکرتی' یا کہیں 'تھینک یو نیچر' مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے تحت گاؤں میں روزانہ دو گھنٹے صفائی کی جاتی ہے۔ گاؤں کی گلیوں میں بکھرے کوڑے کو اکٹھا کرکے، اسے گاؤں سے باہر مخصوص جگہ پر پھینک دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے جھالا گاؤں بھی صاف ستھرا ہو رہا ہے اور لوگ بھی بیدار ہو رہے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ اگر ہر گاؤں، ہر گلی، ہر محلہ اسی طرح کی تھینک یو مہم شروع کردے تو کتنی تبدیلی آ سکتی ہے۔

ساتھیو، پڈوچیری کے ساحلوں پر صفائی کے حوالے سے ایک زبردست مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہاں رمیا جی نامی کی ایک خاتون ماہے میونسپلٹی اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے نوجوانوں کی ایک ٹیم کی قیادت کر رہی ہیں۔ اپنی کوششوں سے اس ٹیم کے لوگ ماہے کے علاقے اور خاص طور پر وہاں کے ساحلوں کو پوری طرح صاف ستھرا کر رہے ہیں۔

ساتھیو، میں نے یہاں صرف دو کوششوں پر بات کی ہے، لیکن اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو پتہ چلے گا کہ ملک کے ہر حصے میں 'صفائی' کے حوالے سے کوئی نہ کوئی انوکھی کوشش ضرور جاری ہے۔ کچھ ہی دنوں میں 2 اکتوبر کو 'سوچھ بھارت مشن' کو 10 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ یہ ان لوگوں کو مبارکباد دینے کا موقع ہے جنھوں نے اسے ہندوستانی تاریخ کی اتنی بڑی عوامی تحریک بنا دیا۔ یہ مہاتما گاندھی جی کو بھی ایک حقیقی خراج عقیدت ہے، جو زندگی بھر اس مقصد کے لیے وقف رہے۔

ساتھیو، آج یہ 'سوچھ بھارت مشن' کی کامیابی ہے کہ 'ویسٹ ٹو ویلتھ'  کا منتر لوگوں میں مقبول ہو رہا ہے۔ لوگ ریڈیوز، ری یوز اور ری سائیکل کے بارے میں بات کرنے لگے ہیں اور اس کی مثالیں دینے لگے ہیں۔ اب جیسے مجھے کیرالہ کے کوزی کوڈ میں ایک شاندار کوشش کے بارے میں معلوم ہوا۔ یہاں،  74  سالہ سبرامنیم جی نے  23 ہزار سے زیادہ کرسیوں کی مرمت کرکے انہیں دوبارہ استعمال کے قابل بنایا ہے۔ لوگ تو انھیں ریڈیوز، ری یوز اور ری سائیکل یعنی آر آر آر (ترپل آر)  کےچیمپئن بھی کہتے ہیں۔ ان کی یہ منفرد کوششیں کوزی کوڈ سول اسٹیشن، پی ڈبلیو ڈی اور ایل آئی سی کے دفاتر میں دیکھی جا سکتی ہیں۔

ساتھیو ، ہمیں صفائی کے حوالے سے جاری مہم میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شامل کرنا ہے، اور یہ مہم ایک دن یا ایک سال کی نہیں ہے، یہ عہد در عہد مسلسل کرنے والا کام ہے۔ یہ اس وقت تک کرنا ہے جب تک کہ 'صفائی' ہماری فطرت نہ بن جائے۔ میں آپ سب سے گزارش کرتا ہوں کہ اپنے خاندان، دوستوں، پڑوسیوں یا ساتھیوں کے ساتھ صفائی مہم میں حصہ لیں۔ میں ایک بار پھر آپ سب کو 'سوچھ بھارت مشن' کی کامیابی پر مبارکباد دیتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، ہم سب کو اپنی وراثت پر بہت فخر ہے۔ اور میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ 'وکاس بھی وراثت بھی'۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنے حالیہ دورۂ امریکہ کے ایک خاص پہلو کے بارے میں بہت سارے پیغامات مل رہے ہیں۔ ایک بار پھر ہمارے قدیم نوادرات کی واپسی کے بارے میں کافی باتیں ہو رہی ہیں۔ میں اس بارے میں آپ کے جذبات کو سمجھ سکتا ہوں اور 'من کی بات' کے سننے والوں کو بھی اس بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔

ساتھیو، میرے دورۂ امریکہ کے دوران امریکی حکومت نے تقریباً 300 قدیم نوادرات بھارت کو واپس کئے ہیں۔ امریکی صدر بائیڈن نے مکمل پیار کا اظہار کرتے ہوئے ڈیلاویئر (Delaware) میں اپنی نجی رہائش گاہ میں، ان میں سے کچھ نوادرات مجھے دکھائے ۔ واپس کیے گئے نوادرات ٹیراکوٹا، پتھر، ہاتھی دانت، لکڑی، تانبا اور کانسے جیسی چیزوں سے بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کئی چار ہزار سال پرانے ہیں۔ امریکہ نے چار ہزار سال سے لے کر 19ویں صدی تک کے نوادرات واپس کیے ہیں - ان میں گلدان، دیوی دیوتاؤں کی ٹیراکوٹا (Terracotta) تختیاں، جین تیرتھنکروں کے مجسمے کے ساتھ ساتھ بھگوان بدھ اور بھگوان شری کرشن کے مجسمے بھی شامل ہیں۔ لوٹی گئی اشیاء میں جانوروں کی کئی شکلیں بھی ہیں۔ مردوں اور عورتوں کی شکلوں والے جموں و کشمیر کی ٹیراکوٹا ٹائلس تو بہت دلچسپ ہیں۔ ان میں کانسے سے بنے بھگوان شری گنیش کے مجسمے بھی ہیں، جو کہ جنوبی ہندوستان کے ہیں۔ واپس کی گئی اشیاء میں بھگوان وشنو کی بڑی تعداد میں تصویریں ہیں۔ یہ بنیادی طور پر شمالی اور جنوبی ہندوستان سے وابستہ ہیں۔ ان نوادرات کو دیکھ کر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے اسلاف باریکیوں کا کتنا دھیان رکھتے تھے۔ فن کے حوالے سے وہ حیرت انگیز فہم رکھتے تھے۔ ان میں سے بہت سے نوادرات کو اسمگلنگ اور دیگر غیر قانونی طریقوں سے ملک سے باہر لے جایا گیا - یہ ایک سنگین جرم ہے، ایک طرح سے یہ اپنے ورثے کو  ختم کرنے جیسا ہے، لیکن مجھے بہت خوشی ہے کہ پچھلی دہائی کے دوران ایسے بہت سے نوادرات اور ہمارے بہت سے قدیم ورثے  گھر واپس آ گئے ہیں۔ اس سمت میں آج ہندوستان بھی کئی ممالک کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جب ہمیں اپنے ورثے پر فخر ہوتا ہے تو دنیا بھی اس کا احترام کرتی ہے اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج دنیا کے بہت سے ممالک ایسے نوادرات واپس دے رہے ہیں جو ہماری جگہ سے چلے گئے تھے ۔

میرے پیارے ساتھیو، اگر میں پوچھوں کہ بچہ کون سی زبان سب سے زیادہ آسانی اور جلدی سیکھتا ہے تو آپ کا جواب ہوگا 'مادری زبان'۔ ہمارے ملک میں تقریباً بیس ہزار زبانیں اور بولیاں ہیں اور یہ سب کسی نہ کسی کی مادری زبان ہیں۔ کچھ زبانیں ایسی بھی ہیں جن کے استعمال کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے لیکن آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ آج ان زبانوں کے تحفظ کے لیے انوکھی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایسی ہی ایک زبان ہماری 'سنتالی' زبان ہے۔ ڈیجیٹل اختراع کی مدد سے 'سنتھالی' کو ایک نئی شناخت دینے کے لیے ایک مہم شروع کی گئی ہے۔ 'سنتھالی' ہمارے ملک کی کئی ریاستوں میں رہنے والے سنتھال قبائلی برادری کے لوگ بولتے ہیں۔ ہندوستان کے علاوہ، سنتھالی بولنے والی  قبائلی برادریاں بنگلہ دیش، نیپال اور بھوٹان میں بھی موجود ہیں۔ اڈیشہ کے میور بھنج  کے رہنے والےجناب رامجیت توڈو، ، سنتھالی زبان کی آن لائن شناخت بنانے کے لیے ایک مہم چلا رہے ہیں۔ رامجیت جی نے ایک ڈیجیٹل پلیٹ فارم بنایا ہے جہاں سنتھالی زبان سے متعلق ادب کو سنتھالی زبان میں پڑھا اور لکھا جا سکتا ہے۔ درحقیقت چند سال پہلے جب رامجیت جی نے موبائل فون استعمال کرنا شروع کیا تو انہیں اس بات کا دکھ ہوا کہ وہ اپنی مادری زبان میں پیغامات نہیں بھیج سکتے تھے۔ اس کے بعد انہوں  نے 'سنتھالی زبان' کے رسم الخط'اول چکی' کو ٹائپ کرنے کے امکانات تلاش کرنا شروع کر دیے۔ انہوں  نے اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے 'اول چکی ' میں ٹائپ کرنے کی تکنیک تیار کی۔ آج ان کی کوششوں سے 'سنتھالی' زبان میں لکھے گئے مضامین لاکھوں لوگوں تک پہنچ رہے ہیں۔

ساتھیو، جب اجتماعی شرکت کو ہمارے عزم کے ساتھ ملایا جائے تو پورے معاشرے کے لیے حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال 'ایک پیڑ ما ںکے نام' ہے – یہ مہم ایک حیرت انگیز مہم رہی ، عوامی شرکت کی ایسی مثال واقعی بہت متاثر کن ہے۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے شروع کی گئی اس مہم میں ملک کے کونے کونے میں لوگوں نے کمال کر دکھایا ہے۔ اتر پردیش، گجرات، مدھیہ پردیش، راجستھان اور تلنگانہ نے ہدف سے زیادہ پیڑ لگا کر نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ اس مہم کے تحت اتر پردیش میں 26 کروڑ سے زیادہ پودے لگائے گئے۔ گجرات کے لوگوں نے 15 کروڑ سے زیادہ پودے لگائے۔ صرف اگست کے مہینے میں راجستھان میں 6 کروڑ سے زیادہ پودے لگائے گئے ہیں۔ ملک کے ہزاروں اسکول بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔

ساتھیو، ہمارے ملک میں پیڑ لگانے کی مہم سے جڑی کئی مثالیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک مثال تلنگانہ کے کے این راج شیکھر جی کی ہے۔ پیڑ لگانے کا ان کا عزم ہم سب کو حیران کر دیتا ہے۔ تقریباً چار سال قبل انہوں نے پیڑ لگانے کی مہم شروع کی تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ہر روز ایک پیڑ لگائیں گے ۔ انہوں  نے سخت برت کی طرح اس مہم پر عمل کیا۔ انہوں نے 1500 سے زائد پودے لگائے ہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس سال ایک حادثے کا شکار ہونے کے بعد بھی وہ اپنے عزم سے نہیں ڈگمگا ئے ۔ میں اس طرح کی تمام کوششوں کی تہہ دل سے تعریف کرتا ہوں۔ میں آپ سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ اس مقدس مہم 'ایک پیڑ ماں کے نام'میں شامل ہو جائیں ۔

میرے پیارے ساتھیو، آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے اردگرد کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو آفات میں صبر نہیں کھوتے بلکہ اس سے سبق سیکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک خاتون سباشری ہیں جنہوں نے اپنی کوششوں سے نایاب اور انتہائی مفید جڑی بوٹیوں کا شاندار باغ تیار کیا ہے۔ وہ ، تمل ناڈو  کے مدورئی کی رہنے والی  ہیں ۔ اگرچہ وہ پیشے کے لحاظ سے ایک استانی  ہیں، لیکن انہیں دواؤں کی تیاری میں کام آنے والے  پودوں سے گہرا لگاؤ ہے۔ ان کا شوق 80 کی دہائی میں شروع ہوا جب ایک بار ان کے والد کو ایک زہریلے سانپ نے کاٹ لیا۔ تب روایتی جڑی بوٹیوں نے ان کے والد کی صحت کو بہتر بنانے میں بہت مدد کی تھی۔ اس واقعے کے بعد انہوں  نے روایتی ادویات اور جڑی بوٹیوں پر تحقیق شروع کی۔ آج، مدورائی کے ویریچیور گاؤں میں ان کا ایک منفرد ہربل گارڈن ہے، جس میں 500 سے زیادہ نایاب دواؤں  کی تیاری میں کام آنے والے پودے ہیں۔ انہوں  نے اس باغ کو تیار کرنے میں بہت محنت کی ہے۔ ہر پودے کو تلاش کرنے کے لیے انہوں  نے دور دور کا سفر کیا، معلومات اکٹھی کیں اور بعض اوقات دوسرے لوگوں سے بھی مدد لی۔ کووڈ کے دوران، انہوں  نے لوگوں میں قوت مدافعت بڑھانے والی جڑی بوٹیاں تقسیم کیں۔ آج ان کے ہربل گارڈن کو دیکھنے کے لیے لوگ دور دور سے آتے ہیں۔ وہ ہربل پودوں اور ان کے استعمال کے بارے میں جانکاری دیتی ہیں۔ سباشری ہمارے روایتی ورثے کو آگے بڑھا رہی ہیں   جو سینکڑوں سالوں سے ہماری ثقافت کا حصہ ہے۔ ان  کا ہربل گارڈن ہمارے ماضی کو مستقبل سے جوڑتا ہے۔ اس کے لیے ہماری نیک خواہشات۔

ساتھیو، اس بدلتے وقت میں ملازمتوں کی نوعیت بدل رہی ہے اور نئے شعبے ابھر رہے ہیں۔ جیسے گیمنگ، اینیمیشن، ریل میکنگ، فلم میکنگ یا پوسٹر میکنگ۔ اگر آپ ان میں سے کسی بھی مہارت میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں، تو آپ کے ٹیلنٹ کو ایک بہت بڑا پلیٹ فارم مل سکتا ہے، اگر آپ کسی بینڈ سے وابستہ ہیں یا کمیونٹی ریڈیو کے لیے کام کر رہے ہیں، تو آپ کے لیے ایک بہت بڑا موقع ہے۔ آپ کی لیاقت  اور تخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دینے کے لیے حکومت ہند کی وزارت اطلاعات و نشریات نے 'Create In India' کے تھیم کے تحت 25 چیلنجز شروع کیے ہیں۔ آپ کو یہ چیلنجز یقیناً دلچسپ لگیں  گے۔ کچھ چیلنجز موسیقی، تعلیم اور یہاں تک کہ اینٹی پائریسی پر مرکوز ہیں۔ اس ایونٹ میں کئی پیشہ ور تنظیمیں بھی شامل ہیں، جو ان چیلنجز سے نمٹنے میں اپنا بھرپور تعاون کر رہی ہیں۔ ان میں شامل ہونے کے لیے، آپ wavesindia.org پر لاگ ان کر سکتے ہیں۔ میری ملک بھر کے تخلیق کاروں سے خصوصی درخواست ہے کہ وہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لائیں۔

 میرے پیارے ہم وطنو، اس ماہ ایک اور اہم مہم کو 10 سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اس مہم کی کامیابی میں بڑی صنعتوں سے لے کر ملک کے چھوٹے دکانداروں تک کا تعاون شامل ہے۔ میں 'میک اِن انڈیا' کی بات کر رہا ہوں۔ آج مجھے یہ دیکھ کر بہت خوشی ہو رہی ہے کہ غریب، متوسط طبقے اور ایم ایس ایم ایز کو اس مہم سے کافی فائدہ ہو رہا ہے۔ اس مہم نے ہر طبقہ کے لوگوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع فراہم کیا ہے۔ آج بھارت مینوفیکچرنگ کا پاور ہاؤس بن گیا ہے اور ملک کی نوجوان طاقت کی وجہ سے پوری دنیا کی نظریں ہم پر لگی ہوئی ہیں۔ آٹوموبائل ہو، ٹیکسٹائل ہو، ایوی ایشن ہو، الیکٹرانکس ہو یا دفاع، ہر شعبے میں ملک کی برآمدات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں ایف ڈی آئی  کا مسلسل اضافہ بھی ہمارے 'میک اِن انڈیا' مہم کی کامیابی کی کہانی بتا رہا ہے۔ اب ہم بنیادی طور پر دو چیزوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ پہلی چیز 'کوالٹی' ہے، یعنی ہمارے ملک میں بننے والی چیزیں عالمی معیار کی ہونی چاہئیں۔ دوسرا 'ووکل فار لوکل' ہے، یعنی مقامی چیزوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے۔ 'من کی بات' میں ہم نے #MyProductMyPride پر بھی بات کی ہے۔ مقامی مصنوعات کو فروغ دینے سے ملک کے عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے اسے ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔

مہاراشٹر کے بھنڈارا ضلع میں ٹیکسٹائل کی ایک پرانی روایت ہے – ’بھنڈارا ٹسر سلک ہینڈلوم‘ (Bhandara Tussar Silk Handloom)۔ ٹسر سلک اپنے ڈیزائن، رنگ اور مضبوطی کے لیے جانا جاتا ہے۔ بھنڈارا کے کچھ حصوں میں، 50 سے زیادہ 'سیلف ہیلپ گروپ' اسے محفوظ کرنے کے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں خواتین کی بھر پور شراکت داری ہے۔ یہ ریشم تیزی سے مقبول ہو رہا ہے اور مقامی برادریوں کو بااختیار بنا رہا ہے، اور یہی ’میک ان انڈیا‘ کی روح ہے۔

ساتھیو، تہوار کے اس موسم میں، آپ پھر سے اپنے پرانے عزم کو  بھی ضرور دہرائیے۔ آپ جو بھی خریدیں ، وہ ’میڈ ان انڈیا‘ ہی ہونا چاہیے، کچھ بھی تحفہ دیں ، وہ بھی ’میڈ ان انڈیا‘ ہی ہونا چاہیے۔ صرف مٹی کے دیئے خریدنا ہی ’ووکل فار لوکل‘ نہیں ہے۔ آپ کو اپنے علاقے میں بننے والی مقامی مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا چاہیے۔ ایسی کوئی بھی چیز، جسے بنانے میں کسی ہندوستانی کاریگر کا پسینہ لگا ہو، جو بھارت کی مٹی میں بنا ہے، وہ ہمارا فخر ہے - ہمیں اس فخر کو ہمیشہ برقرار رکھنا ہے اور اس میں چار چاند لگانا ہے۔

ساتھیو، مجھے ’من کی بات‘ کے اس ایپی سوڈ میں آپ سے جڑ کر بہت اچھا لگا۔ اس پروگرام سے متعلق اپنے خیالات اور تجاویز ہمیں ضرور بھیجیں۔ میں آپ کے خطوط اور پیغامات کا منتظر ہوں۔ کچھ ہی دن بعد تہواروں کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ اس کا آغاز نوراتری سے ہوگا اور پھر اگلے دو ماہ تک پوجا پاٹھ، برت- تیوہار، جوش و خروش اور خوشی کا یہ ماحول چاروں طرف چھایا رہے گا۔ میں آپ سب کو آنے والے تہواروں کی مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ سب، اپنے خاندان اور اپنے پیاروں کے ساتھ تہوار سے لطف اندوز ہوں اور دوسروں کو بھی اپنی خوشیوں میں شامل کریں۔ اگلے مہینے 'من کی بات' میں کچھ اور نئے موضوعات کے ساتھ آپ سے جڑیں گے۔

آپ سب کا بہت بہت شکریہ ۔

******

ش  ح۔ م م ۔ م ر

U-NO. 616



(Release ID: 2060096) Visitor Counter : 11