وزیراعظم کا دفتر
پیرس پیرا اولمپک گیمز کے چیمپئنز کے ساتھ وزیر اعظم کی بات چیت کا ایک حصہ
Posted On:
13 SEP 2024 3:15PM by PIB Delhi
وزیر اعظم -آج مجھے آپ کو سننا ہے آپ لوگوں کے کیا تجربے رہے، وہاں سب سے ملتے ہوں گے، کچھ نہ کچھ اچھی باتیں ہوئی ہوں گی۔ وہ میں ذرا سننا چاہتا ہوں۔
کپل پرمار۔ سر نمستے ۔ ہر ۔ ہر مہادیو سر۔
وزیر اعظم۔ ہر۔ ہر مہادیو۔
کپل پرمار ۔ سر میں بلائنڈ جوڈو سے کپل پرمار 60 کے جی کھیلتا ہوں سر، اور میرا ایکسپیرینس یہ رہا ہے کہ میں نے بہت زیادہ کمپٹیشن کھیل لئے تھے 2021 سے لیکر ۔ تو میں نے 16 کمپٹیشن کھیلے سر ، جس میں میرے 14 میں میڈل تھےجس میں میرے 8 گولڈ تھے، براؤن سلور ایشین گیم میں بھی میرا سلور تھا، ورلڈ گیم میں کانسے کا تھا اور ورلڈ چیمپین شپ کانسے کا تھا تو سر میرا ڈر نکل گیا تھا۔ اولمپک میں اتنا پریشان نہیں تھا ، کیونکہ میں نے بہت زیادہ مقابلوں میں حصہ لیا تھا سر۔ تو سر میرا ایکسپیرینس یہ ہے کہ تھوڑا سا پریشر تھا تو ہمارے دیویندر بھارئی صاحب جھانجھریا جی بھائی صاحب نے مجھ سے ایک بات کہی تھی کہ ہمیں اپنا بیسٹ دینا ہے۔ بولا تھا کہ جو آپ پریکٹس میں کرتے ہیں وہی آپ کو کرنا ہے۔ اور سر میرے کوچ ہیں منورنجار جی ، انہوں نے بہت آشرواد دیا، کیونکہ ہم لوگوں کو سنبھالنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ کیونکہ سر ہم ہر کہیں ٹکرا جاتے ہیں اور کوئی ہم سے آکر ٹکرا جاتا ہے تو میں ان سے پوچھتا ہوں کہ آپ بلائنڈ ہو یا میں بلائنڈ ہوں۔ سر بہت بار ایسا ہوتا ہے توبس سر کا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہیں، ہاتھ پکڑ کر آتے ہیں تو تھوڑا بہت جو دکھائی دیتا ہے اس میں اپنا کام کر لیتے ہیں سر ، اور سر آپ کا بہت آشرواد رہا۔
وزیر اعظم۔ اچھا کپل اس دن تم نے مجھے بتایا کہ اسٹیڈیم سے کپل کپل کپل اتنی آواز آ رہی تھی، تو میں اپنے کوچ کی ہدایات نہیں سن پا رہا تھا ۔ وہ میں ایکچیولی ایکسپیرینس کرنا چاہتا ہوں کیسے ، آپ کے کوچ کہاں ہیں؟ سر ذرا بتائیے کیا مشکل ہوتی ہے۔
کوچ۔ سب سے اہم بات ہے بلائنڈ جوڈو میں کہ جو انسٹرکشنس ہم لوگ باہر سے دیتے ہیں ، جو ان کو سکھایا جاتا ہے، اس میں ہم لوگ ایک کوڈنگ کرتے ہیں کہ ایک جب ہم جائیں گے تو یہ بولیں گے تو تمہیں یہ کرنا ہے، کیونکہ وہاں کچھ دکھائی تو نہیں دیتا ہے۔تو اس دن ہمارے ساتھ دو میٹ ایریا تھے! میٹ پر ہماری باؤٹ چل رہی تھی فائٹ اور دوسرے پر جو ہے وہ فرانس کی فائٹ چل رہی تھی اور فرانس کی فائٹ میں اتنا شور ہو تھا کہ قریب 15 سے 18000 ناظرین وہاں تھے۔ تو جس کی وجہ سے جب یہ سیمی فائنل کھیلنے گئے تو جو میں بول رہا تھا وہ یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے اور ڈیفی نیٹلی کیونکہ سیمی فائنل کا ایک پریشر تھا اور جو کھلاڑی تھا ایران کا اس سے پہلے یہ سیمی فائنل میں ایشیائی کھیلوں میں ہارے تھے تو یقیناٍٍ اس کا بھی پریشر ہوگا۔ تو اس وجہ سے یہ اس دن ہم بھارت کے لئے گولڈ میڈل نہیں لا پائے۔
وزیر اعظم ۔ تو سامنے کا جو کوچ ہوگا وہ بھی اپنے پلیئر کو اسی طرح سے ہدایت دیتا ہوگا ۔
کوچ۔ جی جی، وہ بھی اب یہ ڈپینڈ کرتا ہے کوچ ٹو کوچ ۔ کہ وہ جیسے ہمارا ان کا ٹائی اپ جو بھی ہمارے کوچیز ہمارے کوچیز جو کھلاڑی ہیں ان کے ساتھ یہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ کون کس طریقہ سے سکھاتا ہے تو ہم اس کی سوچ سے کچھ مختلف کرتے ہیں۔
ویر اعظم۔ مطلب کوچ کو بھی اوروں سے اپنےآپ کو الگ سیکریٹ رکھنا پڑتا ہے۔
کوچ۔ بالکل رکھنا پڑتا ہے۔ کیونکہ وہی چیز ہم کہیں گے، وہ کہے گا تو پھر نہیں سمجھ پائیگا۔
وزیر اعظم۔ اچھا آپ کو اس کو کہنا ہے کپل کو ، کہ کپل بائیں طرف سے ٹھوکو، تو کیا بولیں گے آپ؟
کوچ۔ ہمار کہنا یہ ہوتا ہے سر۔
وزیراعظم۔ کپل ایسا ہی ہوتا ہے نا؟
کپل پرمار۔ سر ہم بولتے ہیں کہ ہم مار دیں، تو مگر اٹیک تو کرتا ہوں کبھی خالی چلا جاتا ہے تو واپس کھڑا ہو جاتا ہوں۔
کوچ۔ لیکن ٹیکنک کا نام بتاتے ہیں۔ جو پوزیشن آگے پیچھے پاؤں کی دکھائی دیتی ہے تو وہ ٹیکنک کا نام جو انکا سکھایا ہوتا ہے ، وہ بتاتے ہیں تو پھر یہ وہ اپلائی کرتے ہیں۔ کیونکہ کہاں پر آف بیلنسنگ ہو رہی ہے، آگے ہو رہی ہے، پیچھے ہو رہی ہے، تو ہ ٹیکنک بتاتے ہیں۔
وزیراعظم۔ تو آپ سامنے والے کی پوزیشن بھی بتاتے ہوں گے؟
کوچ۔ جی جی بالکل اسکے جو مومنٹ ہوتے ہیں ۔ جیسے اس نے آگے کیا ویٹ اسکا آگے جا رہا ہے تو آگے والی ٹیکنک اسکو مار سکتے ہیں۔ ایسے ہی اگر اس نے پیچھے ویٹ کیا یا پیچھے منھ کر رہا ہے تو پیچھے والی ٹیکنک بتاتے ہیں اور جس سے کہ ہم اسکے پوائنٹ لیتے ہیں۔
وزیراعظم۔ آپ جب وہاں بیٹھے ہوتے ہیں تو آپ کے بھی ہاتھ پیر ہلتے ہوں گے؟
کوچ۔ بہت زیادہ اور بس بس نہیں چلتا ہے کہ ہملوگ بھی میٹ پر چلے جائیں ایز اے کوچ۔
کپل پرمار۔ سر ایسا ہو رہا تھا کہ سیمی فائنل میں جو ریفری تھے، جو میرے پاتھ پکڑ کر لے جا رہا تھا انکے ہاتھ خود ہل رہے تھے۔ کیونکہ بڑے میچ میں انکو بھی ڈیسیزن غلط دے دیا۔ جیسے تھرڈ امپائر رہتا ہے پورا اسکے بعد ہی بتایا جاتا ہےلیکن میرا ڈیسیزن بہت جلدی دے دیا تھا رول کرکے، وہ میری بھی غلطی رہی کچھ سیمی فائنل میں میں دب گیا۔لیکن نیکسٹ ٹائم میں سر آپ سے وعدہ کرتا ہوں ۔
وزیراعظم۔ نہیں آپ بہت اچھا کر رہے ہو بہت مبارک ہو۔
کپل پرمار۔ تھینک یو سر، تھینک یو سو مچ۔
کوچ۔ جے ہند سر، میں ایک سولجر ہوں میری وائف ہیں سمرن شرما اور ایک میرے پاس پریتی ہیں میں اتیھیلیٹیک کا ایک کوچ ہوں پیرا اتھلیٹک کا۔ تو میرے دو اتھلیٹ ہیں۔ دونوں 200۔100 میٹر کرتے ہیں اور فرسٹ ٹائم جو ایتھلیٹک میں ٹریک میں میڈل آیا ہے سر میرے ہی اتھیلیٹ لیکر آئے ہیں ابھی۔ اور تین میڈل آئے ہیں ہمیں کافی وہاں پر سیکھنے کو ملا سر۔ جیسے کہ وہاں پر ہمارے 100 میٹر میں ایک ایونٹ میں مطلب دو میڈل آگئے۔ تو دو میڈل ایک ہی دو اتھلیٹ ہیں 100 میٹر دونوں کے دونوں پہلی بار کھیلنے جا رہے ہیں۔ ملک کے لئے پہلی مرتبہ میڈل جیتنے کے لئے جا رہے ہیں ٹریک میں۔ تو جب دو میڈل ایک روم میں رکھے ہوں اور دوسرے کھلاڑی کا ابھی ایونٹ بھی نہ ہوا ہو تو اس پریشر کو میں ایز اے کوچ ایز اے ہسبینڈ میں کیسا محسوس کر رہا ہوں ۔ میں اس کو سمجھ رہا ہوں دوسرے اتھلیٹ جو ہے اس کا گیم بھی نہیں ہوا اور اس میں دو میڈل رکھے ہیں۔ ہائی پریشر ہے کہ بھائی میرا تو میڈل بھی نہیں آیا اس کے دو میڈل آچکے ہیں۔ تو اس کو اس سے باہر نکالنے کے لئے بار بار اس کو مجھے مصروف رکھنا پڑ رہا تھا، بہت بزی رکھنا پڑ رہا تھا پورے دن۔ تو وہاں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ہم 100 میٹر میں ہار گئے سر۔
وزیراعظم۔ اچھا وہاں تو تم نے دن نکال دئے اب گھر میں کیا ہوگا تیرا ۔ ہاں سمرن۔
سمرن۔ سر، یہ جتنا اچھا بن کر دکھا رہا ہے اتنا ہے نہیں۔ جب ہم یہاں پر آئے تھے تو یہان سے جانے سے پہلے بات ہوئی تھی۔ دراصل ہم دونوں میں یہ بات ہوتی تھی کہ ٹریک کو پہلا میڈل کون دیگا۔ تو پھر جب ایونٹ لسٹ آئی تو اس میں پتا چلا کہ پریتی کا ایونٹ پہلے ہے تو ہم مطمئن ہو گئے تھے کہ پہلا میڈل تو یہی دیگی۔ تو جب ہم یہاں پر آئے تو اس سے پہلے یہ گجّو، مطلب یہ کوچ بول رہے تھے کہ تمہیں ایک مہینے کا آرام دیا جائیگا۔ پھر اسکے بعد جب ابھی ہم یہاں پر آئے ، ابھی ہماری صبح ہی بات ہو رہی تھی تو صبح مجھ سے بول رہے تھے کہ ایک ہفتے کا آرام ملے گا اور اس سے زیادہ کا نہیں ملے گا۔ تو میں نے بولا کیوں نہیں ملے گا تو بول رہے کہ کانسے کے تمغے پر اتنا ہی ملتا ہے۔
وزیراعظم۔ اب تجھے کھانا نہیں ملے گا۔
کوچ۔ تھینک یو سر۔
کھلاڑی۔ یہ میرا تیسرا پیرالمپک تھا۔ میں پچھلی بار بھی آپ سے ملا تھا، آپ نے مجھے بہت حوصلہ دیا تھا لیکن شاید اس بار بھی کچھ کمی رہ گئی تھی۔ میں ریو پیرالمپکس میں چوتھے نمبر پر تھا، ٹوکیو میں چوتھا اور اس بار میں پیرس میں بھی چوتھا بن گیا،سر۔ توسر یہ چار نمبر مجھ سے زیادہ پیار میں ہیں، تو میں شاید ان چار نمبروں کو موٹیویشن کے طور پر لیتا ہوں، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اگلا میرا چوتھا پیرا اولمپکس ہوگا، اس لیے شاید مجھے چوتھے میں کچھ کرنا چاہیے اور گویاسر، میں خود کو ناکام سمجھتا ہوں میں نہیں کہوں گا۔ جیسا کہ میں پیرا کی تاریخ کا واحد کھلاڑی ہوں نہ کہ ہندوستان میں بلکہ پیرا تاریخ میں پوری دنیا میں جو اتنی بار اتنے بڑے ایونٹ میں شامل ہوا ہوں! پھر کہیں سوچتا ہوں کہ اولمپکس میں ایسی کئی تاریخیں ہیں۔ مثال کے طور پر، فرانس سے تعلق رکھنے والا ایک ڈسک تھروور بھی ہے، جس نے 5ویں اولمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ ایک ٹرپل جمپر بھی ہے، غالباً امریکہ سے، جہاں اس نے اپنا پانچواں اولمپک تمغہ حاصل کیا۔ اس لیے شاید میں پھر سے خود کو موٹیویٹ کرتا ہوں کہ تو پہلا ایتھلیٹ پیرا دنیا میں بنے گا جو سب کو حوصلہ دے گا کہ جب وہ چوتھی میں جیت گیا تھا تو پھر آپ لوگ پہلی میں ہار کیوں مان رہے ہیں۔ یہاں کے کچھ کھلاڑی ایسے ہیں کہ یہ گڑیا ہے، یہ چوتھی ہے، بہت سے لوگ چوتھے نمبر پر ہیں، اس لیے وہ مایوس ہو رہے ہیں۔ تو میں اس میں بھی تھوڑا ٹھیک محسوس کر رہا ہوں کہ اس کے کوچ اس طرح کہہ رہے ہیں، اس کو دیکھ لو۔
وزیر اعظم۔ دیکھئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپکی جو زندگی کی طرف دیکھنے کا نظریہ ہے وہی شاید آپ کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ آپ تو ایک نیا لاجک نکالو کہ میں نے دنیا کو اتنا دیا ہے ، کہ میرے رہتے ہوئے اب تک نو لوگوں کو آگے کیا ہے میں نے چوتھے پر رہ کر کے۔
کھلاڑی۔ سر، کوئی بات نہیں، اس کا مطلب ہے کہ ابھی وقت نہیں ہے، لیکن اس بار وہی ہے جو ہے۔ وہ شاگردوں کا زمانہ رہا ہے۔ ہم تین کھلاڑی ہیں جو اپنے شاگردوں کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ ایک دیویندر بھائی صاحب ہیں، ان کے شاگرد کو گولڈ ملا ہے اور دوسرا سومن رانا، ان کے شاگرد کو کانسہ ملا ہے اور میں نودیپ کا کوچ نہیں ہوں بلکہ میں نودیپ کا گرو ہوں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جیولن اسٹارٹ سے لے کر آج تک کا سفر ایک بڑے بھائی ، گرو کے طور پر رہا ہے۔ تو اس بار میں نے نودیپ کو دیا کہ وہ اس بار لے لے۔ لیکن اگلی بارسر، میں وعدہ کرتا ہوں کہ یہ میرا ہوگا اور سر، میں نے پچھلے تین اولمپکس میں تمام پیرا اولمپکس دیکھے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ جیسا کہ ہر کوئی بات کر رہا ہے کہ یہ ملک اتنا بڑا ہے، وہ پہلے سے ہی توقع رکھتے ہیں کہ بہت سخت کھیل ہوں گے، لیکن سر، مجھے یقین ہے۔ اگر ہندوستان 2036 کے اولمپکس اور پیرا اولمپکس کا انعقاد کرتا ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ اس سے بڑی تقریب دنیا پر کہیں بھی منعقد ہوئی ہوگی۔ سرہم اس میں بھی پوری کوشش کریں گے تاکہ بڑھاپے میں بھی دیویندر بھائی صاحب کو آئیڈیل سمجھ کر اپنی ہڈیاں بچائیں اور اس میں بھی کھیلنے کی کوشش کریں۔
وزیر اعظم - نہیں، یہ آپ کی زندگی کو دیکھنے کا انداز ہے، یہ اپنے آپ میں بہت متاثر کن ہے کہ بھائی، میں مستقبل میں بھی کچھ کروں گا اور کرتا رہوں گا۔ میں آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔
کھلاڑی- شکریہ سر۔
کوچ- نمسکار جی.
وزیر اعظم- نمسکار جی
رادھیکا سنگھ- میں مینٹل کوچ ہو ں رادھیکا سنگھ شوٹنگ ٹیم کے ساتھ اور آپ کہہ رہے تھے کہ اپنے تجربات کا اشتراک کریں اور سب سے زیادیہ ضروری ہے ایک گروپ کی محبت ایک دوسرے کے لئے۔ اس لیے شوٹنگ ٹیم میں کوئی بھی ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کر رہا، ہر کوئی اپنے آپ سے مقابلہ کر رہا ہے، اس لیے وہ آگے بڑھ رہے ہیں اور ان کی جو بھی صلاحیت ہے، ان کی جو بھی تیاری ہے، وہ اپنی کمزوری کو نہیں دیکھ رہے ، طاقت نہیں دیکھ رہے، وہ اپنے کھیل کے لئے محبت دیکھ رہے ہیں. تو یہ بہت بڑی بات ہے کہ ہماری ٹیم بہت جڑی ہوئی رہی اور حالانکہ میں ایک ہی ایونٹ کے لیے دو بچوں کو تیار کر رہی تھی۔ کوئی مقابلہ بازی نہیں تھی، ان میں تو یہ بہت بڑی طاقت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت سے آگے بڑھیں اور یہ محبت کھیلوں میں نظر آتی ہے سر۔
وزیر اعظم - نہیں، آپ یہ مینٹل ہیلتھ کو کرتی ہیں تو اس میں کیا کیا کرتی ہیں؟
رادھیکا سنگھ - سر، 90 فیصد لاشعوری ذہن موجود ہے، اگر اس میں کوئی کمزوریاں ہیں تو انہیں بدلیں اور اپنی خوبیوں کو آگے لائیں، انہیں اپنی شخصیت سے جوڑیں اور خود کو آگے لے جائیں۔
وزیر اعظم۔ نہیں، کوئی ان لوگوں کا یوگا کا تعلق کوئی میڈیٹیشن کا تعلق ایسی کوئی خاص ٹریننگ وغیرہ آپ لوگ کرتے ہیں؟
رادھیکا سنگھ - سر، یوگا بھی ہے ہماری ٹیم میں ایک یوگ بھی کراتے تھے۔ چنانچہ ہر صبح میڈیٹیشن ہوتا تھا اور بچے ہر شام جو کچھ سیکھتے اسے دہراتے تھے۔ یعنی وہ روزانہ ذہنی تربیت کرتے تھے۔ تو اس وقت، رینج پر اس کی پریکٹس، یوگا کے ساتھ اس کی مشق کا مطلب تھا کہ ٹیم میں کافی ترتیب تھی، سر۔
وزیر اعظم - تو دنیا کے بہت سے ممالک کے طالب علم کھلاڑی ہوں گے جو یوگا میڈیٹیشن نہیں جانتے ہیں۔ تو ہمارے لوگوں کا کوالٹی میں کیا فرق پڑتاہے؟
رادھیکا سنگھ - جی ہاں، اس سے بہت فرق پڑتا ہے کیونکہ جب آپ اپنے اندرونی دماغ کو کنٹرول کرتے ہیں، تو آپ اپنے کھیل کو بہت آگے لے جا سکتے ہیں۔ تو آپ نے یہ بھی بہت اچھی بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں یوگا بہت بڑھ گیا ہے اور مجھے لگتا ہے کہ سر آپ کو اسے اسکولوں میں ایک مضمون بنانا چاہیے۔ کیونکہ جو طاقت سائنس میں ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں ملتی سر۔
وزیراعظم۔ مبارک ہو۔
رادھیکا سنگھ۔ تھینک یو سر۔
کوچ- سب سے پہلے، کپل نے بڑی خوشی کی بات کی کہ نہ صرف پیرا جوڈو میں بلکہ قابل جوڈو میں بھی ہندوستان کو پہلا تمغہ دلایا ہے۔ اب تک قابل یا پیرا جوڈو میں کوئی تمغہ نہیں ملا تھا اور کپل کے نام ایک اور تاریخ ہے کہ کپل نے کسی بھی کھیل میں بصارت سے محروم افراد کا پہلا تمغہ ہندوستان کو دیا ہے۔ تو ہم سب کو بہت بہت مبارک ہو۔ جوڈو کے ہمارے جو ٹاپ شاٹس ہیں، دنیا کے ان لوگوں نے ذاتی طور پر پوڈیم سے نیچے آئے اور ہمیں مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پیرا جوڈو میں اتنی جلدی اپرائز کی توقع نہیں تھی۔ تو آپ لوگوں کو سلام اور سر، ہم یہ اکیلے نہیں کر سکتے تھے تھے۔ ہمیں ایس اے آئی ، او جی کیو اور یقیناً حکومت ہند سے غیرمعمولی تعاون حاصل ہوا ہے، میرا مطلب ہے کہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ تو سر آپ کا بہت بہت شکریہ اور دیگر تمام کوچز جو برطانیہ، امریکہ اور کوریا سے ہمارے اچھے دوست ہیں آئے اور کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ آپ آگے بڑھ رہے ہیں لیکن ہمیں نہیں معلوم تھا کہ آپ اتنی جلدی اوپر چلے گئے ہیں۔ لہذا ہم نے بہت فخر محسوس کیا اور پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیا جو ہمارا ساتھ دے رہی ہے۔ بہت شکریہ سر۔
وزیر اعظم۔ بہت بہت مبارک۔
کوچ- میں سندیپ چودھری جی کے لیے ایک بات کہنا چاہوں گا- گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں ، وہ طفل کیا لڑیں گے جو گھٹنوں کے بل چلیں۔ تو آپ نے سب کو بتایا کہ جو گھوڑے پر سوار ہو وہ گر سکتا ہے، بچے کبھی نہیں گرتے۔ تو یہ آپ کے لیے میرا بڑا پیغام ہے، اور سر میں ہرویندر، شیتل ہرویندر کے لیے بتاؤں گا، میں تیر اندازی سے ہوں، تو جیسا کہ میڈم نے بتایا کہ ہرویندر جوڈو میں تیر اندازی کرنے والا پہلا اور پیرالمپکس میں پہلا تمغہ جیتنے والا، ٹوکیو میں کانسیے کا تمغہ جیتنے والا اور اب اس کا پہلا تاریخ میں ایک ایسا تمغہ ہے جو 28، 28، 29 کے برابر شوٹنگ کے بعد آیا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آخری ایرو سر دو کے بہت قریب تھا، اگر یہ 10 ہوتا تو ہم کمبوجن اور اپنا بریڈیلیئرشن (نام واضح نہیں) کے برابر شوٹ کر دیتے۔
امیشا۔ نمستے سر، میرا نام امیشا ہے اور میں اترا کھنڈ سے ہوں۔ یہ میرا پہلا پیرالمپک تھا اور میں بہت خوش ہوں کہ 2 برس میں اپنا گیم اسٹارٹ کیاہے۔ 2 برس ہی ہوئے ہیں اور میں 2 برس میں میں نے لائف میں اتنا بڑا تجربہ لیا ہے، مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ، اور میرےکوچ کا شکریہ،جنہوں نے مجھے اعتماد دیا کہ میں کرسکتی ہوں، کیونکہ میں بہت ڈری ہوئی تھی ، تو آپ نے کہا تھا کہ وہاں لوگوں کو ’ ابزرو‘ کرنا۔
وزیر اعظم: اب لوگ ڈرتے ہوں گے، پہلے آپ ڈرتی تھیں، اب لوگ ڈرتے ہوں گے۔
امیشا:آپ نے کہا تھا کہ لوگوں کا مشاہدہ وغیرہ کرنا ہے اور میں نےوہی کیا اور بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔
وزیر اعظم: اہل خانہ میں سے کیا ریسپانس ہے اب، تمہاری فیملی کے لوگ کیا کہتےہیں؟
امیشا: اب تو فیملی کافی خوش ہے اور وہ پہلے سہی حمایت کرتی تھی، لیکن اب اور زیادہ سپورٹ کرتی ہے۔
وزیر اعظم: اور زیادہ دے رہے ہیں۔
سمیت انتل: نمستے سر، میرا نام سمیت انتل ہے اورمیں بیک ٹو بیک دوسرا سونے کا تمغہ جیتا ہے، سر۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے جب ٹوکیو میں گولڈ میڈل آیا تھا تو آپ نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ ایسےدو گولڈ میڈل اور چاہیے میرے کو ، تو یہ دوسرا سر آپ کے لئے ہے، کیونکہ اس کے بعد میں جیسے جب پیرالمپک سے پہلے ہم کافی نروس تھے، کیونکہ میں آرٹیکل پڑھ رہا تھا اور ہر طرف موسٹ فیورٹ رہتا ہے ایتھلیٹ جو گولڈ میڈل کا دفاع کرے گا، اس میں میرا بھی نام تھا۔ لیکن جب 20؍اگست کو آپ سے بات ہوئی تو وہی لمحہ یاد آگیا سر، ٹوکیو والاکہ اب کی بار پھر سے اچھا کرنا ہے اور ہمارے ساتھ میں پوری ٹیم ہے سر، میرے فیزیو، میرے کوچ ، ہم سبھی کی طرف سے سر آپ کا بہت بہت شکریہ۔ کیونکہ ہمیں یہ لگتا ہے سر کہ میڈل لے کر آئیں گے تو آپ سے ملیں گے ، أپ سے پرسنل بات کریں گے اور بہت بہت شکریہ سر آپ کا ۔
وزیر اعظم: مبارک ہو۔
ایتھلیٹ: جیسے ہم سارے لوگ زیادہ تر اسپانسرڈ ایتھلیٹ ہیں ۔ سرکار سے مختلف اداروں سے ۔ تو وہاں سے کبھی نہ کبھی ایسا پریشر آتا رہتا ہے کہ آپ کو پرفارم کرنا ہے، یہ ساری چیزیں۔ جب آپ بولتےہیں کہ آپ جائیں ، بس کھیلیں، جیت اور ہار تو لگی رہتی ہے ، لیکن نیچے والے ایسے لگتے ہیں کہ ارے دیکھ لیں گے ، انہیں کیا جاتا ہے۔ اور جب اپنے ملک کا وزیر اعظم ہمیں موٹی ویٹ کررہا ہے تو یہ بہت چھوٹی چیز لگنے لگتی ہے۔ لاسٹ ٹائم سر میں آپ سے بات کی تھی ٹوکیو اتنا اچھا نہیں رہا تھا میرا ۔ اس میں میرا آٹھواں رینک رہا تھا پھر بھی میں آپ سے ایک سوال پوچھا تھا کہ آپ جب بیرون ملک جاتےہیں تو آپ کا تجربہ کیسا رہتا ہے؟آپ نروس محسوس کرتے ہیں، کیا کرتےہیں؟ تب آپ نے جواب دیا تھا کہ آپ ملک کی نمائندگی کرتے ہیں تو آپ کا اعتماد ہی ساری چیزیں ہیں۔ تو انہیں چیزوں کے ساتھ اس بار میں بھی گیا تھا تو ساری چیزیں ہمیں اس طرح سے اعتماد دے رہی تھی۔ وہ سب لاسٹ ٹائم جیسا پریشر نہیں تھا، میں اپنے آپ کو کنفیڈینٹ محسوس کر رہا تھا اور ہماری ٹیم نے گورنمنٹ نے ، ہمارے کوچ صاحب نے، سب لوگوں نے بہت اچھے سے سپورٹ کیا اور یہ کمپٹیشن کھیل کر بہت مزہ آیا سر۔ آپ کا شکریہ سر!
کوچ اور اتھلیٹ – سر نمسکار، میں نے 16 سال سے تپسیا کی تھی اور کہیں نہ کہیں میرا طالب علم دھرم ویر ہے، جس نے گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے حریف ہیں اور میں نے خود اس کی تربیت کی ہے۔ اس لیے میں نے آپ سے 20 تاریخ کو کہیں بات کی تھی اور میں نے محسوس کیا کہ ایک بہت ہی مثبت جذبہ ہے کہ آپ کو اپنی پوری کوشش کرنی ہوگی اور کوچ کے لیے اس سے بڑی بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ شاید میں اس ٹیم میں واحد کھلاڑی ہوں۔ دنیا جو اپنے طالب علم سے زمین پر مقابلہ کر رہی تھی۔ اور کہیں نہ کہیں سر دھرم ویر کے تمغے سے میری تپسیا کامیاب ہوئی اور اس میں اس کا بہت بڑا حصہ تھا، سر کیونکہ ہماری ٹیم میں سب سے شدید معذوری ہے۔ تو ایس اے آئی نے اور وزارت نے ہمارے معاون عملے میں لوگوں کی تعداد بڑھانے کا جو فیصلہ لیا، اس میں صرف 33 فیصد کا تناسب تھا، یعنی صرف 33 فیصد لوگ معاون عملے میں رہ سکتے ہیں! تو دیویندر بھائی جی نے بہت اچھا فیصلہ لیا اور باری باری کرتے رہے جب ہمارے ایونٹ آئے، اپنے لوگوں کو اندر لے آئے اور دوسرے لوگوں کو باہر کر دیا، تو یہ بہت اچھا مجموعہ تھا، اسکا یہی فائدہ ہوا کہ ہمارے اتنے میڈل آئے۔
ایس اے آئی کا بھی جیسا ہمارے کھانے کا تھا وہاں انڈین فوڈ کی بہت پرابلم تھی اور ویجیٹیرئن کے لئے بڑی دقت تھی تو ایس اے آئی نے جو اندر کیمپ کے ولیج کے اندر ہی جو کھانے کا انتظام کیا وہ اتنی اچھی اور صحت مند غذا تھی کہ کسی کو بھی پرابلم نہیں آئی سر۔ تو بہت بہت شکریہ سر پوری ٹیم کا اور ہم لوگوں کی اس قدر حوصلہ افزائی کرنے کے لئے۔ تھینک یو سو مچ سر۔
وزیر اعظم۔ مبارک ہو
کھلاڑی - میں ایشین گیمز میں شریک تھی اور تمغہ نہیں جیت سکی، اس لیے جب آپ سب سے مل رہے تھے، تم میڈل جیتنے والوں سے آگے ملے، تو آپ آئے اور ہر طرف ایک دوسرے کے آمنے سامنے لائنیں تھیں، اس لیے یہاں کچھ لوگوں سے ملنے کے بعد، آپ نے اس طرف رخ کیا تو میں نے آپ کو بہت قریب سے دیکھا لیکن میں آپ سے مل نہیں سکی، ہم بات نہیں کر سکے، اس لیے اندر ہی اندر ایک کشمکش تھی کہ اب ہمیں دوبارہ ملنا ہے اور اس کے لیے میں نے ایشین گیمز کے بعد اپنی جان لڑا دی۔ جانتی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے، مجھے ان سے ذاتی طور پر ملنا ہے۔ تو شاید اس نے مجھے متاثر کیا اور میں ایسا کرنے میں کامیاب رہی۔
میں اپنے بچے سے 6 مہینے تک نہیں مل پائی، گھر نہیں گئی، تو میرا بیٹا چھوٹا ہے تو اسے جب بھی گھمانے لیکر جاتی تھی موبائل میں جی پی ایس لگاکر تو اسے پتا ہے موبائل میں راستہ ڈھونڈ لیتے ہیں تو ایسے بولنے لگ گیا مجھے کہ ممی آپ راستہ ہی بھول گئیں گھر کا آپ جی پی ایس فون میں لگاکر گھر تو آ جاؤ کم سے کم۔ تو سر تھینک یو سو مچ آپ لوگوں کا بہت سپورٹ رہا ہے، آشرواد رہا ہے، جس کی وجہ سے ہم لوگ کر سکے ہیں، پوری ٹیم کا سپورٹ رہا ہے ہمارے کوچیز کا تو تھینک یو سو مچ سر ۔
وزیر اعظم: بہت بہت مبارک ہو۔
شرد کمار- سر، میں شرد کمار ہوں اور یہ میرا دوسرا تمغہ ہے، میں تیسری بار پیرالمپکس میں گیا ہوں۔
وزیر اعظم۔ اگر میں شرد اور سندیپ دونوں سے تقریریں کرنے کو کہوں تو سب سے بہتر کون کرے گا؟
شرد کمار- سر سندیپ بہت اچھا بولتے ہیں، شاید اسی لیے تھوڑا چوتھا رہ گیا۔ سر، لیکن ایک کھلاڑی کے طور پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب سے پیرا تحریک شروع ہوئی ہے، میں اس سے منسلک ہوں اور آج تمام کھلاڑی اس سطح پر ہیں، میں خود فخر محسوس کرتا ہوں۔ جس طرح سے یہ سب لوگ باہر جاتے ہیں، کوچز، فزیو تھراپسٹ سب ایک ٹیم ہیں، جب ہم باہر جاتے ہیں تو اب ایسے لوگ انڈیا کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ پہلے سوچتے تھے کہ کیا یہ لوگ آگے آ سکتے ہیں؟ لیکن اب پیرا میں انہوں نے زمرہ بندی کی ہے کہ ہندوستان پہلے سے ہی کھیلوں کا ملک ہے اور سر یہ سب سے پہلے ایس اے آئی کی شبیہہ سے شروع ہوا ۔ اور پھر ہم سپورٹ اسٹاف آنے لگے اور جس طرح کھلاڑیوں میں بھی مثبتیت آئی اورسر، اصل بات یہ ہے کہ آپ سے ملنے اور جانے سے پہلے آپ سب سے بات کرتے ہو اور پھر آنے کے بعد سب سے ملتے ہو۔ میرے خیال میں تمام میڈلسٹ اور کھلاڑیوں کا خیال ہے کہ ہمیں یہی موقع ملے، سر لوگوں نے ابھی تک پیرا کو ابھی تک اپنایا نہیں جس طرح آپنے اپنایا ہے۔
پلک کوہلی-نمستے سر، میں پلک کوہلی ہوں اور یہ میرا لگاتار دوسرا پیرالمپک تھا۔ اور ٹوکیو میں میں چوتھے اور یہاں میں پانچویں نمبر پر رہی۔ لیکن دونوں پیرا لمپک میں جانے کا میرا سفر بالکل ہی مختلف تھا۔ سرمجھ میں ٹوکیو پیرالمپکس 2022 کے بعد بون ٹیومر ہو گیا تھا، اسٹیج 1 کینسر ہو گیا تھااور تقریباًڈیڑھ برس میں نے کچھ بھی مکمل نہیں کیااور کسی ٹورنامنٹ میں حصہ نہیں لیااور گذشتہ برس 2023 میں میں نے واپسی کی اور میں کافی خوش ہوں اور بہت فخر محسوس کر رہی ہوں کہ میرے سپورٹنگ اسٹاف میرے کوچز گورو سر کی حمایت اور رہنمائی کے سبب ، میں پیرس کے لیے کوالیفائی کر سکی اور میرے بہت سارے بڑے ٹورنامنٹ ٹوکیو پیرالمپک کے بعد چھوٹ گئے تھے، جیسے ورلڈ چمپئن شپ، کیونکہ مجھے واک اوور دینا پڑا۔ ایشین گیمز میں مجھے کووڈ ہو گیا تھا۔ اس برس میں نے ورلڈ چمپئن شپ کے لیے کوالیفائی کیا اور میں نے کانسے کا تمغہ جیتا اور پھر میں نے پیرس کے لیے کوالیفائی کیا بیک ٹو بیک ۔ میری عالمی درجہ بندی گر کر 38 ہو گئی تھی، کیونکہ میں نے ٹورنامنٹ نہیں کھیلے تھے اور دوبارہ سے میں اپنے آپ کو عالمی نمبر چار پر لائی ہوں۔ اور میں نے پیرس کے لیے کوالیفائی کیا۔ تیسری مایوس کن بات یہ ہے کہ میں تمغہ نہیں جیت سکی، لیکن آپ کی دعائیں اور سب کا ساتھ ،مجھے لگتا ہے کہ میں لاس اینجلس2028کی طرف دیکھ رہی ہوں اور یہ یقینی طور پر جناب میں آپ کے ساتھ پوڈیم پر تصویرکھنچوانا چاہتی ہوں، شکریہ سر۔
وزیر اعظم - پلک، پچھلی بار آپ کی تربیت لکھنؤ میں ہوئی تھی۔
پلک کوہلی – یس سر۔یس سر
وزیر اعظم: میں نے آپ کے والدین سے بھی بات کی تھی۔
پلک کوہلی - یس سر، یس سر۔ ٹوکیو جانے سے پہلے۔
وزیراعظم؛ اس بار کیا موڈ ہے؟
پلک کوہلی - سر، اب میں یہاں لکھنؤ میں ہی گورو سر کی نگرانی میں ٹریننگ کر رہی ہوں اور ان کی رہنمائی میں ہی مجھے پیرا بیڈمنٹن کا پتہ چلا تھا اور جیسے ہی مجھے پتہ چلا ہے کہ مجھے بون ٹیومر ہو گیا تھا، بہت سے لوگ کہہ رہے تھے کہ’ آپ جانتے ہیں’، پلک کا تو کھیل میں کیریئر ختم ۔ اور ڈاکٹر نے بتایا تھا کہ اب ہم کوئی یقین دہانی نہیں کر سکتے کہ آپ نارمل زندگی گزار سکیں گی یا نہیں اور اس کے بعد بہت سی پیچیدگیاں رہیں۔ میرے دل میں پہلے سے ہی ایک بیماری تھی اور ٹیومر کے بعد میری ٹانگ میں بھی معذوری آگئی۔ جس کی وجہ سے میری دونوں ٹانگوں کی لمبائی میں فرق آیا اور مزید پیچیدگیاں بڑھ گئیں، اس لیے میرے گھر والے مجھے ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کی دعائیں میرے ساتھ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ میں خوش رہوں، اس لیے ان کی ایک ہی فکر ہے کہ میں ہمت نہ ہاروں ۔
وزیر اعظم - دیکھو پلک تمہارا معاملہ ایسا ہے کہ تم بہت سے لوگوں کو متاثر کر سکتی ہو، کیونکہ بہت سی مشکلات کے بعد، اور چلیے، گاڑی ٹریک پر آئی اور زندگی بنائی، درمیان میں رکاوٹیں آئیں اور درمیان میں مسائل آئے اور پھر بھی آپ اپنے مقصد سے نہیں ہٹیں، یہ بڑی بات ہے، آپ کوبہت بہت مبارک۔
پلک کوہلی - آپ کا بہت بہت شکریہ سر، آپ کا بہت بہت شکریہ سر۔
شیام سندر سوامی – نمستے سر، میں راجستھان کے بیکانیر سے آیا ہوں، میرا نام شیام سندر سوامی ہے، میں پیرا تیرانداز ہوں۔ سر ہمارے بیکانر میں کرنی سنگھ راجہ پانچ بار اولمپک کھیل کر آئے تھے۔ ہمارا دیویندر بھیا سے بہت گہرا تعلق ہے ،کیونکہ میں 40 سال بعد ٹوکیو اولمپک میں حصہ لے کر آیا تھا۔ تو بھیا کو میں نے دیکھا تھا کہ گیم ایسے ہوتا ہے۔ تو میں بھی پھر پیرا میں سر پہلے ایبل کھیلتا تھا۔ 2016 میں مجھے پتہ چلا کہ پیرا گیمس کی بھی کافی اہمیت ہے، کیونکہ بھیا کی بہت بڑی تصویر اخبار میں آئی تھی۔ تو بھیا سے سیکھنے کے بعد اور پھر میں 40 سال کے بعد ٹوکیو اولمپک میں حصہ لے کر واپس آیا تھا، سر۔
کھلاڑی - اس بار سر، مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، خاص طور پر نتیش کمار جی سے، جو میرے زمرے میں گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ ان سے سکھنے کو ملا۔ سر، پوری زندگی جن سے وہ جیتے، ایک بار بھی ان سے اس سے پہلے نہیں جیتے تھے، اور ان کی وجہ سے جب کہ میں ان کو ہرا چکا ہوں اور مجھے ان سے سیکھنے کو ملا ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکتے ہیں تو میں ان کو دوبارہ ہرا سکتا ہوں، میں پوری دنیا میں سب کو ہرا سکتا ہوں۔
وزیر اعظم - مبارک ہو۔
کھلاڑی - شکریہ سر۔
کوچ - میرا نام ڈاکٹر ستیہ پال ہے اور میں پیرا ایتھلیٹکس کاکوچ ہوں۔ یہاں شاید ہی کوئی کوچ ہو جو مجھ سے پہلے پیرا ایتھلیٹ کو تربیت دے رہا ہوگا۔ میں نے06-2005 میں پیرا ایتھلیٹس کو تربیت دینا شروع کی تھی۔
وزیراعظم: آپ کو یہ خیال کیسے آیا؟
کوچ- سرجب میں نہرو اسٹیڈیم میں ٹریننگ کرانے جاتا تھا وہاں ایک یا دو کھلاڑی آتے تھے، جن میں لمف ڈفیشی نسی تھی۔ تو میں نے انہیں دیکھا، پڑھا اور پھر دیویندر جی کے بارے میں سنا کہ انہوں نے 2004 کے ایتھنز اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتا تھا۔ پھر میں نے اس بارے میں مطالعہ کیا اور میں نے اسے آہستہ آہستہ کرنا شروع کیا، تب تمام کوچز مجھے نہرو اسٹیڈیم میں بہت عجیب نظروں سے دیکھتے تھے کہ میں نے دیپا ملک جی کی چیر کو پش کر کے جاتا ہوں اور کسی پیرا ایتھلیٹ کو ٹریننگ کرانے جاتا ہوں ، انکور دھاما کا ہاتھ پکڑ کر اس کو نہرو اسٹیڈیم میں گھماتا ہوں ،تو سوچتے تھے کہ میں اپنا وقت ضائع کر رہا ہوں۔ آج وہی پیرا ایتھلیٹ، وہی کوچز جو مجھ پر تنقید کرتے تھے، اب تمام پیرا ایتھلیٹس کو ٹریننگ دینا چاہتے ہیں۔ میں دل سے بول رہا ہوں کہ میں نے اس شعبے میں کام کیا ہے۔ میں بہت خوش ہوں اور آنے والے وقت میں آپ سے 29 نہیں بلکہ 50 میڈلز کا وعدہ کر کے جاتا ہوں کہ ہم سب اتنا کام کریں گے، ہم 50 میڈلز لے کر آئیں گے۔
وزیر اعظم - شاباش۔
کوچ - آپ کا شکریہ سر۔
وزیر اعظم – دیکھیے ساتھیو، بہ بات درست ہے کہ ہر کھیل میں جو معاون عملہ ہوتا ہےیا کوچنگ کرنے والے لوگ ہوتے ہیں، انہیں بہت محنت کرنی پڑتی ہے، ہر شعبے میں، لیکن معذوروں کےساتھ کام کرنا ان کو سیکھانے سے پہلے خود کو زندگی کو جینے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا پڑتا ہے۔ خود کو اس پوزیشن میں رکھنا پڑتا ہے ۔ اس کے مسائل کیا ہیں، اسے اپنی زندگی میں سمیٹنا پڑتا ہے،تب جاکر کہہ سکتےہیں، ورنہ میں تو روٹین میں کہہ دوں گایار دوڑو، ارے، وہ کہے گا، میں دوڑ نہیں سکتا، کوچ سمجھ سکتا ہے کہ یہ دوڑ نہیں سکتا، اس کے لیے طریقہ یہ ہونا چاہیے اور اسی لیے میں مانتا ہوں کہ جو پیرا ایتھلیٹس کو تربیت دیتے ہیں وہ کوچ غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں، ان کے اندر غیر معمولی طاقت ہوتی ہے جی۔ اور بہت کم لوگ اس بات کو سمجھ سکیں گے، میں اچھی طرح سمجھتا ہوں اورمیں نے کئی بارجب فون پربھی سب سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے تو میں اس بات کا ذکر کرتا ہوں۔ کیونکہ جو نارمل ہے، اسے صرف تکنیک سکھانی پڑتی ہے۔ اس کو تو جینا بھی سکھانا ہوتا ہے جی ۔ اور اس لیے یہ واقعی بہت بڑی ’ سادھنا‘ہے جی اور اسی لیے مجھے یقین ہے کہ آپ جو دوست یہ کام کر رہے ہیں وہ سب سے زیادہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
کوچ- سر، مجھے بطور ایتھلیٹ ایڈمنسٹریٹر بین الاقوامی مقابلوں میں جانا شروع ہوئے 30 سال ہو گئے ہیں۔ کسی زمانے میں ایک جھنڈا بھی نظر نہیں آتا تھا۔ اب ہندوستانی جھنڈا نظر آنے لگا ہے۔ ہمارے کھلاڑی بھی یہ کہہ کر واپس آئے کہ ہم پیرا اسپورٹس کی وجہ سے میڈل جیت سکتے ہیں۔ جب ہم شریک ہوتے تھے تو اس وقت سوچتے تھے کہ ہمیں صرف شرکت کرنی ہے۔ اب وہ تصور بدل گیا ہے، لیکن میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں سر۔ میں بہت سے لوگوں سے کہتا ہوں کہ ہمارا برانڈ ایمبیسیڈر کون ہے ،ہمارے مودی جی ہمارے برانڈ ایمبیسیڈر ہیں۔ اور پھر سر، ہندوستان ایبل باڈی میں اچھا تمغہ لے کر آ سکتا ہے ، اسی لیے میں مشرقی جرمنی میں تھا اور چنئی میں بھی۔ ہندوستان میں ان دنوں بہت اچھی سہولت موجود ہے۔ اس کا صحیح استعمال کرنا ہوگا، اگر ہم فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کو ایکٹیویٹ کر دیں تو 100فیصد اچھا میڈل لے کر آئیں گے سر۔ شکریہ سر۔
نشاد کمار - سر، میرا نام نشاد کمار ہے اور میں ٹی 47 ہائی جمپ سے ہوں اور میں نے بیک ٹو بیک پیرالمپکس میں چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ سر، میں اپنا تجربہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ہماری ٹیم ٹوکیو پہنچی تو وہاں کووڈ تھا، اس لیے ہم نے اس وقت حاضرین کے بغیر مقابلہ کیا تھا۔ چنانچہ حال ہی میں جب ہم پیرس میں پیرا لمپکس کھیلے تو وہاں پورا اسٹیڈیم بھرا ہوا تھا۔ چنانچہ جس دن میں مقابلہ کر رہا تھا، پورے ناظرین انڈیا انڈیا کے نعرے لگا رہے تھے۔ اس لیے اس نے ہماری بہت حوصلہ افزائی کی، ہمیں اس کی طرف سے اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے اور تمغے پر انحصار کرنے کا حوصلہ ملا اور اگلے دن میرے تمغے کی تقریب تھی اور وہاں تمغے کے بعد، میں ہائی جمپ میں اپنے دیگر ٹیم ممبرز کو سپورٹ کرنے پہنچا تو تمغہ میرے گلے میں تھا۔ اس وقت فرانسیسی فیملی میری طرف دیکھ رہی تھی کہ کل ہم اس کھلاڑی کو سپورٹ کر رہے تھے، آج وہ ہمارے درمیان بیٹھا ہے اور کافی دیر تک مجھے دیکھ رہے تھے کہ ہمیں کب موقع ملے اس کھلاڑی کے ساتھ ایک تصویر لینے کا ۔ تو جیسے ہی مقابلہ ختم ہوا، میں اپنی تصویر کے لیے نیچے گیا اور انہوں نے مجھ سے ایک تصویر مانگی، ان کے ساتھ چھوٹے بچے تھے، تو میں نے ان کے ساتھ تصویر کھینچی اور ان کے بچوں کے ہاتھ میں تمغہ دیا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ 6 سے 7 سال کے ہوں گے تو وہ بچے بہت خوش ہوئے کہ ہمیں میڈل دیکھنے کو مل رہا ہے، کل ہم اس کھلاڑی کے لیے چیئر اپ کر رہے تھے اور آج وہ ہمارے درمیان کھڑے ہیں اور فوٹو لے رہے ہیں۔ان کی ممی نے مجھ سے کہا کہ مقابلہ دیکھنے کے لیے ہمارے یہاں پیرس آنا۔ ہمارے لیے یہ کامیاب رہا کہ آپ ہمارے درمیان ہیں، ہمارے بچوں کے ساتھ فوٹو کھنچوا رہے ہیں اور ان کو آپ نے آٹو گراف دیا ۔ تو پورا خاندان خوش ہو گیا، تو یہ میرا تجربہ ہے سر ، مطلب یہ کہ یہ بہت اچھا رہا۔
وزیراعظم- بہت اچھا۔
وشال کمار – آپ کا شکریہ سر۔
یوگِیش کتھونیا – نمسکار سر! میرا نام یوگیش کتھونیا ہے۔ میں دو بار کا سلور میڈلسٹ ہوں۔ تو میں اپنا تجربہ بتانا چاہتا ہوں سر، ایک چیز نہیں ہے، وہ ہے مستقل مزاجی ۔ یہ مستقل مزاجی آپ کی وجہ سے آئی ہے، جناب، کیونکہ آپ نے ہندوستان میں جو مختلف اسکیمیں شروع کی ہیں، چاہے وہ ٹاپس اسکیم ہو، کھیلو انڈیا اسکیم ہو، این ایس یوز ہو، یہ آپ کی وجہ سے ہے ،سر آج ہم 29 تمغے لے کر آئے ہیں اور میں ایک چیز اور کرنا چاہوں گا ،دیگر لوگوں کے لیے پی ایم کا مطلب ہوتا ہے پرائم منسٹر اور ہم سب کے لیے پی ایم کا مطلب ہے ‘‘پرم متر’’۔
وزیراعظم- واہ۔ مجھے آپ نے یہ منصب دیا بہت اچھا لگا۔ میں بھی چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ حقیقی معنوں میں ایک دوست کی حیثیت سے کام کرتا رہوں۔
نودیپ- سر، میرا نام نودیپ ہے۔
وزیر اعظم- اس بار جس کی ریل سب سے زیادہ مقبول ہوئی، ایک تم ہو اور دوسری شیتل۔
نودیپ- سر، میں ایف 41 زمرے میں جیولین تھروور ہوں۔دوسری بار پیرالمپکس میں حصہ لے رہا ہوں۔ سر میرا ایونٹ سب سےآخری دن تھااور میں قریب21 تاریخ کووہاں گیا تھا۔
تو سر جیسے ہی میڈل آنے لگے تو مجھے گھبراہٹ ہونے لگی تھی کہ سب کے آ رہے ہیں تو میرا کیاہوگا؟ توپھر سر جیسے ، سینئر کھلاڑی تھے، جیسے سمیت بھائی، اجیت بھائی صاحب، سندیپ بھائی صاحب، دیویندر سر، ہم نے ایک ایک دن سب سے ملاقات کر کےتجربہ حاصل کیا کہ آپ کیسا محسوس کرتےہیں، مجھے کیا کرنا چاہیے اورسر آخر تک آتےآتے میں بالکل فری مائنڈ ہو کر کھیلنے لگا۔
وزیراعظم- واہ۔
نودیپ - شکریہ سر۔
رکشیتا راجو- نمسکار سر، میں رکشیتا راجو ایک نابینا کھلاڑی ہوں۔ یہ میرا پہلا اولمپک ہے۔ میں اپنے تجربے سے بہت خوش ہوں، میں پیرا ایشین گیمز میں دو بار گولڈ میڈل جیت چکی ہوں۔
میں اپنے گائیڈ رنرز اور اپنے کوچ راہول بالاکرشنا صاحب کی شکر گزار ہوں۔ وہ یہاں میرے ساتھ ہیں، میں گائیڈ رنر کے بغیر نہیں چل سکتی۔ میں بہت خوش ہوں اور یقینی طور پر 2028 پیرا لمپکس میں گولڈ میڈل حاصل کروں گی۔
وزیر اعظم - واہ، مبارک ہو اور آپ کے لیے نیک خواہشات۔
رکشیتا راجو- میرے گائیڈ رنر اور میرے کوچ نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ میں بہت مشکور ہوں کیونکہ وہ صبح و شام میرے ساتھ بغیر کسی توقع کے وقت گزارتے تھے، بہت بہت شکریہ سر۔
وزیر اعظم – چلیے ساتھیوں، مجھے بہت اچھا لگا، آپ سب سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اس بار آپ لوگ جب گئے تب میں فزیکلی تو نہیں مل پایا تھا،کیونکہ کافی لوگ مختلف مقامات پر ٹریننگ کر رہے تھے اور وقت کی بھی کچھ تنگی تھی۔تو میں نے ورچول بھی کوشش کی کہ آپ سے بات کروں اور اس دن میں نے ایک بات کہی تھی، شاید آپ کو یادو ہوگا۔ میں نے کہا تھا کہ آج آپ لوگوں کو ملک کے عوام کا ایک پیغام دینے آیا ہوں اور میں نے کہاتھا کہ پورا ہندوستان کہہ رہا ‘وجے بھووا’۔(آپ کی فتح ہو)
آپ نے اہل وطن کےجو جذبات تھے ، اس کو ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھا،نہیں ملک چاہتا ہے،ہم کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اپنے آپ میں بہت بڑی بات ہے۔ دوسرا میں دیکھ رہا ہوں ،کیونکہ میں آپ لوگوں کے ساتھ ذرا زیادہ جڑا ہوا ہوں۔یہاں شاید ‘ پرماتما‘(خدا) نے کوئی اضافی کوالٹی دی ہے، میں ایسا محسوس کر رہا ہوں۔ جسم میں کچھ نہ کچھ کمی ضرور ہوگی ، لیکن آپ کی شخصیت میں خدا نے کچھ اضافی دیا ہے۔اور وہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے شاید اپنی ذاتی زندگی میں اتنی خامیوں سے گزارا کیا ہے اور اس کے ساتھ جدوجہد کی ہے۔ آپ نے خودسے ہی وہ تربیت لی ہے، کسی وقت آپ نے لوگوں کے طنز کو برداشت کیے ہوں گے، مذاق کرتے ہوئے بھی آپ کے کان پر کبھی کچھ پڑا ہوگا۔ ہر طرح کی مصیبتوں سےآپ گزرے ہوئے لوگ ہیں، اس وجہ سے میں دیکھ رہا ہوں کہ کھیل میں جیت اور ہار کا کوئی اثر آپ کے ذہن پر نہیں ہے، یہ بہت بڑی بات ہے جی۔ ورنہ ہارے ہوئے شخص یعنی مان لیجئے میڈل نہیں ملا تو ایک تو اس کو بوجھ ہوتا ہے، ارے میں تو گیا ۔ آپ میں سے کسی کو یہ بوجھ نہیں ہے، یہ زندگی کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے،وہی آپ کو آگے لے جانے کی طاقت دیتی ہے اور اسی لیے میں مانتا ہوں اور چاہتاہوں کہ اس کھیل میں اور لوگ آئیں، مزید میڈل آئے، وہ تو اچھی بات ہے، ہونا بھی چاہیے۔لیکن میں آپ لوگو ں کے توسط سے ملک میں ایک کلچر پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ وہ کلچریہ ہےکہ ملک کے ہر شہری کو سماج میں جن کی زندگی میں اس طرح کے مسائل ہیں، وہ ہمارے دیویانگ جن ہیں۔ ان کی طرف دیکھنے کا نظریہ تبدیل کریں۔ وہ ان کے طرف عزت کی نگاہ سے دیکھیں ، نہ کہ رحم کی نگاہ سے۔ وہ ہمیں قبول نہیں ہے۔رحم نہیں چاہیے، عزت کی نگاہ سے دیکھیں ، میں تم سے کم نہیں ہوں۔ یہ مزاج مجھے ملک میں پیدا کرنا ہے اور میرے معذور بھائی بہنوں میں بھی مجھے وہ مزاج پیدا کرنا ہے۔ وہ کھیلتے ہوں ، نہ کھیلتے ہوں، یہ الگ بات ہے،انہیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ دیگر اولمپک کھلاڑی اور دیگر فاتحین سے زیادہ میرے لیے آپ کا کھیلنا ، آپ کا ملک کےلیے وہاں جانا، وہاں جانے کے لیے کئی برسوں تک صبح 4.00بجے 5.00بجے اٹھ کر پسینہ بہانا، یہ محنت کبھی بھی رائیگاں نہیں جائے گی ، میں آپ کویقین دہانی کراتا ہوں۔
کیونکہ اب آپ کے لیے اور سبھی معذوروں کےلیے سماج میں ایک نیا ماحول پیدا ہونا شروع ہو چکا ہے۔ سسٹمز بھی تیار ہو رہے ہیں۔
ہر ایک کو لگتا ہے کہ ارے بھائی مجھے بھی تو مدد کرنی چاہیے، مجھے ساتھ رہنا چاہیے۔ میں بیٹھا ہوں، وہ کھڑے ہیں، میں کھڑا ہوجاؤں، ان کو بیٹھا دوں۔ یعنی تبدیلی آتی ہے تو آپ جو یہ کنٹریبیوشن کر رہے ،وہ ایک پورے سماج کے ذہن کو بدلنے کا کنٹریبیوشن ہے۔صرف میڈل نہیں، میڈل سے زیادہ آپ ماحول بدل رہے ہیں۔ ہر معذور کے ذہن میں آپ ایک اعتماد پیداکر رہے ہیں کہ ہم بھی کچھ کم نہیں ہیں، اور میں مانتا ہوں کہ ہمیں اس چیز کو اسی شکل میں کرناہے، آخر کار میڈل ، میڈل کی تعداد آج کل کا تو دور ہی ایسا ہے کہ ان چیزوں کو شمار کیا جاتا ہے۔ لیکن 140 کروڑکی آبادی والاملک آج جس جذبے کے ساتھ کھڑا ہوا ہے، کھیلنے کے لیے نہیں، جیتنے کے لیے جا رہے ہیں۔ میں ایک پارٹیسیپنٹ ہوں، ایسا نہیں ہے، میں ایک پرفارمر ہوں،یہ جو مزاج ہے نہ وہ اس ملک کی طاقت بنتا ہے اور آپ ملک کی اس طاقت میں توانائی پیدا کرتے ہیں۔تو میری طرف سے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد۔ سب موڈ دیکھ کر مجھے اچھا لگا۔ ورنہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا ہےکہ دوسرا اولمپک آنے تک چہرےپر ہنسی ہی نہیں آتی ہے، کیونکہ وہ گزشتہ اولمپک میں کھیلنےسے رہ محروم رہ گئے تھے۔ وہ منظر مجھے یہاں نظر نہیں آرہا ہے، مطلب مجھے لگتا ہے کہ اگلااولمپک بھی آپ جیت چکے ہیں۔ یہ آپ کی آنکھوں میں پڑھ پا رہا ہوں۔ آپ کے اندر جو اعتماد ہے وہ میں دیکھ پار ہا ہوں ۔ تو ساتھیوں میری طرف سے بہت سی نیک خواہشات، بہت بہت مبارکباد۔ شکریہ!
(ش ح۔ ع و - م ا۔ ا م - ت ح)
10882
(Release ID: 2054962)
Visitor Counter : 74
Read this release in:
English
,
Marathi
,
Hindi
,
Manipuri
,
Assamese
,
Assamese
,
Punjabi
,
Gujarati
,
Odia
,
Tamil
,
Telugu
,
Kannada
,
Malayalam