وزیراعظم کا دفتر

گجرات کے شہر  سورت میں جل سنچے جن بھاگیداری پہل کے آغاز کے موقع پرویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعےوزیر اعظم کے خطاب کا متن  

Posted On: 06 SEP 2024 3:04PM by PIB Delhi

گجرات کے وزیراعلیٰ بھوپیندر بھائی پٹیل، مرکزی وزراء کونسل میں میرے ساتھی سی آر پاٹل، نیموبین، گجرات سرکار کے وزراء،ارکان پارلیمنٹ،ارکان اسمبلی  ملک کے تمام اضلاع کے ڈی ایم، کلکٹر، دیگر معززین اور میرے تمام بھائیو اور بہنو!

آج گجرات کی سرزمین سے وزارت جل شکتی کی طرف سے ایک اہم مہم شروع کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ملک کے ہرحصے میں بارش سے جو تباہی ہوئی ہے، ملک کا شاہد ہی کوئی علاقہ ہوگا، جس کو اس پریشانی کی وجہ سے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو۔ میں کئی سال تک گجرات کا وزیر اعلیٰ رہا، لیکن میں نے ایک ساتھ اتنی تحصیلوں میں اتنی تیز بارش کبھی نہیں سنی اور نہ دیکھی۔ لیکن اس بار گجرات میں بڑا بحران آیا۔ تمام  بندوبست میں اتنی طاقت نہیں تھی کہ قدرت کے اس قہر  کے سامنے ہم ٹک سکیں۔  لیکن گجرات کے لوگوں کی اپنی ایک فطرت ہے، اہل وطن کی اپنی فطرت ہے، ان میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے اور بحران کے وقت سب کی مدد کرنے کی صلاحیت ہے۔ آج بھی ملک کے کئی علاقے ایسے ہیں جو شدید بارش کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔

ساتھیو،

جل سنچے، یہ  صرف ایک پالیسی نہیں ہے۔ یہ ایک کوشش ہے اوریوں کہیں تو یہ ایک  نیک کام بھی ہے۔ اس میں  سخاوت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ جب آنے والی نسلیں ہمارا تجزیہ کریں گی تو پانی کے بارے میں ہمارا رویہ شاید ان کا پہلا پیمانہ ہوگا۔ کیونکہ، یہ صرف وسائل کا سوال نہیں ہے۔ یہ زندگی کا سوال ہے، یہ انسانیت کے مستقبل کا سوال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے پائیدار مستقبل کے لیے جو 9 قراردادیں پیش کی ہیں ان میں پانی کا تحفظ پہلی قرارداد ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ آج عوامی شراکت کے ذریعے اس سمت  ایک اور بامعنی کوشش شروع کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر میں جل شکتی کی وزارت، حکومت ہند، حکومت گجرات اور اس مہم میں حصہ لینے والے تمام ملک کے لوگوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو،

آج جب ماحولیات اور پانی کے تحفظ کی بات آتی ہے،  تو بہت سی حقیقت کا ہمیں خیال رکھنا چاہئے ۔ ہندوستان کے پاس دنیا کے فریش واٹر  کا صرف 4 فیصد ہے۔ ہمارے گجرات کے لوگ سمجھیں گے کہ یہ صرف 4 فیصد ہے۔ کتنی ہی بڑی ندیاں ہندوستان میں ہیں، لیکن ہماری زمین کا ایک بڑا حصہ پانی کی کمی کا سامنا کر رہا ہے۔ کئی مقامات پر پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے۔ آب و ہوا میں تبدیلی اس بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔

اور ساتھیو،

ان سب کے باوجود، یہ ہندوستان ہی ہے جو اپنے لیے اور پوری دنیا کے لیے ان چیلنجوں کا حل تلاش کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ ہندوستان کی قدیم علمی روایت ہے۔ پانی کا تحفظ، فطرت کا تحفظ، یہ ہمارے لیے نئے الفاظ نہیں ہیں، یہ ہمارے لیے کتابی علم نہیں ہے۔ یہ حالات کی وجہ سے ہمارے حصے  میں آیا ہوا  کام  بھی نہیں ہے۔ یہ ہندوستان کے ثقافتی شعور کا حصہ ہے۔ ہم اس کلچر کے لوگ ہیں جہاں پانی کوایشور کا روپ سمجھا جاتا ہے، ندیووں کودیوی سمجھا جاتا ہے۔ جھیلوں اور تالابوں کو مندروں کا درجہ ملا ہے۔ گنگا ہماری ماں ہے، نرمدا ہماری ماں ہے۔ گوداوری اور کاویری ہماری مائیں ہیں۔ یہ رشتہ ہزاروں سال کا ہے۔ ہزاروں سال پہلے بھی ہمارے آباؤ اجداد پانی اور پانی کے تحفظ کی اہمیت کو جانتے تھے۔ سینکڑوں سال پرانے ہمارے گرنتھوں میں کہا گیا ہے- ادبھیہ سروانی بھوتانی، جیونتی پربھونتی چ۔ تسمات سرویشو دانیشو، تیودانم وشیشتے۔ یعنی  تمام مخلوقات پانی سے ہی پیدا ہوئی ہیں، پانی سے ہی جیتے ہیں۔ اس لئے پانی کا عطیہ، دوسروں کے لیے پانی بچانا، سب سے بڑا عطیہ ہے۔ یہی بات رحیم داس نے بھی سینکڑوں سال پہلے کہی تھی۔ ہم سب نے پڑھا ہے۔ رحیم داس نے کہا تھا- رحیمن پانی راکھئے، بن پانی سب سُن! جس قوم کی سوچ اتنی دور اندیشی اور  وسیع رہی ہو اسے پانی کے بحران کے المیے کا حل تلاش کرنے میں دنیا میں سب سے آگے کھڑا ہونا ہی ہوگا۔

ساتھیو،

آج کا یہ پروگرام گجرات کی سرزمین پر شروع کیا جا رہا ہے، جہاں لوگوں کو پانی کی فراہمی اور پانی کی بچت کی سمت میں کئی کامیاب تجربات کیے جا چکے ہیں۔ ہم سب کو یاد ہے کہ دو  -ڈھائی دہائی قبل تک سوراشٹر کی کیا حالت تھی، ہم جانتے ہیں کہ شمالی گجرات کی حالت کیا تھی۔ سرکاروں میں جل سنچین کے سلسلے میں جس وژن کی ضرورت ہوتی ہے، پہلے کے وقت میں اسکی بھی کمی تھی۔ تبھی میرا عزم تھا کہ میں دنیا کو بتاکر رہوں گا کہ پانی کے بحران کا بھی حل نکل سکتا ہے۔  میں نے دہائیوں سے زیرالتوا سردار سروور ڈیم کا کام  پورا کروایا۔  گجرات میں سونی اسکیم شروع ہوئی۔  جہاں پانی زیادہ تھا، وہاں سے پانی ، پانی کی کمی والے  علاقے میں پہنچایا گیا۔  تب بھی اپوزیشن والے ہمارا مذاق اڑاتے تھے کہ جو پانی کے پائپ بچھائے جا رہے ہیں ان سے ہوا نکلے گی۔ لیکن آج گجرات میں کی گئی کوششوں کے نتائج پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ گجرات کی کامیابی اور گجرات میں میرے تجربات نے مجھے یہ اعتماد دیا ہے کہ ہم ملک کو پانی کے بحران سے آزاد کر اسکتے ہیں۔

ساتھیو،

پانی کا تحفظ نہ صرف پالیسیوں کا معاملہ ہے بلکہ سماجی وفاداری کا بھی معاملہ ہے۔ بیدار رائے عامہ، عوامی شرکت اور عوامی تحریک اس مہم کی سب سے بڑی طاقت ہیں۔ آپ کو یاد ہے پانی اور ندیوں کے نام پر کئی دہائیوں تک ہزاروں کروڑ روپے کی اسکیمیں سامنے آتی رہیں۔ لیکن، نتائج صرف ان 10 برسوں میں دیکھے گئے ہیں۔ ہماری حکومت نے پورے معاشرے اور پوری حکومت کے نقطہ نظر کے ساتھ کام کیا ہے۔ آپ 10 سال کے تمام بڑے منصوبوں کو دیکھیں۔ پہلی بار پانی سے متعلق مسائل پر سائلو کو توڑا گیا۔ ہم نے پوری حکومت کے عزم پر پہلی بار ایک الگ جل شکتی کی وزارت تشکیل دی۔ پہلی بار، ملک نے جل جیون مشن کی شکل میں 'ہر گھر کے لیے پانی' کا عزم کیا۔ اس سے پہلے ملک میں صرف 3 کروڑ گھروں میں پائپ سے پانی کی سپلائی ہوتی تھی۔ آج ملک کے 15 کروڑ سے زیادہ دیہی گھروں کو پائپ سے پانی ملنا شروع ہو گیا ہے۔ جل جیون مشن کے ذریعے ملک کے 75 فیصد سے زیادہ گھروں تک نل کا صاف پانی پہنچا ہے۔ جل جیون مشن کی یہ ذمہ داری مقامی واٹر کمیٹیاں سنبھال رہی ہیں۔ اور جس طرح گجرات میں واٹر کمیٹیوں میں خواتین نے کمال کیا تھا، اسی طرح اب ملک بھر کی واٹر کمیٹیوں میں خواتین شاندار کام کر رہی ہیں۔ اس میں کم از کم 50 فیصد حصہ گاوں کی  خواتین کا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

آج جل شکتی ابھیان ایک قومی مشن بن گیا ہے۔ پانی کے روایتی ذرائع  کا احیا ہو یا نئے ڈھانچے کی تعمیر، اس میں متعلقہ فریقوں سے لے کر سول سوسائٹی اور پنچایتوں تک سبھی شامل ہیں۔ عوامی شراکت داری کے ذریعے ہی ہم نے آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران ہر ضلع میں امرت سروور بنانے کا کام شروع کیا۔ اس کے تحت عوام کی  ساجھیداری  سے ملک میں 60 ہزار سے زیادہ امرت سروور بنائے گئے۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کی آنے والی نسل کے لیے یہ کتنا بڑا کام ہے۔ اسی طرح ہم نے زیرزمین پانی کو ری چارج کرنے کے لیے اٹل بھوجل یوجنا شروع کی۔ اس میں بھی پانی کے ذرائع کے انتظام کی ذمہ داری گاؤں کی سوسائٹی کو ہی دی گئی ہے۔ 2021 میں ہم نے کیچ دی رین مہم شروع کی۔ آج شہروں سے لے کر گاؤوں تک لوگ بڑی تعداد میں کیچ دی رین مہم میں شامل ہو رہے ہیں۔ نمامی گنگے اسکیم کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ 'نمامی گنگے' کروڑوں ہم وطنوں کے لیے ایک جذباتی عزم بن گیا ہے۔ ہماری ندیوں کو صاف ستھرا بنانے کے لیے لوگ روایتی رسوم کو ترک کر رہے ہیں اور یہاں تک کہ غیر متعلقہ رسم و رواج کو بھی بدل رہے ہیں۔

ساتھیو،

جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں، میں نے ماحولیات کے لئے  ہم وطنوں سے ’ایک پیڑ ماں کے نام ’ لگانے کی اپیل کی ہے ۔ جب درخت لگائے جاتے ہیں تو زیر زمین پانی کی سطح میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ملک میں ماں کے نام پر کروڑوں درخت لگائے جاچکے  ہیں۔ ایسی بہت سی مہمات ہیں، بہت سے عزائم  ہیں، آج یہ 140 کروڑ ہم وطنوں کی شمولیت سے عوامی تحریکیں بن رہی ہیں۔

ساتھیو،

پانی کے تحفظ کے لیے، آج ہمیں پانی کا استعمال کم کرنے، دوبارہ استعمال کرنے،  ری چارج کرنے اور ری سائیکل کرنے کے منتر پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی جب ہم پانی کے غلط استعمال کو روکیں گے اور کم کریں گے تو پانی کی بچت ہوگی۔ جب ہم پانی کو دوبارہ استعمال کرتے ہیں، جب ہم پانی کے ذرائع کو ری چارج کرتے ہیں اور گندے پانی کو ری سائیکل کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں نئے طریقے اپنانے ہوں گے۔ ہمیں اختراعی بننا ہے، ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری 80 فیصد پانی کی ضروریات زرعی مقاصد سے آتی ہیں۔ اس لیے ہماری حکومت پائیدار زراعت کی سمت میں ڈرپ اریگیشن (پانی کے چھڑکاؤ کے ذریعہ آبپاشی) جیسی ٹیکنالوجیز کو مسلسل بڑھا رہی ہے۔ فی بوند زیادہ فصل جیسی مہمات بھی پانی کی بچت اور کم پانی والے علاقوں میں کسانوں کی آمدنی میں اضافہ کر رہی ہیں۔ حکومت کم پانی والی فصلوں جیسے دالوں، تیل کے بیجوں اور موٹے اناج  کی کاشت کو بھی فروغ دے رہی ہے۔ کچھ ریاستیں پانی کے تحفظ کے لیے متبادل فصلوں پر کسانوں کو ترغیبات بھی دے رہی ہیں۔ میری گزارش ہے کہ ان کوششوں کو مزید تقویت دینے کے لیے تمام ریاستوں کو مل کر مشن موڈ میں کام کرنا چاہیے۔ ہمیں کھیتوں کے قریب تالاب بنانے اور کنوئیں ریچارج کرنے جیسی بہت سی نئی ٹیکنالوجیز کے ساتھ اس طرح کے روایتی علم کو فروغ دینا ہوگا۔

ساتھیو،

صاف پانی کی دستیابی، پانی کے تحفظ میں کامیابی، پانی کی ایک بہت بڑی معیشت بھی اس سے وابستہ ہے۔ جیسے جل جیون مشن نے لاکھوں لوگوں کو روزگار اور خود روزگار کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں کو انجینئر، پلمبر، الیکٹریشن اور مینیجر جیسی نوکریاں ملی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا اندازہ ہے کہ ہر گھر کو پائپ سے پانی فراہم کرنے سے ملک کے لوگوں کے تقریباً 5.5 کروڑ گھنٹے بچیں گے۔ یہ بچا ہوا وقت، خاص طور پر ہماری بہنوں اور بیٹیوں کا وقت، پھر براہ راست ملکی معیشت کو بڑھانے میں استعمال ہو گا۔ صحت بھی پانی کی معیشت کا ایک اہم پہلو ہے - آروگیہ   رپورٹس کے مطابق  جل جیون مشن سے 1.25 لاکھ سے زیادہ بچوں کی بے وقت موت کو بھی روکا جاسکے گا۔ ہم ہر سال 4 لاکھ سے زائد لوگوں کو ڈائریا جیسی بیماریوں سے بچا سکیں گے، جس کا مطلب ہے کہ لوگوں کے بیماریوں پر ہونے والے اخراجات میں بھی کمی آئی ہے۔

ساتھیو،

عوامی شراکت داری کے اس مشن میں ہمارے کاروباری شعبے  کا بھی بہت بڑا حصہ ہے۔ آج میں ان صنعتوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے کاربن کے صفر اخراج والے معیارات اور پانی کی ری سائیکلنگ کے اہداف کو پورا کیا ہے۔ بہت سی صنعتوں نے کارپوریٹ سماجی ذمہ داریوں کے تحت پانی کے تحفظ کے کام شروع کیے ہیں۔ گجرات نے پانی کے تحفظ کے لیے سی ایس آر کے استعمال میں ایک نیا ریکارڈ بنایا ہے۔ سورت، ولساڈ، ڈانگ، تاپی، نوساری، مجھے بتایا گیا ہے کہ سی ایس آر اقدامات کی مدد سے ان تمام جگہوں پر تقریباً 10 ہزار بورویل ریچارج ڈھانچوں کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ اب، 'جل سنچے-جن بھاگیداری ابھیان' کے ذریعے، جل شکتی کی وزارت اور گجرات حکومت نے مل کر اس طرح کے مزید 24 ہزار ڈھانچے بنانے کی مہم شروع کی ہے۔ یہ مہم اپنے آپ میں ایک مثال  ہے جو مستقبل میں دیگر ریاستوں کو بھی اسی طرح کی کوششیں کرنے کی ترغیب دے گی۔ مجھے امید ہے کہ ہم مل کر ہندوستان کو پانی کے تحفظ کے لیے پوری انسانیت کے لیے ایک تحریک بنائیں گے۔ اس اعتماد کے ساتھ، میں ایک بار پھر اس مہم کی کامیابی کے لیے آپ سب کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

************

ش ح۔  م ع  ۔ م  ص

 (U:10624 )



(Release ID: 2052540) Visitor Counter : 19