صدر جمہوریہ کا سکریٹریٹ
azadi ka amrit mahotsav

انسانی معاشرہ، جنگلات کی اہمیت کو فراموش کرنے کی غلطی کر رہا ہے: صدر جمہوریہ مرمو


صدر جمہوریہ ہند نے، دہرادون کی اندرا گاندھی نیشنل فاریسٹ اکیڈمی میں ہندوستانی جنگلات کی خدمت کے زیرتربیت افسر ان کے کنووکیشن کی تقریب میں شرکت کی

Posted On: 24 APR 2024 3:15PM by PIB Delhi

انسانی معاشرہ، جنگلات کی اہمیت کو فراموش کرنے کی غلطی کر رہا ہے۔ جنگلات زندگی دینے والے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جنگلات نے زمین پر زندگی کو محفوظ رکھا ہے۔ یہ بات ہندوستان کی صدر جمہوریہ محترمہ دروپدی مرمو نے آج (24 اپریل،2024) کو،دہرادون کے اندرا گاندھی نیشنل فاریسٹ اکیڈمی میں انڈین فارسٹ سروس (2022 بیچ) کےزیر تربیت افسر ان سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ آج ہم نسل انسانی کے آغاز و ارتقاء کے دور کے بارے میں بات کرتے ہیں جو کہ انسانوں پر مرکوز ترقی کا دور ہے۔ اس عرصے میں ترقی کے ساتھ ساتھ تباہ کن نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ وسائل کے غیر پائیدار استحصال نے، انسانیت کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے ،جہاں ترقی کے معیارات کا از سر نو جائزہ لینا ہوگا۔ انہوں نے اس بات کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا کہ ہم زمین کے وسائل کے مالک نہیں ہیں، بلکہ ہم ان کے امانت دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری ترجیحات، بشریات کے ساتھ ساتھ حیاتیاتی مرکوز ہونی چاہئیں۔ درحقیقت، صرف حیاتیاتی مرکوز ہونے سے ہی ہم صحیح معنوں میں بشری مرکز بننے کے قابل ہوں گے۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ دنیا کے کئی حصوں میں جنگلاتی وسائل کا نقصان بہت تیزی سے ہوا ہے۔ جنگلات کی تباہی، ایک طرح سے انسانیت کی تباہی ہے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ زمین کی حیاتیاتی تنوع اور قدرتی خوبصورتی کا تحف،ظ ایک بہت اہم کام ہے جو ہمیں بہت جلد کرنا ہے۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور فروغ کے ذریعے، انسانی زندگی کو بحرانوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے اس نقصان کی تیز رفتاری سے بھرپائی کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کئی جگہوں پر ’میاواکی‘ طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت، جنگلات اور علاقے کے مخصوص درختوں کی انواع کے لیے موزوں علاقوں کی شناخت میں مدد کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مختلف اختیارات کا جائزہ لینے اور ہندوستان کے جغرافیائی حالات کے مطابق حل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ ترقی کے رتھ کے دو پہیے ہیں -روایت اور جدیدیت۔ آج انسانی معاشرہ بہت سے ماحولیاتی مسائل کا شکار ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ایک خاص قسم کی جدیدیت ہے، جس کی جڑ فطرت کا استحصال ہے۔ اس عمل میں روایتی علم کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ قبائلی معاشرے نے، فطرت کے ابدی قوانین کو اپنی زندگی کی بنیاد بنایا ہے۔ اس معاشرے کے لوگ فطرت کا تحفظ کرتے ہیں۔ لیکن، غیر متوازن جدیدیت کے زیر اثر، کچھ لوگ قبائلی برادری اور ان کی اجتماعی دانش کو قدیم سمجھتے ہیں۔ قبائلی معاشرے کا موسمیاتی تبدیلیوں میں کوئی کردار نہیں ہے ،لیکن اس کے مضر اثرات کا بوجھ ان پر غیر متناسب طور پر زیادہ ہے۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ قبائلی سماج کی طرف سے صدیوں سے جمع کیے گئے علم کی اہمیت کو سمجھنا اور اسے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کی اجتماعی حکمت، ماحولیاتی طور پر پائیدار، اخلاقی طور پر مطلوبہ اور سماجی طور پر جائز راستے پر آگے بڑھنے میں ہماری مدد کر سکتی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمیں بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہو گا اور قبائلی معاشرے کے متوازن طرز زندگی کے نظریات سے سبق حاصل کرنا ہو گا۔ ہمیں ماحولیاتی انصاف کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ 18ویں اور 19ویں صدی میں صنعتی انقلاب نے لکڑی اور دیگر جنگلاتی مصنوعات کی طلب میں اضافہ کیا ہے۔ طلب سے نمٹنے کے لیے، جنگلات کے استعمال کے نئے اصول، ضابطے اور طریقے اپنائے گئے ہیں۔ اس طرح کے اصول و ضوابط کو نافذ کرنے کے لیے، امپیریل فاریسٹ سروس، جو انڈین فارسٹ سروس کی پیشرو خدمت تھی، تشکیل دی گئی تھی۔ اس سروس کا منشور، قبائلی معاشرے اور جنگل کی دولت کا تحفظ نہیں تھا۔ ان کا منشور، ہندوستان کے جنگلاتی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استحصال کرکے برطانوی راج کے مقاصد کو فروغ دینا تھا۔

برطانوی دور میں، جنگلی جانوروں کے بڑے پیمانے پر شکار کا ذکر کرتے ہوئے، صدر جمہوریہ نے کہا کہ جب وہ عجائب گھروں کا دورہ کرتی ہیں ،جہاں جانوروں کی کھالیں یا کٹے ہوئے سر ،دیواروں کی زینت بنتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ یہ نمائشیں، انسانی تہذیب کے زوال کی کہانی بیان کر رہی ہیں۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انڈین فاریسٹ سروس کے افسران، نوآبادیاتی ذہنیت اور سابق امپیریل فارسٹ سروس کے نقطہ نظر سے پوری طرح آزاد ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایف ایس افسران کو نہ صرف ہندوستان کے قدرتی وسائل کا تحفظ اور ان میں اضافہ کرنا ہے، بلکہ روایتی علم کو انسانیت کے مفاد میں استعمال کرنا ہے۔ انہیں جدیدیت اور روایت کو ہم آہنگ کرکے اور ان لوگوں کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہوئے ،جنگل کی دولت کی حفاظت کرنی ہوگی، جن کی زندگی جنگلات پر مبنی ہے۔ ایسا کرنے سے، وہ ایسی حصہرسدی کر سکیں گے جو واقعی جامع اور ماحول کے لیے سازگار ہو۔

صدر جمہوریہ نے کہا کہ انڈین فاریسٹ سروس نے، ملک کو کئی ایسے افسران دیے ہیں، جنہوں نے ماحولیات کے لیے بے مثال کام کیا ہے۔ جناب پی سری نواس، جناب سنجے کمار سنگھ، جناب ایس منی کندن جیسے آئی ایف ایس افسران نے، فرض کی آدائیگی میں اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ انہوں نے تربیت یافتہ افسروں پر زور دیا کہ وہ ایسے افسران کو اپنا رول ماڈل اور رہنما بنائیں اور ان کے دکھائے گئے نظریات پر آگے بڑھیں۔

صدر نے آئی ایف ایس افسران پر زور دیا کہ وہ میدان میں قبائلی لوگوں کے درمیان وقت گزاریں اور ان کا پیار اور اعتماد حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں قبائلی معاشرے کے اچھے طریقوں سے سیکھنا چاہیے۔ انہوں نے ان پر بھی زور دیا کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی ملکیت لیں اور ایک رول ماڈل بنیں۔

صدر کی ہندی میں تقریر دیکھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

 

 

*****

U.No.6653

(ش ح –ا ع- ر ا)   


(Release ID: 2018736) Visitor Counter : 200