وزیراعظم کا دفتر

بھارت ٹیکس 2024، نئی دہلی میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 26 FEB 2024 4:01PM by PIB Delhi

کابینہ میں میرے ساتھی، پیوش گوئل جی، درشنا جردوش جی، مختلف ممالک کے سفیر، سینئر سفارت کار، مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے افسران، فیشن اور ٹیکسٹائل کی دنیا سے وابستہ تمام دوست، نوجوان کاروباری، طلباء، ہمارے بنکر اور ہمارے کاریگر۔ دوستو، خواتین و حضرات!بھارت منڈپم میں منعقد ہونے والے بھارت ٹیکس میں آپ سب کو مبارکباد!آج کا یہ انعقاد اپنے آپ میں بہت خاص ہے۔ خاص طور پر اس لیے کہ یہ بھارت کے دو سب سے بڑے نمائشی مراکز، بھارت منڈپم اور یشوبومی میں بہ یک وقت ہو رہا ہے۔ آج 3 ہزار سے زیادہ نمائش کنندگان... 100 ممالک سے تقریباً 3 ہزار خریدار... 40 ہزار سے زیادہ تجارتی زائرین... اس ایونٹ سے ایک ساتھ وابستہ ہیں۔ یہ ایونٹ ٹیکسٹائل ایکو سسٹم کے تمام اسٹیک ہولڈرز اور پوری ویلیو چین کو ایک ساتھ آنے کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کر رہا ہے۔

دوستو،

آج کی تقریب صرف ٹیکسٹائل ایکسپو نہیں ہے۔ اس انعقادسے ایک دھاگے سے بہت سی چیزیں جڑی ہوئی ہیں۔ بھارت ٹیکس کا یہ فارمولا ہندوستان کی شاندار تاریخ کو آج کے ہنر سے جوڑ رہا ہے۔ بھارت ٹیکس کا یہ فارمولہ روایت کے ساتھ ٹیکنالوجی کو بُن رہا ہے۔ بھارت ٹیکس کا یہ فارمولا انداز،پائیداری، پیمانے اور مہارت کو ایک ساتھ لانے کا ایک فارمولا ہے۔جس طرح ایک کرگھا کئی دھاگوں کو آپس میں جوڑتا ہے، اسی طرح یہ انعقاد بھی ہندوستان اور پوری دنیا کے دھاگوں کو آپس میں جوڑ رہا ہے۔ اور میں اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں، یہ جگہ بھی خیالات کے تنوع اور ہندوستان کے ثقافتی اتحاد کی جگہ بن گئی ہے۔ کشمیر کی کانی شال، اتر پردیش کی چکنکاری، زردوزی، بنارسی سلک، گجرات کی پٹولا اور کچھ کی کڑھائی، تامل ناڈو کی کانجیورام، اڈیشہ کی سنبل پوری، اور مہاراشٹر کی پیٹھنی، ایسی کئی روایات اپنے آپ میں بہت منفرد ہیں۔ میں نے ابھی وہ نمائش دیکھی ہے جس میں ہندوستان کے ٹیکسٹائل کے پورے سفر کو دکھایا گیا ہے۔ یہ نمائش ظاہر کرتی ہے کہ ہندوستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی تاریخ کتنی شاندار رہی ہے اور اس کی صلاحیت کتنی شاندار رہی ہے۔

دوستو،

آج، ٹیکسٹائل ویلیو چین کے مختلف طبقات کے اسٹیک ہولڈرز ہیں۔آپ ہندوستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بھی سمجھتے ہیں اور ہماری خواہشات اور چیلنجز سے بھی واقف ہیں۔ ہمارے یہاں بڑی تعداد میں بنکر دوست اور کاریگر دوست ہیں، جو نچلی سطح پر اس ویلیو چین سے وابستہ ہیں۔ بہت سے ساتھیوں کو اس میں کئی نسلوں کا تجربہ ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان نے آنے والے 25 سالوں میں ایک ترقی یافتہ ملک بننے کا عزم کر لیا ہے۔ ترقی یافتہ ہندوستان کے چار اہم ستون ہیں- غریب، نوجوان، کسان اور خواتین۔ اور ہندوستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر ان چاروں یعنی غریب، نوجوان، کسان اور خواتین سے جڑا ہوا ہے۔ اس لیے بھارت ٹیکس جیسے ایونٹ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔

دوستو،

ہم ایک ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے تعاون کو مزید بڑھانے کے لیے بہت وسیع دائرہ کار میں کام کر رہے ہیں۔ ہم روایت، ٹیکنالوجی، ٹیلنٹ اور ٹریننگ پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ آج کے فیشن کے تقاضوں کے مطابق اپنے روایتی انداز کو کیسے اپ ڈیٹ کیا جائے اور ڈیزائنز کو کس طرح نیا پن دیا جائے۔ ہم ٹیکسٹائل ویلیو چین کے تمام عناصر کو فائیو ایف کے فارمولے سے جوڑ رہے ہیں۔ اور میرا خیال ہے کہ شاید جب تک آپ کا پروگرام جاری رہے گا، پچاس لوگ ایسے ہوں گے جو آپ کو بار بار پانچ  ایف بتاتے رہیں گے۔ اس لیے یہ آپ  کوازبرہوجائے گا۔ اور اگر آپ وہاں بھی کسی نمائش میں جائیں تو آپ کو بار بار پانچ ایف ملیں گے۔ فارم، فائبر، فیبرک، فیشن اور فارن ان پانچوں کا سفر ایک طرح سے سارا منظر ہمارے سامنے ہے۔ فائیو ایف کے اس اصول کو ذہن میں رکھتے ہوئے، ہم کسانوں، بنکروں،ایم ایس ایم ای، برآمد کنندگان کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ ہم نے ایم ایس ایم ای کو فروغ دینے کے لیے بہت سے اہم اقدامات کیے ہیں۔ ہم نے سرمایہ کاری اور کاروبار کے لحاظ سے سےایم ایس ایم ای کی تعریف میں بھی ترمیم کی ہے۔ اس سے صنعتوں کے پیمانے اور سائز بڑھنے کے باوجود بھی وہ سرکاری اسکیموں کا فائدہ حاصل کرسکیں گے۔ ہم نے کاریگروں اور منڈی کے درمیان فاصلہ کم کر دیا ہے۔ ملک میں ڈائریکٹ سیلز، ایگزیبیشنز اور آن لائن پلیٹ فارم جیسی سہولیات میں اضافہ کیا گیا ہے۔

دوستو،

آنے والے وقت میں ملک کی مختلف ریاستوں میں7 پی ایم متر پارکس بنائے جارہے ہیں۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ یہ اسکیم آپ جیسے دوستوں کے لیے کتنے بڑے مواقع لے کر آنے والی ہے۔ کوشش یہ ہے کہ ویلیو چین سے متعلق پورے ایکو سسٹم کو ایک جگہ پر تیار کیا جائے، جہاں آپ کو پلگ اینڈ پلے کی سہولیات کے ساتھ ایک جدید، مربوط اور عالمی معیار کا بنیادی ڈھانچہ دستیاب ہو۔ اس سے نہ صرف آپریشنز کے پیمانے میں اضافہ ہوگا بلکہ لاجسٹک اخراجات میں بھی کمی آئے گی۔

دوستو،

آپ جانتے ہیں کہ ٹیکسٹائل اور ملبوسات کا شعبہ ملک میں بڑی تعداد میں ملازمتیں فراہم کرتا ہے۔ اس میں فارموں سے لے کر ایم ایس ایم ای اور برآمدات تک بہت سی ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس پورے شعبے میں دیہی معیشت سے وابستہ افراد اور خواتین کی بھی بڑی شراکت ہے۔ ہر 10 گارمنٹس بنانے والوں میں سے 7 خواتین ہیں اور ہینڈلوم میں ان میں سے بھی زیادہ ہیں۔ ٹیکسٹائل کے علاوہ کھادی نے ہمارے ہندوستان کی خواتین کو بھی نئی طاقت دی ہے۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ ہم نے پچھلے 10 سالوں میں جو بھی کوششیں کی ہیں کھادی کو ترقی اور روزگار دونوں کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کھادی گاؤں میں لاکھوں نوکریاں پیدا کر رہی ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں حکومت کی طرف سے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے بنائی گئی اسکیمیں... پچھلے 10 سالوں میں ملک میں جو بنیادی ڈھانچے کی ترقی ہوئی ہے اس سے ہمارے ٹیکسٹائل سیکٹر کو بہت فائدہ ہوا ہے۔

دوستو،

آج ہندوستان دنیا میں کپاس، جوٹ اور ریشم کے سب سے بڑے پیدا کرنے والے ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔ لاکھوں کسان اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ آج حکومت لاکھوں کپاس کے کسانوں کی مدد کر رہی ہے، ان سے لاکھوں کوئنٹل کپاس خرید رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے شروع کی گئی کستوری کپاس ہندوستان کی اپنی شناخت بنانے کی طرف ایک بڑا قدم ثابت ہونے جا رہی ہے۔ آج ہم جوٹ کے کسانوں اور جوٹ ورکرز کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ ہم ریشم کے شعبے کے لیے بھی مسلسل نئے اقدامات کر رہے ہیں۔اے4 گریڈ ریشم کی پیداوار میں خود انحصاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ روایت کے ساتھ ساتھ ہم ایسے شعبوں کو بھی فروغ دے رہے ہیں جن میں ہندوستان کو ابھی بہت کچھ حاصل کرنا ہے۔ جیسا کہ ہم ٹیکنیکل ٹیکسٹائل کے شعبے میں تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ٹیکنیکل ٹیکسٹائل سیگمنٹ کی صلاحیت کتنی زیادہ ہے۔ لہذا، اپنی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے، ہم نے نیشنل ٹیکنیکل ٹیکسٹائل مشن کا آغاز کیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس کے لیے مشینری اور آلات بھی ہندوستان میں تیار کیے جائیں۔ اس کے لیے ضروری ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ ٹیکنیکل ٹیکسٹائل میں اسٹارٹ اپ کی بہت گنجائش ہے۔ اس کے لیے رہنما اصول بھی بنائے گئے ہیں۔

دوستو،

آج کی دنیا میں جہاں ایک طرف ٹیکنالوجی اور میکانائزیشن ہے تو دوسری طرف انفرادیت اور صداقت کی مانگ ہے۔ اور ان دونوں کے ساتھ رہنے کے لیے کافی جگہ ہے۔ جب بھی ہاتھ سے بنے ڈیزائن یا ٹیکسٹائل کی بات آتی ہے تو کئی بار ہمارے فنکاروں کی بنائی ہوئی کوئی چیز دوسروں سے مختلف نظر آتی ہے۔ آج جب دنیا بھر کے لوگ ایک دوسرے سے مختلف نظر آنا چاہتے ہیں تو ایسے آرٹ کی مانگ بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے، آج ہندوستان میں ہم اس شعبے میں پیمانے کے ساتھ ساتھ مہارت پر بہت زیادہ زور دے رہے ہیں۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ٹیکنالوجی یعنی این آئی ایف ٹی کا نیٹ ورک ملک کے 19 اداروں تک پہنچ چکا ہے۔ قریبی بنکروں اور کاریگروں کو بھی ان اداروں سے جوڑا جا رہا ہے۔ ان کے لیے وقتاً فوقتاً خصوصی پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں، تاکہ وہ نئے رجحانات اور نئی ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات حاصل کر سکیں۔ ہم مہارت کی ترقی اور صلاحیت کی تعمیر کے لیے ‘سمرتھہ یوجنا’ چلا رہے ہیں۔ اس کے تحت 2.5 لاکھ سے زیادہ افراد کو تربیت دی گئی ہے۔ ان میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ اور ان میں سے 2.25 لاکھ سے زیادہ انڈسٹری میں رکھے گئے ہیں۔

دوستو،

پچھلی دہائی میں ہم نے ایک اور نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ یہ ووکل فار لوکل کی ڈائمینشن ہے۔ آج پورے ملک میں ووکل فار لوکل اور لوکل ٹو گلوبل کی عوامی تحریک چل رہی ہے۔ آپ سب بخوبی جانتے ہیں کہ چھوٹے بنکروں، چھوٹے دستکاروں، چھوٹی اور کاٹیج صنعتوں کے پاس قومی سطح پر اشتہارات اور مارکیٹنگ کے لیے بجٹ نہیں ہے اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس لیے مودی ان کی تشہیر کر رہے ہیں چاہے آپ انہیں پسند کریں یا نہ کریں۔ مودی ان کی ضمانت دیتے ہیں جن کی کوئی اور ضمانت نہیں دیتا۔ ہمارے ان دوستوں کے لیے بھی حکومت ملک بھر میں نمائشوں سے متعلق انتظامات کر رہی ہے۔

دوستو،

حکومت کی ان مستحکم اور موثر پالیسیوں کے مثبت اثرات اس شعبے کی ترقی پر واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ 2014 میں ہندوستان کی ٹیکسٹائل مارکیٹ کی قیمت 7 لاکھ کروڑ روپے سے کم تھی۔ آج یہ 12 لاکھ کروڑ روپے سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں، ہندوستان میں دھاگے کی پیداوار، کپڑے کی پیداوار اور ملبوسات کی پیداوار میں25 فیصد اضافہ ہوا ہے۔حکومت کا زور اس شعبے میں کوالٹی کنٹرول پر بھی ہے۔ 2014 سے اب تک 380 کے قریب ایسے بی آئی ایس معیارات بنائے گئے ہیں جو ٹیکسٹائل سیکٹر کے معیار کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں۔ حکومت کی ایسی کوششوں کی وجہ سے اس شعبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 2014 سے پہلے کے 10 سالوں میں جو ایف ڈی آئی آئی تھی اس سے تقریباً دوگنا رقم ہماری حکومت کے 10 سالوں میں اس شعبے میں آئی ہے۔

دوستو،

ہم نے ہندوستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کی طاقت دیکھی ہے اور مجھے اس سے بہت زیادہ توقعات ہیں۔ ہم نے تجربہ کیا ہے کہ آپ سب کووڈ کے دوران کیا کر سکتے ہیں۔ جب ملک اور دنیا کو پی پی ای کٹس اور ماسک کی شدید قلت کا سامنا تھا، ہندوستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر آگے آیا۔حکومت اور ٹیکسٹائل سیکٹر نے مل کر پوری سپلائی چین کو مربوط کیا۔ خاطر خواہ ماسک اور کٹس نہ صرف ملک بلکہ دنیا کو ریکارڈ وقت میں فراہم کی گئیں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم ہندوستان کو عالمی برآمداتی مرکز بنانے کے اپنے ہدف کو جلد از جلد حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ کو جس بھی مدد کی ضرورت ہو، حکومت آپ کی مکمل مدد کرے گی۔ اس کے لیے تالیاں بجنی چاہئیں بھائی۔ لیکن پھر بھی مجھے لگتا ہے کہ آپ کی جو انجمنیں ہیں وہ بھی بکھری ہوئی ہیں۔ انہیں مکمل طورپر متحد کیسے کیا جا سکتا ہے؟ ورنہ کیا ہوتا ہے کہ ایک شعبے کے لوگ آتے ہیں، اپنے مسائل بیان کرتے ہیں، روتے ہیں اور حکومت سے قرض لے کر بھاگ جاتے ہیں۔ پھر ایک اور آتا ہے، جو اس سے بالکل متضاد ہے، وہ کہتا ہے کہ یہ ضروری ہے۔ پس جب آپ لوگوں کی طرف سے ایسی متضاد باتیں آتی ہیں تو وہ ایک کی مدد کرتی ہیں اور دوسرے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اگر آپ سب مل کر کچھ چیزوں کو لے کر آئیں تو معاملات کو جامع انداز میں آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کی حوصلہ افزائی کریں۔

دوسرے، ہم دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے صدیوں سے آگے ہیں۔ جیسا کہ پوری دنیا مکمل صحت کی دیکھ بھال، مجموعی طرز زندگی، خوراک میں بھی واپس اپنی بنیاد پر جا رہی ہے۔ وہ اپنے طرز زندگی میں واپس جا رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے وہ کپڑوں میں بھی اپنی بنیاد پر واپس جا رہی ہے۔ آدمی پچاس بار سوچتا ہے کہ وہ جو کپڑوں پہنے گا اس پر کون سا کیمیکل رنگ ہے جس سے اسے ٹینشن ہوتی ہے۔ وہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا اسے قدرتی رنگ کا کپڑا مل سکتا ہے؟ وہ سوچتا ہے کہ قدرتی رنگ میں بنی ہوئی روئی اور اس سے بنا ہوا دھاگہ، کیا میں اسے کسی قسم کا رنگ لگا کر حاصل کر سکتا ہوں؟ اس کا مطلب ہے کہ دنیا بہت مختلف مارکیٹ ہے، مختلف مانگ ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں کہ ہندوستان خود اتنی بڑی مارکیٹ ہے، چاہے لوگ کپڑوں کے سائز بدلتے رہیں، لیکن پھر بھی مارکیٹ بڑی ہے۔ یہ دو سے تین انچ کم ہو جائے گا۔ اور اس لیے باہر دیکھنے کی خواہش نہیں ہے۔ یہ کیا نفسیات ہیں، ہندوستان میں اتنی بڑی مارکیٹ ہے، مجھے کیا چاہیے؟ براہ کرم آج کی نمائش کے بعد اس سوچ سے باہر نکلیں۔

کیا آپ میں سے کسی نے یہ مطالعہ کیا ہے کہ افریقی مارکیٹ میں کس قسم کے کپڑے کی ضرورت ہے، کس قسم کے رنگوں کے امتزاج کی ضرورت ہے، کس قسم کے سائز کی ضرورت ہے؟ ہم نہیں کرتے۔ کسی نے وہاں سے آرڈر دیا، منگوایا ، اور بس۔ مجھے یاد ہے کہ افریقہ کے لوگ جو کپڑے پہنتے ہیں ان کی چوڑائی تھوڑی زیادہ ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں جو وسعت ہے اس کا انحصار ہمارے لوگوں کے سائز پر ہے۔ تو ہمارا کُرتا بنے گا لیکن ان کا نہیں بنتا۔ تو ہمارے سریندر نگر کے ایک شخص نے اسے آزمایا۔ تو وہ، وہ ہاتھ سے کپڑے بناتا تھا، ایک بنکر تھا... اس نے اپنا سائز بڑھا دیا۔ اور اس نے بڑی چوڑائی کے ساتھ کپڑا بنانا شروع کیا۔ اور اس نے وہ پینٹنگ دی جو وہ مختلف رنگوں میں چاہتے تھے۔ آپ حیران رہ جائیں گے، اس کا کپڑا افریقی مارکیٹ میں بہت مشہور ہوا کیونکہ بیچ میں سلائی کی ضرورت نہیں تھی۔ صرف ایک جگہ سلائی کرکے اس کے کپڑے بنائے جاتے تھے۔ اب ذرا تحقیق کریں۔

میں ابھی ایک نمائش دیکھ رہا تھا، میں نے کہا کہ خانہ بدوش برادری پوری دنیا میں، پورے یورپ میں پھیلی ہوئی ہے۔ اگر آپ خانہ بدوش لوگوں کے پہننے والے کپڑوں کو قریب سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑوں یا راجستھان اور گجرات کے سرحدی علاقوں میں ہمارے پہنے جانےوالے کپڑے تقریباً ان سے ملتے جلتے ہیں۔اس کے رنگ کا انتخاب بھی وہی ہے۔ کیا کبھی کسی نے خانہ بدوش لوگوں کی ضرورت کے مطابق کپڑے بنا کر ایک بہت بڑی مارکٹ پر قبضہ کرنے کا سوچا ہے؟ یہ مشورہ  میں کسی اجرت کے بغیر دے رہا ہوں۔ ہمیں سوچنا چاہیے، دنیا کو ان چیزوں کی ضرورت ہے۔ ہمارا کیا ہے، اب میں نے دیکھا ہے کہ اس پوری نمائش میں کوئی کیمیکل والے کپڑے نہیں ہیں۔ بتاؤ کیا بازار میں کوئی کپڑا بغیر کیمیکل کے کام آئے گا؟ لیکن کیمیکل آپ کی سپلائی چین میں نہیں ہے۔ ایسا بھی ہو جائے تو اچھا ہو گا اور یہ مقابلہ ہو گا کہ قدرتی رنگ کون فراہم کرتا ہے۔سبزیوں سے بنے رنگ کون فراہم کرتا ہے؟ اور ہم دنیا کو اس کا بازار دیں۔ ہماری کھادی دنیا تک پہنچنے کی طاقت رکھتی ہے۔ لیکن ہم نے کھادی کو تحریک آزادی یا نیتا جی لوگوں کے انتخابی لباس تک محدود کر دیا۔ مجھے یاد ہے 2003 میں میں نے بہت بڑا کارنامہ انجام دیا تھا۔ میں بہادری اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جن لوگوں کے درمیان میں رہا ہوں اور جس پلیٹ فارم پر میں نے یہ کام کیا ہے اسے ہی بہادری کہا جا سکتا ہے۔

2003 میں، میں نے 2 اکتوبر کو پوربندر میں ایک فیشن شو کیا۔ آج بھی ہمارے ملک میں کہیں فیشن شو کریں تو چار چھ لوگ جھنڈے اٹھائے احتجاج کرنے آجاتے ۔آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ 2003 میں صورتحال کیسی ہوگی۔ اور گجرات کے اپنے این آئی ڈی لڑکوں کو تھوڑا سمجھایا۔ میں نے کہا کہ 2 اکتوبر کو مجھے یہ کھادی نکالنی ہے جو لیڈروں کا کپڑا ہے۔ میں عام لوگوں کے لباس میں تبدیلی لانا چاہتا ہوں۔ میں نے تھوڑی محنت کی اور گاندھی اور ونوبا جی کے ساتھ کام کرنے والے تمام گاندھیائی لوگوں کو بلایا۔ میں نے کہا، یہیں بیٹھو، دیکھو۔ اور ‘‘ویشنو جان کو تے نے رے کہیے’’ گانا چلتا تھا، اور اوپر فیشن شو چلتا تھا۔ اور جب تمام چھوٹے بچے کھادی کے جدید کپڑے پہن کر آئے تو مجھے لگا کہ ونوبا جی ہیں، ایک دوست بھا ؤجی تھے، وہ اب نہیں رہے، وہ میرے ساتھ بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہا، ہم نے کھادی کے اس پہلو کے بارے میں کبھی نہیں سوچا،یہی سچا راستہ ہے۔ اور آپ دیکھیں، نئے تجربات کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، کھادی آج کہاں پہنچ چکی ہے۔ یہ ابھی تک  عالمی نہیں ہوا ہے، ابھی ہمارے ملک میں گاڑی چل رہی ہے۔ دوستو ایسی بہت سی باتیں ہیں جن پر ہمیں سوچنا چاہیے۔ دوسری بات، کیا ہندوستان جیسا ملک ٹیکسٹائل کی تاریخ میں دنیا میں بہت مضبوط قدم رکھتا ہے؟ ہم ڈھاکہ کی ململ کا چرچا کرتے تھے۔ اس کے بارے میں یہ بتایا جاتا تھا کہ ایک انگوٹھی سے پورا تھان نکل جاتا ہے۔ اب کیا، ہم کہانی سناتے رہیں گے؟ کیا ہم ٹیکسٹائل ٹیکنالوجی سے متعلق مشین کی تیاری اور تحقیق میں شامل ہیں؟ ہمارے آئی آئی ٹی طلباء، ہمارے انجینئرنگ کے طلباء، یہاں تک کہ بہت تجربہ کار لوگ بھی بہت کچھ کرتے ہیں۔

ہیروں کی صنعت کی مثال آپ کے سامنے ہے۔ ڈائمنڈ سیکٹر کے لوگوں نے مشین کی تمام ضروریات کے مطابق سازو سامان  یہی تیار کیا ہے۔ اور بھارت میں بنی مشینیں ہیروں کی صنعت، کاٹنے اور پالش کرنے کے کام میں استعمال ہو رہی ہیں۔ کیا ہمیں ٹیکسٹائل کے میدان میں یہی کام مشن موڈ پرنہیں کرنا چاہیے۔آپ کی ایسوسی ایشن کا بڑا مقابلہ ہونا چاہیے؟ جو کوئی نئی مشین لائے جو کم بجلی استعمال کرے، زیادہ پیدا کرے، مختلف قسم کی مصنوعات بنائے، اسے اتنا بڑا انعام دیا جائے گا۔ تم لوگ کیا نہیں کر سکتے؟

بالکل نئے سرے سے سوچو دوستو۔ آج ہم سوچیں  کہ ہم دنیا میں اپنی مارکٹ کے لیے ان کی پسند کا مکمل سروے کریں، ایک اسٹڈی کریں، رپورٹ میں شامل ہوں، کہ افریقی ممالک میں کس قسم کے ٹیکسٹائل کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک کو اس قسم کے ٹیکسٹائل کی ضرورت ہے۔صحت کے بارے میں شعور رکھنے والے لوگوں کو اس قسم کی ضرورت ہے۔ ہم اسے کیوں نہیں بناتے؟ کیا دنیا میں طبی پیشے سے وابستہ لوگوں کو ایسے کپڑے پہننے پڑتے ہیں جو بہت بڑے ہوں، ہسپتالوں، آپریشن تھیٹرز وغیرہ میں، یعنی وہ کپڑے جو صرف ایک بار استعمال کیے جا سکیں اور پھر پھینک دیں؟ اور اس کی مارکیٹ بہت بڑی ہے۔ کیا ہم نے دنیا کو کبھی ایسا برانڈ بنایا ہے کہ انڈیا میں بنی یہ چیز یقین دلائے کہ اسپتال میں آپ کو کتنا ہی بڑا آپریشن کرنا پڑے، اسے پہنیں اور مریض کو کبھی کوئی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، کیا ہم ایسا برانڈ بنا سکتے ہیں؟اس کا مطلب ہے کہ دوستوہمیں عالمی سطح پرسوچنا چاہئے۔یہ ہندوستان کا اتنا بڑا سیکٹر ہے اور ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کا روزگار اس سے جڑا ہوا ہے۔ آئیے براہ کرم دنیا کے فیشن کی پیروی نہ کریں، آئیے فیشن میں بھی دنیا کی قیادت کریں۔ اور ہم فیشن کی دنیا میں پرانے لوگ ہیں، نئے لوگ نہیں۔ کیا آپ کبھی کونارک کے سورج مندر جائیں گے؟ سیکڑوں سال پہلے کونارک سن ٹیمپل کے مجسمے، ان مجسموں کے پہننے والے کپڑے، وہ کپڑے جو آج کے جدید دور میں بھی بہت جدید نظر آتے ہیں،سینکڑوں سال پہلے پتھر پر تراشے گئے تھے۔

آج ہماری بہنیں جو پرس لے کر جاتی ہیں وہ بہت فیشن ایبل لگتے ہیں، آپ انہیں سینکڑوں سال پہلے کونارک کے پتھر کے مجسموں میں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں مختلف علاقوں میں الگ الگ  پگڑیاں کیوں ہیں؟ ہمارے ملک میں کوئی بھی عورت کپڑے پہنتے ہوئے اپنی ٹانگوں کا ایک سینٹی میٹر تک دکھانا پسند نہیں کرتی تھی۔ اسی ملک میں کچھ لوگوں کا کاروبار ایسا تھا کہ ان کے لیے زمین سے چھ آٹھ انچ اونچے کپڑے پہننا ضروری تھا، اس لیے ہمارے ملک میں یہ فیشن رائج تھا۔ ان لوگوں کے کپڑے دیکھیں جو جانور پالنے کا کام کرتے تھے۔ مطلب، پیشہ کے لحاظ سے موزوں کپڑوں پر ہندوستان میں سینکڑوں سالوں سے کام کیا جا رہا ہے۔ اگر کوئی صحرا میں رہ رہا ہے تو اس کے جوتے کیسے ہوں گے، اگر اس کی شہری زندگی ہے تو اس کے جوتے کیسے ہوں گے، اگر وہ کھیتوں میں کام کرنے جا رہا ہے تو اس کے جوتے کیسے ہوں گے، پہاڑوں میں کام کریں تو اس کے جوتے کیسے ہوں گے؟، آپ کو اس ملک میں آج بھی سینکڑوں سال پرانے ڈیزائن ملیں گے۔ لیکن ہم اتنی باریک بینی سے نہیں سوچ رہے ہیں جتنا کہ اتنے بڑے علاقے کے بارے میں سوچنا چاہیے۔

اور دوستو،

حکومت کو یہ کام بالکل نہیں کرنا چاہیے ورنہ ہم گڑ کو گوبر میں بدلنے کے ماہر ہیں۔ میں حکومت کو لوگوں کی زندگیوں سے ہٹانا چاہتا ہوں۔ میں خاص طور پر متوسط ​​طبقے کے خاندانوں کی زندگیوں میں حکومت کی مداخلت کو قبول نہیں کرتا۔ ہر قدم پر ہر روز حکومت کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ہمیں ایسا معاشرہ بنانا چاہیے جہاں حکومتی مداخلت کم سے کم ہو۔ ہاں، غریبوں کو کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ پڑھنا چاہتا ہے تو اسے پڑھایا جائے۔ اگر اسے اسپتال کی ضرورت ہے تو اسے دیا جائے۔میں لوگوں کی اس  ٹانگ اڑانے والی عادت کے خلاف دس سال سے لڑ رہا ہوں اور آنے والے پانچ سالوں میں توضرور لڑوں گا۔

بھائی میں الیکشن کی بات نہیں کر رہا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ایک کیٹلیٹک ایجنٹ کے طور پر موجود ہے۔ یہ آپ کے خوابوں کی تکمیل میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کرنے کا کام کرے گی۔ ہم اس کے لیے بیٹھے ہیں، ہم کریں گے۔ لیکن میں آپ کو دعوت دیتا ہوں، بڑی ہمت کے ساتھ آئیں، ایک نئے وژن کے ساتھ آئیں۔ پوری دنیا کو ذہن میں رکھتے ہوئے آئیں۔ ہندوستان میں سامان نہیں بک رہا، پہلے 100 کروڑکا فروخت کیا، ایک بار 200 کروڑ کا بیچا، اس پھندے میں نہ پڑیں، پہلے کتنی ایکسپورٹ تھی، اب کتنی ایکسپورٹ ہورہی ہے۔ پہلے میں100 ممالک میں جاتا تھا، اب 150 ممالک میں کیسے جا رہا ہے، پہلے میں دنیا کے 200 شہروں میں جاتا تھا، اب  دنیا کے 500 شہروں میں کیسے جا رہا ہے، پہلے  دنیا کی اس طرح کی  مارکٹ میں جارہا تھا، اب دنیا کے 6 شہروں کوہم نے اس طرح حاصل کیا ،اس پر سوچیں۔ ہم نے نئی مارکیٹوں پر کیسے قبضہ کیا۔ اورآپ جو بھی برآمد کریں گےتو ہندوستان کے لوگ بغیر کپڑوں کے رہ جائیں گے، ایسا نہیں ہوگا، فکرکرنا ترک کردیں ۔ یہاں کے لوگ جو کپڑے چاہیں گے وہ انہیں  ضرور ملیں گے۔

 آپ کا بہت بہت شکریہ۔

شکریہ!

******

ش ح۔ ج ق ۔م ش

(U- 5403)



(Release ID: 2009318) Visitor Counter : 77