وزیراعظم کا دفتر

اترپردیش کے شہر وارانسی میں مختلف پروجیکٹوں کا سنگ بنیادرکھے جانے،افتتاح کرنے اور وقف کئے جانے کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 23 FEB 2024 5:30PM by PIB Delhi

ہر ہر مہا دیو!

اسٹیج پر موجود اتر پردیش حکومت کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ جی، مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی مہیندر ناتھ پانڈے جی، نائب وزیر اعلیٰ برجیش پاٹھک جی، بناس ڈیری کے چیئرمین شنکر بھائی چودھری، بھارتیہ جنتا پارٹی کے ریاستی صدرجناب بھوپیندر چودھری جی، ریاست کے دیگر وزراء، عوامی نمائندے اور کاشی کے میرے  بھائیوں اور بہنوں۔

کاشی کی سرزمین پر آج ایک بار پھر آپ لوگن کے بیچ آوے کا موقع ملل ہے۔ جب تک بنارس نہیں آئیت، تب تک ہمارن من ناہی مانیلا۔ دس سال پہلے آپ لوگ ہم کے بنارس کا سانسد بنائیلا۔ اب دس سال میں بناس ہم کے بنارسی بنا دے لیس۔

بھائیوں اور بہنوں،

آپ سب اتنی بڑی تعداد میں آئے ہیں، ہمیں آشیرواد دے رہے ہیں۔ یہ منظر ہمیں مسحور کر دیتا ہے۔ آپ لوگوں کی محنت کی وجہ سےآج کاشی کو مسلسل نیا  بنانے کی مہم جاری ہے۔ آج بھی یہاں 13 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کے ترقیاتی منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھا گیا ہے اور ان کا افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ پروجیکٹ کاشی کے ساتھ ساتھ پوروانچل، مشرقی ہندوستان کی ترقی کو رفتار دیں گے۔ اس میں ریل، سڑک، ہوائی اڈے سے متعلق پراجیکٹس شامل ہیں، اس میں مویشی پروری، صنعت، کھیل، ہنر کے فروغ سے متعلق بہت سے منصوبے شامل ہیں، اس میں صحت، صفائی ستھرائی، روحانیت، سیاحت، ایل پی جی گیس اور بہت سے دوسرے شعبوں سے متعلق بہت سے  علمی کام بھی شامل ہیں۔ اس سے بنارس سمیت پورے پوروانچل کے لیے روزگار کے بہت سے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ آج یہاں سے سنت رویداس جی کی جائے پیدائش سے متعلق کئی منصوبوں کا افتتاح بھی کیا گیا ہے۔ میں ان تمام پروجیکٹوں کے لیے آپ سب کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیوں،

اگر کاشی اور پوروانچل میں کچھ اچھا ہوتا ہے، تو میرا خوش ہونا فطری ہے۔ آج میرے نوجوان دوست بھی بڑی تعداد میں آئے ہیں۔ کل رات میں سڑک کے راستے بابت پور سےبی ایل ڈبلیو گیسٹ ہاؤس آیا ہوں۔ جب میں چند ماہ پہلے بنارس آیا تھا تو میں نے پھلواریہ فلائی اوور کا افتتاح کیا تھا۔ یہ صاف نظر آرہا ہے کہ بنارس میں یہ فلائی اوور کتنی بڑی نعمت ثابت ہوا  ہے۔ پہلے اگر کسی کو بی ایل ڈبلیو سے بابت پور جانا ہوتا تھا تو لوگ تقریباً 2سے3 گھنٹے پہلے گھر سے نکل جاتے تھے۔ پہلے منڈوا ڈیہہ میں جام، پھر محمور گنج میں جام، کینٹ میں جام، چوکا گھاٹ پر جام، ندیسر پر جام، یعنی فلائٹ سے دہلی جانے میں جتنا وقت لگتا تھا، اس سے زیادہ وقت فلائٹ پکڑنے میں لگ جاتا تھا، لیکن ایک فلائی اوور کے بننے سےاس میں لگنے والا وقت تقریباً آدھا ہو گیا ہے۔

اور کل رات تو خاص طور پر میں وہاں جا کر ہر چیز کو دیکھ کر آیا ہوں، اس کے  انتظامات کو سمجھ کر آیا ہوں، دیر رات پیدل چل کر وہاں گیا تھا۔ اسی طرح بنارس کی ترقی کی رفتار بھی پچھلے 10 برسوں میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ ابھی کچھ دیر پہلے یہاں سگرا اسٹیڈیم کے پہلے مرحلے کے کام کا بھی افتتاح کیا گیا تھا۔ بنارس کے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک جدید شوٹنگ رینج کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ اس سے بنارس اور اس خطے کے نوجوان کھلاڑیوں کو بہت مدد ملے گی۔

ساتھیوں،

یہاں آنے سے پہلے میں بناس ڈیری پلانٹ گیا تھا۔ وہاں مجھے کئی مویشی پالنے والی بہنوں سے بات کرنے کا موقع ملا۔ ہم نے 2سے3 سال پہلے کسان خاندانوں کی ان بہنوں کو دیسی نسل کی گائیں دی تھیں۔ اس کا مقصد پوروانچل میں دیسی گایوں کی بہتر نسل کے بارے میں معلومات کو بڑھانا تھا تاکہ کسانوں اور مویشی پروری کرنے والے لوگوں  کو اس سے فائدہ ہو۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آج یہاں گیر گایوں کی تعداد 350 کے قریب پہنچ گئی ہے۔ بات چیت کے دوران ہماری بہنوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ پہلے جہاں ایک عام گائے 5 لیٹر دودھ دیتی تھی اب ایک گیر گائے 15 لیٹر تک دودھ دیتی ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ ایک کنبے میں ایسا معاملہ سامنے آیا ہے کہ ایک گائے تو 20 لیٹر تک دودھ دینے لگی ہے،  جس کی وجہ سے یہ بہنیں ہر ماہ ہزاروں روپے کی اضافی آمدنی حاصل کر رہی ہیں۔ اس کی وجہ سے ہماری بہنیں بھی لکھپتی دیدی بن رہی ہیں اور یہ اپنی مدد آپ گروپوں سے وابستہ ملک کی 10 کروڑ بہنوں کے لیے ایک عظیم ترغیب ہے۔

ساتھیوں،

میں نے 2 سال پہلے بناس ڈیری پلانٹ کا سنگ بنیاد رکھا تھا۔ تب میں نے وارانسی سمیت پوروانچل کے تمام مویشی پالنے والوں اور گائے پالنے والوں  کو گارنٹی دی تھی کہ یہ پروجیکٹ جلد مکمل ہو جائے گا۔ آج مودی کی گارنٹی آپ کے سامنے ہے اور اسی لیے تو لوگ کہتے ہیں کہ مودی کی گارنٹی  یعنی پورا ہونے کی گارنٹی۔صحیح سرمایہ کاری سے روزگار کے موقع کیسے پیدا ہوتے ہیں، بناس ڈیری اس کی ایک بہترین مثال ہے۔ اس وقت بناس ڈیری وارانسی، مرزا پور، غازی پور، رائے بریلی، ان اضلاع کے مویشی کسانوں سے تقریباً 2 لاکھ لیٹر دودھ اکٹھا کر رہی ہے۔

اس پلانٹ کے شروع ہونے سے بلِیا، چندولی، پریاگ راج، جونپور اور دیگر اضلاع کے لاکھوں مویشی کسانوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اس پروجیکٹ کے ساتھ وارانسی، جونپور، چندولی، غازی پور، اعظم گڑھ اضلاع کے 1000 سے زیادہ دیہاتوں میں دودھ کی منڈیاں بنیں گی۔ اگر مویشی پروری کرنے والوں کا دودھ زیادہ قیمت پر فروخت  ہوگا، تو مویشی پروری کرنے والے ہر کسان  کنبے کی زیادہ آمدنی ہونا طے ہے۔ یہ پلانٹ کسانوں اور مویشی پالنے والوں کو جانوروں کی بہتر نسلوں اور بہتر چارے کے بارے میں بیداری  اور تربیت فراہم کرے گا۔

ساتھیوں،

اتنا ہی نہیں، یہ بناس کاشی سنکل  روزگار کے  بھی ہزاروں نئے مواقع پیدا کرے گا۔ الگ الگ  کاموں میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں  گے۔ ایک اندازے کے مطابق اس سنکل سے پورے علاقے کے 3 لاکھ سے زیادہ کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہوگا۔ یہاں دودھ کے علاوہ چھاچھ، دہی، لسی، آئس کریم، پنیر اور کئی قسم کی مقامی مٹھائیاں بنائی جائیں گی۔ اتنا بن جائے گا تو بیچنے والوں کو بھی روزگار ملے گا۔ یہ پلانٹ بنارس کی مشہور مٹھائیوں کو ملک کے کونے کونے تک پہنچانے میں بڑا کردار ادا کرے گا۔ دودھ کی نقل و حمل سے متعلق کاروبار میں بھی بہت سے لوگوں کو روزگار ملے گا۔ اس سے جانوروں کی خوراک سے متعلق دکانداروں اور مقامی تقسیم کاروں کا دائرہ بھی بڑھے گا۔ اس میں بہت سے روزگار بھی پیدا ہوں گے۔

ساتھیوں،

ان کوششوں کے درمیان، میری بناس ڈیری کے کام سے وابستہ سینئر ساتھیوں سے بھی ایک درخواست ہے۔ میں چاہوں گا کہ آپ دودھ کی رقم براہ راست بہنوں کے اکاؤنٹ میں ڈیجیٹل طریقے سے بھیجیں، پیسے کسی مرد کے حوالے نہ کریں۔ میرا تجربہ ہے کہ اس سے بہت ہی شاندار نتائج سامنے آتے ہیں۔ مویشی پروری ایک ایسا سیکٹر ہے جس میں ہماری بہنیں سب سے زیادہ شامل ہیں۔ بہنوں کو خود انحصار بنانے کا یہ ایک بہترین ذریعہ ہے۔ چھوٹے کسانوں اور بے زمین خاندانوں کے لیے بھی مویشی پروری  ایک بڑا سہارا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈبل انجن والی حکومت مویشی پروری اور ڈیری کے شعبے کو اتنا فروغ دے رہی ہے۔

ساتھیوں،

اَنّ داتا کو توانائی فراہم کرنے والا بنانے کے ساتھ ساتھ، ہماری حکومت ان داتا کو کھاد فراہم کرنے والا بنانے پر بھی کام کر رہی ہے۔ کھاد کے عطیہ دہندہ بنیں، ہم مویشی پروری کرنے  والوں کو دودھ کے علاوہ گوبر سے آمدنی کے مواقع فراہم کر رہے ہیں۔ ہمارے ڈیری پلانٹس میں گائے کے گوبر سے بائیو سی این جی بنائی جا سکتی ہے اور اس عمل سے تیار ہونے والی نامیاتی کھاد کسانوں کو کم قیمت پر دستیاب ہونی چاہیے، اس پر کام ہو رہا ہے۔ اس سے قدرتی کاشتکاری کو مزید تقویت ملے گی۔ ویسے بھی گنگا کے کنارے قدرتی کھیتی کرنے کا رجحان اب بڑھتا جا رہا ہے۔ آج گوبردھن یوجنا کے تحت گائے کے گوبر یا دیگر کچرے سے بائیو گیس اور بائیو سی این جی بنائی جارہی ہے۔ اس سے صفائی بھی برقرار رہتی ہے اور فضلے کے لیے رقم حاصل کرنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

ساتھیوں،

کاشی میں بھی کچرے سے کنچن بنانے کے معاملے میں یہ ملک میں ایک مثال  بن کر ابھر رہی ہے۔ آج یہاں ایسے ہی ایک اور پلانٹ کا افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ پلانٹ شہر سے روزانہ پیدا ہونے والے 600 ٹن فضلے کو 200 ٹن چارکول میں تبدیل کر دے گا۔ ذرا سوچئے کہ اگر یہی کچرا کسی کھیت میں پھینک دیا جائے تو کچرے کا کتنا بڑا پہاڑ بن جاتا۔ کاشی میں سیوریج سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے کئی کام کیے گئے ہیں۔

ساتھیوں،

کسان اور مویشی پروری کرنے  والے ہمیشہ بی جے پی حکومت کی سب سے بڑی ترجیح رہے ہیں۔ ابھی دو دن پہلے ہی حکومت نے گنے کی کم از کم قیمت بڑھا کر 340 روپے فی کوئنٹل کر دی ہے۔ مویشی پروری،  کسانوں کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے  مویشیوں کے بیمے کے پروگرام کو بھی آسان بنایا گیا ہے۔ آپ پروانچل کا اُو سمے یاد کرا، گنا کے بھگتان کے لئے پہلے والا سرکار کتننا مِنّت کراوت رہے۔ لیکن اب یہ بی جے پی کی حکومت ہے کہ جس میں  نہ  کہ صرف و کسانوں کے واجبات ادا کیے جا رہے ہیں ، بلکہ فصلوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

خود کفیل ہندوستان کی بنیاد،  ایک ترقی یافتہ ہندوستان  پر ہی ہوگی۔  ہندوستان اپنی ضرورت کی ہر چیز باہر سے درآمد کرکے ترقی یافتہ نہیں بن سکتا۔ پہلے کی حکومتوں اور ہماری حکومت کی سوچ میں یہی سب سے بڑا فرق ہے۔ ہندوستان تب ہی خود کفیل ہوگا جب ملک کی ہر چھوٹی سے چھوٹی طاقت بیدار ہوگی۔ جب چھوٹے کسانوں، مویشی پالنے والوں، کاریگروں، دستکاروں، چھوٹے کاروباریوں کو مدد دی جائے گی۔ اس لئے میں لوکل کے لئے ووکل رہتا ہی ہوں اور جب میں مقامی مصنوعات کے لیے آواز اٹھاتا ہوں تو یہ ان بنکروں اوران چھوٹے کاروباریوں کی تشہیر ہے، جو لاکھوں روپے خرچ کرکے اخبارات اور ٹی وی میں اشتہار نہیں دے سکتے۔ مودی مقامی چیزیں تیار کرنے والے ہر شراکت دار تشہیر خود کرتے ہیں۔

آج مودی ملک کے ہر چھوٹے کسان اور ہر چھوٹے کاروباری کے سفیر ہیں۔ جب میں کھادی خریدنے، کھادی پہننے کی ترغیب دیتا ہوں، تو میں ہر گاؤں میں کھادی سے منسلک بہنوں، دلتوں، پسماندہ لوگوں، ان کی محنت کو بازار سے جوڑتا ہوں۔ جب میں ملک میں بنے کھلونے خریدنے کی بات کرتا ہوں تو اس سے ان خاندانوں کی زندگی بہتر ہوتی ہے جو نسلوں سے کھلونے بنا رہے ہیں۔ جب میں میک ان انڈیا کہتا ہوں، میں ان چھوٹی اور کاٹیج صنعتوں، ہماری ایم ایس ایم ایز کی صلاحیت کو نئی بلندیوں پر پہنچانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب میں کہتا ہوں کہ ہمارے ملک کو دیکھو،تب میں اپنے ملک میں سیاحت کو فروغ دیتا ہوں۔

ہم کاشی میں یہ تجربہ کر رہے ہیں کہ اس سے مقامی لوگوں کے روزگار اور خود روزگار میں کیسے اضافہ ہوتا ہے۔ جب سے وشوناتھ دھام کی دوبارہ تعمیر ہوئی ہے، 12 کروڑ سے زیادہ لوگ کاشی آ چکے ہیں،  جس کی وجہ سے دکانداروں، ڈھابے والے، ریہڑی پٹری والے، رکشہ چلانے والوں، پھول والے، ناؤ والے، سب کا روزگار بڑھ گیا ہے۔

آج ایک اور نئی شروعات ہوئی ہے۔ آج کاشی اور ایودھیا کے لیے چھوٹے  الیکٹرک جہازوں کی منصوبہ بندی شروع ہو گئی ہے۔ اس سے کاشی اور ایودھیا آنے والے عقیدت مندوں کا تجربہ اور بھی بہتر ہونے والا ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

کئی دہائیوں کی اقربا پروری، بدعنوانی اور خوشامد نے یوپی کو ترقی میں پیچھے رکھا ہے۔ پچھلی حکومتوں نے یوپی کو ایک بیمار ریاست بنا کر نوجوانوں سے ان کا مستقبل چھین لیا۔ لیکن آج جب یوپی بدل رہا ہے، جب یوپی کے نوجوان اپنا نیا مستقبل رقم کر رہے ہیں، تو یہ خاندانی سیاست کرنے  والے کیا کر رہے ہیں؟ میں ان کی باتیں سن کر حیران ہوں۔کانگریس کے شاہی کنبے کے یوراج کا کہنا ہے اورآپ کو حیرانی ہوگی کہ کانگریس کے یوراج کے کنبے نےکیا کہا۔وہ کاشی کی سرزمین پر آ کر کہہ رہے ہیں  کہ کاشی کے نوجوان، یو پی کے نوجوان نشیڑی ہیں۔ یہ کیسی زبان ہے؟

مودی کو گالی دیتے ہوئے تو انہوں نے دو دہائیاں گزاردیں۔لیکن اب ایشور کے روپ میں عوام پر اور  یوپی کے نوجوانوں پروہ اپنی جھنجھلاہٹ نکال رہے ہیں،  جو لوگ خود ہی اپنا ہوش و حواس کھو چکے ہیں وہ یوپی اور میرے کاشی کے بچوں کو نشے کا عادی کہہ رہے ہیں۔ ارے انتہائی خاندان پرست، کاشی اور یوپی کے نوجوان ترقی یافتہ یوپی بنانے میں مصروف ہیں، وہ اپنا خوشحال مستقبل لکھنے کے لیے اپنی محنت کی انتہا کر رہے ہیں۔ ہندوستانی اتحاد کے ذریعہ یوپی کے نوجوانوں کی توہین کو کوئی نہیں بھولے گا۔

ساتھیوں،

یہ انتہا پسند خاندان پرستوں کی حقیقت ہے۔ خاندان پرست ہمیشہ نوجوانوں کی طاقت سے ڈرتے ہیں، نوجوان کے ہنر  سے ڈرتے ہیں۔ انہیں  لگتا ہے کہ اگر ایک عام نوجوان کو موقع ملا تو وہ ہر جگہ چیلنج کرے گا۔ وہ صرف انہیں  لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو دن رات ان کی  خوشامد کرتے رہتے ہیں۔ آج کل ان کے غصے اور مایوسی کی ایک اور وجہ ہے۔ انہیں کاشی اور ایودھیا کی نئی شکل بالکل پسند نہیں ہے۔ آپ دیکھیں کہ وہ اپنی تقریروں میں رام مندر کے بارے میں کیسی باتیں کرتے ہیں۔ وہ ہر طرح کی چیزوں پر حملہ کرتے ہیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ کانگریس کو بھگوان شری رام سے اتنی نفرت ہے۔

بھائیوں اور بہنوں،

وہ اپنے خاندان اور اپنے ووٹ بینک سے باہر نہیں دیکھ سکتے اور نہ سوچ سکتے ہیں۔ اسی لیے وہ ہر الیکشن کے دوران اکٹھے ہوتے ہیں اور جب نتیجہ آتا ہے تو ‘‘نِل بٹا سنّاٹا’ پھر الگ ہو جاتے ہیں، ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں۔ لیکن یہ لوگ نہیں جانتے - یہ بنارس ہے، یہاں ہر کوئی گرو ہے۔ انڈیا اتحاد کی چالبازی یہاں کام نہیں آئی۔ بنارس نہیں.... میں پورے یوپی کے بارے میں جانتا ہوں۔ سامان وہی ہے، پیکنگ نئی ہے۔ اس بار انہیں ضمانت بچانے کے لیے کافی جدوجہد کرنی پڑے گی۔

دوستوں،

آج پورے ملک کا ایک ہی مزاج ہے - اس بار این ڈی اے 400 کے پار ۔ مودی کی گارنٹی ہے- ہر استفادہ کنندہ کو 100فیصد فائدہ۔ مودی فائدہ اٹھانے والوں کی سوفیصد گارنٹی دے رہا ہے، لہذا، یوپی نے بھی تمام سیٹیں مودی کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس بار یوپی میں 100 فیصد سیٹیں این ڈی اے کے نام ہونے والی ہیں۔

بھائیو ں اور بہنوں،

مودی حکومت کی تیسری مدت کار پوری دنیا میں ہندوستان کے اقتدار کا سب سے شاندار دور ہونے والا ہے۔ اس میں ہندوستان کا معاشی، سماجی، اسٹریٹجک، ثقافتی ہر شعبہ نئی بلندیوں پر ہوگا۔ گزشتہ 10 برسوں میں، ہندوستان 11ویں نمبر سے بڑھ کر 5ویں اقتصادی طاقت بن گیا ہے۔ آنے والے 5 برسوں میں ہندوستان دنیا کی تیسری بڑی اقتصادی سپر پاور بن جائے گا۔

پچھلے 10 برسوں میں آپ نے ملک میں دیکھا ہے کہ سب کچھ ڈیجیٹل ہو گیا ہے۔ آج آپ چار لین، چھ لین، آٹھ لین کی چوڑی سڑکیں دیکھ رہے ہیں، ریلوے اسٹیشنوں کو جدید بنایا جا رہا ہے۔ وندے بھارت، امرت بھارت، نمو بھارت جیسی تیز رفتار اور جدید ٹرینیں چلتی نظر آ رہی ہیں، اور اس نئے ہندوستان میں آئندہ  5 برسوں میں اس طرح کے ترقیاتی کاموں میں مزید تیزی آنے والی ہے اور ملک سنورنے والا ہے۔

مودی نے توگارنٹی دی ہے کہ وہ مشرقی ہندوستان کو جو ترقی سے محروم تھا، ترقی یافتہ ہندوستان کا گروتھ انجن بنائیں گے۔ وارانسی سے اورنگ آباد تک چھ لین ہائی وے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے۔ اگر یہ آنے والے 5 برسوں میں مکمل ہوجاتا ہے، تو یوپی اور بہار کو بہت فائدہ ہوگا۔ وارانسی-رانچی-کولکتہ ایکسپریس وے بہار، جھارکھنڈ اور مغربی بنگال کے درمیان فاصلے کو مزید کم کرنے جا رہا ہے۔ مستقبل میں بنارس سے کولکتہ کا سفر کا وقت تقریباً آدھا رہ جائے گا۔

دوستوں،

آنے والے 5 برسوں میں یوپی اور کاشی کی ترقی میں نئی ​​جہتیں شامل ہوں گی۔ پھر کاشی روپ وے کی طرح جدید ٹرانسپورٹ میں سفر کرے گا۔ ہوائی اڈے کی گنجائش کئی گنا زیادہ ہو گی۔ کاشی نہ صرف یوپی بلکہ ملک میں کھیلوں کا ایک شہر بن جائے گا۔ آنے والے 5 برسوں  میں میری کاشی میڈ ان انڈیا، خود انحصار ہندوستان کی مہم کو مزید تقویت دے گی۔ آنے والے 5 برسوں میں سرمایہ کاری، نوکریوں، ہنر اور روزگار کے مرکز کے طور پر کاشی کے کردار کو مزید مضبوط کیا جائے گا۔

کاشی کا نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ٹیکنالوجی کیمپس آنے والے 5 برسوں میں تیار ہو جائے گا۔ اس سے یوپی کے نوجوانوں کو ہنر اور روزگار کے بہت سے مواقع ملیں گے۔ اس کے ساتھ، ہمارے بنکر ساتھیوں اور ہمارے کاریگروں کو نئی ٹیکنالوجی اور نئی مہارتیں فراہم کرنا آسان ہو جائے گا۔

ساتھیوں،

پچھلی دہائی میں ہم نے کاشی کو صحت اور تعلیم کے مرکز کے طور پر ایک نئی شناخت دی ہے۔ اب اس میں ایک نیا میڈیکل کالج بھی شامل ہونے جا رہا ہے۔ بی ایچ یو میں نیشنل سینٹر آف ایجنگ کے ساتھ ساتھ 35 کروڑ روپے کی کئی تشخیصی مشینوں اور آلات کا بھی آج افتتاح کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سپر اسپیشلٹی اسپتال میں آنے والے مریضوں کی جگہ پر ہی تشخیص کرنا آسان ہوجائے گا۔ کاشی میں، اسپتالوں  سے پیدا ہونے والے بائیو کچرے کو ٹھکانے لگانے کی ایک نئی سہولت بھی جلد ہی تیار ہونے والی ہے۔

ساتھیوں،

کاشی، یوپی اور ملک کی تیز رفتار ترقی کو اب رکنے نہیں دینا ہے۔ کاشی کے ہر باشندے کو اب متحد ہونا ہوگا۔ اگر ملک اور دنیا کو مودی کی گارنٹی پر اتنا بھروسہ ہے تو ایسا آپ کی قربت اور بابا کے آشیرواد کی وجہ سے ہے۔ ایک بار پھر آپ سب کو اپنے نئے پروجیکٹس کے لیے مبارکباد۔ میرے ساتھ بولیں۔

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

بھارت ماتا کی جے!

ہر ہر مہا دیو!

***

ش ح۔  ش م ۔ ک ا



(Release ID: 2008496) Visitor Counter : 64