وزیراعظم کا دفتر

راجیہ سبھا میں صدرجمہوریہ  کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر وزیر اعظم کے جواب کا متن

Posted On: 07 FEB 2024 9:25PM by PIB Delhi

محترم چیئرمین،

میں یہاں معزز صدرجمہوریہ کے خطاب کی بحث میں حصہ لینے حاضرہوا ہوں اور میں اپنی طرف سے عزت مآب صدر کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کی تقریر کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

محترم چیئرمین،

یہ 75 واں یوم جمہوریہ اپنے آپ میں ایک اہم سنگ میل ہے اور اس وقت آئین کے سفر کے اس اہم مرحلے پر صدر جمہوریہ کی تقریر بھی ایک تاریخی اہمیت رکھتی ہے۔ اپنی تقریر میں انہوں نے ہندوستان کے خود اعتمادی کے بارے میں بات کی اور ہندوستان کے روشن مستقبل پر اعتماد کا اظہار کیااور ہندوستان کے کروڑوں لوگوں کی صلاحیتوں کا اظہار بہت کم الفاظ میں کیا لیکن بہت شاندار انداز میں کیا۔ میں اس متاثر کن خطاب اور قوم کو رہنمائی کرنے اور وکست بھارت کے عزم کو مضبوط کرنے کے لیے صدر جمہوریہ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

بحث کے دوران بہت سے معزز ممبران نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے اپنے انداز میں بحث کو زیادہ ثمر آور بنانے  کی کوشش کی۔ میں ان تمام معزز ساتھیوں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس بحث کو تقویت بخشنے کی کوشش کی ہے۔ کچھ ساتھیوں کے لیے تنقید کرنا اور تلخ کلامی کرنا ان کی مجبوری تھی، میں ان سے بھی تعزیت کا اظہار کرتا ہوں۔

میں اس دن یہ نہیں کہہ سکا، لیکن میں کھڑگے جی کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میں کھڑ گے جی کو بہت غور سے سن رہا تھا۔ کبھی کبھی ہم ان سے لوک سبھا میں ملتے ہیں، لیکن ان دنوں وہ دوسری ڈیوٹی پر ہیں، اس لیے ہمیں تفریح ​​کم ملتی ہے۔ لیکن اس دن آپ نے تفریح ​​کی وہ کمی پوری کر دی جو لوک سبھا میں ہم سے محروم تھی۔ اور مجھے خوشی ہوئی کہ محترم کھرگے جی کافی دیر تک، بہت آرام سےاور سکون سے بول رہے تھے، انہیں بولنے کے لئے کافی وقت دیا گیا، تو میں سوچ رہا تھا کہ ہمیں آزادی کیسے ملی، اتنا بولنے کی آزادی کیسے ملی؟ میں اس بارے میں سوچ رہا تھا، لیکن بعد میں میرے ذہن میں آیا کہ دو سپیشل کمانڈر اس دن وہاں نہیں تھے۔ اسی لیے محترم کھڑگے جی نے آزادی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ۔ مجھے لگتا ہے، اس دن کھڑگے جی نے سنیما کا کوئی گانا ضرور سنا ہوگا، انہیں ایسا موقع پھر کہاں ملے گا۔ اب کھڑگےجی بھی ایمپائر نہیں ہیں، کمانڈو نہیں ہیں، اس لیے چوکے اور چھکے مارنے کا مزہ لے رہے تھے۔ انہوں نے این ڈی اے کو 400 سیٹوں کے لیے آشیرواد دیا تھا۔کھڑگے جی کا آشیرواد سر اور آنکھوں پر ۔ اب اگر آپ آشیرواد واپس لینا چاہتے ہو تو واپس لے سکتے ہیں کیونکہ اپنے لوگ آچکے ہیں۔

محترم چیئرمین،

مجھے واضح طور پر یاد ہے گزشتہ سال کا وہ واقعہ جب ہم اس ایوان میں بیٹھتے تھے اور ملک کے وزیراعظم کی آواز کا گلا دبانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی تھی۔ ہم آپ کی ہر بات بڑے تحمل اور عاجزی سے سنتے رہے۔ لیکن آپ  یہاں ہماری بات  سننے کے لیے تیار نہیں ہیں  لیکن آپ میری آواز کو دبا نہیں سکتے۔ ملک کے عوام نے اس آواز کو طاقت دی ہے۔  یہ آواز ملک کے عوام کے آشیرواد سے نکل رہی ہے ۔ اس بار میں بھی پوری تیاری کے ساتھ آیا ہوں۔ میں نے اس وقت سوچا تھا کہ شاید آپ  جیسا شخص اگر ایوان میں آ یا ہے تو ایوان کی تعظیم کرے گا، لیکن آپ  لوگوں نے ڈیڑھ دو گھنٹے تک مجھ پر کیا، کیا؟ لیکن اس کے باوجود اپنے برتاؤ میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔

محترم چیئرمین،

میں نے بھی  ایک دعا کی ہے۔ آپ بھی  دعا کر سکتے ہیں، میں دعا کرتا رہتا ہوں۔ آپ کو مغربی بنگال سے جو چیلنج ملا ہے وہ یہ ہے کہ کانگریس 40 کو پار نہیں کر پائے گی۔ میری دعا ہے کہ آپ 40 کو بچا سکیں۔

محترم چیئرمین،

ہمیں بہت کچھ کہا گیا اور ہم نے سنا۔ جمہوریت میں آپ کو کہنے کا حق ہے اور سننا ہماری ذمہ داری ہے۔ اور آج جو کچھ بھی کہا گیا ہے،اس کو  مجھے ملک کے سامنے رکھنا چاہیے اوراس لیے کوشش کروں گا۔

محترم چیئرمین،

میرا یقین پختہ ہے کہ پارٹی سوچ سے  بھی آؤٹ ڈیٹیڈ  ہو گئی  ہے اور جب سوچ آؤٹ ڈیٹیڈ  ہو گئی تو انہوں نے اپنا کام بھی آؤٹ سورس کر لیا۔ اتنی دہائیوں سے ملک پر حکمرانی کرنے والی پارٹی کا ایسا زوال، ایسی تنزلی دیکھ کر ہم خوش نہیں ہیں۔

محترم چیئرمین،

یہ درست ہے کہ آج بہت سی بڑی باتیں کہی جا رہی ہیں، ہم سننے کی طاقت بھی کھو چکے ہیں، لیکن میں آپ سے یہ ضرور کہوں گا کہ معاملہ ملک کے سامنے رکھیں۔ جس کانگریس نے اپنے اقتدار کے لالچ میں جمہوریت کا کھلے عام گلا گھونٹ دیا، جس نے جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کو راتوں رات درجنوں بار تحلیل اور برطرف کیا، جس نے ملک کے آئین اور جمہوریت کے وقار کو طاق پر رکھ کرجیل کی سلاخوں کے پیچھےبند کردیا تھا۔ جس نے اخبارات پر تالے لگانے کی کوشش بھی کی تھی، اب ملک کو توڑنے کے لیے نیریٹی گڑھنے کا نیا شوق پیدا ہوا ہے۔ اب شمال جنوب کو توڑنے کے بیانات دئیے جارہے ہیں؟ اور یہ کانگریس ہمیں جمہوریت اور وفاقیت پر لیکچر دے رہی ہے؟

محترم چیئرمین،

وہ کانگریس جس نے ذات پات اور زبان کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، وہ کانگریس جس نے اپنے مفاد میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کو پنپنے دیا، وہ کانگریس جس نے شمال مشرق کو تشدد، علیحدگی اور پسماندگی کی طرف دھکیل دیا۔ کانگریس جس کے دور حکومت میں نکسل ازم نے ملک کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج پیدا کیا، وہ کانگریس جس نے ملک کی ایک بہت بڑی زمین دشمنوں کے حوالے کر دی، وہ کانگریس جس نے ملک کی فوجوں کی جدید کاری کو روکا، وہ آج ہمیں قومی سلامتی اور داخلی سلامتی پر تقریریں کر رہی ہے۔ ? کانگریس جو آزادی کے بعد سے ہی اس الجھن میں رہی کہ صنعت ضروری ہے یا کاشت کاری ضروری ہے۔ کانگریس جو یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ نیشنلائزیشن کی جائے یا پرائیویٹائزیشن۔ کانگریس جو 10 سال میں معاشی نظام کو 12 نمبر سے 11 نمبر پر لانے میں کامیاب رہی،جبکہ  12ویں سے 11ویں نمبر پر آنے کے لیے زیادہ محنت نہیں تھی، جیسے جیسے آپ ترقی کرتے ہیں، محنت بڑھتی جاتی ہے، ہم 10 سال میں 5ویں نمبر پر آگئے، اور یہ کانگریس ہمارے یہاں معاشی پالیسیوں پر لمبی لمبی تقریریں کر رہی ہے۔

محترم چیئرمین،

جس کانگریس نے او بی سی کو مکمل ریزرویشن نہیں دیا، جس نے عام زمرے کے غریبوں کو کبھی ریزرویشن نہیں دیا، جس نے بابا صاحب کو بھارت رتن دینے کے لائق نہیں سمجھا، وہ بابا صاحب کے بجائے اپنے ہی خاندان کو بھارت رتن دیتی رہی۔ جس کانگریس نے ملک کی سڑکوں، چوکوں اور چوراہوں پر اپنے ہی خاندان کے نام پر پارک بنائے ہیں، وہ ہمیں  کیا پیغام دے رہی ہے؟ وہ ہمیں سماجی انصاف کا سبق سکھا رہے ہیں؟

محترم چیئرمین،

کانگریس جس کے پاس اپنے لیڈراور پالیسی کی کوئی گارنٹی نہیں ہے، مودی کی گارنٹی پر سوال اٹھا رہی ہے۔

محترم چیئرمین،

ملک اور دنیا،ان کے 10 سالہ دور کو اس طرح کیوں دیکھتی تھی، ملک کیوں ناراض ہوا، محترم چیئرمین صاحب، سب کچھ ہماری باتوں سے نہیں ہوا، کسی کے اپنے اعمال کا ثمرہ ہے۔ اب نظر آ رہے ہیں، کسی اور جنم میں موجود نہیں، اسی جنم میں ہیں۔

محترم چیئرمین،

میں ایوان کے سامنے ایک قسم کا بیان رکھنا چاہتا ہوں۔ میں پہلا اقتباس پڑھ رہا ہوں – اراکین جانتے ہیں، یہ ایک اقتباس ہے، اراکین جانتے ہیں کہ ہماری ترقی کی رفتار کم ہوئی ہے اور مالیاتی خسارہ بڑھ گیا ہے، مہنگائی کی شرح پچھلے 2 سال سے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہماری توقعات سے بڑھ گیا ہے۔ یہ کسی بی جے پی لیڈر کا اقتباس نہیں ہے۔

محترم چیئرمین،

اس وقت کے وزیر اعظم جناب منموہن سنگھ، جنہوں نے یو پی اے حکومت کے 10 سال تک قابل احترام پی ایم کے طور پر خدمات انجام دیں، یہ بات اپنے دور حکومت میں کہی تھی۔

محترم چیئرمین،

اب میں دوسرا اقتباس پڑھ رہاہوں- ملک میں بڑے پیمانے پر ناراضگی ہے، عوامی عہدوں کے غلط استعمال پر شدید ناراضگی ہے۔ اداروں کا کیسے غلط استعمال ہوتا تھایہ اس ملک کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ جی کہہ رہے تھے۔ اس وقت کرپشن کے حوالے سے پورا ملک سڑکوں پر تھا۔ گلی گلی میں تحریکیں چل رہی تھیں۔ اب میں تیسرا اقتباس پڑھوں گا- ایک ترمیم کی کچھ سطریں ہیں- ٹیکس وصولی میں کرپشن ہے، اس کے لیے جی ایس ٹی لایا جائے، راشن سکیم میں لیکیج ہے، جس کی وجہ سے ملک کے غریب بہت زیادہ تکالیف کا سامنا کررہے  ہیں، اس کو روکنے کے لیے حل تلاش کرنا ہوں گے۔ سرکاری ٹھیکے دینے کے طریقے پر شک ہے۔ یہ بات اس وقت کے وزیر اعظم محترم منموہن سنگھ نے بھی کہی تھی اور اس سے پہلے ایک اور وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ایک روپیہ دہلی سے جاتا ہے اور وہاں 15 پیسے پہنچتے ہیں۔ بہتری، بیماری کا علم  پتہ تھا، بہتری کی کوئی تیاری نہیں تھی، اور آج بڑی بڑی باتیں کہی جارہی ہیں۔ کانگریس کی 10 سالہ تاریخ دیکھ لیں۔ہندوستان دنیا میں پانچ  سب سے نازک معیشت والے ممالکت میں شمار ہوتا تھا۔ پالیسی مفلوج ہوجانا ان کی پہچان بن چکی تھی اور ہمارے 10 سال کے دوراقتدار میں سرفہرست پانچویں نمبر کی معیشت میں ملک کا شمار ہوگیا ہے۔ یہ 10 سال ہمارے بڑے اور فیصلہ کن فیصلوں کے لیے یاد رکھے جائیں گے۔

محترم چیئرمین،

ہم نے بہت محنت اور سوچ سمجھ کر ملک کو اس مشکل دور سے نکالا ہے۔ یہ ملک ایسی ہی آشیرواد نہیں دے رہا ہے۔

محترم چیئرمین،

ایوان میں  انگریزوں کو یاد کیا گیا۔ بادشاہوں اور مہاراجوں کا اس وقت انگریزوں سے گہرا تعلق تھا ۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ انگریزوں سے کون متاثر تھا ۔ میں یہ بھی نہیں پوچھوں گا کہ کانگریس پارٹی کو کس نے جنم دیا۔ آزادی کے بعد بھی ملک میں غلامی کی ذہنیت کو کس نے پروان چڑھایا؟ اگر آپ انگریزوں سے متاثر نہیں تھے تو آپ نے انگریزوں کے بنائے گئے پینل کوڈ کو کیوں نہیں بدلا۔

محترم چیئرمین،

گر آپ انگریزوں سے متاثر نہیں تھے تو انگریزوں کے دور کے سینکڑوں قوانین کیوں چلتے رہے؟ اگر آپ انگریزوں سے متاثر نہیں تھے تو اتنی دہائیوں کے بعد بھی لال بتی کا کلچر کیوں جاری رہا ؟  اگر آپ انگریزوں سے متاثر نہیں تھے تو ہندوستان کا بجٹ شام 5 بجے آتا تھا کیونکہ برطانوی پارلیمنٹ کا صبح کا وقت تھا۔ آپ نے برطانوی پارلیمنٹ کے مطابق شام 5 بجے بجٹ پیش کرنے کی روایت کیوں جاری رکھی؟ انگریزوں سے کون متاثر تھا؟ اگر آپ انگریزوں سے متاثر نہیں تھے تو پھر بھی ہماری فوجوں کے نشانات پر غلامی کے نشان کیوں نظر آتے تھے؟ ہم ایک کے بعد ایک کو ہٹا رہے ہیں۔ اگر آپ انگریزوں سے متاثر نہیں تھے تو پھر راج پتھ کو کرتویہ پتھ کرنے کے لئے مودی کا انتظار کیوں کرنا پڑا؟

محترم چیئرمین،

اگر آپ انگریزوں سے متاثر نہیں تھے تو پھر انڈمان نکوبار جزیرے پر انگریزوں کی حکومت کے آثار کیوں لٹک رہے تھے؟

محترم چیئرمین،

اگر آپ انگریزوں سے متاثر نہ تھے تو اس ملک کے فوجی جوان ملک کے لیے مرتے رہے، لیکن آپ فوجیوں کے اعزاز میں ایک وار میموریل بھی نہیں بنا سکے، کیوں؟ اگر آپ انگریزوں سے نہیں تھے تو آپ نے ہندوستانی زبانوں کو احساس کمتری کی نظر سے کیوں دیکھا؟ مقامی زبان میں پڑھائی کے تعلق سےآپ لوگوں کی بے رخی کیوں تھی؟

محترم چیئرمین،

اگر آپ انگریزوں سے متاثر نہیں تھے تو پھر آپ کو ہندوستان کو جمہوریت کی ماں کہنے سے کس نے روکا؟ آپ کو یہ احساس کیوں نہیں ہوا ۔

محترم چیئرمین،

میں ایک اور مثال دینا چاہتا ہوں۔ کانگریس نے نیریٹو پھیلائی، اور اس بیانیے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوستانی ثقافت اور اقدار پر یقین رکھنے والے لوگوں کو قدامت پسند سمجھا جانے لگا۔ اور یوں صورتحال ہمارے ماضی کے ساتھ ناانصافی پر آ گئی ہے۔ اگر آپ اپنی رسومات  اور اچھی روایات کو گالی دیتے ہیں تو آپ ترقی پسند ہیں، ملک میں اس قسم کا بیانیہ تیار ہونے لگا  اور دنیا اچھی طرح جانتی ہے کہ اس کی قیادت کہاں ہوتی تھی۔ یہ اسٹیٹس بنادیا گیا تھا کہ دوسرے ممالک سے امپورٹ کرنےپر فخر کیا جائے اور اگر انڈیا سے کوئی چیز ہے تو وہ دوسرے درجے کی ہے۔ یہ ا سٹیٹس سمبل باہر سے آیا،میڈ ان فارن اسٹیٹس بنا دیا تھا۔ آج بھی یہ لوگ ‘ووکل فار لوکل’ کہنے سے گریز کر رہے ہیں، کام میرے ملک کے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہوتا ہے۔ آج ان کے منہ سے خود انحصار ہندوستان کی بات نہیں نکلتی۔ آج جب کوئی میک ان انڈیا کہتا ہے تو اس کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگتے ہیں۔

محترم چیئرمین،

ملک یہ سب دیکھ چکا ہے اور اب سمجھ چکا ہے اور اس کا خمیازہ آپ بھی بھگت رہے ہیں۔

محترم چیئرمین،

صدرجمہوریہ نے اپنے خطاب میں ہم سب کو صرف چار بڑی ذاتوں کے بارے میں تفصیل سے مخاطب کیا تھا۔ نوجوان، خواتین، غریب اور ہمارے خوراک فراہم کرنے والےکسان ۔ ہم جانتے ہیں کہ ان کے مسائل اور خواب  زیادہ تر ایک جیسے ہوتے ہیں، اور اگر ان کا حل تلاش کیا جائے تو 19-20 فیصد کا معمولی فرق ہو گا، لیکن ان چاروں طبقوں کے حل بھی ایک ہیں۔ اس لیے انھوں نے قوم کی بہت ہی مناسب رہنمائی کی ہے کہ ان چار ستونوں کو مضبوط کریں، ملک ایک وکست بھارت کی طرف تیز رفتاری سے آگے بڑھے گا۔

محترم چیئرمین،

اگر ہم 21ویں صدی میں ہیں اور ہم اس صدی میں 2047 تک وکست بھارت  کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں تو 20ویں صدی کی سوچ کام نہیں کر سکتی۔ 20ویں صدی کا خود غرض ایجنڈا، میرا اور میرا کھیل، ملک کو 21ویں صدی میں ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ہندوستان نہیں بنا سکتا۔ کانگریس کا ان دنوں بہت چرچا ہے، پتہ نہیں کیوں ایک بار پھر ذات کی ضرورت  پڑ گئی ہے۔ لیکن اگر وہ حاجت مند ہیں تو پہلے اپنے دل میں جھانکیں، انہیں معلوم ہو جائے گا کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔ دلت، پسماندہ اور قبائلی کے لئے کانگریس پیدائش سے ہی ان کی سب سے بڑی مخالف رہی ہے، اور میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر بابا صاحب نہ ہوتے تو شاید ایس سی/ایس ٹی کو ریزرویشن ملتا یا نہیں، یہ سوال میرے ذہن میں اٹھتا ہے۔

محترم چیئرمین،

اور جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس کے پیچھے میرے پاس ثبوت ہیں۔ ان کی سوچ آج کی نہیں، اس وقت سے ایسی ہے، میرے پاس ثبوت ہیں۔ اور میں یہاں ثبوت کے سوا کچھ کہنے نہیں آیا۔  ایک بار، اور احترام کے ساتھ، میں ان دنوں نہرو جی کو زیادہ یاد کر رہا ہوں،ایک دفعہ نہرو جی نے خط لکھا تھا اور یہ خط وزرائے اعلیٰ کو لکھا گیا تھا، میں اس کا ترجمہ پڑھ رہا ہوں، انہوں نے لکھا تھا، یہ وہ خط ہے جو ملک کے وزیر اعظم پنڈت نہرو جی نے اس وقت کے ملک کے وزرائے اعلیٰ کو لکھا تھا۔یہ آن  ریکارڈ ہے–میں کسی بھی ریزرویشن کو پسند نہیں کرتا اور خاص طور پر نوکریوں میں ریزرویشن قطعی نہیں، میں ایسے کسی بھی قدم کے خلاف ہوں جس سے نااہلی کو فروغ ملےاوردوسرے درجے تک پہنچانے میں مجبور کرے۔ یہ پنڈت نہرو کی طرف سے وزرائے اعلیٰ کو لکھا گیا خط ہے۔ نہرو جی کہتے تھے، اگر ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کو نوکریوں میں ریزرویشن ملے گا تو سرکاری کام کا معیار گر جائے گا اور جو اعدادوشمار آج گنا رہے ہیں، اس کی اصل یہیں ہے۔ کیونکہ اس وقت انہوں  نے روک دیا تھا کہ بھرتیاں بالکل نہ کریں۔ اگر وہ اس وقت حکومت میں بھرتی ہوتے اور پروموشن کے ذریعے ترقی کرتے تو آج یہاں تک پہنچ چکے ہوتے۔

جناب چیئرمین،

میں یہ اقتباس پڑھ رہا ہوں، آپ تصدیق کر سکتے ہیں۔ میں پنڈت نہرو کا اقتباس پڑھ رہا ہوں۔

محترم چیئرمین،

میں جموں وکشمیر کی ایک مثال ضرور دینا چاہتا ہوں ۔ کانگریس نے جموں و کشمیر کے ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کو سات دہائیوں تک ان کے حقوق سے محروم رکھا۔ آرٹیکل 370کو منسوخ کیا گیا، تب اتنی دہائیوں کے بعد ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کو وہ حقوق مل گئے جن سے ملک کے لوگ برسوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے، لیکن انہیں روک دیا گیاتھا۔ انہیں جموں و کشمیر میں جنگلات کے حقوق کا قانون نہیں ملا۔ جموں و کشمیر میں مظالم کی روک تھام کا کوئی قانون نہیں تھا، ہم نے 370 کو ہٹا کر یہ حقوق دیئے۔ ہماری ایس سی برادری میں بھی اگر کوئی نسل پیچھے تھی تو ہماری والمیکی برادری تھی، لیکن سات دہائیوں کے بعد بھی ہمارے والمیکی خاندان جموں و کشمیر میں رہے، لوگوں کی خدمت کرتے رہے، لیکن انہیں ڈومیسائل کا حق نہیں دیا گیا۔ میں ملک کو یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ مقامی خود حکومتوں میں او بی سی کے ریزرویشن کا بل بھی کل 6 فروری کو لوک سبھا میں پاس ہو چکا ہے۔

محترم چیئرمین،

کانگریس اور اس کی حلیف جماعتیں ایس سی، ایس ٹی، او بی سی کی بڑی شرکت کی وجہ سے ہمیشہ ناخوش رہی ہیں۔ انہوں نے بابا صاحب کی سیاست اور بابا صاحب کے نظریات کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بیان دستیاب ہے، الیکشن میں جو کچھ کہا گیا وہ بھی دستیاب ہے۔ انہیں بھارت رتن دینے کی بھی کوئی تیاری نہیں تھی۔ وہ بھی بی جے پی کی حمایت سے اور جب حکومت بنی تو بابا صاحب کو بھارت رتن ملا۔ یہی نہیں، انتہائی پسماندہ ذات، او بی سی سے تعلق رکھنے والے کانگریس پارٹی کے صدر سیتارام کیسری کو اٹھا کر فٹ پاتھ پر پھینک دیا گیا۔ وہ ویڈیو دستیاب ہے، ملک نے اسے دیکھا۔ سیتارام کیسری کے ساتھ کیا ہوا؟

اور محترم چیئرمین صاحب

ان کا ایک رہنما امریکہ میں بیٹھا ہے جو کانگریس اس خاندان کے بہت قریب ہے۔ انہوں  نے آئین کے معمار بابا صاحب امبیڈکر کے تعاون کو کم کرنے کی پوری کوشش کی۔

اور محترم چیئرمین صاحب

ملک میں پہلی بار این ڈی اے نے ایک قبائلی بیٹی کو صدر جمہوریہ بنانے کی تجویز پیش کی اور انہیں اپنا امیدوار بنایا۔ اگر آپ کی ہم سے نظریاتی مخالفت ہے تو وہ ایک الگ بات ہے۔ اگر ہماری نظریاتی مخالفت ہوتی اور آپ امیدوار کھڑا کرتے تو میں سمجھ جاتا۔ لیکن نظریاتی مخالفت کیوں نہیں ہوئی، کیوں کہ آپ نے ہماری پارٹی سے گئے ہوئے شخص کو امیدوار بنایا۔ اس لیے کوئی نظریاتی مخالفت نہیں تھی، آپ کی مخالفت ایک قبائلی بیٹی کے لیے تھی۔ اور یہی وجہ ہے کہ جب آپ اور سنگما جی الیکشن لڑ رہے تھے، وہ بھی شمال مشرق سے قبائلی تھے، ان کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا گیا۔ اور آج تک صدر کی توہین کے واقعات کم نہیں ہوئے ہیں۔ اس ملک میں پہلی بار ایسا ہوا ہے۔ ان کے ذمہ داروں کے منہ سے ایسی باتیں نکلی ہیں کہ سر شرم سے جھک جائے ۔ صدر کے بارے میں ایسی زبان بولی گئی ہےجو غیرمناسب ہے۔ ہماری حکومت میں دلت اور اب قبائلی طبقے سے تعلق رکھنے والے شخص کو ترجیج  دی  جاتی ہے۔

محترم چیئرمین،

جب میں اپنی حکومت کی کارکردگی کی بات کرتا ہوں۔ میں این ڈی اے  کی غریبوں کی فلاح و بہبود کی پالیسیوں کی بات کرتا ہوں۔ اگر آپ اس معاشرے کو قریب سے جانتے ہیں تو آخر کون سا معاشرہ اس کا استفادہ کنندہ ہے، کون لوگ ہیں؟ ان کچی بستیوں میں کس کو رہنے کے لئے زندگی گزارنی پڑرہی ہے۔ یہ لوگ کس معاشرے سے ہیں؟ کن کو مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے، کن کو نظام کی سہولیات سے محروم ہونا پڑتا ہےیہ ایس سی، ایس ٹی، او بی سی اور قبائلی برادریوں کے لیے ہے۔ کچی آبادیوں میں رہنے والے لوگوں کو پکے ّ  گھر مل گئے ہیں۔ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہر بار بیماریوں سے متاثر ہونا پڑتا تھا، ان کو سووچھ بھارت مہم کو فائدہ دینے کا کام  ہماری اسکیموں کے تحت ملا ہےتاکہ انہیں اچھی زندگی گزارنے کا موقع مل سکے۔ ان خاندانوں کی ہماری مائیں بہنیں کھانا پکانے کے دوران دھوئیں سے صحت کے مسائل کا سامنا کر رہی تھیں، ہم نے انہیں اجولا گیس دی، ان کا تعلق ان  ہی خاندانوں سے ہے۔ مفت راشن ہویا مفت علاج، اس کااستفادہ کنندگان یہی کنبہ ہے۔ معاشرے کے اس طبقے کے میرے کنبہ کے افراد کے لیے ہماری تمام اسکیمیں کام کر رہی ہیں۔

محترم چیئرمین،

یہاں پر کچھ ایسا نیریٹو پیش کیا گیا  جوحقیقت سے پرے ہے۔حقائق کو جھٹلانے سے کسی کا فائدہ نہیں ہوگا۔آپ ایسا کرکے اپنی معتبریت بھی کھورہے ہیں اوراپنی ساکھ کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔

محترم چیئرمین،

یہاں تعلیم کے گمراہ کن اعدادوشمار بھی پیش کئے گئے۔ کیا گمراہ کرنے کی کوشش ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں ایس سی اور ایس ٹی طلباء کو دی جانے والی اسکالرشپ میں اضافہ ہوا ہے۔ ان 10 سالوں میں اسکولوں اور اعلیٰ تعلیم میں داخلوں کی تعداد میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور ڈراپ آؤٹ تیزی سے کم ہوا ہے۔

محترم چیئرمین،

10 سال پہلے 120 ایکلویہ ماڈل اسکول تھے۔ آج 400 ایکلویہ ماڈل اسکول ہیں۔ آپ  ان چیزوں کا انکار  کیوں کرتے ہیں۔

جناب چیئرمین،

پہلے ایک سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹی تھی، آج 2 سنٹرل ٹرائبل یونیورسٹیاں ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ عرصہ دراز سے دلت، پسماندہ اور قبائلی بیٹے اور بیٹیاں کالجوں کے دروازے تک نہیں دیکھ سکتے تھے۔ مجھے یاد ہے، جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا تو میں نے ایک چونکا دینے والا تجزیہ دیکھا۔ گجرات میں عمرگاؤں سے امباجی تک کی پوری پٹی قبائلی اکثریتی علاقہ ہے۔ ہمارے دگ وجے سنگھ جی کے داماد بھی اسی علاقے کے  ہیں۔ اس پورے علاقے میں سائنس اسٹریم کا ایک بھی اسکول نہیں تھا، جب میں وہاں گیا تو  میں نے  اس علاقے میں قبائلی بچوں کے لیے سائنس اسٹریم کا اسکول کھلوایا۔ ایسے حالات میں وہاں انجینئر اور ڈاکٹر کہاں سے تیار ہوں گے۔

محترم چیئرمین،

ایوان کو فخر ہو گا، آپ اس ایوان میں بیٹھے ہیں جہاں حکومت آپ سے بات کر رہی ہے جس نے ملک میں بڑی تبدیلی لائی ہے۔ آپ اس معاشرے کا اعتماد بڑھائیں اور ان کے حوصلے بلند کریں۔ وہ  ملک کے قومی دھارے میں تیزی سے آگے بڑھیں، اس کے لئے اجتماعی کوششیں کریں۔ قبائلی اور ہمارے ایس سی، ایس ٹی طلباء کے اندراج کے کچھ اعداد و شمار رکھنا چاہتا ہوں۔ اعلیٰ تعلیم میں ایس سی طلباء کے اندراج میں 44فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں ایس ٹی طلباء کے اندراج میں 65 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں او بی سی کمیونٹی کے طلباء کے اندراج میں 45 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جب میرے غریب، دلت، پسماندہ، قبائلی، سہولت سے محروم خاندانوں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں گےتو  ڈاکٹر، انجینئر بنیں گےاوراس سے معاشرے کے اندر ایک نیا ماحول پیدا ہوگا۔ ہماری کوشش ہے کہ بنیادی مسائل کو حل کیا جائے۔ کچھ وقت لگ سکتا ہے لیکن مضبوطی سے کام  کرنا ہے اور اسی لیے ہم نے تعلیم پر اتنا زور دے کر کام کیا ہے۔ اگر معلومات کی کمی ہے تو براہ کرم ہمیں بتائیں ، ہم آپ کو معلومات دیں گے۔ لیکن ایسی حکایتیں نہ بنائیں کہ آپ کی ساکھ ختم ہو جائے، آپ کے الفاظ کی طاقت ختم ہوجائے اورآپ  پرکبھی کبھی ترس آتا ہے۔

محترم چیئرمین،

سب کا ساتھ سب کا وکاس! یہ نعرہ نہیں بلکہ مودی کی گارنٹی ہے۔ اور جب آپ اتنے سارے کام کرتے ہیں تو فرض کریں کہ کسی نے نظم لکھ کر بھیجی ہے، نظم بہت لمبی ہے کیونکہ اس میں ایک جملہ ہے -

مودی کی گارنٹی کا دور ہے،

نئے بھارت کی بھور

آؤٹ آف وارنٹی چل رہی دوکانیں،

آؤٹ آف وارنٹی چل رہی دوکانیں،

کھوجیں اپنی ٹھور

محترم چیئرمین،

ملک میں مایوسی پھیلانے کی کیسی کوششیں کی جا رہی ہیں، میں ان لوگوں کو سمجھتا ہوں جو اس قدر مایوسی کے گڑھے میں دھنس چکے ہیں۔ تاہم، مایوسی پھیلانے کی اس کی صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے۔ حتیٰ کہ وہ طاقت بھی باقی نہیں رہی، ہم امید کا اظہار بالکل نہیں کر سکتے۔ جو خود مایوسی میں ڈوبے ہوئے ہیں ان سے امیدیں رکھنا بے کار ہے۔ لیکن ملک میں جہاں کہیں مایوسی، ناامیدی، مایوسی پھیلانے کا کھیل جاری ہے اور حق کو جھٹلا کر کیا جا رہا ہے۔ وہ نہ تو اپنا بھلا کر سکیں گے اور نہ ہی ملک کا بھلا کر سکیں گے۔

محترم چیئرمین،

ہر بار ایک ہی گانا گایا جاتا ہے۔ معاشرے کے بعض طبقات کو مشتعل کرنے کے لیے بغیر کسی بنیاد کے اس طرح کے جملے کہے جاتے ہیں۔ میں ملک کے سامنے کچھ سچ بولنا چاہتا ہوں اور میرا ماننا ہے کہ میڈیا کو ایسے موضوعات پر بحث کرنی چاہیے تاکہ معلوم ہو سکے۔

محترم چیئرمین،

یہاں پر سرکاری کمپنیوں کے حوالے سے طرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔ ملک کو یاد ہے کہ ماروتی کے شیئرز کے ساتھ کیا کھیل چل رہا تھا۔ ان دنوں سرخیاں بنتی تھیں۔ ماروتی کے حصص کے ساتھ کیا ہو رہا تھا؟ میں اس کی گہرائی میں نہیں جانا چاہتا۔

محترم چیئرمین،

ملک کو جاننا ضروری ہے۔

محترم چیئرمین،

میں آزاد ہندوستان میں پیدا ہوا۔ میرے خیالات آزاد ہیں اور میرے خواب بھی آزاد ہیں۔ غلامی کی ذہنیت جینے والوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ وہی پرانے کاغذات اٹھائے گھومتے رہتے ہیں۔

محترم چیئرمین،

کانگریس نے کہا کہ ہم نے پی ایس یوز بیچ دئے، پی ایس یو کو ڈبو دیا۔  یاد  کیجئے  بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل کو برباد کرنے والے کون تھے؟ وہ کون سا دور تھا، جب بی ایس این ایل اور ایم ٹی این ایل برباد ہو گئے تھے؟ صرف ایچ اے ایل کو یاد کیجئے، اس کی حالت کیا تھی۔ جنہوں نے ایچ اے ایل کو تباہ کیا وہ ایچ اے ایل کے گیٹ پر تقریریں کر رہے تھے۔

محترم چیئرمین،

ایئر انڈیا کو کس نے تباہ کیا، کس نے برباد کیا، ایسی صورتحال کیسے پیدا ہوئی؟  کانگریس پارٹی اور یو پی اے ان دس سالوں کی تباہی پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ ملک اچھی طرح جانتا ہے، اور اب میں آپ کو اپنے دور کی کچھ کامیابیوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں۔

محترم چیئرمین،

آج جس بی ایس این ایل کو آپ نے تباہ کرنے کے بعد چھوڑا تھا، وہ میڈ ان انڈیا 4جی، 5جی کی طرف بڑھ رہی ہے اور دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رہی ہے۔

محترم چیئرمین،

ایچ اے ایل کے لیے اتنا کنفیوژن پھیلایا، آج ایچ اے ایل ریکارڈ مینوفیکچرنگ دے رہا ہے۔ ایچ اے ایل ریکارڈ آمدنی پیدا کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے اتنا ہنگامہ ہوا ۔ آج ایچ اے ایل کرناٹک میں ایشیا کی سب سے بڑی ہیلی کاپٹر مینوفیکچرنگ کمپنی بن گئی ہے۔ آپ نے اسے کہاں چھوڑا، اور ہم اسے کہاں لے گئے۔

محترم چیئرمین،

ایک کمانڈو جو یہاں نہیں ہے، ایل آئی سی کے بارے میں بھی بہت علمی بیانات دیتے  تھے۔ ایل آئی سی کے لیے جتنی غلط باتیں کہی جانی چاہئیں وہ طریقہ کسی کو برباد کرنے کا ہے، افواہیں پھیلانا، جھوٹ پھیلانا، کنفیوژن پھیلانا اور تکنیک وہی ہے، گاؤں میں کسی کا بڑا بنگلہ ہے  اور آپ اسے خریدنے کا سوچ رہے ہیں۔ لیکن خریدنے کی قوت نہیں ہے تو پھر افواہ پھیلادی جائے کہ اس بنگلے میں بھوت ہیں۔ یہاں جو جاتا ہے کوئی واپس نہیں آتا ۔

محترم چیئرمین،

آج ایل آئی سی کے شیئرز ریکارڈ سطح پر ٹریڈ کر رہے ہیں۔ کیوں؟

محترم چیئرمین،

اب پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، پی ایس یوز بند ہو گئے۔ اب انہیں یاد بھی نہیں ہو گا کہ کیا ہوا۔ 2014 میں ملک میں 234 پی ایس یوز تھے۔ 2014 میں  پی ایس یو 234 تھے، آج 254 ہیں۔

محترم چیئرمین،

آج زیادہ تر پی ایس یوز ریکارڈ ریٹرن دے رہے ہیں اور سرمایہ کاروں کا اعتماد پی ایس یوز کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جو لوگ اسٹاک مارکیٹ کے بارے میں تھوڑا سا بھی جانتے ہیں وہ اسے سمجھتے ہیں۔ نہ سمجھیں تو کسی سے پوچھ لیں۔ بی ایس ای پی ایس یو انڈیکس پچھلے ایک سال میں تقریباً دو گنا بڑھ گیا ہے۔

محترم چیئرمین،

میں 10 سال پہلے یعنی 2004 سے 2014 کے درمیان کی بات کر رہا ہوں، ۔ پی ایس یوکا خالص منافع تقریباً 1.25 لاکھ کروڑ روپے تھا۔ اور اس دس سالوں میں پی ایس یو کا خالص منافع 2.5 لاکھ کروڑ روپے ہے۔ دس سالوں میں ہمارے پی ایس یوکی کل مالیت 9.5 لاکھ کروڑ روپے سے بڑھ کر 17 لاکھ کروڑ روپے ہو گئی ہے۔

محترم چیئرمین،

جہاں بھی ان کا ہاتھ لگتا ہے، یہ یقینی ہے کہ وہ ڈوب جاتے ہیں۔ہم نے اپنی محنت سے اتنا کچھ  کرکے ساکھ میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔آپ خوش رہیں، کنفیوژن نہ پھیلائیں، مارکیٹ میں اس طرح افواہ  نہ پھیلائیں کہ ملک کا عام سرمایہ کار پریشان ہو جائے۔

محترم چیئرمین،

ان لوگوں میں اتنی غیرت  ہے کہ انہوں نے اپنے یووراج کو اسٹارٹ اپ بنا  دیا ہے۔ ابھی وہ نان سٹارٹر ہے، نہ  وہ  ہے اور نہ ہی لانچ ہو رہا ہے۔

محترم چیئرمین،

بہت مزہ آتا اگر آپ پچھلی بار بھی اتنے پرسکون رہتے۔

محترم چیئرمین،

مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو، مبارک ہو، سب کو مبارک ہو۔

محترم چیئرمین،

میری خوش قسمتی تھی کہ مجھے ایک طویل عرصے تک ایک ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ملک اور اس کے عوام کی خدمت کرنے کا موقع ملا اور اسی لیے میں علاقائی امنگوں کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ کیونکہ میں اس پروسس سے نکل آیا ہوں۔ ہمارے پاس تجربہ ہے، آپ جانتے ہیں،  ہم اس کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ ہمیں کتابوں میں کچھ نہیں پڑھنا پڑتا، ہم تجربہ کر کے آئے ہیں اور یہی حقیقت بھی ہے۔ دس سال تک یو پی اے کی پوری طاقت گجرات کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے میں لگی رہی۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن میں آنسو نہیں بہاتا، مجھے رونے کی عادت نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی اتنے بحرانوں کے باوجود، اتنے مظالم کے باوجود، ہر قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنے کے باوجود، میرتی شکایت  یہ تھی کہ  مجھے یہاں کسی وزیر سے اپائنمنٹ نہیں ملتی تھی ۔  وہ کہتے تھے کہ وہ فون پر بات کروں گا، کیونکہ ڈر تھا کہ تصویر لیک نہ ہو جائے۔ یہاں وزراء خوفزدہ تھے۔ اب خیرمیں ان کے مسائل کو سمجھ سکتا ہوں۔ ایک دفعہ میری یہاں  ایک بڑی قدرتی آفت آ گئی۔ اس وقت میں نے اس وقت کے وزیر اعظم سے بڑی درخواست کی کہ ایک بار آکر دیکھ لیں۔ ان کا پروگرام بنا۔ ایک مشاورتی کمیٹی بنی پھر شاید وہاں سے حکم آیا، کہ کوئی ہیلی کاپٹر سے فضائی معائنہ کرے، مجھے آج یاد نہیں کہ انہوں نے ساؤتھ کی کس ریاست میں جانے کا پروگرام بدلا تھا اور کہا کہ ہم ہوائی جہاز کے ذریعے اوپر سے دیکھیں گے، ہم گجرات نہیں آئیں گے۔ میں سورت پہنچ چکا تھا، وہ آنے والے تھے۔ میں جانتا ہوں کہ آخر کیا ہوا ہوگا۔ تو آپ تصور کر سکتے ہیں۔ میں نے قدرتی آفات کے دوران بھی ایسی پریشانیوں کا سامنا کیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس وقت اور آج بھی میرا منتر ملک کی ترقی کے لیے ریاست کی ترقی ہے۔  ہم ریاستوں کی ترقی سے ہی ملک کی ترقی کر سکیں گے۔ اس پر کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا، کوئی جھگڑا نہیں ہو سکتااور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اگر ریاست ایک قدم اٹھائے تو میں آپ کو دو قدم اٹھانے کی طاقت دینے کے لیے تیار ہوں۔ کوآپریٹو وفاقیت کیا ہے؟ اور میں نے ہمیشہ کہا کہ مسابقتی کوآپریٹو وفاقیت ، آج ملک کی ضرورت ہے، ہماری ریاستوں کے درمیان صحت مند مقابلہ ہونا چاہیے تاکہ ہم ملک میں تیزی سے ترقی  کرسکیں۔ ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور جب میں اس حالت میں تھا تب بھی انہی خیالات سے کام لیا کرتا تھا۔ اس لیے خاموشی سے برداشت کرتا رہا۔

محترم چیئرمین،

کووڈ ایک مثال ہے۔ دنیا میں اتنا بڑا بحران آیا تھا۔ ایسے بحران کے دوران ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ اس دوران 20 میٹنگیں کی گئیں۔ ہم نے ہر مسئلے پر بات چیت کے بعد ہر مسئلے پرغوروخوض کیا اور تمام ریاستوں کے تعاون واشتراک کے ساتھ  مرکز اور ریاستوں نے ایک ٹیم کے طور پر کام کیا... وہ مصیبت جسے دنیا برداشت نہیں کر سکتی... ہم سب نے مل کر... میں کسی ایک کو کریڈٹ نہیں دوں گا... سب نے مل کر اس ملک کو بچانے کے لیے جو کچھ کرسکتے تھے وہ کیا ۔ ہم نے اس بات کو ذہن میں رکھ کر کام کیا ہے کہ ریاستوں کو بھی اس کا کریڈٹ لینے کا پورا حق حاصل ہے۔

محترم چیئرمین،

ہم دہلی میں جی -20 کا انعقاد کر سکتے تھے۔ دہلی میں ان بڑے بڑے  لیڈروں کے درمیان رہ کر ہم کیا نہیں کر سکتے تھے، ایسا پہلے ہو بھی چکا ہے۔ ہم نے ایسا نہیں کیا۔ ہم نے جی -20 کی ساری شان و شوکت ریاستوں کو دے دی۔ دہلی میں ایک میٹنگ ہوئی…  ریاستوں میں 200… ہر ریاست کو دنیا میں ایکسپوز کیا گیا۔ ایسا غلطی سے نہیں ہوا، منصوبہ بند طریقے سے کیاگیا۔ میرے نزدیک جس کی حکومت ہے اس کے بل بوتے پر ملک نہیں چلاتا، ہم سب مل کر ملک کو آگے لے جانا چاہتے ہیں، میں نے اس بات کو ذہن میں رکھ  کر کام کیا ہے۔

محترم چیئرمین،

ہمارے ملک میں غیر ملکی مہمان آتے تھے۔ایسا نہیں ہے کہ  وہ میرے آنے کے بعد آ رہے ہیں۔ پہلے بھی غیرملکی مہمان آتے تھے ،  آج جب غیر ملکی مہمان آتے ہیں تو میرا اصرار ہوتاہے کہ آپ ایک دن کسی ریاست کا دورہ کریں۔ میں انہیں ریاستوں میں لے جاتا ہوں، تاکہ وہ جان لیں کہ میرا ملک اب  محض دہلی نہیں رہا۔ میرا ملک چنئی میں بھی ہے۔ میرا ملک بنگلورو میں بھی ہے۔ میرا ملک حیدرآباد میں بھی ہے، میرا ملک پوری میں بھی ہے، بھونیشور میں بھی ہے، میرا ملک کلکتہ میں بھی ہے، گوہاٹی میں بھی میرا ملک ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پوری دنیا کو میرے ملک کے ہر کونے تک رسائی حاصل ہو۔ وہاں کی حکومت کا تعاون یا عدم تعاون اس کے ترازو میں نہیں تولا جاتا۔ ہم اس ملک کے مستقبل کے لیے پوری ایمانداری سے کوشش کرتے ہیں، پوری دنیا میرے ہندوستان کو جان لے، اور میرے پاس اب بھی اتنا بڑا کام ہے کہ 26 جنوری کو، سب جانتے ہیں، اس کے بعد بھی میں 25 تاریخ  کو فرانس کے صدر کو راجستھان کی گلیوں میں گھمارہاتھا ، تاکہ دنیا جان لے کہ میرا راجستھان ایسا ہے۔

محترم چیئرمین،

ہم نے ایک بہت بڑے  پروگرام کا انعقاد کیا ہے، جس کا دنیا بھر میں ایک ماڈل کے طور پر ذکر ہو رہا ہے - خواہش مند ضلع، خواہش مند ضلع کی 80 فیصد کامیابی میری ریاستوں کے تعاون کی وجہ سے  ممکن ہوئی ہے۔ ریاستوں نے جو تعاون دیا ہے، انھوں نے  ایک خواہش مند ضلع سے متعلق میرے  احساس کو سمجھا ہے۔ آج خواہشمندضلع کو آگے بڑھانے کے لئے مجھے  80 فیصد طاقت  ریاستوں سے حاصل کر رہی ہے ۔اس کے علاوہ یہ طاقت ضلعی سطح کے افسران سے بھی مل رہی ہے۔ اور جو ریاستیں ریاستی اوسط میں بھی سب سے آخر ی مقام پر تھیں، آج قومی اوسط سے مقابلہ کرنے لگی ہیں، ان اضلاع کو کبھی پسماندہ اضلاع سمجھا جاتا تھا۔ یہ سب تعاون کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور اسی لیے ہمارے پروگرام سب کو ساتھ لے کر چلنے اور ملک کے مستقبل کی تعمیر کے لیے بنائے گئے ہیں۔ آج یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ملک کے کونے کونے اورہر خاندان کو ترقی کا ثمر ملنا چاہیے اور ہم اسی سمت میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ ہم ہر ریاست کو اس  کاپوراحق بھی دینا چاہتے ہیں۔ لیکن آج میں ایک اہم مسئلے پر اپنا درد بیان کرنا چاہتا ہوں۔

محترم چیئرمین،

قوم ہمارے لیے صرف زمین کا ٹکڑا نہیں ہے۔ ہم سب کے لیے ایک اکائی ہے، جو ترغیب فراہم کرنے والی ایک متاثر کن اکائی ہے۔ جیسے جسم ہوتا ہے جیسے جسم کے اعضاء میں احساسات ہوتے ہیں، پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو پاؤں یہ نہیں کہتا، ہاتھ کبھی یہ نہیں سوچتا کہ میں کیا کروں، پاؤں میں کانٹا ہے... ایک لمحے کے لیے پاؤں پاؤں کا کام کرے گا۔ پاؤں میں کانٹا چبھتا ہے، آنکھ نہیں کہتی  کہ میں کیوں آنسو بہاؤں، آنکھوں سے آنسو  خودبخودنکل آتے ہیں۔ ہندوستان کے کسی کونے میں درد ہو تو ہر کسی کو درد محسوس کرنا چاہیے۔ ملک کا ایک گوشہ، جسم کا ایک حصہ کام نہ کرے تو پورا جسم معذور سمجھا جاتا ہے۔ جسم کی طرح ملک کا کوئی بھی گوشہ، ملک کا کوئی بھی علاقہ ترقی سے محروم  رہ جائے  تو ملک ترقی یافتہ  نہیں  بن سکتا۔ اور اس لیے ہمیں ہندوستان کو ٹکڑوں میں نہیں بلکہ مجموعی طور پر دیکھنا چاہیے۔ ان دنوں جس طرح زبان  استعمال ہو رہی ہے، ملک کو توڑنے کے لیے سیاسی خود غرضی کے لیے نئے بیانیے بنائے گھڑے جارہے ہیں۔ ایک پوری حکومت میدان میں آکر زبان گھڑ رہی ہے۔ ملک کی اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے، آپ ہی بتائیں۔

اگر جھارکھنڈ کا کوئی قبائلی بچہ اولمپک کھیلوں میں جاتا ہے اور تمغہ لے کر آتا ہے تو کیا ہمیں لگتا ہے کہ وہ جھارکھنڈ کا بچہ ہے؟پورا ملک کہتا ہے کہ وہ ہمارے ملک کا بچہ ہے۔ جب ہم جھارکھنڈ کے کسی بچے میں ٹیلنٹ اورصلاحیت دیکھتے ہیں اور ملک ہزاروں لاکھوں روپے خرچ کر کے اسے دنیا کے کسی بھی ملک میں اچھی کوچنگ کے لیے بھیجتا ہے تو ہم سوچیں گے کہ یہ خرچ جھارکھنڈ کے لیے ہو رہا ہے، اس ملک کے لیے نہیں ہو رہا ہے۔ . ہم نے کیا کرنا شروع کر دیا ہے، کیسی زبان بولنا شروع کر دی ہے۔ اس سے ملک کاوقاربلند ہوگا، ہمارے یہاں ویکسین، ملک کے کروڑوں لوگوں کو ویکسین، ہم کہیں گے کہ ویکسین اس کونے میں بنی تھی، اس لیے یہ ان کا حق ہے، ملک کو نہیں مل سکتی، کیا ہم ایسا سوچ سکتے ہیں؟ یہ کیا؟ ویکسین اس شہر میں بنی تھی، تو وہ کیا ہم یہ  سوچ سکتے ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں کو اس کا فائدہ نہیں ملے گا۔ یہ کیسی سوچ بن گئی ہے۔ اور یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ایک قومی پارٹی کے اندر سے ایسے خیالات سامنے آئے۔

میں پوچھنا چاہتا ہوں، محترم چیئرمین،

اگر ہمالیہ کہنا شروع ہو جائے تو ہمالیہ کل سے کہنے لگے، یہ دریا میرے یہاں سے بہتے ہیں، میں تمہیں پانی نہیں دینے دوں گا، پانی پر حق میرا ہے، ملک کا کیا بنے گا، ملک کہاں  جاکررکے گا؟ اگر وہ ریاستیں جن میں  کوئلہ  نکلتاہے وہ  کہہ دیں کہ کوئلہ نہیں ملے گا، یہ سب ہماری ملکیت ہے ، جاؤتم اندھیرے میں گذاراکرو، توملک کیسے چلے گا۔

محترم چیئرمین،

آکسیجن کووِڈ کے دوران ،ہمارےیہاں آکسیجن کے امکانات مشرق کی صنعتوں کی طرح ہیں، پورے ملک کو آکسیجن کی ضرورت تھی، اگر اس وقت مشرق کے لوگ یہ کہہ کر بیٹھ جاتے کہ ہم آکسیجن نہیں دے سکتے، ہمارے لوگوں کو ضرورت ہے ،ملک کو کچھ نہیں ملے گا، تواس وقت  ملک کا کیاہوتا؟ انہوں نے بحران کا سامنا کر کے بھی ملک کو آکسیجن پہنچایا۔ ملک کے اندر اس  طرح کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی  یہ کیا کوششیں کی جا رہی ہیں؟ کیا اس طرح  سے کہ ہمارا ٹیکس اور ہماری دولت ،یہ  بات کیسی زبان میں  بولی جا رہی ہے؟ اس سے ملک  اورملک کے مستقبل کے لیے ایک نیا خطرہ پیدا ہو گا۔ ملک توڑنے کے لیے نئے بیانیے ایجاد کرنا بند کریں۔ ملک کو آگے بڑھنا ہے، ملک کو ساتھ لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

محترم چیئرمین،

گزشتہ 10 سال کی پالیسی اور تعمیر کا مقصد نئے ہندوستان کی نئی سمت دکھانا ہے۔ ہم نے جو رخ اختیار کیا ہے، گزشتہ دہائی میں ہم نے جو تعمیراتی کام کئے ہیں ،اس میں  ہماری پوری توجہ بنیادی سہولیات کی فراہمی پر مرکوز ہے، اسی بات پرہم نے اپنی توجہ مرکوز کررکھی ہے ۔

محترم چیئرمین،

ہر خاندان کا معیار زندگی بلند ہونا چاہیے اور اس کے رہن سہن میں سہولت میں اضافہ ہوناچاہیے۔ اب وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اس کے معیار زندگی کو کیسے بہتر کر سکتے ہیں؟ آنے والے دنوں میں، ہم اپنی پوری طاقت اور صلاحیت کو رہن میں سہولت سے ایک قدم آگے بڑھ کر معیارزندگی کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں، اوراس کے لئے ہم کوشش کریں گے۔

محترم چیئرمین،

آنے والے 5 سالوں میں، ہم  نئے متوسط طبقے کو جو کہ غربت سے نکل کر نئی بلندیوں تک پہنچے ہیں،انھیں   مزیدنئی بلندیوں تک پہنچانے اور بااختیار بنانے کے لیے مختلف پروگرام فراہم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے جا رہے ہیں ۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس سماجی انصاف کے لئے جو مودی کووچ دیاہے اس مودی کووچ کو اور مضبوط کرنے جا رہے ہیں اوراسے اورتقویت بہم پہنچانے جارہے ہیں ۔

محترم چیئرمین،

آج کل جب ہم کہتے ہیں کہ 25 کروڑ لوگ غربت  کی سطح سے اوپر نکلے ہیں ، تو یہ  غلط  دلیل دی  جاتی ہے کہ 25 کروڑ نکلے تو 80 کروڑ کو کھانا اور اناج کیوں دیاجارہاہے۔

محترم چیئرمین،

ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمارشخص  ہسپتال سے باہر آجائے تو ڈاکٹر اسے کہتا ہے کہ اس کا کچھ دن اسی طرح خیال رکھنا، کھانے میں احتیاط کرنا، ورزش کرنا، وغیرہ وغیرہ۔ کیوں... کہ وہ دوبارہ کبھی مصیبت میں نہ پڑیں۔ جو غریبی کی سطح سے اوپراٹھا ہے اس کا بہتر خیال رکھاجانا چاہیے کہ ایسا کوئی بحران  پیدانہ ہوکہ وہ  دوبارہ غربت  سے دوچارہونہ ہو جائے۔ اور اس لیے اس کی حالت  مضبوط کرنے کے لیے وقت دینا چاہیے۔ اس وقت، ہم نے غریبوں کو مضبوط کیا تاکہ وہ دوبارہ نئے متوسط طبقے، اس جہنم میں نہ پہنچ جائیں۔ ہم آیوشمان کا جو 5 لاکھ روپے دیتے ہیں، اس کے پیچھے یہی نیت ہے۔ خاندان میں بیماری آجائے تو متوسط ​​طبقے کے فرد کو بھی غریب ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ اور اس لیے غربت سے نکلنے کے لیے جتنا ضروری ہے اتنا ہی اس بات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ غلطی سے بھی دوبارہ غربت کی طرف نہ پہنچنے لگ جائے۔ اور اسی لیے ہم اناج دیتے ہیں، اناج دیتے رہیں گے۔ کسی کو برا لگے یا بھلا، 25 کروڑ لوگ غربت کی سطح سے  اوپراٹھے  ہیں ۔نئے متوسط  طبقے میں شامل ہوئے ہیں ، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں اس دنیا میں رہ چکا ہوں۔ ان کی ضرورت زیادہ ہے اس لیے ہمارا منصوبہ جاری رہے گا۔

محترم چیئرمین،

ملک جانتا ہے اور اسی لیے میں نے گارنٹی دی ہے، میری گارنٹی ہے کہ غریبوں کو 5 لاکھ روپے تک علاج معالجے کی سہولت ملتی رہے گی۔ میرے پاس گارنٹی ہے، مودی کی گارنٹی ہے۔ وہ ادویات جو 80فیصد ڈسکاؤنٹ پر دستیاب ہیں، جن کا فائدہ متوسط ​​طبقے کے غریب افراد کو حاصل ہو رہا ہے، وہ فائدہ ملناجاری رہے گا۔

محترم چیئرمین،

مودی کی گارنٹی ہے کہ کسانوں کو جو سمان ندھی مل رہی ہے وہ  جاری رہے گی، تاکہ وہ مضبوطی کے ساتھ ترقی کے سفر میں شامل ہو سکیں۔

محترم چیئرمین،

میری مہم غریبوں کو مستقل اورپکے مکان فراہم کرنا ہے۔ اگر خاندان بڑھتا ہے تو ایک نیا خاندان بنتا ہے۔ مستقل مکانات کی فراہمی کا میرا پروگرام جاری رہے گا۔ نل کے پانی کی اسکیم، میرا پختہ ارادہ ہے اور میری ضمانت ہے کہ ہم نل کا پانی فراہم کریں گے۔ اگر ہمیں نئے بیت الخلاء بنانے کی ضرورت ہے، تو میرے پاس پختہ ضمانت ہے کہ ہم جاری رکھیں گے۔ ان تمام کاموں کو تیز رفتاری سے انجام دیا جائے گا، کیونکہ ترقی کا جو راستہ، ترقی کا جو رخ ہم نے  اختیارکیا ہے، ہم اسے کسی بھی حال میں اس کی رفتارکو سست نہیں ہونے دینا چاہتے۔

محترم چیئرمین،

ہماری حکومت کی تیسری مدت  کااب  دور نہیں ہے۔ کچھ لوگ اسے مودی 3.0 کہتے ہیں۔ مودی 3.0 ترقی یافتہ ہندوستان کی بنیاد کو مضبوط کرنے میں اپنی پوری طاقت لگائے گا۔

محترم چیئرمین،

اگلے پانچ سالوں میں ہندوستان میں ڈاکٹروں کی تعداد میں پہلے کے مقابلے کئی گنااضافہ ہو جائے گا۔ میڈیکل کالجز کی تعداد بڑھے گی۔ اس ملک میں علاج بہت سستا اور ہرشخص کے لئے قابل رسائی ہو جائے گا۔

محترم چیئرمین،

اگلے پانچ سالوں میں ہر غریب گھر میں نل کے پانی کا کنکشن ہوگا۔

محترم چیئرمین،

آنے والے پانچ سالوں میں اس بات کا خاص خیال رکھا جائے گا کہ غریبوں کو دیے جانے والے پی ایم آواس سے کوئی بھی  شخص محروم نہ رہنے پائے۔ اگلے پانچ سالوں میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کا بل صفر ہو جائے گا، ملک کے کتنے شہریوں، کروڑوں شہریوں کو بجلی کا بل صفر آئے گا اور اگر مناسب  طریقے سے منصوبہ بندی کی جائے تو وہ اپنے گھر پر بجلی پیدا کر کے کما ئی بھی کرسکیں گے۔ اسے فروخت کرنا، یہ اگلے پانچ سالوں کا پروگرام ہے۔

محترم چیئرمین،

اگلے پانچ سالوں میں ملک بھر میں پائپ گیس کنکشن اور نیٹ ورک بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

جناب چیئرمین،

آنے والے پانچ سالوں میں پوری دنیا ہماری نوجوانوں کی طاقت کو دیکھے گی۔ آپ نے دیکھا، محترم چیئرمین، ہمارے نوجوان اسٹارٹ اپ،اورنوجوانوں کے  یونیکورن کی تعداد، لاکھوں  میں پہنچے والی ہے ۔ اور یہی نہیں، نئے اسٹارٹ اپس سے درجہ دوئم ، درجہ سوئم کے شہر ایک نئی شناخت کے ساتھ ابھرنے والے ہیں۔ میں اپنے سامنے پانچ سال کی یہ تصویر دیکھ رہا ہوں۔

محترم چیئرمین،

آپ ریزرو فنڈنگ ​​میں اس کے اضافے کا اثر دیکھیں گے، میں دیکھ رہا ہوں کہ آنے والے پانچ سالوں میں پچھلی سات دہائیوں کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں ریکارڈ پیٹنٹ فائل کیے جا رہے ہیں۔

محترم چیئرمین،

آج ہمارے متوسط ​​طبقے کے لاکھوں بچے تعلیم حاصل کرنے بیرون ملک جاتے ہیں۔ میں ایسی صورت حال پیداکرنا چاہتا ہوں کہ میرے بچوں کے لاکھوں روپے بچ جائیں۔ میرے ملک کے متوسط ​​طبقے کے خواب پورے ہوں۔ بہترین  سے بہترین یونیورسٹی میرے ملک میں ہونی چاہیئں۔ میں یہ بات اس لئے  کہہ رہا ہوں کہ وہ ہمارے بچے  ملک میں  ہی اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کریں اور میرے بچوں اور ان کے خاندانوں کا پیسہ بچایا جائے۔

محترم چیئرمین،

آپ دیکھئے گا کہ آنے والے پانچ سالوں میں کھیلوں کا کوئی ایسا بین الاقوامی مقابلہ نہیں ہوگا ،جس میں ہر جگہ ہندوستانی پرچم نہ لہرایا گیا ہو۔ میں پانچ سالوں میں ہندوستان کے نوجوانوں کی طاقت کو کھیلوں کی دنیا میں دنیا میں پہچان بناتے ہوئے دیکھ  رہا ہوں۔

محترم چیئرمین،

آنے والے پانچ سالوں میں ہندوستان کی پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر تبدیل ہونے والی ہے۔ اگلے پانچ سالوں میں غریب اور متوسط ​​طبقے کو تیل اور پرتعیش سفرکی سہولیات تک آسانی سے رسائی حاصل ہونے والی ہے۔ آپ کو رفتار ملنے والی ہے، آپ کو پوری طاقت کے ساتھ بہت سی سہولتیں ملنے والی ہیں۔ اگلے پانچ سالوں میں ملک کو بلٹ ٹرین بھی نظر آئے گی اور ملک وندے بھارت ٹرین کی توسیع بھی دیکھے گا۔

محترم چیئرمین،

اگلے پانچ سالوں میں خودکفیل ہندوستان کی مہم نئی بلندیوں کوچھوئے گی۔ ملک ہر میدان میں خود کفیل ہوتا نظر آئے گا۔

محترم چیئرمین،

آنے والے 5 سالوں میں، میڈ ان انڈیا سیمی کنڈکٹر کی گونج دنیا میں سنائی دیگی۔ ہر الیکٹرانک مصنوعات  میں ایک چپ ہوگی،جس میں کسی نہ کسی ہندوستانی کا پسینہ ہوگا۔

محترم چیئرمین،

دنیا کے الیکٹرک بازار میں، ملک آنے والے پانچ سالوں میں الیکٹرانک بازار میں ایک نئی رفتار کا امکان دیکھے گا۔

محترم چیئرمین،

آج ملک لاکھوں کروڑوں روپے کا تیل درآمد کرتا ہے۔ ہم اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے زیادہ سے زیادہ خود کفیل بننے کی سمت کام کریں گے اور مجھے یقین ہے کہ ہم توانائی کی ضروریات پر انحصارکو کم کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ یہی نہیں، محترم چیئرمین، گرین ہائیڈروجن مہم کے ساتھ ہم عالمی منڈی کو راغب کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے گرین ہائیڈروجن میں توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ ہم ایتھنول کی دنیا میں تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔پیٹرول میں 20 فیصدکی آمیزش کا ہدف حاصل کرکے ،عوام کے لیے  نقل وحمل کو سستا کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔

محترم چیئرمین،

جب میں 20 فیصد ایتھنول کی بات کرتا ہوں تو اس کا براہ راست فائدہ میرے ملک کے کسانوں کو ہونے والا ہے، کسانوں کو ایک نئی ترقی ملنے والی ہے۔ ہم بھارت کو ایک زرعی ملک  توکہتے ہیں لیکن آج  بھی ملک کی خوراک ہزاروں کروڑ روپے کے بقدر ہے اور آج بھی ہمیں ہزاروں کروڑ روپے کا خوردنی تیل باہر سے  منگانا پڑرہا ہے۔ مجھے اپنے ملک کے کسانوں پر بھروسہ ہے اور مجھے پختہ یقین ہے کہ ہم جن پالیسیوں پر عمل کریں گے، میرا ملک 5 سالوں میں بہت جلد خوردنی تیل میں خودکفیل ہو جائے گا۔ اور جو بھی پیسہ بچےگا وہ میرے ملک کے کسانوں کی جیبوں میں جائے گا،  اوریہ پیسہ آج غیر ملکی بازاروں  میں جاتاہے۔

محترم چیئرمین،

ہماری دھرتی ماں کوکیمیکل  کی کاشت کاری کی وجہ سے بہت زیادہ نقصان اٹھا ناپڑرہا ہے۔ آنے والے پانچ سالوں میں ہم ملک کے کسانوں کو قدرتی زراعت کی طرف لے جانے میں کامیابی سے آگے بڑھیں گے۔ ایک نئی بیداری پیدا ہوگی، اور ہماری دھرتی ماں کی بھی حفاظت ہوگی۔

محترم چیئرمین،

قدرتی کاشتکاری میں اضافے سے عالمی منڈی میں ہماری مصنوعات کی طاقت بھی بڑھنے والی ہے۔

محترم چیئرمین،

میں نے اقوام متحدہ کے ذریعے موٹے اناجوں کی مہم شروع کی۔ آج ہم نے انہیں شری انّ کے طور پر پہچان دی ہے۔ مجھے وہ دن دور نظر نہیں آتا جب، آنے والے پانچ سالوں میں، میرے گاؤں کے ایک چھوٹے سے گھر میں اگنے والا جوار شری انّ ایک سپر فوڈ کے طور پر عالمی منڈی میں شہرت حاصل کرے گا، اس کی شہرت ایک سپر فوڈ کے طور پر ہوگی۔

محترم چیئرمین،

کھیتوں میں کسانوں کے لیے ڈرون ایک نئی طاقت بن کر ابھرنے والے ہیں۔ ہم نے پہلے ہی  15 ہزار ڈرون دیدی کا پروگرام شروع کیا ہے۔ یہ تو صرف شروعات ہے، ہمیں آگے بہت سی کامیابی نظر آتی ہے۔

محترم چیئرمین،

ہم اب تک نینو ٹیکنالوجی کو زراعت میں لانے کے تجربے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہم نے نینو یوریا میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ نینو ڈی اے پی کی سمت میں کامیابی ملی ہے۔ اور آج  وہ دن دورنہیں کہ جب  ایک بوری کھاد کے ساتھ سفر کرنے والا کسان کھاد کی بوتل کے ساتھ لے کر گزارا کر سکے گا۔

محترم چیئرمین،

ہم نے امدادباہمی کے شعبے میں ایک نئی وزارت تشکیل دی ہے۔ اس کے پیچھے مقصد یہ ہے کہ امدادباہمی کی پوری عوامی تحریک ایک نئی طاقت کے ساتھ ابھرے اور اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ابھرے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ہم نے دو لاکھ ذخیرہ کرنے کا کام کیا ہے۔ جب کہ یہ 5 سال   کے اندراندرمکمل ہو جائے گا۔ چھوٹے کسانوں کو بھی اپنی پیداوار کو ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ ملے گی۔ کسان فیصلہ کرے گا کہ کس قیمت پر منڈی میں بیچنا ہے یا نہیں بیچنا ہے۔اس کو اناج کے برباد ہونے کا جو اندیشہ ہے وہ ختم ہو جائے گا اور کسان کی مالی طاقت بڑھے گی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مویشی پالن اور ماہی پروری،دونوں نئے ریکارڈ بنانے جا رہے ہیں۔ آج ہمارے پاس مویشیوں کی بڑی تعداد ہے لیکن دودھ کی پیداوار کم ہے۔ ہم اس روایت کو بدلیں گے۔ یہ میرا ذاتی یقین بھی ہے کہ ہم ماہی گیری کی برآمدات کی دنیا میں بہت تیزی سے ترقی کریں گے۔ ہم نے ایف پی اوز بنانے کا پروگرام شروع کیا ہے۔ تجربہ بہت اچھا رہا ہے۔ پانچ سالوں کے اندر، میرے ملک کے کسانوں کو، کسانوں کی ایک نئی تنظیم کی طاقت اور زرعی پیداوار کی  قدر میں اضافے  کی طاقت سے یقینی طور پر یہ فوائد ملنے والے ہیں۔

محترم چیئرمین،

جی-20 کی کامیابی نے یہ واضح کر دیا ہے اور کووڈ کے بعد دنیا میں جو کھلے پن کا آغاز ہوا، اس کا سب سے بڑا فائدہ ہم نے دیکھا کہ دنیا کی توجہ ہندوستان کی طرف مرکوز ہوئی ہے اور اس لیے سیاحت کا شعبہ ، آنے والے دنوں میں سیاحت کا ایک بہت بڑا شعبہ بننے والا ہے، اور یہ شعبہ   سب سے زیادہ   روزگار فراہم کرے گا۔ آج دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں، جن کی پوری معیشت کا دارومدار سیاحت پر ہے۔ ہندوستان میں بھی کئی ریاستیں  ایسی بن سکتی ہیں، جن کی معیشت کا سب سے بڑا حصہ سیاحت کا ہوگا اور  ہم جن پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں، وہ دن دور نہیں جب ہندوستان ایک بڑا سیاحتی مقام بن جا ئے گا۔

محترم چیئرمین،

جس کا حساب کتاب پہلے بہت کم ہوا کرتا تھا، جس کی باتیں سن کر ہمارا مذاق اڑایاجاتاتھا۔ جب میں ڈیجیٹل انڈیا کے بارے میں بات کرتا تھا۔ جب میں فنٹیک پر بات کرتا تھا، لوگ سمجھتے تھے کہ میں کام سے باہر بات کر رہا ہوں۔ آوٹ ڈیٹا سوچنے والوں میں صلاحیت کا فقدان تھا۔ لیکن میں پورے اعتماد کے ساتھ کہتا ہوں، محترم چیئرمین، کہ ہندوستان آنے والے پانچ سالوں میں ڈیجیٹل معیشت کی دنیا پر غلبہ حاصل کرنے والا ہے۔ بھارت ایک نئی طاقت بننے جا رہا ہے۔ آج ڈیجیٹل نظام ہندوستان کی صلاحیت کو بڑھانے جا رہاہے۔ دنیا کا ماننا ہے کہ اگر کسی ملک میں اے آئی کو سب سے زیادہ استعمال کرنے کی صلاحیت ہے تو وہ ہندوستان ہوگا۔ میرا ملک جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کرے گا۔

محترم چیئرمین،

ہندوستان کا نام خلاء کی دنیا میں روشن ہو رہا ہے۔ ہمارے سائنسدانوں کی محنت اورکوششیں نظرآنے والی ہیں اور آنے والے پانچ سالوں کاجو پروگرام ہے، اسے میں آج  الفاظ میں بیان نہیں کرنا چاہتا۔ میرا پختہ یقین ہے کہ ہمارے سائنسداں ہندوستان کو خلا ءکے شعبے میں، دنیا کو حیران کرنے کی سمت لے جائیں گے۔

محترم چیئرمین،

بنیادی سطح کی معیشت میں بہت بڑی تبدیلی، ہماری 10 کروڑ ماؤں بہنوں کو اپنی مدد آپ کے تحت شامل کیا جائے اور ہماری تین کروڑ لکھ پتی دیدی خود ہماری بیٹیوں کی ترقی کی داستان  لکھ رہی ہیں۔

محترم چیئرمین،

ایسے بہت سے متنوع  شعبے ہیں جن میں مجھے آنے والے پانچ سال واضح طور پر نظر آرہے ہیں، ہندوستان کبھی سنا ہی نہیں تھا، یہ سنہرا دور تھا، میں وہ دن قریب دیکھ رہا ہوں جب پانچ سالوں میں وہ مضبوط بنیاد رکھی جائے گی اور 2047  تک پہنچتے پہنچتے یہ ملک دوبارہ  اس سنہری دور میں جینا شروع کر دے گا۔ محترم چیئرمین، اس یقین کے ساتھ کہ  ترقی یافتہ ہندوستان لفظوں کا کھیل نہیں ہے، یہ ہمارا عزم ہے اور ہم اس کے لیے وقف ہیں، ہماری ہر سانس اسی کام کے لیے وقف ہے، ہمارا ہر لمحہ اسی کام کے لیے وقف  ہے، ہماری سوچ اسی کام کے لیے وقف ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہم آگے بڑھے ہیں، آگے بڑھ رہے ہیں، اسی جذبے کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں گے اور ملک آگے بڑھتا رہے گا۔ آنے والی صدیاں تاریخ کے اس سنہری دور کی نشان دہی کریں گی۔ میرے ذہن میں یہ یقین ہے کیونکہ میں ملک کے لوگوں کے مزاج کو اچھی طرح سمجھتا ہوں۔ ملک نے دس سال تبدیلی کا تجربہ کیا ہے۔ جو تبدیلی کسی ایک شعبے میں دیکھی گئی ہے، وہ تیزی سے تبدیلی زندگی کے ہر شعبے میں آرہی ہے، زندگی کے ہر شعبے میں نئی ​​بلندیاں اور نئی قوتیں حاصل ہونے والی ہیں، اور ہر عزم کو پایہ تکمیل تک لے جانا ہے۔یہ  ہمارے کام کرنے کے انداز کا حصہ ہے۔

محترم چیئرمین،

مجھے ایک بارپھراس ایوان میں، آپ سب کے اظہار خیال کی وجہ سے ، ملک کے سامنے سچائی پیش کرنے کا موقع ملا ہے اور  ڈنکے کی چوٹ پرسچائی کو پیش کرنے کاموقع ملا ہے اورایوان کے تقدس کے درمیان اسے پیش کرنے کا موقع ملا ہے۔اور  آئین کی پوری روح کے ساتھ اپنے خیالات پیش کرنے   کا موقع ملا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ملک ان لوگوں کی بات نہیں سن سکتا جن کی وارنٹی ختم ہو چکی ہے اورملک نے جس کی گارنٹی کی طاقت دیکھی ہے وہ اس کے خیالات پر یقین کرتے ہوئے آگے بڑھے گا۔

ایک بار پھر، محترم چیئرمین، میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اور میں عزت مآب صدر جمہوریہ ہندکو ان کے  خطاب کے لیے احترام کے ساتھ مبارکباد اور شکریہ ادا کرتے ہوئے اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔

********

  ش ح۔ع ح ۔ع م ۔رم ۔آ ع

U-4626  



(Release ID: 2003905) Visitor Counter : 126