وزیراعظم کا دفتر

نئی دہلی میں واقع بھارت منڈپم میں منعقدہ بھارت موبلٹی گلوبل ایکسپو میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 02 FEB 2024 8:43PM by PIB Delhi

مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی شری نتن گڈکری جی، نارائن رانے جی، پیوش گوئل جی، ہردیپ سنگھ پوری جی، مہیندر ناتھ پانڈے جی، صنعتوں سے متعلق  تمام اہم شخصیات، دیگر معززین، خواتین و حضرات!

ابھی میں پیوش جی کی بات سن رہا تھا، وہ کہہ رہے تھے کہ آپ آئے تو ہمارا حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ لیکن میں  دیکھ رہا تھا کہ یہاں تو تمام ہارس پاور افراد  بیٹھے ہیں۔ پھر یہ طے ہوگیا کہ کس کو کہاں سے حوصلہ ملنے والا ہے۔ سب سے پہلے، تو  میں آٹو موٹیو انڈسٹری کو اس شاندار تقریب کے انعقاد کے لیے مبارکباد دیتا ہوں۔ میں آج ہر اسٹال پر تو نہیں جاسکا  لیکن میں نے جتنے بھی اسٹال دیکھے وہ بہت متاثر  کرنے والےتھے۔ ہمارے ملک میں یہ سب  ہو رہا ہے، جب یہ دیکھتے ہیں تو اور  زیادہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ میں نے تو کبھی گاڑی خریدی نہیں، اس لیے مجھے کوئی تجربہ نہیں، کیونکہ میں نے کبھی سائیکل بھی نہیں خریدی۔ میں دہلی کے لوگوں سے بھی کہوں گا کہ یہاں آئیں اور اس ایکسپو کو ضرور دیکھیں۔ اس انعقاد نے موبلٹی کمیونٹی اور پوری سپلائی چین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ہے۔ میں آپ سب کا بھارت موبیلٹی گلوبل ایکسپو میں خیرمقدم کرتا ہوں، اور آپ سب کو نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔ شاید آپ میں سے کچھ کو یاد ہوگا کہ جب  میری پہلی میعاد تھی، میں نے عالمی سطح کی موبیلٹی  کانفرنس کا منصوبہ بنایا تھا۔ اور اگر آپ اس وقت کی چیزوں کو دیکھیں گے تو بیٹری پر  ہماری توجہ کیوں ہونی چاہیے، الیکٹرک وہیکل کی طرف  ہمیں کیوں تیزی سے بڑھنا چاہیے، ان تمام موضوعات پر بڑی تفصیل سے اس  سمٹ  کا انعقاد ہوا تھا، عالمی ماہرین آئے تھے۔ اور آج  میں میری دوسری میعاد میں میں اچھی خاصی ترقی دیکھ رہا ہوں کہ اچھی خای ترقی ہورہی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ تیسری مدت میں... سمجھدارکے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ اور آپ لوگ  تو موبیلٹی  کی دنیا میں ہیں، اس لیے یہ سگنل ملک میں جلد پہنچ جائے گا۔

دوستو،

آج کا بھارت، 2047 تک  ترقی یافتہ بھارت بنانے کے مقصد کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول میں موبیلٹی کا شعبہ بہت بڑا کردار ادا کرنے والا ہے۔ اور میں نے لال قلعہ سے کہا تھا –  میں آج پھر سے   دوہرا رہا ہوں۔ اس میں میرا ایک ویژن بھی تھا، میرا یقین بھی  تھا اور وہ یقین  میرا اپنا نہیں تھا۔  140 کروڑ ہم وطنوں کی طاقت کی وجہ سے وہ یقین  لفظوں میں ظاہر ہوا تھا۔ اس دن میں نے لال قلعہ سے کہا تھا – یہی وقت ہے، یہی صحیح وقت ہے۔ یہ منتر آپ کے شعبے میں بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ ایک طرح سے  انڈایا از آن دی موو، اینڈ از موونگ فاسٹ۔ یعنی بھارت  آگے بڑھ رہا ہے، اور تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔  بھارت کے موبیلٹی سیکٹر کے لئے یہ ایک طرح سے سنہرے دور کا آغاز ہے۔ آج بھارت  کی معیشت تیزی سے پھیل رہی ہے۔ اور جیسا میں نے پہلے کہا،  ہماری سرکار کی تیری مدت میں، بھارت کادنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننا یقینی ہے۔ ہماری حکومت کی کوششوں سے پچھلے 10 سالوں میں تقریباً 25 کروڑ لوگ غربت سے باہر آئے ہیں۔ اور  وہ جب غربت سے باہرنکلتا ہے تب اس کے خوابوں میں پہلی پانچ چیزیں کیا ہوتی ہیں؟  ایک آپ ہوتے ہیں،  چاہے وہ سائیکل خریدنا چاہے،  چاہےاسکوٹی خریدنا چاہے گا،  چاہےسکوٹر اور ہو سکے تو فور وہیلر! اس کی پہلا دھیان  آپ ہی پر جانے والا ہے۔ اور یہ 25 کروڑ لوگ غربت سے آئے ہیں۔ آج بھارت میں بڑی تعداد میں نیو مڈل کلاس  بنی ہے، جس کی اپنی امیدیں اور خواہشات ہیں۔  جس تمنا کی سطح اس سوسائٹی میں ہوتی ہے ، اس ایکانومیکل اسٹارٹ اپ میں ہوتی ہے وہ شید ہی کہیں اور ہوتی ہو،  جس طرح انسان کی زندگی میں 14 سے 20 سال کا عرصہ ایک طرح سے مختلف ہوتا ہے، اسی طرح ان کی زندگی میں بھی ہوتا ہے۔ اور اگر ہم اس پر توجہ دیں تو ہم تصور کر سکتے ہیں کہ ہم کہاں تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ہے نیو مڈل کلاس اس کی امنگوں اور دوسری طرف آج بھارت میں مڈل کلاس کا دائرہ بھی بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، متوسط ​​طبقے کی آمدنی بھی بڑھ رہی ہے۔ یہ تمام عوامل بھارت کے موبیلٹی سیکٹر کو نئی بلندیاں دینے والے ہیں۔ بڑھتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی آمدنی کے درمیان، کچھ بڑھتے ہوئے اعداد و شمار آپ کے سیکٹر کا حوصلہ بڑھانے والے ہیں، مودی نہیں ، یہ اعداد و شمار۔ سال 2014 سے پہلے کے دس برسوں میں بھارت میں تقریباً 12 کروڑ گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔ جبکہ 2014 سے اب تک ملک میں 21 کروڑ سے زائد گاڑیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ دس سال پہلے ملک  میں ہر سال دو ہزار تک الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہورہی تھیں۔ وہیں اب بھارت میں ہر سال تقریباً 12 لاکھ الیکٹرک گاڑیاں فروخت ہو رہی ہیں۔ گزشتہ 10 سالوں میں مسافر گاڑیوں کی فروخت میں 60 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ بھارت میں دو پہیوں کی فروخت میں بھی 70 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ابھی کل ہی جو اعداد و شمار  سامنے آئے ہیں وہ بتاتے ہیں  کہ جنوری کے مہینے میں کاروں کی فروخت نے اپنے  تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ جن  کی فروخت ہوئی  ہے وہ یہاں بیٹھے ہیں نا؟ آپ فکر نہ کیجئے، انکم ٹیکس والے نہیں سن رہے، گھبرائیں نہیں۔ اس کا مطلب ہے آپ سب کے لیے موبیلٹی سیکٹر میں   ،بے مثال مثبت ماحول نظر آ رہا ہے۔ آپ کو مزید آگے بڑھ کر اس کا فائدہ اٹھانا ہے۔

دوستو

آج کا بھارت ،مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی پالیسیاں بنا رہا ہے۔ اور اس میں یقینی طور پر  موبیلٹی سیکٹر کے لیے  ایک خاص مقام ہے۔ کل جو بجٹ پیش ہوا اس میں بھی  آپ  اس  وژن کو دیکھ پارہے ہیں، یہ عبوری بجٹ ہے، مکمل بجٹ تب آئے گا جب ہم تیسری بار آئیں گے۔ 2014 میں بھارت کا اخراجاتی سرمایہ 2 لاکھ کروڑ روپے سے بھی کم تھا، آج یہ 11 لاکھ کروڑ روپے سے بھی  زیادہ ہو گیا ہے۔ کیپٹل ایکسپینڈیچر پر 11 لاکھ کروڑ روپے کے خرچ کرنے کا اعلان بھارت کے موبیلٹی سیکٹر  میں مختلف  متنوع مواقع لے کر آیا ہے۔ اس سے نہ صرف معیشت کو تقویت ملے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ اس بے مثال سرمایہ کاری کی وجہ سے، آج بھارت میں ریل-سڑک-فضائی راستے-آبی گزرگاہیں، ٹرانسپورٹ ، یعنی ہر شعبہ تبدیل ہو رہا ہے۔ ہم سمندر اور پہاڑوں کو چیلنج کرتے ہوئے  ایک کے بعد ایک انجینئرنگ کا کمال پیدا کر رہے ہیں، وہ بھی ریکارڈ مدت میں۔ اٹل ٹنل سے اٹل سیتو تک، بھارت کی بنیادی ڈھانچہ جاتی ترقی نئے ریکارڈ بنا رہی ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں بھارت میں 75 نئے ہوائی اڈے بنائے گئے ہیں۔ تقریباً 4 لاکھ کلومیٹر دیہی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔ 90 ہزار کلومیٹر طویل قومی شاہراہیں بنی ہیں۔ 3500 کلو میٹر کے ہائی اسپیڈ کوریڈور تعمیر کئے گئے ہیں۔ 15 نئے شہروں میں میٹرو ریل اور 25 ہزار کلومیٹر کے ریل روٹس بنائے گئے ہیں۔ اس بار کے بجٹ میں 40 ہزار ریلوے کوچوں کو وندے بھارت ٹرین کے ڈبوں کی طرح جدید بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ 40 ہزار بوگیاں عام ٹرینوں میں لگائی جائیں گی۔ اس سے بھارتیہ  ریلوے کی تصویر ضرور بدلنا طے ہے۔

دوستو

ہماری حکومت کی اس رفتار اور پیمانے نے بھارت میں موبیلٹی  کی تعریف بھی بدل دی ہے۔ ہماری حکومت کا اس بات پر  زور رہا ہے کہ منصوبے وقت پر مکمل ہوں، اٹکے نہیں، بھٹکے نہیں، رکے نہیں۔ نقل و حمل کو آسان بنانے  کے لئے، لاجسٹکس سے متعلق چیلنجوں کو کم کرنے کے لیے، ہماری حکومت نے تاریخی تبدیلیاں  کی ہیں۔ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے تحت آج ملک میں مربوط ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔  ائیر کرافٹ اور شپ لیزنگ کے لئے GIFT CITY میں ریگولیٹری فریم ورک بنایا گیا ہے۔ لاجسٹک چین کو جدید ترین بنانے کے لیے حکومت نے نیشنل لاجسٹک پالیسی بنائی ہے۔ سامان کی ڈھلائی میں  وقت اور لاگت کو کم کرنے کے لیے ڈیڈی کیٹ فریٹ کوریڈور تیار کیے گئے ہیں۔ کل بجٹ میں جن تین ریلوے اکانومک کوریڈورکا اعلان کیا گیا ہے، ا س سے بھارت میں  ایز آف ٹرانسپورٹ  کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔

دوستو

آج بھارت میں قومی شاہراہوں اور جدید ایکسپریس ویز کی تعمیر کے ذریعے کنیکٹیوٹی کو مسلسل مضبوط کیا جا رہا ہے۔ جی ایس ٹی نے نہ صرف سامان کی نقل و حرکت کو تیز کردیا ہے بلکہ ریاستوں کی سرحدوں پر  جو چیک پوسٹ  ہوتے تھے، انھیں بھی  ختم کردیا ہے۔ فاسٹ ٹیگ ٹیکنالوجی بھی  صنعت کے لیے ایندھن اور وقت دونوں کی بچت بھی کر رہی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق فاسٹ ٹیگ سے معیشت کو ہر سال 40 ہزار کروڑ روپے کا فائدہ ہو رہا ہے۔

دوستو،

آج بھارت دنیا کا معاشی پاور ہاؤس بننے کے دہانے پر ہے۔ آٹو اور آٹوموٹیو کمپوننٹ انڈسٹری اس میں بڑا کردار ادا کرنے جا رہی ہے۔ ملک کی کل برآمدات میں آپ کی صنعت کی بڑی نمائندگی ہے۔ بھارت آج مسافر گاڑیوں کے معاملے میں دنیا کی تیسری بڑی منڈی ہے۔  پوری دنیا میں کمرشل گاڑیاں بنانے والے ملکوں میں ہمارا شمار  تیسرے بڑے ملک  کے طور پر ہوتا ہے۔  ہماری پرزہ جات کی صنعت بھی عالمی سطح پر مسابقتی بن رہی ہے۔ اب امرتکال میں ہمیں ان تمام شعبوں میں دنیا میں ٹاپ پر آنا ہے۔ ہماری حکومت آپ کی تمام کوششوں میں آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ یہ میں آپ کے لیے کہہ رہا تھا۔ حکومت نے آپ کی صنعت کے لیے 25 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی پیداوار سے منسلک ترغیبی اسکیم بنائی ہے۔ یہ ہماری پوری ویلیو چین کو خود کفیل بنانے اورایم ایس ایم ایزکو بااختیار بنانے میں بڑا کردار ادا کر رہا ہے۔ حکومت نے بیٹری اسٹوریج کے لیے 18 ہزار کروڑ روپے کی پی ایل آئی اسکیم بنائی ہے۔ اور جب بیٹری اسٹوریج کی بات آتی ہے تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ  میں کیا سوچ رہا  ہوں۔ اگر میں کلین کوکنگ موومنٹ کو آگے بڑھاؤں ۔ فرض کریں کہ ملک میں 25 کروڑ گھر ہیں اور چھتوں پر شمسی توانائی اور بیٹری اسٹوریج کا انتظام  اور اس سے  کھانا پکانے کا نظام، کلین کوکنگ کے نظام کے لیے 25 کروڑ بیٹریوں کی ضرورت ،  یعنی آپ کی گاڑیوں کی بیٹری کی ضرورت سے سینکڑوں گنا زیادہ بیٹریوں کی ضرورت ہے جو اپنے میں  گاڑی کی بیٹری کو بہت سستیا  کردیگی۔ اب آپ آرام سے اس میدان میں آ ئیے، مکمل پیکج لے کر آئیں اور کل حکومت نے بجٹ میں اعلان کیا ہے کہ ہم پہلے حصے میں ایک کروڑ خاندانوں کو روف ٹاپ سولر کے ذریعے کم از کم 300 یونٹ مفت بجلی فراہم کریں گے، اور میرا منصوبہ یہ ہے کہ روف ٹاپ سے اس کے الیکٹرک وہیکل کی چارجنگ  کا نظام  ا کے گھر پر ہی ہو، اس کی گاڑی، اسکوٹی یا اسکوٹر رات کو آئے، اسے چارج کیا جائے اور وہ صبح اپنے راستے پر چلا جائے۔ یعنی ایک طرح سے ڈی سینٹرلائزڈ سسٹم کو روف ٹاپ سولر سسٹم سے مکمل طور پر جوڑنے کا خیال ہے۔ آپ ان تمام باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے منصوبوں میں منصوبہ بندی کریں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ تحقیق اور جانچ کو مزید بہتر بنانے کے لیے قومی پروجیکٹ کو 3200 کروڑ روپے دیے گئے ہیں۔ نیشنل الیکٹرک موبلٹی مشن کی مدد سے، بھارت میں الیکٹرک گاڑیوں کو بنانے کے لئے نئی رفتار حاصل ہوئی ہے۔ ای وی کی مانگ کو بڑھاوا دینے کے لیے حکومت نے تقریباً 10 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ہماری حکومت کی فیم اسکیم بھی بہت کامیاب رہی ہے۔ اس اسکیم کے تحت راجدھانی دہلی سمیت کئی شہروں میں ہزاروں الیکٹرک بسیں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ حکومت ای وی چارجنگ اسٹیشنوں کی تعمیر کے لیے سبسڈی بھی دے رہی ہے۔

دوستو

جیسا میں نے کہا کہ  تحقیق اور اختراع کی حوصلہ افزائی کے لیے کل کے بجٹ میں  ایک لاکھ کروڑ روپے کے فنڈ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسٹارٹ اپس کے لیے دستیاب ٹیکس چھوٹ کو مزید بڑھانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان فیصلوں سے  بھی موبیلٹی سیکٹر میں  نئے امکانات پیدا ہوں گے۔ آج  ای ویزکا سب سے بڑا چیلنج ان کی قیمت اور بیٹریاں ہیں۔ اس فنڈ کو اس سیکٹر میں تحقیق کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہماری روف ٹاپ سولر اسکیم میں ای وی مینوفیکچرنگ سے متعلق ایک جزو بھی ہے، جس سے آٹو سیکٹر کو  بھی مدد ملے گی۔ جب سولر روف ٹاپس کی تعداد بڑھے گی  تو یہ فطری بات ہے کہ بیٹریوں کی بھی بڑی تعداد کی ضرورت ہو گی۔ آپ کے لئے  اس شعبے میں بھی ترقی کی بڑے امکانات ہیں۔ اور  میں تو ایک اور بات کہوں گا۔ کیوں نہیں  ہماری انڈسٹری ایسی تحقیق کرتی  جس سے بھارت میں دستیاب خام مال سے نئی قسم کی بیٹریاں بنائی جا سکیں؟ کیونکہ دنیا  کو فکرہے کہ یہ خام مال کتنے عرے تک  چلے گا اور پھر کیا ہوگا۔ ہم ابھی سے کیوں نہ متبادل اپنائیں؟ میں سمجھ سکتا ہوں کہ ملک فراہم کر سکتا ہے، بہت سے لوگ سوڈیم پر  کام کر  بھی رہے ہیں۔ اور صرف بیٹریاں ہی نہیں، آٹو سیکٹر کو بھی گرین ہائیڈروجن اور ایتھنال کے سیکٹر میں نئی ​​تحقیق کو فروغ دینا چاہیے۔ ہمارے اسٹارٹ اپس نےبھارت میں ڈرون سیکٹر کو ایک نئی پرواز دی ہے۔ اس فنڈ کا استعمال  ڈرون سے متعلق تحقیق میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ آج ہماری آبی گزرگاہی ٹرانسپورٹ ے انتہائی سستے ذرائع کے طور پر ابھری ہیں۔ ہندوستان کی جہاز رانی کی وزارت اب مقامی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے ہائبرڈ جہاز بنانے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ آپ کو بھی اس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے۔

دوستو

آج، آپ تمام صنعت کاروں کے درمیان، مارکیٹ کے بہت سارے مباحثوں کے درمیان، میں آپ کی توجہ ایک انسانی پہلو کی طرف بھی مبذول کرانا چاہتا ہوں۔ ہمارے لاکھوں ڈرائیور اس موبیلٹی سیکٹر کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ ڈرائیور جو ٹرک اور ٹیکسیاں چلاتے ہیں وہ ہمارے سماجی اور معاشی نظام کا لازمی حصہ ہیں۔ اکثر یہ ڈرائیور گھنٹوں ٹرک کو لگاتار چلاتے ہیں اور مالک کا رویہ ،  وقت پر کیوں نہیں آیا،  یہں سے شروع کرتا ہے، کہاں رک گیا تھا،  ان کے پاس آرام کا وقت نہیں ہوتا۔ ایسے مشکل حالات میں کئی بار یہ لوگ سڑک حادثات کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ ہماری حکومت ٹرک ڈرائیوروں اور ان کے اہل خانہ کی فکر کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی ہو رہی ہے کہ مرکزی حکومت نے سفر کے دوران ڈرائیوروں کو آرام فراہم کرنے  کی غرض سے ایک نئی اسکیم پر کام شروع کیا ہے۔ اس سکیم کے تحت تمام قومی شاہراہوں پر ڈرائیوروں کے لیے نئی سہولیات کے ساتھ جدید عمارتیں تعمیر کی جائیں گی۔ ان عمارتوں میں ڈرائیوروں کے لیے کھانے ، پینے کے  لئے صاف پانی، بیت الخلاء، پارکنگ اور آرام کے مکمل انتظامات ہوں گے۔ حکومت، اس اسکیم کے پہلے مرحلے میں ملک بھر میں ایک ہزار ایسی عمارتیں بنا کر شروع کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ ٹرک اور ٹیکسی ڈرائیوروں کے لیے بنائی گئی یہ عمارتیں ڈرائیوروں کے لئے آرام کی آسانی  اور سفر میں آسانی دونوں میں اضافہ کریں گی۔ اس سے ان کی صحت بہتر ہوگی اور حادثات کو روکنے میں بھی کافی مدد مل سکے گی۔

دوستو

اگلے 25 سالوں میں موبیلٹی کے سیکٹر میں بے پناہ امکانات پیدا ہونے والے ہیں۔ لیکن ان امکانات کو مکمل طور پر بروئے کار لانے کے لیے یہ انڈسٹری کی بھی  ذمہ داری ہے کہ وہ خود کو تیزی سے تبدیل کرے۔ موبیلٹی سیکٹر کو تکنیکی افرادی قوت اور تربیت یافتہ ڈرائیوروں کی ضرورت ہے۔ آج ملک میں 15 ہزار سے زیادہ آئی ٹی آئی اس صنعت کو افرادی قوت فراہم کرتے ہیں۔ کیا انڈسٹری  کے لوگ آئی آئی ٹی کے ساتھ مل کر کورسز کو مزید مناسب نہیں  بنا سکتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ حکومت نے ایک اسکریپیج پالیسی بنائی ہے۔ اس کے تحت پرانی گاڑیوں کی اسکریپنگ کے لئے دینے پر، نئی گاڑیوں کی فروخت کے دوران  روڈ ٹیکس میں چھوٹ دی جاتی ہے۔ کیا آٹو انڈسٹری بھی لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایسی مراعات نہیں دے سکتی ہے ؟

دوستو

آپ نے اس ایکسپو کو ٹیگ لائن دی ہے - بیونڈ باونڈریز... یہ الفاظ بھارت کی روح کو ظاہر کرتے ہیں۔ آج ہم پرانی بندشوں کوہٹا کر پوری دنیا کو ساتھ لانا چاہتے  ہیں۔ ہم عالمی سپلائی چین میں بھارت کے کردار کو بڑھانا چاہتے ہیں۔ ببھارتی آٹو انڈسٹری کے سامنے امکانات کا مکمل  آسمان ہے۔ آئیے امرتکال کے وژن پر آگے بڑھیں۔ آئیے بھارت کو اس میدان میں گلوبل لیڈر بنائیں۔ اور میں ٹایر والوں کے علاقے میں بھی  چکر لگاکر آیا ہوں۔ اور میرا  پہلے دن سے ہی ان ٹایر   والوں کی دنیا سے جھگڑا  ہے۔ مجھے ابھی بھی سمجھ نہیں آتا ہے  کہ بھارت جو   ایک کاشتکاری والا ملک ہے۔ اسے ربڑ درآمد کیوں کرنا پڑے؟ کیا ٹائر انڈسٹری کی  جوایسوسی ایشن  ہے وہ  کبھی کسانوں کے ساتھ مل  بیٹھی ہے،اور انہیں جو بھی ٹیکنالوجی کی اصلاح  کرنی ہے، جو بھی رہنمائی کرنی ہے اور انہیں مارکیٹ کی یقین دہانی کرائی ہے؟ مجھے پختہ یقین ہے کہ بھارت کا کسان آپ کی ربڑ کی ضروریات کو پورا کر سکتا ہے ۔ آج، ریسرچ کرکے  جینیاتی طور پر تبدیل شدہ ربڑ کے درختوں پر بہت کام ہوا ہے۔ اس وقت بھارت میں اس کا اتنا زیادہ استعمال نہیں ہو رہا ہے۔ میں ٹائر بنانے والوں سے درخواست کروں گا اور ربڑ کی انڈسٹری سے وابستہ صنعتوں سے درخواست کروں گا کہ کسانوں کے ساتھ جڑیے تو سہی۔  آئیے ہم ایک مربوط جامع نقطہ نظر کے ساتھ آگے بڑھیں۔  ہم ٹکڑوں میں نہ سوچیں۔ ربڑ باہر سے مل جاتاہے، چلو یار ہم اپنا بنائیں گے، ہم دہرائیں گے، ارے کبھی تو سوچو کہ ہمارا کسان مضبوط ہو گیا تو میرے ملک میں چار کاریں اور خریدے گا۔ اور  گاڑی کوئی بھی  خریدے، ٹائر آپ کا ہی ہوگا۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ دوستو جب آپ پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں اکٹھے ہوئے ہیں تو آپ نئے سرے سے کیسے سوچ سکتے ہیں، ایک دوسرے کا مددگار بن کر نئے اختراعی آئیڈیاز کے ساتھ کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اور آج ہم ایسے مرحلے پر ہیں، جتنا ہم مل کر کام کریں گے، ہماری طاقت کئی گنا بڑھے گی اور ہم دنیا پر غلبہ حاصل کرنے کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے۔

دوستو!

ڈیزائن کے میدان میں بھی، آج دنیا کے تمام بڑے شعبوں میں، شاید ہی کوئی ایسا ہو گا جس کی ریسرچ لیب بھارت میں نہ ہو۔ بھارت کے پاس ٹیلنٹ ہے، ڈیزائننگ کا ہنر ہے۔ اب ہمیں اپنے لوگوں کے ذہنوں سے آنے والے ڈیزائن کے ساتھ آنا چاہیے، تاکہ دنیا س کو لگے  یار گاڑی تو بھارت کی  چاہئے، اس پر آواز اٹھانی چاہیے۔ سڑک پر سے گزرنے والا کوئی بھی شخص فخر سے کہے، ارے یہ ہمارا میڈ ان انڈیا ہے، ذرا گاڑی کو دیکھو۔ میں مانتا ہوں کہ یہ مزاج پیدا ہونا چاہیے۔ اور اگر آپ کو اپنے آپ پر یقین ہے تو دنیا آپ پر یقین  کرے گی۔ جب میں یوگا کی بات لے کر دنیا میں گیا تھا تو میں نے اقوام متحدہ میں یوگا پر بات کی تھی، پھر جب میں ہندوستان واپس آیا تو بہت سے لوگ مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ  مودی جی  آپ اقوام متحدہ میں پہلی تقریر کرنے گئے تھے اور آپ نے یہ کیا کیا؟  مگر آج پوری دنیا ناک پکڑے بیٹھی ہے۔ اپنے آپ پر یقین رکھیں، مضبوطی کے ساتھ کھڑے ہوجائیے، دنیا کا کوئی راستہ ایسا نہیں ہو، جہاں آپ  نظر نہ آئیں  دوستوں۔ جہاں سے بھی  آپ کی نظریں گزریں، وہاں پر  آپ  کو آپ  ہی کی گاڑی نظر آئے۔ آپ سب کے لیے نیک خواہشات! شکریہ۔

***

س ح، ن ر 

U. No. 4351



(Release ID: 2002201) Visitor Counter : 101