وزیراعظم کا دفتر

من کی بات کے 106ویں ایپی سوڈ میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن (29.10.2023)

Posted On: 29 OCT 2023 11:52AM by PIB Delhi

میرے پیارے ہم وطنوں، نمسکار۔ ’من کی بات‘ میں آپ کا ایک بار پھر خیر مقدم ہے۔ یہ ایپی سوڈ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پورے ملک میں تہواروں  کی امنگ ہے، آپ سبھی کو آنے والے سبھی تہواروں  کی بہت بہت مبارکباد۔

ساتھیو، تہواروں کی اس امنگ کے درمیان، دہلی کی ایک خبر سے ہی میں ’من کی بات‘ کی شروعات کرنا چاہتا ہوں۔ اس مہینہ کی شروعات میں گاندھی جینتی کے موقع پر دہلی میں کھادی کی ریکارڈ فروخت ہوئی۔ یہاں کناٹ پلیس میں، ایک ہی کھادی اسٹور میں، ایک ہی دن میں، ڈیڑھ کروڑ روپے سے زیادہ کا سامان لوگوں نے خریدا۔ اس مہینے چل رہے کھادی مہوتسو نے ایک بار پھر فروخت کے اپنے سارے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ آپ کو ایک اور بات جان کر بھی بہت اچھا لگے گا، دس سال پہلے ملک میں جہاں کھادی پروڈکٹس کی فروخت بڑی مشکل سے 30 ہزار کروڑ روپے سے بھی کم کی تھی، اب یہ بڑھ کر سوا لاکھ کروڑ روپے کے آس پاس پہنچ رہی ہے۔ کھادی کی فروخت بڑھنے کا مطلب ہے اس کا فائدہ شہر سے لے کر گاؤں تک میں الگ الگ طبقوں تک پہنچتا ہے۔ اس فروخت کا فائدہ ہمارے بُنکر، دستکاری کے کاریگر، ہمارے کسان، آیورویدک پودے لگانے والی دیہی صنعت سب کو  فائدہ حاصل ہو رہا ہے، اور، یہی تو، ’ووکل فار لوکل‘ مہم کی طاقت ہے اور دھیرے دھیرے آپ تمام  اہل وطن کی حمایت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

ساتھیو، آج میں اپنی ایک اور اپیل آپ کے سامنے دہرانا چاہتا ہوں اور بہت ہی مؤدبانہ طریقے سے دہرانا چاہتا ہوں۔ جب بھی آپ سیاحت پر جائیں، تیرتھاٹن پر جائیں، تو وہاں کے مقامی کاریگروں کے ذریعے بنائی گئی مصنوعات کو ضرور خریدیں۔ آپ اپنے اُس سفر کے کل بجٹ میں مقامی مصنوعات کی خرید کو ایک اہم ترجیحات کے طور پر ضرور رکھیں۔ 10 فیصد ہو، 20 فیصد ہو، جتنا آپ کا بجٹ بیٹھتا ہو، لوکل پر ضرور خرچ کیجئے گا اور وہیں پر خرچ کیجئے گا۔

ساتھیو، ہر بار کی طرح اس بار بھی، ہمارے تہواروں میں، ہماری ترجیح ہو ’ووکل فار لوکل‘ اور ہم مل کر اُس خواب کو پورا کریں، ہمارا خواب ہے ’آتم نربھر بھارت‘۔ اس بار ایسے پروڈکٹ سے ہی گھر کو روشن کریں جس میں میرے کسی ہم وطن کے پسینے کی خوشبو ہو، میرے ملک کے کسی نوجوان کا ٹیلنٹ ہو، اس کے بننے میں میرے ہم وطنوں کو روزگار ملا ہو، روزمرہ کی زندگی کی کوئی بھی ضرورت ہو – ہم لوکل ہی لیں گے۔ لیکن، آپ کو ایک اور بات پر غور کرنا ہوگا۔ ’ووکل فار لوکل‘ کا یہ جذبہ صرف تہواروں کی خریداری تک کے لیے ہی محدود نہیں ہے اور کہیں تو میں نے دیکھا ہے، دیوالی کا دیا لیتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں ’ووکل فار لوکل‘ – نہیں جی، وہ تو شروعات ہے۔ ہمیں بہت آگے بڑھنا ہے، زندگی کی ہر ضرورت – ہمارے ملک میں، اب، سب کچھ دستیاب ہے۔ یہ وژن صرف چھوٹے دکانداروں اور خوانچہ فروشوں سے سامان لینے تک محدود نہیں ہے۔ آج بھارت، دنیا کا بڑا مینوفیکچرنگ ہب بن رہا ہے۔ کئی بڑے برانڈ یہیں پر اپنے پروڈکٹ کو تیار کر رہے ہیں۔ اگر ہم ان پروڈکٹ کو اپناتے ہیں، تو میک ان انڈیا کو فروغ حاصل ہوتا ہے، اور، یہ بھی، ’لوکل فار ووکل‘ ہی ہونا ہوتا ہے، اور یہاں، ایسے پروڈکٹ کو خریدتے وقت ہمارے ملک کی شان یو پی آئی ڈیجیٹل پیمنٹ سسٹم سے ادائیگی کرنے  میں سبقت حاصل کریں، زندگی میں عادت ڈالیں، اور اس پروڈکٹ کے ساتھ، یا، اس کاریگر کے ساتھ سیلفی  ’نمو ایپ‘ پر میرے ساتھ شیئر کریں اور وہ بھی ’میڈ ان انڈیا اسمارٹ فون‘ سے۔ میں ان میں سے کچھ پوسٹ کو سوشل میڈیا پر شیئر کروں گا تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی ’ووکل فار لوکل‘ کا جذبہ حاصل ہو۔

ساتھیو، جب آپ بھارت میں بنے، ہندوستانیوں کے ذریعے بنائی گئی مصنوعات سے اپنی دیوالی روشن کریں گے، اپنے اہل خانہ کی ہر چھوٹی موٹی ضرورت لوکل سے پوری کریں گے تو دیوالی کی جگمگاہٹ اور زیادہ بڑھے گی ہی بڑھے گی، لیکن، اُن کاریگروں کی زندگی میں ایک نئی دیوالی آئے گی، زندگی کی ایک صبح آئے گی، ان کی زندگی شاندار بنے گی۔ بھارت کو آتم نربھر (خود کفیل) بنائیے، ’میک ان انڈیا‘ ہی منتخب کرتے جائیے، جس سے آپ کے ساتھ ساتھ اور بھی کروڑوں ہم وطنوں کی دیوالی شاندار بنے، جاندار بنے، روشن بنے، دلچسپ بنے۔

میرے پیارے ہم وطنو، 31 اکتوبر کا دن ہم سبھی کے لیے بہت خاص ہوتا ہے۔ اس دن ہمارے مرد آہن سردار ولبھ بھائی پٹیل کی جینتی مناتے ہیں۔ ہم ہندوستانی، انہیں کئی وجہوں سے یاد کرتے ہیں، اور خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ سب سے بڑی وجہ ہے – ملک کی 580 سے زیادہ ریاستوں کو جوڑنے میں ان کا  بے مثال کردار۔ ہم جانتے ہیں کہ ہر سال 31 اکتوبر کو گجرات میں اسٹیچو آف یونٹی پر ایکتا دیوس سے جڑا بنیادی پروگرام ہوتا ہے۔ اس بار اس کے علاوہ دہلی میں کرتویہ پتھ پر ایک بہت ہی خاص پروگرام  منعقد ہو رہا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا، میں پچھلے دنوں ملک کے ہر گاؤں سے، ہر گھر سے مٹی جمع کرنے کی اپیل کی تھی۔ ہر گھر سے مٹی جمع کرنے کے بعد اسے کلش (گھڑے)میں رکھا گیا اور پھر امرت کلش یاترائیں نکالی گئیں۔ ملک کے کونے کونے سے جمع کی گئی یہ مٹی، یہ ہزاروں امرت کلش یاترائیں اب دہلی پہنچ رہی ہیں۔ یہاں دہلی میں اُس مٹی کو ایک  بڑے بھارت کلش میں ڈالا جائے گا اور اسی مقدس مٹی سے دہلی میں ’امرت واٹکا‘ کی تعمیر ہوگی۔ یہ ملک کی راجدھانی کے قلب میں امرت مہوتسو کی عظیم روایت کے طور پر موجود رہے گی۔ 31 اکتوبر کو ہی ملک بھر میں گزشتہ ڈھائی سال سے چل رہے آزادی کے امرت مہوتسو کا اختتام ہوگا۔ آپ سبھی نے ملک کر اسے دنیا میں سب سے لمبے عرصے تک چلنے والے جشن میں سے ایک بنا دیا۔ اپنے فوجیوں کی عزت افزائی ہو یا پھر ہر گھر ترنگا، آزادی کے امرت مہوتسو میں، لوگوں نے اپنی مقامی تاریخ کو ایک نئی شناخت دی ہے۔ اس دوران اجتماعی خدمت کی بھی  شاندار مثال دیکھنے کو ملی ہے۔

ساتھیو، میں آج آپ کو ایک اور خوش خبری سنا رہا ہوں، خاص کر میرے نوجوان بیٹے بیٹیوں کو، جن کے دلوں میں ملک کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ ہے، خواب ہیں، عزائم ہیں۔ یہ خوش خبری  ملک کے شہریوں کے لیے تو ہے ہی، میرے نوجوان ساتھیو آپ کے لیے خاص ہے۔ دو دن بعد ہی، 31 اکتوبر کو ایک بہت بڑی ملک گیر تنظیم کی بنیاد رکھی جا رہی ہے اور وہ بھی سردار صاحب کی جینتی کے دن۔ اس تنظیم کا نام ہے – میرا یوا بھارت، یعنی ’ایم وائی بھارت‘۔ ایم وائی بھارت تنظیم، ہندوستان کے نوجوانوں کو ملک کی تعمیر کے مختلف پروگراموں میں اپنا سرگرم رول  نبھانے کا موقع فراہم کرے گی۔ یہ ترقی یافتہ ہندوستان کی تعمیر میں بھارت کی نوجوان طاقت کو متحد کرنے کی ایک انوکھی کوشش ہے۔  میرا یوا بھارت کی ویب سائٹ ’ایم وائی بھارت‘ بھی شروع ہونے والی ہے۔ میں نوجوانوں سے اپیل کروں گا، بار بار اپیل کروں گا کہ آپ سبھی میرے ملک کے نوجوان، آپ سبھی میرے ملک کے بیٹے بیٹی MYBharat.Gov.in پر رجسٹر کریں اور مختلف پروگراموں کے لیے سائن اپ کریں۔ 31 اکتوبر کو سابق وزیر اعظم محترمہ اندرا گاندھی جی  کا یوم وفات بھی ہے۔ میں انہیں بھی تہ دل سے خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

میرے ہم وطنوں، ہمارا ادب، لٹریچر، ایک بھارت شریشٹھ بھارت کے جذبے کو مضبوط کرنے کے سب سے بہترین ذرائع میں سے ایک ہے۔ میں آپ کے ساتھ تمل ناڈو کی شاندار وراثت سے جڑی دو بہت ہی سبق آموز کوششوں کو شیئر کرنا چاہتا ہوں۔  مجھے تمل کی مشہور مصنفہ بہن شیو شنکری جی کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے ایک پروجیکٹ کیا ہے - Knit India, Through Literature اس کا مطلب ہے – ادب سے ملک کو ایک دھاگے میں پرونا اور جوڑنا۔ وہ اس پروجیکٹ پر گزشتہ 16 برسوں سے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کئی بار کنیا کماری سے کشمیر تک اور امپھال سے جیسلمیر تک ملک بھر کے دورے کیے، تاکہ الگ الگ ریاستوں کے مصنفوں اور شعراء کے انٹرویو کر سکیں۔ شیو شنکری جی نے الگ الگ جگہوں پر اپنا سفر کیا،  ٹریول کمنٹری کے ساتھ انہیں پبلش کیا ہے۔ یہ تمل اور انگریزی دونوں زبانوں میں ہے۔ اس پروجیکٹ میں چار بڑے والیومز ہیں اور ہر والیوم بھارت کے الگ الگ حصے  کے بارے میں ہے۔ مجھے ان کی اس قوت ارادی پر فخر ہے۔

ساتھیو، کنیا کماری کے تھیرو اے کے پیرومل جی کا کام بھی کافی متاثر کرنے والا ہے۔ انہوں نے تم ناڈو کی یہ جو اسٹوری ٹیلنگ ٹریڈن (داستان گوئی کی روایت) ہے اس کو  محفوظ کرنے کا قابل تحسین کام کیا ہے۔ وہ اپنے مشن میں گزشتہ 40 برسوں سے مصروف ہیں۔ اس کے لیے وہ تمل ناڈو کے الگ الگ حصوں میں ٹریول کرتے ہیں اور فوک آرٹ فارمز کو کھوج کر اسے اپنی کتاب کا حصہ بناتے ہیں۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ انہوں نے اب تک ایسی تقریباً 100 کتابیں لکھ ڈالی ہیں۔ اس کے علاوہ پیرومل جی کا ایک اور بھی جنون ہے۔ تمل ناڈو کے ٹیمپل کلچر کے بارے میں ریسرچ کرنا انہیں بہت پسند ہے۔ انہوں نے لیدر پپیٹس (چمڑے کی کٹھ پتلی) پر بھی کافی ریسرچ کی ہے، جس کا فائدہ وہاں کے مقامی لوک کاریگروں کو ہو رہا ہے۔ شیو شنکری جی اور اے کے پیرومل جی کی کوشش ہر کسی کے لیے ایک مثال ہیں۔ بھارت کو اپنی ثقافت کو محفوظ کرنے والی ایسی ہر کوشش پر فخر ہے، جو ہمارے قومی اتحاد کو مضبوطی بخشنے کے ساتھ ہی ملک کا نام، ملک  کا وقار، سب کچھ بڑھائے۔

میرے ہم وطنو، آنے والے 15 نومبر کو پورا ملک جن جاتیہ گورو دیوس منائے گا۔ یہ  خاص دن بھگوان برسا منڈا کی جنم جینتی سے جڑا ہوا ہے۔ بھگوان برسا منڈا ہم سب کے دلوں میں رہتے ہیں۔  سچا حوصلہ کیا ہے اور اپنی قوت ارادی پر قائم رہنا کسے کہتے ہیں، یہ ہم ان کی زندگی سے سیکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی  حکومت کو کبھی قبول نہیں کیا۔ انہوں نے ایسے معاشرے کا تصور کیا تھا، جہاں نا انصافی کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ ہر شخص کو عزت اور برابری کی زندگی حاصل ہو۔ بھگوان برسا منڈا نے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی سے رہنا، اس پر بھی ہمیشہ زور دیا۔ آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہمارے آدیواسی بھائی بہن فطرت کی دیکھ بھال اور اس کے تحفظ کے لیے ہر طرح سے وقف ہیں۔ ہم سب کے لیے، ہمارے آدیواسی بھائی بہنوں کا یہ کام بہت بڑا سبق ہے۔

ساتھیو، کل یعنی 30 اکتوبر کو گووند  گرو جی کا یوم وفات بھی ہے۔ ہمارے گجرات اور راجستھان کے آدیواسی اور محروم طبقوں کی زندگی میں گووند گرو جی کی  بہت خاص اہمیت رہی ہے۔ گووند گرو جی کو بھی میں اپنا خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ نومبر مہینہ میں ہم مان گڑھ قتل عام کی برسی بھی مناتے ہیں۔ میں اس قتل عام میں، شہید ماں بھارتی کو، سبھی  اولادوں کو  خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو، ہندوستان میں آدیواسی جانبازوں کی شاندار تاریخ رہی ہے۔ بھارت کی اسی سرزمین پر عظیم تلک مانجھی نے ناانصافی کے خلاف  بگل پھونکا تھا۔ اسی سرزمین سے سدھو کانہو نے  برابری کی آواز اٹھائی۔ ہمیں فخر ہے کہ جن  جانباز ٹنٹیا بھیل نے ہماری سرزمین پر جنم لیا۔ ہم شہید ویر نارائن سنگھ کو پوری عقیدت کے ساتھ یاد کرتے ہیں، جو مشکل حالات میں اپنے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہے۔ ویر رام جی گونڈ ہوں، ویر گنڈا دھر ہوں، بھیما نائک ہوں، ان کی شجاعت آج بھی ہمیں حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ الوری سیتا رام راجو نے آدیواسی بھائی بہنوں میں جو بیداری پیدا کی، اسے ملک آج بھی یاد کرتا ہے۔ نارتھ ایسٹ میں کیانگ نوبانگ اور رانی گائی دنلیو جیسے مجاہدین آزادی سے بھی ہمیں کافی حوصلہ ملتا ہے۔ آدیواسی سماج سے ہی ملک کو راج موہنی دیوی اور رانی کملا پتی جیسی بہادر خواتین ملیں۔ ملک اس وقت آدیواسی سماج کو حوصلہ بخشنے والی رانی درگاوتی جی کی 500ویں جینتی منا رہا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ملک کے زیادہ سے زیادہ نوجوان اپنے علاقے کی آدیواسی شخصیتوں کے بارے میں جانیں گے اور ان سے سبق حاصل کریں گے۔ ملک اپنے آدیواسی سماج کا مرہون منت ہے، جنہوں نے ملک کے وقار اور ترقی کو ہمیشہ سب سے اوپر رکھا ہے۔

میرے پیارے ہم وطنو، تہواروں کے اس موسم میں، اس وقت ملک میں اسپورٹس کا بھی پرچم لہرا رہا ہے۔ پچھلے دنوں ایشیائی گیمز میں بھی ہندوستانی کھلاڑیوں نے زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔ ان کھیلوں میں بھارت نے 111 میڈل جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ میں پیرا ایشیائی گیمز میں حصہ لینے والے تمام ایتھلیٹوں کو بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ساتھیو، میں آپ کی توجہ اسپیشل اولمپکس ورلڈ سمر گیمز کی طرف بھی لے جانا چاہتا ہوں۔ اس کا انعقاد برلن میں ہوا تھا۔ یہ مقابلہ ہمارے Intellectual Disabilities والے ایتھلیٹوں کی بے پناہ صلاحیت کو سامنے لاتا ہے۔ اس مقابلہ میں ہندوستانی ٹیم نے 75 گولڈ میڈل سمیت 200 تمغے جیتے۔ رولر اسکیٹنگ ہو، بیچ والی بال ہو، فٹ بال ہو، یا ٹینس، ہندوستانی کھلاڑیوں نے میڈل کی جھڑی لگا دی۔ ان  میڈل فاتحین کی لائف جرنی کافی انسپائرنگ رہی ہے۔ ہریانہ کے رنویر سینی نے گولف میں گولڈ میڈل جیتا ہے۔ بچپن سے ہی  سے Autism میں مبتلا رنویر کے لیے کوئی بھی چنوتی گولف کو لے کر ان کے جنون کو کم نہیں کر پائی۔ ان کی ماں تو یہاں تک کہتی ہیں کہ فیملی میں آج سب گولفر بن گئے ہیں۔ پڈوچیری کے 16 سال کے ٹی وشال نے چار میڈل جیتے۔ گوا کی سیا سرودے نے پاور لفٹنگ میں 2 گولڈ میڈل سمیت چار میڈل اپنے نام کیے۔ 9 سال کی عمر میں اپنی ماں کو کھونے کے بعد بھی انہوں نے خود کو مایوس نہیں ہونے دیا۔ چھتیس گڑھ کے درگ کے رہنے والے انوراگ پرساد نے پاور لفٹنگ میں تین گولڈ اور ایک سلور میڈل جیتا ہے۔ ایسی ہی حوصلہ افزا کہانی جھارکھنڈ کے اندو پرکاش کی ہے، جنہوں نے سائیکلنگ میں دو میڈل جیتے ہیں۔ بہت ہی معمولی خاندان سے آنے کے باوجود، اندو نے غریبی کو کبھی اپنی کامیابی کے سامنے دیوار نہیں بننے دیا۔ مجھے یقین ہے کہ ان کھیلوں میں ہندوستانی کھلاڑیوں کی کامیابی Intellectual Disabilities کا مقابلہ کر رہے دیگر بچوں اور خاندانوں کو بھی حوصلہ فراہم کرے گی۔ میری آپ سب سے بھی گزارش ہے آپ کے گاؤں میں، آپ کے گاؤں کے  ارد گرد، ایسے بچے جنہوں نے اس کھیل کود میں حصہ لیا ہے یا فاتح ہوئے ہیں، آپ معہ خاندان ان کے ساتھ جائیے۔ ان کو مبارکباد دیجئے۔ اور کچھ لمحہ ان بچوں کے ساتھ گزارئیے۔ آپ کو ایک نیا ہی تجربہ ہوگا۔ پرماتما نے ان کے اندر ایک ایسی طاقت بھری ہے آپ کو بھی اس کے درشن کا موقع ملے گا۔ ضرور جائیے گا۔

میرے ہم وطنو، آپ سبھی نے گجرات کے تیرتھ علاقہ امبا جی مندر کے بارے میں تو ضرور ہی سنا ہوگا۔ یہ ایک اہم شکتی پیٹھ ہے، جہاں ملک و بیرون ملک سے بڑی تعداد میں عقیدت مند ماں امبے کے درشن کے لیے پہنچتے ہیں۔ یہاں گبر پروت (پہاڑ) کے راستے میں آپ کو مختلف قسم کی یوگ مدراؤں اور آسنوں  کے مجسمے دکھائی دیں گے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ان مجسموں کی خاص بات کیا ہے؟ دراصل یہ Scrap سے بنے Sculpture ہیں، ایک طرح سے کباڑ سے بنے ہوئے اور جو  بیحد خوبصورت ہیں۔ یعنی یہ مجسمے استعمال ہو چکی، کباڑ میں پھینک دی گئی پرانی چیزوں سے بنائے گئے ہیں۔ امباجی شکتی پیٹھ پر دیوی ماں کے درشن کے ساتھ ساتھ یہ مجسمے بھی عقیدت مندوں کے لیے توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔ اس کوشش کی کامیابی کو دیکھ کر، میرے من میں ایک خیال بھی آ رہا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں، جو ویسٹ سے اس طرح  کے فن پارے بنا سکتے ہیں۔ تو میری گجرات سرکار سے اپیل ہے کہ وہ ایک  مقابلہ شروع کرے اور ایسے لوگوں کو مدعو کرے۔ یہ کوشش، گبر پروت کی دلکشی بڑھانے کے ساتھ ہی، پورے ملک میں ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘ مہم کے لیے لوگوں کو آمادہ کرے گی۔

ساتھیو، جب بھی سووچھ بھارت اور ’ویسٹ ٹو ویلتھ‘ کی بات آتی ہے، تو ہمیں ملک کے کونے کونے سے بے شمار مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ آسام کے کامروپ میٹروپولیٹن ڈسٹرکٹ میں اکشر فورم اس نام کا ایک اسکول بچوں میں پائیدار ترقی کا جذبہ بھرنے کا، اخلاقیات کا، ایک مسلسل کام کر رہا ہے۔ یہاں پڑھنے والے طلباء ہر ہفتے پلاسٹک ویسٹ جمع کرتے ہیں، جس کا استعمال ایکو فرینڈلی اینٹیں اور چابی کی چین جیسے سامان بنانے میں ہوتا ہے۔ یہاں اسٹوڈنٹس کو ری سائیکلنگ اور پلاسٹک ویسٹ سے پروڈکٹس بنانا بھی سکھایا جاتا ہے۔ کم عمر میں ہی ماحولیات کے تئیں یہ بیداری، ان بچوں کو ملک کا ایک فرض شناس شہری بنانے میں بہت مدد کرے گی۔

میرے ہم وطنو، آج زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں، جہاں ہمیں خواتین کی صلاحیت دیکھنے کو نہیں مل رہی ہو۔ اس دور میں، جب ہر طرف ان کی حصولیابیوں کو سراہا جا رہا ہے، تو ہمیں بھکتی کی شکتی کو دکھانے والی ایک ایسی خاتون سنت (سادھو) کو بھی یاد رکھنا ہے، جس کا نام تاریخ کے سنہرے صفحات میں درج ہے۔ ملک اس سال عظیم سنت میرا بائی کی 525ویں جنم جینتی منا رہا ہے۔ وہ ملک بھر کے لوگوں کے لیے کئی وجہوں سے حوصلے کا باعث رہی ہیں۔ اگر کسی کی موسیقی میں دلچسپی ہو، تو وہ موسیقی کے تئیں خود کو وقف کر دینے کی بڑی مثال ہی ہے، اگر کسی کو شاعری سے محبت ہو، تو بھکتی رس میں ڈوبے میرا بائی کے بھجن، اسے الگ ہی مزہ دیتے ہیں، اگر کوئی غیبی طاقت میں یقین رکھتا ہو، تو میرا بائی کا  شری کرشن میں محو ہو جانا اس کے لیے ایک بڑا سبق بن سکتا ہے۔ میرا بائی، سنت روی داس کو اپنا گرو مانتی تھیں۔ وہ کہتی بھی تھیں –

گرو ملیا ریداس، دینہی گیان کی گٹکی۔

ملک کی ماؤں،  بہنوں اور بیٹیوں کے لیے میرا بائی آج بھی حوصلے کا باعث ہیں۔ اس دور میں بھی انہوں نے اپنے اندر کی آواز کو ہی سنا اور قدامت پرست تصورات کے خلاف کھڑی ہوئیں۔ ایک سنت کے روپ میں بھی وہ ہم سب کو  حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔ وہ ہندوستانی معاشرہ اور ثقافت کو تب مضبوط کرنے کے لیے آگے آئیں، جب ملک کئی قسم کے حملے کا سامنا کر رہا تھا۔ سادگی میں کتنی طاقت ہوتی ہے، یہ ہمیں میرا بائی کے دور حیات سے پتہ چلتا ہے۔ میں سنت میرا بائی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

میرے پیارے ہم وطنو، اس بار ’من کی بات‘ میں اتنا ہی۔ آپ سب کے ساتھ ہونے والی ہر گفتگو مجھے نئی توانائی سے بھر دیتی ہے۔ آپ کے پیغامات میں امید اور Positivity سے جڑی سینکڑوں کہانیاں مجھ تک پہنچتی رہتی ہیں۔ میری پھر سے آپ سے اپیل ہے – آتم نربھر بھارت مہم پر زور دیں۔ مقامی مصنوعات خریدیں، لوکل کے لیے ووکل بنیں۔ جیسے آپ اپنے گھر کو صاف رکھتے ہیں، ویسے ہی اپنے محلے اور شہر کو صاف رکھیں اور آپ کو معلوم ہے، 31 اکتوبر سردار صاحب کی جینتی کو ملک ایکتا دیوس  کے طور پر مناتا ہے، ملک کے متعدد مقامات پر Run for Unity کے پروگرام ہوتے ہیں، آپ بھی 31 اکتوبر کو Run for Unity کے پروگرام منعقد کریں۔ بہت بڑی تعداد میں آپ بھی جڑیں،  اتحاد کے عزم کو مضبوط کریں۔ ایک بار پھر میں آنے والے تہواروں کے لیے  ڈھیروں مبارکباد دیتا ہوں۔ آپ سبھی فیملی سمیت خوشیاں منائیں، صحت مند رہیں، مزے میں رہیں،  یہی میری تمنا ہے۔ اور ہاں، دیوالی کے وقت کہیں ایسی غلطی نہ ہو جائے کہ کہیں آگ لگنے کا کوئی واقعہ ہو جائے۔ کسی کی زندگی کو خطرہ ہو جائے، تو آپ ضرور سنبھالیے۔ خود کو بھی سنبھالیے اور پورے علاقے کو بھی سنبھالیے۔

بہت بہت مبارکباد۔

بہت بہت شکریہ۔

*****

ش ح – ق ت – ت ع

U No.: 421

 

 



(Release ID: 1972803) Visitor Counter : 134