وزیراعظم کا دفتر

قومی ایوارڈ 2022  حاصل کرنے والے اساتذہ کے ساتھ وزیراعظم کی  گفت و شنیدکا بنیادی متن

Posted On: 05 SEP 2022 10:38PM by PIB Delhi

نئی دہلی ، 05 ستمبر، 2022

مرکزی کابینہ کے میرے ساتھی دھرمیندر جی، اناپورنا دیوی جی اور ملک بھر سے آئے ہوئے میرے تمام اساتذہ ساتھی اور آپ کے توسط سے ایک طرح سے میں، آج ملک کے تمام اساتذہ سے بھی بات  چیت کر رہا ہوں۔

آج ملک ہندوستان کے سابق صدر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر رادھا کرشنن جی کو ان کے یوم پیدائش پر خراج عقیدت پیش کر رہا ہے اور یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارے موجودہ صدر بھی ایک استاد ہیں۔ اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں انہوں نے ایک استاد کے طور پر کام کیا اور وہ بھی دور افتادہ اڑیسہ کے اندرونی علاقے میں اور وہاں سے ان کی زندگی کئی لحاظ سے ہمارے لیے ایک خوشگوار اتفاق ہے اور آپ کی ایک  ایسے  استاد  صدر جمہوریہ کے  ہاتھوں عزت و تکریم نصیب ہوئی۔ تو  یہ آپ کے لیے فخر کی بات ہے۔

دیکھئے، آج جب ملک نے آزادی کے امرت کال کے اپنے عظیم خوابوں کو پورا کرنا شروع کر دیا ہے، تب تعلیم کے میدان میں رادھا کرشنن کی کوششیں ہم سب کو متاثر کرتی ہیں۔ اس موقع پر میں آپ سبھی اساتذہ کو مبارکباد دیتا ہوں جنہوں نے قومی ایوارڈ حاصل کیے ہیں، ایسے ایوارڈ ریاستوں میں بھی دیئے جاتے ہیں، ان سب کو بھی میں بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

ابھی مجھے بہت سے اساتذہ سے بات چیت کا موقع ملا۔ ہر کوئی مختلف زبانیں بولتا ہے،  الگ الگ طرح کا تجربہ کرنے والے لوگ ہیں ۔زبان مختلف ہوگی، خطہ مختلف ہوگا، مسائل مختلف ہوں گے، لیکن  یہ بھی ہے کہ ان کے درمیان ، آپ خواہ کچھ بھی ہوں، آپ سب میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے آپ کا کام، آپ کا اپنے طلباء کے لیے وقف رہنا۔ اور یہ مماثلت آپ میں ہے، سب سے بڑی بات جو اندر سے ہوتی ہے اور آپ نے دیکھی ہی ہوگی، جو ایک کامیاب استاد رہا ہوگا، وہ کبھی بچے کو یہ نہیں کہتا کہ یہ تمہارے بس کا روگ نہیں، نہیں کہتا۔ استاد کی جو سب سے بڑی طاقت  ہوتی ہے ، وہ ا س کی پازیٹیوٹی ہوتی ہے،یعنی مثبتیت ہے۔ پڑھ لکھنے میں بچہ خواہ کتنا ہی کمزور ہو … ارے کرو بیٹے ہو جائے گا۔ ارے دیکھو اس نے کر دیا، تم بھی کرو، ہو جائے گا۔

یعنی آپ نے دیکھا کہ وہ اس سے واقف بھی نہیں ہے لیکن یہ استاد کی خوبیوں میں ہے۔ وہ ہر بار مثبت ہی بولے گا، منفی تبصرے کر کے کسی کو مایوس کرنا اس کی فطرت میں نہیں ہے۔ اور یہ ایک استاد کا کردار ہے جو انسان کو روشنی دکھانے کا کام کرتا ہے۔ وہ خواب بوتا ہے، جو استاد ہے نہ، وہ ہر بچے میں خواب بوتا ہے اور انہیں عزم میں بدلنے کی تربیت دیتا ہے، کہ دیکھو یہ خواب پورا ہو سکتا ہے، ایک بار عزم کرو، لگ جاؤ ۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بچہ خوابوں کو عزم  میں تبدیل کردیتا ہے اور استاد کے دکھائے ہوئے راستے کو ثابت  کردیتا ہے۔ یعنی خواب سے تکمیل تک کا یہ سارا سفر اسی روشنی کی شعاع سے ہوتا ہے، جو ایک استاد نے  اس کی زندگی میں ایک خواب بویا تھا، ایک چراغ جلایا تھا۔ جو بہت سے چیلنجوں اور اندھیروں کے درمیان بھی اسے راستہ دکھاتا ہے۔

اور اب ملک بھی نئے نئے خواب، نئی عہد  لے کر  ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے  آج جو نسل ہے، جو طالب علمی کے دور میں ہے، 2047 میں ہندوستان کیسا بنے گا، اس کا فیصلہ انہیں ہی کرنا  ہے۔ اور ان کی زندگی آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2047 کو ملک کی تعمیر کا کام،  آج جو موجودہ وقت میں اساتذہ ہیں، جو آنے والے 10 سال، 20 سال خدمات دینے والے ہیں،ان کے ہاتھ میں  2047 کا مستقبل  طے کرنے کی کلید ہے۔

اور اسی لیے ایک اسکول میں آپ نوکری کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے کہ آپ کلاس روم میں بچوں کو پڑھاتے ہیں، ایسا نہیں ہے، آپ ایک نصاب کو اٹینڈ کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے۔ آپ ان کے ساتھ  جڑ کر کے ان کی زندگی بنانے کا کام اور ان کی زندگی  کے توسط سے ملک کی تعمیر کا خواب لے کر چلتے ہیں۔ جس استاد کا اپنا ایک چھوٹا سا خواب ہوتا ہے، اس کے ذہن میں 10 سے 5 ہی بھرے ہوتے ہیں، آج چار پیریڈ لینے ہیں، وہی رہتا ہے۔ تو وہ، اس کے لیے تنخواہ لیتا ہے، ایک تاریخ کا انتظار کرتا ہے، لیکن اس کو لطف نہیں آتا، وہ ان چیزوں کو بوجھ سمجھتا ہے۔ لیکن جب وہ اسکے خوابوں سے جڑ جاتا ہے تو پھر اسے کوئی چیز بوجھ نہیں لگتی۔ وہ سوچتا ہے ارے! اپنے اس کام سے میں ملک کے لیے اتنا بڑا حصہ ڈالوں گا۔ اگر میں کھیل کے میدان میں کسی کھلاڑی کو تیار کرتا ہوں اور میں خواب دیکھوں کہ کبھی نہ کبھی  میں اسے دنیا میں کہیں ترنگے جھنڈے کے سامنے کھڑا دیکھنا چاہتا ہوں... آپ  تصور کر سکتے ہیں، آپ  اس کام سے کس قدر لطف اندوز ہوں گے۔ آپ کو رات رات بھر  جاگنے میں کتنا مزہ آئے گا؟

اور اسی لیے ٹیچر کے ذہن میں صرف وہ کلاس روم ہوتا ہے، اسے اپنا پیریڈ لینا پڑتا ہے، چار، پانچ، وہ آج آیا نہیں ہے، تو مجھے اس کے بدلے جانا پڑرہا  ہے، اسے اس سارے بوجھ سے آزاد کر کے… میں  آپ کی مشکلات جانتا ہوں، اسی لیے بول رہا ہوں... اس بوجھ سے چھٹکارا پا کر، اگر ہم ان بچوں کے ساتھ، ان کی زندگیوں کے ساتھ جڑجاتے ہیں ۔

دوسرا، بالآخر ہم نے بچے کو پڑھانا ہے، علم تو دینا ہے، لیکن ہمیں اس کی زندگی بنانی ہے۔ لیکن زندگی تنہائی میں نہیں بنتی،  اگر وہ کلاس روم میں کسی کو دیکھتا ہے، اسکول کے احاطے میں کچھ اور دیکھتا ہے، گھر کے ماحول میں کچھ اور دیکھتا ہے تو بچہ تنازعات اور تضادات میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اسے لگتا ہے کہ ماں یہ کہہ رہی تھی اور ٹیچر یہ کہہ رہی تھی اور کلاس کے باقی لوگ بھی یہی کہہ رہے تھے۔ اس بچے کو مخمصے کی زندگی سے نکالنا ہمارا کام ہے۔ لیکن اس کے پاس کوئی انجکشن نہیں ہے، کہ چلو آج یہ انجکشن لے لو، آپ مخمصے سے باہر ۔ ٹیکہ لگادو، مخمصے سے باہر، ایسا تو نہیں ہے۔ اور اس کے لیے استاد کا مربوط انداز اختیار کرنا بہت ضروری ہے۔

کتنے اساتذہ ہیں، جو طلبا کے اہل خانہ کو جانتے ہیں، کبھی گھر والوں سے ملے ہیں، کبھی ان سے پوچھا ہے کہ گھر آکر بچہ کیا کرتا ہے ، کیسے کرتا ہے ،  آپ کو کیا لگتا ہے ؟ اور کبھی یہ بتایا   کہ دیکھو بھائی تمہارا بچہ میری کلاس میں آتا ہے، اس میں یہ بڑی صفت ہے۔ گھر میں بھی تھوڑا سا دیکھ لیں تو بات بہت آگے نکل جائے گی۔ میں  تو ہوں ہی ، میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا، لیکن آپ میری تھوڑی بہت مدد کریں۔

تو ان لوگوں کے اندر  بھی آپ ایک خواب بوکرآ جاتے  ہیں اور وہ آپ کے ہم سفر بن جاتے ہیں۔ پھر گھربھی اپنے آپ میں اسکولی تہذیب میں تبدیل ہوجاتا ہے۔  جو خواب آپ کلاس روم میں بوتے ہیں، وہ خواب اسی گھر کے اندر پھولواری  بن کر کھلنے لگتے ہیں۔ اور اسی لئے  ہماری کوشش کیا ہے، اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ کوئی طالب علم آپ کو بہت پریشان کرتا ہے، یہ ایسا ہی ہے ، وقت خراب کرتا ہے، جب آپ کلاس میں آتے ہیں تو پہلی نظر وہیں جاتی ہے، پھر آپ کا آدھا دماغ وہاں خراب ہوجاتا ہے۔  میں آپ کے اندر سے بول رہا ہوں۔ اور وہ بھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ صرف پہلی بینچ پر ہی بیٹھے گا، اس کو بھی لگتا ہے کہ اگر یہ استاد مجھے پسند نہیں  تو وہ پہلے سامنے آئے گا۔ اور یہ آپ کا آدھا وقت کھا جاتا ہے۔

ایسے میں ان دوسرے بچوں کے ساتھ ناانصافی ہو جائے… کیا وجہ ہے، میری پسند اور ناپسند؟ ایک کامیاب استاد وہ ہوتا ہے جسے بچوں کے حوالے سے، طالب علموں کے حوالے سے نہ کوئی پسند ہو نہ  کوئی ناپسند ہو۔ اس کے لیے وہ سب برابر ہوتے ہیں۔ میں نے ایسے اساتذہ کو دیکھا ہے جن کے اپنے بچے اسی  کلاس روم میں ہوتے ہیں۔ لیکن وہ اساتذہ بھی کلاس میں اپنے بچوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو وہ تمام طلبا  کے ساتھ کرتے ہیں۔

اگر چار لوگوں سے پوچھنا ہو، جب اس کی باری آتی ہے، تو وہ اس سے بھی پوچھتا ہے، اسے کبھی خاص نہیں کہتا کہ تم یہ بتاؤ، تم یہ کرو، کبھی نہیں۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسے ایک اچھی ماں کی ضرورت ہے، ایک اچھے باپ کی ضرورت ہے، لیکن  ایک اچھے استاد کی بھی ضرورت ہے۔ اس لیے ان کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ گھر میں والدین کا کردار ادا کروں، لیکن کلاس میں مجھے استاد اور طالب علم کا رشتہ برقرار رکھنا چاہیے، وہ خاندانی رشتہ یہاں نہیں آنا چاہیے۔

یہ استاد کی بہت بڑی  قربانی ہوتی ہے، تب ہی یہ ممکن ہے۔ اپنا خیال رکھنا اور اس طرح کام کرنا،اسی صورت  یہ ممکن ہے۔ اور اس لئے ہمارے یہاں جو تعلیمی نظام ہے، ہندوستان کی جو روایت رہی ہے وہ  کبھی کتابوں تک محدود نہیں رہی، کبھی نہیں رہی۔ وہ  تو ایک طرح سے ہمارے لیے ایک  سہارا ہے۔ ہم بہت سی چیزیں کرتے ہیں… اور آج ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ بہت ممکن ہو گیا ہے۔ اور میں دیکھ رہا ہوں کہ ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہمارے گاؤں کے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد، جنہوں نے خود ٹیکنالوجی میں تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن کرتے کرتے وہ سیکھ گئے ۔ اور انہوں نے بھی سوچا کہ بھائی چونکہ اس کا ذہن طالب علم سے بھرا ہوا ہے، اس کا ذہن نصاب سے بھرا ہوا ہے، اس لیے وہ ایسی چیزیں تیار کرتا ہے، جو اس بچے کے لیے مفید ہوں۔

یہاں حکومت میں بیٹھے لوگوں کے ذہنوں میں کیا ہے، اعداد و شمار باقی ہیں کہ کتنے اساتذہ کی بھرتی ہونا باقی ہے، کتنے طلبا تعلیم چھوڑ چکے ہیں، لڑکیوں کا داخلہ ہوا یا نہیں، یہ ان کے ذہن میں رہتا ہے، لیکن استاد  کے دماغ میں اس کی زندگی رہتی ہے... یہ بہت بڑا فرق ہے۔ اور اسی لئے اگر استاد ان تمام ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے اٹھالیتا ہے۔

اب ہماری  جوقومی تعلیمی پالیسی آ گئی ہے، اس کی اتنی تعریف ہو رہی ہے، اتنی تعریف ہورہی ہے، تو کیوں ہورہی ہے ، اس میں  کچھ خامیاں نہیں ہوں گی ، میں یہ دعویٰ نہیں کر سکتا، کوئی دعویٰ نہیں کر سکتا۔ لیکن لوگوں کے ذہن میں جو تھا، وہ سوچتے تھے، یار یہ کوئی راستہ دکھا رہا ہے،  کسی ایک  صحیح سمت میں جا رہا ہے۔ چلو اسی راستے پر چلتے ہیں۔

ہم اپنی پرانی عادتوں میں اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ قومی تعلیمی پالیسی کو ایک بار پڑھنے سننے سے بات بننے والی نہیں ہے۔ مہاتما گاندھی جی سے ایک بار کسی نے پوچھا  تھاکہ بھائی اگر آپ کے ذہن میں کوئی شک ہے ، کوئی پریشانی ہو تو آپ  کیا کرتے ہیں ؟ تو انہوں نے کہا تھا  کہ مجھے بھگوت گیتا سے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ اس کا مطلب  وہ باربار اس کو پڑھتے ہیں، بار بار اس کے معنی بدلتے رہتے  ہیں، بار بار نئے معنی نظر آتے ہیں، بار بار ایک  روشنی کی ایک نئی کرن  ان کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے۔

یہ قومی تعلیمی پالیسی بھی، جب تک تعلیم کی دنیا کے لوگ  اس سے ہر مسئلے کا حل  نہ نکالیں ، اس میں کیا ہے دس بار پڑھیں، 12 بار پڑھیں، 15 بار پڑھیں،کہ اس میں حل کیا ہے۔ ہم اسے اسی طرح دیکھیں گے۔ ایک بار آ گیا تو سرکلر دیکھ لیں، ویسے دیکھا تو  نہیں ہو گا۔اس کو ہمیں اپنی رگوں میں، اپنے دماغ میں اتارنا ہے۔ اگر یہ کوشش کی جائے تو مجھے یقین ہے کہ  قومی قومی تعلیمی پالیسی بنانے میں ہمارے ملک کے اساتذہ نے بڑا کردار ادا کیا ہے۔ اس کو تیارکرنے میں لاکھوں اساتذہ نے اپنا تعاون دیا  ہے۔

ملک میں پہلی بار اتنے وسیع پیمانے پر غوروخوض کا کام ہوا  ہے۔ یہ ان اساتذہ کا کام ہے جنہوں نے اسے بنایا ہے کہ سرکاری زبان وغیرہ بچوں کے لیے مفید نہیں، آپ کو ذریعہ بننا ہوگا کہ یہ سرکاری دستاویزات ہیں، وہ  ان کی زندگی کی بنیاد کیسے بنیں۔ مجھے اس کا ترجمہ کرنا ہے، مجھے اسے ایک سادہ، آسان طریقے سے سمجھانا ہے، یہاں تک کہ اسے فل اسٹاپ رکھتے ہوئے، کوما کے ساتھ۔ اور میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جیسے کچھ تھیٹر کے تجربات ہوتے ہیں، کچھ مضمون نویسی کے ہوتے ہیں، کچھ شخصیت سازی کے مقابلے ہوتے ہیں، بچوں کو قومی تعلیمی پالیسی پر بحث کرنی چاہیے۔ کیونکہ استاد انہیں تیار کرے گا، جب وہ بولیں گے تو کچھ نئی چیزیں بھی سامنے آئیں گی۔ تو یہ  ایک کوشش ضرور  کی جانی چاہئے۔

آپ جانتے ہیں کہ  ابھی میں نے15 اگست کو آزادی کے 75 سال کے موقع پر جو تقریر  کی تھی،  تو اس کا اپنا ایک الگ مزاج بھی تھا۔ تو میں نے 2047 کو ذہن میں رکھ کر بات کی تھی۔ اور اس میں میں نے زور دیا کہ پانچ عہد پربحث کی جائے۔ کیا ان پانچ عہد پر ہمارے کلاس روم میں بحث کی جا سکتی ہے؟ اسمبلی جب ہوتی ہے ،  چلئے بھائی آج  فلاں طالب علم اور فلاں  استاد پہلے عہد پر  بولیں گے، منگل کو دوسرے عہد پر ، بدھ کو تیسرے عہد پر ، جمعہ کو  پانچویں عہدپر اور پھر اگلے ہفتے پہلے عہد پر ، فلاں استاد، فلاں استاد۔ یعنی سال بھر اس کا مطلب کیا ہے، ہمیں کیا کرنا ہے، یہ پانچ عہد ہمارے لئے بھی پانچ عناصر ہونے چاہئیں ، ہرشہری کے لئے ہونا چاہئے ۔

اس طرح اگر ہم کر سکتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعریف ہو رہی ہے، سب کہہ رہے ہیں کہ ہاں بھائی، یہ پانچ عہد ایسے ہیں جو ہمارے آگے بڑھنے کا راستہ بناتے ہیں۔ تو یہ پانچ عہد ان بچوں تک کیسے پہنچیں، ان کی زندگی میں کیسے آئیں ، ان کو جوڑنے کا کام کیسے کریں۔

دوسرا، ہندوستان میں اسکول کا کوئی بچہ ایسا نہیں ہونا چاہیے جس کے ذہن میں 2047 کا خواب نہ ہو۔ اس کو کہنا چاہئے کہ بھائی بتاؤ 2047 میں تمہاری عمر کیا ہوگی،اس سے پوچھا جانا چاہئے ۔ حساب لگاؤ، تمہارے پاس اتنے سال ہیں،   بتاؤ اتنے سالوں میں تم اپنے لئے کیا کروگے اور ان تمام سالوں میں ملک کے لیے کیا کرو گے۔ حساب لگائیں، 2047 سے پہلے آپ کے پاس کتنے سال، کتنے مہینے، کتنے دن، کتنے گھنٹے ہیں، آپ ایک ایک گھنٹہ جوڑ کر بتائیں، آپ کیا کریں گے۔ فوراً ایک مکمل کینوس تیار ہو جائے گا کہ ہاں آج ایک گھنٹہ گزر گیا، میرا 2047 قریب آ گیا ہے۔ آج دو گھنٹے گزر گئے، میرا 2047 قریب آگیا ہے  مجھے 2047 میں ایسے ہی جانا ہے، مجھے ایسے  کرنا ہے ہے۔

اگر ہم اس جذبے کو بچوں کےدل و دماغ  میں بھر دیتے ہیں ایک نئی توانائی، اور ایک نئے ولولے کے ساتھ   تو بچے اس کے پیچھے لگ جائیں گے۔ اور دنیا میں ترقی ان کی ہوتی ہے جو بڑے خواب دیکھتے ہیں، بڑے بڑے عہد کرتے ہیں اور دور کی سوچ کے ساتھ زندگی  کو کھپا دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

1947 سے پہلے، ایک طرح سے ہندوستان میں ڈانڈی یاترا - 1930 اور 1942، انگریزوں  ہندوستان چھوڑ و، ان 12 سالوں میں... آپ دیکھیں، پورا ہندوستان چھلانگ لگا چکا تھا، سوائے آزادی کےکوئی منتر نہیں تھا۔  زندگی کے ہر کام میں آزادی، آزادی، ایک ایسا مزاج  بن گیا تھا۔ وہی مزاج، سوراج ،  قومی افتخار ،میرا ملک ،یہ وقت ہے کہ ہم کچھ ایسا ہی جذبہ طلبا میں پیدا کریں۔

اور مجھے اپنے استاد بھائیوں پر زیادہ اعتماد ہے، تعلیمی دنیا پر زیادہ ہے۔ اگر آپ یہ کوشش کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ ہم ان خوابوں کے تکمیل کرسکتے ہیں اور آواز گاؤں گاؤں تک اٹھے گی جناب۔ اب ملک ٹھہرنا نہیں چاہتا ہے۔ اب دیکھئے  دو دن پہلے ، جنہوں نے ہم پر 250 سال، 250 سال تک حکمرانی  کی... انہیں پیچھے چھوڑ کر ہم دنیا کی معیشت میں آگے نکل گئے ہیں۔ نمبر 6 سے نمبر 5 پر آنے کی خوشی  جو ہوتی ہے اس سے زیادہ خوشی کا احساس اس میں ہوا، کیوں؟ اگر 6 سے 5 ہوتے تو کچھ خوشی ہوتی لیکن یہ 5 خاص ہے۔ کیونکہ ہم نے انہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے، ہمارے ذہن میں وہی جذبہ ہے، وہی ترنگا والا15 اگست کا۔

15 اگست کے ترنگا کی جو تحریک  تھی اسی روشنی میں یہ  5واں نمبر آیا ہے اور اسی لیے اس  کے اندر یہ ضد بھر گئی ہے کہ دیکھو میرا ترنگا اور زیادہ لہرارہا ہے۔ یہ مزاج بہت ضروری ہے اور اسی لئے  1930 سے ​​1942 تک ملک کا جو مزاج تھا، ملک کے لیے جینا، ملک کے لیے لڑنا اور ضرورت پڑی تو ملک کے لیے  زندگی کو قربان کردینا، آج اسی مزاج کی ضرورت ہے۔

میں اپنے ملک کو پیچھے نہیں رہنے دوں گا۔ ہم ہزاروں سال کی غلامی سے نکلے ہیں، اب موقع ہے، ہم نہیں رکیں گے، ہم چل پڑیں  گے۔ یہ مزاج پیدا کرنے کا  کام ہماری  استادبرادری کے ذریعہ ہو، تو طاقت کئی گنا بڑھ جائے گی، کئی گنا بڑھ جائے گی۔

میں ایک بار پھر، آپ نے اتنا کام کر کے ایوارڈ حاصل کیا ہے ،  اس لیے میں زیادہ کام دے رہا ہوں۔ جو کام کرتا ہے، اسے کام دینے کو دل کرتا  ہے جو نہیں کرتا،  اسے کوئی کام نہیں دیتا ہے۔ اور استاد کے بارے میں میرا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اگر وہ ذمہ داری لیتے ہیں تو اسے پورا کرتے ہیں۔ اسی لیے میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں، میری بہت بہت نیک خواہشات۔

بہت بہت  شکریہ!

************

 

ش ح۔  ج  ق  ۔ م  ص

 (U: 9926)



(Release ID: 1857054) Visitor Counter : 437