امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کی وزارت

صارفین امور کے محکمے نے مرمت کے حق کی موضوع پر جامع فریم ورک وضع کرنے کی غرض سے کمیٹی کی تشکیل کی


زرعی سازوسامان، موبائل فون، ٹیبلیٹ، صارفین کے کام آنے والے سازوسامان ، موٹر گاڑیاں اور آٹو موبائل سازوسامان یا موٹر گاڑیوں کے پرزے وہ شعبے ہیں ،جنہیں کمیٹی کی اولین میٹنگ میں مرمت کے حق کے لیے شناخت کیا گیا ہے

مرمت کے حق کے ذریعے آتم نربھر بھارت کے توسط سے روزگار فراہم کرایا جائے گا، جس کے تحت مصنوعات کی مرمت تیسرے فرد کے ذریعے یا ازخود کی جاسکے گی

تشکیل دیا جانے والا ڈھانچہ  معزز وزیراعظم کے ذریعے شروع کی گئی ایل آئی ایف ای تحریک کی عالمی پہل قدمی  سے ہم آہنگ ہوگی

Posted On: 14 JUL 2022 11:51AM by PIB Delhi

نئی دہلی، 14 جولائی، 2022

ایل آئی ایف ای پر زور دینے کے مقصد سے (زندگی برائے ماحولیات) تحریک کے تحت ہمہ گیر استعمال کے توسط سے صارفین امور کے محکمے نے مرمت کی حق کے سلسلے میں ایک مجموعی فریم ورک وضع کرنے کے لیے ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔

فریم ورک وضع کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بھارت میں مرمت کرنے کا حق فراہم کرایا جائے، تاکہ صارفین کو بااختیار بنایا جاسکے، ساتھ ہی ساتھ مقامی منڈی میں اشیا خریدنے والوں کو بھی بااختیار بنایا جاسکے اور اصل سازوسامان مینوفیکچرر حضرات اور تھرڈ پارٹی کی شکل میں خریداروں اور فروخت کاروں کے مابین کاروبار میں ہم آہنگی پیدا کی جاسکے۔ اس کے تحت زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ  صارفین کی ہمہ گیر ضرورت کے مطابق  مصنوعات وضع کی جاسکے اور ای-فضلا میں تخفیف لائی جاسکے۔ ایک مرتبہ جب بھارت میں یہ طرزعمل متعارف ہوجائے گا تو اس کے نیتجے میں مختلف النوع مصنوعات کی ہمہ گیری اور افادیت کے معاملے میں زبردست تبدیلی رونما ہوگی اور یہ قدم آتم نربھر بھارت کے توسط سے روزگار کی بہم رسانی کی ایک کسوٹی بھی ثابت ہوگا، یعنی اس کے ذریعے تھرڈ پارٹی رپیئرس یا تیسرے فریق کے ذریعے مرمت کیے جانے کا جواز بھی فراہم ہوجائے گا۔

محکمہ نے  اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کی صدارت محکمہ صارفین امور حکومت ہند کی  ایڈیشنل سکریٹری شریمتی ندھی کھرے کے تحت ہے، اس کمیٹی میں ڈی او سی اے کے جوائنٹ سکریٹری جناب انوپم مشرا، پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس پرمجیت سنگھ دھالیوال، ریاستی صارفین تنازعات ازالہ کمیشن کے سابق صدر (پنجاب) پروفیسر (ڈاکٹر) جی ایس واجپئی، وائس چانسلر راجیو گاندھی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف لا، پٹیالہ، صارفین قوانین اور طرز عمل کے پروفیسر شری اشوک پاٹل اور مختلف النوع شراکت داروں مثلا آئی سی ای اے، ایس آئی اے ایم، صارفین کے امور سے متعلق کارکنان اور صارفین تنظیموں کے نمائندگان اور اراکین بھی شامل ہیں۔

اس کمیٹی نے اپنی اولین میٹنگ کا اہتمام 13 جولائی 2022 کو کیا، جس میں مرمت کے حقوق سے متعلق اہم شعبوں کی شناخت کی گئی، جن شعبوں کی شناخت کی گئی ہے، ان میں زراعت میں کام آنے والے سازوسامان، موبائل فون، ٹیبلیٹ، صارفین کے کام آنے والی پائیدار اشیا اور موٹر گاڑیاں/ موٹر گاڑیوں کے پرزے وغیرہ شامل ہیں۔

میٹنگ کے دوران جن  متعلقہ موضوعات کو اجاگر کیا گیا، ان میں ایسی کمپنیوں کی بات شامل تھی، جو اپنی اشیا کے ساتھ  ایسے کتابچے شائع نہیں  کرتیں، جن کی مدد سے استعمال کنندہ آسانی سے متعلقہ سازوسامان کی مرمت کرسکے۔ مینوفیکچرر حضرات نے متفرق پرزوں پر اجارہ داری والے کنٹرول قائم کررکھے ہیں۔ (جیسے کی وہ اسکریو اور دیگر چیزوں کے لیے ایک خاص ڈیزائن وضع کرکے رکھتے ہیں) مرمت کے عمل پر قائم اجارہ داری صارفین کے ذریعے متبادل کے حق پر برعکس طور پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ڈیجیٹل ضمانت والے کارڈ اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ کسی غیرتسلیم شدہ آؤٹ فٹ سے خریدا گیا سازوسامان اس لحاظ سے نقصاندہ ہوتا ہے کہ صارف اس کے لیے کوئی ضمانت نہیں حاصل کرپاتا، یعنی اس کی ضمانت کا حق مارا جاتا ہے۔ ڈیجیٹل حقوق انتظام سے متعلق اختلافات(ڈی آر این) اور ٹیکنالوجی سے متعلق تحفظاتی اقدامات (ٹی پی ایم)، اس پس منظر میں ڈی آر ایم کاپی رائٹ کے حاملین کے لیے ایک بڑی راحت ہے۔ مینوفیکچرر حضرات بھی منصوبہ بند  فرسودگی کے طرز عمل کی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ یہ ایک ایسا نظام ہے، جس کے ذریعے کسی بھی پرزے کی ساخت اس انداز میں وضع کی جاتی ہے کہ یہ ایک خاص مدت  تک ہی باقی رہتا ہے اور مذکورہ مخصوص مدت کی تکمیل کے بعد اسے لازمی طور پر بدلنا ہوتا ہے۔ جب  معاہدات کسی بھی خریدار کو پورا اختیار نہیں فراہم کرپاتے تو نتیجتا  مالکان کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔

گفت وشنید کے دوران یہ بات محسوس کی گئی کہ تکنیکی کمپنیوں کو اپنے صارفین کو مکمل علم اور کتابچوں تک رسائی فراہم کرنی چاہیے۔ سینیٹک اور سافٹ ویئر  تازہ ترین اطلاعات بہم پہنچانی چاہیے، اس کے لیے سافٹ ویئر سے متعلق لائسنس ایسا نہ ہونا چاہیے، جو فروخت ہونے والے سامان کی شفافیت کو محدود کردے۔ خدمات سے متعلق آلات اور ان سے مربوط حصے اور پرزے اور ٹول، جن میں تشخیصی ٹول بھی شامل ہیں، انہیں افراد سمیت تھرڈ پارٹی یعنی تیسرے فرد کو بھی فراہم کیا جانا چاہیے، تاکہ کسی بھی سازوسامان کی مرمت چھوٹے موٹے نقص کی صورت میں کی جاسکے۔ خوش قسمتی سے ،ہمارے  ملک میں، مرمت اور خدمت فراہم کرنے والا ایک فعال شعبہ موجود ہے اور مدور معیشت کے لیے متفرق پرزے فراہم کرنے والے افراد سمیت بہت سارے لوگ اس شعبے میں کارفرما ہیں۔

مزید برآں بین الاقوامی پیمانے پر ،جو بہترین طریقہ ہائے کار رائج ہیں، ان سب کو نظر میں رکھتے ہوئے نیز دیگر ممالک نے اس سلسلے میں جو اقدامات کیے ہیں اور بھارت کے منظر نامے میں ان کا استعمال کیسے کیا جاسکتا ہے، ان تمام امور پر بھی میٹنگ کے دوران تبادلہ خیال کیے گئے۔ مرمت کے حق کو متعدد ممالک میں پوری دنیا میں تسلیم کیا گیا ہے، جن میں امریکہ، برطانیہ اور یوروپی یونین کے تحت آنے والے ممالک بھی شامل ہیں۔ امریکہ میں دی فیڈرل ٹریڈ کمیشن نے مینوفیکچرر حضرات کے لیے ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ بدعنوانی پر مبنی عدم مسابقتی طریقہ ہائے کار کا ازالہ تلاش کریں، ساتھ ہی  ساتھ انہیں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ صارفین یا تو خود خریدے گئے سازوسامان کی مرمت کرسکیں یا مرمت کے اس کام میں تھرڈ پارٹی ایجنسی سے مدد حاصل کرسکیں۔

حال ہی میں برطانیہ نے بھی ایک قانون منظور کیا ہے، جس میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ تمام تر الیکٹرانک سامان بنانے والے مینوفیکچرر حضرات اپنے صارفین کو متفرق پرزے بھی فراہم کریں گے، تاکہ وہ اپنے خریدے گئے سازوسامان کی مرمت خود کرسکیں یا مقامی دکانوں پر ان کی مرمت کراسکیں۔ آسٹریلیا میں، مرمت کے کیفے آسٹریلیائی نظام کی قابل ذکر خصوصیت ہے۔ یہ عام مقامات ہوتے ہیں، جہاں رضاکارانہ طور پر مرمت کرنے والے جمع ہوتے ہیں اور اپنی مرمت کی ہنرمندی کو باہم ساجھا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ یوروپی یونین نے اس امر کا ایک قانون منظور کیا ہے کہ مینوفیکچرر حضرات کے لیے یہ لازم ہوگا کہ وہ پیشہ ور مرمت کاروں کو 10 برسوں تک مختلف النوع پرزوں کی فراہمی کے ذمہ دار ہوں گے۔

گزشتہ مہینے، وزیراعظم جناب نریندر مودی نے  بھارت میں ایل آئی ایف ای  ماحولیات (انداز  حیات برائے ماحولیات) کا آغاز کیا تھا۔ اس کے تحت چیزوں کی از سر نو استعمال کا نظریہ اور مختلف صارفین سازوسامان کی ری سائیکلنگ یعنی انہیں دوبارہ قابل استعمال بنانے کا پہلو بھی شامل ہے۔ مرمت ہر طرح کے پائیدار سازوسامان کو دوبارہ لائق استعمال بنانے کا ایک اہم عمل ہے۔ اگر کوئی سازوسامان ایسا ہے ،جس کی مرمت نہیں کی جاسکتی یا وہ منصوبہ بند فرسودگی کے تحت آتا ہے، یعنی کوئی ایسا مصنوعہ تیار کیا جاتا ہے، جو مصنوعی طور پر اپنی افادیت کے زندگی کے حامل ہوتا ہے اور بعد ازاں وہ بے کار ہوجاتا ہے، ایسا سامان نہ صرف یہ کی ای-فضلا بن جاتا ہے، بلکہ صارفین اس بات کے لیے مجبور ہوتے ہیں کہ وہ اس طرح کے سامان کو دوبارہ مرمت کراکے استعمال نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس کا دوبارہ استعمال کرسکتے ہیں۔  اس طریقے سے صارفین کے کام آنے والے سازوسامان کو محدود کرنا دانستہ طور پر صارفین کو اس بات کے لیے مجبور کرنا ہے کہ وہ اس پروڈکٹ کا نیا ماڈل خریدیں۔

ایل آئی ایف سی تحریک ہر مصنوعہ کی دانستہ افادیت کے دانشمندانہ استعمال کی بات کرتی ہے۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ یعنی مرمت کا حق یہ کہتا ہے کہ جب ہم کوئی چیز خریدتے ہیں تو یہ بات لازم ہے کہ ہم اس کی مکمل ملکیت کے حامل ہوں اور صارف اسے اپنی ضرورت کے مطابق مرمت کے عمل سے گزار سکے، آسانی کے ساتھ اس میں پھیر بدل کرسکے اور وہ بھی واجبی لاگت پر، نہ کی وہ مرمت کے لیے مینوفیکچرر حضرات کا محتاج ہو۔ تاہم کچھ عرصے سے یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ مرمت کا حق بری طریقے سے بندشوں کا شکار ہوچکا ہے اور نہ صرف یہ کہ مرمت میں خاصی تاخیر رونما ہوتی ہے، یعنی کافی عرصے کے بعد مصنوعات کی مرمت ہوپاتی ہے اور وہ بھی بہت بڑی لاگت کے بعد اور وہ صارف ،جس نے کبھی یہ سامان خریدا تھا، اس کے سامنے کوئی دوسرا متبادل نہیں ہوتا۔ اکثر متفرق پرزے دستیاب نہیں ہوتے، جس کے نیتجے میں صارفین کو زبردست مشکلات اور پریشانیاں جھیلنی پڑتی ہیں۔

*********************

(ش ح ۔  م ن۔ ت ع)

U.No. 7555



(Release ID: 1841430) Visitor Counter : 244