وزیراعظم کا دفتر

لوک سبھا میں صدر جمہوریہ کے خطاب پر شکریہ کی تحریک پر وزیراعظم کے جواب کا متن

Posted On: 07 FEB 2022 11:53PM by PIB Delhi

محترم اسپیکر ،

صدر جمہوریہ جی کے خطاب پر شکریہ کہنے کے لئے میں حاضر ہوا ہوں۔ عزت مآب صدر جمہوریہ نے اپنےخطاب میں آتم نربھر بھارت کو لے کر کے اور خواہش مند  بھارت کو لے کر کے گزشتہ دنوں کی جو کوششیں ہیں اس کے  بارے  میں تفصیل سے بات کہی ہے۔ میں تمام معزز ارکان کا بہت شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس اہم خطاب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا   ہے۔

قابل احترام اسپیکر ،

میں اپنی بات بتانے سے پہلے کل جوواقعہ پیش آیا، اس کے لئے دو باتیں کہنا چاہوں گا۔ ملک نے لائق صداحترام لتا دیدی کو کھو دیا ہے۔ اتنے لمبے  عرصہ  تک جن کی آواز نے ملک کو مسحور کیا، ملک کو تحریک بھی دی ہے، ملک کو جذبات سے بھر دیا ہے۔ اور ہر لمحہ ، ثقافتی وراثت کو مضبوط کرتے ہوئے ملک کی یکجہتی  کو بھی ؛ تقریباً36 زبانوں میں انہوں نے گایا۔ یہ اپنے آپ میں  ملک کی یکجہتی اور سالمیت کے لئے ایک  تحریک دینے والی مثال ہے۔ میں آج قابل صد احترام لتادیدی کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔

محترم اسپیکر ،

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں  بہت بڑی تبدیلی آئی ۔ ایک نیا  عالمی نظام  جس میں ہم سب لوگ جی رہے ہیں، میں  صاف دیکھ رہاہوں کہ کورونا کے دور کے بعد دنیا  ایک نئےعالمی نظام  کی جانب، نئے نظاموں  کی طرف  بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ یہ ایک ایسا ٹرننگ پوائنٹ ہے  کہ ہمیں ایک بھارت کے طور پر اس  موقعے کو گنوانا نہیں چاہئے۔مین ٹیبل پر بھارت کی آواز بھی بلند رہنی چاہئے۔ بھارت کو ایک  قائدانہ رول کے لئے اپنے –آپ کو کم نہیں سمجھنا چاہئے ۔ اور اس  پس منظر  میں آزادی کا امرت مہوتسو ، آزادی کے 75 سال اپنے آپ میں تحریک دینے والا موقع ہے۔ اس  موقعے کو لے کرکے، نئے عزائم کو لے کرکے ملک جب آزادی کے 100 سال منائے گا تب تک ہم پوری صلاحیت سے،  پوری طاقت سے، پوری خودسپردگی کے ساتھ ، پورے عزم سے  ملک کو اس جگہ پر لے کر پہنچیں گے، یہ عزائم کا وقت ہے ۔

قابل احترام اسپیکر صاحب،

گزشتہ برسوں میں ملک نے کئی شعبوں میں بنیادی نظام میں بہت مضبوطی  محسوس کی ہے۔ اور بہت مضبوطی کے ساتھ ہم آگے بڑھے ہیں۔پردھان منتری آواس یوجنا- غریبوں کو رہنے کے لئے گھر ہو ، یہ پروگرام  تو طویل مدت سے  چلا ہے، لیکن جو رفتار، جو وسعت، جو گوناگونیت اب پائی گئی ہے ا س کی وجہ سے آگ غریب کا گھر بھی لاکھوں سے بھی زیادہ قیمت کا بن رہا ہے۔  اور ایک طرح سے جو بھی پکا گھرپاتا ہے وہ غریب آج لکھ پتی کے زمرے میں بھی آجاتا ہے۔ کون ہندوستانی ہوگا جس کو یہ بات سن کرکے فخر نہ ہوکہ آج ملک کے غریب سے غریب کے گھر میں ٹائلٹ بنا ہے۔  آج کھلے میں رفع حاجت سے ملک کے گاؤں بھی پاک ہوئے ہیں، کون خوش نہیں ہوگا؟ میں بیٹھنے کے لئے تیار ہوں۔ آپ کا شکریہ ادا کرکے شروع کروں؟ بہت بہت شکریہ. آپ کی محبت دائم و قائم رہے۔

 آزادی کے اتنےبرسوں کے بعد غریب کے گھر میں بھی جب روشنی ہوتی ہے تو اس کی خوشیاں ملک کی خوشیوں میں اضافہ کرتی ہے۔ چولہے کے دھوئیں سے جلتی ہوئی آنکھوں سے کام کرنے والی ماں کو ، غریب ماں کو، اور جس ملک میں گھر میں گیس کنکشن ہو، یہ اسٹیٹس سمبل بن چکا تھا، اس ملک میں غریب کے گھر گیس کا کنکشن ہو، دھوئیں والے چولہے سے آزادی ملے تو اس  کی خوشی کچھ اور ہی ہوتی ہے۔

آج غریب کا بینک میں اپنا کھاتہ ہو،آج بینک میں جائے بغیر غریب بھی اپنے ٹیلی فون سے بینک کے کھاتے کا استعمال کرتا ہو۔ حکومت  کے ذریعہ فراہم کرائی گئی رقم  براہ راست  فائدہ کی منتقلی کے تحت اس کے کھاتے میں پہنچ رہی ہو، یہ سب آپ اگر زمین سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں ، اگر آپ عوام کے درمیان رہتے ہیں  تو ضرور یہ چیزیں نظرآتی ہیں، دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آپ میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کے سوئی کانٹا 2014 میں اٹکا ہوا ہے اور اس سے وہ باہر ہی نہیں نکل پاتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ کیا آپ کو بھگتنا پڑا ہے، آپ نے اپنے آپ کو ایک ایسی ذہنی حالت میں باندھ کر رکھا ہے ؛ ملک  کے عوام آپ کو پہچان گئے ہیں۔ کچھ لوگ پہلے پہچان گئے ہیں، کچھ لوگ تاخیر سے پہچان رہے ہیں۔ اور لوگ آنے والے وقت میں پہچاننے والے ہیں۔ آپ دیکھئے ، آپ اتنی لمبی ہدایت دیتے ہیں تب بھول جاتے ہیں ،پچاس سال تک کبھی آپ کو بھی ملک میں یہاں بیٹھنے کا موقع ملا تھا اور کیا وجہ ہے کہ آپ سوچ نہیں پاتے ہیں۔

اب آپ دیکھئے، ناگالینڈ کے لوگوں نے آخری بار 1998 میں، کانگریس کو ووٹ دیا تھا، تقریباً 24 سال ہوگئے ۔ اڈیشہ نے 1955 میں آپ کو ووٹ دیا تھا، پھر 27 سال ہوگئے  آپ کو وہاں انٹری نہیں ملی۔ گوا میں 1994 میں  آپ کو مکمل اکثریت حاصل ہوئی تھی، 28 سال ہوگئے گوا نے آپ کو تسلیم نہیں کیا۔ پچھلی بار 1988 میں تری پورہ میں وہاں کے عوام نے ووٹ دیا تھا۔ تقریباً 34 سال پہلے تری پورہ میں ، کانگریس کا حال ہے  یو پی، بہار اور گجرات- آخر میں 1985 میں ، تقریباً 37 سال پہلے آپ کے لئے ووٹ کیا تھا۔ پچھلی بار مغربی بنگال نے ، وہاں کے لوگوں نے 1972 میں تقریباً 50 سال پہلے آپ کو پسند کیا تھا۔ تمل ناڈو کے لوگوں نے .... میں اس سے متفق ہوں ، آگر آپ ان عالیٰ روایات پر عمل کرتے ہیں اور اس جگہ کا استعمال نہ کرتے ہوں، بڑی بد قسمتی ہے ملک کی کہ ایوان جیسی جگہ ملک کے کام آنی چاہیئے، اس کو پارٹی کے لئے کام میں لینے کی جو کوشش  ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے جواب دینا ہماری مجبوری بن جاتی  ہے۔

محترم اسپیکر صاحب،

تمل باڈو۔آخر میں 1962 میں یعنی تقریباً 60 سال  قبل آپ کو موقع ملا تھا۔ تلنگانہ کے قیام کا کریڈٹ لیتے ہیں  لیکن تلنگانہ ببنے کے بعد بھی وہاں کے عوام نے آپ کو تسلیم نہیں کیا۔ جھارکھنڈ کا جنم ہوا، 20 سال ہوگئے ، مکمل طور پر کانگریس کو تسلیم نہیں،پچھلے دروازے سے گھسنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

محترم اسپیکر ،

سوال الیکشن کے نتائج کا  نہیں ہے۔ سوال ان لوگوں کی نیت کا ہے، ان کی نیک دلی کا ہے۔ اتنی بڑی جمہوریت میں اتنے سال تک حکومت میں رہنے کے بعد ملک کے عوام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ان کو کیوں نامنظور کررہے ہیں؟ اور جہاں بھی ٹھیک طرح سے لوگوں نے راہ پکڑلی، دوبارہ آپ کو داخل نہیں ہونے دیا ہے۔ اتناسب ہونے کے باوجود بھی... ہم تو ایک الیکشن ہار جائیں نہ، مہینے تک نہ جانے ایکوسسٹم کیا-کیا کرتی ہے۔ اتنی ساری شکست ہونے کےباوجود بھی نہ آپ کی اناجاتی ہے نہ آپ کی ایکوسسٹم آپ کی انا کو جانے دیتی ہے۔... اس بار ابھینندن جی بہت سارے شعر سنارہے تھے...چلئے موقع میں بھی لے لوں۔ اور جب انا کی بات میں کررہا ہوں ، تب تو آپ کو کہنا ہی پڑے گا- وہ جب دن کو رات کہیں تو ترنت مان جاؤ،

نہیں مانوگے تو دن میں نقاب اوڑھ لیں گے۔ ضرورت ہوئی تو حقیقت کو تھوڑا بہت مروڑ لیں گے

وہ مغرور ہے خود کی سمجھ پر بے انتہا، انہیں آئینہ مت دکھاؤ۔ وہ آئینہ کو بھی توڑ دیں گے

قابل احترام اسپیکر صاحب،

آزادی کا امرت مہوتسو آزادی کے 75 سال میں آج ملک آزادی کاامرت مہوتسو منا رہا ہے اور ملک امرت کال میں داخل ہورہا ہے۔ آزادی کی اس لڑائی میں جن جن لوگوں نے قربانیاں دی ہیں وہ کسی پارٹی کے تھے یا نہیں تھے.... ان سب سے اوپر اٹھ کرکے ملک کے لئے جین مرنے والے لوگ ، ملک کے لئے جوانی کھپانے والے لوگ، تو ہر کسی کو یاد کرنے کا ، دوبارہ یاد کرنے کا موقع ہے اور ان کے خوابوں کو یاد کرتے ہوئے کچھ عزم کرنے کا موقع ہے۔

محترم اسپیکر ،

ہم سب سنسکار سے، فطرت سے ، نظام کی وجہ سے جمہوریت کے لئے پابندعہد ہیں اور آج سے نہیں صدیوں سے ہیں۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ تنقید زندہ جمہوریت کا ایک زیور ہے لیکن اندھی مخالفت ، یہ جمہوریت کی توہین ہے۔ اقتدار کے لئے کوشش، اس جذبے سے بھارت نے جو کچھ حاصل کیا ہے ، اچھا ہوتا اسے کھلے دل سے تسلیم کیا ہوتا، اس کا استقبال کیا گیا ہوتا۔ اس کی شان  میں گیت گاتے۔

گزشتہ دو سالوں میں 100 سال کی  سب سے بڑی  عالمی وبا کی مصیبت پوری دنیا کی نسل انسانی برداشت کررہی ہے۔ جنہوں نے بھارت کے ماضی کی بنیاد پر ہی ملک کو سمجھنے کی کوشش کی، ان کو تو خدشہ تھا اتنا بڑا عظیم ملک، اتنی بڑی آبادی، اتنی گوناگونیت ، یہ عادتیں، یہ فطرت ... شاید یہ بھارت اتنی بڑی لڑائی نہیں لڑپائے گا۔ بھارت اپنے آپ کو بچا نہیں پائے گا.... یہی ان کی سوچ تھی۔ لیکن آج صورتحال کیا ہے ... میڈانڈیا کووویکسین، کووڈ ٹیکے دنیا میں سب سے زیادہ اثردار ہیں۔ آج بھارت 100 فیصد پہلی ڈوز، اس نشانے کے تقریب پہنچ رہا ہے۔ اور تقریباً 80 فیصد دوسرا ڈوز- اس کا مرحلہ بھی پورا کرلیا ہے۔

محترم اسپیکر صاحب ،

کورونا  ایک عالمی وبا تھی ، لیکن اسے بھی پارٹی کی سیاست کے لئے استعمال میں لایا جارہا ہے، کیا یہ انسانیت کے لئے اچھا ہے؟

محترم اسپیکر صاحب ،

اس کورونا کے دور  میں کانگریس نے تو حد کردی

محترم اسپیکر صاحب ،

پہلی لہر کے دوران ملک جب لاک ڈاون پر عمل کررہا تھا جب ڈبلیو ایچ او دنیا بھر کے لوگوں کو صلاح دیتا تھا، سارے ہیلتھ ایکسپرٹ کہہ رہے تھے کہ جو جہاں ہے وہیں پر رکے، ساری دنیا میں یہ پیغام دیا جاتا تھا، کیونکہ انسان جہاں جائے گا اگر وہ کورونا سے متاثر ہے تو کورونا ساتھ لے جائے گا۔ تب کانگریس کے لوگوں نے کیا کیا، ممبئی کے ریلوے اسٹیشن پر کھڑے رہ کرکے ، ممبئی چھوڑکر جانے کے لئے حوصلہ افزائی کرنے کے واسطے ممبئی میں مزدوروں کو ٹکٹ دیا گیا، مفت میں ٹکٹ دیا گیا ، لوگوں کو تحریک دی گئی کہ جاؤ۔ مہاراشٹرمیں ہم پر جو بوجھ ہے وہ ذرا کم ہو،اور جاؤ تم اترپردیش کے ہو، تم بہار کے ہو، جاؤ وہاں کورونا پھیلاؤ۔آپ نے یہ بہت بڑا گناہ کیا ہے۔ مہاافرا-تفری کا ماحول کھڑا کردیا، آپ نے ہمارے مزدور بھائیو اور بہنو کو بہت سی پریشانیوں میں دھکیل دیا۔

اور محترم اسپیکر صاحب ،

اس وقت دہلی میں ایسی حکومت تھی، جو ہے۔ اس حکومت نے تو جیپ پر مائک باندھ کرکے ، دہلی کی جھگی جھونپڑی میں گاڑی گھما کرکے لوگوں کو کہا، مصیبت بڑی ہے، بھاگو، گاوں جاؤ، گھر جاؤ۔ اور دہلی سے جانے کے لئے بسیں دیں... آدھے راستے چھوڑ دیا اور سبھی لوگوں کے لئے بہت سی مشکلیں پیدا کیں۔ اور اس کی وجہ سے یہ ہوا کہ یوپی میں، اتراکھنڈ میں ،پنجاب میں  جس کورونا کی اتنی رفتار نہیں تھی ، اتنی تیزی نہیں تھی، اس گناہ کی وجہ سے کورونا نے وہاں بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

محترم اسپیکر صاحب ،

یہ کیسی سیاست ہے۔  بنی نوع انسان پر آفت کے اس وقت یہ کیسی سیاست ہے؟ یہ سیاسی پارٹیوں  پر مبنی سیاست کب تک چلے گی ؟

محترم اسپیکر صاحب ،

کانگریس کے اس رویہ سے صرف میں ہی نہیں ، پورا ملک حیران ہے۔ دو سال سے ملک 100 سال کی سب سے بڑی آفت  سے نبردآزما ہے۔ کچھ لوگوں نے جس طرح کا سلوک پیش کیا ، ملک اس سوچ میں پڑ گیا ہے کہ کیا یہ ملک آپ کا نہیں ہے؟  کیا ملک کے لوگ آپ کے نہیں ہیں۔ کیا ان کے سکھ دکھ آپ کے نہیں ہیں۔ اتنی بڑی مصیبت آئی ، کئی سیاسی پارٹیوں کے رہنما ، ذرا آپ جائزہ لیں، کتنی سیاسی پارٹیوں کے رہنما جو عام کے نزدیک معتبر رہنما ہیں ، اور خود کو عوامی رہنما بھی سمجھتے ہیں ، انہوں نے لوگوں سے گزارش کی ہو، اپیل کی ہو... بھئی، کورونا کی ایسی مصیبت آن پڑی ہے ، عالمی وبا پھیلی ہوئی ہے... آپ ماسکو پہنیں،بار بار اپنے ہاتھوں کو دھوئیں، دو گز کا جسمانی فاصلہ بنائے رکھیں۔کتنے ایسے رہنما ہیں ... کیا یہ بار بار ملک کے عوام سے یہ اپیل کرتے تو اس سے بی جے پی کی حکومت کو کیا فائدہ ہونے والا تھا۔  مودی کو کیا فائدہ ہونے والا تھا۔ لیکن اتنی بڑی مصیبت میں بھی اتنا سا مقدس کام کرنے سے بھی چوک گئے۔

محترم اسپیکر صاحب ،

کچھ لوگ ہیں، ان کو یہ انتظار تھا کہ کورونا وائرس مودی کو اپنی منفی شبیہہ کی زد میں لے لیگا۔ بہت انتظار کیا اور کورونا نے بھی آپ کے حوصلے کی بڑی کسوٹی کی ہے۔ آئے دن آپ لوگ دوسروں کو نیچا دکھانے کے لئے مہاتما گاندھی کا نام لیتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کی سودیشی کی بات کو بار بار دوہرانے میں ہمیں کون روکتا ہے۔ اگر مودی ’’ ووکل فار لوکل‘‘ کہتا ہے ، مودی نے کہا ہے ، اس لئے ان الفاظ  کو متروک کردوبھائی، لیکن کیا آپ نہیں چاہتے ہیں کہ ملک خود کفیل بنے ؟ جس مہاتماگاندھی کے اصولوں کی بات کرتے ہیں ، تب بھارت نے اس مہم کو طاقت دینے میں، جڑنے میں آپ کا کیا جاتا ہے ؟ اس کی قیادت آپ کیجئے۔ مہاتماگاندھی جی کے سودیشی کے فیصلے کو فروغ دیجئے، دیش کا بھلا ہوگا۔  اور ہو سکتا ہے کہ آپ مہاتما گاندھی کے خوابوں کو سچ ہوتا دیکھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔

محترم اسپیکر صاحب ،

آج پوری دنیا یوگ کے لئے ، ایک طرح سے کورونا کے دور میں تو یوگ نے پوری دنیا میں اپنی جگہ بنالی ہے۔ دنیا بھر میں کون ہندوستانی ہوگا جس کو یوگ کے لئے فخر نہ ہو۔ آپ نے اس کا بھی مذاق اڑایا، اس کی بھی مخالفت کی۔ اچھا ہوتا ، آپ لوگوں سے کہتے ، بھئی ، وبا کے اس دورمیں گھروں میں رہیں، یوگا کریں، آپ کو فائدہ ہوگا... کیا نقصان تھا۔ ’فٹ انڈیا موومنٹ‘ چلے، دیش کا نوجوان بااختیار ہو، باہمت ہو، لیاقت سے پر ہو، آپ کو مودی  سے اختلاف ہوسکتا ہے... ’فٹ انڈیا موومنٹ‘ آپ کی سیاست پارٹیوں کے  چھوٹے چھوٹے منچ ہوتے ہیں۔ اگر ہم سب نے مل کر فٹ انڈیا کے ذریعہ ملک کے نوجوان قوت کو اس صلاحیت کی طرف آگے بڑھنے کے لئے کہتے ، لیکن اس سے بھی اختلاف، اس کا مذاق اڑانا۔ یعنی ہوکیا گیا ہے آپ کو ، مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے اور اس لئے میں آج کہتا ہوں کہ آپ کو یہ سمجھ میں آجائے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ میں نے تاریخ بتا دی ہے ،60 سال سے لے کر 15 سال تک ،پوری کی پوری تاریخ، اتنی ریاستیں ، کوئی آپ کو گھسنے نہیں دے رہا ہے۔

محترم اسپیکر صاحب ،

کبھی کبھی میں ... یہ خاص طور سے بہت پیار سے کہہ رہا ہوں، ناراض نہ ہوجائیں ۔ مجھے کبھی کبھی محترم اسپیکر صاحب، ایک  خیال آتا ہے ... ان کے بیانوں سے ، ان کے پروگرام سے ، ان کی کرتوتوں سے ... جس طرح سے آپ بولتے ہیں، جس طرح سے ایشوز سے جڑتے ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ آپ نے یہ طے کرلیا ہے کہ 100 سال تک اقتدار میں نہیں آنا ہے۔ ایسا نہیں کرنا جی ، تھوڑی سی بھی امید ہوتی ، تھوڑا سا بھی لگتا کہ ہاں ملک کے عوام پھر سے آپ کو اعزاز بخشیں گے تو ایسا نہیں کرتے جی۔ اور اس لئے ... خیر اب آپ نے ہی طے کرلیا ہے 100 سال کے لئے تو پھر میں بھی تیار کرلیا ہے۔

محترم اسپیکر صاحب ،

یہ پارلیمنٹ اس بات کی شاہد ہے کہ کورونا عالمی وبا سے جو حالات پیدا ہوئے ، اس سے نمٹنے کے لئے بھارت نے جو بھی پالیسی بنائی، اس کو لے کرکے پہلے دن سے ہی کیا کیا نہیں کہا گیا۔ کس کسنے کیا کیا کہا، آج وہ خود دیکھیں تو انکو حیرانی ہوگی کہ ایسے کیسے کہلایا گیا، کس نے یہ باتیں کہلائی۔ پتہ نہیں، کیا بول دیا ہم لوگوں نے۔ دنیا کے اور لوگوں سے بڑی بڑی کانفرنس کرکے ایسی باتیں بلوائی گئیں تاکہ پوری دنیا میں بھارت کی بدنامی ہو۔ خود کو قائم رکھنے کے لئے ،اقتصادی محاذ پر بھارت کی کارکردگی کیسی رہی ہے ، میرے خدا کیا کچھ کہا گیا۔ بڑے بڑے پنڈتوں نے دیکھا تھا ، پوری آپ کی اکوسسٹم لگ گئی تھی۔ ہم جو بھی سمجھتے تھے، بھگوان نے جو بھی سمجھ دی تھی لیکن سمجھ سے زیادہ خود کو وقف کرنا بہت بڑا معاملہ تھا جی۔ اور جہاں سمجھ سے خودسپردگی زیادہ ہوتی ہے وہاں ملک اور دنیا کو اپنانے کی طاقت بھی ہوتی ہے۔ اور وہ ہم نے کرکے دکھایاہے۔ اور جس راستے پر ہم چلے آج دنیا  میں عالم معیشت کے تمام ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔ بھارت نے جن اقتصادی پالیسیوں کو لے کر اس کورونا کے دور میں اپنے آپ کو آگے بڑھایا وہ اپنے آپ میں ایک مثال ہے۔ اور ہم محسوس بھی کرتے ہیں ، ہم نے دیکھا ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب ،

بھارت آج دنیا کی جو بڑی معیشتیں ہیں ، ان میں سب سے تیزی سے فروغ پانے والی بڑی معیشت ہے۔

محترم اسپیکر صاحب ،

کورونا کے اس دور میں بھی ہمارے کسانوں نے ریکارڈ پیداوار کی، سرکار نے ریکارڈ خریداری کی۔ دنیا کے کئی ملکوں میں جہاں کھانے کی قلت پیدا ہوئی ہو اور آپ کو علم ہوگا کہ سو سال قبل جو آفت آئی تھی ، اس کی جو رپورٹ ہے، اس میں یہ بات کہی گئی ہے کہ بیماری سے مرنے والوں کی جیسی تعداد ہے ویسی ہے بھوک سے مرنے والوں کی بھی بڑی تعداد  ہے، اس وقت کی سو سال پہلے کی رپورٹ میں ہے ۔ اس ملک نے کسی کو بھوک سے مرنے نہیں دیا۔ 80 کروڑ سے زیادہ اہل وطن کو مفت راشن دستیاب کرایا گیا اور آج بھی کر ا رہے ہیں۔

محترم اسپیکر صاحب،

ہماری مجموعی برامدات تاریخی اعتبار سے سب سے اونچی سطح پر ہیں۔ اور یہ کورونا کے دور میں ہے۔ زرعی برامدات تاریخی طور پر اعلیٰ طرین سطح پر پہنچی ہیں۔ سافٹ وئیر برامدات نئی اونچائیوں کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ موبائل فون کی برامدات میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ڈفینس ایکسپورٹ، کئی لوگوں کو پریشانی  ہو رہی ہے۔ یہ آتم نربھر بھارت کا کمال ہے کہ آج ملک ڈفینس ایکسپورٹ میں بھی اپنی پہچان بنا رہا ہے۔ ایف ڈی آئی اور ایف ڈی آئی۔۔۔

قابل احترام اسپیکر صاحب،

ایوان میں تھوڑی بہت ٹوکا ٹوکی تو ضرور ی ہوتی ہے ذرا گرمی رہتی ہے۔ لیکن جب حد سے باہر معاملہ نکل جاتا ہے تو ذرا لگتا ہے کہ ہمارے ساتھی ایسے ہیں۔

محترم اسپیکر ،

ان کی پارٹی کے ایک ایم پی نے چرچا کی شروعات کی تھی اور یہاں سے کچھ چھوٹی موٹی نوک جھونک چل رہی تھی۔ اور میں اپنے کمرے سے اسکرین پر دیکھ رہا تھا کہ ہمارے وزیر پیچھے گئے، سب کو روکا اور وہاں سے چیلنج آیا کہ اگر ہمارے ایک ہوگئے تو تمہارے لیڈر کا یہ حال کریں گے۔ کیا اسی وجہ سے یہ ہورہا ہے کیا؟

محترم اسپیکر ،

آپ، آپ نے، آپ  کواب ہر ایک کو اپنے سی آر میں اصلاح کی کوشش تو کرنی چاہئے۔ اب میں مانتا ہوں کہ جتنا کیا ہے، اس سے آپ کا سی آر ٹھیک ہوگیاہے۔ جن لوگوں کو رجسٹر کرنا ہے آپ کو اس پراکرم کو کرلیا ہے جی، زیادہ کیوں کررہے ہو؟ اس اجلاس میں سے کوئی آپ کو نہیں نکالے گا، یقین کرو؟ اس اجلاس میں آپ کو کوئی نکالنے کا نہیں، میں آپ کو گارنٹی دیتا ہوں۔ اس جگہ سے ارے بھئی ایسے ہی بچ گئے ہو۔

محترم اسپیکر ،

ایف ڈی  آئی اور ایف ڈی آئی کی ریکارڈ سرمایہ کاری آج بھارت میں ہورہی ہے۔ قابل تجدید توانائی کے شعبے میں آج ہندوستان دنیا کے پانچ اعلیٰ ترین ملکوں میں شامل ہے۔

محترم اسپیکر ،

یہ سب اس لئے ممکن ہوا ہے کہ کورونا کے دور میں اتنا بڑا بحران سامنے آنے کے باوجود ، اپنے فرائض کو پورا کرتے ہوئے مشکل کے اس دور میں ملک کو بچانا ہے تو اصلاح ضروری تھی۔ اور ہم نے وہ جو اصلاحات کیں، اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم اس طریقہ سے اس مقام پر آکرکے پہنچے ہیں۔

محترم اسپیکرصاحب ،

ایم ایس ایم ایسز سمیت ہر صنعت کو ضروری تعاون دیا۔ قوانین کو، طریقہ کار کو آسان بنایا۔ آتم نربھر بھارت کا جو مشن ہے اس کو ہم نے عملی جامہ پہنانے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ تمام کامیابیاں ایسے حالات میں ملک نے حاصل کی ہے جب بین الاقوامی سطح پر ، عالم معیشت میں بہت بڑی اتھل پتھل آج بھی چل رہی ہے۔ سپلائی چین پوری طرح چرمرا گئی ہے۔ لاجسٹک سپورٹ میں بحران پیدا ہوئے۔ دنیا میں سپلائی چین کی وجہ سے کیمیکل فرٹیلائزر پر کتنی بڑی مصیبت آئی ہے اور بھارت کا انحصار درآمدات پر ہے۔ اتنا بڑا اقتصادی بوجھ ملک پر آیا ہے ۔ پوری دنیا میں حالات پیدا ہوئے لیکن بھارت نے کسانوں کو اس اذیت کو برداشت کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا۔ بھارت نے سارا بوجھ ملک نے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور کسان کو ٹرانسفر نہیں ہونے دیا ہے۔ بھارت نے فرٹیلائزر کی سپلائی کو بھی مسلسل جاری رکھا ہے۔ کورونا کے دور میں بھارت نے اپنی زراعت کو اپنے چھوٹے کسانوں کو بحران سے باہر نکالنے کے لئے بڑے فیصلے کئے ۔  میں کبھی کبھی سوچتا ہوں ، جو لوگ جڑوں سے کٹے ہوئے لوگ ہیں ، دو دو چار چارپیڑھیوں سے محلوں میں بیٹھنے کی عادت ہوگئی ہے وہ ملک کے چھوٹے کسانوں کا کیا مسئلہ ہے، وہ سمجھ ہی نہیں پائے ہیں۔ ان کے آس پاس میں جن کسانوں کی ان کی پہنچ تھی، اس سے آگے دیکھ نہیں پائے ہیں۔ اور کبھی ایسے لوگوں کو پوچھنا چاہتا ہوں کہ چھوٹے کسانوں کے تئیں آپ کی اتنی نفرت کیوں ہیں ؟ کیا آپ چھوٹے کسانوں کی فلاح کے لئے ، آپ روڈے اٹکاتے رہتے ہو۔ چھوٹے کسانوں کو اس مصیبت میں ڈالتے ہو۔

محترم اسپیکرصاحب ،

اگر غریبی سے نجات چاہئے تو ہمیں اپنے چھوٹے کسانوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔ دیہی معیشت کو مضبوط بنانا ہے، تو ہمارے چھوٹے کسانوں کو مضبوط بنانا ہوا۔ اگر ہمارا چھوٹا کسان مضبوط ہوتا ہے ، چھوٹی سی زمین ہوگی ۔ دو ہیکٹیئر کی اراضی ہوتی تو بھی اس میں جدیدطریقہ سے کام کرنے کی کوشش کرے گا۔ نیا سیکھنے کی کوشش کرے گا اور اس کی طاقت آئے گی تو ملک کی معیشت کو بھی طاقت ملے گی ۔ اور اس لئے جدیدکاری کے لئے چھوٹے کسانوں کی طرف توجہ دینے کی میری کوشش ہے۔ لیکن چھوٹے کسان کے تئیں جن لوگوں کے دل میں نفرت ہے ، جنہوں نے چھوٹے کسانوں کا دکھ-درد نہیں جانا ہے، ان کو کسانوں کے نام پر اپنی سیاست کرنے کا کوئی حق نہیں بنتا ہے۔

محترم اسپیکر ،

اس بات کو ہمیں سمجھنا ہوگا 100 کروڑ برسوں کا  غلامی کا دور  اس کی جو  ذہنیت ہے، وہ آزادی کے 75 سال کے بعد بھی کچھ لوگ بدل نہیں پائے ہیں۔ وہ غلامی کی ذہنیت کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے بہت بڑی مصیبت ہوتی ہے۔

لیکن محترم اسپیکر ،

آج ملک کی میں ایک تصویر دیکھتا ہوں، ایک ایسا فرقہ ، ایک ایسا طبقہ آج بھی وہ غلامی کی وہ ذہنیت میں جیتا ہے۔ آج بھی 19 ویں صدی کے کام اس سوچ، ان سے وہ جکڑا ہوا ہے  اور 20 ویں صدی کے جو قانون ہیں ، وہی قانون اس کو قانون لگتے ہیں۔

محترم اسپیکر ،

غلامی کی ذہنیت ان 19 ویں صدی کا رہن سہن، 20 ویں صدی کے قانون ، 21 ویں صدی کی خواہشات پوری نہیں کرسکتے ۔ 21 ویں صدی کے مطابق ہمارے لئے تبدیلی بہت ضررری ہے۔

محترم اسپیکر ،

جس تبدیلی کو ہم نے نامنظور کیا ، اس کا نتیجہ کیا آیا ؟ فریٹ کوریڈور  اتنے منومن چند کے بعد، کئی برسوں تک ، اس کے بعد یوجنا ہوئی۔ 2006 میں منصوبہ بندی، 2006 سے 2014 تک کا اس کا حال دیکھئے۔ 2014 کے بعد اس کی تیزی آئی۔ یو پی میں سریو نہر پروجیکٹ، 70 کی دہائی میں شروع ہوا اور اس کی لاگت 100 گنا بڑھ گئی۔ ہمارے آنے کے بعد ہم نے اس کام کو پورا کیا۔ یہ کیسی سوچ ہے؟ یو پی  میں  ارجن ڈیم پروجیکٹ 2009 میں شروع ہوا۔2017 تک ایک تہائی خرچ ہوا۔ ہم نے اتنی کم مدت میں اس کو پورا کردیا۔ اگر کانگریس کے پاس اتنا اقتدار تھا، اتنے برسوں تک اقتدار تھا تو چار دھام کو آل ویدر سڑکوں میں تبدیل کرسکتی تھی، جوڑ سکتے تھے لیکن نہیں کیا۔ آبی گزرگاہ ساری دنیا آبی گزرگاہ کو سمجھتی ہے، ہمارا ہی ایک ملک تھا جو ہم نے آبی گزرگاہ کو منظور نہیں کیا۔ ہماری حکومت کا آبی گزرگاہ پر کام چل رہا ہے۔ پرانی نقطہ نظر سے گورکھپور کا کارخانہ بند ہوتا تھا ، ہمارے نقطہ نظر سے گورکھپور کا فرٹیلائزر کا کارخانہ شروع ہوا ہے۔

محترم اسپیکر ،

یہ لوگ ایسے ہیں جو زمین سے کٹے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لئے فائل کی موومنٹ ، فائل میں سگنیچر کردیئے، کون ہے، کیا ملاقات کے لئے آئے گا اسی کے انتظار میں وہ رہتے ہیں۔ آپ کے لئے فائل سب کچھ ہے، ہمارے لئے 130 کروڑ اہل وطن کا فائدہ اہم ہے۔ آپ فائل میں کھوئے رہے، ہم لائف بدلنے کے لئے جی جان سے جٹے ہوئے ہیں۔ آج اسی کا نتیجہ ہے پردھان منتری گتی شکتی ماسٹر پلان ایک جامع نقطہ نظر ، ٹکڑوں میں نہیں ، ایک آدھا کام وہا ں آرہا ہے، سڑک بن رہی ہے پھر بجلی والا آکر کے کھدائی کرتا ہے۔ وہ چیز ٹھیک ہوتی ہے ، پھر پانی والا آکر کے کھدائی کرتا ہے۔ ان سارے مسائل سے باہر آکر کے ہم نے ضلع سطح تک گتی شکتی ماسٹر پلان کی سمت میں ہم کام کررہے ہیں۔ اسی طرح سے ہمارے ملک کی خصوصیت کو دیکھتے ہوئے ہم ملٹی موڈل ٹرانسپورٹ سسٹم پر بڑا زور دے رہے ہیں اور کنکٹی ویٹی پر اس کی بنیاد پر ہم زور دے رہے ہیں۔ آزادی کے بعد سب سے تیزرفتار سے دیہی سڑکیں کہیں بن رہیں تو وہ  اس پانچ سال کی مدت میں بنی ہیں۔

محترم اسپیکر ،

نیشنل ہائی وے بن رہے ہیں، ریلوے لائنوں کی بجلی کاری ہورہی ہے۔ آج ملک نئے ہوائی اڈوں ، ہیلی پورٹس اور واٹر ڈرون کا نیٹ ورک کھڑا کررہا ہے۔ ملک کے 6 لاکھ سے زیادہ گاوں میں آپٹیکل فائبر نیٹ ورک کا کام چل رہا ہے۔

قابل احترام اسپیکر صاحب ،

یہ تمام کام ایسے ہیں جو روزگار دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ روزگار انہی کاموں سے ملتا ہے۔ جدیدانفرااسٹرکچر آج ملک کی ضرورت ہے اور غیرمعمولی سرماریہ کاری بھی ہورہی ہے اور اسی سے روزگار بھی بن رہا ہے، ترقی بھی ہورہی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بن رہی ہے۔ اور اس لئے آج ملک اس سمت میں کام کررہا ہے۔

محترم اسپیکر صاحب ،

جتنی زیادہ معیشت فروغ پائے گی اتنے ہی روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ اور اسی نشانے کو لے کر پچھلے سات سال سے ہم ان چیزوں پر فوکس کیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ ہے ہمارا آتم نربھر بھارت ابھیان۔ مینوفیکچرنگ ہو یا سروس سیکٹر ہو، ہر سیکٹر میں ہمارا پروڈکٹ بڑھ رہا ہے، پروڈکشن بڑھ رہا ہے۔ آتم نربھربھارت ابھیان  کے ذریعہ ہم آج عالمی ویلیو چین کا حصہ بن رہے ہیں۔یہ اپنے آپ میں بھارت کے لئے اچھی نشانہ ہے۔ ہمارا بڑا فوکس ایم ایس ایم ای اور ٹیکسٹائل جیسے لیبرسیکٹر پر ہے۔ ایم ایس ایم ای کے بڑے نظام میں اصلاح، ایم ایس ایم ای  کی تعریف میں ہم نے اصلاح کرکے اس کو بھی نئے موقع دیئے ہیں ۔ اپنے چھوٹی صنعتوں کو محفوظ کرنے کے لئے ایم ایس ایم ایز کے لئے حکومت نے اس کورونا کے دشوار دور میں تین لاکھ کروڑ روپئے کی خصوصی اسکیم بھی شروع کی ہے اور اس کافائدہ ہمارے ایم ایس ایم ای سیکٹر کو ملا ہے۔ اور اس کی بہت بڑھیا اسٹڈی ایس بی آئی نے کی ہے۔ایس بی آئی کی اسٹڈی کہتی ہے کہ ساڑھے تیرہ لاکھ ایم ایس ایم ایز اس اسکیم کی وجہ سے برباد ہونے سے بچ گئی ہیں اور ایس بی آئی  کی اسٹڈی کہتی ہے ڈیڑھ کروڑ نوکریاں بچی ہیں اور تقریباً 14 فیصد ایم ایس ایم ای  پر قرضوں  کی وجہ سے  این پی اے ہونے کا جو امکان تھا ، اس سے بچ گئے ہیں۔

محترم اسپیکر صاحب ،

جو رکن زمین پر جاتے ہیں، وہ اس اثر کو دیکھ سکتے ہیں۔ اپوزیشن کے کئی ساتھی مجھے بھیجتے ہیں ، کہتے ہیں کہ صاحب یہ اسکیم نے بہت بڑا فائدہ کیا ہے۔ ایم ایس ایم ای سیکٹر کو اس بحران کی گھڑی میں بہت بڑا سہارا دیا ہے۔

محترم اسپیکر صاحب ،

اس طرح سے مدرا یوجنا کتنی کامیاب رہی ہے ، ہماری مائیں- بہنیں کتنی اس شعبے میں آئی ہیں۔ لاکھوں لوگ بغیر گارنٹی بینک سے لون لے کرکے آج اپنے روزگار کی سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں اور خود تو کرتے ہیں ، ایک آدھ دو لوگوں کو روزگار بھی دیتے ہیں۔ سواندھی یوجنا، اسٹریٹ وینڈرس کبھی ہم نے سوچا نہیں ، پہلی بار آزادی کے بعد اسٹریٹ وینڈرس کو بنک کے اندر سے لون مل رہا ہے اور آج اسٹریٹ وینڈرس ڈیجیٹل ٹرانزیکشن کررہے ہیں اور کروڑ وں مزدوروں کو فائدہ مل رہا ہے۔ ہم نے غریب  مزدوروں کے لئے دو لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ کئے ہیں۔ آتم نربھر بھارت روزگار یوجنا کے تحت ہزاروں استفادہ کنندگان کے کھاتوں میں ہم نے براہ راست پیسے ٹرانسفر کئے ہیں۔

محترم اسپیکر صاحب ،

صنعت کو رفتار دینے کے لئے بہتر انفراسٹرکچر کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔ پی ایم گتی شکتی ماسٹر پلان یہ ہمارے لاجسٹک لاگت کو بہت کم کردے گا۔ اور اس کی وجہ سے ملک میں بھی مال کم لاگت میں پہنچ پائے گا اور ایکسپورٹ کرنے والے لوگ بھی دنیا کے ساتھ کمپٹیشن کرپائیں گے۔ اور اس لئے پی ایم گتی شکتی پلان آنے والے دنوں میں بہت مفید ہونے والاہے۔

محترم اسپیکر صاحب،

حکومت نے ایک اوربہت بڑا کام کیا ہے کہ نئے علاقوں کو صنعت کاروں کے لئے ہم نے کھول دیا ہے ، آتم نربھر بھارت منصوبہ کے تحت خلا، دفاع، ڈرونس، کانکنی اور پرائیویٹ سیکٹر کو  آ ج ملک کی ترقی میں ساجھیدار بننےکے لئے ہم نے دعوت دی ہے۔ ملک میں صنعت کاروں کے لئے بہتر ماحول بنانے کی غرض سے سادہ ٹیکس نظام کی شروعات  ہزاروں تعمیلات ، ہمارے ملک میں   آدھا ملک تو ہر ڈپارٹمنٹ، یہ لاؤ ، وہ لاؤ، یہ کاغذ لاؤ ، وہ کاغذ لاؤ ، وہ سارا تقریبا 25 ہزار تعمیلات کابوجھ ہم نے ختم کیا ہے، آج میں   تو ریاست سے بھی اپیل کروں گا کہ وہ بھی  ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس طرح کی تعمیلات کے بوجھ کو ختم کریں، ملک کے باشندوں کو پریشانی ہورہی ہے، آپ لوگ اسے سمجھیں۔ آج ملک میں اس طرح کی رکاوٹیں ہٹائی جارہی ہیں ۔ گھریلو صنعت کو  ایک معیار دینے کے لئے  یکے بعد دیگر ے قدم ہم اٹھاتے جارہے ہیں۔

محترم اسپیکر صاحب،

آج ملک اس پرانے تصور کے حصار سے باہر نکل رہا ہے ۔ ہمارے ملک میں عام طور پر اس طرح کی سوچ بن گئی ہے کہ حکومت ہی سب کچھ ہے   اورتمہیں حکومت پر ہی انحصار کرنا پڑے گا۔  تمہاری امیدوں  اور خواہشات کو کوئی پورا نہیں کرسکتا، سوائے حکومت کے ۔ سب کچھ سرکار ہی دے گی ، ہم لوگوں نے  اتنی انا کو پروان چڑھایا تھا  اوراس کے سبب ملک کی صلاحیت کو بھی  زک پہنچی ہے اوراس لئے عام نوجوان کے خواب، نوجوانوں کی صلاحیت،  ان کے راستے کے سلسلے میں ہم نے نئے سرے سے سوچنا شروع کیا ۔ ایسا نہیں ہے  کہ سب کچھ سرکار کرتی ہے،  ملک کے باشندوں کی طاقت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ وہ  صلاحیت کے ساتھ اگر مصیبتوں کاسامنا کرتے ہیں تو نتیجہ سامنے آتا ہے ۔ آپ دیکھیں 2014 سےپہلے ہمارے ملک میں صرف 500 اسٹارٹ اپس تھے ، جب جب موقع دیاجاتا ہے ملک  کے نوجوانوں کو تو کیا نتیجہ آتا ہے ان سات سال میں ۔2014 کے پہلے 500 اسٹارٹ اپس، اس سا ت سال میں 700 اسٹاراپ اس ملک میں کام کررہے ہیں ۔ یہ میرے ملک کے جوانوں کی طاقت ہے ۔ اوراسمیں  یونیکارن بن رہے ہیں  اورایک ایک یونیکارن یعنی ہزاروں کروڑ کی اس کی قدر طے ہوجاتی ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

اور بہت ہی کم عرصے میں بھار ت کے یونیکارن سنچری بنانے کی سمت میں گامزن ہیں۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ ہزاروں کروڑ کی کمپنی بننے میں پہلے دہائیاں لگ  جاتی تھیں، آج  ہمارے نوجوانوں کی طاقت ہے کہ حکومت کی پالیسیوں کے سبب  سال دوسال کے اندر  ہزاروں کروڑ کو ، کاروبار کو ان کے آس پاس وہ دیکھ پا رہے ہیں۔

اورمحترم اسپیکر صاحب،

ہم اسٹارٹ اپس یونیکارن کے معاملے میں  دنیا میں سرفہرست تین میں شامل ہوگئے ہیں ۔  کون ہندوستانی ہوگا جو اس پر فخر نہیں کرے گا۔  لیکن ایسے وقت میں  حکومت کی مخالفت کرنے کی ان کو عادت ہوگئی ہے۔ صبح صبح شروع ہو جاتے ہیں اوریہاں میں نے دیکھا  کہ  ہمارے محترم صاحب بتارہے تھے، کیا تم مودی ، مودی کرتے رہتے ہو، ہاں یہی کررہے تھے نا! ارے سب لوگ مودی مودی مودی بول رہے ہیں۔ آپ بھی بول رہے ہیں ، آپ لوگ صبح ہوتے ہی شروع ہوجاتے ہیں ۔ ایک  پل  آپ لوگ مودی کے بغیر نہیں بتا سکتے ۔ مودی تو آپ کے جسم کی طاقت ہے۔

اورمحترم اسپیکر صاحب،

کچھ لوگ ملک کے نوجوانوں کو  ملک کے  صنعت کاروں کو  ،ملک  کے بہترین تخلیق کاروں کو  ان کوڈرانے میں لطف آتا ہے۔ ان کو خوف زدہ کرنے میں بھی انہیں مزہ آتاہے،  ان کو مشتعل کرنے میں بھی ا نہیں مزہ آتا ہے ۔ ملک کا نوجوان ان کی باتیں سن نہیں رہا ہے ، اس وجہ سے ملک آگے بڑھ رہا ہے۔

محترم اسپیکر صاحب،

آج جو یونیکارن ہے  انہی میں سے کچھ میں  کثیر قومی کمپنیاں بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں ، لیکن کانگریس میں ایسے لوگ بیٹھے ہیں  جوکہتے ہیں ، اورآپ کو بھی جان کر حیرت ہوگی  جو وہ کہتے ہیں ، وہ کہتے ہیں  کہ یہ صنعت کار لوگ کورونا و ائرس کا ویریئنٹ  ، بتائیے کیا ہوگیا ہے ، ہمارے مل کی صنعتیں کیا کورونا وائرس کے پھیلانے کا سبب ہیں، ہم کیا بول رہے ہیں، کس  کے لئے بول رہے ہیں، کوئی ذرا ا ٓپ کے ساتھ بیٹھے تو ذرا بولو تو سہی، یہ کیا کہہ رہا ہے ۔ پارٹی کا نقصان ہورہا ہے، کانگری پارٹی کا نقصان ہورہا ہے۔

محترم اسپیکر صاحب،

جو لوگ  تاریخ سے سبق نہیں لیتے وہ تاریخ میں گم ہو جاتے ہیں ۔

محترم اسپیکر صاحب،

میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں ، ذرا 60 سے 80 کی دہائی کا ان کے سبھی خاص لوگ اس میں آجاتے ہیں جو ملک کی قیادت کرتے تھے،  میں اس وقت کی بات کررہا ہوں، 60 سے 80 کی دہائی میں کانگریس ہی ہوتی تھی،  کانگریس کے اقتدار کے شریک  کانگریس کے ساتھ رہ کر آرام ا ٹھانے والے لوگ  ، وہی لوگ پنڈت نہرو جی کی سرکار کو اور محترمہ اندراگاندھی صاحبہ کی سرکار کو کیا کہتے تھے۔ یہ تو ٹاٹا برلا کی سرکار ہے، یہ حکومت تو ٹاٹا برلا چلارہے ہیں، 60 سے 80 کی دہائی میں یہی باتیں کی جاتی تھیں، نہرو جی کے لئے ، اندرا جی کے لئے ۔ اورآپ نے ان کے ساتھ اقتدار میں ساجھیداری کی ، لیکن  ان کی عادتیں بھی لے لیں۔ آپ بھی وہی زبان بول رہے ہیں۔ میں دیکھ رہا ہوں، آپ اتنے پست ہوگئے ہیں ، مجھے لگتا ہے کہ آج پنچنگ بیگ بدل گیا ہے، لیکن آپ کی عادت نہیں بدلی ہے۔  مجھے یقین ہے کہ یہی لوگ ایوان میں بولنے کی ہمت رکھتے تھے، باہر تو بولتے ہی تھے، جہاں موقع ملے چپ نہیں رہتے تھے، وہ کہتے ہیں میک ان انڈیا ہوہی نہیں سکتا لیکن اب اس میں لطف آرہا ہے ۔ کوئی ہندوستان کےلئے ایسا سوچ سکتاہے کیا؟ کہ میک ان انڈیا ہوہی نہیں سکتا، آپ کو تکلیف ہوتھی، ہم آکر کے ٹھیک کریں گے، ٹھیک  ہے ایسا بولو۔ ملک کو کیوں گالی دیتے ہو، ملک کے خلاف کیوں بولتے ہو، آج ملک کی نوجوانوں کی طاقت نے ملک کے صنعت کاروں نے کر کے دکھایا ہے ۔ آپ مذاق کاموضوع بن گئے ہیں ، اورمیک ان انڈیا کی کامیابی سے آپ لوگوں کو کتنی تکلیف ہورہی ہے، میں اجھی طرح سمجھ رہا ہوں۔

محترم اسپیکر صاحب،

میک ان انڈیا سے کچھ لوگوں کو تکلیف اس لئے ہے کہ اسکا مطلب ہے کمیشن کے راستے بند، کرپشن کے را ستے بند، تجوری بھرنے کے راستے بند، اوراس لئے میک انڈیا کی ہی مخالفت کرو۔ بھارت کے لوگوں کے  استعداد کو نظر  انداز کرنے کا گناہ  ملک کی چھوٹی صنعتوں کی بے عزتی، ملک کے نوجوانوں کی بے عزتی، ملک کی اختراعی صلاحیت کی بے عزتی۔

محترم اسپیکر صاحب،

ملک میں اس طرح منفی رجحان، ناامیدی کا ماحول بناتے ہیں۔ خود ناامید ہیں ، خود کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں اس لئے ملک کو ناکام بنانے کے لئے جو کھیل کھیل رہے ہیں ، اس کے معاملے میں ملک کا نوجوان پوری طرح جاگ چکا ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

پہلے جو حکومت میں تھے اورانہوں نے 50 سال تک  حکومتیں چلائیں ۔ میک ان انڈیا کے حوالے سے ان کاکیا جذبہ تھا، صرف دفاعی شعبے کو ہم دیکھیں، تو ساری بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ وہ کیا کرتے تھے، کیسے کرتےتھے، کیوں کرتے تھے اورکس کے لئے کرتے تھے؟ پہلےسالوں میں کیا ہوتا تھا، نئے آلات خریدنے کے لئے  ایک پروسیس چلتا تھا سالوں تک  اورجب حتمی فیصلہ ہوتا تو وہ چیز پرانی ہوچکی ہوتی تھی۔  اب بتائیے ملک کیا بھلا ہوتا؟ وہ چیزیں فرسودہ  ہوجاتی تھیں اور ہم پیسے دیتے تھے، ہم نےسارے عمل کو آسان بنایا۔ برسوں سے دفاعی شعبے کے جو معاملات زیرالتوا تھے، ان کو ہم نے نمٹانے کی کوشش کی ۔ پہلے  کسی بھی جدید پلیٹ فارم یاساز وسامان کے لئے ہمیں دوسرے ملکوں کی طرف دیکھنا پڑتا تھا۔ ضرورت کے وقت مارا ماری میں خریدا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ فالتو پرزوں کے لئے بھی ہم دوسرے ملکوں پر منحصر ہیں۔  دوسروں پر انحصار کرکے ہم ملک کی حفاظت کو یقینی نہیں بناسکتے۔ ہمارے پاس بہترین سہولت ہونی چا ہئے جو ہماری اپنی ہو۔ دفاع کے شعبے میں  خود کفیل ہونا  یہ ملک کی خدمت کابھی ایک بہت بڑا کام ہے اورآج میں ملک کے نوجوانوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ آپ اپنے کیریئر کے لئے اس شعبے کو چنئے۔  ہم طاقت کے ساتھ کھڑے ہوں گے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

اس بجٹ میں بھی ہم زیادہ سے زیادہ  ا ٓلات بھارت میں بھی بنائیں گے ۔ بھارتی کمپنیوں سے ہی خریدیں گے، بجٹ میں اس کی سہولت کی گئی ہے ۔ باہر سے لانے  کے راستے بند کرنے کی سمت میں ہم نے کام کیا ہے ۔ہماری فوجوں کی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ  ہم ایک بڑے دفاعی اکسپرٹ بننے کا خواب بھی د یکھ رہے ہیں  اور مجھے یقین ہے کہ خواب پورا ہوگا۔ میں  جانتا ہوں کہ دفاعی سودے میں کتنی بڑا طاقتیں پہلے اچھے ا چھوں کو خرید لیتی تھیں، ایسی طاقتوں کو مودی نے للکارا ہے ۔ اوراسی لئے مودی پر اس دن ناراضگی نہیں غصہ ہونا بھی فطری ہے اوران کا غصہ ظاہر بھی ہوتا رہتا ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

اپوزیشن کے ہمارے کچھ دوستوں نے یہاں مہنگائی کا معاملہ بھی اٹھایا ۔ ملک کابھلاہوتا اگر آپ کو یہ فکر اس وقت بھی ہوتی جب کانگریس کے زیر قیادت یوپی اے سرکار تھی ۔ آپ شاید بھول گئے ، میں یاد دلانا چاہتا ہوں، کانگریس کے آخری پانچ سالوں میں لگ بھگ پورے عرصہ کار میں ملک کو  دوہرے عدد و الی مہنگائی کی مار جھیلنی پڑی تھی، کانگریس کی پالیسیاں ایسی تھیں کہ سرکار خود ماننے لگی تھی کہ مہنگائی اس کے قابو سے باہر ہے ۔ 2011 میں اس وقت کے وزیرخزانہ نے لوگوں سے بے شرمی کے ساتھ کہہ دیا تھا کہ مہنگائی کم کرنے کےلئے کسی علادین کے چراغ کی امید نہ کریں  یہ  آپ کے لیڈروں کی بے حسی۔ہمارے چدمبرم صاحب  جو ان دنوں معیشتوں پر اخباروں میں مضامین لکھتے ہیں جب سرکار میں تھے تب کیا کہتے تھے، اس وقت کے لیڈر کیا کہتے تھے ؟ 2012 میں انہوں نے کہا تھا کہ لوگوں کو 15 روپے کی پانی کی بوتل اور 20 روپے کی آئس کریم خریدنے میں تکلیف نہیں ہوتی، لیکن گیہوں چاول پر ایک روپیہ بڑھ جائے تو برداشت نہیں ہوتا۔ مہنگائی کے حوالے سے کتنا غیر حصاص رویہ تھا ۔

محترم اسپیکر صاحب،

مہنگائی ملک کے عام آدمی سے سیدھے طور پر جڑی ہوئی ہے ۔ اورہماری این ڈی اے حکومت نے پہلے دن سے چوکس اور حساس رہ کر اس مسئلے کو باریکی کے ساتھ نپٹانے کی کوشش کی ہے  ۔ اوراسی لئے ہماری حکومت نے مہنگائی پر کنٹرول کو اپنی مالی پالیسی میں ترجیحی حیثیت دی ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

سوسال میں آئی اتنی بڑی وبا کے اس عرصے میں بھی ہم نے کوشش کی کہ مہنگائی اور ضروری ا شیا کی قیمت آسمان نہ چھوئے، عام آدمی کے لئے ، محترم اسپیکر صاحب ، خاص طور پر غریب کےلئے مہنگائی  برداشت سے باہر نہ ہو  اورمہنگائی پر قابو پانے کے لئے ہم نے کیا کیا ، یہ اعداد و شمار خود بتارہے ہیں ۔ کانگریس کی جہاں مہنگائی کی شرح دوہرے ہندسوں میں تھی وہیں 2014 سے 2020 تک مہنگائی 5 فیصد سے کم رہی ہے ۔ کورونا کے باوجود اس سال مہنگائی 5.2 فیصد رہی  اوراس میں بھی غذائی اشیا کی مہنگائی  3 فیصد سے کم رہی ہے ۔ آپ اپنے دور میں عالمی صورتحال کی دہائی دے کر پلہ جھاڑ لیتے تھے ۔ ویسے مہنگائی پر کانگریس کے راج میں  پنڈت نہرو جی نے لال قلعہ سے جو کہا، وہ  آپ کو بتانا چاہتاہوں۔ ملک کے پہلے وزیراعظم نہرو جی لال قلعے سے بول رہے ہیں، دیکھئے آپ کی خواہش رہتی ہے نہ کہ میں پنڈت جی کا نام نہیں لیتا ہوں،  آج میں باربار  یہ نام بولنے والاہوں، آج تو نہروجی نہروجی، مزہ لیجئے  آج۔

محترم اسپیکر صاحب،

پنڈت نہرو جی لال قلعہ پر سے کہاتھا اوریہ اس وقت جب گلوبلائزیشن اتنا نہیں تھا ، بلکہ برائے نام بھی  نہیں تھا۔ اس وقت نہرو  جی نے ملک کو مخاطب کرکے کہا ، کبھی کبھی کوریا میں لڑائی بھی ہمیں متاثر کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے چیزوں کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں،  اوریہ ہمارے قابو سے باہر ہو جاتی ہیں ، آگے کیا کہتے ہیں ، آگے کہتے ہیں ، اگر امریکہ میں بھی کچھ ہو جاتا ہے تو  اس کا اثر چیزوں کی قیمت پر پڑتا ہے ۔ سوچئے اس وقت مہنگائی کامسئلہ کتنا سنگین تھاکہ نہرو جی کو لال قلعہ سے ملک کے سامنے اپنے ہاتھ کھڑے کرنے پڑے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

اگر کانگریس سرکار آج  اقتدار میں ہوتی  تو آج دیش کانصیب دیش بچ گیا۔ اگرآپ اقتدار میں ہوتے تو مہنگائی کورونا کے خاطے میں جمع کرکے نکل جاتے آپ لوگ ۔ لیکن ہم بڑی برداشت کےساتھ اس مسئلہ کو ا ہم سمجھتے ہوئے اس کے حل کے لئے پوری طاقت سےکام کررہے ہیں ۔ آج دنیا میں امریکہ اور   او سی ڈی ملکوں میں مہنگائی 7 فیصد ہے  لیکن ہم کسی پر ٹھیکرا پھوڑ کر بھاگ جانے وا لوں میں سے نہیں ہیں، ہم ایمانداری سے کوشش کرنے والوں اور ذمہ داری کے ساتھ اہل وطن کے ساتھ کھڑے رہنے والوں میں سے ہیں۔

محترم اسپیکر صاحب،

ا س ایوان میں غریبی کم کرنے کے بھی بڑے بڑے اعداد وشمار دیئے گئے لیکن ایک بات بھول گئے، اس ملک کا غریب اتنا دھوکے باز نہیں ہے، کہ کوئی سرکار اس کی بھلائی کے لئے کام کرے اور وہ اسی کو اقتدار سے باہر کردے ۔ آپ کی یہ بری حالت اس لئے بنی کہ آپ نے ی ہ سمجھ لیا تھاکہ نعرے دے کر غریبوں کو اپنے چنگل میں پھنسائے رکھیں گے، لیکن غریب جاگ گیا اورآپ کوجان گیا ۔ وہ اتنا بیدارہے کہ آپ کو 44 سیٹوں پر سمیٹ دیا ۔ کانگریس 1971 سے غریبی ہٹاؤ کے نعرے پر چنائو جیتتی رہی تھی۔ 40 سال بعد غریبی تو ہمی نہیں لیکن کانگریس  سرکار نے اس کی نئی تشریح کردی۔

محترم اسپیکر صاحب،

دیش کے نوجوانوں کے لئے یہ سب جاننا ضروری ہے  اوراسپیکر صاحب یہ ڈسٹرب تک کرتے ہیں، تم کو اندازہ ہے کہ چوٹ بڑی گہری ہونےوا لی ہے، ان کو معلوم ہے کہ  آج مصیبت میں پھنسے ہیں ۔  کچھ لوگ بول کر بھاگ  جاتے ہیں، اورجھیلنا ان بیچاروں کو پڑتا ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

40 سال بعد غریبی تو نہیں ہٹی لیکن غریبوں نے کانگریس کو ہٹا دیا۔  اورکانگریس نے غریبی کی تعریف بدل دی۔ 2013 میں ایک ہی جھٹکے میں انہوں نے کاغذ پر کمال کرکے  17 کروڑ غریب لوگوں کو امیر بنا دیا۔ اسکی سچائی ملک کے نوجوانوں کو پتہ ہونا چاہئے۔  میں مثال دیتا ہوں ، آپ کو معلوم ہے ہمارے ملک میں پہلے ریلوے میں فرسٹ کلاس، سیکنڈ کلاس، تھرڈ کلاس ہوتا تھا،  جوفرسٹ کلاس ہوتاتھا، ایک لائن لکھی رہتی تھی، دوازے کے بغل میں ، سیکنڈ کلاس میں دو لکھی رہتی تھیں، تھرڈ کلاس میں تین۔  ان کو لگا یہ تھرڈ کلاس والامیسج ٹھیک نہیں ہے، تو انہوں نے ایک لائن نکال دی، یہ ان کے طریقے ہیں اوران کو لگتاہے کہ غریبی ہٹ گئی اورانہوں نے  کہہ د یا  کہ 17 کروڑ غریب نہیں گنے جائیں گے ۔ اس طرح سے آنکڑے بدلنے کا کام وہ کرتے رہتے تھے۔

محترم اسپیکر صاحب،

یہاں کچھ مادی معاملوں کو اٹھانے کی کوشش کی میں نے تو سمجھنے کی بہت کوشش کی ۔ میں نے تو سمجھنے کی بہت کوشش کی۔ شاید کوئی سمجھ پایا ہو، ایسا تو کوئی مجھے ابھی کوئی ملانہیں ہے۔ لیکن جوکوئی سمجھ پایا ہو تو میں سمجھنے کے لئے تیار ہوں۔ ایسی ۔  ایسی کچھ باتیں  اسپیک  آؤٹ تو ۔ محترم اسپیکر صاحب، ایوان میں ملک کو لے کر باتیں ہوئی ہیں۔ یہ باتیں حیران کرنے والی ہیں۔ میں میری بات رکھنے سے پہلے ایک بات دہرانا چاہتا ہوں۔ او رمیں کوٹ کررہا ہوں ۔

‘‘یہ معلومات بے حد حیرت میں ڈالنے وا لی ہے کہ بنگالی، مراٹھے، گجراتی، تمل، آندھرا، اڑیا، آسامی، کنڑ، ملیالی، سندھی، پنجابی، پٹھان، کشمیری، راجپوت اور ہندوستانی زبانوں کے عوام سے بسا ہوا بڑا درمیانی حصہ کیسے سیکڑوں برسوں سے اپنی الگ پہچان بنائے ہوئے ہے۔ اس کے باوجود ان سب کے خامیاں۔ خوبیاں کم و بیش  ایک  جیسی ہیں۔  اس کی معلومات پرانے رواج اور طریقوں سے ملتی ہے۔ ساتھ ہی  اس پورے دوران اور واضح طور سے ایسے بھارتی بنے رہے، جن کی قومی وراثت ایک ہی تھی اوران کی نیتک اور مانسک خوبیاں بھی ایک ایسی تھیں’’۔

محترم اسپیکر صاحب،

ہم ہندوستانیوں کی اس خوبی کو بتاتے ہوئے اس کوٹیشن میں دو الفاظ غور کرنے و الے ہیں۔ ‘قومی وراثت ’ اور یہ کوٹ پنڈت نہرو  جی کا ہے۔ یہ بات کہی نہرو جی نے اوراپنی کتاب ‘‘بھارت کی کھوج’’ میں ہے۔ ہماری قومی وراثت ایک ہے۔ ہمارے نیتک ا ور مانسک خصوصیات ایک ہیں، کیا قوم کے یہ ممکن ہے۔ اس ایوان کی یہ کہکر بھی  بے عزتی کی گئی کہ ہمارے قانون میں ‘راشٹر’ لفظ نہیں آتا۔ قانون  کے دیباچہ میں درج ‘راشٹر’ پڑھنے میں نہ آئے، یہ ہو نہیں سکتا۔ کانگریس یہ بے عزتی کیوں کررہی ہے میں اس پر تفصیل سے اپنی بات رکھوں گا۔

محترم اسپیکر صاحب،

‘راشٹر’ کوئی اقتدار یا سرکا رکا انتظام نہیں ہے۔ محترم اسپیکر صاحب، ہمارے لئے ‘راشٹر’ ایک زندہ روح ہے۔ اوراس سے  ہزاروں سال سے ملک کے باشندے جڑے ہوئے ہیں  اور جوجھتے رہے ہیں۔ ہمارے یہاں وشنو پران میں کہا گیا ہے، یہ کسی پارٹی والے نے نہیں لکھا ہے۔ وشنو پران میں کہا گیا ہے

اترم یش سمودچھے ہماورے چرو دچھڑم

ورشتت بھارتم  نام بھارت یتر سنتت

یعنی سمندر کےشمال میں اور ہمارلہ کے جنوب میں جو ملک  ہےاسے ہندوستان کہتے ہیں اوران کی  اولادوں کو ہندوستانی کہتے ہیں، وشنو پران کا یہ شلوک اگر کانگریس کے لوگو ں قبول نہیں ہے تو میں ایک اور  اقتباس استعمال کروں گا کیوں کہ کچھ چیزوں سے آپ کو ایلرجی ہوسکتی  ہے، میں دہراتا ہوں ‘ ایک لمحہ  آتا ہے جو تاریخ میں کبھی کبھار ہی آتاہے، جب ہم پرانے سے باہر نکل کر نئے یگ میں قدم رکھتے ہیں ۔  جب ایک یگ ختم ہو  جاتا ہے ، جب ایک ملک کی طویل عرصے سے دبی ہوئی روح آزاد ہوتی ہے۔ یہ بھی نہروجی کے ہی بول ہیں۔  آخر کس قوم کی بات نہروجی کررہے تھے۔

اورمحترم اسپیکر صاحب،

یہاں تمل جذبات کوبھڑکانے کی بھاری کوشش کی گئی۔ سیاست کے لئے کانگریس کی جو روایت انگریزوں کی وراثت میں ا ٓئی، دکھائی دیتی ہے۔ توڑو اور راج کرو، بانٹو اور راج کرو،  لیکن میں آج میں تمل زبان کے عظیم شاعر  اور مجاہد آزادی محترم سبرامنیم  بھارتی نے جولکھا تھا یہاں دہرانا چاہتا ہوں۔ میرے سنانے میں کوئی غلطی ہو تو تمل زبان کے لوگ مجھے معاف فرمائیں۔ لیکن میری طرف سے احترام اورجذبے میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ سبرامنیم بھارتی جی نے کہا تھا :

منم امئے ملے انگل ملے، پنروم اپنک نولینگل دولے

پارمسے اےدورو نولئی دہو پولے، پونیرو بھارت ناڈینگن ناڑے

پوڈرو اوم اتے اممک لیڑے

اس کا ترجمہ ہے ، سمانت جو سکل وشو میں مہیما  جن کی بہت رہی ہے، امر گرنتھ وے سبھی ہمارے اپنشدوں کا دیش یہی ہے۔  سبرامنیم بھارتی کہہ رہے ہیں ، گائیں گے ہم یش ہم سب اس کا یہ ہے سورنم دیش ہمارا، آگے کون جگت میں ہم سے یہ ہے بھارت دیش ہمارا۔ یہ سبرامنیم بھارتی جی کی نظم کا مفہوم ہے۔ میں آج تمل کے سب باشندوں کو سلام کرنا چاہوں گا۔

جب ہمارے ڈی ڈی ایس راوت جنوب میں ہیلی کاپٹر کے حادثہ میں ان کی موت  ہوئی اورجب ان کی میت ہوائی اڈے کی طرف لے  جانے کےلئے راستے سے گزر رہی تھی ، میرے تمل بھائی ، بہنیں لاکھو ںکی تعداد میں گھنٹوں تک قطار میں روڈ پر کھڑے رہے تھے، اور جب سی ڈی ا یس راوت کی میت وہاں سے نکل رہی تھی اس وقت ہر  تمل باشندہ  فخر کے ساتھ ہاتھ اوپر کرکے آنکھ میں آنسو کے ساتھ کہہ رہا تھا، ویر منکم، ویر منکّم،۔ لیکن کانگریس کو ہمیشہ ان باتوں سے نفرت رہی ہے۔ تقسیم کرنے والی ذہنیت ان کے ڈی این اے میں شامل ہے، انگریز چلے گئے لیکن بانٹو اور راج کرو  یہ پالیسی کانگریس نے اپنے کردار میں ڈھال لی ہے  اوراس لئے ہی آج کانگریس ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی لیڈر بن رہی ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

جو جمہوریت کے رد عمل سے ہمیں روک نہیں پا رہے ہیں وہ  یہاں ڈسپلن کی خلاف ورزی کرکے ہمیں روکنے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوگی ۔

محترم اسپیکر صاحب،

کانگریس پارٹی کے اقتدار میں آنے کی خواہش ختم ہوچکی ہے ۔ لیکن کب کچھ ملنے والا نہیں ہے کم سے کم بگاڑتو دو، یہ فلسفہ آج ان  قنوطیت پسندوں کا ہے۔ لیکن اس رعب اور موہ میں وہ ملک میں وہ بیج بو رہے ہیں جو علیحدگی کی جڑوں کو مضبوط کرنے والے ہیں ۔ ایوان میں ایسی باتیں ہوئیں کہ جس میں ملک کے کچھ لوگوں کو اکسانے کی بھر پور کوشش کی گئی۔ اگر  پچھلے سات سال میں کانگریس کے ہر کارنامے، ہر سرگرمی کو باریکی سے دیکھیں گے تو  ان کا گیم پلان کیا ہے وہ بالکل واضح ہو جاتا ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

آپ کا گیم پلان کوئی بھی ہو ، ایسے بہت لوگ آئے اور چلے گئے، لاکھ کوششیں کی گئیں اورخود غرضانہ اقدام کئے گئے لیکن یہ ملک امر ہے، اسکو کچھ نہیں ہوسکتا۔ آنے والوں کو اسطرح کی کوشش کرنے والوں کو ہمیشہ کچھ نہ کچھ گنوانا پڑا ہے ۔ یہ ملک ایک تھا، بہترین تھا، یہ ملک ایک ہے، ایک رہے گا، بہترین رہے گا، اسی یقین  کےساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔

محترم اسپیکر صاحب،

یہاں فرائض کی بات کرنے پر بھی اعتراض کیا جاتا ہے ۔ اس سے بھی کچھ لوگوں کو تکلیف ہوئی کہ ملک کا وزیراعظم ذمہ د اری کی بات کیوں کرتا ہے، فرض کی بات ہورہی ہے ، کسی با ت کو سمجھ کے بدنیتی سے  گھڑ دینا، تنازع کھڑا کردینا تاکہ خود خبروں میں رہیں۔ میں حیران ہوں کہ اچانک کانگریس کو اب فرض کی بات چبھنے لگی ہے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

آپ لوگ کہتے رہے ہیں کہ مودی جی  نہروجی کانام نہیں لیتے، تو میں آج آپ کی مراد برابر پوری کررہا ہوں، دیکھئے فرائض کے سلسلے میں نہرو جی نے کیا کہا تھا ؟ میں آج وہ عبارت سناتا ہوں ۔

محترم اسپیکر صاحب،

پنڈت نہروجی ملک کے پہلے وزیراعظم نے کیا کہا تھا، میں آپ سے پھر کہتا ہوں کہ آزاد ہندوستان ہے ، آزاد ہندوستان کی سالگرہ ہم مناتے ہیں، لیکن آزادی کے ساتھ ذمہ داری ہوتی ہے، اور فرض کو ہی دوسرے الفاظ میں ذمہ د اری کہتے ہیں ۔ اس لئے کسی کو سمجھنا ہوتو میں سمجھادوں، فرائض کو دوسرے الفاظ میں ذمہ د اری کہتے ہیں۔ اب یہ پنڈت نہرو کی عبارت ہے :‘‘ میں آپ سے پھر کہتا ہوں کہ آزاد ہندوستان ہے ۔ آزادہندوستان کی سالگرہ ہم مناتے ہیں لیکن آزادی کے ساتھ ذمہ د اری ہوتی ہے ، ذمہ د اری فرض خالی حکومت کی نہیں، ذمہ داری ہر ایک آزاد فرد کی ہوتی ہے اور  اگر آپ اس ذمہ د اری کو محسوس نہیں کرتے، اگر آپ سمجھتےنہیں تب آپ پورے طور پر  آزادی کے معنی نہیں سمجھے، اورآپ آزادی کو پورے طور سے بچا نہیں سکتے ہیں ’’۔ یہ فرض کے تئیں ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت نہروجی نے کہا تھا، لیکن آپ اس کو بھی بھول گئے ۔

محترم اسپیکر صاحب،

میں ا یوان کازیادہ وقت لینا نہیں چاہتا ہوں، اور وہ بھی تھک گئے ہیں، محترم اسپیکر صاحب ، ہمارے یہاں کہا گیا ہے :

Quote

یعنی عمل حاصل کرنےکے لئے ایک  ایک لمحہ ا ہم ہوتا ہے ۔ جائیداد کے وسائل کے  لئے ایک ایک پل ضروری ہوتا ہے۔ ایک لمحہ بھی برباد کرکے علم حاصل نہیں کیا جاسکتا اور ایک ایک لمحہ برباد کیا گیا ، چھوٹے چھوٹے وسائل کا معقول  استعمال نہیں کیا گیا تو وسائل بیکا رہوجاتے ہیں ۔ میں کانگریس اوران کے ساتھیوں سے کہوں گا کہ آپ یہ ضرور سوچئے کہ کہیں آپ تاریخ کے اس اہم لمحے کو ضایع تو نہیں کررہے ہیں ۔ مجھےسنانے کے لئے ، مجھ پر تنقید کرنے کے لئے، میری پارٹی کو کوسنے کے لئے بہت کچھ ہے جوآپ کرسکتے ہیں  اورآگے بھی کرتے رہئے موقعوں کی کمی نہیں ہے ۔  لیکن آزادی کے امرت کال کا یہ وقت 70 برسوں کایہ عرصہ بھارت کے ترقی کے سفر میں ایک مثبت تعاون کا وقت ہے۔ میں حزب مخالف اوریہاں موجود سبھی ساتھیوں سے اور  ایوان کے توسط سے  اہل وطن سے بھی آزادی کے اس امرت مہوتسو کے اس موقع پر اپیل کرتاہوں ، درخواست کرتاہوں،  التجا کرتا ہوں کہ آؤ اس آزادی کے امرت مہوتسو کو ہم نئے  ارادوں کے ساتھ  آتم نربھر بھارت کے  عہد وپیمان کےساتھ یکجاہو کر ہم منائیں ۔ کوشش کریں کہ پچھلے 75 سال میں جہاں جہاں ہم سے خامیاں ہوئی ہیں ان کی تلافی کریں اورآنے والے 2047 کے صدی سال بنانے سے پہلے ملک کو کیسا بنانا ہے ، اس کا بیڑا اٹھاکر آگے بڑھیں۔ ملک کی ترقی کے لئے ملکر کام کرنا ہے ۔ سیاست اپنی جگہ ، ہم پارٹی کے جذبہ سے اوپر اٹھ کر دیش کے  جذبات کو لے کر جئیں۔ چناؤ کے میدان میں جو کچھ کرنا ہے کرتے رہئے لیکن ہم ملک کے مفاد میں آگے  آئیں۔ مجھے ایسی توقع ہے۔  آزادی کے 100 سال جب ہوں گے اورایوان میں ایسے ہی جو لوگ بیٹھے ہوں گے تو ضرور تذکرہ کریں گے کہ ایسی مضبوط بنیاد پر ایسی ترقی پر  پہنچے ہوئے 100 سال کے ا س سفر کے بعد ملک ایسے لوگوں کے ہاتھ میں جائے جو اس کو آگے لے جانے کی تمنا رکھتے ہوں ۔ ہم یہی سوچیں کہ جو وقت ملا ہے اسکا ہم بہر استعمال کریں، ہمارے سنہرے بھارت کی تعمیر میں ہم کوئی کوتاہی نہ برتیں  ۔ پوری قوت کے ساتھ ہم اس کام میں جٹ جائیں ۔

محترم اسپیکر صاحب،

میں پھر ایک بار صدرجمہوریہ کے خطاب کو، شکریہ کی تجویز کو پیش کرتاہوں۔ اورمیں اس ایوان میں  مذاکرہ میں حصہ لینے والے  سبھی محترم اراکین پارلیمنٹ کا بھی پھر سے ایک بار شکریہ ادا کرتے ہوئے  آپ نے جو موقع دیا ، روکا ٹوکی کی کوشش کے باوجود بھی میں نے سبھی  معاملات کو واضح  کرنے کی کوشش کی ہے ۔ بہت بہت شکریہ ۔

 

************

 

 

ش ح۔ اگ ۔  س ب  ۔ م  ص - ف ر

 (U: 1278)                           



(Release ID: 1796487) Visitor Counter : 2883