وزارت خزانہ

 اقتصادی جائزہ 22۔2021  کا خلاصہ


ورلڈ بینک، اے ڈی بی  اور آئی ایم ایف کے تخمینوں کے مطابق، بھارت 24-2021 کے دوران دنیا کی سب سے تیزی سے ترقی کرنے والی بڑی معیشت رہے گا

بھارتی معیشت میں 22۔2021   کے دوران حقیقت  معنوں میں  9.2 فیصد کا اضافہ ہوگا

زراعت میں 22۔2021  میں 3.9 فیصد کا اضافہ  ہوگا جبکہ گزشتہ برس  یہ اضافہ  3.6 فیصد  تھا

صنعتی شعبہ میں 21۔2020  میں آنے والی  7 فیصد کی گراوٹ کے مقابلے 22۔2021  میں 11.8 فیصد کی شاندار  توسیع   ہوگی

خدمات کے شعبے میں گزشتہ سال 8.4فیصد  کی گراوٹ کے بعد22۔2021  میں 8.2فیصد  کی ترقی ہوگی

اکتیس  دسمبر 2021 کو  غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 634 بلین امریکی ڈالر تھے جو 13 ماہ سے زیادہ کی درآمدات کے مساوی اور ملک کے بیرونی قرضوں سے زیادہ   ہیں

سرمایہ کاری میں22۔2021   کے دوران  15فیصد  کی مضبوط ترقی متوقع ہے

دسمبر 2021 میں  صارفین کی قیمتوں کا اشاریہ  (سی پی آئی)   5.6 فیصد کی مشترکہ افراط زر کے ساتھ   ٹارگٹڈ ٹولرینس بینڈ کے اندر ہے

اپریل تا نومبر 2021 کے لیے مالیاتی خسارہ بجٹ تخمینے کا  46.2 فیصد رہا

عالمی وبا کے باوجود کیپٹل مارکیٹ میں تیزی، اپریل تا نومبر 2021 میں 75  آئی پی او  ایشوز کے ذریعے 89 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی گئی، جو کہ گزشتہ دہائی کے کسی بھی سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے

میکرو اکنامک  استحکام کے اشاریوں  سے بھارتی معیشت کی اچھی کارکردگی کا پتہ چلتا ہے

Posted On: 31 JAN 2022 3:11PM by PIB Delhi

بھارت میں بڑے پیمانے  پر ٹیکا کاری کے کوریج، سپلائی سے متعلق اصلاحات  پابندیوں میں کمی   برآمدات میں زبردست اضافے  اور  کیپیٹل اخراجات میں اضافے کے لئے  مالیاتی گنجائش کی دستیابی  سے  سال  23۔2022 میں  جی ڈی پی میں 8.0 ۔ 8.5 فیصد  کا اضافہ ہوگا۔

خزانے اور کارپوریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے   آج پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ 22۔2021 پیش کیا، جس میں کہا گیا ہے کہ آنے والے سال میں  نجی شعبے کی سرمایہ کاری  میں بہتری آئے گی جس سے  مالیاتی نظام  معیشت کے احیا کے لئے تعاون  کرنے کے سلسلے میں اچھی حالت میں ہوگا۔ سال 23۔2022 میں   ترقی کا اندازہ  اس مفروضہ پر مبنی  ہے کہ   معیشت  میں رخنہ ڈالنے کےلئے  کوئی اور خوفناک عالمی وبا نہیں ہوگی، مانسون معمول کے مطابق رہے گا،  بڑے سینٹرل بینکوں کے ذریعہ عالمی لکویٹڈی کی واپسی  موٹے طور پر ضابطے کے مطابق ہوگی،  تیل کی قیمتیں   70-75  امریکی ڈالر فی بیرل  رہے گی  اور  سال کے دوران  عالمی سپلائی چین میں آنے والی رکاوٹوں کو دور کردیا جائے گا۔

 

ٍ

جائرے  میں کہا گیا ہے کہ  مذکورہ بالا اندازہ   سال 22۔2023 کے لئے  عالمی بینک اور ایشین ڈیولپمنٹ بینک کے  حقیقی جی ڈی پی اضافے کی تازہ ترین  پیش گوئی   کے  بالترتیب 8.7 فیصد اور 7.5 فیصد اضافے کے مطابق  ہے۔ آئی ایم ایف کی تازہ ترین  ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک  (ڈبلیو ای او)   ترقی کا اندازہ 25 جنوری 2022 کو جاری کیا گیا۔ ا س کے مطابق  سال 22۔2021 اور 23۔2022  دونوں میں  بھارت کی حقیقی جی ڈی پی  کا اندازہ فیصد کا ہے اور سال 24۔2023 میں  7.1 فیصد کا ۔ اس میں  بھارت کو  ان تینوں برسوں میں  دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی  ایک بڑی معیشت  قرار دیا گیا ہے۔

 

 

پہلے پیشگی تخمینے کا حوالہ دیتے ہوئے  جائزے میں کہا گیا ہے کہ  سال 21۔2020 میں 7.3 فیصد کی گراوٹ کے بعد  سال 22۔2021 میں  بھارتی معیشت میں  حقیقی معنوں میں 9.2 فیصد  کی ترقی  کا اندازہ ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ  مجموعی طور پر  عالمی وبا کے بعد اس سے قبل کی اقتصادی سرگرمی بحال ہوگئی ہے۔ تقریباً تمام اشاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ   پہلی سہ ماہی میں، دوسری لہر کا اقتصادی اثر  21۔2020 میں  پورے لاک ڈاؤن کے مرحلے  کے دوران جو کچھ ہوا ، اس سے بہت کم تھا، اگرچہ صحت پر پڑنے والا اثر زیادہ شدید تھا۔

 

شعبہ جاتی پہلوؤں پر انحصار کرتے ہوئے  جائزے میں کہا گیا ہے کہ  زراعت اور متعلقہ شعبوں  پر  عالمی وبا کا سب سے کم اثر پڑا ہے اور  گزشتہ سال  3.6 فیصد  کے اضافے کے بعد 22۔2021 میں  اس میں 3.9 فیصد  کے اضافے  کی توقع ہے۔ گزشتہ برسوں  میں خریف اور ربیع کی فصلوں کی بوائی والے  علاقے اور  گیہوں اور چاول کی پیداوار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔  رواں سال  میں  خریف سیزن کے لئے  اناج کی پیداوار   150.5 ملین ٹن کی   ریکارڈ سطح پر پہنچنے کا تخمینہ ہے۔ اس کے علاوہ  مرکزی پول کے تحت اناج کی حصولیابی   کو بھی کم از کم  امدادی قیمتوں کےساتھ 22۔2021 میں   اضافے کے ساتھ برقرار رکھا گیا ہے جو کہ   نیشنل فوڈ سکیورٹی اور کسانوں کی آمدنی   میں اضافہ ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ   شعبے کی مضبوط کارکردگی  کو حکومت کی پالیسیوں سے  مدد ملی ہے  جس نے  عالمی وبا سے متعلق رکاوٹوں کے باوجود  وقت پر  بیج اور فرٹیلائزر کی سپلائی کو یقینی بنایا ہے۔ اس سلسلے میں اچھے مانسون کی بارشوں سے بھی مدد ملی ہے جیسا کہ گزشتہ 10 برسوں کے  اوسط سے زیادہ ذخائر کی سطحوں سے ظاہر ہوتا ہے۔

 

جائزے کے مطابق   صنعتی شعبے نے بھی   21۔2020 نے 7 فیصد کی گراوٹ کے بعد  اس مالی سال میں  11.8 فیصد کی توسیع کے ساتھ  واپسی کی ہے۔  مینوفیکچرنگ، تعمیر اور کانکنی کے  ذیلی شعبوں  میں بھی  یہی رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔  بجلی اور پانی کی سپلائی جیسی خدمات    قومی لاک ڈاؤن کے عروج کے وقت بھی بحال رہنے کی وجہ سے  اس شعبے میں بھی یہی رجحان دیکھا گیا ہے۔ جی وی اے میں صنعت کا حصہ  اب تخمینے کے مطابق 28.2 فیصد ہے۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ  عالمی وبا کے دوران  سب سے زیادہ متاثر  خدمات کا شعبہ ہوا ہے۔ خصوصی طور پر  ایسے شعبے زیادہ متاثر ہوئے  جن میں  انسانی رابطہ شامل تھا۔  گزشتہ سال کی  8.4 فیصد کی گراوٹ کے بعد  اس مالی سال میں ، اس شعبے میں   8.2 فیصد کی ترقی   کا تخمینہ ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ  مختلف ذیلی شعبوں کی کارکردگی میں  بڑے پیمانے پر رکاوٹ آئی ہے۔  فائننس/ ریئل ایسٹیٹ اور  پبلک ایڈمنسٹریشن  دونوں شعبے اب  کووڈ سے پہلے کی سطح سے  اوپر ہیں لیکن  ٹریول، ٹریڈ اور ہوٹلوں کی حالت ابھی تک  بحال نہیں ہوپائی ہے۔ سیاحت سے ہونے والی آمدنی میں   تیزی سے گراوٹ آنے کے باوجود   آئی سے متعلق  خدمات اور سافٹ ویئر  کی برآمدات میں  اضافہ ہوا ہے۔

جائزئ میں  کہا گیا ہے کہ  گزشتہ سال کی طرح  سب سے زیادہ کھپت  حکومت کے پاس ہونے کے ساتھ ساتھ  سال 22۔2021 میں  مجموعی کھپت میں  7.0  فیصد کا اضافہ ہوگا۔  عالمی وبا سے پہلے کی سطحوں سے  آگے نکلتے ہوئے  حکومت کی کھپت  میں  7.6 فیصد کا اضافہ ہونے کا تخمینہ ہے۔ نجی کھپت میں بھی  عالمی وبا سے قبل  کے مقابلے میں  97 فیصد  بحالی کا تخمینہ ہے اور  تیزی سے ٹیکہ کاری کے کوریج  اور اقتصادی سرگرمی کی تیز رفتار بحالی کے ساتھ ساتھ   مضبوطی کے ساتھ  یہ بحال ہورہی ہے۔

جائزے کے مطابق  گروس فکسڈ کیپیٹل فارمیشن  (جی ایف سی ایف)  نے  اندازہ لگایا ہے کہ  سال 22۔2021 کے دوران سرمایہ کاری میں   15 فیصد   کا اضافہ ہوگا اور  یہ عالمی وبا سے پہلی کی سطح  تک پوری طرح بحال ہوجائے گی۔   کیپیکس  اور  بنیادی ڈھانچے کے اخراجات کے ذریعہ   شرح ترقی کو تیز  کرنے   پر مرکوز حکومت کی پالیسی   نے  22۔2021 میں   جی ڈی پی تناسب کی سرمایہ کاری  میں  تقریباً 29.6 فیصد   کا اضافہ کرکے    سرمایہ  کی تشکیل میں اضافہ  کیا ہے جو کہ  گزشتہ 7 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔ نجی سرمایہ کاری کی بحالی کا کام  ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے لیکن  کئی اشاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ بھارت  مضبوط سرمایہ کاری کے لئے پر تول رہا ہے۔ ایک مضبوط اور صاف ستھرا بینکنگ کا شعبہ، شعبہ نجی سرمایہ کاری کے  واسطے خاطر خواہ تعاون فراہم کرانے کے لئے تیار ہے۔

برآمدات اور درآمدات کے معاملے میں جائزے میں کہا گیا ہے کہ  اشیا  اور خدمات   دونوں کی بھارت کی برآمدات   22۔2021 میں  اب تک  غیر معمولی طور پر مضبوط رہی ہے۔ تجارتی مال کی برآمدات    22۔2021  میں عالمی وبا کی وجہ سے  عالمی سطح پر  رکاوٹوں کے باوجود  مسلسل  8 ماہ     30 بلین ڈالر سے  زیادہ رہی ہے۔  خدمات کی برآمدات میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔  اس سلسلے میں  پروفیشنل اور  منیجمنٹ کنسلٹنگ خدمات ، آڈیو ویژول اور متعلقہ خدمات   سامان کے ٹرانسپورٹ سے متعلق خدمات  ٹیلی کمیونی کیشن   کمپیوٹر  اور اطلاعاتی  خدمات نے تحریک دی ہے۔ مانگ کے تناظر میں بھارت کی مجموعی برآمدات     میں عالمی وبا سے پہلے کی سطح  کو پار کرتے ہوئے  22۔2021 میں  16.5 فیصد  اضافہ ہونے کی توقع ہے۔  گھریلو مانگ   کے احیا اور  درآمد شدہ کروڈ اور  دھاتوں کی قیمتوں میں مسلسل اضافے  کی وجہ سے  درآمدات بھی مضبوطی کے ساتھ بحال ہوئی ہے۔   درآمدات میں  عالمی وبا سے پہلے کی سطح کے مقابلے میں 22۔2021 میں 29.4 فیصد کا اضافہ متوقع ہے۔  اس کے نتیجے میں  سال 21۔2020 کے اسی مدت کے  مقابلے میں  22۔2021 کی پہلی ششماہی میں   بھارت کی  خالص برآمدات  منفی رہی ہے لیکن    چالو کھاتے کا خسارہ   محدود رہنے کی توقع ہے۔

ا س کے علاوہ  جائزے میں بتایا گیا ہے کہ  عالمی وبا کی وجہ سے  پیدا شدہ تمام رکاوٹوں کے باوجود بھارت کا   گزشتہ دو برسوں میں  ادائیگی  کا توازن   زیادہ رہا ہے۔ اس سے  ریزرو بینک آف انڈیا   کو غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر جمعہ کرنے میں  مدد ملی  جو کہ  31 دسمبر 2021 کو 634 بلین امریکی ڈالر ہیں۔ یہ  13.2 ماہ کی درآمدات  کے برابر ہیں اور ملک کے بیرونی قرض سے زیادہ ہیں۔

 

جائزے میں کہا گیا ہے کہ جدید ترین اور ابھرتی ہوئی معیشتوں دونوں میں افراط زر کا مسئلہ ایک بار پھر ایک عالمی مسئلہ بن کرابھراہے۔ توانائی ، غیرخردنی اشیا ، لازمی سازوسامان کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی سپلائی چین میں رخنہ، نیز بڑھتےہوئے مال بھاڑے میں  اضافہ، اس سال کے دوران عالمی افراط زر کی وجوہات رہی ہے۔ بھارت میں 22-2021 (اپریل – دسمبر) میں صارفین کی قیمتوں کے انڈیکس (سی پی آئی) کی افراط زر 5.2 فیصد تک رہی جو 21-2020 کی اسی مدت  میں  6.6 فیصد تھی۔ دسمبر 2021 میں یہ (سال بہ سال ) 5.6 فیصد تھی جو قابل برداشت حدود میں رہی۔ 22-2021 میں خردہ افراط زر میں کمی کی وجہ کھانے  پینے کی اشیا کی افراط زر میں کمی رہی۔ البتہ تھوک قیمتوں کی افراط زر  دوہرے ہندسوں میں پہنچ گئی۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ 21-2020 میں مالی خسارے اور سرکاری قرض کی وجہ  معیشت کو دی گئی مالی مدد اور صحت پر خرچ کی گئی رقوم  ہیں۔البتہ 22-2021 میں ابھی تک  سرکاری محصولات میں مضبوطی آئی ہے۔اپریل سے نومبر 2021 کے درمیان مرکزی حکومت کے موصولہ محصولات میں 67.2 فیصد کااضافہ ہوا ہے  جبکہ 22-2021 کے بجٹ تخمینے میں  شرح نمو عارضی طور پر 9.6 فیصد بتائی گئی ہے۔ ٹیکس حصولیابیاں راست اور بالواسطہ دونوں طرح کے ٹیکسوں میں زیادہ رہی ہیں اور مجموعی ماہانہ جی ایس ٹی حصولیاں جولائی 2021 سے ابتک ایک لاکھ کروڑ روپئے سے تجاوز کرگئی ہیں۔

 

 

اس میں یہ بھی کہا گیا ہےکہ  محصول کی لگاتار وصولی اور حکومت ہند کی مقررہ خرچہ سے متعلق پالیسی کی وجہ سے اپریل –نومبر 2021 میں مالی خسارہ بجٹ تخمینے (بی ای)  کے 42.2 فیصد تک محدود کیا جاسکا ہے جو پچھلے دو برس کی اسی مدت کے دوران تناسب کا تقریباً ایک تہائی ہے (اپریل –نومبر 2020 میں بجٹ تخمینے کا 135.1 فیصد اور اپریل سے نومبر 2019 میں بجٹ تخمینے کا 114.8 فیصد ) ۔

 

جائزے میں اشارہ دیا گیا ہےکہ مالی شعبہ بحران کے اوقات میں ہمیشہ دباؤ کا ایک ممکنہ پہلو رہا ہے۔ البتہ بھارت کی اثاثہ منڈیوں نے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور بھارتی کمپنی کے ممکنہ خطروں سے متعلق اثاثوں کوریکارڈ سطح پر استعمال کیا گیا ہے۔ سنسیکس اور نفٹی 18اکتوبر  2021 کو 61766 اور 18477 پوائنٹس  پر پہنچ گئے ۔اپریل –نومبر 2021 میں 75 آئی پی او اجرا کے ذریعہ 89066 کروڑ روپئے حاصل کئے گئے جو پچھلی دہائیوں میں کسی بھی سال کے دوران حاصل کی گئی رقم سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ بنکنگ نظام  کو کافی زیادہ اثاثہ جاتی بنایا گیا ہے اور این پی اے (غیرمنافع بخش اثاثے ) میں ڈھانچہ جاتی سطح پر کمی آئی ہے۔ مجموعی کارکرد پیشگی رقوم (جی این پی اے ) تناسب (جو جی این پی اے،  مجموعی پیشگی رقوم کے فیصد کے طور پر ) اور شیڈولڈ کمرشیئل بنکوں (ایس سی بی) کے  خالص غیرکارکرد پیشگی رقوم کے تناسب میں 19-2018 سے لگاتار کمی آرہی ہے ۔ ایس سی بی کے جی این پی اے ریشومیں ستمبر کے اواخر 2020 میں 7.5 فیصد سے کمی ہوکر یہ ستمبر 2021 کے اواخر تک 6.9 فیصد  تناسب ر ہ گیا ہے۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے اقتصادی  ردعمل کا ایک اور امتیازی پہلو یہ ہے کہ مانگ کے بندوبست پر پوری طرح انحصار نہ کرکے سپلائی کے شعبے میں اصلاحات پر زور دیا گیا ہے۔ سپلائی کے شعبے کی ان اصلاحات میں بہت سے شعبوں کی غیرضابطہ کاری  ، طور طریقوں میں سہولت ، بار بار ٹیکس عائد کرنے ، نجکاری ، پیداوار سے متعلق ترغیبات  جیسے  پہلے سے جاری معملات کو ختم کیا جانا شامل ہیں۔ حکومت کی طرف سے بہت سے اثاثوں کے خرچ میں اچانک اضافے کو مانگ اور سپلائی دونوں کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے کیونکہ اس سے مستقبل کی ترقی کے لئے بنیادی ڈھانچہ کی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے۔

بھارت کی سپلائی سے متعلق حکمت عملی کے دو مشترک موضوعات ہیں  (i) وہ اصلاحات جن کے ذریعہ کووڈ کے بعد کی دنیا کی طویل مدتی غیریقینی صورتحال سے نمٹنے میں لچکداری اور اختراع کو بہتر بنایا گیا ہے۔ اس میں فیکٹر مارکٹ کی اصلاحات ، خلا ، ڈرون ، جغرافیائی نقشہ بندی ، تجارتی مالیات کے عوامل جیسے شعبوں کی غیرضابطہ کاری شامل ہے۔ اس میں سرکاری خرید  اور ٹیلی مواصلات جیسے شعبے میں اصلاحات، متعدد جگہوں پر لگائے جانے والے ٹیکس، نجکاری اور نوٹ بندی ، بنیادی ڈھانچہ کی تخلیق وغیرہ جیسے پہلے سے جاری مسائل کا خاتمہ  شامل ہے۔ (ii) بھارتی معیشت کے تئیں لچکداری میں بہتری کے مقصد سے کی گئی اصلاحات، ان میں آب و ہوا / ماحولیات سے متعلق پالیسیاں ، نل کے پانی کی عوامی سہولت ، بیت الخلا، بنیادی ہاؤسنگ ، غریبوں کا بیمہ  وغیرہ جیسا  سماجی بنیادی ڈھانچہ ، آتم نربھربھارت کے تحت بنیادی صنعتوں کی مدد، غیرملکی تجارتی معاہدوں میں آمنے سامنے کی تجارت پر کافی زیادہ زور شامل ہے۔

ایک اہم موضوع جس پر اقتصادی جائزے کے دوران بحث کی گئی ہے ،طور طریقوں میں اصلاحات ہے۔ غیرضابطہ کاری اور طورطریقوں میں اصلاحات کے درمیان فرق کیا جانا ایک اہم بات ہے۔ غیرضابطہ کاری کا تعلق کسی خاص سرگرمی میں حکومت کے رول کو کم یا ختم کرنے سے ہے۔ اس کے برعکس طور طریقوں میں اصلاحات کا اصل تعلق ان سرگرمیوں کے طور طریقوں کو آسان بنانے اور بلارکاوٹ بنانے سے ہے جن میں حکومت کی موجودگی ایک سہولت کار یا ضابطہ کار کے طور پر ضرور ی ہے۔

جائزے میں اشارہ دیا گیا ہے کہ کووڈ-19 عالمی وبا کی وجہ سے عالمی معیشت  کے لئے پچھلےدو سال کافی مشکل رہے ہیں۔ انفیکشن کا باربار آنا، سپلائی چین میں رخنہ پڑنا اور حال ہی میں عوامی افراط زر کی وجہ سے پالیسی سازی میں مشکل پیدا ہوئی ہے۔ ان چیلنجوں کا مقابلہ کرتے ہوئے حکومت ہند نے ایک ‘باربیل’ حکمت عملی اپنائی ہے جس کے تحت سماج کے حساس طبقوں اور تجارتی شعبے  پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کے لئے بہت سے حفاظتی اصول مرتب کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ  اس میں بنیادی ڈھانچہ پر کئے جانے والے  اثاثہ جاتی اخراجات میں خاطرخواہ اضافہ کیا گیا ہے تاکہ وسط مدتی مانگ کو نیزسپلائی سے متعلق اقدامات پر زبردست طریقہ سے عمل درآمد کو بحال کیا جاسکے۔ جس کا مقصد کسی طویل مدتی دیر پا وسعت کے لئے معیشت کو تیار کرنا ہے۔ یہ لچکدار اور تہہ دار طریقہ کار ایک چسپ لائحہ عمل پر جزوی طور پر مبنی ہے جس کے تحت رائے حاصل کی جاتی ہے اور بروقت اعدادوشمار پر گہری نظررکھی جاتی ہے۔

جائزے میں یہ بات خاص طور پر کہی گئی ہے کہ وبا پھیلنے کے بعد سے مالی پالیسی کو خسارہ برداشت کرنے اور ترقی کو سہارا دینے کے مقصد سے ترتیب دیا گیا ہے۔لیکن اسے  زیادہ نقد رقم کی  وسط مدتی منتقلی سے بچنے کے مقصد سے کافی احتیاط کے ساتھ کنٹرول کیا گیا ہے۔ حفاظتی اصولوں کا ایک اہم پہلو عام طور پر معیشت کو اور خاص طور پر ایم ایس ایم ای کو مالی مدد فراہم کرنے کے لئے حکومت کی گارنٹی کا استعمال ہے۔

پچھلے دو برسوں میں حکومت نے 80 ہائی فرکوینسی انڈیکیٹرز قائم کئے ہیں جو صنعت خدمات ، عالمی رجحانات ، میکرواستحکام کے اشاریوں اور بہت سے دیگر سرگرمیوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان سرگرمیوں میں بروقت معیشت کی جاری صورتحال کا اندازہ لگانے کے لئے سرکاری اور پرائیوٹ دونوں طرح کے وسائل شامل ہیں۔ ان اشاریوں سے پالیسی سازوں کو ایک خاص لائحہ عمل کے تئیں پہلے سے سوچے سمجھے ردعمل پر انحصار کرنے کے بجائے ایک تازہ صورتحال کے ارتقا میں مدد ملے گی  جو بھارت میں اور تقریباً پوری دنیا میں تشکیل دینے کے لئے روایتی طریقہ ہے۔

آخر میں جائزہ  کافی امید افزا ہےکہ مجموعی طور پر میکرومعیشت کے استحکام سے متعلق اشاریوں سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی معیشت  23-2022 کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تیار ہے اور بھارتی معیشت کے اچھی حالت میں ہونے کی ایک وجہ  اس کی منفرد انداز کی حکمت عملی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ش ح۔ ا گ۔ا س۔  ن ا۔ م ص۔

U-899

                          



(Release ID: 1793923) Visitor Counter : 855