امور داخلہ کی وزارت
مرکزی وزیر داخلہ و تعاون جناب امیت شاہ نے انڈمان و نِکوبار جزائر میں نیتا جی سبھاش چندر بوس جزیرے سے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا اور سنگِ بنیاد رکھا
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے یہاں تین جزیروں کو شہید، سوراج اور سبھاش کے ناموں سے منسوب کیا ہے تاکہ آنے والی نسلیںیہ تحریک لے سکیں کہ اب ملک آزاد ہو چکا ہے اور نیتا جی، ویر ساورکر اور بہت سے دوسرے نامعلوم شہیدوں نے جس ہندستان کا کواب دیکھا تھا اُسے شرمندہ تعبیر کرنا اب نوجوان نسل کی اور ہماری ذمہ داری ہے
آزادی کا امرت مہوتسو ملک بھر میں منایا جا رہا ہے۔ اس کے ذریعے ہم بچوں اور نوجوانوں میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایک نئے اور عظیم ہندستان کی تعمیر میں حصہ لے سکیں
مودی جی نے خواب دیکھا ہے کہ ہندستان دنیا میں عظیم بن کر اپنا صحیح مقام حاصل کرے۔ اس رُخ پر ہماری نئی نسل کو آگے بڑھنا چاہیے
1943 میں نیتا جی سبھاش چندر بوس نے ہندستان کے اس حصے کو دو سال تک انگریزوں کے چنگل سے آزاد رکھا تھا
یہ مقام ملک بھر کے محبان وطن بالخصوص نوجوان نسل کے لئے انتہائی اہم ہونا چاہیے کیونکہیہیں نیتا جی نے پہلی بار ترنگا لہرایا تھا
انڈمان و نِکوبار از خود تحریک آزادی کا مقامِ زیارت ہے۔ ملک کے ہر نوجوان کو ان لوگوں کی اذیتوں کو جاننا ، سمجھنا اور دیکھنا چاہئے جنہیں کالاپانی نے سزا دی گئی تھی
ملک کی نوجوان نسل ایک بار جب اس سیلولر جیل کو دیکھے گی جہاں ویر ساورکر، بھائی پرمانند اور سانیال جی کو رکھا گیا تھا تو پتہ چل جائے گا کہ ان لوگوں نے اُس آزاد ہندستان کے لئے کیا قیمت ادا کی ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں
اگر ہم اپنی زندگی ہندستان کی ترقی، فروغ اور فخر کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ آزادی کے امرت مہوتسو کے دوران یہی ہمارا مقصد ہے
نیتا جی اور ان کی زندگی کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ نیتا جی کے ساتھ ناانصافی ہوئی۔ انہیں جتنی اہمیت ملنی چاہئے تھی اتنی نہیں ملی
برسوں سے اس ملک میں آزادی کے بہت سے معروف رہنماؤں اور ان کی خدمات کو کم کر کے دکھانے کی بھی کوشش کی گئی
سردار صاحب کو بھی اتنی عزت نہیں ملی جتنی آزادی کے بعد ملنی چاہیے تھی
ہندوستانی جمہوریہ جو آج ہمارے سامنے ہے اس کا وجود نہیں ہو سکتا تھا اگر سردار پٹیل نے ڈیڑھ سال سے بھی کم عرصے میں 550 سے زائد شاہی ریاستوں کو جوڑنے کا کام نہ کیا ہوتا
کیواڈیا میں نریندر مودی جی نے سردار صاحب کا دنیا کا جو سب سے بلند مجسمہ نصب کیا ہے آج اسے دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں
سبھاش بابو نے جس جگہ جھنڈا لہرایا تھا جناب نریندر مودی نے اُس جگہ کو ایک بہت بڑا سیاحتی مقام بنانے کے علاوہ وہاں ایک بہت بڑا ترنگا نصب کر کے آزادی کے 75 برسوں کی تکمیل کے موقع پر حب الوطنی پیدا کرنے کا مقام بنا دیا ہے۔
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے 23 جنوری کو سبھاش بابو کی سالگرہ کو ملک بھر میں پراکرام دیوس کے طور پر منانے کا بھی اعلان کیا ہے
منی پور ایک طویل عرصے تک برطانوی قبضے میں رہا لیکن منی پور کے حریت پسندوں نے ہمیشہ برطانوی حکمرانوں کے خلاف سخت جدوجہد کی
مہاراجہ کلچندرا دھوج سنگھ اور آزادی کے 22 مجاہدین کو کالا پانی بھیجا گیا تھا اور انہیں ماؤنٹ ہیریئٹ نامی ایک جزیرے پر رکھا گیا تھا۔ ان کییاد اور ان کی خدمات کے اعتراف میں ہم ماؤنٹ ہیریئٹ کو ماؤنٹ منی پور کا نام دینا چاہتے ہیں
وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے ہمیشہ ان لوگوں کی عزت کی ہے جو ملک کے لئے لڑے۔ جب 2014 میں مودی حکومت برسر اقتدار آئی تو دیکھا برسوں سے ہماری تینوں مسلح افواج 'ایک درجہ، ایک پنشن' کا مطالبہ کر رہی تھیں لیکن کسی بھی حکومت نے اس مطالبے کو پورا نہیں کیا
مودی حکومت نے 'ایک درجہ ،
Posted On:
16 OCT 2021 7:29PM by PIB Delhi
مرکزی وزیر داخلہ اور تعاون وزیر جناب امیت شاہ نے آج انڈمان و نکوبار جزائر میں نیتا جی سبھاش چندر بوس جزیرے سے مختلف ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کیا اور سنگ بنیاد رکھا۔ جناب امیت شاہ نے رانی لکشمی بائی جزیرہ، شہید دویپ ایکو ٹورازم پروجیکٹ، سوراج دویپ واٹر ایرو ڈرم اور دیگر ترقیاتی پروجیکتوں کا فضائی سروے بھی کیا۔ اس موقع پر انڈمان و نکوبار جزائر کے لیفٹیننٹ گورنر ریٹائر ایڈمرل ڈی کے جوشی اور مرکزی داخلہ سیکرٹری سمیت کئی عہدیداران بھی موجود تھے۔
جناب امیت شاہ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ وہ یہاں آکر بہت خوش ہیں اور یہ فطری بھی ہے کیونکہ ہم ملک کو آزاد کرانے کے لئے برسوں تک انگریزوں کے خلاف نبرد آزما رہے۔ مکمل آزادی اگرچہ 1947 میں حاصل ہوئی لیکن 1943 میں نیتا جی سبھاش چندر بوس نے ہندستان کے اس حصے کو دو سال تک انگریزوں کے چنگل سے آزاد رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے محبان وطن بالخصوص نوجوان نسل کے لئے اسے ایک بہت اہم مقام بننا چاہیے کیونکہیہاں پہلی بار نیتا جی نے دو راتیں گزاری تھیں اور یہیں پہلی بار نیتا جی نے ترنگا لہرایا تھا۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم ملک بھر میں آزادی کا امرت مہوتسو منا رہے ہیں۔
ان تقریبات کے ذریعے ہم نوجوانوں میں حب الوطنی کا جذبہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جس کی بنیاد پر انہیں ایک نئے اور عظیم ہندستان اور مودی جی کے خواب کی تعمیر میں مصروف ہونا چاہیے۔ ہم نے محسوس کیا ہے کہ ہندستان کو دنیا میں عظیم بن کر ہی اپنا صحیح مقام مل سکتا ہے لہذا ہماری نوجوان نسل کو اس سمت میں آگے بڑھنا چاہیے۔
جناب امیت شاہ نے کہا کہ انڈمان و نکوبار اپنے آپ میں تحریک آزادی کا مقام ہے اور ہمارے نوجوانوں کو اُس جزیرے میں سزا پانے والوں کے دکھوں کو جاننا ، سمجھنا اور دیکھنا چاہیے جسے کالا پانی کہا جاتا ہے۔ نوجوان نسل اس سیلولر جیل کو دیکھے گی جہاں ویر ساورکر دس سال رہے، بھائی پرمانند اور سانیال بھی رہے۔ اس طرح وہ جان لیں گے کہ ان لوگوں نے ایک آزاد ہندستان کے لئے کتنی قربانیاں دیں جس میں ہم آج رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کوئی سیلولر جیل کا دورہ نہیں کرتا اور تشدد کی عکاسی اور تفصیل نہیں دیکھتا کوئی سوچ بھی نہیںسکتا کہ اتنی اذیت برداشت کرنے کے بعد بھی ہمارے آزادی کے مجاہدین آزادی کے لئے لڑتے ہی رہے۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو کے دوران جب کوئی اس جگہ کا دورہ کرتا ہے تو اس میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے۔ اور آج بھی ویر ساورکر اور نیتا جی سبھاش چندر بوس کی پیغام کییہاں ہوا میں گونج سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے ملک بھر کے نوجوانوں سے درخواست کی کہ وہ ایک بار انڈمان و نکوبار کا دورہ کریں اور آزادی کی جدوجہد کی اس زیارت گاہ کو ضرور دیکھیں۔ جناب شاہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے یہاں تین جزیروں کا نام شہید ، سوراج اور سبھاش اس لئے رکھا ہے کہ آنے والی نسلوں کو یہ حوصلہ ملے کہ اب ملک کو آزادیمل چکی ہے۔ وہ نیتا جی، ویر ساورکر اور بہت سے معلوم اور نامعلوم شہداء سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ ہمارے خوابوں کا ہندستان بنانے کی ذمہ داری نوجوان نسل پر عائد ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں آزادی کے لئے لڑنے کا موقع تو نہیں ملا لیکن کوئی بھی ہم سے ملک کے لئے جینے کا موقع نہیں چھین سکتا اور اگر ہم اپنی زندگی ہندستان کی ترقی ، پیش رفت اور شان کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔
جناب امیت شاہ نے کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو ایسے وقت پر منایا جا رہا ہے جب ہم سبھاش چندر بوس کی 125 ویں سالگرہ بھی منا رہے ہیں۔ اسی سال کے دوران میںیہاں آیا ہوں جہاں 30 دسمبر 1943 کو سبھاش بابو نے آزاد ہندستان کی آزاد ہوا میں سانس لیتے ہوئے ترنگا لہرایاتھا۔ انہوں نے کہا کہ نیتا جی اور ان کی زندگی کے مطالعے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نیتا جی کے ساتھ ناانصافی کی گئی ہے۔ تحریک آزادی کی تاریخ میں ایک روشن قطب ستارہ ، نیتا جی کو اتنی اہمیت نہیں ملی جتنی انہیں حاصل ہونی چاہیے۔ کئی برسوں تک تحریکِ آزادی کے بہت سے معروف رہنماؤں اور ان کی خدمات کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ہر کوئی تاریخ میں اپنا مناسب مقام تلاش کرے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنی جانوں کی بازی لگائی اور اس کی قربانیاں دیں انہیں تاریخ میں اپنا قابل فخر مقام ملنا چاہیے اور اسی لئے وزیر اعظم مودی نے اس جزیرے کا نام نیتا جی سبھاش چندر بوس کے نام پر رکھنے کا فیصلہ کیا۔
مرکزی وزیر داخلہ و تعاون نے کہا کہ سردار پٹیل کے ساتھ بھی ایسی ہی ناانصافی کی گئی ہے۔ ہندستانی جمہوریہ آج ممکن نہ ہوتا اگر سردار پٹیل ڈیڑھ سال سے بھی کم وقفے میں 550 سے زیادہ رجواڑوں کو ہندستان کا حصہ نہ بناتے۔ انگریزوں نے سب کو آزاد کر کے جو کرنا تھا وہ کیا لیکن سردار پٹیل نے تمام شاہی رجواڑوں کو ہند یونین کے اندر لانے اور ایک مضبوط ہندستان بنانے کا کام مکمل کیا۔ سردار صاحب کو بھی اتنی عزت نہیں ملی جتنی آزادی کے بعد ملنی چاہیے تھی۔ لیکن تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ چاہے کسی کے ساتھ کتنا ہی ظلم کیا جائے، اچھا کام کبھی پوشیدہ نہیں رہتا اور آج کیواڈیا میں نریندر مودی کا سردار صاحب کا دنیا کا سب سے اونچا نصب کردہ مجسمہ دنیا بھر کے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔
جناب امیت شاہ نے کہا کہ سبھاش بابو اور سردار پٹیل تحریک آزادی کی دو عظیم شخصیتیں تھیں۔ آج پورے ملک کو سبھاش بابو کو احترام کے ساتھ یاد کرنا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ جناب نریندر مودی نے آزادی کے 75 برسوں کے موقع پر اُس مقام کو جہاں سبھاش بابو نے ترنگا لہرایا تھا، ایک بہت بڑا ترنگا لہرا کرایک زبردت سیاحتی مقام بنا دیاہے۔ ساتھ ہی اسے حب الوطنی کی بیداری کا مرکز بھی بنا دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں ہم اس جزیرے کو بھی ترقی دینے والے ہیں اور سبھاش بابو کے لئے ایک عظیم الشان یادگار تعمیر کریں گے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ 23 جنوری کو سبھاش بابو کی سالگرہ پراکرم دیوس کے طور پر منائی جائے گی اور مرکزی اور ریاستی حکومتیں پراکرم دیوس منا رہی ہیں۔
مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ سبھاش بابو ایک ہونہار طالب علم تھے۔ جو آئی اے ایس افسر بنے اور اس وقت آئی اے ایس افسر بننے کا مطلب ہوتا تھا عیش اور آرام کی زندگی ، لیکن سبھاش بابو نے ایک الگ مقصد کے تحت تعلیم حاصل کی تھی۔ انہوں نے برطانوی حاکموں کے تحت کام کرنے کے لیے یہ امتحان پاس نہیں کیا تھا۔ بلکہ برطانوی حکمرانوں کو نکال باہر کرنے کے مقصد سے وہ آئی اے ایس افسر بنے تھے۔ انہوں نے آئی اے ایس امتحان میں ٹاپ کرنے کے باوجود برٹش ملازمت لینے سے انکار کر دیا اور سیاست کے میدان میں آکر کلکتہ کے مئر بنے، دو مرتبہ کانگریس کے صدر بنے، انکے بعد کانگریس کی حکمت عملی سے اختلاف کے بعد کانگریس چھوڑ دی اور فارورڈ بلاک قائم کی۔ وہ جدوجہد آزادی میں شامل ہو گئے اور ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ دوسری جنگ عظم کے دوران سبھاش بابو کو کلکتہ میں انکے گھر میں نظر بند رکھا گیا لیکن وہ وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے اور اس طرح گریٹ اسکیپ کا سفر شروع ہوا۔ کلکتہ سے پیشاور، پیشاور سے ماسکو اور وہاں سے برلن، سبھاش بابو نے کار کے زریعے 7275 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ وطن پرستی کے جزبے سے سرشار اور سوراج کی خواہش دل میں لیے وہ برلن پہنچے۔ انہوں نے جرمنی سے انڈونیشیا کا 27 ہزار کلومیٹر کا سفر ایک آبروز میں طےکیا۔ وہاں سے جاپان اور پھر سنگاپور کا سفر کیا۔ انڈین نیشنل آرمی (آزاد ہند فوج ) کا اسٹیشن قائم کیے گئے اور اس جزبے سے آزاد ہندستان کا فتاح عمل میں آیا۔ جاپان کی حکومت نے اسے منظوری دے دی۔ انہوں نے ان برطانوی حکمرانوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اس قدر بڑے پیمانے پر جدوجہد کی جن کی سلطنت میں کبھی سورج غروب ہوتا تھا۔ کیا ہم کبھی سبھاش بابو کی کوششوں کو فراموش کر سکتے ہیں؟ کیا ہم سبھاش بابو کی وطن پرستی کو دوسری سطح کا درجہ دے سکتے ہیں؟ کیا جدوجہد آزادی کی تاریخ میں ان کو بلند مقام نہیں ملنا چاہئے؟ کیا آنے والی نسلوں کو ان کی شخصیت سے ترغیب حاصل کرنے کا موقع نہیں ملنا چاہئے؟ کیا ہمیں سبھاش بابو کی جدو جہد کو ملک اور دنیا کے سامنے تحفوظ نہیں کرنا چاہئے؟ اب وقت آ گیا ہے کہ سبھاش بابو کو ملک میں وہ درجہ دلایا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی نے سبھاش چندر بوس کی سالگرہ کو پری کرما دوس کے طور پر منانے کا فیصلہ اور جہاں سبھاش بابو نے پہلی مرتبہ ترنگا لہرایا تھا وہاں ترنگا لہراکر سبھاش بابو کے تئیں امتراج طاہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکے علاوہ انکے کاموں کے اعتراف میں جزیرے کا نام بدل کر سبھاش چندر بوس دویپ کرنے کا فیصلہ کیا تکہ ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے اور آنے والی نسلیں سبھاش بابو کو فراموش نہ کریں۔
جناب امیت شاہ نے کہا کہ آزادی کا امرت مہوتسو کے دوران ایک اور اہم کام کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہ کہ 1857 کے انقلاب میں اور 1891 میں بھی پورے شمال مشرق میں منی پور کا برطانوی حکمرانوں کے خلاف جدو جہد میںبہت اہم حصہ تھا۔ منی پور نے کبھی ہار نہیں مانی اور یہاں کے عوام نے بھی جدو جہد نہیں چھوڑی۔ منی پور وہ ریاست تھی جس نے اپنے آئین پر عمل کیا۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر چہ منی پور طویل عرسے تک برطانوی قبضے میں رہا، وہاں کے مجاہدین آزادی ہمیشہ غیر ملکی حکمرانوں کے خلاف صف آرا رہے۔ منی پور کے جنگی سورماؤں یوراج تکیندراجیت اور جنرل تھنگل کو فزا، امپھال میں سر عام فانسی دی گئی تھی۔ برٹش حکمرانوں نے سمجھا تھا کہ انہیں پھانسی دے کر وہ جنگ آمادی کو کچل سکتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اسکے بعد مہاراجہ کل چندر دھوج سنگھ اور 22 مجاہدین آزادی کو کالا پانی بھیج دیا گیا تھا ، جہاں انہیں ایک جزیرے ماؤنٹ ہیریٹ میں رکھا گیا تھا۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ آج ہم انکی یاد میں ماؤنٹ ہیریٹ کا نام ماؤنٹ منی پور رکھ کر ان کی قربانیوں کو یاد کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر موصوف نےکہا کہ منی پور کی حکومت یہاں ایک یادگار بھی قائم کرنا چاہتی ہے، یہ یادگار سیاحوں، ملک کے نوجوانوں اور نئی نسل کو اس جانب ترغیب دے گی کہ محدود وسائل کے ساتھ کیسے لڑا جاتا ہے۔ انہوں نے اپنی یاد کو یقینی جانتے ہوئے بھی یہ لڑائی کی جس کی سزا میں انہیں موت کی سزا یا کالا پانی ملنا طے تھا۔ جناب امیت شاہ نے کہا کہ آزادی کا یہ جزبہ تھا جس کی وجہ سے ہمیں آمادی نصیب ہوئی اور ہم انہیں کبی بھلا سکتے۔ مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے ہمیشہ ان لوگوں کی عزت افزائی کے لیے کام کیا ہے جنہوں نے ملک کے لیے جدو جہد کی۔ 2014 میں جب مودی سرکار اقتدار میں آئی، ہماری تینوں مسلح افواج عرصے سے ایک عہدہ ایک پینشن کی مانگ کرتی رہی تھیں۔ لیکن کسی بھی حکومت نے ان کی یہ مانگ پوری نہیں کی تھی۔ نریندر مودی سرکار نے ایک عہدہ ایک پیشن کی مانگ کو پورا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیسے کی بات نہیں تھی بلکہ یہ ملک کی حفاظت کرنے والوں کے تئیں حکومت کی فکر مندی کا نظیر تھا۔ وہ لوگ جو اپنی زندگی کے بہترین سال سرحدوں پر منفی 43 ڈگری سلسیس سے 43 ڈگری سلسیس میں گزارتے ہیں۔ وہ لوگ جو ندیوں کے قریب رہتے ہیں اور ہواؤں کی قیامت مندی جھیلتے ہیں، ان کے خاندان والے جا نتے ہیں کہ ان کے بیٹے شوہر اور باپ ملک کی حفاظت کر رہے ہیں۔ لہذا ملک کو بھی ان کی فکر کرنا چاہئے۔ جناب نریندر مودی نے اس جزبے کو ٹھوس شکل دی ہے۔
امور داخلہ اور کو آپریشن کے مرکزی وزیر نے کہا کہ آج انڈومان اور نکوبات جزائر میں 299 کروڑ روپے کی لاگت سے چودہ پروجکٹوں اور 643 کروڑ روپے کی لاگت والے بارہ پروجکٹوں کے سنگ بنیاد کا آج افتتاح ہوا ہے۔ مودی حکومت آج انڈومان جزائر کے چھوٹے علاقے میں تقریبًا ایک ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے ترقیاتی کاموں کا آغاز کر رہی ہے۔ جناب امیت شاہ نے کہا کہ مودی سرکار نے اس پل کا نام جس کا آج افتتاح ہواہے، آزاد ہند فوج برج رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پل سے گزرنے والا ہر شخص ایک طرف سے دوسری طرف جاتے ہوئے نیتا جی کے 35 ہزار کلومیٹر کے سفر کو یاد کرے گا اور ان کی جرات اور شجاعت کا یعتراف کریگا۔ جناب امیت شاہ نے کہا کہ پانی کی فراہمی، صحت اور صفائی ستھرائی، پر تینوں چیزیں صحت سے جڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پینے کا صاف پانی، صفائی ستھرائی اور صحت نگہداشت اور ٹیسٹ بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری دل کے مریضوں کے لیے ایک نئی سہولت کا آغاز کیا گیا ہے جہاں اینجو پلاسٹی بھی ہوگا ہور پیس میکر بھی نصب کیے جا سکیں گے۔ اسکے ساتھ یہاں ایک آیوش ہاسپٹل بھی قائم کیا گیا ہے اور 49 صحت مراکز قائم ہوئے ہیں۔ انہوں کہا کہ 75 برسوں تک یہ ضرورت پوری نہیں کی گئی تھی اور انہیں بہت خوشی ہے کہ نریندر مودی حکومت آج اس ضرورت کو پورا کرنے جا رہی ہے۔ جناب امیت شاہ نے کہا کہ میں ہوائی سروے کرنے کے بعد یہاں آیا ہوں اور کچھ فیصلے کئے ہیں جن کا اعلان انتظامیہ کی سطح پر فیصلوں کے بعد کیا جائے گا۔
امور داخلہ اور کو آپریشن کے مرکزی وزیر نے کہا کہ انڈومان اور نکوبار لائٹ ہاؤس آزادی کے متوالوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتا ہے اور اب یہ نوجوان نسل کے لیے مقدس مقام بننا چاہئے لہذا ہم نے یہاں بہترین سہولیات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انڈومان اور نکوبار جزائر میں سبھاش چندر بوس کی یاد گار قائم کرینگے تاکہ ملک آنے والے وقتوں میں سبھاش چندر بوس کی شجاعت اور وقار کو یاد رکھیں ۔
<><><><><>
ش ح،ع س، ج
U.No. : 11038
(Release ID: 1764535)
Visitor Counter : 378