وزیراعظم کا دفتر

ملٹی موڈل کنکٹیوٹی کے لئے  پی ایم گتی شکتی ، نیشنل ماسٹر پلان  کے آغاز کے موقع پر وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 13 OCT 2021 3:00PM by PIB Delhi

نمسکار  -

مرکزی کابینہ کے میرےرفقا جناب نتن گڈکری جی ، جناب پیوش گوئل جی ،  جناب ہردیپ سنگھ پوری جی ، جناب سربانند سونووال جی ،جناب جیوتیرادتیہ سندھیا جی ، جناب  اشونی ویشنو جی ، جناب  راج کمار سنگھ جی ، الگ الگ ریاستی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ ، لیفٹیننٹ گورنرز ، ریاستی کابینہ کے ارکان ، صنعتی دنیا کے ساتھی ، دیگر اعلیٰ شخصیات اور میرے پیارے بھائیو اور بہنو،

آج درگا اشٹمی ہے۔ آج ملک بھر میں شکتی سوروپا کی پوجا کی جا رہی ہے ، کنیا پوجا کی جا رہی ہے۔ اور شکتی کی پوجا کے اس مبارک موقع پر ، ملک کی ترقی کورفتار  کو بھی طاقت  دینے کا مبارک کام ہورہا ہے۔

یہ وقت بھارت کی آزادی کے 75 سال  کا ہے ، یہ آزادی کا امرت کال ہے۔  آتم نربھر بھارت کے عزم کے ساتھ ، ہم اگلے 25 سال کے لیےبھارت  کی بنیاد بنا رہے ہیں۔ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان ، بھارت  کے اسی    خود کی طاقت ، خود اعتمادی ،  آتم نربھرتا کے عہد تک لے جانے والا ہے۔ یہنیشنل ماسٹر پلان 21 ویں صدی کےبھارت  کو گتی شکتی دے گا۔ نیکسٹ جنریشن کے انفراسٹرکچر اور ملٹی ماڈل کنیکٹوٹی کو اس نیشنل پلان سے رفتار کو طاقت  ملے گی۔ انفراسٹرکچر  سے جڑی سرکاری پالیسیوں میں پلاننگ سے لے کر ایگزیکیوشن تک کو یہ نیشنل پلان گتی شکتی دے گا۔ سرکار کے پروجیکٹ مقررہ وقت  کے اندر مکمل ہوں ، اس کے لئے یہ گتی شکتی نیشنل پلان، صحیح جانکاری اور صحیح رہنمائی کرے گا۔

گتی شکتی کے اس عظیم مہم کے مرکز میں ہیں بھارت کے لوگ، بھارت  کی انڈسٹری ، بھارت کی تجارتی دنیا ، بھارت کے مینوفیکچررز ، بھارت کے کسان  بھارت کا گاؤں ۔  یہ بھارت کی موجودہ  اور آنے والی نسلوں  کو 21 ویں صدی کے  بھارت کی تعمیر کے لیے نئی توانائی دے گا، ان کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کرے  گا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ آج کے  اس مبارک دن پر ، مجھے پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان کا افتتاح کرنے کا موقع ملا ہے۔

ساتھیو،

آج ہی یہاں  پرگتی میدان میں بن رہے انٹرنیشنل ایگزیبیشن کم کنونشن سنٹر کے 4 نمائش کے چار ہال  کا  افتتاح  بھی ہوا ہے ۔  دہلی میں جدید انفرااسٹرکچر سے متعلق یہ بھی   ایک اہم قدم  ہے۔ یہ  ایگزیبیشن سنٹر ہمارے ایم ایس ایم ایز، ہمارے ہینڈی کرافٹ، ہماری گھریلو صنعت کو اپنے پروڈکٹس،  دنیا بھر کے بازاروں  میں دھکانے، گلوبل مارکٹ تک اپنی پہنچ بڑھانے میں بہت بڑی مدد کریں گے۔ میں دہلی  کے لوگوں کو ، ملک کے لوگوں کو اپنی نیک خواہشات پیش کرتا ہوں، مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

ہمارے یہاں دہائیوں تک سرکاری  نظام نے جس طرح کام کیا ہے ، اس وجہ سے سرکاری لفظ آتے ہی لوگوں کے من میں آتا تھا، خراب کوالٹی ، کام میں برسوں کی تاخیر ،  بے وجہ کی رکاوٹیں، عوام کے پیسوں کی توہین۔ میں توہین اس لئے کہہ رہا ہوں کیونکہ جو ٹیکس کے طور پر  ملک کے عوام، سرکار کو دیتے ہیں ، اس پیسے کا استعمال کرتے وقت، سرکار میں یہ جذبہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ ایک بھی پیسہ برباد نہیں ہونا چاہئے۔ سب ایسے ہی چل رہا تھا۔ اہل وطن بھی عادی ہوگئے تھے کہ ملک ایسے ہی چلے گا۔ وہ پریشان ہوتے تھے، دوسرے ممالک کی ترقی دیکھ کر اداس  ہوتے تھے اور اس جذبہ سے بھر گئے تھے کہ کچھ بدل نہیں سکتا۔ جیسا ابھی ہم ویڈیومیں بھی دیکھ رہے تھے، ہر جگہ نظرآتا تھا- ورک ان پروگریس، لیکن وہ کام کبھی پورا ہوگا بھی یا نہیں ، وقت پر  پورا ہوگا یا نہیں، اس سلسلے میں کوئی یقین عوام کے من میں  نہیں تھا۔ ورک ان پروگریس کا بورڈ، ایک طرح سے عدم اعتماد کی علامت بن گیا تھا۔ ایسی حالت میں ملک ترقی کیسے کرتا؟ ترقی بھی تبھی مانی جائے گی جب اس میں رفتار ہو، رفتار کے لئے ایک بے تابی ہو ، رفتار کے لئے اجتماعی کوشش ہو۔

آج 21 ویں صدی کا بھارت، سرکاری نظام  کی اس پرانی سوچ کو پیچھے چھوڑکر آگے بڑھ رہا ہے۔ آج کا منتر ہے ۔

Will for Progress. Work for Progress.Wealth for Progress. Plan for progress. Preference for progress

ہم نے نے صرف اسکیموں کو طے  شدہ وقت میں مکمل کرنے کا ورک کلچر تیار کیا بلکہ آج وقت سے پہلے پروجیکٹ پورا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ اگر آج بھارت، جدید انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لئے زیادہ سے زیادہ انویسٹمنٹ کرنے کے لئے پرعزم ہے ، تو وہیں آج کا بھارت ہر وہ قدم بھی اٹھا رہا ہے جس میں پروجیکٹ میں دیری نہ ہو، رکاوٹیں نہ آئیں، کام وقت پر مکمل  ہو۔

 ساتھیو،

ملک  کا معمولی  انسان، ایک چھوٹا سا بھی گھر بناتا ہے ، تو اس کے لئے باقاعدہ پلاننگ کرتا ہے۔ کوئی بڑی یونیورسٹی بنتی ہے ، کوئی کالج بنتا ہے تو پوری پلاننگ کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔ وقت وقت پر اس کی توسیع کی گنجائش کو بھی پہلے سے ہی سوچ لیا جاتا ہے ۔ اور یہ اس میں ہر کسی کا تجربہ ہے، ہر ایک کے تجربہ سے آپ گزرے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ، ہم بھارت میں انفرااسٹرکچر سے جڑے پروجیکٹ میں جامع منصوبہ بندی سے جڑی  مختلف خامیاں   روزانہ محسوس کرتے ہیں۔ تھوڑا بہت جہاں ہوا بھی ہے ، تو ہم نے دیکھا ہے کہ ریلوے اپنی پلاننگ کررہی ہے، روڈ ٹرانسپورٹ ڈیپارٹمنٹ  اپنی پلاننگ کررہا ہے، ٹیلی کام محکمہ  کی اپنی  پلاننگ  ہوتی ہے ، گیس نیٹ ورک کا کام الگ پلاننگ سے ہورہا ہے ۔ ایسے ہی تمام محکمے الگ الگ پلان کرتے ہیں۔

ہم سبھی  نے یہ بھی دیکھا ہے کہ پہلے کہیں سڑک بنتی ہے ، سڑک بالکل تیار ہوجاتی ہے  اور پھر وہ پانی والا  ڈیپارٹمنٹ آئے گا وہ پانی کی پائپ کے لئے پھر کھدائی کردیتا ہے پھر پانی والے پہنچتے ہیں، اسی طرح کام ہوتا رہا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ روڈ بنانے والے ڈیوائیڈر بنا دیتے ہیں اور پھر ٹریفک پولیس کہتی ہے کہ اس سے تو جام لگا رہے گا، ڈیوائیڈر ہٹاؤ۔ کہیں چوراہے پر سرکل بنا دیا جاتا ہے تو ٹریفک  آسانی سے چلنے کے بجائے وہاں بدنظمی ہونے لگتی ہے۔ اور ہم نے ملک بھر میں ایسا ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ ان حالات کے بیچ ، جب  سارے پروجیکٹس کو سینکرونائز کرنے کی ضرورت پڑتی ہے، تو اس کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنی  پڑتی ہے۔ بگڑی ہوئی بات کو ٹھیک کرنے میں بہت محنت لگتی ہے۔

ساتھیو،

یہ جتنی بھی  دقتیں ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ میکرو پلاننگ اور مائیکرو امپلی منٹیشن میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ الگ الگ محکموں کو پتہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ کون سا محکمہ کون سا پروجیکٹ کہاں شروع کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ ریاستوں کے پاس بھی اس طرح کی جانکاری ایڈوانس میں نہیں ہوتی۔ اس طرح کےsilos کی وجہ سے  فیصلہ    کی کارروائی بھی متاثر ہوتی ہےاور بجٹ کی بھی بربادی ہوتی ہے۔ سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ شکتی جڑنے کے بجائے، شکتی ملٹی پلائی ہونے کے بجائے، شکتی تقسیم ہوجاتی ہے۔ جو ہمارے پرائیویٹ پلیئرس ہیں، انہیں بھی یہ ٹھیک ٹھیک پتہ نہیں ہوتا ہے کہ مستقبل میں یہاں سے سڑک گزرنے والی ہے، یا یہاں سے کینال بننے والی ہے، یا یہاں  کوئی پاور اسٹیشن لگنے والا ہے۔ اس طرح سے وہ بھی کسی علاقہ کے تعلق سے،  کسی سیکٹر کے تعلق سے  بہتر پلان نہیں کرپاتے ہیں۔ ان ساری دقتوں کا حل، پی ایم گتی شکتی  نیشنل ماسٹر پلان ، اس میں سے ہی نکلے گا۔ جب ہم ماسٹر پلان کو بنیاد بناکر چلیں گے ، تو ہمارے ریسورس کا بھی آپٹیمم یوٹیلائزیشن ہوگا۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں انفرااسٹرکچر کا موضوع زیادہ تر سیاسی پارٹیوں کی  ترجیحات سے دور رہا ہے ۔ یہ ان کے اعلامیہ میں بھی نظرنہیں آتا ہے۔ اب تو یہ حالت ہوگئی ہے کہ کچھ سیاسی پارٹی، ملک کے لئے ضروری  انفرااسٹرکچر  کی تعمیر پر نکتہ چینی کرنے لگے ہیں۔ جبکہ دنیا میں یہ  تسلیم شدہ بات ہے کہ سسٹینبل ڈیولپمنٹ کے لئے کوالٹی انفرااسٹرکچر کی تعمیر ایک ایسا  راستہ ہے ، جو بہت سی اقتصادی سرگرمیوں کو جنم دیتا ہے ، بہت بڑے پیمانے پر روزگار پیدا کرتا ہے۔ جیسے اسکلڈ مین پاور کے بغیر ہم کسی شعبے میں ضروری نتائج نہیں حاصل کرسکتے  ، ویسے ہی بہتر اور جدید انفرااسٹرکچر کے بغیر ہم ہمہ جہت ترقی نہیں کرسکتے۔

ساتھیو،

سیاسی قوت ارادی  کی کمی کے ساتھ ہی، ملک کے انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا سرکاری محکموں کے بیچ آپسی تال میل کی کمی نے، آپسی رسہ کشی نے۔ ریاستوں  میں بھی ہم نے ریاستی حکومتوں اور مقامی اداروں کے  بیچ اس موضوع پر تناو ہوتے دیکھا ہے۔ اس وجہ سے جو پروجیکٹس ملک کی اکونومک گروتھ کو بڑھانے میں مدد گار ہونے چاہئے تھے ، وہی پرجیکٹس ملک کی ترقی کے سامنے ایک دیوار بن جاتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ، برسوں سے زیرالتوا یہ پروجیکٹ اپنی  اہمیت  ، اپنی ضرورت بھی کھو دیتے ہیں۔ میں جب  2014 میں یہاں دہلی ایک نئی ذمہ داری کے ساتھ آیا، تو بھی ایسے سینکڑوں پروجیکٹس تھے، جو دہائیوں سے زیرالتوا  تھے ۔ لاکھوں کروڑ روپئے کے ایسے  سینکڑوں پروجیکٹس کا میں نے خود جائزہ لیا، سرکار کے سارے محکموں، ساری وزارتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر کھڑا کردیا، ساری رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کی۔ مجھے اطمینان ہے کہ اب سب کی توجہ اس طرح ہوگئی ہے کہ آپسی تال میل کی کمی کی وجہ سے پرجیکٹوں میں تاخیر نہ ہو۔ اب سب whole of government approach کے ساتھ،   سرکار کی مجموعی قوت پروجیکٹوں  کو پورا کرنے میں لگ رہی ہے۔ اسی وجہ سے اب دہائیوں سے ادھورے بہت سارے منصوبے پورے ہورہے ہیں۔

ساتھیو،

پی ایم گتی شکتی ، اب یہ یقینی  بنائے گی کہ 21 ویں صدی کا بھارت انفرا پروجیکٹس میں کوآرڈینیشن  میں کمی کی وجہ سے نہ پیسے کا نقصان اٹھائے اور نہ ہی وقت  ضائع کرے  ۔ پی ایم گتی- شکتی نیشنل ماسٹر پلان کے تحت، روڈ سے لے کر ریلوے تک، ایوی ایشن سے لے کر ایگری کلچر تک ، مختلف وزارتوں کو ، محکموں کو، اس سے جوڑا جارہا ہے۔ ہر بڑے پروجیکٹ کو ، ہر محکموں کو صحیح معلومات ، درست جانکاری، وقت پر ملے، اس کے لئے ٹکنالوجیز پلیٹ فارم بھی تیار کیا گیا ہے۔ آج یہاں کئی ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ اور ریاستوں کے دیگر نمائندے بھی جڑے ہیں۔ میری سبھی سے اپیل ہے کہ جلد سے جلد آپ کی ریاست بھی پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان سے جڑ کر اپنی ریاست کی اسکیموں کو رفتار دیں۔ اس سے ریاست کے لوگوں کا بھی بہت فائدہ ہوگا۔

ساتھیو،

پی ایم گتی شکتی ماسٹر پلان  سرکاری  پروسیس اور اس سے جڑے الگ الگ فریقوں کو  تو ایک ساتھ لاتی ہی ہے، یہ ٹرانسپورٹیشن  کے الگ الگ موڈس کو، آپس میں جوڑنے میں بھی مدد کرتا ہے۔  یہ ہولیسٹک گورننس  کی توسیع ہے۔ اب جیسے  غریب کے گھر سے جڑے منصوبے میں  صرف چہار دیواری نہیں بنائی جاتی بلکہ اس میں  بیت الخلا ، بجلی ، پانی ، گیس کا کنکشن بھی ساتھ ہی آتا ہے ، ٹھیک ویسے ہی ویژن اس میں انفرااسٹرکچر کے لئے بھی ہے۔ماضی میں ہم نے دیکھا ہے کہ صنعتوں کے لیے اسپیشل زون کا اعلان تو کیا جاتا تھا لیکن وہاں تک کنکٹیوٹی یا پھر بجلی پانی – ٹیلی کام پہنچانے میں سنجیدگی نہیں دکھائی جاتی تھی۔

ساتھیو،

یہ بھی بہت  عام  بات تھی کہ جہاں سب سے زیادہ مائننگ کا کام ہوتا ہے، وہاں  ریل کنکٹیوٹی نہیں ہوتی تھی ۔ ہم سبھی نے یہ بھی دیکھا ہے کہ کہیں پورٹ ہوتے تھے، تو پورٹ کو شہر سے کنکٹ کے لئے ریل یا روڈ کی  سہولیات کا فقدان ہوتا تھا۔ ایسی ہی وجوہات  سے بھارت میں پروڈکشن کاسٹ بڑھتی رہی ہے، ہمارے ایکسپورٹس کی کاسٹ بڑھتی رہی ہے، ہماری لاجسٹک کاسٹ بہت زیادہ رہی ہے۔ یقینی طور پر یہ آتم نربھر بھارت کی تعمیر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔ایک اسٹڈی ہے کہ بھارت میں لاجسٹک کاسٹ ، جی ڈی پی کا تقریباً  13 فیصد ہے۔ دنیا کے بڑے ممالک میں ایسی صورتحال نہیں ہے۔ زیادہ لاجسٹک کاسٹ کی وجہ سے بھارت کے ایکسپورٹ کی کمپٹی ٹیونس بہت کم ہوجاتی ہے۔ جہاں پروڈکشن ہورہا ہے وہاں سے پورٹ تک پہنچانے کا جو خرچ ہے، اس پر ہی بھارت کے ایکسپورٹس کو لاکھوں کروڑ روپئے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے پروڈکٹس کی قیمت بھی بے تحاشہ بڑھ جاتی ہے۔ ان کا پروڈکٹ دوسرے ممالک  کے مقابلے بہت مہنگا ہوجاتا ہے۔ ایگری کلچر کے شعبے میں بھی اسی وجہ سے ہمارے کسانوں کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ اس لئے آج وقت کی مانگ ہے کہ بھارت میں سیملیس کنکٹیوٹی بڑھے، لاسٹ مائل کنکٹیوٹی اور مضبوط ہو۔ اس لئے یہ پی ایم گتی شکتی نیشنل ماسٹر پلان بہت بڑا اور بہت ہی اہم قدم ہے۔ اس سمت میں آگے جانے بڑھنے  پر، ہر طرح کا انفرااسٹرکچر ، دوسرے انفرااسٹرکچر کو سپورٹ کرے گا، اس کا سہارا بنے گا۔ اور میں سمجھتا ہوں ، ہر وجہ، ہر اسٹیک ہولڈر کو بھی اور زیادہ جوش سے اس سے جڑنے کی تحریک ملے گی۔

ساتھیو،

پی ایم گتی شکتی – نیشنل ماسٹر پلان ملک کی پالیسی میکنگ سے جڑے سبھی اسٹیک ہولڈرز کو، انویسٹرز کو ایک انالیٹیکل اور ڈسیزن میکنگ ٹول بھی دے گا۔ اس سے سرکاروں کو موثر پلاننگ اور پالیسی بنانے میں مدد ملے گی ۔ سرکار  کا غیرضروری خرچ بچے  گا اور صنعت کاروں کو بھی کسی پروجیکٹ سے جڑی جانکاری ملتی رہے گی۔ اس سے ریاستی حکومتوں کو بھی اپنی ترجیحات طے کرنے میں مدد ملے گی۔ جب ایسا ڈیٹا بیسڈ میکانزم ملک میں ہوگا تو ہر ریاستی حکومت، سرمایہ کاروں کے لئے ٹائم باونڈ کمٹمینٹس دے پائیں گی۔ اس  میں انویسٹمنٹ ڈیسٹی نیشن کے طور پر بھارت کی بڑھتی ساکھ کو نئی بلندی ملے گی، نئی جہت ملے گی ۔ اس سے ملک کے عوام  کو کم قیمت میں بہترین کوالٹی ملے گی ، نوجوانوں کو روزگار کے بہت سے نئے مواقع ملیں گے۔

ساتھیو،

ملک کی ترقی کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ سرکار کے انفرااسٹرکچر سے جڑے سبھی محکمے ایک دوسرے  کے ساتھ بیٹھیں، ایک دوسرے  کی کلکٹی پاور کا استعمال کریں۔ گزشتہ برسوں میں اسی اپروچ نے بھارت کو غیرمعمولی رفتار دی ہے۔ پچھلے 70 برسوں کے مقابلے میں، آج بھارت ، پہلے سے کہیں زیادہ اسپیڈ اور اسکیل پر کام کررہا ہے۔

 ساتھیو،

بھارت میں پہلی انٹراسٹیٹ نیچورل گیس پائپ لائن سال 1987 میں کمیشن ہوئی تھی۔ اس کے بعد سال 2014 تک، یعنی 27 سال میں ملک میں 15 ہزار کلومیٹر نیچورل گیس پائپ لائن بنی ۔ آج ملک بھر میں، 16 ہزار کلومیٹر سے زیادہ نئی گیس پائپ لائن پر کام جاری ہے۔ یہ کام اگلے  آئندہ پانچ سے چھ برسوں میں مکمل ہونے کا ہدف ہے۔  یعنی جتنا کام 27 برسوں میں ہوا، ہم اس سے زیادہ کام ، اس کے نصف عرصہ میں کرنے کا ہدف لے کر چل رہے ہیں۔ کام کرنے کی یہی رفتار آج بھارت کی شناخت بن رہی ہے۔ 2014 کے پہلے کے پانچ برسوں میں صرف 1900 کلومیٹر ریل لائنیں ڈبل ہوئی تھیں۔ گزشتہ سات برسوں میں ہم نے نو ہزار کلومیٹر سے زیادہ ریل لائنوں کی ڈبلنگ کی ہے۔ کہاں 1900 اور کہاں 7000 ۔ 2014 سے پہلے کے پانچ برسوں میں صرف تین ہزار کلومیٹر ریلوے کی برق کاری ہوئی تھی۔ گزشتہ سات برسوں میں ہم نے 24 ہزار کلومیٹر سے بھی زیادہ ریلوے ٹریک  کی برق کاری کی ہے ۔ کہاں تین ہزار کہاں 24 ہزار ۔ 2014 سے پہلے تقریباً 250 کلومیٹر ٹریک پر ہی میٹرو چل رہی تھی ، آج 700 کلومیٹر تک میٹرو کی توسیع ہوچکی ہے  اور ایک ہزار نئے میٹرو  روٹ پر کام چل رہا ہے۔ 2014 کے پہلے کے پانچ برسوں میں صرف 60 پنچایتوں کو ہی آپٹیکل فائبر سے جوڑا جاسکا تھا۔ گزشتہ سات برسوں میں ہم نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گرام پنچایتوں کو آپٹیکل فائبر سے کنکٹ کردیا ہے۔ کنکٹیوٹی کے روایتی   ذرائع  کی توسیع کے ساتھ ساتھ ان لینڈ واٹر ویز اور سی پلینس  نیا انفرااسٹرکچر بھی ملک کو مل رہا ہے۔ 2014 تک ملک میں صرف پانچ واٹرویز تھے۔ آج ملک میں 13 واٹرویز کام کررہے ہیں۔ 2014 سے پہلے ہمارے پورٹس پر ویسل  ٹرن اراونڈ ٹائم 41 گھنٹے سے بھی زیادہ تھا۔ اب یہ کم ہو کر 27 گھنٹے رہ گیا ہے۔ اسے اور کم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ساتھیو،

کنکٹیوٹی کے علاوہ ضروری  دوسرے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کو بھی نئی رفتار دی گئی ہے۔ بجلی کے پروڈکشن سے لے کر ٹرانس مشن کے پورے نیٹ ورک کو ٹرانسفارم کیا گیا ہے، ون نیشن ون پاور گرڈ  کا سنکلپ ثابت ہوچکا ہے۔ 2014 تک ملک میں جہاں تین لاکھ سرکٹ کلومیٹر پاور ٹرانسمشن لائن تھیں وہیں آج یہ بڑھ کر سوا چار لاکھ سرکٹ کلومیٹر سے بھی زیادہ ہوچکی ہے ۔ نیو اینڈ رینیوبل انرجی کے معاملے میں  جہاں ہم بہت ہی مارجنل پلیئر تھے وہیں آج ہم دنیا کے ٹاپ پانچ ملکوں میں پہنچ چکے ہیں۔  2014 کی انسٹالڈ کیپیسٹی سے تقریباً تین گنا کیپیسٹی ، یعنی 100 میگاواٹ سے زیادہ بھارت حاصل کرچکا ہے۔

ساتھیو،

آج ملک میں ایوی ایشن کا جدید ایکوسسٹم کو فروغ دینے پر تیزی سے کام ہورہا ہے۔ ایئر کنکٹیوٹی بڑھانے کے لئے ملک میں نئے ایئرپورٹس کی تعمیر کے ساتھ ہی ہم نے ایئراسپیس کو بھی اور زیادہ کھول دیا ہے۔ گزشتہ ایک دو برسوں میں ہی 100 سے زیادہ ایئر روٹس کا جائزہ لے کر ان کی دوری کم کی گئی ہے۔ جن علاقوں کے اوپر سے پسنجر فلائٹس کی پرواز پر پابندی تھی، اسے بھی ختم کیا گیا ہے۔ اس ایک فیصلے سے بہت سے شہروں کے بیچ ایئرٹائم کم ہوا ہے ، پرواز کا وقت کم ہوا ہے،  ایوی ایشن سیکٹر کو مضبوطی فراہم کرنے کے لئے نئی ایم آر او پالیسی بنانا ہو، جی ایس ٹی کا کام پورا کرنا ہو، پائلٹس کی ٹریننگ  کی بات ہو، ان سبھی پر کام کیا گیا ہے۔

ساتھیو،

 ایسی ہی کوششوں سے ملک کو یقین ہوا ہے کہ ہم تیز رفتار سے کام کرسکتے ہیں، بڑے اہداف بڑے خواب بھی پورے ہوسکتے ہیں۔ اب ملک کی توقعات اور آرزوئیں ، دونوں بڑھ گئی ہیں۔ اس لئے ، آنے والے تین سے چار برسوں کے لئے ہمارے سنکلپ بھی بہت بڑے ہوگئے ہیں۔ اب ملک کا ہدف ہے ، لاجسٹکس کاسٹ کو کم سے کم کرنا، ریلوے کی کارگو صلاحیت بڑھانا، پورٹ کارگو کیپی سٹی بڑھانا، ٹرن اراونڈ اور کم کرنا۔ آنے والے چار سے پانچ برسوں میں کل ملاکر 200 سے زیادہ ایئرپورٹ ، ہیلی پیڈ اور واٹرایئروڈوم  بن کر تیار ہونے جارہے ہیں۔ ابھی جو 19 ہزار کلومیٹر کے قریب کا ہمارا گیس پائپ لائن نیٹ ورک ہے ، اسے بھی بڑھا کر تقریباً دوگنا کیا جائے گا۔

ساتھیو،

ملک کے کسانوں اور ماہی گیروں کی آمدنی بڑھانے کے لئے پروسیسنگ سے  متعلق انفرااسٹرکچر کو بھی تیزی سے توسیع دی جارہی ہے۔ 2014 میں ملک میں صرف دو میگافوڈ پارکس تھے۔ آج ملک میں 19 میگافوڈ پارکس کام کررہے ہیں۔ اب ان کی تعداد 40 سے زیادہ تک پہنچانے کا ہدف ہے۔ گزشتہ 7 برسوں میں فشنگ کلسٹرس، فشنگ ہاربر اور لینڈنگ سنٹرز کی تعداد 40 سے بڑھ کر 100 سے زیادہ  تک پہنچ چکی ہے۔ اس میں دوگنا سے زیادہ کا اضافہ کرنے  کے ہدف کو لے کر ہم چل ہرے ہیں۔

ساتھیو،

ڈیفنس سیکٹر میں بھی پہلی بار کافی کوشش ہورہی ہے۔ ابھی تمل ناڈو اور یو پی میں 2 ڈیفنس کوریڈور پر کام جاری ہے۔ الیکٹرانکس اور آئی ٹی مینوفیکچرنگ میں آج ہم تیزی سے صف اول کے ملکوں میں شامل ہورہے ہیں۔ ایک وقت ہمارے یہاں پانچ مینوفیکچرنگ کلسٹر  تھے۔ آج 15 مینوفیکچرنگ کلسٹر ہم تیار کرچکے ہیں۔ اور اسے بھی دوگنا تک بڑھانے کا ٹارگیٹ ہے۔ گزشتہ برسوں میں چار انڈسٹریل کوریڈور شروع ہوچکے ہیں اور اب ایسے کوریڈورس کی تعداد کو ایک درجن تک بڑھایا جارہا ہے۔

ساتھیو،

آج سرکار جس نظریہ کے ساتھ کام کررہی ہے ، اس کی ایک مثال پلگ اینڈ پلے انفرااسٹرکچرکی تعمیر بھی ہے۔ اب ملک کی انڈسٹری کو ایسی سہولیات دینے کی کوشش ہے جو پلگ اینڈ پلے انفرااسٹرکچر سے آراستہ ہو۔ یعنی  ملک اور دنیا کے سرمایہ کاروں کو صرف اپنا سسٹم لگانا ہے اور کام شروع کرنا ہے۔ جیسے گریٹر نوئیڈا کے دادری میں ایسی ہی انٹی گریٹیڈ  انڈسٹریل ٹاون شپ  تیار ہورہی ہے۔ اس کو مشرقی اور مغربی بھارت کے پورٹس سے ڈیٹی کیٹڈ فریٹ کوریڈور سے جوڑا جارہا ہے ۔ اس کے لئے یہاں ملٹی موڈل لاجسٹکس ہب بنایا جائے گا۔ اسی کے بغل میں ملٹی موڈل ٹرانسپورٹ ہب بنے گا۔ جس میں اسٹیٹ آف  دی آرٹ ریلوے ٹرمینس ہوگا، جس کو انٹر اور انٹرا اسٹیٹ بس ٹرمینس ملے گا، ماس ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم اور دوسری سہولیات سے سپورٹ کیا جائے گا۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں ایسی ہی سہولیات کی تعمیر سے بھارت، دنیا  کی بزنس کیپٹل بننے کا خواب پورا کرسکتا ہے۔

ساتھیو،

 یہ جتنے بھی اہداف میں نے گنائے ہیں ، یہ اہداف معمولی نہیں ہے۔ اس  لئے ان کو حاصل کرنے کی کوشش بھی غیرممعولی ہوگی ، اس کے طریقہ بھی غیرمعمولی ہوں گے۔ اور انہیں سب سے زیادہ طاقت  پی ایم گتی شکتی – نیشنل ماسٹر پلان سے ہی ملے گی۔ جس طرح جے اے ایم تری نٹی یعنی جن دھن-آدھار-موبائل کی طاقت سے ملک میں سرکاری سہولیات کو تیزی سے مجاز فیض یافتگان تک پہنچانے میں ہم کامیاب ہوئے ہیں، پی ایم گتی شکتی انفرااسٹرکچر کے شعبے میں ویسا ہی کام کرنے والا ہے ۔ یہ پورے ملک کے انفرااسٹرکچر کی پلاننگ سے لے کر ایگزی کیوشن تک ایک ہولسٹک ویژن لے کر آرہا ہے۔ ایک بار پھر میں سبھی ریاستی حکومتوں کو اس سے جڑنے کے لئے مدعو کرتا ہوں، درخواست بھی کرتا ہوں۔ یہ وقت جُٹ جانے کا ہے، آزادی کے اس 75 ویں سال میں ملک کے لئے کچھ کردکھانے کا ہے۔ اس پروگرام سے جڑے ہر فرد سے میری یہی  درخواست ہے، میری یہی امید ہے۔

آپ سبھی کو اس اہم پروگرام میں آنے کے لئے میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ پردھان منتری گتی شکتی ماسٹر پلان، پرائیویٹ پارٹی بھی اس کو بہت باریکی سے دیکھے گی۔ وہ بھی اس سے منسلک ہو کر اپنی مستقبل کی حکمت عملی طے کرسکتی ہے۔ ترقی کی نئی جہات  کو چھو سکتی ہے۔ میری آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات ۔ اہل وطن کو آج نوراتری کے مبارک تہوار پر شکتی کی اس  پوجا کے وقت، شکتی کے اس نیک عمل کے لئے بہت بہت مبارکباد دیتے ہوئے اپنی بات کو ختم کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ!

نیک خواہشات !

 

 

************

 

ش ح۔ف ا ۔ م  ص

 (U: 10029)

 

 



(Release ID: 1763778) Visitor Counter : 169