وزیراعظم کا دفتر
azadi ka amrit mahotsav

علی گڑھ میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ ریاستی یونیورسٹی کے سنگ بنیاد کی تقریب میں وزیر اعظم کی تقریر کا متن

Posted On: 14 SEP 2021 4:53PM by PIB Delhi

بھارت ماتا کی جے،

بھارت ماتا کی جے۔

اترپردیش کی گورنر، محترمہ آنندی بین پٹیل، اتر پردیش کے تیز طرار وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، اترپردیش کے نائب وزیر اعلیٰ دنیش شرما، حکومت اتر پردیش کے وزرا، دیگر اراکین پارلیمنٹ، ایم ایل اے اور علی گڑھ کے میرے پیارے بھائیوں اور بہنوں،

علی گڑھ کے لیے، مغربی اتر پردیش کے لیے آج بہت بڑا دن ہے۔ آج رادھا اشٹمی بھی ہے۔ یہ موقع آج کے دن کو اور بھی مقدس بنا دیتا ہے۔ برج بھومی کے ہر ذرے ذرے میں رادھا ہی رادھا ہے۔ میں آپ سب کو اور پورے ملک کو رادھا اشٹمی کی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ہم خوش قسمت ہیں کہ آج اس مقدس دن پر اتنے بڑے ترقیاتی کام شروع ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارا سنسکار ہے کہ جب کوئی بھی نیک کام ہوتا ہے تو ہم اپنے بزرگوں کو ضرور یاد کرتے ہیں۔ آج میں اس سرزمین کے عظیم بیٹے مرحوم کلیان سنگھ جی کی عدم موجودگی کو بہت زیادہ محسوس کر رہا ہوں۔ اگر کلیان سنگھ جی آج ہمارے ساتھ ہوتے تو راجہ مہندر پرتاپ سنگھ اسٹیٹ یونیورسٹی اور ڈیفنس سیکٹر میں علی گڑھ کی نئی پہچان بنتے دیکھ کر بہت خوش ہوتے اور ان کی روح جہاں بھی ہوگی ہمیں دعائیں دیتی ہوگی۔

ساتھیوں،

ہندوستان کی ہزاروں سالوں کی تاریخ ایسے محب وطنوں سے بھری پڑی ہے، جنھوں نے وقتاً فوقتاً اپنی استقامت اور قربانی سے ہندوستان کو سمت دی ہے۔ کتنی ایسی عظیم شخصیات نے ہماری آزادی کی تحریک میں اپنا سب کچھ لٹا دیا۔ لیکن یہ ملک کی بد قسمتی تھی کہ آزادی کے بعد ملک کی اگلی نسلیں ایسے قومی رہنماؤں سے واقف نہیں تھیں۔ ملک کی کئی نسلیں ان کی کہانیاں جاننے سے محروم رہ گئیں۔

آج 21ویں صدی کا ہندوستان 20ویں صدی کی ان غلطیوں کو درست کر رہا ہے۔ مہاراجہ سہیل دیو جی، دین بندھو چودھری چھوٹو رام جی، یا اب راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی، ملک میں نئی ​​نسل کو قوم کی تعمیر میں ان کی شراکت سے روشناس کرانے کی مخلصانہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ آج جب ملک اپنی آزادی کے 75 سال منا رہا ہے، آزادی کا امرت مہوتسو منا رہا ہے، تو ان کوششوں کو مزید تقویت ملی ہے۔ ہندوستان کی آزادی میں راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے تعاون کو سلام پیش کرنے کی یہ کوشش ایک ایسا ہی مبارک موقع ہے۔

ساتھیوں،

آج ملک کا ہر نوجوان، جو بڑے خواب دیکھ رہا ہے، جو بڑے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کے بارے میں ضرور پڑھنا چاہیے۔ وہ ہندوستان کی آزادی چاہتے تھے اور انھوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ اس کے لیے وقف کر دیا۔ انھوں نے صرف ہندوستان میں رہ کر اور ہندوستان کے لوگوں کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ وہ ہندوستان کی آزادی کے لیے دنیا کے ہر کونے میں گئے۔ افغانستان ہو، پولینڈ ہو، جاپان ہو، جنوبی افریقہ ہو، اپنی زندگی پر ہر خطرہ مول لیتے ہوئے، وہ مادر ہند کو بیڑیوں سے آزاد کرنے کے لیے کام کرتے رہے، زندگی بھر محنت کرتے رہے۔

میں آج کے نوجوانوں سے کہوں گا کہ جب بھی، میرے ملک کے نوجوان میری بات غور سے سنیں، میں ملک کے نوجوانوں سے کہوں گا کہ جب بھی انھیں کوئی مقصد مشکل لگے، انھیں کچھ دشواریاں نظر آئیں تو میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی کو ضرور یاد کرنا، آپ کے حوصلے بلند ہوں گے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی نے جس طرح ایک مقصد، ایک عقیدت کے ساتھ ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کیا، وہ اب بھی ہم سب کو متاثر کرتا ہے۔

اور ساتھیوں،

آج جب میں آپ سے بات کر رہا ہوں تو مجھے ملک کے ایک اور عظیم مجاہد آزادی گجرات کے بیٹے شیام جی کرشنا ورما جی بھی یاد آ رہے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران، راجہ مہندر پرتاپ یورپ گئے خاص طور پر شیام جی، کرشنا ورما جی اور لالہ ہردیال جی سے ملنے۔ اس میٹنگ میں جس سمت کا فیصلہ کیا گیا اس کے نتیجے میں ہمیں افغانستان میں ہندوستان کی پہلی جلاوطن حکومت دیکھنے کو ملی۔ اس حکومت کی سربراہی راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی ہی کر رہے تھے۔

یہ میری خوش قسمتی تھی کہ جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تو میں 73 سال بعد شیام جی کرشنا ورما جی کی راکھ بھارت لانے میں کامیاب رہا۔ اور اگر کبھی آپ کو کچھ کا دورہ کرنے کا موقع ملتا ہے تو وہاں کچھ کے مانڈوی میں شیام جی کرشنا ورما جی کی ایک بہت ہی متاثر کن یادگار ہے، جہاں ان کی راکھ رکھی گئی ہے، وہ ہمیں مادر وطن کے لیے جینے کی ترغیب دیتے ہیں۔

آج ملک کے وزیر اعظم کی حیثیت سے، مجھے ایک بار پھر یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ میں راجہ مہندر پرتاپ جی جیسے عظیم مجاہد آزادی کے نام پر بننے والی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ رہا ہوں۔ یہ میری زندگی کی بڑی خوش قسمتی ہے۔ اور ایسے مقدس موقع پر، آپ اتنی بڑی تعداد میں آشیرواد دینے آئے، اس سے مزید طاقت ملتی ہے۔

ساتھیوں،

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی نے نہ صرف ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کی بلکہ انھوں نے ہندوستان کے مستقبل کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انھوں نے اپنے ملک اور بیرون ملک دوروں کے تجربات کو ہندوستان کے تعلیمی نظام کو جدید بنانے کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے اپنی آبائی جائیداد عطیہ کرکے اپنے وسائل سے ورنداون میں ایک جدید ٹیکنیکل کالج بنایا۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے لیے بہت بڑی زمین بھی دی تھی۔ آج، آزادی کے اس امرت میں، جب اکیسویں صدی کا ہندوستان تعلیم اور ہنر کے ایک نئے دور کی طرف گامزن ہو چکا ہے، ماں بھارتی کے ایسے لافانی بیٹے کے نام پر یونیورسٹی کی تخلیق ان کے لیے حقیقی خراج تحسین ہے۔ یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم کو اس خیال کو حقیقت بنانے پر بہت بہت مبارکباد۔

ساتھیوں،

یہ یونیورسٹی نہ صرف جدید تعلیم کا ایک بڑا مرکز بنے گی بلکہ دفاع سے متعلقہ تعلیم، دفاعی مینوفیکچرنگ سے متعلق ٹیکنالوجی اور ملک میں افرادی قوت کا مرکز بھی بن جائے گی۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں جس طرح تعلیم، ہنر اور مقامی زبان کے مطالعے پر زور دیا گیا ہے، اس سے اس یونیورسٹی میں پڑھنے والے طلبا کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔

اپنی فوجی طاقت کو مضبوط بنانے کے لیے، بھارت کی خود انحصاری کی طرف بڑھنے کی کوششیں اس یونیورسٹی میں پڑھائی کو ایک نئی تحریک دیں گی۔ آج نہ صرف ملک بلکہ دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ جدید دستی بم اور رائفلز سے لے کر لڑاکا طیارے، جدید ڈرون، جنگی جہاز، یہ سب بھارت میں تیار ہو رہے ہیں۔ بھارت دنیا کے ایک بڑے دفاعی درآمد کنندہ کی شبیہ سے باہر آ چکا ہے۔ آزادی کے 75 سال ہو چکے ہیں، اور ہم اس درآمد کنندہ کی تصویر سے باہر نکل کر دنیا کے صف اول کے دفاعی برآمد کنندگان میں سے ایک کے طور پر ایک نئی شناخت بنانے کے عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس بدلتی ہوئی شناخت کا ایک بہت بڑا مرکز یہ ہمارا اتر پردیش بننے والا ہے اور اتر پردیش کے رکن پارلیمنٹ کی حیثیت سے مجھے اس پر بہت فخر ہے۔

ساتھیوں،

میں نے کچھ عرصہ پہلے دفاعی راہداری کے ’علی گڑھ نوڈ‘ کی پیش رفت کا مشاہدہ کیا ہے۔ علی گڑھ میں ہی، ڈیفنس مینوفیکچرنگ سے متعلقہ ڈیڑھ درجن سے زیادہ کمپنیاں یہاں سینکڑوں کروڑ کی سرمایہ کاری سے ہزاروں نئی ​​ملازمتیں پیدا کرنے والی ہیں۔ علی گڑھ نوڈ میں چھوٹے ہتھیار، ڈرون، ایرو اسپیس، دھاتی اجزا، اینٹی ڈرون سسٹم، دفاعی پیکیجنگ، نئی صنعتیں قائم کی جا رہی ہیں۔ یہ تبدیلی علی گڑھ اور ارد گرد کے علاقے کو ایک نئی شناخت دے گی۔

ساتھیوں،

اب تک لوگ اپنے گھر، دکان کی حفاظت کے لیے علی گڑھ پر انحصار کرتے تھے، کیا آپ نہیں جانتے؟ کیونکہ اگر علی گڑھ کا تالا لگا ہوتا تھا تو لوگوں کو بھروسا رہتا تھا۔ اور آج مجھے اپنے بچپن کی بات کرنے کا دل کر رہا ہے۔ یہ تقریباً 55 سے 60 سال پرانی بات ہے۔ جب ہم بچے تھے، علی گڑھ سے تالے کے جو سیلز مین ہوتے تھے وہ ایک مسلمان مہمان تھے۔ وہ ہر تین ماہ بعد ہمارے گاؤں آتے تھے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ وہ سیاہ جیکٹ پہنتے تھے۔ اور بطور سیلزمین وہ دکانوں میں اپنا تالا رکھتے تھے اور تین مہینوں کے بعد آ کر اپنے پیسے لے جاتے تھے۔ وہ آس پاس کے گاؤں کے تاجروں کے پاس بھی جاتے تھے۔ اور وہ میرے والد کے بہت اچھے دوست تھے۔ اور جب وہ آتے، تو ہمارے گاؤں میں چار چھ دن رہتے تھے۔ اور جو پیسہ وہ دن بھر جمع کرتے، وہ اسے میرے والد کے پاس چھوڑ دیتے تھے اور میرے والد اس کے پیسے سنبھالتے تھے۔ اور چار چھ دن کے بعد، جب وہ میرے گاؤں کو چھوڑ کر جاتے تھے، تو میرے والد سے یہ سارے پیسے لے لیتے تھے، اور اپنی ٹرین پکڑ لیتے تھے۔ اور بچپن میں ہم اتر پردیش کے دو شہروں سے بہت واقف تھے، ایک سیتا پور اور دوسرا علی گڑھ۔ ہمارے گاؤں میں اگر کسی کو آنکھوں کی بیماری کا علاج کروانا ہوتا تھا تو سب کہتے تھے سیتا پور جاؤ۔ ہم زیادہ نہیں سمجھتے تھے، لیکن سیتا پور سب سے زیادہ سنتے تھے۔ اور دوسرا ان جناب کی وجہ سے علی گڑھ بار بار سنتے تھے۔

لیکن ساتھیوں،

اب علی گڑھ کا دفاعی سامان بھی… جو کل تک علی گڑھ کے تالوں سے گھروں کی دکانوں کی حفاظت کرتا تھا، یہ 21ویں صدی میں میرا علی گڑھ ہندوستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے کام کرے گا۔ ایسے ہتھیار یہاں بنائے جائیں گے۔ ون ڈسٹرکٹ ون پروڈکٹ اسکیم کے تحت یو پی حکومت نے علی گڑھ کے تالوں اور ہارڈ ویئر کو نئی شناخت دی ہے۔ یہ نوجوانوں کے لیے، MSMEs کے لیے نئے مواقع پیدا کر رہا ہے۔ اب دفاعی صنعت کے ذریعے موجودہ کاروباری، MSMEs کو خصوصی فوائد حاصل ہوں گے اور نئے MSMEs کو بھی مراعات ملیں گی۔ دفاعی راہداری کا علی گڑھ نوڈ چھوٹے کاروباریوں کے لیے نئے مواقع بھی پیدا کرے گا۔

بھائیوں اور بہنوں،

دفاعی راہداری کے لکھنؤ نوڈ میں دنیا کے بہترین میزائلوں میں سے ایک برہموس کو بھی تعمیر کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے لیے اگلے چند سالوں میں 9 ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے۔ ایک اور میزائل مینوفیکچرنگ یونٹ جھانسی نوڈ میں بھی قائم کرنے کی تجویز ہے۔ یوپی ڈیفنس کوریڈور اتنی بڑی سرمایہ کاری اور روزگار کے وسیع مواقع لے کر آ رہا ہے۔

ساتھیوں،

آج اتر پردیش ملک اور دنیا کے ہر چھوٹے بڑے سرمایہ کار کے لیے ایک بہت پر کشش مقام بن رہا ہے۔ یہ تب ہوتا ہے جب سرمایہ کاری کے لیے ضروری ماحول بنایا جائے، ضروری سہولیات دستیاب ہوں۔ آج اتر پردیش ڈبل انجن حکومت کے دوہرے منافع کی ایک بڑی مثال ہے۔ یوگی جی اور ان کی پوری ٹیم نے سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس کے منتر پر عمل کرتے ہوئے اتر پردیش کو ایک نئے کردار کے لیے تیار کیا ہے۔ اب سب کی کوششوں سے اسے مزید بڑھانا ہے۔ جنھیں معاشرے میں ترقی کے مواقع سے دور رکھا گیا تھا، ایسے ہر سماج کو تعلیم اور سرکاری ملازمتوں میں مواقع دیے جا رہے ہیں۔ آج اتر پردیش بڑے انفراسٹرکچر پروجیکٹس اور بڑے فیصلوں کے لیے زیر بحث ہے۔ مغربی اتر پردیش کو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ہونے والا ہے۔

گریٹر نوئیڈا میں انٹیگریٹڈ انڈسٹریل ٹاؤن شپ، ملٹی ماڈل لاجسٹکس ہب، زیور انٹرنیشنل ایئرپورٹ، دہلی-میرٹھ ریجنل ریپڈ ٹرانزٹ سسٹم، میٹرو کنیکٹوٹی، ماڈرن ہائی ویز اور ایکسپریس ویز، اس طرح کے بہت سے کام آج مغربی اتر پردیش میں کیے جا رہے ہیں۔ یو پی میں جاری ہزاروں کروڑ روپے کے یہ منصوبے آنے والے سالوں میں ہندوستان کی ترقی کی ایک بڑی بنیاد بنیں گے۔

بھائیوں اور بہنوں،

میں آج یہ دیکھ کر بہت خوش ہوں کہ وہی یو پی جس کو ملک کی ترقی میں رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا تھا، آج ملک کی بڑی مہمات کی قیادت کر رہا ہے۔ بیت الخلا بنانے کی مہم ہو، غریبوں کو پکا گھر دینا ہو، اجوالہ کے تحت گیس کنکشن، بجلی کنکشن، پی ایم کسان سمان ندھی، ہر اسکیم، ہر مشن میں، یوگی جی کی یو پی نے ملک کے اہداف کے حصول میں سبقت لی ہے۔ کردار ادا کیا ہے۔ ورنہ، مجھے یاد ہے، میں وہ دن نہیں بھول سکتا جب 2017 سے پہلے یہاں غریبوں کی ہر اسکیم بلاک ہوتی تھی۔ ہر اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مرکز سے درجنوں خط لکھے جاتے تھے، لیکن اس نے یہاں اس رفتار سے کام نہیں کیا… میں 2017 سے پہلے کی بات کر رہا ہوں… جیسا ہونا چاہیے تھا، ویسا نہیں ہوا۔

ساتھیوں،

یو پی کے لوگ یہ نہیں بھول سکتے کہ یہاں کس قسم کے گھوٹالے ہوتے تھے، کس طرح حکمرانی رشوت خوروں کے حوالے کی گئی تھی۔ آج یوگی جی کی حکومت مخلصانہ طور پر یو پی کی ترقی میں مصروف ہے۔ ایک وقت تھا جب یہاں کا انتظام غنڈوں اور مافیا کی من مانی سے چلتا تھا۔ لیکن اب وصولی کرنے والے، مافیا راج چلانے والے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

میں خاص طور پر مغربی اتر پردیش کے لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں۔ اس علاقے میں چار پانچ سال پہلے، خاندان اپنے گھروں میں خوف کے ساتھ رہتے تھے۔ بہنیں اور بیٹیاں گھر چھوڑنے، اسکول اور کالج جانے سے ڈرتی تھیں۔ بیٹیوں کے گھر آنے تک والدین کی سانسیں رک جاتی تھیں۔ وہاں کے ماحول میں، بہت سے لوگوں کو اپنا آبائی گھر چھوڑنا پڑا، ہجرت کرنا پڑی۔ آج یو پی میں ایک مجرم ایسا کرنے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔

یوگی جی کی حکومت میں غریبوں کی سنوائی ہوتی ہے، غریبوں کا احترام بھی ہوتا ہے۔ یوگی جی کی قیادت میں یو پی کے بدلتے کام کرنے کے انداز کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے- سب کے لیے ویکسین مفت ویکسین مہم - اتر پردیش اب تک 8 کروڑ سے زائد ویکسین لگ چکی ہے۔ یو پی ملک میں ایک دن میں سب سے زیادہ ویکسین لگانے کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے۔ کورونا کے اس بحران میں غریبوں کی فکر حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ مہینوں سے مفت اناج دیا جا رہا ہے تاکہ غریب بھوکے نہ رہیں۔ غریبوں کو بھوک سے بچانے کے لیے، جو کام دنیا کے بڑے ممالک نہیں کر سکے، وہ آج بھارت کر رہا ہے، ہمارا اتر پردیش کر رہا ہے۔

ساتھیوں،

آزادی کے اس امرت دور میں، دیہی معیشت بھی تیزی سے تبدیلیوں سے گزر رہی ہے۔ چودھری چرن سنگھ جی نے خود کئی دہائیوں پہلے ملک کو دکھایا ہے کہ تبدیلی کے ساتھ کیسے چلنا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کے زرعی مزدوروں اور چھوٹے کسانوں نے چودھری صاحب کے دکھائے ہوئے راستے سے کتنا فائدہ اٹھایا۔ آج کی کئی نسلیں ان اصلاحات کی وجہ سے با وقار زندگی گزار رہی ہیں۔

یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت ملک کے چھوٹے کسانوں کے ساتھ شراکت دار کے طور پر کھڑی ہو جن کے بارے میں چودھری صاحب کو تشویش تھی۔ ان چھوٹے کسانوں کے پاس دو ہیکٹر سے کم زمین ہے اور ہمارے ملک میں چھوٹے کسانوں کی تعداد 80 فیصد سے زیادہ ہے۔ یعنی ملک کے 10 کسانوں کے پاس جو زمین ہے اس میں سے 8 کسان ایسے ہیں جن کے پاس زمین کا ایک چھوٹا ٹکڑا ہے۔ لہذا، مرکزی حکومت کی مسلسل کوشش ہے کہ چھوٹی جوت والوں کو طاقت دی جائے۔ ڈیڑھ گنا ایم ایس پی ہو، کسان کریڈٹ کارڈ کی توسیع، انشورنس اسکیم میں بہتری، تین ہزار روپے پنشن کی فراہمی، ایسے کئی فیصلے چھوٹے کسانوں کو با اختیار بنا رہے ہیں۔

کورونا کے اس وقت میں، حکومت نے ملک بھر میں چھوٹے کسانوں کے کھاتوں میں براہ راست ایک لاکھ کروڑ روپے سے زائد رقم منتقل کی ہے۔ اس میں 25 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ صرف یو پی کے کسانوں کو ملے ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ یو پی میں گزشتہ 4 سالوں میں ایم ایس پی پر خریداری کے لیے نئے ریکارڈ بنائے گئے ہیں۔ گنے کی ادائیگی سے متعلقہ مسائل کو مسلسل کم کیا جا رہا ہے۔ پچھلے 4 سالوں میں یو پی کے گنے کے کاشتکاروں کو 1 لاکھ 40 ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کی ادائیگی کی گئی ہے۔ آنے والا سال یو پی کے گنے کے کاشتکاروں کے لیے نئے امکانات کے دروازے کھولنے والا ہے۔ گنے سے پیدا ہونے والا ایتھنول جس سے بائیو فیول بنتا ہے، ایندھن کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس سے مغربی یو پی کے گنے کے کاشتکاروں کو بھی فائدہ پہنچنے والا ہے۔

ساتھیوں،

علی گڑھ سمیت پورے مغربی اتر پردیش کو آگے بڑھانے کے لیے یو گی جی کی حکومت اور مرکزی حکومت دن رات محنت کر رہی ہے۔ ہمیں مل کر اس خطے کو مزید خوشحال بنانا ہے، یہاں بیٹوں اور بیٹیوں کی استعداد کو بڑھانا ہے اور اتر پردیش کو تمام ترقی مخالف قوتوں سے بچانا ہے۔ راجہ مہندر پرتاپ سنگھ جی جیسے قومی ہیروز کی حوصلہ افزائی سے ہم سب اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں۔ اس خواہش کے ساتھ کہ آپ اتنی بڑی تعداد میں ہمارا حوصلہ بڑھانے آئے، مجھے آپ سب کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا، میں اس کے لیے آپ کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں، میں آپ سب کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔

دونوں ہاتھ اوپر کرکے میرے ساتھ بولنا ہے۔ میں کہوں گا راجہ مہندر پرتاپ سنگھ، آپ دونوں ہاتھ اوپر کرکے بولیں گے، امر رہیں، امر رہیں۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ

امر رہیں، امر رہیں۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ

امر رہیں، امر رہیں۔

راجہ مہندر پرتاپ سنگھ

امر رہیں، امر رہیں۔

بھارت ماتا کی

جے۔

بھارت ماتا کی

جے۔

 

بہت بہت شکریہ!

                                               **************

ش ح۔ ف ش ع-ک ا   

U: 8987


(Release ID: 1754869) Visitor Counter : 299