الیکٹرانکس اور اطلاعات تکنالوجی کی وزارت

اطلاعاتی ٹکنالوجی کے وزیر جناب اشوینی ویشنو کا ”کچھ لوگوں کے فون ڈیٹا میں چھیڑ چھاڑ کے لیے اسپائی ویئر پیگاسس کے مبینہ استعمال سے جڑی میڈیا میں 18 جولائی 2021 کو آئی خبروں“ پر راجیہ سبھا میں بیان

Posted On: 22 JUL 2021 4:47PM by PIB Delhi

الیکٹرانکس اور اطلاعاتی ٹکالوجی کے وزیر جناب اشوینی ویشنو نے ”کچھ لوگوں کے فون ڈیٹا میں چھیڑ چھاڑ کے لیے اسپائی ویئر پیگاسس کے مبینہ استعمال سے جڑی میڈیا میں 18 جولائی 2021 کو آئی خبروں“ پر آج یہاں راجیہ سبھا میں مندرجہ ذیل بیان دیا:

محترم چیئرمین،

میں کچھ لوگوں کے فون ڈیٹا میں چھیڑ چھاڑ کرنے کے لیے اسپائی ویئر پیگاسس کے غلط استعمال سے جڑی خبروں پر بیان دینے کے لیے کھڑا ہوں۔

ایک ویب پورٹل پر 18 جولائی 2021 کو ایک انتہائی سنسنی خیز خبر شائع ہوئی۔ اس خبر کے ذریعہ بہت سارے سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

محترم چیئرمین، یہ خبر پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس کے آغاز سے ایک دن قبل میڈیا میں سامنے آئی ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔

پیگاسس سپائی ویئر کے غلط استعمال کے ایسے ہی دعوے ماضی میں بھی واٹس ایپ پر کیے گئے تھے۔ ان دعووں کی کوئی حقیقت پسندانہ بنیاد نہیں تھی اور متعلقہ فریقوں نے سپریم کورٹ سمیت ہر جگہ انھیں مسترد کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں 18 جولائی 2021 کو میڈیا میں شائع ہونے والی خبروں کو ہندوستان کی جمہوریت اور اس کے مضبوط اداروں کے وقار کو ٹھیس پہنچانے کے مقصد کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

ہم ان لوگوں پر الزام نہیں لگا سکتے جنھوں نے اس خبر کو تفصیل سے نہیں پڑھا ہے۔ میں ایوان کے تمام معزز ممبروں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس موضوع کے تمام حقائق اور دلائل کی پوری جانچ پڑتال کریں۔

اس خبر کی بنیاد ایک ایسا گروپ ہے جس نے مبینہ طور پر 50 ہزار فون نمبروں کا ایک لیک ڈیٹا بیس حاصل کیا ہے۔ الزام یہ ہے کہ ان فون نمبروں سے وابستہ افراد پر نظر رکھی جا رہی تھی۔ لیکن رپورٹ یہ کہتی ہے کہ:

ڈیٹا بیس میں فون نمبر ڈھونڈنا یہ ثابت نہیں کرتا ہے کہ فون پیگاسس اسپائی ویئر سے متاثر ہوا تھا یا اس پر کوئی سائبر حملہ ہوا تھا۔

کسی بھی فون کے تکنیکی تجزیہ کیے بغیر ، یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ آیا اس پر سائبر اٹیک کی کوئی کوشش کامیاب رہی یا نہیں۔

لہذا ، اس رپورٹ میں خود بخود یہ بتایا گیا ہے کہ ڈیٹا بیس میں فون نمبروں کی موجودگی سے کوئی نگرانی ثابت نہیں ہوتی ہے۔

محترم چیئرمین، اس سلسلے میں، اس ٹیکنالوجی کی ملکیت رکھنے والی این ایس او کے بیان کو بھی نوٹ کرنا چاہیے۔ اس نے کہا ہے:

این ایس او گروپ کا ماننا ہے کہ یہ دعویٰ ایچ ایل آر لک اپ سروسز جیسے لیک ہونے والے ڈیٹا بیس میں دستیاب معلومات کی غلط تشریح کا نتیجہ ہے - جس کا پیگاسس اسپائی ویئر سے متعلق صارف کی فہرست یا کسی دوسرے این ایس او پروڈکٹ سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔

یہ سروسز کسی کو کسی بھی وقت کہیں بھی دستیاب ہیں، جن کا عام طور پر دنیا بھر میں سرکاری اداروں اور نجی کمپنیوں کے ذریعہ استعمال ہوتا ہے۔ یقینی طور پر اس ڈیٹا کا نگرانی یا این ایس او سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، لہذا اس ڈیٹا کی نگرانی کے لیے استعمال ہونے کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

این ایس او نے یہ بھی کہا ہے کہ جن ممالک کے نام فہرست میں پگاسس کے صارفین کی حیثیت سے دکھائے گئے ہیں وہ بھی غلط ہیں اور ان ممالک میں سے بہت سے ان کے صارف نہیں ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے زیادہ تر صارفین مغربی ممالک کے ہیں۔

یہ واضح ہے کہ این ایس او نے اس خبر میں چھپے دعووں کی تردید کی ہے۔

محترم چیئرمین، ہندوستان میں نگرانی سے متعلق طے شدہ پروٹوکول ہیں۔ میرے ساتھی جو حزب اختلاف میں ہیں اور کئی سالوں تک حکومت میں رہے ہیں، یقیناً اس پروٹوکول سے واقف ہوں گے۔ وہ برسوں تک حکومت میں رہے ہیں، لہذا انھیں یہ پتہ ہوگا کہ کسی بھی طرح کی نگرانی بغیر کسی قانونی کنٹرول کے ممکن نہیں ہے۔

ہندوستان میں ایسا طریقہ کار موجود ہے جس کے ذریعہ الیکٹرانک مواصلات میں قانونی مداخلت صرف قومی سلامتی کی وجوہات کی بنا پر، خاص طور پر عوامی تباہی یا عوامی حفاظت کے معاملات میں کیا جاتا ہے۔ الیکٹرانک مواصلات تک قانونی رسائی کے لیے درخواستیں انڈین ٹیلی گراف ایکٹ 1885 کے سیکشن 5 (2) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 69 کے تحت کی جاتی ہیں۔

ہندوستان کے کابینہ سکریٹری کی سربراہی میں نظر ثانی کمیٹی کی شکل میں نگرانی کا ایک متعین نظام موجود ہے۔ ریاستی حکومتوں کی سطح پر، اس طرح کے معاملات کی نگرانی چیف سکریٹری کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ایک کمیٹی کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ اس طرح کے واقعات کا نشانہ بننے والوں کو انصاف فراہم کرنے کے لیے قانون میں بھی ایک شق موجود ہے۔

محترم چیئرمین، آخر میں، میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ:

  • اس رپورٹ کے ناشر کے مطابق، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس رپورٹ میں دیے گئے فون نمبروں کی نگرانی کی جا رہی تھی۔
  • جس کمپنی کی ٹیکنالوجی کا مبینہ طور پر غلط استعمال کیا جا رہا تھا اس نے ان دعووں کی سختی سے تردید کی ہے۔
  • ملک میں طویل عرصے سے قائم قانونی عمل یہ یقینی بناتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی نگرانی ممکن نہیں ہے۔

محترم چیئرمین، جب ہم اس موضوع کو منطقی طور پر دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس سنسنی خیز مضمون میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔

شکریہ، محترم چیئرمین۔

                                               **************

ش ح۔ ف ش ع-ک ا   

U: 6855


(Release ID: 1738000) Visitor Counter : 305