صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت

ڈیلٹاویریئنٹ کے نام سے معروف بی .1. ،2.617الفاویئرینٹ سے لگ بھگ 60-40فیصد سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے :آئی این ایس اے سی اوجی کے مشترکہ چیئرمین ڈاکٹراین کے اروڑہ اس معاملے میں آئی سی ایم آرکے ذریعہ کئے گئے مطالعہ کے مطابق موجودہ ویکسین ڈیلٹا ویریئنٹ کے خلاف کا رگرہے


‘‘اگرزیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکے لگوالیں اورکووڈ -19سے بچاو کے لئے مناسب طورطریقوں کو موثر طورپراختیارکریں  توآئندہ کسی بھی لیر پرقابو پایاجاسکتاہے ، اوراس میں تاخیرکی جاسکتی ہے ’’

‘‘یہ کہنامشکل ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کی وجہ سے ہونے والی بیماری زیادہ سنگین ہے ’’۔ڈاکٹراین کے اروڑا

Posted On: 19 JUL 2021 11:09AM by PIB Delhi

نئی دہلی،19؍جولائی:ایک حالیہ انٹرویو میں انڈین سارس – سی اوسی -2جینومکس کنسورشیم (آئی این ایس اے سی اوجی ) کے مشترکہ چیئرمین ڈاکٹراین کے اروڑہ نے ویریئنٹس کی طبی جانچ اوراس کے بعد کی نگرانی کےلئے معیاری طورپرطریقوں ، ڈیلٹا ویریئنٹس اتنی تیزی سے کیوں پھیلتاہے ، جینومک پرنظررکھ کے کیسے اس کے پھیلاؤ پرقابو پایاجاسکتاہے ، سے متعلق امورکو اجاگرکیا۔ انھوں نے کووڈ -19سے بچاؤ کے لئے مناسب طورطریقے اخیتارکرنے کی اہمیت پرایک بارپھرزوردیا۔

آئی این ایس اے سی اوجی ، کووڈ-19 عالمی وباء کے ضمن  میں جینوم کی مکمل ترتیب بندی کے لئے ، صحت اورخاندانی بہبود کی وزارت ، بائیوٹیکنولوجی کے محکمے ، طبی تحقیق کی بھارتی کاؤنسل ( آئی سی ایم آر) اورسائنسہ اورصنعت تحقیق سے متعلق کاؤنسل ( سی ایس آئی آر) کی 28لیبوریٹریوں کا ایک الحاق ہے ۔ آئی این ایس اے سی اوجی نے اپنی رسائی میں توسیع کی ہے ۔ اس توسیع کی کیاوجہ ہے ؟

تشویش کے ویریئنٹ کے پھرسے ابھرنے اورانے کے پھیلاؤ پرسخت نظررکھے جانے کی ضرورت ہے تاکہ ان کے ایک بڑے علاقے تک پھیلنے سے پہلے ہی ان پرقابوپایاجاسکے ۔ دسمبر 2020 میں قائم کیاگیا انڈین سارس ۔ سی اوسی ۔ 2جینومک کنسورشیم (آئی این ایس اے سی اوجی ) دس لیباریٹریوں کاالحاق تھا ۔ جس میں حال ہی میں مزید 18لیباریٹریوں کو شامل کیاگیاہے ۔

اس کا مقصد سارس ۔سی اووی ، 2 کی جینومک نگرانی کی غرض سے لیباریٹریوں کاایک مضبوط نیٹ ورک قائم کرنا اورجینومک کی مکمل ترتیب بندی سے متعلق اعدادوشمار کو طبی اور وبائی امراض کے علم سے متعلق اعدادوشمار کے ساتھ مربوط کرناہے تاکہ اس بات کا پتہ لگایاجاسکے کہ ایک ویریئنٹ زیادہ تیزی سے پھیلتاہے یانہیں ، اس کی وجہ سے زیادہ سنگین بیماری ہوتی ہے ، قوت مدافعت کو نقصان پہنچتاہے یا اس کے سبب خاص قسم کا انفیکشن ہوتاہے جس کی وجہ سے ویکیسن کی کارگری پراثرپڑتاہے ۔ اورجس کی تشخیص حالیہ طبی جانچوں کے بعد کی گئی ہے ۔

اس کے بعد بیماری پرقابوپانے اورروک تھام سے متعلق قومی مرکز ( این سی ڈی سی ) اس ڈیٹاکا تجزیہ کرتاہے ۔ پورے ملک کو جغرافیائی خطوں میں تقسیم کیاگیاہے اورہرلیباریٹری کوایک مخصوص خطے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ ہم نے ہرکلسٹرمیں لگ بھگ چارضلعوں کے آس پاس 190-180کلسٹرس قائم کئے ہیں ۔ جہاں سے سنگین بیماری کے شکارمریضوں کے وقتاًفوقتاً روئی کی پھریری کے نمونے اکٹھاکرکے ترتیب بندی کے لئے علاقائی لیبارٹیریوں میں بھیجے جاتے ہیں ۔ ملک میں ہرماہ 50000سے زیادہ نمونوں کی ترتیب بندی کی جاسکتی ہے ۔ اس سے پہلے ایک مہینے میں تقریبا 30000نمونوں کی جانچ کی جاسکتی تھی ۔

ملک میں ویریئنٹس کی طبی جانچ اوراس سلسلے میں مزید کارروائی کی غرض سے کس قسم کا نظام موجود ہے ؟

بھارت میں بیماریوں سے متعلق مربوط نگرانی کاایک بہترین نظام موجود ہے ۔ آئی ڈی ایس پی ، نمونے اکٹھاکرنے اورضلع نگہبانی کے مراکز سے انھیں علاقائی جینوم ترتیب بندی سے متعلق لیباریٹریوں ( آرجی ایس ایل ) تک لانے لے جانے میں تعاون کرتاہے ۔ آرجی ایس ایل کو جینوم کی ترتیب بندی اورتشویش کے ویریئنٹس  (وی او سی ) ، ویریئنٹس آف انٹریسٹ (وی اوآئی ) ، امکانی ویریئنٹس آف انٹریسٹ اوردیگرمیوٹیشنز کی نشاندہی اورجینوم ترتیب بندی کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ وی اوآئی /وی اوسی سے متعلق معلومات کو ریاستی نگرانی کے عہدیداروں کے ساتھ تال میل قائم کرکے طبی اوروبائی  امراض سے متعلق رابطہ کا پتہ لگانے کے لئے نگرانی سے متعلق مرکزی یونٹوں میں براہ راست پیش کردیاجاتاہے ۔ان نمونوں کو بعدمیں نامزد بائیوبنکوں میں بھیجاجاتاہے ۔

آرجی ایس ایل ایک جینومک میوٹیشن کی نشاندہی کئے جانے پر ، جوعوامی صحت کے لئے اہمیت کا حامل ہوسکتاہے ، اسے سائنسی اورطبی مشاورتی گروپ ( ایس سی اے جی ) میں پیش کیاجاتاہے ۔ اس کے بعد ایس سی اے جی ویریئنٹس آف انٹرنیٹ اوردیگر میوٹیشنز کے بارے میں ماہرین کے ساتھ صلاح ومشورہ کرتاہے اوراگرضروری ہوتو مزید تفتیش کے لئے نگرانی سے متعلق مرکزی یونٹ سے سفارش کرتاہے ۔

این سی ڈی سی کی ایک شاخ آئی ڈی ایس پی ، صحت کی وزارت ، طبی تحقیق کی بھارتی کاؤنسل ، (آئی سی ایم آر) ، بائیو ٹیکنولوجی کے محکمے، سائنسی اورصنعتی تحقیق سے متعلق کاؤنسل ( سی ایس آئی آر) اورریاستی حکام کے ساتھ ملک کے طبی اورعالمی وبائی امراض سے متعلق رابطے کے بارے میں معلومات سے مطلع کرتی ہے ۔

آخرکار ، نئے میوٹیشنز /تشویش کے ویریئنٹس کی افزائش کی جاتی ہے اوران کا سائنسی مطالعہ کیاجاتاہے تاکہ انفیکشن سے متاثر ہونے کے اثر ، اس کی شدت ، ویکسین کی کارگری اورقوت مدافعت وغیرہ کے اثرات کا مشاہدہ کیاجاسکے ۔

ڈیلٹا ویریئنٹس پرایک عالمی تشویش کے طورپر توجہ مرکوز کی گئی ہے ۔ یہ ویریئنٹ اتناشدید اورسنگین کیوں ہے ؟

کووڈ-19کے ایک ویریئنٹ بی .1، 617-2 کو ڈیلٹا ویریئنٹ کے طورپرجاناجاتاہے اس کی سب سے پہلے اکتوبر 2020 میں بھارت میں نشاندہی کی گئی تھی اوریہ بنیادی طورپر ملک میں دوسری لہرکے لئے ذمہ دارہے ۔ جس کے آج  کووڈ -19کے نئے معاملوں کے 80 فیصد سے زیادہ مریض ہیں ۔ یہ مہاراشٹر میں ابھرا اوروسطی اورمشرقی ریاستوں میں پہنچنے سے پہلے اس نے ملک کی مغربی ریاستوں کے ساتھ ساتھ  شمال کی جانب پیش قدمی کی ۔ یہ ویریئنٹ ، اپنے سے پہلے کے ویریئنٹ (الفاویریئنٹ ) کے مقابلے لگ بھگ 60-40فیصد زیادہ تیزی سے پھیلتاہے اوریہ پہلے ہی برطانیہ ، امریکہ ، سنگاپوروغیرہ سمیت سے زیادہ ملکوں میں پھیل چکاہے ۔

کیااس کے سبب دیگرویریئنٹ کے مقابلے زیادہ شدید اورسنگین بیماری پھیلتی ہے ؟

ایسے کئی مطالعات ہیں کہ جن سے ظاہرہوتاہے کہ اس ویریئنٹ میں یاسے بعض میوٹیشنز ہیں جوخلومائی مادہ یا کثیرنواتی خلیہ کو فروغ دیتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک انسانی خلیہ ہرحملہ کرنے پریہ زیادہ تیزی کے ساتھ پھیلتے ہیں ۔ یہ پھیپھڑوں جیسے اعضامیں زبردست سوجن پیداکرتے ہیں ۔ تاہم یہ کہنا مشمل ہے کہ ڈیلٹا ویریئنٹ کی وجہ سے ہونے والی بیماری زیادہ شدید ہے ۔ بھارت میں کووڈ -19کی دوسری لہرکے دوران عمرسے متعلق خلاصہ اور اموات کی تعداد بالکل اتنی ہی ہے جتنی کہ پہلی لہرکے دوران درج کی گئی تھی ۔

کیاڈیلٹا پلس ویریئنٹ ، ڈیلٹا ویریئنٹ  کے مقابلے زیادہ سنگین ہے ؟

ڈیلٹا پلس ویریئنٹ اے وائی ۔ 1اوراے وائی -2کاابھی مہاراشٹر، تمل ناڈو اورمدھیہ پردیش سمیت گیارہ ریاستوں میں 60-55معاملوں کا پتہ چلاہے ۔اے وائی -1، نیپال ، پرتگال ، سوئٹزرلینڈ ، پولینڈ اورجاپان جیسے ملکوں میں بھی پایاگیاہے ، لیکن اے وائی -2کم پھیلاہواہے ۔ اس ویریئنٹ کا،اس کے متعدد ہونے کی صلاحیت ، شدت اورویکسین کی کارگری کم ہونے کے سلسلے میں اب بھی مطالعہ کیاجارہاہے ۔

کیاڈیلٹا ویرینٹ کے خلاف ویکسین کارگرہے؟

ہاں ، اس معاملے میں آئی سی ایم آرکے ذریعہ کئے گئے مطالعات کے مطابق موجودہ ویکسین ، ڈیلٹاویریئنٹ کے خلاف کارگراورموثرہیں۔

ملک کے کچھ حصوں میں اب بھی کیسوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھاجارہاہے ، ایسا کیوں ہے؟

حالانکہ ملک کے زیادہ ترحصوں میں کیسوں کی تعداد میں خاطرخواہ کمی ہوئی ہے پھربھی ملک کے بعض خطوں میں ، خاص طورپر شمال مشرقی حصوں اورجنوبی ریاستوں کے کئئ ضلعوں میں طبی جانچ کے سبب زیاد ہ متاثرہ شرح(ٹی پی آر) کامشاہدہ کیاجارہاہے اوران میں سے زیادہ تر کیسی ڈیلٹاویریئنٹ کی وجہ سے ہوسکتے ہیں ۔

کیاآئندہ یامستقبل میں ان لہروں سے بچاجاسکتاہے ؟

یہ وائرس آبادی کے ایک حصے کو جو سب سے زیادہ اثرپذیرہیں اورجو انفیکشن کی سب سے زیادہ زد میں بھی ہیں ، متاثرکرناشروع کرتاہے ۔ یہ وائرس آبادی کے ایک بڑے حصے کو کامیابی سے انفیکٹ کرنے کے بعد کمزور پڑجاتاہے اورپھرجب لوگوں میں قوت مدافعت تیارہوجاتی ہے تویہ پھراپنا اثردکھاناشروع کردیتاہے اوراگرکوئی نیا اورزیادہ تیزی سے پھیلنے والا ویریئنٹ  ابھرتاہے توکیسوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتاہے ۔ باالفاظ دیگر ، اگلی لہرایک ایسے وائرس کی قسم  کے ذریعہ پھیلے گی جس میں آبادی کا ایک خاطرخواہ حصہ زد پذیرہوگا۔

دوسری لہر اب بھی جاری ہے ۔ اگرزیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکے لگادئے جائیں اورسب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ لوگ زیادہ ذمہ داری کے ساتھ کووڈ -19 سے بچاؤ کے لئے مناسب ضابطوں پرعمل کریں اورخاص طورپر آبادی کے ایک بڑے حصے کے ٹیکے لگوانے تک توآئندہ کسی بھی لہر کی روک تھام کی جاسکتی ہے اوراس میں تاخیرکی جاسکتی ہے ۔

کووڈ -19سے روک تھام کے مقصد سے لوگوں کو ٹیکہ لگوانے پرتوجہ مرکوز کرنے اورکووڈ-19 سے بچاؤ کے لئے مناسب طورطریقوں اورضابطوں پرعمل کرنے کی ضرورت ہے ۔

****************

 

)19.07.2021 (ش ح ۔ع م۔ع آ

U-6682


(Release ID: 1736750) Visitor Counter : 244