وزیراعظم کا دفتر

‘‘ پریکشا پر چرچا 2021’’ میں طلباء اور اساتذہ اور والدین کے ساتھ وزیراعظم کی گفتگو کا متن

Posted On: 07 APR 2021 10:45PM by PIB Delhi

نمسکار! نمسکار دوستو، کیسے ہیں آپ سب؟ امید ہے  امتحانات کی تیاری اچھی  چل رہی ہوں گی۔ یہ ‘پریکشا پہ چرچا’ کا پہلا ورچوئل ایڈیشن ہے۔ آپ جانتے ہیں  کہ ہم پچھلے ایک سال سے کورونا کے درمیان جی رہے ہیں اور اس کے سبب ہر کسی کو نیا نیا تجربہ کرنا پڑرہا ہے۔مجھے بھی آپ سے ملنے کی خواہش اس بار ترک کرنی پڑرہی ہے اور مجھے بھی ایک نئے فارمیٹ  میں آپ کے درمیان آنا پڑرہا ہے۔

آپ سے بالمشافہ نہ ملنا، آپ کے چہرے کی خوشی نہ دیکھنا، آپ کی اُمنگ اور  جوش کا احساس نہ کرنا،یہ اپنے آپ میں میرے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔ لیکن پھر بھی امتحانات تو ہیں ہی۔ آپ ہیں  ، میں ہوں،  امتحانات ہیں، تو پھر  اچھا ہی ہے کہ ہم امتحانات پر گفتگو مسلسل کریں گے اور اس سال بھی بریک نہیں لیں گے۔

ابھی اپنی بات چیت کا سلسلہ شروع کرنے جارہے ہیں۔ ایک بات میں شروع میں ضرور ہم وطنوں کو بھی بتانا چاہتا ہوں اور سرپرستوں کو بتانا چاہتا ہوں، اساتذہ کو بتانا چاہتا ہوں، یہ پریکشا پر چرچا ہے۔ لیکن صرف پریکشا کی ہی گفتگو نہیں ہے، بہت کچھ بات ہوسکتی ہے۔ایک ہلکا پھلکا ماحول بنا ہے، ایک نئی خود اعتمادی پیدا کرنا ہے اور جیسے اپنے گھر میں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں، اپنوں کے درمیان بات کرتے ہیں، یار دوستوں کے ساتھ بات کرتے ہیں، آئیے ہم بھی ایسے ہی بات کریں گے آج۔

سوال نمبر۔1-A

ایم پلّوی، گورنمنٹ ہائی اسکول، پوڈیلی، پراکسم، آندھرا پردیش

نمسکار! محترم وزیراعظم،سر،(مودی جی: نمسکار! نمسکار!) میرا نام ایم پلّوی ہے، میں نویں کلاس میں پڑھ رہی ہوں۔ سر، ہم اکثر ایسا محسوس  کرتے ہیں کہ پڑھائی ٹھیک چل رہی ہوتی ہے۔لیکن جیسے ہی امتحانات نزدیک آتے ہیں، تو صورتحال بہت ہی کشیدہ ہوجاتی ہے۔ برائے مہربانی اس کے لئے کوئی تدبیر بتائیں سر، بہت شکریہ جناب۔

 شکریہ پلّوی، مجھے بتایا گیا ہے کہ اسی طرح کا اور بھی ایک سوال ہے۔

 سوال نمبر۔1-B

ارپن پانڈے۔ گلوبل انڈیا انٹر  نیشنل اسکول، ملائیشیا

بصد ادب  استقبال، محترم وزیراعظم صاحب، میرا نام ارپن پانڈے ہے۔ میں گلوبل انڈیا انٹر نیشنل اسکول ملائیشیا میں بارہویں کلاس کا طالبعلم ہوں۔ میں آپ سے اپنے مستقبل کی کامیابی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب کی توقع رکھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اس میں میری رہنمائی کریں گے۔ میرا سوال ہے امتحان کی تیاری کے دوران ہمارے دل میں آنے والے خوف اور تناؤ سے ہم کس طرح باہر آئیں؟ کیا ہوگا اگر اچھے نمبر اور اچھا کالج ملے گا یا نہیں؟شکریہ!

جواب:

پلّوی، ارپن، دیکھئے آپ جب یہ خوف کی، ڈر کی بات کرتے ہیں تو مجھے بھی ڈر لگ جاتا ہے اور ایسی کون سی بات ہے جس کے لئے ڈرنا چاہئے؟ کیا پہلی بار امتحان دینے جارہے ہو؟ کیا پہلے کبھی امتحان نہیں دیا؟ کیا آپ کو معلوم نہیں تھا  کہ مارچ کے مہینے میں اپریل کے مہینے میں امتحانات آتے ہیں۔

سب پتہ ہے! پہلے سے پتہ ہے، سال بھر پہلے سے پتہ ہے، اچانک تو نہیں آیا ہے اور جو اچانک بھی آیا ہے، کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑا ہے۔

اس کا مطلب ہوا  کہ آپ کو ڈر امتحان کا نہیں ہے۔ آپ کو ڈر کسی اورکا ہے اوروہ کیا ہے؟ آپ کے آس پاس ایک ماحول بنا دیا گیا ہے۔ کہ یہی امتحان سب کچھ ہے۔ یہی زندگی ہے اور اس کے لئے پورا سماجی ماحول کبھی کبھی اسکول کا ماحول بھی، کبھی کبھی ماں باپ بھی، کبھی اپنے رشتے دار بھی، ایک ایسا ماحول بنا دیتے ہیں، ایسی گفتگو کرتے ہیں جیسے کسی بہت بڑے حادثے سے آپ کو گزرنا ہے۔ بہت بڑی مصیبت سے گزرنا ہے۔ میں ان سب سے کہناچاہوں گا، خاص طور پر والدین سے کہناچاہوں گا، آپ نے کیا کرکے رکھ دیا ہے؟

 میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب سے بڑی غلطی ہے۔ ہم ضرورت سے زیادہ محتاط ہوجاتے ہیں۔ ہم زیادہ ہی سوچنے لگتے ہیں اور اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ زندگی میں یہ کوئی آخری مقام نہیں ہے۔ یہ  زندگی بہت لمبی ہے۔ بہت پڑاؤ آتے ہیں، ایک چھوٹا سا پڑاؤ ہے۔ ہمیں دباؤ نہیں بناناچاہئے، چاہے استاد ہو، طالب علم ہو، کنبہ کا فر ہو، یار دوست ہو، اگر باہر کا دباؤ کم ہوگیا، ختم ہوگیا، تو امتحان کا دباؤ کبھی محسوس نہیں ہوگا۔ اعتماد پھلے گا پھولے گا۔ پریشر ختم ہوجائے گا، کم ہوجائے گا اور بچوں کو گھر میں آسان اور تناؤ سے آزاد طریقے پر جینا چاہئے۔چھوٹی موٹی، ہلکی پھلکی باتیں جو روز کرتے تھے، کرنی چاہئے۔

دیکھئے دوستو! پہلے کیا ہوتا تھا، پہلے ماں باپ بچو ں کے ساتھ زیادہ مصروف رہتے اورخوش رہتے تھے اور کئی موضوعات پر انوالو رہتے تھے۔ آج  جو بھی انوالو رہتے ہیں وہ زیادہ تر کیئریر، امتحانات، پڑھائی، کتاب، نصاب میں۔ میں اس کو صرف انوالو مینٹ نہیں مانتا ہوں اور اس سے انہیں اپنے بچوں کی اصلی مہارت کا پتہ نہیں ہوتا ہے۔ اگر ماں باپ زیادہ انوالو ہے تو بچوں کی دلچسپی، فطرت،  اس سب کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور جو کمیاں ہے ان کمیوں کو سمجھ کرکے ان کی بھرپائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 اور اس کے سبب بچے کی اعتماد کی سطح بڑھتی ہے۔  اس کی مضبوطی ماں باپ کو پتہ ہے، اس کی کمزوریاں ماں باپ کو پتہ ہیں، اس کے سبب ماں باپ سمجھتے ہیں کہ  ایسے وقت میں خامیوں کو در کنار کرو اور اس کی مضبوطی کو جتنی تقویت دے سکتے ہو ، دو۔

لیکن آج کچھ ماں باپ اتنے مصروف ہیں، اتنے مشغول ہیں، کہ انہیں بچوں کے ساتھ اصل معنوں میں شریک ہونے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے ؟ آج بچے کی استعداد کا پتہ لگانے کے لئے والدین کو امتحانات کے نتیجے کی مارک شیٹ دیکھنا پڑتی ہے اور اس لئے بچوں کی صلاحیت کا تعین بھی بچوں کے نتیجوں تک ہی محدود ہوگیا ہے۔نمبروں کے پرے بھی بچے میں کئی  ایسی چیزیں ہوتی ہے جنہیں والدین مارک ہی نہیں کرپاتے۔

ساتھیو! ہمارے یہاں امتحان کے لئے ایک لفظ ہے ‘کسوٹی’  کامطلب، خود کو کسنا ہے۔ ایسا نہیں ہیں کہ  امتحان آخری موقع ہے۔ بلکہ امتحان تو ایک طرح سے ایک لمبی زندگی جینے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنے کا سب سے بہتر موقع ہے۔مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہمیں امتحان کو ہی جیسے زندگی کے خوابوں کی آخری حد مان لیتے ہیں۔زندگی اور موت کاسوال بنا دیتے ہیں۔ دراصل امتحان زندگی کو بنانے کا ایک موقع ہے۔اسے اسی انداز میں لیناچاہئے۔ حقیقت میں ہمیں اپنے آپ کو کسوٹی پر کسنے  کے موقع تلاش کرتے ہی رہناچاہئے۔تاکہ ہم اور بہتر کرسکیں۔ ہمیں بھاگنا نہیں چاہئے۔

آئیے دوستو، اگلے سوال کے طرف بڑھتے ہیں۔

 سوال نمبر-2-A

مس، پونیو سونیا۔ وویکا نندا کیندر ودیالیہ، پاپوپارے ،  اروناچل پردیش۔

 محترم وزیراعظم صاحب، نمسکار(مودی جی: نمسکار) میرا نام پونیو سونیا ہے۔ میں گیارہویں کلاس کی طالبہ ہوں، میرے اسکول کا نام وویکا نندا کیندریہ ودیالیہ ہے۔ ضلع پاپو پارے، ریاست ارونا چل پردیش ہے۔

محترم وزیراعظم صاحب، کچھ سبجیکٹس اور کچھ ابواب ہے، جن کو لے کر میں مطمئن نہیں ہوں اور ان سے پیچھا چھڑانے میں لگی رہتی ہوں۔ میں چاہے کتنی بھی کوشش کیوں نہ کروں، میں انہیں نہیں پڑھ پاتی ۔ شاید یہ اس لئے ہے، کیونکہ مجھے ان سے ڈر لگتا ہے۔سر، اس صورتحال کو کیسے دور کیاجاسکتا ہے؟شکریہ سر۔

چلئے، آندھرا سے ہم ملیشیا، ملیشیا سے اب ارونا چل پہنچ گئے۔مجھے بتایا گیا ہے کہ اسی طرح کا کوئی  اور ایک سوال بھی ہے۔

سوال۔2-B

مس انیتا گرگ، ایس آر ڈی اے وی، پبلک اسکول دیا نند وہار، دہلی۔

( مودی جی: نمسکار) معزز وزیراعظم نمسکار۔ میرا نام انیتا گرگ ہے اور میں ایس آر ڈی اے وی پبلک اسکول میں 25 برس سے کام کررہی ہوں، میرا سوال ہے؟ کچھ مضامین ایسے ہے۔ جن میں کئی طالب علموں کو خوف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس وجہ سے وہ ان سے بچتے ہیں۔  اس کے بارے میں تاریخ یا ریاضی جیسے مضامین کے اساتذہ اچھی طرح سے سمجھ سکتے ہیں۔ایک استاد کے طور پر اس صورتحال کو اور بہتر بنانے کے لئے ہم کیا کرسکتے ہیں؟

 جواب:

یہ کچھ الگ نوعیت کا ہی موضوع میرے سامنے آیا ہے۔ میں کوشش کروں گا کہ طلبہ کے دل کو چھو سکوں اور اساتذہ کی بات پر غور کے ساتھ کچھ علاج بتا سکوں۔ آپ دونوں نے کسی خاص مضمون یا باب سے خوف کی بات کہی ہے۔ آپ لوگ اگلے نہیں ہے۔ جن کو اس صورتحال کا سامنا کرناپڑتا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا میں ایک بھی انسان ایسا نہیں ملے گا کہ جس کے  اوپر یہ بات لاگو نہ ہوتی ہو،

فرض کیجئے، آپ کے پاس بہت ہی برھیا پانچ چھ شرٹ ہیں۔ لیکن آپ نے دیکھا ہوگا کہ  ایک یا دو شرٹ آپ کو اتنی پسند آتی ہوں گی۔ بار بار پہنتے ہیں،اس کامطلب یہ نہیں باقی بیکار ہیں، فٹنگ ٹھیک نہیں ہے، ایسا نہیں ہے، وہ دو اتنی اچھی لگتی ہے کہ آپ ان کو بار بار پہنتے ہیں ۔ کئی بار تو ماں باپ بھی ان باتو ں کو لے کر غصہ کرتے ہیں کہ کتنی بار اس کو پہنوگے؟ ابھی دو دن پہلے تو پہنی تھی۔

پسند نہ پسند انسان کا مجاز ہے اور کبھی کبھی پسند کے ساتھ لگاؤ بھی ہوجاتا ہے۔ اب اس میں ڈر کی، تذبذب کی کیا بات ہے کہ ہمیں ڈرناچاہئے۔

دراصل ہوتا کیا ہے، جب آپ کو کچھ چیزیں زیادہ اچھی لگنے لگتی ہیں، تو  ان کے ساتھ آپ بہت مطمئن ہوجاتے ہیں، بہت آرام دہ لگتا ہے وہ، پرسکون ہوجاتے ہیں، لیکن جن چیزوں کے ساتھ آپ مانوس نہیں ہوتے، ان کے تناؤ میں آپ کی 80 فیصد توانائی آپ اسی میں لگا دیتے ہیں۔ اسی لئے طالب علموں میں یہی کہوں گا کہ آپ کو  اپنی توانائی کو مساوی طور پر تقسیم کرناچاہئے، سبھی مضمونوں میں برابر برابر۔ آپ کے پاس پڑھائی کے لئے دو گھنٹے ہیں، تو ان گھنٹوں میں ہر مضمون کو ایک جیسے جذبے سے پڑھئے۔اپنے وقت کو برابری کے ساتھ تقسیم کیجئے۔

ساتھیو: آپ نے دیکھا ہوگا کہ  اساتذہ، والدین ہمیں سکھاتے ہیں کہ  جو آسان ہے وہ پہلے کریں۔ یہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اور امتحان میں تو خاص طور پر بار بار کہاجاتا ہے کہ جو آسان ہے اس کو پہلے کرو،بھائی۔ جب ٹائم بچے گا، تب وہ جو مشکل ہے اس کو ہاتھ لگانا۔لیکن پڑھائی کو لے کر میں سمجھتا ہوں یہ صلاح غیر ضروری ہے اور فائدہ مند بھی نہیں ہے۔ میں اس چیز کو ذرا الگ نظریہ سے دیکھتا ہوں۔

 میں کہتا ہوں کہ  جب پڑھائی کی بات ہو، تو جو مشکل ہو اس کو پہلے لیجئے۔ آپ کا جواب تازہ ہے، آپ خود ترو تازہ ہیں۔اس کو حل کرنے کی کوشش کیجئے۔ جب مشکل سوال کو حل کرنے کی کوشش کریں گے تو آسان تو اور بھی آسان ہوجائے گا۔

میں  اپنا تجربہ بتاتا ہوں۔ جب میں وزیراعلی تھا، جو جب وزیراعظم بنا، تو مجھے بھی بہت کچھ پڑھنا پڑتا ہے، بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے، بہتوں سے سیکھنا پڑتا ہے۔ چیزوں کو سمجھناپڑتا ہے۔ تو میں کیا کرتا تھا۔ جو مشکل باتیں ہوتی ہے۔ جن کے فیصلے تھوڑے سنجیدہ ہوتے ہیں۔ میں جب اپنی صبح شروع کرتا ہوں، تو مشکل چیزوں سے شروع کرتا ہوں، پسند کرتا ہوں۔مشکل سے مشکل چیزیں میرے افسر میرے سامنے لے کر آتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ وہ میرا  ایک  الگ موڈ ہوتا ہے۔ میں چیزوں کو بہت تیزی سے سمجھ لیتا ہوں، فیصلہ کرنے کی سمت میں آگے بڑھتا ہوں۔ میں نے اپنا ایک حصول بنایا ہے، کوشش کی ہے اور جو آسان چیزیں ہیں ،دن بھر کی تھکان کے بعد رات دیر ہوجاتی ہے۔ تو چلو بھائی اب ان میں زیادہ دماغ کھپانے کی ضرورت نہیں۔ وہ غلطی ہونے کا سبب نہیں ہے۔ ان چیزوں کو میں پھر دیر رات تک نمٹا لیتا ہوں، لیکن صبح جب اٹھتا ہوں، تو پھر مشکلات سے ہی مقابلہ کرنے کے لئے نکل پڑتا ہوں۔

دوستو ایک اور بات، ہمیں اپنے آپ سے سیکھناچاہئے۔ آپ دیکھئے ، جو لوگ زندگی میں بہت کامیاب ہے، وہ ہر مضمون میں ماہر نہیں ہوتے۔ لیکن  کسی ایک مضمون پر ان کی گرفت زبردست ہوتی ہے۔

اب جیسے لتا دیدی ہے۔ لتا منگیشر جی کا پوری دنیا میں نام ہے، ہندوستان کی ہر زبان پر نام ہے۔ لیکن کوئی جا کر کے ان کو کہہ دے کہ آج ہماری کلاس میں آیئے اور جغرافیہ پڑھائیے۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نہ بھی پڑھا پائیں، پڑھا بھی پائیں، میں نہیں جانتا ہوں کہ وہ پڑھا پائیں یا نہ پڑھا پائیں۔لیکن لتا جی کی مہارت جغرافیہ میں شاید نہ بھی ہو، لیکن سنگیت کی دنیا میں انہوں نے جو کیا ہوا ہے، ایک مضمون پر جس طرح اپنی زندگی کھپا دی ہے، آج وہ ہر ایک کے لئے ترغیب کا باعث بن گئیں ہیں اور اسی لئے آپ کو بھلے کچھ مضامین مشکل لگتے ہو، یہ کوئی آپ کے جیون میں کمی نہیں ہے۔ آپ بس یہ دھیان رکھئے کہ اس مشکل لگنے والے مضمون کی پڑھائی سے خود کو دور نہیں کیجئے۔ اس سے بھاگیئے مت۔

وہیں استادوں کے لئے میری صلاح یہ ہے کہ وہ طالب علموں سے ان کو ٹائم منیجمنٹ کے سلسلے میں اس کے طور طریقے کے بارے میں، ماورائے نصاب جا کر بھی کبھی ان سے بات کریں، ان سے گفتگو کریں، ان کو گائیڈ کریں۔ طالب علموں کو ٹوکنے کے بجائے ان کی رہنمائی کریں۔ روکنے ٹوکنے کا اثر دل پر  اور زیادہ منفی پڑتا ہے۔ ترغیب دلانے سے وہ یکجا طاقت کی شکل میں منتقل ہوجاتا ہے۔ کچھ باتیں کلاس میں عام طور پر ضرور کہیں، تاکہ سب کی رہنمائی ہو۔لیکن بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہے۔ جب کسی ایک بچے کو بلا کر کے چلتے چلتے تھوڑا سر پر ہاتھ رکھ کرکے بہت ہی پیار سے کہیں کہ دیکھو بیٹے، دیکھو بھیا، تم اتنا برھیا کرتے ہو، ذرا دیکھو اس کو، ذرا تھوڑا یہ کرلیجئے، دیکھئے تمہارے اندر بہت بڑی طاقت ہے۔ آپ دیکھئے،یہ بہت کام آئے گا،  بہت کام آئے گا۔

 ایک کام کیجئے گا۔ آپ  کی زندگی میں ایسی کونسی باتیں تھی جو کبھی آپ کو بہت مشکل لگتی تھیں اور آج آپ ان کو بڑی آسانی سے کرپا رہے ہیں۔ ایسے کچھ کاموں کی لسٹ بنائیے گا، جیسے سائیکل چلانا، کبھی آپ مشکل لگا ہوگا، لیکن اب وہی کام بہت آسانی سے کرلیتے ہوں گے۔ کبھی تیرنے کی بات آئی ہوگی، بہت ڈر لگا ہوگا، اترنے سے بھی ڈر لگا ہوگا لیکن آج آپ اچھی طرح سے تیرنا سیکھ گئے ہوں گے جو مشکل تھا اس کو آپ نے منتقل کردیا۔ آپ کی زندگی میں ایسی سینکڑوں چیزیں ہوں گی، اگرآپ یہ یاد کرکے ذرا کسی کاغذ پر لکھ لیں گے۔ تو کبھی آپ کو کسی کو بھی، مجھ سے بھی مشکل والا سوال پوچھنا ہی نہیں پڑے گا۔ کیونکہ کبھی کوئی چیز آپ کو کٹھن لگے ہی نہیں۔ مجھ پر بھروسہ کیجئے، دوستو، ایک بار کرکے دیکھئے۔

سوال۔3-

نیل اننت کے ایم۔ شری ابراہم کنگ ڈوم، وویکا  نندا کیندر ودیالیہ میٹرک ،کنیا کماری ، تمل ناڈو۔

محترم وزیراعظم صاحب۔ ونکّم(مودی جی، ونکّم ونکّم) میں شری ابراہم کنگ ڈوم، وویکا نندا، میٹرک، کنیا کماری میں چھٹی کلاس کی طالبہ ہوں۔

ڈیئر سر۔اس وبائی  امراض کے ماحول میں ہم آن لائن متبادل استعمال کرتے ہیں اور اس طرح عام حالات کے مقابلے زیادہ فری ٹائم ہمارے پاس ہوتا ہے۔ میں جاننا چاہوں گی کہ ہم ان فرصت کے لمحات کا کس طرح فائدہ اٹھائیں۔ مجھے یہ موقع فراہم کرنے کے لئے وزیراعظم کا شکریہ۔

 جواب:

ونکّما۔ ممی پاپا کو پتہ چلے گا نہ ، آپ امتحان کے وقت میں خالی وقت کی بات کررہے ہیں تو پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے۔ خیر مجھے یہ سوال بہت  اچھا لگا۔ کہ آپ امتحان کے  اوقات میں بھی فرصت کے وقت  پر دھیان دے رہے ہیں۔ خالی وقت پر گفتگو کررہے ہیں۔ دیکھئے دوستو، خالی وقت، اس کو خالی وقت مت سمجھئے،یہ خزانہ ہے خزانہ ، خالی وقت ایک خوش نصیبی ہے، خالی وقت ایک موقع ہے۔ آپ کے روزمرہ کی مصروفیات میں خالی وقت کے لمحات ہونے ہی چاہئے، ورنہ زندگی ایک روبوٹ جیسی ہوجاتی ہے۔

دراصل خالی اوقات دو طرح کے ہوسکتے ہیں۔

ایک جو آپ کو صبح سے ہی پتہ ہے کہ آپ آج تین سے چار بجے تک فری ہیں،یا آنے والے اتوار کو آپ آدھا دن فری ہیں، یا چار تاریخ کو فری چھٹی ہیں، دوپہر تک آپ کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ آپ کو پتہ ہے لیکن دوسرا وہ جس کا پتہ آپ کو آخری لمحے میں چلتا ہے۔ اگر آپ کو پہلے ہی سے پتہ ہے تو میرے پاس خالی وقت ہے تو آپ اپنے والدین یا اپنے بہن بھائی سے کہہ سکتے ہیں کہ میں آپ کی مدد کروں گا۔ آپ کو کیا کرنا ہے، آپ کیا کررہے ہیں، میں کیا مدد کرسکتا ہوں؟

 دوسرا آپ سوچیں کونسی ایسی چیز ہے جو آپ کو خوشی دیتی ہے۔

تھوڑا بھاری بھرکم لفظ ہے۔ سوانت سوکھائے، جس میں سے آپ کو سکھ ملتا ہے، آپ کو آنند ملتا ہے، آپ کے من کو بہلاتی ہے، آپ ایسا بھی کچھ کرسکتے ہیں، اب آپ نے مجھے پوچھا ہے، میں تو بھی سوچتا ہوں کہ میں کیا کرنا پسند کرتا ہوں۔ میں نے اپنی روزمرہ میں مشاہدہ کیا ہے کہ اگر مجھے  تھوڑا سا بھی خالی وقت مل جائے اور اگر جھولا ہے، تو میرا دل کرتا ہے کہ  کچھ لمحے میں جھولے میں ضرورت بیٹھوں، بہت تھکان ہے اور پانچ منٹ کا بھی وقت مل گیا، یا پھر کوئی کام بھی کررہا ہوں، تو اپنے خالی وقت میں جھولے پر بیٹھ کر، پتہ نہیں  کیاسبب ہے، لیکن میرا دل مطمئن ہوجاتا ہے۔

 اب آپ خالی وقت کا استعمال کرتے ہیں تو آپ کو اس کی سب سے زیادہ قیمت پتہ چلتی ہے۔ اس لئے آپ کی زندگی ایسی ہونی چاہئے۔ جب آپ خالی وقت کا استعمال کریں تو وہ آپ کو بے انتہا مسرت بخشے۔

یہاں یہ بھی گیان میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ خالی اوقات میں کن چیزوں سے بچنا چاہئے، نہیں تو وہی چیز ہمارا سارا وقت کھا جائے گی، پتہ بھی نہیں چلے گا اور آخر میں تازہ دم ہونے کے بجائے آپ تنگ آجائیں گے، تھکن محسوس کرنے لگیں گے۔

ایک طرف مجھے لگتا ہے کہ خالی اوقات میں ہمیں اپنے تجسس کو بڑھانے کی اور ایسی کونسی چیز یں کرسکتے ہیں جو شاید بہت خلاقانہ ہوجائیں گی۔ آپ کی ماں یا باپ اگر کھانا تیارکررہے ہیں، اسے غور سے دیکھیں، نئی نئی چیزوں کے اندر جانے کا ،کچھ نیا جاننے کا، اس کااثر سیدھا سیدھا دکھائی نہیں دیتا ہے، پر زندگی میں اس کا بہت بڑا اور گہرا اثر ہوتا ہے۔

 خالی وقت  کا ایک اور بہترین استعمال ہوسکتا ہے، کہ آپ خود کو کچھ ایسی سرگرمیوں سے جوڑ رہے ہیں جن میں آپ کو واضح کرپائیں، اپنے امتیاز کو باہر لاسکیں۔

جس میں آپ اپنی انفرادیت سے جڑ سکیں، ایسا کرنے کے بہت طریقے ہیں اور آپ بھی ایسے بہت سے طریقے جانتے ہیں،کھیل ہیں، موسیقی ہیں، لکھنا ہیں، پینٹنگ ہیں، افسانہ نویسی ہیں، آپ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔

اپنے خیالات کو، جذبات کو، بیان کرنے کا ایک خلاقانہ طریقہ  دیجئے، موقع دیجئے،معلومات کادائرہ کبھی کبھی وہیں تک محدود ہوتا ہے۔ جو آپ کو دستیاب ہے، جو آپ کےآس پاس ہے لیکن خلاقیت کا دائرہ معلومات سے بھی بہت دور تک آپ کو لے جاتا ہے۔ بہت وسعت کے آسمان پر لے جاتا ہے۔ خلاقیت آپ کو اس علاقے میں  لے جاسکتی ہے جہاں پہلے کبھی نہ پہنچا ہو، جو نیا ہو۔ ہمارے یہاں کہا جاتا ہے جہاں نہ پہنچے روی، وہاں پہنچے کوی۔یہ خلاقیت کی ہی تو بات ہے۔

 سوال نمبر 4- A

 آشیئے کے کاتپورے- بنگلورو ،کرناٹک۔

نمستے  ۔ محترم وزیراعظم میں آشیئے کے کاتپورے بنگلورو سے۔ میرا سوال آپ سے یہ ہے کہ بچوں کو اچھی اقدار سکھانے کا سب سے اچھا طریقہ کیا ہے؟ دھنیواد۔

 مجھے ایک سوال جو ملا ہے، وہ نمو ایپ پر ملا ہے، اس کاوژول میرا پاس نہیں ، لیکن مجھے تو سوال اچھا لگا، اس لئے مجھے لگتا ہے کہ  میں ضرور آپ سے شیئر کروں۔ پٹنہ سے سوال ہے، پروین کمار نے پوچھا ہے۔

 سوال -4-B

 پروین کمار ،پٹنہ، بہار۔

سر، آج ماں باپ کے لئے بچوں کو بڑا کرنا تھوڑا مشکل ہوگیا ہے، سبب ہے آج کا زمانہ اور آج کے بچے۔ ایسے میں ہم کیسے یہ طے کریں کہ ہمارے بچوں کا برتاؤ ، عادتیں اور کردار اچھا ہو؟

 جواب:

پروین کمار،ایک بیداری رکھنے والے باپ کے روپ میں شاید مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں۔ بڑا مشکل سوال ہے میرے لئے۔ میں کہوں گا کہ پہلے تو آپ خود غوروخوض کریں، اپنا محاسبہ کریں۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ زندگی جینے کا تو طریقہ آپ نے چنا ہے، آپ چاہتے ہیں کہ ویسی ہی زندگی آپ کے بچے بھی جئیں۔ تھوڑا سا بھی ان میں بدلاؤ آتا ہے تو آپ کو لگتا ہے  کہ سب کچھ ختم ہورہا ہے، قدروں کا خاتمہ ہورہا ہے۔ مجھے برابر یاد ہے، میں ایک بار اسٹارٹ اپ سے جڑے نوجوانوں سے  ملاقات کی، تو بنگال کی  ایک بیٹی جس نے اسٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔  اپنا پہلا کیئریر چھوڑ کر، اس نے اپنا تجربہ بتایا۔ وہ مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ اس بیٹی نے کہا کہ میں نے اپنی نوکری چھوڑ دی، کریئر چھوڑ دی اور اسٹارٹ اپ شروع کیا اور میری ماں کو جب پتہ چلا تو میری ماں نے فوراً کہا ’سروناش! یعنی ماں کو اتنا جھٹکا لگا، لیکن بعد میں وہ بیٹی اسٹارٹ اپ میں بہت کامیاب رہی تھی۔

آپ کو سوچنا چاہیے کہ آپ اپنے مستقبل میں، اپنے بچے کو جکڑنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہیں؟ اور ا سلیے، آپ کی فیملی، آپ کی روایات، ا سمیں بنیادی قدروں کو کیسے زور دیں، ہمیں آئڈینٹیفائی کرنا چاہیے۔

جیسے ہمارے یہاں کہا جاتا ہے، عوام کی خدمت ہی بھگوان کی خدمت ہے۔ یہ ہماری مذہبی کتابوں میں قدر کی شکل میں ہے۔ لیکن آپ کے گھر میں پوجا پاٹھ تو بہت ہوتی ہے، دنیا کو دکھتا ہے کہ آپ بہت زیادہ مذہبی ہیں۔ ریچولس سے بھری زندگی ہے۔ لیکن آپ عوام کی خدمت میں کہیں نظر نہیں آتے ہیں۔ جب جب آپ کی اولاد یہ تضاد دیکھتی ہے تو اس کے من میں کانفلکٹ شروع ہو جاتا ہے۔ سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور سوال اٹھنا فطری ہے۔

اسی طرح سے، ہماری قدریں ہیں کہ زندگی محض سے پرماتما کا واس ہے۔ اسی طرح سے ہم سب کا عقیدہ ہے اور ہمیں یہ سکھایا گیا ہے کہ ہماری زندگی قدر کے طور پر قائم ہو چکی ہے۔ اور ہماری سوچ ہے کہ جاندار میں پرماتما کی رہائش ہے۔ لیکن آپ، آپ کے گھر میں جو کام کرنے آتے ہیں، جھاڑو پونچھا لگانے آتے ہیں، لفٹ چلانے والا ہوتا ہے، آپ کو اسکول میں چھوڑنے والا آٹو رکشہ ڈرائیور ہے، کیا کبھی آپ نے ان سے ان کے سکھ دکھ کی فکر اور چرچہ کی ہے؟ کیا کبھی آپ نے پوچھا کہ آپ کی فیملی میں تو کسی کو کورونا نہیں ہوا ہے نا؟ آپ کی فیملی کے تو سب ٹھیک ہیں نا؟ آپ جس گاؤں سے آئے ہو، اس گاؤں میں تو سب ٹھیک ہیں نا؟ کیا آپ نے کبھی پوچھا ہے؟ اگر آپ ایسا کرتے، تو آپ کو اپنے بچے کو قدر نہیں سکھانی پڑتی۔

میں آپ پر سوال نہیں کھڑے کر رہا ، ایک عام برتاؤ کی بات کر رہا ہوں۔ کچھ لوگ واقعی ایسا نہیں کرتے۔ بچے کا برتھ ڈے ہوتا ہے، بہت ساری تیاریاں ہوتی ہیں۔ کتنے لوگ اپنے گھر میں کام کرنے والوں سے کہتے ہیں کہ جو بھی کام کرنا ہے پانچ بجے تک پورا کر دو، 6 بجے سے جب مہمان آنا شروع ہو جائیں گے تب تم بھی ہماری فیملی کے مہمان کے طور پر کپڑے پہن کر، اچھے کپڑے پہن کر، فیملی کے سبھی لوگوں کو لیکر کے آ جانا۔ آپ دیکھئے، آپ ان سے کیا کہتے ہیں؟ دیکھو کل بہت مہمان آنے والے ہیں، بہت کام ہے، تم گھر بتا کے آ جانا، دیر سے آؤں گا، دیر سے آؤں گی، یعنی آپ کا بچہ یہ دیکھ رہا ہے کہ اتنا بڑا جشن ہے گھر میں، لیکن وہ جو میرے لیے محنت کرتے ہیں دن رات وہ تو اس میں حصہ دار ہی نہیں ہیں۔ اور تبھی اس بچے کے من میں ٹکراؤ شروع ہوتا ہے۔

میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں۔ ہم کہتے ہیں بیٹا بیٹی ایک برابر۔ یہ قدریں ہیں ہماری، ہمارے یہاں دیوتا کی شکل کا جو تصور کیا گیا ہے اس میں خاتون بھگوان کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے۔ لیکن ہمارے گھر کے ماحول میں، بیٹے اور بیٹی کے درمیان جانے انجانے میں جو ٹریٹمنٹ کیا جاتا ہے، اس میں غیر برابری ہوتی ہے۔ اس کے بعد جب وہی بیٹا سماجی زندگی میں جاتا ہے، تو اس کے ذریعہ خواتین کی برابری میں کچھ نہ کچھ کمی کا امکان بن ہی جاتا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ فیملی کی قدریں اچھی ہوتی ہیں تو برائیاں حاوی نہیں ہوتی ہیں، لیکن 20-19 کا ہی فرق ہوتا ہے، بیٹا، بیٹی کے برتاؤ میں کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ اس لیے ہم نے جو اپنا ماحول بنایا ہوا ہے، وہ جب برتاؤ کی کسوٹی پر کھرا نہیں اترتا ہے تب بچوں کے من میں تضاد شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے قدروں کو کبھی بھی تھوپنے کی کوشش نہ کریں۔ قدروں کو جی کر زندہ کرنے کی کوشش کریں۔

آخرکار، بچے بڑے اسمارٹ ہوتے ہیں، جو آپ کہیں گے، اسے وہ کریں گے یا نہیں کریں گے۔ یہ کہنا مشکل ہے۔ لیکن اس بات کا پورا امکان ہوتا ہے کہ جو آپ کر رہے ہیں، وہ اسے بہت باریکی سے دیکھتا ہے اور دوہرانے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اور جب آپ ان قدروں کے ساتھ، ہماری تاریخ، ہمارے پران، ہمارے آباء و اجداد کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو آسانی سے جوڑیں گے، تو بچے بھی متاثر ہوں گے۔ اخلاق و برتاؤ میں اتارنا آسان ہو جائے گا۔

سوال: 5۔ پرتبھا گپتا، لدھیانہ، پنجاب

نمسکار سر، میں پرتبھا گپتا، کندن دویہ مندر لدھیانہ سے، سر میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ کام کروانے کے لیے بچوں کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے۔ ہم کیسے انہیں سیلف موٹی ویٹڈ بنا سکتے ہیں، تاکہ وہ اپنی چیزیں خود کریں؟ شکریہ۔

آپ برا نہ مانیں تو میں اس معاملے میں آپ سے ذرا رائے رکھتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بچوں  کے پیچھے اس لئے بھاگنا پڑتا ہے  چونکہ ان کی رفتار ہم سے زیادہ ہے۔

یہ بات درست ہے کہ بچوں کو سکھانے کی، بتانے کی، تہذیب دینے کی ذمہ داری، خاندان میں سب کی ہے، لیکن کئی بار بڑے ہونے کے باوجود ہمیں بھی تو ذرا قدروں قیمت کا اندازہ کرناچاہئے۔ ہم ایک سانچہ تیار کرلیتے ہے اور بچے کو اس میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور مسئلہ یہی سے شروع ہوتا ہے۔ ہم اسے سماجی حیثیت کا سمبل بنا دیتے ہیں۔ اکثر ماں باپ اپنے دماغ میں کچھ ہدف مقرر کرلیتے ہیں،کچھ پیمانے بنا لیتے ہیں اور کچھ خواب بھی سجا لیتے ہیں۔ پھر اپنے ان خوابوں  اور اہداف کو پورا کرنے کا بوجھ بچوں پر ڈال دیتے ہیں۔ ہم اپنے مقاصد کے لئے بچوں کو جانے انجانے میں، معاف کرنا مجھے میرا شبد ، کہیں سخت لگے گا، جانے انجانے میں ہم بچوں کو ایک اوزار ماننے لگتے ہیں اور جب بچوں کو اس سمت میں کھینچنے ناکام ہوجاتے ہیں تو یہ کہنے لگتے ہیں  کہ بچوں میں ترغیب اور تحریک کی کمی ہے۔

کسی کو بھی ترغیب دینے کا پہلا حصہ ہے تربیت، مناسب تربیت۔ ایک بار بچے کا دل تربیت یافتہ ہوجائے گا تو اس کے بعدتشویق کا مرحلہ شروع ہوگا۔ ٹریننگ کے کئی میڈیم ، کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔

اچھی کتاب، اچھی فلمیں، اچھی کہانیاں، اچھی نظمیں، اچھے محاورے یا اچھے تجربات، یہ سب ایک طرح سے تربیت کے ہی آلات ہیں۔ جیسے کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا بچہ صبح اٹھ کر پڑھے، آپ اسے کہتے ہیں، بولتے بھی ہیں، ڈانتے بھی ہیں، لیکن آپ کو کامیابی نہیں ملتی۔ لیکن کیا آپ کے گھر میں کبھی ایسی کتابوں پر گفتگو ہوتی ہے۔ جن میں بالواسطہ صبح اٹھنے کے فائدوں کا ذکر ہو؟ ہمارے یہاں زیادہ تر زندگی کے لوگ برہم مہورت سے ہی ان کا دن شروع ہوتا ہے اور اسی کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔

 تو دوسری طرف آج کل 5 بجے کلب کا بھی ذکر ہوتا ہے۔ کیا آپ نے کسی ایسی کتاب کا گھر میں ذکر کیا ہے، یا کوئی  ایسی فلم یا ڈاکیو مینٹری دیکھی ہے۔ جس میں اس بارے میں سائنسی طریقے سے مدلل انداز میں جذبات کے ساتھ باتیں بتائی گئی ہوں؟ یہ ایک بار کرکے دیکھئے، صبح  اٹھنے کے لئے بچے کی تربیت خود ہی ہوجائے گی۔  ایک بار  من کی تربیت ہوگئی، من میں بچہ سمجھ گیا کہ صبح اٹھنے کا کیا فائدہ ہے، تو پھر اسے خود شوق پیدا ہونے لگے گا، یہی تو ماحول سازی ہوتی ہے، جس کی گھر میں سب سے زیادہ ضرورت ہے۔

 آپ بچے کے بچپن کا وہ وقت یاد کیجئے، جب آپ اس کو گود میں لیتے تھے۔ فرض کیجئے، آپ کی جیب میں پین ہے یا آپ نے چشمہ پہنا ہے۔ بچہ اس کو کھینچتا ہے،چشمہ اتارتا ہے، تو آپ کیا کرتے تھے۔ آپ بچے سے اگر چشمہ واپس لینے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ روتا ہے، پین واپس کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ روتا ہے، تو سمجھ دار ماں باپ کیا کرتے ہیں، ایک بڑی گیند اس کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ بچہ کیا کرتا ہے، چشمہ چھوڑ دیتا ہے، بڑی بال کھیلنے کے لئے لے لیتا ہے۔

تشویق کا جو منتر بچوں کے لئے ہے ایک طرح سے وہ  ہم سب کے لئے بھی ہے، تمام انسانوں کے لئے ہے۔

سوال نمبر۔6اے

 تانیے، غیر ملکی طالب علم، سامیہ انڈین ماڈل اسکول، کویت۔

نمستے، محترم وزیراعظم صاحب، میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے آپ کو زندگی جنگ لڑنے کے لئے کیسے تیار کریں؟

سوال 6 –بی

اشرف خان ، مسوری، اترا کھنڈ۔

نمو ایپ پر، مسوری اترا کھنڈ، جناب اشرف خان نے لکھا ہے ،

 میرا سوال یہ ہے کہ کیا آج اپنے آپ کو کل کے چیلنجوں کے لئے کیسے تیار کریں۔

 جواب:

تانیے،  تمہاری آواز گوڈ گفٹڈ ہے۔ کیا کبھی تمہارے ماں باپ، دوستو اور اساتدوں نے اس کی طرف تمہیں دھیان دلایا ہے، کبھی اس پر دھیان دیجئے یہ آپ کی بہت بڑی وارثت بن سکتی ہے۔ خیر میں  آپ کے سوال پر آتا ہوں، تم اپنے دوستوں اور گھر کے افراد کے جن باتوں کا ذکر کررہے ہو، ان میں سے زیادہ تر  کو ایک کان سے سنو اور دوسرے سے نکال دو۔

تمہارا یہ سوال فطری ہے کہ دسویں اور بارہویں کلاس کے بعد کیا؟ زندگی کی سچائی یہ ہے کہ جتنے لوگ ہوتے ہیں، اتنے ہی مواقع بھی موجود ہوتے ہیں، ہمیں اپنی جستجو کادائرہ وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔

  خواب دیکھنا اچھی بات ہے۔ لیکن خوابوں کو لے کر بیٹھے رہنا اور خوابوں کے لئے سوتے رہنا صحیح نہیں ہے، خوابوں سے آگے بڑھ کر اپنے خوابوں کو پانے کا عزم یہ بہت اہم ہے۔ آپ کو سوچنا چاہئے کہ آپ کا وہ کونسا ایک خواب ہے جسے آپ اپنی زندگی کا مقصد بنانا چاہتے ہیں۔ جیسے ہی آپ یہ عزم کرلیں گے۔ آپ کو آگے کا راستہ اتنا ہی صاف دکھائی دینے لگے گا۔

سوال:7-اے  ،امرتاجین، مرادآباد، اترپردیش

عزت مآب وزیراعظم صاحب، پرنام، معاف کریئے گا ، میرا سوال امتحان پر مبنی نہیں ہے۔ توبراہ کرم اس پر ہنسئے گا نہیں، آج کل کے بچے پراپر طریقے سے کھانا نہیں کھانا چاہتے۔ سارا ٹائم چپس، چاکلیٹ اور جنک میں ان کا دھیان رہتا ہے۔ آپ براہ کرم ہمیں یہ بتائیے کہ ہمیں اس کے بارے میں کیا کرنا چاہئے؟

سوال:7۔ بی، سنیتا پال، رائے پور، چھتیس گڑھ

اسی قسم کے کچھ اور سوال بھی میرے ساتھ ہیں اور یہ نریندر مودی ایپ پر چھتیس گڑھ رائے پور سے سنیتا پال جی نے لکھا ہے، سر! ہمارے بچوں کو ہم جو ٹفن میں دیتے ہیں وہ اس چیز کوکھاتے نہیں اورہمیشہ فاسٹ فوڈ کھانے کی ضد کرتے ہیں، براہ کرم اس مدعے پر ہماری رہنمائی کریں۔

جواب:

میں سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ میں یہ سارے سوال سن کر مسکراؤں یا زور سے ہنس پڑوں، اگر اس مدعے پر ہم نفسیاتی طریقے سے آگے بڑھیں تو شاید اس کاحل آسان ہوجائے گا۔

 ہماری جو روایتی کھانے کی چیزیں ، نفسیاتی طور سے اس کے تئیں  ہم  فخر کاجذبہ پیدا کریں۔ اس کی جو خاصیت ہے، اس کی بات کریں۔ کھانا پکانے کا ہمارا جو طریقہ ہے، کچن کی جو سرگرمیاں ہیں، وہ گھر کے باقی ممبران کو  پتہ ہونا چاہئے کہ کتنی محنت کرنے کے بعد کھانا پکتا ہے۔ بچوں کے سامنے بھی یہ ساری باتیں چرچہ میں لانی چاہئیں۔ کیسے کھانا پکتا ہے، کتنی دیر لگتی ہے، اس میں کتنے سامان ہوتے ہیں۔ انہیں محسوس ہوگا کہ آخر کتنی محنت کا کام ہوتا ہے اور تب جاکر کے میری تھالی بھرتی ہے۔

دوسرا، آج کے زمانے میں کھانے پینے کی بہت ساری ویب سائٹس ہیں ۔صحت مند غذاکی بھی کوئی کمی نہیں ہے، کیا ہم ان سے بھی معلومات حاصل کرکے ایسی چیزوں کو لے کر کوئی گیم ڈیولپ کرسکتے ہیں، جو ہم ہفتہ میں ایک بار کھیل سکیں۔  جیسے گاجر ہے، کیرٹ اس کی اہمیت پر ہم بولیں۔ اس کے کیا فائدے ہوتے ہیں ، کیا غذائی عناصر ہوتے ہیں ؟ ایسا کرکے دیکھیں۔

 دوسرا ہم سب کے گھر میں جو فیملی ڈاکٹر ہے، وہ ڈاکٹر ایک طرح سے دوست ہوتے ہیں۔ جب کبھی ان کا گھرآنا ہو تو ان کی باتیں پوری فیملی سنے کہ کس قسم کے کھانے کی کیا اہمیت ہے۔ غذائی عناصر کہاں سے ملتے ہیں، کیا کھانا چاہئے۔ وہ بتاسکتے ہیں کہ آپ کے گھر میں کیا پریشانیاں موروثی ہیں، اوران سے بچنے کے لئے کیا کھانا ضروری ہے۔ اس سے بھی بچوں کو فائدہ ہوگا۔

تیسرا آپ ٹیچر سے درخواست کرسکتے ہیں کہ آپ بچوں میں یہ کیا آپ کو تکلیف ہورہی   ہے۔ خاص کر کھانے کے بارے میں ٹیچر کوسمجھائیے ، ٹیچر کو بھروسہ میں لیجئے۔ آ پ دیکھئے، ٹیچر بڑی مہارت سے  کہانی سناتے سناتے، بات کرتے کرتے ہنسی مذاق میں  اس کے دماغ میں بھر دے گا کہ یہ کیوں کرنا چاہئے۔ اور ٹیچر کے کہنے کا بچوں پر الگ ہی اثر ہوتا ہے۔ ہمیں بھی کچھ کچھ نیا تجربہ کرتے رہنا چاہئے۔  میں نے کافی ایسی مثالیں دیکھی ہیں جہاں  فیملی میں  روایتی کھانا ہی بچوں کو  ماڈرن طریقہ سے بناکر دیا جاتا ہے۔ تو اس سے بچوں میں بھی اس کو لے کر ایک فطری مرغوبیت پیدا ہوتی ہے۔ خیر یہ میرے نصاب کے بحث کا موضوع ہے لیکن ہوسکتا ہے شاید میری کچھ باتیں کام آجائیں آپ کو ۔

سوال: دویانکانمسکار، دویانکا کیا پڑھتی ہو؟

جی سر میں کامرس کی طالبہ ہوں۔

اورپشکر کی ہی رہنے والی ہو؟

جی سر

تو پشکر کی کوئی مقدس چیز کامجھے بیان کرو گی، جو مجھے سننے کے لئے  بتاؤگی کچھ ، کیا ہے پشکر کی خاصیت۔

جی، پشکرمیں واحد برہما مندر ہے۔

 ہاں...

اور جو پشکر راج ہے وہ 68 تیرتھوں کا گرو ہے

اچھا برہما کاکیارول رہا ہے

جی انہوں نے کرہ ارض کی تخلیق کی ہے

اچھا، اچھا بتائیے، دویانکا کیا سوال تھا آپ کے من میں ۔

سوال:8، دویانکاپراشر، مکھیا کالونی، پریکرمامارگ، بڑی بستی، پشکر۔

سر، میرے کچھ دوست ایسے ہیں جن کی میموری اوسط ہے، وہ کسی بھی مضمون کو کتنا بھی پڑھ لیں وہ امتحان میں اس کو یاد نہیں رکھ پاتے ہیں۔ سر وہ ایسا کیا کریں کہ وہ اس موضوع کو یاد رکھ سکیں؟

جواب:8

 اچھا تو آپ کو میموری کی جڑی بوٹی چاہئے

 جی سر....

دیکھئےدویانکا، (جی سر) سچ مچ اگر آپ کو بھول جانے کی عادت ہے تو میں کہتا ہوں کہ آپ مجھے پوچھتی ہی نہیں۔ کیوں کہ آپ سوال بھی بھول جاتی ہیں، آپ سب سے پہلے اپنی ڈکشنری سے اس لفظ کو ڈلیٹ کردیجئے، آپ سوچئے ہی نہیں کہ آپ کے پاس یاد کرنے کی طاقت نہیں ہے۔ اگر آپ خود سے جڑے کچھ واقعات کودیکھیں تو آ پ کو پتہ چلے گا کہ اصل میں  آپ کو بہت ساری چیزیں یاد رہتی ہیں۔

 جیسے آپ کی مادری زبان۔کیا مادری زبان آپ کو کسی نے بہت گرامر کے ساتھ پڑھایا تھا کیا؟ سکھایایا تھا کیا؟

نہیں ، نہیں... نہیں سر

کیا اسکول میں آپ نے سیکھایا کتاب میں – کہیں، جی نہیں، ہاں یہ سب سن کر کے سیکھ لیا۔ یہی وہ چیز ہے ، ذرا سوچیئے کہ آپ کو جو پسند ہے کیا ان چیزوں کویاد رکھنے کے لئے آپ نے کبھی کوشش کی تھی؟ وہ باتیں جن سے آپ پوری طرح جڑ گئے ہیں ، مگن ہوگئے ہیں، وہ باتیں جو آپ کاحصہ بن گئی ہیں ، آپ کی ذہنی سمجھ بوجھ کا حصہ بن گئی ہے۔ انہیں آپ کبھی نہیں بھولتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں کہوں تو یہ میمورائزڈ نہیں ہے، درحقیقت یہ انٹرنلائزڈ ہے۔

اورانٹرنلائزڈکرنا، یہی اس کاایک اچھا راستہ ہے اوراس لئے آپ کو یاد کرنے پر زور دینے کے بجائے ، آپ کواسے جینے کی کوشش کرنی چاہئے، سہولت، آسانی، جامعیت کے ساتھ ۔آپ کے پاس بھی وہی ساری طاقتیں ہیں، جو کسی بہت ٹیلنٹیڈ آدمی کے پاس ہوتی ہیں۔ سوچیئے اپنے بھائی یا بہن کے ساتھ اگرآپ کاجھگڑا ہوا تو وہ آپ کو ایک دم یاد رہتا ہے۔ آپ اسے بھولتے نہیں ہیں۔ یہاں تک کہ آپ کو  یہ بھی یاد رہتا ہوگا کہ اس وقت آپ نے ،آپ کے بھائی بہن نے کونسے کپڑے پہنے تھے۔ آپ کھڑےکھڑے لڑ رہے تھے کہ دوڑتے ہوئے لڑرہے تھے۔ سب یاد ہوگا، ایک ایک جملہ یاد ہوگا۔

جی سر...

یعنی اس کاایک مطلب یہ ہے کہ آپ اس میں پوری طرح مشغول تھے، آپ اس لمحہ کو پوری طرح سے جی رہے تھے۔ صاف ہے کہ چیزیں یاد رہیں، پراپرلی ریکال کرسکیں، اس کے لئے آپ جس لمحہ میں ہیں اس لمحہ میں ہی رہنا اوراس میں پوری طرح سے مشغول رہنا بہت ضروری ہے۔ یعنی ہم پڑھائی کررہے ہیں ، کتاب ہاتھ میں ہے اورمن ہے کھیل کے میدان میں ، سہیلیوں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، پھر تو معاملہ گڑبڑہوجاتا ہے۔

آگے جاکر آپ میں سے کوئی طالب علم اگر سائکلوجی پڑھے گا تو اس میں میموری بائی ایسوسی ایشن کا کونسیپٹ تفصیل سے سمجھایا جائے گا۔ آپ یاد کیجئے کہ اسکولوں میں صبح اسمبلی میں راشٹرگان(قومی ترانہ ) ہوتا ہے۔ اب جن گن من ہر کوئی گاتا ہے لیکن کیا کبھی آپ نے جن گن من گاتے وقت آپ نے  اس قومی ترانہ کے ساتھ ملک میں سفر کیا کیا؟ آپ اس کے ساتھ  جو لفظ آتے ہیں ان لفظوں کے ساتھ اپنے آپ کو  ویزوولائز کرپائے کہ نہیں کرپائے۔ پنجاب کو ، گجرات کو، مہاراشٹر کو، بنگال کو من ہی من قومی ترانہ گاتے وقت سفر کیا گیا؟ آپ کو ایک دم سے یاد ہونا شروع ہوجائے گا۔

من ہی من ویزولائز کریں گے تو آپ کو اچھے سے یاد رہ جائے گا۔ اس کا تو ایک فائدہ اور ہوگا، آپ اس ملک کے ساتھ بھی ایکاکار ہوتے چلے جائیں گے۔ یعنی مشغولیت، انٹرنلائز، ایسوسی ایٹ اور ویزولائز۔ میموری کو شارپ کرنے کے لیے اس فارمولہ پر آپ چل سکتے ہیں۔

میں آپ کو ایک اور مثال دیتا ہوں، آپ کے پاس نوٹ بکس ہوتی ہیں، الگ الگ موضوعات کی کتابیں ہوتی ہیں۔ آپ جب بھی گھر سے نکلیں، تو طے کرکے نکلیں کہ بیگ میں اتنے نمبر پر اس موضوع کی نوٹ بک ہوگی اور اتنے نمبر پر اس موضوع کی کتاب ہوگی۔ چوتھے نمبر پر ہو سکتی ہے تیسرے نمبر پر ہو سکتی ہے، اور آپ نے اگر تین نمبر پر ہسٹری کی کتاب رکھی ہے، پانچ نمبر پر جغرافیہ کی کتاب رکھی ہے، تو جب بھی آپ ہسٹری کی کتاب نکالنے جائیں، تو بالکل آنکھ بند کرکے تین نمبر کی کتاب نکالتے ہیں۔

دیکھئے گا، آپ کانفیڈنس لیول کتنا بڑھ جائے گا۔

چلئے مجھے اچھا لگا، آپ سے بات کرنے کا موقع ملا اور میں راجستھان کے لوگوں کو بھی اور پشکر کی مقدس سرزمین کو بھی آج یہاں سے نمن کرتا ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔

شکریہ۔

سوال: 9، سُہان سہگل، اہلکون انٹرنیشنل، میور وہار، دہلی

نمستے جی،

نمسکار سر،

ہاں، بتائے

میرا سوال یہ ہے کہ جب ہم کسی سوال کا جواب یاد کرتے ہیں، تو وہ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہو جاتا ہے۔ لیکن جب ہم اسکول میں لکھنا شروع کرتے ہیں، تو سوالنامہ کو دیکھ کر ہی ہم اچانک سے سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ سر براہ کرم یہ بتائیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

آپ کا نام کیا  ہے؟

سُہان سہگل

اچھا سہگل جی آپ پڑھتے کہاں ہیں؟

اہلکون انٹرنیشنل اسکول

اچھا، یہ سوال پہلے کسی کو پوچھا ہے؟

نہیں سر...

نہیں پوچھا؟

ممی پاپا کو پوچھا؟

نہیں سر...

ٹیچر کو پوچھا؟

نہیں سر....

لو بڑے کمال کے ہو یار، میں ہی ملا کیا تمہیں؟

جواب:

لیکن آپ کا سوال میں سمجھتا ہوں، زیادہ تر طلبہ کے من میں رہتا ہے، جب میں بھی تمہاری طرح پڑھتا تھا نہ تو یہ بات تو من میں رہتی تھی کہ یار پتہ نہیں کیوں یاد نہیں آ رہا ہے؟

دیکھئے امتحان ہال میں جاتے وقت آپ کو اپنے من کو بالکل مطمئن کرکے جانا چاہیے۔

میں ابھی ٹی وی اسکرین پر آپ کو دیکھ رہا ہوں، اتنا مطمئن آپ کا چہرہ ہے۔ اتنے اعتماد کے ساتھ آپ بیٹھے ہیں، مسکراتے بھی ہیں یہ، یہ جو حالت ہے نا، امتحان میں جائیں نا تبھی بھی ایسا ہی رہئے، آپ کو کبھی نہیں بھولیں گے۔

آپ کا من بے چین رہے گا، فکرمند رہے گا، آپ گھبرائے ہوئے رہیں گے تو اس بات کا امکان بہت زیادہ ہوگا کہ جیسے ہی آپ سوالنامہ دیکھیں گے، کچھ دیر کے لیے سب کچھ بھول جائیں گے۔ اس کا سب سے اچھا طریقہ یہی ہے کہ آپ کو اپنی ساری ٹینشن امتحان ہال کے باہر چھوڑ کر جانا چاہیے۔ اور آپ کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جتنی تیاری آپ کو کرنی تھی، آپ نے کر لی ہے۔ اب آپ کا فوکس سوالات کے اچھے سے جواب دینے میں ہونا چاہیے۔ آپ اس بات سے بھی نہیں گھبرائیں کہ کچھ نیا آ گیا تو کیا ہوگا، کچھ ایسا آ گیا جو آپ نے پڑھا ہی نہیں تو کیا ہوگا؟

اور میں سبھی کو کہوں گا، امتحان کے تناؤ کو کم کرنے کے لیے، بنا ٹینشن لیے، امتحان دینے کے لیے، بہت ساری سرگرمیاں، بہت سارے طریقے آپ کو ایگزام وریئر بک میں دیئے گئے ہیں۔ اور ابھی بھی ایگزام وریئر بک کو ایک میں نے نیا ایڈیشن، مجھے کورونا میں تھورا وقت مل گیا تو میں نے ان کو تھوڑا امپروومنٹ بھی کیا ہے کچھ ایڈیشن بھی کیا ہے۔ اس بار اس میں بچوں کے لئے ہی  منتر نہیں ہے، بلکہ میں نے والدین کے لئے بھی کافی کچھ لکھا ہے، کئی ساری ایکٹیوٹیز نموایپ پر بھی دی ہوئی ہیں۔ آپ اس میں پارٹیسپیٹ کرکے، اپنے دوستوں کے ساتھ شیئر بھی کرسکتے ہیں، اور مجھے یقین ہے، تھوڑی سی کوشش کیجئے، من میں سے یہ نکل جائے گا اور آپ کو پکا یاد ہوجائے گا ۔ اور آپ کے ساتھیوں، اور میں یہ آپ سے چاہوں گا کہ آپ کو جب بھی فائدہ ہوتو مجھے لکھ کر دیجئے۔ ایگزام وریئر پڑھ کر مجھے خط لکھئے ، لکھوگے نا؟

 جی سر

واہ... شاباش...

 تھینک یو سر،شکریہ

سوال: 10،دھروی بوپٹ، گلوبل مشن انٹرنیشنل اسکول، احمدآباد

نمستے جی،

میرا نام دھروی بوپٹ ہے، میں گجرات، احمدآباد کے گلوبل مشن انٹرنیشل اسکول کے سنسکاردھام کے  11ویں کامرس کی طالبہ ہوں۔ جناب اس کورونا دور میں صنعت، کاروبار، سرکارکوبھی تکلیف آئی ہوگی۔ لیکن کیا آپ نے سوچا ہے کہ  طالب علموں کو کیا تکلیف آئی؟ اس بحران کو میں اپنی زندگی میں کس طرح یاد رکھوں؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم طالب علموں کاایک سال بیکار ہوگیا ہو؟ میری جگہ آپ ہوتے تو کیا کرتے؟ آپ کی رہنمائی ہمیں سمت دے گی۔شکریہ

جواب:

دھروی آپ کاچھوٹا بھائی ہے، بڑا بھائی، چھوٹا بھائی کوئی ہے؟

سرچھوٹی بہن ہے

ہے، چھوٹی بہن ہے... اچھا چھوٹی بہن کو ایسے ہی ڈانٹتی ہو جیسے ابھی کہہ رہی تھی

چھوٹی بہن ہے سر، نہیں سر

ایسے آنکھیں کھول کر بول رہی تھی، اچھا سابرمتی آشرم پہلے آئی تھی، یا آج پہلی بار آئی ہو؟

سر فرسٹ ٹائم آئی ہوں آج

فرسٹ ٹائم آئی ہو،  کتنے سال سے احمد آبادمیں رہ رہی ہو؟

6 سال سر

اچھا، تو 6 سال سے رہ رہی ہو، اور آپ کو کبھی  من نہیں کرگیا کہ بھارت کی آزادی کا اتنا اہم مقام وہاں کبھی جانا چاہئے۔ آج تو صبح سے آگئے ہوں گے آپ لوگ۔

جی سر، بالکل

تو آپ نے دیکھا کیا آج، سب چیزیں دیکھی کیا؟

ہاں سر دیکھی

من کے اطمینان کا تجربہ ہوا؟

ہاں سر بہت اطمینان کا تجربہ ہوا۔

دیکھئے جاکر کے اپنے سنسکار دھام کے دوستوں کو بھی کہو کہ سابرمتی آشرم جانا چاہئے اور اپنی فیملی اور دوستوں کوبھی کہو کہ سابرمتی آشرم جانا چاہئے اور وہاں کی شانتی کاتجربہ کرنا چاہئے۔

کچھ لمحہ خاموش، کچھ لمحہ خاموش وہاں بیٹھنا چاہئے، کرو گے؟

جی سر، بالکل سر، ہاں سر

اچھا، چلئے اب آپ کے سوال پرآتا ہوں۔ میں تو ایک دم سے دھروی کو اپدیش ہی دینے لگ گیا تھا

دیکھئے آپ کی بات بالکل صحیح ہے۔

جہاں تک کورونا کاسوال ہے ، میں تو اسے اس طرح سے دیکھتا ہوں کہ  جو غلطی آپنے نہیں کی ، اس کاخمیازہ آپ کواٹھانا پڑا۔  یہ آپ کےلئے زندگی کاایک سبق ہے کہ کئی بار زندگی میں بہت کچھ اچانک ہوتا ہے، ناگہانی طور پر ہوتا ہے، اوران واقعات پر آپ کاکوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔ کورونا میں بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ بچوں کا، نوجوانوں کا جونقصان ہوا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ بچپن کے لئے توایک سال کانقصان بڑی عمارت کی بنیاد میں ایک خالی پن جیسا ہے۔ اس کمی کو بھرنا آسان نہیں ہے۔

اسکول کی عمر مطلب؟

ہنسنا، کھیلنا، مٹی میں کھیلنا، مٹی اچھالنا، گرمی، سردی، برسات  ہر چیز کالطف، دوستوں کے ساتھ، کلاس روم میں ٹیچرس کے ساتھ ، گپے مارنا، باتیں کرنا، گھر کاچھوٹا سا بھی واقعہ چاروں طرف بتادینا۔ ان کے درمیان رہنا، یہ سب  زندگی کے ارتقائی سفر کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔ ان سب چیزوں سے آپ آسانی سے کتنا کچھ سیکھ سکتے ہیں۔

آپ کو بھی لگتاہی ہوگا، کورونا دور سے پہلے کا وقت آپ یاد کرتے ہوں گے توسوچتے ہوں گے کہ کتنا کچھ مس کیا ہے۔ لیکن کورونا دور میں اگرکافی کچھ کھویا ہے تو بہت کچھ پایا بھی ہے۔ کورونا کا سب سے پہلا سبق تو یہی ہے کہ آپ نے جس چیز کو ، جن جن لوگوں کو مس کیا، ان کاآپ کی زندگی میں کتنا بڑا رول ہے، یہ اس کورونا دور میں زیادہ پتہ چلا ہے۔ آپ کو اس بات کااحساس ہوا کہ کسی کو بھی فارگرانٹیڈ نہیں لینا چاہئے۔  کھیل کود ہو، اسکول میں فزیکل کلاسیز ہوں، یاپھرآپ کے گھر کے پاس سبزی بیچنے والے، کپڑےپریس کرنے والے، پاس کے بازار کے دکاندار، جن لوگوں کو ، جن باتوں کو آپ نے روٹین سمجھ لیا تھا، ان کو جب مس کرتے ہیں تب ان سب کی اہمیت ہم سب کو محسوس ہوتی ہے، آپ کو بھی پتہ چلا ہے۔ اسلئے اس سمت میں آپ کو لگاتار بیدار رہنا چاہئے اور زندگی بھر اس سبق کو یاد رکھنا چاہئے۔

کورونا کے بعد بھی ان چیزوں کو نظرانداز نہیں کرناچاہئے۔ وہیں آپ کو یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ زندگی کو صحیح معنوں میں جینے کے لئے کتنی کم چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا، اس ایک سال میں آپ کو کہیں نہ کہیں جانے انجانے میں آپ کو خود کے اندر جھانکنے کا ، خود کوجاننے کاایک موقع بھی ملا ہوگا۔

کورونادور میں ایک اوربات یہ بھی ہوئی ہے کہ ہم نےاپنی فیملی میں ایک دوسرے کو زیادہ قریب سے سمجھا ہے۔ کورونا نےسماجی دوری کے لئے مجبور کیا لیکن کنبوں میں جذباتی تعلقات کوبھی اس نے مضبوط کیا ہے۔  کورونا دورنے یہ بھی دکھایا ہے کہ ایک مشترکہ فیملی کی طاقت کیا ہوتی ہے، گھر کے بچوں کی زندگی کی تعمیرمیں  ان کا کتنا رول ہوتا ہے۔ میں چاہوں گاکہ سوشل سا ئنس کے لوگ ، ہماری یونیورسٹیز اس پر ریسرچ کریں۔ کورونا دور کے فیملی لائف پر اسٹڈی کریں۔ کیسے اس بحران سے مقابلہ کرنے میں مشترکہ خاندان نے  سماج کو طاقت دی، اس پہلو کو کھنگالیں۔

کوروناآنے کے بعد یہ جو آیورویدک کاڑھا، مقوی غذا، صاف صفائی، امیونٹی ایسے متعدد اہم موضوعات پر ہم سب کا دھیان گیا ہے۔ ان سب کے لئے لوگوں نے جو جو کیا، وہ اگر پہلے سے کرتے آرہے ہوتے تو شاید پریشانی اس سے بھی کم ہوتی۔ لیکن اچھا ہے ،اب یہ تبدیلی لوگوں نے اپنی زندگی میں شامل کرلی ہے۔

اوراسی لئے میں یہی کہوں گا ، یہ بہت بڑی بات ہے کہ فیملی کے بچے ایسے سنجیدہ پہلوؤں پر سوچ رہے ہیں، بات کررہے ہیں۔

شکریہ بیٹا، شکریہ

سوال:11، کرشٹی سیکیا،کیندریہ ودیالیہ، آئی آئی ٹی گوہاٹی

عزت مآب وزیراعظم صاحب، میں کرشٹی سیکیا،کیندریہ ودیالیہ، آئی آئی ٹی، گوہاٹی، 10 ویں کلاس کی طالبہ ہوں اور آسام کے لوگوں کی طرف سے آپ کو پرنام۔ سر، نئی نسل کے ایک بچے کے طور پرہم اپنے والدین اوراپنے درمیان کے جنریشن گیپ کو ہمیشہ کم کرنا چاہتے ہیں۔ پرائم منسٹر سر، ہم یہ کس طرح کرسکتے ہیں؟ براہ کرم ہماری رہنمائی کیجئے۔

کیانام بتایا بیٹا؟

سر، کرشٹی سیکیا

اتنی اچھی ہندی کیسے بول لیتی ہو؟

شکریہ سر

جواب:

چلئے آپ کاسوال تو بہت اچھا ہے۔ ایک طالب علم کے طور پر آپ نے جو سوال پوچھا ہے اس کے لئے میں آپ کی بہت تعریف کرتا ہوں۔ یہ بتاتا ہے کہ آپ اس مدعے کو لے کر کتنے حساس ہیں۔ آپ نہ صرف اس موضوع کو سمجھ رہے ہیں بلکہ  دونسلوں کے درمیان جنریشن گیپ کم ہو ، اس کی بھی کوشش کررہے ہیں۔

لیکن مجھے والدین سے اس موضوع پر بات کرنی ہے۔ ایک بات جو والدین کو طے کرنا ہے، کیا وہ بڑھاپے کی طرف جانا چاہتے ہیں، یا پھر اپنی عمر کم کرنا چاہتے ہیں۔ اور آپ بھی بیٹا، اپنے ممی پاپا کو ضرور یہ سوال پوچھنا۔ اگر والدین بڑھاپے کی طرف جانا چاہتے ہیں، تو بیشک اپنے بچوں کے ساتھ دوری بنا لیں، گیپ بڑھاتے رہیں۔ اگر آپ کو نئی زندگی کی طرف آگے بڑھنا ہے، اپنی عمر گھٹانی ہے، نوجوان بنے رہنا ہے تو آپ اپنے بچوں کے ساتھ گیپ کم کیجئے۔

قربت بڑھائیے۔ یہ آپ کے فائدہ والا ہے۔ آپ یاد کریئے، جب آپ کا بچہ ایک سال کی عمر کا تھا تو آپ ان کے ساتھ کیسے باتیں کرتے تھے؟ تب آپ اسے ہنسانے کے لیے کیسی کیسی آوازیں نکالتے تھے؟ آپ اپنے چہرے الگ الگ قسم کے ایکسپریشن بناکر کیسے اس سے بات کرتے تھے۔ ایسا کرتے ہوئے کیا کبھی آپ نے سوچا کہ کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا؟

کبھی آپ نے سوچا کہ لوگ آپ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھیں گے تو یہ کہیں گے کہ یہ کیسے چہرے بنا رہا ہے، کیسی آواز نکال رہا ہے؟ کیا کبھی اس وقت آپ نے یہ سوچا کہ آپ کے بچے کے من میں کیا چل رہا ہوگا؟ آپ کو اس وقت مزہ آیا، اس لیے آپ نے یہ کیا۔ آپ نے کسی کی پرواہ نہیں کی یعنی آپ سب کچھ چھوڑ کر خود ایک بچہ بن گئے۔

بچے سے کھیلنے کے لیے آپ خود کھلونا بن گئے اور بچے کے کھلونوں سے بھی اتنی ہی دلچسپی سے کھیلے۔ آپ یاد کرئیے، کبھی آپ گھوڑا بنے ہوں گے، کبھی بچے کو پیٹھ پر بیٹھاکر چلے ہوں گے، کبھی کندھے پر بیٹھا کر گھر بھر گھومے ہوں گے، کبھی چار پیر کرکے چلے ہوں گے، بچہ رویا ہوگا تو اسے چُپ کرانے کے لیے آپ بھی جھوٹ موٹ کا روئے ہوں گے۔ تب آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ دیکھنے والا کیا کہے گا، گھر کے باقی لوگ کیا کہیں گے، سماج کیا کہے گا، دوست کیا کہیں گے، کچھ نہیں سوچا۔ کیا کبھی سوچا تھا؟ آپ اس کا مزہ لیتے ہیں، اور ایسا بچے کے 6-5 سال کی عمر تک چلتا رہتا ہے۔ جیسے ہی بچہ تھوڑا بڑا ہوتا ہے تو ایک لیول پر ذہنیت ایسی ہی ہو جاتی ہے کہ ماں باپ بچے کو ڈومنیٹ کرنا چاہتے ہیں۔  بچے کو ہر چیز سکھانا چاہتے ہیں۔ اچانک جو دوست تھے، وہ دوست نہ رہ کر بچے کے انسٹرکٹر بن جاتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو انسپکٹر بھی بن جاتے ہیں۔

ساتھیوں، بچہ جب باہر کی دنیا میں پیر رکھتا ہے تو بہت سی باتیں آبزروکرتاہے۔ گھر میں جو دیکھا تھا، اس سے کچھ زیادہ ، کچھ الگ، کچھ نیا وہ دیکھنے لگتا ہے۔ اس وقت آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس نئے ماحول میں آپ کابچہ مزید پھلے پھولے اوراس کا بہترین طریقہ ہے کہ آپ اس کے من سے جڑیں، اس کے من سے ہی کریں اوراس کی ہر بات کو جذباتی طور پر منسلک ہوکر  سنیں۔ ایسے نہیں کہ  فون کررہے ہیں اور وہ بول رہا ہے، بالکل اس کے ساتھ جڑئیے ۔ آپ کوجو پسند نہیں، اگروہ کام آپ کا بچہ کرکے آیا ہے تو اسے ڈانٹئے مت، ٹوکئے مت، بس سنتے رہئے، سنتے وقت اسے لگنا چاہئے کہ آپ اسے کتنا پیار کرتے ہیں۔ ہاں لیکن جو چیز ا چھی نہیں ہے اس کو من میں  رجسٹر کرکے رکھئے اور یہ بڑھتی عمر کے بچوں کے لئے کرنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

آپ جتنا ہوسکے اس کی بات سنئے، اس کی بات سمجھئے۔ آپ انسٹرکٹر بن کر اسے صبح سے شام تک کیا کرنا ہے، یہ مت سمجھائیے۔ بار بار یہ مت پوچھئے کہ میں نے یہ کہا تھا، کیا کیا کیا؟ بس اپنی آنکھیں کھلی رکھئے، کان کھلے رکھئے، اس پر دھیان رکھئے ۔ اس میں اصلاح سے جڑی جو باتیں آپ نے رجسٹر کی ہیں ،جو آپ کو ٹھیک نہیں لگا، اسے ٹھیک کرنے کے لئے بہت غور کرکے ایک ماحول تیار کیجئے تاکہ اسے خود ہی لگے کہ وہ کہاں غلط کررہا ہے۔

جب ماں باپ بچوں کے ساتھ ہم عمر بن کر ہی جڑتے ہیں تو کوئی ایشو نہیں ہوتا ہے۔

جیسے بچہ کوئی نیا گانا سن رہا ہے، کوئی نیا میوزک سن کر مزے لے رہا ہے تو آپ بھی اس کے ساتھ اس مزے میں شامل ہونے کی کوشش کریئے۔ آپ اسے مت کہئے کہ 30 سال پہلے ہمارے زمانے میں تو وہ گانا تھا، ہم وہ بجائیں گے، نہیں ایسا مت کرو۔ وہ جوگانا اسے پسند ہےآپ اس سے جڑیئے، مزے لیجئے نا۔

یہ سمجھنے کی کوشش تو کریئے کہ آخر ایسا کیا ہے اس گانے میں کہ آپ کابچہ  اسے پسند کررہا ہے۔ لیکن ہوتا کیا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ٹھیک اسی وقت کچھ ماں باپ یہ کہنے لگتے ہیں کہ یہ کیا بیکار کاگانا سن رہے ہو، اصلی میوزک تو ہمارے زمانے میں ہوتا تھا، اب تو جو بنتا ہے ، وہ صرف شورشرابہ ہوتا ہے۔  ہوتا کیا ہے کہ بچہ آکر کے آپ کو کوئی بات بتاتاہے، وہ بتاتا ہے کہ آج اسکول میں ہم نے یہ کیا، تو کہیں آپ اپنی ہی کہانی لے کر تو نہیں بیٹھ جاتے ہیں کہ ارے یہ تو ایسا ہی ، کیا ہے، کیا نئی چیز ہے؟ یہ تو ویسا ہی ہے۔

اپنے بچے کے ساتھ اس کی جنریشن کی باتوں میں اتنی ہی دلچسپی دکھائیے گا، آپ اس کے مزے میں شامل ہوں گے تو آپ دیکھئے گا جنریشن گیپ کیسے ختم ہوجاتا ہے۔ اور شاید جو بات آپ کہنا چاہ رہے ہیں وہ اسکی سمجھ میں بھی آجائے،اوراس لئے جنریشن گیپ کو کم کرنے کے لئے بچوں اور بڑوں کو ایک دوسرے کو سمجھنا ہوگا۔ کھلے من سے گپ شپ کرنی ہوگی۔ کھل کر باتیں کرنی ہوں گی۔ سمجھنا ہوگا۔ سننا ہوگا اورپھراپنے آپ کو بدلنے کی تیاری بھی رکھنی ہوگی۔ چلئے آسام سے اتناسوال مجھے ملا، ذرا میں زیادہ لمبا ہی جواب دے گیا لیکن مجھے اچھا لگا، بہت بہت شکریہ بیٹا۔

شکریہ سر

سوال:12، شریان رائے، سینٹرل ماڈل اسکول

نمستے سر

نمستے

میں شریان رائے، دسویں کلاس، میں سینٹرل ماڈل اسکول، براک پور،کولکاتا میں پڑھتا ہوں

سر،  امتحان کے سیزن میں امتحان سے زیادہ یہ چیز ستاتی ہے کہ امتحان کے بعد کیا ہوگا؟اگرہمارے نمبراچھے نہیں آئے تو کیا ہوگا؟ کیاامتحان میں فیل ہونا ہماری زندگی کافیل ہونا جیسا ہے؟

جواب:

ارے یار ایسا کیسے سوچتے ہو؟اگر آپ ایگزام وریئر کتاب پڑھتے تو یہ سارے سوالوں کے جواب آپ خود ہی لوگوں کو دے دیتے۔ لیکن آپ کاسوال اہم ہے اور شاید ایسے سوال بار بار اٹھتے بھی ہیں اور باربار جواب دینے بھی ہوتے ہیں۔ ایک بار کہنے سے بات بننے والی نہیں ہے۔ اورمیں یہ بات پورے کھلے من سے کہنا چاہتا ہوں کہ بد قسمتی سے تعلیم کے شعبہ میں اورخاندانی زندگی میں سوچنے کادائرہ  اتنا سمٹ گیا ہے۔ امتحان میں آپ کےجو نمبرآئے وہ آپ کی قابلیت کا پیمانہ نہیں ہوسکتے۔ بھارت ہی نہیں دنیا میں آپ ایسے بہت سے کامیاب لوگوں کو دیکھیں گے جو کلاس میں نمبروں میں بھلے اچھے نہیں تھے لیکن آج وہ اپنی فیلڈ میں سب سے بہتر ہیں۔ یہ امتحان صرف ایک پڑاؤ ہے۔ اس امتحان میں نمبر کم آنے کامطلب یہ نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کی زندگی میں بہت بڑا نقصان ہوگیا۔

ہاں، مستقبل میں آ پ کو جس ایک چیز سے بچ کر رہنا چاہئے اس کے بارے میں ، میں آپ کو ضرور بتاؤں گا۔ایک یہ نئی طرح کی تبدیلی آرہی ہے سماج میں ، جسے ہم ڈیسٹی نیشن فیور کہہ سکتے ہیں۔ مطلب، دوسرے اگر کسی ایک ڈیسٹی نیشن پر ہیں تو انہیں دیکھ کر اپنا ڈائریکشن طے کرنا ہے۔ آپ کاکوئی رشتہ دار کہیں جاکر کامیاب ہوا، آپ کو لگتا ہے وہاں جاکر آپ بھی کامیاب ہوجائیں گے۔ کوئی ناکام ہوا تو آپ کو لگتا ہے ہم بھی اسی فیلڈ میں گئے تو ناکام ہوجائیں گے۔ ہمیں لگتا ہے وہ اسٹوڈینٹ اس سمت میں گیا، اس شعبے میں گیا، یہ بنا، اس شعبے میں اس نے یہ نام کمایا، تو ہم بھی وہی کریں گے، تبھی ہماری زندگی کامیاب ہوگی۔  یہ سوچ صحیح نہیں ہے دوستو۔ اسی سوچ کانتیجہ ہے کہ بہت سے اسٹوڈینٹس اتنے تناؤ میں جی رہے ہیں۔

 آپ جو پڑھتے ہیں، وہ آپ کی زندگی کی کامیابی اورناکامی کا پیمانہ صرف یہی واحد نہیں ہوسکتا۔ آپ جو زندگی میں کریں گے وہ  آپ کی کامیابی اور ناکامی کو طے کریں گے۔ آپ لوگوں کے پریشر، سوسائٹی کےپریشر، ماں باپ کے پریشر، ان سب سے باہر نکلئے۔

کئی بار ہمیں استعداد کو جاننے کے لئے میدان میں کودنا ہی پڑتا ہے۔ مجھے لگتاہے کہ آپ کو اپنا جواب مل گیا ہوگا۔

ساتھیو، مجھے بہت اچھا لگا، آپ سب سے ورچوئل طریقہ سے ملنے کا مجھے موقع ملا۔ میں آپ سب کا بہت بہت شکریہ ادا کرتا ہوں۔ واقعی مجھے بہت مزہ آیا۔ آپ سبھی سے بات کرنا میرے لئے بھی ایک امنگ سے کم نہیں ہوتا ہے، خوشی  سے کم نہیں ہوتا ہے۔ مجھے لگتاہے کہ آپ سبھی کو بھی ضرور اس میں سے کچھ نہ کچھ باتیں کام آئیں گی۔ ضروری نہیں ہے کہ میں نے جو کہا ہے اسی پر چلنا چاہئے۔ سوچئے، اپنے طریقے سے سوچئے۔

ساتھیو، آج میں آپ کو ایک بڑےامتحان کے لئے تیار کرناچاہتا ہوں۔ یہ بڑا امتحان ہے جس میں ہمیں 100 فیصد نمبرات لے کر پاس ہونا ہی ہے۔ یہ ہے اپنے بھارت کو آتم نربھر بنانا۔

یہ ہے ووکل فار لوکل کو زندگی کامنتر بنانا۔

میری ایک اپیل ہے، جب آپ کے بورڈ کے امتحانات ختم ہوجائیں تو فیملی کے لوگوں کے ساتھ مل کر ایک لسٹ بنائیں۔ صبح سے لے کر رات تک آپ جن چیزوں کا استعمال کررہے ہیں ،  ان میں سے کتنی چیزیں غیر ملکی زمین پر بنی ہیں اورکتنی چیزوں میں بھارت ماں کی مٹی کی خوشبو ہے، کتنی چیزیں کسی  ہم وطن کی محنت سے بنی ہیں۔

اس کے علاوہ امتحان کے بعد کے لئے ایک ٹاسک آپ کو دینا چاہتا ہوں۔ آپ سب جانتے ہیں کہ ہمارا ملک آزادی کے 75 سال پورے ہونے پر ’آزادی کاامرت مہوتسو‘ منارہے ہیں۔ امرت مہوتسو میں ہمارے مجاہدین  آزادی کے بارے میں آپ سبھی لوگ جانیں، آزادی کی لڑائی کے بارے میں جانیں، اس کے لئے ملک میں ایک مہم شروع کی ہے۔ آپ کو اس مہم سے جڑنا ہے۔ آپ اپنی ریاست کی آزادی کی لڑائی جڑے 75 واقعات تلاش کرکے نکالئے۔ یہ کسی آدمی کی جد وجہد سے جڑے ہوسکتے ہیں، کسی انقلابی سے جڑے ہوسکتے ہیں۔ ان واقعات کو آپ اپنی مادری زبان میں تفصیل سے لکھئے۔ اسکے علاوہ ہندی، انگریزی میں لکھ سکیں تو یہ بھی اچھا ہوگا۔

آپ اس کو سال بھر کا پروجیکٹ  بنائیے اورڈجیٹل طریقہ سےاسے کیسے کریں، اس کے لئے اپنے ٹیچرس سے گائیڈینس لیجئے۔ آپ اپنے ٹیچرس سے بات کیجئے، اپنے والدین سے ، دادا دادی سے بات کریئے، آپ کیا کرسکتے ہیں، اس پر غور کیجئے۔

ساتھیوں، گرو دیو رویندرناتھ ٹیگور نے لکھاہے :

’’ میں نے خواب دیکھا کہ زندگی خوشی ہے

میں جاگا اورپایا کہ زندگی خدمت ہے

میں نے خدمت کی اورپایا کہ خدمت میں ہی خوشی ہے‘‘

آپ خود ہی دیکھئے، جب ہماری خواہشات، ہمارے مقاصد، ملک کی خدمت سے جڑجاتے ہیں، تو ہم  کروڑوں زندگیوں سے جڑ جاتے ہیں۔ اس لئے بڑے خواب رکھنے ہیں، ملک کے لئے سوچنا ہے۔ مجھے پورا بھروسہ ہے، آپ یہ امتحان بہت اچھے نمبرات سے پاس کریں گے، اس کے بعد زندگی میں بہت آگے جائیں گے۔ اس لئے ، خوب پڑھئے، خوب کھیلئے، خوب مستی کریئے۔رزلٹ کے بعد مجھے اپنے پیغام بھی ضرور بھیجئے گا۔ مجھے انتظار رہے گا۔

 انہی نیک خواہشات کے ساتھ ،سبھی میرے نوجوان ساتھیوں کا ،ننھے ننھے دوستوں کا  بہت بہت شکریہ۔

بے شمار نیک خواہشات۔

******

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ش ح۔ ش  ر۔ق ت۔ ر ض۔ ف ر

(08-04-2021)

U- 3504



(Release ID: 1710395) Visitor Counter : 14812