وزارت خزانہ

لیبر اصلاحات کی تاریخ میں سال 2019 اور 2020 سنگ میل ہے جن میں 29 مرکزی لیبر قوانین کو ضم کیا گیا، معقول بنایا گیا اور چار لیبر کوڈس کی شکل میں انھیں آسان بنایا گیا


قومی سطح پر بیروزگاری کی شرح 2017-18 کے 6.1 فیصد سے کم ہوکر 2018-19 میں 5.8 فیصد ہوئی

ای پی ایف او کے نیٹ پے رول ڈاٹا کے مطابق 2019-20 میں ای پی ایف او کے ساتھ 78.58 لاکھ نئے خریدار جڑے، جبکہ 2018-19 میں ان کی تعداد 61.1 لاکھ تھی

کووڈ-19 لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن خوردہ کاروبار میں زبردست اضافہ سے جی آئی جی معیشت کا بڑھتا ہوا رول ابھرکر سامنے آیا

Posted On: 29 JAN 2021 3:42PM by PIB Delhi

نئی دہلی،  29/جنوری 2021 ۔ خزانہ اور کاروباریٹ امور کی مرکزی وزیر محترمہ نرملا سیتا رمن نے آج پارلیمنٹ میں اقتصادی جائزہ 2020-21 پیش کرتے ہوئے کہا کہ لیبر اصلاحات کی تاریخ میں سال 2019 اور 2020 سنگ میل ہے، جن میں 29 مرکزی لیبر قوانین کا انضمام کیا گیا، معقول بنایا گیا اور چار لیبر کوڈس کی شکل میں انھیں آسان شکل دی گئی۔ وہ اس طرح ہیں: (i) اجرت سے متعلق کوڈ 2019، (ii) صنعتی تعلقات کوڈ 2020، (iii) پیشہ وارانہ تحفظ، صحت اور کام کرنے کے حالات کے متعلق کوڈ 2020، اور (iv) سماجی تحفظ سے متعلق کوڈ، 2020۔ ان قوانین کو بازار کی بدلتی ضرورتوں کے مطابق بنایا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ان میں کم از کم اجرتی ضرورتوں اور غیرمنظم شعبہ (اپنا روزگار آپ اور مہاجر مزدوروں) کے ورکروں کی فلاح و بہبود کے مطابق ضرورتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

لیبر مارکیٹ پر کووڈ-19 کا اثر

پیروڈک لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس)، جنوری – مارچ 2020 کے مطابق ملک میں کووڈ کے سبب شہری علاقے کے جزوقتی ورکروں پر کافی اثر پڑا ہے، جو شہری ورک فورس کا 11.2 فیصد ہے۔ ان میں سے زیادہ تر مہاجر مزدور ہیں جو لاک ڈاؤن کے دوران کافی متاثر ہوئے تھے۔ مئی – اگست 2020 کے دوران شرمک اسپیشل ریل گاڑیوں سے تقریباً 63.19 لاکھ مہاجر مزدوروں نے سفر کیا تھا۔ ریاستوں کے اندر مہاجرت اور غیرمنظم شعبوں میں روزگار کے بارے میں محدود اعداد و شمار دستیاب ہونے کی وجہ سے ان مزدوروں کی تعداد کا تخمینہ لگانا کافی مشکل ہے، جنھوں نے اس وبا کے دوران اپنی نوکریاں کھودیں اور ان کے رہنے کے ٹھکانے بھی متاثر ہوئے اور انھیں اپنے گھروں کو لوٹنا پڑا۔ بھارت سرکار نے لاک ڈاؤن سے قبل اور لاک ڈاؤن کی مدت کے دوران ورکروں کی فلاح و بہبود کے لئے متعدد اقدامات کئے ہیں۔

روزگار کی صورت حال

اس جائزہ کے مطابق ملک میں 2018-19 میں لیبر فورس کا حجم تقریباً 51.8 کروڑ تھا، جن میں سے 48.8 کروڑ لوگوں کے پاس روزگار تھا اور 3.0 کروڑ بے روزگار تھے۔ سال 2017-18 اور 2018-19 کے درمیان لیبر فورس میں 0.85 کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے 0.46 کروڑ شہری علاقے اور 0.39 کروڑ دیہی علاقے سے ہیں۔ لیبر فورس میں صنفی ساخت اضافہ میں 0.64 کروڑ مرد اور 0.21 کروڑ خواتین تھی۔ لیبر فورس کے حجم میں 1.64 کروڑ کا اضافہ ہوا، جن میں سے 1.22 کروڑ دیہی علاقے اور 0.42 کروڑ شہری علاقے سے ہیں۔ ورک فورس میں 0.92 کروڑ خواتین اور 0.72 کروڑ مرد شامل ہیں۔

سال 2017-18 اور 2018-19 میں بیروزگار لوگوں کی تعداد میں 0.79 کروڑ کی کمی آئی ہے، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور دیہی علاقے کے لوگ ہیں۔ خواتین لیبر فورس حصے داری شرح سال 2017-18 کے 17.5 فیصد کے مقابلے سال 2018-19 میں بڑھ کر 18.6 فیصد ہوگئی۔ یہ حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے لحاظ سے 2018-19 کافی اچھا سال تھا۔

ورکنگ فورس سے متعلق صنعت وار تخمینہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ 21.5 لوگوں کو زرعی شعبے میں روزگار ملا ہوا ہے، جو اب بھی ملک میں سب سے زیادہ 42.5 لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس کے بعد ’دیگر خدمات‘ کے شعبے سے 6.4 کروڑ لوگ (13.8 فیصد) وابستہ تھے۔ مینوفیکچرنگ اور کاروبار، ہوٹل اور ریستوراں میں سے ہر ایک میں 5.9 کروڑ لوگوں کو روزگار ملا ہوا تھا اور ان کی حصے داری بالترتیب 12.1 فیصد اور 12.6 فیصد ہے۔ تعمیرات کے شعبے میں سال 2018-19 میں 5.7 کروڑ لوگوں کو روزگار ملا ہوا تھا اور اس شعبے کی حصے داری 12.1 فیصد ہے۔ زراعت، مینوفیکچرنگ اور ٹرانسپورٹ اسٹوریج اور مواصلات  کے شعبوں میں سال 2017-18 کے مقابلے 2018-19 میں روزگار یافتہ لوگوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے۔

جائزے کے مطابق کل روزگار یافتہ لوگوں میں تقریباً 25 کروڑ لوگ اپنا روزگار آپ کررہے تھے اور 12.2 کروڑ لوگ مستقل تنخواہ والے ملازم تھے اور 11.5 کروڑ جزوقتی ورکر تھے (ٹیبل 8)۔ روزگار کے نقطہ نظر سے اپنا روزگار آپ اب بھی لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور تقریباً 52 فیصد ورک فورس اپنا روزگار آپ کے زمرے میں آتا ہے۔ ریگولر اجرت اور سیلری والے ملازمین کے تناسب میں دیہی اور شہری علاقوں میں خواتین اور مرد دونوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور یہ اضافہ شہری علاقے کی خواتین میں زیادہ درج کیا گیا، جو 2017-18 کے 52.1 فیصد کے مقابلے 2018-19 میں بڑھ کر 54.7 فیصد ہوگیا ہے۔ یہ روزگار کے معیار میں بہتری کا بھی اشارہ ہے اور اس کے ساتھ ہی جزوقتی ورکروں کی تعداد میں بھی کمی دیکھی گئی تھی۔

جائزے میں کہا گیا ہے کہ سہ ماہی بنیاد پر پی ایل ایف ایس نے صرف شہری علاقوں کا احاطہ کیا گیا اور یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ جنوری – مارچ 2019 کے مقابلے میں جنوری – مارچ 2020 کی مدت میں مستقل اجرت / تنخواہ پانے والے ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی مدت میں جزوقتی ورکروں (خواتین و مرد) کی تعداد میں کمی آئی تھی۔

رسمی / باقاعدہ روزگار

جائزے میں کہا گیا ہے کہ 20 دسمبر 2020 تک ایمپلائیز پروویڈنٹ فنڈ آرگنائزیشن (ای پی ایف او) کے نیٹ پے رول ڈیٹا کے مطابق سال 2019-20 میں اس تنظیم کے ساتھ 78.58 لاکھ نئے خریدار جڑے جبکہ سال 2018-19 میں یہ تعداد 61.1 لاکھ تھی۔ یہ تخمینہ ان اراکین کا ہے جو نئے نئے جڑے یا جو دوبارہ تنظیم کے دائرے میں آئے ہیں۔ مالی سال 2020-21 کے دوران سبھی عمر گروپوں میں کل نئے ای پی ایف خریداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اس میں ستمبر 2020 میں 14.2 لاکھ خریداروں کے ساتھ سب سے زیادہ اضافہ درج کیا گیا۔

بے روزگاری

اقتصادی جائزہ میں کہا گیا ہے کہ قومی سطح پر سبھی عمروالے طبقات میں بیروزگاری کی شرح سال 2017-18 کے 6.1 فیصد کے معمولی طور پر کم ہوکر 2018-19 میں 5.8 فیصد رہ گئی۔

بیروزگاری کی شرح میں کمی سبھی زمروں میں دیکھی گئی ہے۔ بیروزگاری کی شرحوں میں سب سے زیادہ کمی ان لوگوں میں دیکھی گئی ہے جنھوں نے رسمی پیشہ وارانہ / تکنیکی ٹریننگ حاصل کی ہے۔

بھارت کی ریاستوں میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح بڑے پیمانے پر مختلف ہے۔ بیروزگاری کے لحاظ سے اروناچل پردیش، کیرالہ، منی پور اور بہار بلند ترین سطح پر ہیں، جبکہ گجرات، کرناٹک، مغربی بنگال اور سکم نچلی سطح پر ہیں۔ کچھ ریاستوں جیسے بہار، ہماچل پردیش اور مہاراشٹر میں نوجوانوں میں شہری علاقوں میں بیروزگاری کی شرح دیہی علاقوں میں بیروزگاری کی شرح سے تقریباً برابر ہی ہے۔ زیادہ تر ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں دیہی علاقوں کے مقابلے شہری علاقوں میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔

کام کی بدلتی نوعیت: گگ اور پلیٹ فارم ورکرس

جائزے میں کہا گیا ہے کہ تکنیکی تبدیلی، نئی اقتصادی سرگرمیوں کے آنے، تنظیمی ڈھانچوں میں اصلاحات، اختراعات اور نئے تجارتی ماڈلس کو اپنانے کی وجہ سے کام کی نوعیت میں بھی تبدیلی آرہی ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارم روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لحاظ سے کافی بامعنی ثابت ہوئے ہیں اور یہاں بچولیوں کی غیرموجودگی کی وجہ سے روزگار کے خواہش مند اور روزگار دینے والے ایک دوسرے سے آسانی کے ساتھ رابطہ کرسکتے ہیں۔ روایتی عوامل کے علاوہ ان نئے عوامل سے صارفین اور سروس پرووائیڈرس کے لئے زبردست مواقع پیدا ہوئے ہیں اور وہ اختراعاتی طریقوں سے آپس میں رابطہ کرسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل تکنیک نے دو- جہتی بازار پیش کیا ہے جس میں ای- کامرس اور آن لائن ریٹیل پلیٹ فارم کا وجود میں آنا شامل ہیں، جن میں امیزون، فلپ کارٹ، اولا، اوبر، اربن سلیپ، زومیٹو، سویگی وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا میں بھارت ایسے سب سے بڑے ملک کے طور پر ابھرا ہے جہاں فلیکسی اسٹافنگ ہے یعنی ملازمین کی ادلا بدلی آسانی سے کی جاسکتی ہے۔

کووڈ-19 کے سبب نافذ کئے گئے لاک ڈاؤن کی مدت میں گِگ معیشت کا بڑھتا رول، آن لائن خوردہ کاروبار میں زبردست اضافہ سے ثابت ہوتا ہے۔ لاک ڈاؤن کی مدت میں آجرین نے اپنے ملازمین کے لئے گھر سے کام کرنے یعنی ورک فرام ہوم کو پسند کیا اور اس کی وجہ سے اسٹاف میں تخصیص کی گئی اور فری لانسروں کی خدمات حاصل کی گئی اور کاموں کو آؤٹ سورس کیا گیا۔ تربیت یافتہ پیشہ وروں کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔ مختلف روزگار پلیٹ فارم جیسے اولا/ اوبر، سویگی، بگ باسکیٹ، پزا ہٹ وغیرہ اس وقت اپنی مکمل صلاحیتوں کا اظہار کررہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں ورکروں کے درمیان گگ معیشت بہت مقبول ہوچکی ہے۔ اس معیشت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ آجر – ملازم تعلقات میں لچیلاپن لاتی ہے جس میں سروس پرووائیڈر اور خدمات حاصل کرنے والوں کو سہولت ہوتی ہے۔

آتم نربھر بھارت روزگار یوجنا (اے بی آر وائی)

اقتصادی جائزہ میں کہا گیا ہے کہ آتم نربھر بھارت کے ایک جزو کے طور پر نومبر 2020 میں اعلان کردہ آتم نربھر بھارت روزگار یوجنا کی کل یوجنا رقم 22810 کروڑ روپئے ہے اور اس کی مدت 31 مئی 2023 تک ہے۔ اس یوجنا میں ادائیگی کے التزات اس طرح ہیں: (i) سبھی ملازمین اور آجرین کا تعاون (ملازمین کا 12 فیصد ای پی ایف اور آجر کا 12 فیصد ای پی ایف تعاون یا تنظیم پر نافذ قانونی شرح)، یعنی اجرت کا 24 فیصد ای پی ایف، ان نئے ملازمین کے معاملے میں جو ایسے اداروں سے متعلق ہیں جہاں ملازمین کی تعداد ایک ہزار ہے (یو اے این کے ساتھ ای پی ایف اراکین کا تعاون) یہ انتظام اکتوبر 2020 سے جون 2021 کے لئے ہے اور ان کے لئے بھی جنھوں نے کووڈ-19 کے دوران اپنی ملازمت کھودی ہے۔ (ii) صرف ملازمین کی حصے داری (12 فیصد) ایسے نئے ملازمین کے تعلق سے جو ایسے اداروں میں کام کرتے ہیں جہاں ایک ہزار سے زیادہ ملازمین ہیں۔ یہ بندوبست اکتوبر 2020 سے جون 2021 کے لئے ہے اور اس کا اطلاق کووڈ-19 کے دوران روزگار گنوا دینے والے ایسے ملازمین پر بھی ہوگا جنھیں دوبارہ ملازمت پر رکھ لیا گیا ہے۔

دیگر تدابیر

اقتصادی جائزے میں کہا گیا ہے کہ منظم شعبے کے ملازمین کو راحت دینے کے لحاظ سے مرکزی حکومت نے 28 مارچ 2020 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا جس میں ملازمین اپنی ای پی ایف او کی بقایہ رقم کا 75 فیصد نان ریفنڈیبل ایڈوانس کی شکل میں لے سکتے ہیں۔ ای پی ایف او کے 53.62 لاکھ اراکین نے 9 دسمبر 2020 تک آن لائن طریقے سے اس سہولت کا فائدہ اٹھایا اور 13587.53 کروڑ روپئے اپنے ای پی ایف او کے کھاتے سے نکالے۔

ای پی ایف اور ایم پی ایکٹ 1952 کے دائرے میں شامل سبھی زمرے کے اداروں کے لئے مئی، جون اور جولائی 2020 کی تنخواہ والے مہینوں کے لئے تعاون میں 12 فیصد سے 10 فیصد کی قانونی کمی کو آتم نربھر بھارت پیکیج کے ایک جزو کے طور پر اعلان کیا گیا تھا۔ ای پی ایف کنٹریبیوشن کی شرح میں کمی کا مقصد 4.3 کروڑ ملازمین اور 6.5 لاکھ اداروں کے آجرین کو فائدہ دینا ہے، تاکہ ایسے مشکل وقت میں وہ لیکویڈیٹی کے بحران کا سامنا کرسکیں۔

پردھان منتری غریب کلیان پیکیج (پی ایم جی کے پی) مالی مدد، عمارتوں اور تعمیراتی ورکروں (بی او سی ڈبلیو) کو دی گئی تھی جن میں زیادہ تر مہاجر مزدور شامل ہیں۔ یہ رقم بی او سی ڈبلیو سیس کے تحت جمع کی گئی ہے۔ اس کے تحت 31 ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی حکومت نے تقریباً 2.0 کروڑ مزدوروں کے لئے نقد فائدوں کا اعلان کیا ہے، جس میں فی ماہ 1000 سے 6000 روپئے دینے کا التزام تھا اور کل 4973.65 کروڑ روپئے کی رقم ایسے لوگوں کو دی گئی۔

 

******

 

ش ح۔ م م۔ م ر

U-NO. 944

29.01.2021



(Release ID: 1693513) Visitor Counter : 524