وزیراعظم کا دفتر

احمد آباد میٹرو پروجیکٹ مرحلہ2 اور سورت میٹرو پروجیکٹ کی بھومی پوجن تقریب سے وزیراعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 18 JAN 2021 2:29PM by PIB Delhi

نئی دہلی:18،جنوری، 2021:

نمستے،گجرات کے گورنر جناب آچاریہ دیوبرت جی، مرکزی کابینہ میں میرے ساتھی امت شاہ جی، ہردیپ سنگھ پوری جی، گجرات کے وزیراعلیٰ وجئے روپانی جی، گجرات سرکار کے وزراء، اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی، احمد اور سورت کے میرے پیارے بھائیو اور بہنو۔

اتراین کی شروعات میں آج احمد آباد اور سورت کو بہت ہی اہم تحفہ ملا رہا ہے۔ ملک کے دو بڑے تجارتی مراکز احمد آباد اور سورت میں میٹرو ان شہروں میں کنیکٹیویٹی کو اور مضبوط کرنے کاکام کرے گی۔ کل ہی کیوڑیا کے لئے نئے ریل  روٹ اور نئی  ٹرینوں کی شروعات ہوئی ہے۔ احمد آباد سے بھی جدید ترین جن شتابدی ایکسپریس اب کیوڑیا تک جائے گی۔ اس  مبارک آغاز کے لئے  میں گجرات کے لوگوں کوبہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں ،مبارکباد دیتا ہوں۔

بھائیو اور بہنو،

آج 17 ہزار کروڑ روپئے سے زیادہ کے انفراسٹرکچر کا کام شروع ہورہا ہے۔ 17 ہزار کروڑ روپئے، یہ دکھاتا ہے کہ کورونا کے اس دور میں بھی نئے انفراسٹرکچر کی تعمیر کو لیکر ملک کی کوششیں لگاتار بڑھ رہی ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں میں ہی ملک بھر میں ہزاروں کروڑ روپئے کے انفراسٹرکچر پروجیکٹ کا یا تو افتتاح کیا گیا ہے یا پھر نئے پروجیکٹس پر کام شروع ہوا ہے۔

ساتھیو،

احمد آباد اور صورت، دونوں گجرات کی اور بھارت کی خودکفالت کو مضبوط کرنے والے شہر ہیں۔ مجھے یاد ہے، جب احمد آباد میں میٹرو کی شروعات ہوئی تھی، تو وہ کتنا غیرمعمولی لمحہ تھا۔ لوگ چھت پر کھڑے تھے، لوگوں کے چہروں پر جو  خوشی تھی، وہ شاید ہی کوئی بھول پائے گا۔ میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ احمد آباد کے سپنوں نے، یہاں کی پہچان نے کیسے خود کو میٹرو سے جوڑ لیا ہے۔ اب آج سے احمد آباد میٹرو کے دوسرے مرحلے پر کام شروع ہورہا ہے۔ احمد آباد میٹرو ریل پروجیکٹ میں اب موٹیرا اسٹیڈیم سے مہاتما مندر تک ایک کاریڈور بنے گا اور دوسرے کاریڈور سے جی این ایل یو اور گفٹ سٹی آپس میں جڑیں گے۔ اس کا فائدہ شہر کے لاکھوں لوگوں کو ہوگا۔

ساتھیو،

احمد آباد کے بعد سورت گجرات کا دوسرا بڑا شہر  ہے، جو میٹرو جیسے جدیدترین پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم سے جڑے گا۔ سورت میں میٹرو نیٹ ورک تو ایک طرح سے پورے شہر کے اہم تجارتی مراکز کو آپس میں کنیکٹ کریگا۔ یہ کاریڈور سرتھنا کو ڈریم سٹی سے تو دوسرا کاریڈور بھیسن کو سرولی لائن سے جوڑے گا۔ میٹرو کے ان پروجیکٹس کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ آنے والے برسوں کی ضرورتوں کا اندازہ کرتے ہوئے بھی بنائے جارہے ہیں۔ یعنی جو آج انویسٹمنٹ ہورہا ہے، اس سے ہمارے شہروں کو آنے والے کئی سالوں تک بہتر سہولتیں ملیں گی۔

بھائیو اور بہنو،

پہلے کی سرکاروں کی جو ایپروچ تھی، ہماری سرکار کیسے کام کررہی ہے، اس کی بہترین مثال، کیا فرق تھا یہ اچھی طرح ملک میں میٹرو نیٹ ورک کی توسیع سے پتا چلتا ہے۔ 2014 سے پہلے کے دس بارہ سال میں صرف سوا دو سو کلو میٹر میٹرو لائن آپریشنل ہوئی تھی۔ وہیں پچھلے 6 سال میں ساڑھے چار سو کلو میٹر سے زیادہ میٹرو نیٹ ورک چالو ہوچکا ہے۔ اس وقت ملک کے 27 شہروں میں 1000 کلو میٹر سے زیادہ کے نئے میٹرو نیٹ ورک پر کام چل رہا ہے۔

ساتھیو،

ایک وقت تھا جب ہمارے ملک میں میٹرو کی تعمیر کو لیکر کوئی ماڈرن سوچ ن ہیں تھی۔ ملک کی کوئی میٹرو پالیسی بھی نہیں تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ الگ الگ شہروں میں الگ الگ طرح کی میٹرو، الگ الگ تکنیک اور انتظام والی میٹرو بننے لگی۔ دوسری دقت یہ تھی کہ شہر کے باقی ٹرانسپورٹ سسٹم کا میٹرو کے ساتھ کوئی تال میل ہی نہیں تھا۔ آج ہم شہروں کے ٹرانسپورٹیشن کو ایک انٹیگریٹیڈ سسٹم کے طور پر تیار کررہے ہیں۔ یعنی، بس، میٹرو، ریل سب اپنے اپنے حساب سے ن ہیں دوڑے، بلکہ ایک اجتماعی انتظامی نظام کے طور پر کام کریں، ایک دوسرے کے معاون بنیں۔ یہاں احمدآباد میٹرو میں ہی جو نیشنل کامن موبلٹی کارڈ، جب میں وہاں آیا تھا، لانچ ہوا تھا، وہ مستقبل میں اس انٹیگریشن میں اور مدد کرنے جارہا ہے۔

ساتھیو،

ہمارے شہروں کی آج کی کیا ضرورت ہے اور آنے والے دس بیس سالوں میں کیا ضرورت ہوگی، اس وِژن کو لیکر ہم نے کام شروع کیا۔ اب جیسے سورت اور گاندھی نگر کو ہی لے لیجئے۔ دو دہائی پہلے سورت کی چرچا اس کی ترقی سے بھی زیادہ پلیگ (طاعون )جیسی وبا کے لئے ہوتی تھی۔ لیکن سورت کے باشندوں میں سبھی کو گلے لگانے کا جو فطری خصلت ہے، اس نے حالات کو بدلنا شروع کردیا۔ ہم نے ہر صنعت کو گلے لگانے والی سورت اسپرٹ پر زور دیا۔ آج سورت آبادی کے لحاظ سے ایک طرف ملک کا آٹھواں بڑا شہر ہے، لیکن دنیا کا چوتھا سب سے تیزی سے ترقی پذیر شہر بھی ہے۔ دنیا کے ہر دس ہیروں میں سے 9 سورت میں تراشے جاتے ہیں۔ آج ملک میں کُل مین میڈ فیبرک کا 40 فیصد اور مین میڈ فائبر کا قریب 30 فیصد پروڈکشن ہمارے سورت میں ہوتا ہے۔  آج سورت ملک کا دوسرا سب سے صاف ستھرا شہر ہے۔

بھائیو اور بہنو،

یہ سب کچھ ایک بہتر پلاننگ اور مکمل  سوچ کے ساتھ ممکن ہوپایا ہے۔ پہلے سورت میں تقریباً 20فیصد آبادی جھگیوں میں رہتی تھی، اب غریبوں کو پکےّ گھر ملنے سے یہ گھٹ کر 6فیصد رہ گئی ہے۔ شہر کو بھیڑ بھاڑ سے آزاد کرنے کے لئے بہتر ٹریفک مینجمنٹ سے لیکر کئی دیگر قدم اٹھائے۔ آج سورت میں 100 سے زیادہ پُل ہیں، جن میں سے80 سے زیادہ گزشتہ 20 سالوں میں بنائے گئے ہیں اور 8 پلوں کی تعمیر جاری بھی ہے۔ اسی طرح سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹس، اس کی کیپسٹی بڑھائی گئی۔ آج سورت میں تقریباً ایک درجن سیویج ٹریٹمنٹ پلانٹس ہیں۔ سیویج ٹریٹمنٹ سے ہی سورت کو آج تقریباً 100 کروڑ روپئے کی آمدنی حاصل ہورہی ہے۔ پچھلے سالوں میں سورت میں بہترین جدید اسپتالوں کی تعمیرکی گئی۔ ان سبھی کوششوں سے سورت میں ایز آف لیونگ بہتر ہوئی۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ سورت ایک بھارت -شریشٹھ بھارت کی کتنی عمدہ مثال ہے۔ یہاں ہمیں پوروانچل، اڈیشہ، جھارکھنڈ، مغربی بنگال، نارتھ ایسٹ، ملک کے کونے کونے سے اپنی قسمت چمکنانے کے لئے آئے ہوئے لوگ، ہمارے صنعتکار،عزت اور لگن کے استھ لگے ہوئے لوگ، ایک طرح سے جیتا جاگتا خوابوں سے بھرا ہوا چھوٹا بھارت سورت کی سرزمین پر پنپا ہے۔ یہ سبھی ساتھی ملکر سورت کی ترقی کو نئی بلندی دینے کے لئے کام کررہے ہیں۔

ساتھیو،

اسی طرح گاندھی نگر، پہلے کی اس کی پہچان کیا ہوتی تھی۔ یہ شہر سرکاری نوکری کرنے والوں کا، ریٹائرڈ لوگوں کا ایک طرح سے ڈھیلا ڈھالا، سست، ایسا ایک علاقہ بن گیا تھا، اس کو شہر ہی نہیں کہہ سکتے تھے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے گاندھی نگر کی اس تصویر کو تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب جہاں کہیں بھی جائیں گے، گاندھی نگر میں آپ کو جوان نظر آئیں گے، نوجوان نظر آئیں گے،سپنوں کا عنبردکھے گا۔ آج گاندھی نگر کی پہچان ہے۔ آئی آئی ٹی گاندھی نگر، گجرات نیشنل لایونیورسٹی، نیشنل فارنسک سائنس یونیورسٹی، رکشا شکتی یونیورسٹی، این آئی ایف ٹی، آج گاندھی نگر کی پہچان ہے، پنڈت دین دیال پیٹرولیم یونیورسٹی، انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچر ایجوکیشن، دھیروبھائی امبانی انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ڈیزائن (این آئی ڈی)، بائی سیگ۔بے شمار، بے شمار میں کہہ سکتا ہوں۔ اتنے کم وقت میں بھارت کی قسمت گڑھنے والے لوگوں کا تعمیری کام گاندھی نگر کی سرزمین پر ہورہا ہے۔ ان جگہوں سے صرف تعلیم کے شعبے میں ہی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان جگہوں کے ساتھ ساتھ کمپنیوں کے کیمپس بھی یہاں آنا شروع ہوئے، گاندھی نگر میں نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع بڑھے۔ اسی طرح، گاندھی نگر میں مہاتما  مندر، کانفرنس ٹورازم کو بھی بڑھارہا ہے۔ اب پروفیشنل ڈپلومیٹس، تھنکرس اور لیڈرس یہاں آتے ہیں، کانفرنس کرتے ہیں۔ اس سے شہر کو ایک نئی پہچان بھی ملی ہےاور ایک نئی سمت بھی ملی ہے۔ آج گاندھی نگر کے تعلیمی اداروں، جدید ریلوے اسٹیشن، گفٹ سٹی، ایسے پروجیکٹس، انفرا کے کئی جدید پروجیکٹس، اس نے گاندھی نگر کو زندہ کردیا ہے، ایک طرح سے خوابوں کا شہر بنادیا ہے۔

ساتھیو،

گاندھی نگر کے ساتھ ہی احمد آباد میں ہی ایسے کئی منصوبے ہیں جو آج شہر کی پہچان بن چکی ہیں۔ سابرمتی ریور فرنٹ ہو، کانکریا لیک-فرنٹ ہو، واٹر ایروڈرم ہو، بس اسٹینڈ ٹرانزٹ سسٹم ہو، موٹیرا میں دنیا کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہو، سرکھیج کا چھ لین۔ گاندھی نگر ہائی وے ہو، طرح طرح کے پروجیکٹس بچھلے سالوں میں بنے ہیں۔ ایک طرح سے احمد آباد کی عظمت کوبرقرار رکھتے ہوئے، شہر کو جدیدیت کا کور پہنایا جارہا ہے۔ احمد آباد کو بھارت کا پہلا ‘‘ورلڈ ہیریٹیج سٹی’’ اعلان کیا گیا ہے۔ اب احمد آباد کے پاس دھولیرا میں نیا ایئرپورٹ بھی بننے والا ہے۔ اس ایئرپورٹ کو احمدآباد سے کنیکٹ کرنے کے لئے احمد آباد-دھولیرا مونوریل کو بھی حال میں منظوری دی جاچکی ہے۔ اسی طرح احمد آباد اور سورت کو ملک کی اقتصادی راجدھانی ممبئی سے جوڑنے والی بلیٹ ٹرین پر بھی کام جاری ہے۔

ساتھیو،

 

 گجرات کے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہی ترقی میں بھی پچھلے سالوں میں غیرمعمولی ترقی ہوئی ہے۔ خصوصی طور سے گاوؤں میں سڑک، بجلی، پانی کی حالت میں کیسے گزشتہ دو دہائی میں بہتری آئی ہے، وہ گجرات کی ترقی کے سفر کا بہت اہم باب ہے۔ آج گجرات کے ہر گاؤں میں آل ویدر روڈ کنیکٹیویٹی ہے، قبائلی علاقوں کے گاؤوں میں بھی بہتر سڑکیں ہیں۔

ساتھیو،

ہم میں سے زیادہ تر نے وہ دور دیکھا ہے جب گجرات کے گاؤوں تک ٹرین اور ٹینکروں سے پانی پہنچانا پڑتا تھا۔ آج گجرات کے ہر گاؤں تک پانی پہنچ چکا ہے۔ اتنا ہی نہیں اب تقریباً 80فیصد گھروں میں نل سے پانی پہنچ رہا ہے۔ جل جیون مشن کے تحت ریاست میں 10 لاکھ نئے پانی کے کنکشن دیئے گئے ہیں۔ بہت جلد گجرات کے ہر گھر تک نل سے پانی پہنچنے والا ہے۔

ساتھیو،

صرف پینے کا پانی ہی نہیں، بلکہ سینچائی کے لئے بھی آج گجرات کے ان کے علاقوں تک پانی پہنچا ہے، جہاں کبھی سینچائی  کی سہولت غیرممکن مانا جاتا تھا، خواب میں بھی کوئی سوچتا نہیں تھا۔ سردار سروور ڈیم ہو، ساؤنی پروجیکٹ ہو، واٹر گرڈس کا نیٹ ورک ہو، گجرات کے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کو سرسبز وشاداب کرنے کیلئے بہت وسیع کام کیا گیا ہے۔ ماں نرمدا کا پانی اب سینکڑوں کلو میٹر دور کچھ تک پہنچ رہا ہے۔ مائیکرو- ایریگیشن کے معاملے میں بھی گجرات ملک کی سرکردہ ریاستوں میں شامل ہے۔

بھائیو اور بہنو،

گجرات میں کبھی بجلی کا بھی بڑا مسئلہ رہتا تھا۔ گاؤں میں تو اور بحران گہرا تھا۔ آج گجرات میں مناسب بجلی بھی ہے اور شمسی توانائی پیدا کرنےمیں ملک کی سرکردہ ریاست بھی ہے۔ کچھ دن پہلے ہی کچھ میں دنیا کے سب سے بڑے قابل تجدید توانائی کے پلانٹ کیلئے کام شروع ہوا ہے۔ جس میں شمسی بھی ہے، بادی بھی ہے۔ آج کسانوں تک سرودے یوجنا کے تحت سینچائی کے لئے الگ سے بجلی دینے والا گجرات اولین ریاست بن رہا ہے۔ آروگیہ کے سیکٹر میں گجرات نے گاؤں گاؤں میں صحت خدمات کو مسلسل مستحکم کیا ہے۔ پچھلے چھ سالوں میں ملک میں صحت خدمات سے منسلک اسکیمیں شروع ہوئی ہیں، ان کا بھی فائدہ گجرات کو وسیع طور سے مل رہا ہے۔ آیوشمان بھارت یوجنا کے تحت گجرات کے 21 لاکھ لوگوں کو مفت علاج ملا ہے۔ سستی دوائیاں دینے والے سوا پانچ سو سے زیادہ جن اوشدھی کیندر آج گجرات میں کام کررہے ہیں، اس میں سے لگ بھگ 100 کروڑ روپئے کی بچت گجرات کے عام کنبوں، خاص کر متوسط طبقے، پسماندہ طبقے کے کنبے، اگر ان کے گھر میں بیماری ہے تو صرف اس کے سبب 100 کروڑ روپئے جیسی رقم ان کی جیب میں بچی ہے۔ دیہی غریبوں کو سستے گھر دلوانے میں بھی گجرات تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پی ایم آواس یوجنا دیہی کے تحت گجرات کے گاؤوں میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ گھر بنائے گئے ہیں۔ اسی طرح سوچھ بھارت مشن کے تحت گجرات کے گاؤوں میں 35 لاکھ سے زیادہ بیت الخلا تعمیر کیے گئے ہیں۔گجرات کے گاؤں کی ترقی کیلئے کتنی تیزی سے کام ہورہا ہے، اس کی ایک اور مثال ہے ڈیجیٹل سیوا سیتو۔ اس کے ذریعے راشن کارڈ، زمین سے منسلک کاغذات، پنشن اسکیم، کئی اور طرح کے سرٹیفکیٹ، ایسے متعدد خدمات گاؤں کے لوگوں تک پہنچائی جارہی ہیں۔ یہ سیتو پچھلے سال اکتوبر میں ہی لانچ کیا گیا تھا، یعنی چار پانچ مہینے قبل اور مجھے بتایا گیا ہے کہ جلد ہی یہ ڈیجیٹل سیتو آٹھ ہزار گاؤں تک پہنچنے والا ہے۔ اس کے ذریعے 50 سے زیادہ سرکاری خدمات گاؤں کے لوگوں تک براہ راست پہنچے گی۔ میں اس کام کے لئے گجرات سرکار کی پوری ٹیم کو بہت بہت مبارکباد دیتا ہوں۔

ساتھیو،

آج بھارت خوداعتمادی کے ساتھ فیصلے لے رہا ہے، ان پر تیزی سے عمل بھی کررہا ہے۔ آج بھارت صرف بڑا ہی نہیں کررہا ہے، آج بھارت بہتر بھی کررہا ہے۔ آج دنیا کا سب سے بڑا مجسمہ بھارت میں ہے۔ آج دنیا کا سب سے بڑا سستے گھروں کا پروگرام بھارت میں چل رہا ہے۔ آج دنیا کا سب سے بڑا ہیلتھ کیئر ایشیورینس پروگرام بھی بھارت میں چل رہا ہے۔ 6 لاکھ گاؤں کو تیز انٹرنیٹ سے جوڑنے کا عظیم کام بھی بھارت میں ہورہا ہے۔ اور پرسوں ہی کورونا انفیکشن کے خلاف دنیا کاسب سے بڑا ٹیکہ کاری ابھیان بھی بھارت میں ہی شروع ہوا ہے۔

یہاں گجرات میں ہی گزشتہ دنوں دو ایسے کام پورے ہوئے جن کا میں خاص طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ یہ مثال ہے کہ کیسے تیزی سے پورے ہوتے پروجیکٹس، لوگوں کی زندگی بدل دیتے ہیں۔ ایک، گھوگھا اور ہجیرا کے درمیان رو-پیکس سیوا اور دوسری گرنار روپ وے۔

ساتھیو،

پچھلے سال نومبر میں، یعنی  چار مہینے پہلے گھوگھا اور ہجیرا کے درمیان رو-پیکس سیوا شروع ہونے سے، سوراشٹر اور جنوبی گجرات دونوں ہی علاقوں کے لوگوں کا برسوں کا انتظار ختم ہوا ہے،اور وہاں کے لوگوں کو اس کا بہت فائدہ ہورہا ہے۔ اس سیوا سے گھوگھا اور ہجیرا کے درمیان سڑک کی دوری پونے چار سو کلو میٹرکی ہے، وہ سمندر کے راستے صرف 90 کلو میٹر ہی رہ گئی ہے۔ یعنی جس دوری کو طے کرنے میں پہلے دس سے بارہ گھنٹے لگ جاتے تھےاب وہ چار پانچ گھنٹے میں ہی پوری ہوجارہی ہے، یعنی اس سے ہزاروں لوگوں کا وقت بچ رہا ہے، پٹرول ڈیزل پر ہونے والا خرچ بچ رہا ہے، سڑک پر چلنے والی گاڑیاں کم ہونے سے آلودگی کم کرنے میں بھی مدد ملی ہے۔ صرف دو مہینے میں مجھے جو بتایا گیا ہے صرف دو مہینے میں 50 ہزار سے زیادہ لوگ اس نئی سہولت سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ 14 ہزار سے زیادہ گاڑیاں بھی رو-پیکس فیروی سے لے جائی گئی ہیں۔ سورت کے ساتھ، سوراشٹر کی اس نئی کنیکٹیویٹی نے سوراشٹر کے کسانوں اور مویشی پروروں کو پھل، سبزی  اور دودھ، سورت پہنچانے کا آسان راستہ مہیا کرایا ہے۔ سڑک کے راستے پہلے پھل، سبزی اور دودھ جیسی چیزیں خراب ہوجاتی تھیں، پہنچتے پہنچتے ہی برباد ہوجاتی تھیں۔ اب سمندر کے راستے مویشی پروروں اور کسانوں کی پیداوار اور تیزی سے شہروں تک پہنچ رہی ہے۔ وہیں سورت میں تجارت، کاروبار کرنے والے ساتھیوں اور مزدور ساتھیوں کے لئے بھی آنا جانا اس فیری سیوا سے بہت آسان ہوگیا ہے۔

ساتھیو،

اس فیری سروس سے کچھ ہفتے پہلے ہی، پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں گرنار میں روپ وے شروع ہوا تھا، وہ بھی قریب چار پانچ مہینے پہلے۔  پہلے گرنار پہاڑ پر درشن کرنے جانے کیلئے پہلے 9 ہزار سیڑھیاں چڑھ کر جانے کا ہی متبادل تھا۔ اب روپ وے نے عقیدتمندوں کو ایک اور سہولت دی ہے۔ پہلے مندر تک جانے میں پانچ چھ گھنٹے لگ جاتے تھے، اب لوگ کچھ منٹوں میں ہی وہ دوری طے کرلیتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ صرف ڈھائی مہینے میں اب تک دو لاکھ تیرہ ہزار سے زیادہ لوگ اس کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ آپ تصور کرسکتے ہیں۔ صرف ڈھائی مہینے میں دو لاکھ سے زیادہ لوگ۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی خدمت کاکام ہوا ہے۔ اور مجھے پورا یقین ہے خاص کرکے جو بزرگ مائیں، بہنیں، خاندان کے معمر افراد یہ جو سفر کررہے ہیں، میرے جیسے متعدد لوگوں کو ان کے آشیرواد مل رہے ہیں جو ہمیں اور زیادہ کام کرنے کی طاقت دیتے ہیں۔

بھائیو اور بہنو،

نئے بھارت کا ہدف، لوگوں کی ضرورتوں کو سمجھتے ہوئے، امیدوں کو سمجھتے ہوئے تیز رفتار سے کام کرتے ہوئےہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اسی سمت میں ایک اور کوشش ہے جس کی لوگوں میں اتنی بحث نہیں ہوتی، جتنی ہونی چاہئے۔ یہ کوشش ہے۔ مرکزی سطح پر پرگتی نام سے بنایا گیا انتظام۔ میں جب گجرات میں تھا تو سواگت پروگرام کی بڑی چرچا ہورہی تھی۔ لیکن ملک کے اندر  پرگتی پروگرام جو میرا چل رہا ہے، ملک کی الگ الگ اسکیموں میں، انفراسٹرکچر کے پروجیکٹ میں تیزی لاےنے میں اس پرگتی پلیٹ فارم کا بہت بڑا رول ہے۔ یہاں سرکار سے وابستہ لوگ جانتے ہیں کہ پرگتی کی میٹنگوں میں، میں خود بھی گھنٹوں تک بیٹھ کر ریاستوں کے افسران سے ایک ایک پروجیکٹ کی باریکی سے چرچا کرتا ہوں۔ ان کے مسائل کا حل کرنے کیلئے کوشش کرتا ہوں۔ پرگتی کی میٹنگوں میں، میں کوشش کرتا ہوں کہ سبھی اسٹیک ہولڈرس کے ساتھ براہ راست بات چیت کرکے دہائیوں سے معلق پروجیکٹ کا کوئی حل نکل سکے۔ گزشتہ پانچ برس میں پرگتی کی میٹنگوں میں 13 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کے پروجیکٹس کا جائزہ لیا جاچکا ہے۔ ان میٹنگوں میں ملک کے لئے ضروری، لیکن برسوں سے ادھورے متعدد پروجیکٹوں پر نظرثانی کرنے کے بعد ان کا مناسب حل کیاگیا ہے۔

ساتھیو،

برسوں سے اٹکی اور لٹکی اسکیموں کو رفتار ملنے سے سورت جیسے ہمارے شہروں کو رفتارفراہم ہوتی ہے۔ ہماری صنعتوں کو، اوربالخصوص چھوٹی صنعتوں کو، ایم ایس ایم ایز کو، ایک خوداعتمادی حاصل ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے بڑے بازاروں سے مسابقہ کررہے ہیں، تو ان کے پاس بڑے ملکوں جیسا  انفراسٹرکچر بھی ہے۔ آتم نربھر بھارت ابھیان میں ان چھوٹی صنعتوں کیلئے اور بھی کئی بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں۔ چھوٹی صنعتوں کو بحران سے باہر نکالنے کیلئے ایک طرف ہزاروں  کروڑ روپئے کے آسان قرض کا بندوبست کیا گیا ہے۔وہیں دوسری طرف ایم ایس ایم ای کو زیادہ مواقع دینے کیلئے اہم فیصلے بھی لئے گئے۔ سب سے بڑا فیصلہ سرکار نے ایم ایس ایم ایز کی تعریف کو لیکر کیا ہے، سرمایہ کاری کی حد کو لیکر کیا ہے۔ پہلے ایم ایس ایم ایز کی توسیع کرنے سے صنعتکار اس لئے بچتے تھے کیونکہ ان کو سرکار سے ملنے والے  فائدے کھونے کاڈر رہتا تھا۔ اب سرکار نے ایسی بندشوں کو ہٹاکر ان اکائیوں کیلئے نئے راستے کھولے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی نئی تعریف میں مینوفیکچرنگ اور سروس انٹرپرائزیز کی تفریق کو بھی ختم کیا گیا ہے۔ اس سے سروس سیکٹر میں بھی نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔ وہیں سرکاری خرید میں بھی  بھارت کے ایم ایس ایم ایز کو زیادہ سے زیادہ مواقع ملے، اس کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ کوشش یہ ہے کہ ہماری چھوٹی صنعتیں خوب پھلے پھولیں  اور ان میں کام کرنے والے ورکرس ساتھیوں کو بہتر سہولتیں ، بہتر زندگی ملے۔

ساتھیو،

ان عظیم کوششوں کے پیچھے 21ویں صدی کے نوجوان، بھارت کے نوجوانوں کی لاتعداد آرزوئیں ہیں۔ وہ امیدیں، جو بنیادی سہولت اور سیکورٹی کے سبب پوری ہونی مشکل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ان پریشانیوں کو دور کرنا ہے، خوابوں کو حقیقت بنانا ہے اور عہد کو پورا کرکے رہنا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ احمد آباد اور سورت کے یہ میٹرو پروجیکٹ ان شہروں کے ہر ساتھی کی امیدوں اور آرزؤں کو پورا کریں گے۔

اسی یقین  کے ساتھ گجرات کے سبھی بھائیوں- بہنوں کو، بالخصوص احمدآباد اور سورت کے شہری بھائیوں- بہنوں کو میری طرف سے بہت بہت مبارکباد۔

بہت بہت شکریہ!

 

 

-----------------------

ش ح۔م ع۔ ع ن

U NO: 516



(Release ID: 1689811) Visitor Counter : 291