وزیراعظم کا دفتر

مدھیہ پردیش میں ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے منعقدہ کسان سمیلن میں وزیر اعظم کے خطاب کا متن

Posted On: 18 DEC 2020 6:25PM by PIB Delhi

نمسکار

مدھیہ پردیش کے محنتی کسان بھائیو۔ بہنو کو میرا کوٹی کوٹی پرنام۔  آج کے اس خصوصی پروگرام میں مدھیہ پردیش کے کونے کونے سے کسان ساتھی جمع ہوئے ہیں۔ رائے سین میں ایک ساتھ اتنے کسان آئے ہیں۔ ڈجیٹل طریقے سے بھی ہزاروں کسان بھائی بہن ہمارے ساتھ جڑے ہیں۔ میں سبھی کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ گذرے وقت میں ژالہ باری، قدرتی آفات کی وجہ سے مدھیہ پردیش کے کسانوں کا نقصان ہوا ہے۔ آج اس پروگرام میں مدھیہ پردیش کے ایسے 35 لاکھ کاشتکاروں کے بینک کھاتوں میں 1600 کروڑ روپئے منتقل کیے جا رہے ہیں۔ کوئی بچولیہ نہیں، کوئی کمیشن نہیں۔ کوئی کٹ نہیں، کوئی کٹکی نہیں۔ سیدھے کاشتکاروں کے بینک کھاتوں میں مدد پہنچ رہی ہے۔ تکنالوجی کی وجہ ہی ہے کہ یہ ممکن ہوا۔ اور بھارت نے گذشتہ 6۔5 برسوں میں جو یہ جدید نظام قائم کیا ہے، اس کا آج پوری دنیا میں تذکرہ ہو رہا ہے اور اس میں ہمارے ملک کے باصلاحیت نوجوانوں کا بہت بڑا تعاون ہے۔

ساتھیو،

آج یہاں اس پروگرام میں بھی کئی کاشتکاروں کو کسان کریڈٹ کارڈ سونپے گئے ہیں۔ پہلے کسان کریڈٹ کارڈ، ہر کوئی کسان کو نہیں ملتا تھا۔ ہماری سرکار نے کسان کریڈٹ کارڈ کی سہولت ملک کے ہر کاشتکار کے لئے دستیاب کرانے کے لئے قوائد میں تبدیلی کی ہے۔ اب کسانوں کو کھیتی سے جڑے کاموں کے لئے آسانی سے ضروری سرمایہ حاصل ہو رہا ہے۔ اس میں انہیں دوسروں سے زیادہ سود پر قرض لینے کی مجبوری سے بھی نجات ملی ہے۔

ساتھیو،

آج اس پروگرام میں کولڈ اسٹوریج سے متعلق بنیادی ڈھانچہ اور دیگر سہولیات کی رونمائی اور سنگ بنیاد بھی رکھا گیا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ کسان کتنی بھی محنت کر لے، لیکن پھل۔سبزیاں۔ اناج، اس کی اگر صحیح ذخیرہ اندوزی نہ ہو، صحیح طریقے سے نہ ہو، تو اس کا بہت بڑا نقصان ہوتا ہے اور یہ نقصان صرف کسان کا ہی نہیں، یہ نقصان پورے ہندوستان کا ہوتا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ تقریباً ایک لاکھ کروڑ روپئے کے پھل ۔ سبزیاں اور اناج ہر سال اس وجہ سے برباد ہو جاتے ہیں۔ تاہم پہلے اسے لے کر بھی بہت زیادہ بے توجہی پائی جاتی تھی۔ اب ہماری ترجیح اسٹوریج کے نئے مرکز، کولڈ اسٹوریج کا ملک میں زبردست نیٹ ورک اور اس سے جڑا بنیادی ڈھانچہ بنانا ہے۔  میں ملک کی کاروباری دنیا سے، صنعتی دنیا سے بھی گذارش کروں گا کہ جدید نظام تشکیل دینے میں، کولڈ اسٹوریج بنانے میں، خوراک ڈبہ بندی کے نئے سازو سامان لگانے میں ہمارے ملک کی صنعتوں اور کارورباری دنیا کے افراد کو آگے آنا چاہئے۔ سارا کام کاشتکاروں کے سر پر لاد دینا یہ کتنا مناسب ہے، ہو سکتا ہے آپ کی کمائی تھوڑی کم ہوگی تاہم ملک کے کاشتکار کا، ملک کے غریب کا ملک کے گاؤں کا بھلا ہوگا۔

ساتھیو،

بھارت کا کاشتکاری شعبہ، بھارت کا کسان، اب اور پچھڑے پن میں نہیں رہ سکتا۔ دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے کاشتکاروں کو جو آج جدید سہولیات دستیاب ہیں، وہ سہولیات بھارت کے بھی کاشتکاروں کو حاصل ہو، اس میں اب دیر نہیں کی جا سکتی۔ وقت ہمارا انتظار نہیں کر سکتا۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالی منظرنامے میں بھارت کا کاشتکار، سہولیات کے فقدان میں، جدید طور طریقوں کی کمی کی وجہ سے بے یارو مددگار ہو تا جائے، یہ صورتحال قبول نہیں کی جا سکتی۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔ جو کام 25۔30 برس قبل ہو جانے چاہئے تھے، وہ آج کرنے کی نوبت آئی ہے۔ گذشتہ 6 برسوں میں ہماری حکومت نے کاشتکاروں کی ایک ایک ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے متعدد اہم اقدامات کیے ہیں۔ اسی سلسلے کے تحت ملک کے کاشتکاروں کے ان مطالبات کو بھی پورا کیا گیا ہے جن پر برسوں سے محض غور و خوض چل رہا تھا۔ گذشتہ کئی دنوں سے ملک میں کسانوں کے لئے جو نئے قانون بنے، آج کل ان کا بہت تذکرہ چل رہا ہے۔ یہ زرعی اصلاحات، یہ قوانین راتوں رات نہیں آئے ہیں۔ گذشتہ 22۔20 برسوں سے اس ملک کی ہر حکومت نے ریاستوں کی حکومت نے اس پر بڑے پیمانے پر بحث و مباحثہ کیا ہے۔ کم یا زیادہ سبھی تنظیموں نے اس پر بات چیت کی ہے۔

ملک کے کاشتکار، کاشتکاروں کی تنظیمیں، زرعی ماہرین، زرعی ماہر اقتصادیات، زرعی سائنس داں، ہمارے یہاں کے ترقی پسند کسان بھی مسلسل زرعی شعبے میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔ حقیقت میں، ملک کے کاشتکاروں کو ان لوگوں سے جواب مانگنا چاہئے جو پہلے اپنے منشور میں ان اصلاحات کی بہتری کی بات لکھتے تھے، وکالت کرتے تھے اور بڑی بڑی باتیں کرکے کسانوں کے ووٹ حاصل کرتے رہے، لیکن اپنے منشور میں لکھے گئے وعدوں کو کبھی پورا نہیں کیا۔ صرف ان مطالبات کو ٹالتے رہے۔ کیونکہ کسانوں کی ترجیح نہیں دینی تھی۔ اور ملک کا کاشتکار، انتظار ہی کرتا رہا۔ اگر آج ملک کی سبھی سیاسی جماعتوں کے پرانے منشور دیکھے جائیں، ان کے پرانے بیان سنے جائیں، پہلے جو ملک کے زرعی نظام کو سنبھال رہے تھے۔ ایسے بڑے لوگوں کی چٹّھیاں دیکھی جائیں، تو آج جو زرعی اصلاحات ہوئی ہیں، وہ ان سے مختلف نہیں ہیں۔

وہ جن چیزوں کا وعدہ کرتے تھے، وہی باتیں ان زرعی اصلاحات میں کی گئی ہیں۔ مجھے لگتا ہے، ان کو تکلیف اس بات سے نہیں ہے کہ زرعی قوانین میں اصلاحات کیوں ہوئیں۔ ان کو تکلیف اس بات میں ہے کہ جو کام ہم کہتے تھے لیکن کر نہیں پاتے تھے وہ مودی نے کیسے کیا، مودی نے کیوں کیا۔ مودی کو اس کا کریڈٹ کیسے مل جائے؟ میں سبھی سیاسی جماعتوں کو ہاتھ جوڑ کر کہنا چاہتا ہوں ۔ آپ سارا کریڈٹ اپنے پاس رکھ لیجئے، آپ کے سارے پرانے منشورات کو ہی میں کریڈٹ دیتا ہوں۔ مجھے کریڈٹ نہیں چاہئے۔ مجھے کسانوں کی زندگی میں آسانی چاہئے، خوشحالی چاہئے، زراعت میں جدیدیت چاہئے۔ آپ برائے مہربانی ملک کے کسانوں کو ورغلانا چھوڑ دیجئے، انہیں شکوک و شبہات میں مبتلا کرنا چھوڑ دیجئے۔

ساتھیو،

یہ قوانین نافذ ہوئے 7۔6 مہینے سے زیادہ کا وقت ہو چکا ہے۔ لیکن اب اچانک وسوسوں اور جھوٹ کا جال بچھاکر، اپنی سیاسی زمین جوتنے کے کھیل کھیلے جا رہے ہیں۔ کاشتکاروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر حملے کیے جا رہے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا، حکومت بار بار پوچھ رہی ہے، میٹنگ میں بھی پوچھ رہی ہے، عوامی سطح پر بھی پوچھ رہے ہیں، ہمارے وزیر زراعت ٹی وی انٹرویو میں کہہ رہے ہیں، میں خود بول رہا ہوں کہ آپ کو قانون میں کس شق میں کیا دقت ہے بتایئے؟ جو بھی دقت ہے وہ آپ بتایئے، تو ان سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہوتا، اور یہی ان جماعتوں کی سچائی ہے۔

ساتھیو،

جن کی خود کی سیاسی زمین کھسک گئی ہے، وہ کسانوں کی زمین چلی جائے گی، کسانوں کی زمین چلی جائے گی کا ڈر دکھا کر، اپنی سیاسی زمین کھوج رہے ہیں۔ آج جو کسانوں کے نام پر تحریک چلانے نکلے ہیں، جب ان کو حکومت چلانے کا حصہ بننے کا موقع ملا تھا، اس وقت ان لوگوں نے کیا کیا، یہ ملک کو یاد رکھنا ضروری ہے۔ میں آج اہل وطن کے سامنے، ملک کے کاشتکاروں کے سامنے، ان لوگوں کی اصلیت بھی ملک کے لوگوں کے سامنے، میرے کسان بھائیوں ۔ بہنو کے سامنے آج کھولنا چاہتا ہوں، میں بتانا چاہتا ہوں۔

ساتھیو،

کسانوں کی باتیں کرنے والے لوگ آج جھوٹے آنسوں بہانے والے لوگ کتنے بے رحم ہیں اس کا بہت بڑا ثبوت ہے، سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ۔ سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ آئی، لیکن یہ لوگ سوامی ناتھن کمیٹی کی سفارشوں کو آٹھ سال تک دباکر بیٹھے رہے۔ کسان تحریک چلاتے تھے، مظاہرے کرتے تھے لیکن ان لوگوں کے پیٹ کا پانی نہیں ہلا۔ ان لوگوں نے اس امر کو یقینی بنایا کہ ان کی حکومت کو کسان پر زیادہ خرچ نہ کرنا پڑے۔ اس لیے اس رپورٹ کو دبا دو۔ ان کے لئے کسان ملک کی شان نہیں، انہوں نے اپنی سیاست کو بڑھانے کے لئے کسان کا اکثر و بیشتر استعمال کیا ہے۔ جبکہ کاشتکاروں کے لئے حساس، کسانے کے لئے وقف ہماری حکومت کسانوں کو اَن داتا مانتی ہے۔ ہم نے فائلوں کے ڈھیر میں پھینک دی گئی سوامی ناتھن کمیٹی کو باہر نکالا اور اس کی سفارشات نافذ کیں، کاشتکاروں کو لاگت کا ڈیڑھ گنا ایم ایس پی ہم نے دیا۔

ساتھیو،

ہمارے ملک میں کسانوں کے ساتھ دھوکے بازی کی ایک بہت ہی بڑی مثال ہے کانگریس سرکاروں کے ذریعہ کی گئی قرض معافی۔ جب دو سال پہلے مدھیہ پردیش میں انتخابات ہونے والے تھے تو قرض معافی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ سرکار بننے کے 10 دن کے اندر سارے کسانوں کا قرض معاف کر دیا جائے گا۔ کتنے کسانوں کا قرض معاف ہوا، سرکار بننے کے بعد کیا کیا بہانے بنائے گئے، یہ مدھیہ پردیش کے کسان مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ راجستھان کے لاکھوں کسان بھی آج تک قرض معافی کا انتظار کر رہے ہیں۔ کسانوں کو اتنا بڑا دھوکہ دینے والوں کو جب میں کسانوں کے مفاد کی بات کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے بڑی حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے لوگ ہیں، کیا سیاست اس حد تک جاتی ہے۔ کیا کوئی اس حد تک دھوکہ دہی کر سکتا ہے؟ اور وہ بھی بھولے بھالے کسانوں کے نام پر۔ کسانوں کو اور کتنا دھوکہ دیں گے یہ لوگ؟

ساتھیو،

ہر انتخاب سے پہلے یہ لوگ قرض معافی کی بات کرتے ہیں۔ اور قرض معافی کتنی ہوتی ہے؟ سارے کسان اس کے دائرے میں آتے ہیں کیا؟ جو چھوٹا کسان کبھی بینک کا دروازہ نہیں دیکھا ہے۔ جس نے کبھی قرض نہیں لیا، اس کے بارے میں کیا کبھی ایک مرتبہ بھی سوچا ہے ان لوگوں نے؟ اور نیا پرانا ہر تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جتنا یہ اعلان کرتے ہیں، اتنی قرض معافی کبھی نہیں کرتے۔ جتنے پیسے یہ بھیجنے کی بات کرتے رہے ہیں، اتنے پیسے کسانوں تک کبھی پہنچتے ہی نہیں ہیں۔ کسان سوچتا تھا کہ اب تو پورا قرض معاف ہوگا۔ اور بدلے میں اسے کیا  ملتا تھا۔ بینکوں کا نوٹس اور گرفتاری وارنٹ۔ اور اس قرض معافی کا سب سے بڑا فائدہ کسے ملتا تھا؟ ان لوگوں کے اعزاء و اقارب کو۔ اگر میرے میڈیا کے ساتھ تھوڑا کھنگالیں گے تو یہ سب 10۔8 سال پہلے کی رپورٹ میں انہیں پوری طرح تفصیل سے مل جائے گا۔ یہی ان کا کردار ہے۔

کسانوں کی سیاست کا دم بھرنے والوں نے کبھی اس کے لئے تحریک نہیں چلائی، مظاہرے نہیں کیے۔ کچھ بڑے کسانوں کا قرض 10 سال میں ایک بار معاف ہوگیا، ان کی سیاسی روٹی سینک گئی، کام پورا ہوگیا۔ پھر غریب کسان کو کون پوچھتا ہے؟ ووٹ بینک کی سیاست کرنے والے ان لوگوں کو ملک اب اچھی طرح جان گیا ہے، دیکھ رہا ہے۔ ملک ہماری نیت میں گنگا جل اور ماں نرمدا کے پانی کی پاکیزگی بھی دیکھ رہا ہے۔ ان لوگوں نے 10 سال میں ایک مرتبہ قرض معافی کرکے لگ بھگ 50 ہزار کروڑ روپئے دینے کی بات کہی ہے۔ ہماری حکومت نے جو پی ایم کسان سمان یوجنا شروع کی ہے، اس میں ہر سال کسانوں کو تقریباً 45 ہزار کروڑ روپئے ملیں گے۔ یعنی 10 سال میں تقریباً ساڑھے 7 لاکھ کروڑ روپیے۔ کسانوں کے بینک کھاتوں میں سیدھے منتقل۔ کوئی لیکیج نہیں، کسی کو کوئی کمیشن نہیں۔ کٹ کلچر کا نامو نشان نہیں۔

ساتھیو،

اب میں ملک کے کسانوں کو یاد دلاؤں گا یوریا کی۔ یاد کریئے، 8۔7 سال پہلے یوریا کا کیا ہوتا تھا، کیا حال تھا؟ رات رات بھر کسانوں کو یوریا کے لئے قطاروں میں کھڑے رہنا پڑتا تھا کیا یہ سچ نہیں ہے؟ کئی مقامات پر، یوریا کے لئے کسانوں پر لاٹھی چارج کی خبریں عام طور پر آتی رہتی تھیں۔ یوریا کی جم کر کالابازاری ہوتی تھی۔ ہوتی تھی کیا نہیں ہوتی تھی؟ کسان کی فصل، کھاد کی قلت میں برباد ہو جاتی تھی لیکن ان لوگوں کا دل نہیں پسیجتا تھا۔ کیا یہ کسانوں پر ظلم نہیں تھا؟ آج میں یہ دیکھ کر حیران ہوں کہ جن لوگوں کی وجہ سے یہ صورتحال پیدا ہوئی، وہ آج سیاست کے نام پر کھیتی کرنے نکل پڑے ہیں۔

ساتھیو،

کیا یوریا کی دقت کا پہلے کوئی حل نہیں تھا؟ اگر کسانوں کے دکھ درد، ان کی تکلیفوں کے تئیں ذرا بھی فکر ہوتی تو یوریا کی دقت ہوتی ہی نہیں۔ ہم نے ایسا کیا کیا کہ ساری پریشانی ختم ہوگئی ہے؟ آج یوریا کی قلت کی خبریں نہیں آتیں، یوریا کے لئے کسانوں کو لاٹھی نہیں کھانی پڑتیں۔ ہم نے کسانوں کی اس تکلیف کو دور کرنے کے لئے پوری ایمانداری سے کام کیا۔ ہم نے کالابازاری روکی، سخت قدم اٹھائے، بدعنوانی پر نکیل کسی۔ ہم نے اس امر کو یقینی بنایا کہ یوریا کاشتکار کے کھیت میں ہی جائے۔ ان لوگوں کے دور میں سبسڈی تو کسان کے نام پر چڑھائی جاتی تھی، لیکن اس کا فائدہ کوئی اور لیتا تھا۔ ملک کے بڑے بڑے کھاد کارخانے جو تکنیک پرانی ہونے کے نام پر بند کر دیے گئے تھے، انہیں ہم پھر سے شروع کروا رہے ہیں۔

اگلے کچھ برسوں میں اترپردیش کے گورکھپور میں، بہار کے برونی میں، جھارکھنڈ کے سندری میں، اڈیشہ کے تالچیر میں، تلنگانا کے راماگندم میں جدید فرٹیلائزر پلانٹس شروع ہو جائیں گے۔ 60۔50 ہزار کروڑ روپئے صرف اس کام میں خرچ کیے جا رہے ہیں۔ یہ جدید فرٹیلائزر پلانٹس، روزگار کے لاکھوں نئے مواقع پیدا کریں گے، بھارت کو یوریا پیداوار میں خود کفیل بنانے میں مدد کریں گے۔ دوسرے ممالک سے یوریا منگوانے پر بھارت کے جو ہزاروں کروڑ روپئے خرچ ہوتے ہیں، انہیں کم کریں گے۔

ساتھیو،

ان کھاد کارخانوں کو شروع کرنے سے ان لوگوں کو پہلے کبھی کسی نے نہیں روکا تھا۔ کسی نے منع نہیں کیا تھا کہ نئی تکنالوجی کا استعمال مت کرو۔ لیکن یہ نیت نہیں تھی۔ کسانوں کے تئیں عزت و احترام نہیں تھا۔ کسان سے جھوٹے وعدے کرنے والے برسر اقتدار آتے رہو، جھوٹے وعدے کرتے رہو، ملائی کھاتے رہو، یہی ان لوگوں کا کام رہا ہے۔

ساتھیو،

اگر پرانی حکومتوں کو فکر ہوتی تو ملک میں تقریب 100 بڑے سینچائی پروجیکٹ دہائیوں تک نہیں لٹکتے۔ باندھ بنانا شروع ہوا تو پچیسوں سال تک بن ہی رہا ہے۔ باندھ بن گیا تو نہریں نہیں بنیں۔ نہریں بن گئیں تو نہروں کو آپس میں جوڑا نہیں گیا۔ اور اس میں بھی وقت اور پیسے، دونوں کی جم کر بربادی کی گئی۔ اب ہماری سرکار ہزارں کروڑ روپئے خرچ کرکے ان سینچائی پروجیکٹوں کو مشن موڈ میں پورا کرنے میں مصروف ہے تاکہ کسان کے ہر کھیت تک پانی کی رسائی کی ہماری خواہش پوری ہو جائے۔

ساتھیو،

کسانوں کی اِن پٹ لاگت کم ہو، لاگت کم ہو، کھیتی پر ہونے والی لاگت کم ہو، اس کے لیے بھی حکومت نے مسلسل کوششیں کی ہیں۔ کسانوں کو شمسی پمپ بہت ہی کم قیمت پر دینے کے لئے ملک بھر میں بہت بڑی مہم چلائی جا رہی ہے۔ ہم اپنے اَن داتا کو اُورجا داتا بھی بنانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری حکومت اناج پیدا کرنے والے کسانوں کے ساتھ ہی مدھو مکھی پالن، مویشی پالن اور ماہی پروری کو بھی اتنا ہی فروغ دے رہی ہے۔ پہلے کی حکومت کے وقت ملک میں شہد کی پیداوار قریب 76 ہزار میٹرک ٹن ہوتی تھی۔ اب ملک میں ایک لاکھ 20 ہزار میٹرک ٹن سے بھی زیادہ کی پیداوار ہو رہی ہے۔ ملک کا کسان جتنا شہد پہلے کی حکومت کے وقت برآمد کرتا تھا، آج اس سے دوگنا شہد برآمد کر رہا ہے۔

ساتھیو،

ماہرین کا کہنا ہے کہ زرعی شعبے میں ماہی پروری وہ شعبہ ہے جس میں کم لاگت میں سب سے زیادہ منافع ہوتا ہے۔ ماہی پروری کو فروغ دینے کے لئے ہماری حکومت نیلگوں انقلاب اسکیم چلا رہی ہے۔ کچھ وقت پہلے ہی 20 ہزار کروڑ روپئے کے بقدر کی پردھان منتری متسیہ سمپدا یوجنا بھی شروع کی گئی ہے۔ انہیں کوششوں کا نتیجہ ہے کہ ملک میں مچھلی پیداوار کے گذشتہ تمام ریکارڈ ٹوٹ چکے ہیں۔ اب ملک، اگلے تین چار برسوں میں مچھلی برآمدات کو ایک لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ کرنے کے ہدف پر کام کر رہا ہے۔

بھائیو اور بہنو،

ہماری حکومت نے جو قدم اٹھائے، ہماری ریاستی حکومتوں نے جو قدم اٹھائے، اور آج دیکھ رہے ہیں مدھیہ پردیش میں کس طرح سے کسانوں کی فلاح کے لئے کام ہو رہے ہیں۔ وہ مکمل طور پر کسانوں کے لئے وقف ہیں۔ اگر میں وہ سارے قدم گنواؤں تو شاید وقت کم پڑ جائے گا۔ لیکن میں نے کچھ مثالیں اس لیے دی تاکہ آپ ہماری حکومت کی نیت کو پرکھ سکیں، ہمارے ٹریک ریکارڈ کو دیکھ سکیں، ہمارے نیک ارادوں کو سمجھ سکیں۔ اور اسی بنیاد پر میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہم نے حال میں جو زرعی اصلاحات کی ہیں، اس میں عدم اعتمادی کی وجہ ہی نہیں ہے، جھوٹ کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔ میں اب آپ سے زرعی اصلاحات کے بعد بولے جا رہے سب سے بڑے جھوٹ کے بارے میں بات کروں گا۔ بار بار اس جھوٹ کو دوہرایا جا رہا ہے، زور زور سے بولا جا رہا ہے۔ جہاں موقع ملے وہاں بولا جا رہا ہے۔ بغیر سر پیر بولا جا رہا ہے۔ جیسا میں نے پہلے کہا تھا، سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ کو نافذ کرنے کا کام ہماری ہی حکومت نے کیا۔

اگر ہمیں ایم ایس پی ہٹانی ہی ہوتی تو سوامی ناتھن کمیٹی کی رپورٹ نافذ ہی کیوں کرتے؟ آپ نے بھی نہیں کی تھی، ہم بھی نہیں کرتے۔ ہم نے تو ایسا نہیں کیا ہم نے تو نافذ کیا۔ دوسرا یہ کہ ہماری حکومت ایم ایس پی کو لے کر اتنی سنجیدہ ہے کہ ہر مرتبہ بوائی سے قبل ایم ایس پی کا اعلان کرتی ہے۔ اس سے کاشکاروں کو بھی آسانی ہوتی ہے، انہیں بھی پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ اس فصل پر اتنی ایم ایس پی ملنے والی ہے۔ وہ کچھ بدلاؤ کرنا چاہتا ہے تو اسے سہولت ہوتی ہے۔

ساتھیو،

چھ مہینے سے زیادہ کا وقت ہو گیا، جب یہ قانون نافذ کیے گئے تھے۔ قانون بننے کے بعد بھی ویسے ہی ایم ایس پی کا اعلان کیا گیا، جیسے پہلے کیا جاتا تھا۔ کورونا وبائی مرض سے لڑائی کے دوران بھی یہ کام پہلے کی طرح کیا گیا۔ ایم ایس پی پر خرید بھی انہیں منڈیوں میں ہوئی، جن میں قانون بننے سے پہلے ہوتی تھی، قانون بننے کے بعد بھی وہیں ہوئی۔ اگر قانون نافذ ہونے کے بعد بھی ایم ایس پی کا اعلان ہوا، ایم ایس پی پر سرکاری خرید ہوئی، انہیں منڈیوں میں ہوئی، تو کیا کوئی سمجھدار اس بات کو قبول کرے گا کہ ایم ایس پی بند ہو جائے گی؟ اور اس لیے میں کہتا ہوں، اس سے بڑا کوئی جھوٹ نہیں ہو سکتا۔ اس سے بڑی کوئی سازش نہیں ہو سکتی۔ اور اس لیے، میں ملک کے ہر ایک کسان کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ پہلے جیسے ایم ایس پی دی جاتی تھی، ویسے ہی دی جاتی رہے گی، ایم ایس پی نہ بند ہوگی، نہ ختم ہوگی۔

ساتھیو،

اب میں آپ کو جو آنکڑے دے رہا ہوں، وہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دیں گے۔ سابقہ حکومتوں کے وقت گیہوں پر ایم ایس پی تھی 1400 روپئے فی کوئنٹل۔ ہماری حکومت فی کوئنٹل گیہوں پر 1975 روپئے ایم ایس پی دے رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے وقت دھان پر ایم ایس پی تھی 1310 روپئے فی کوئنٹل۔ ہماری حکومت فی کوئنٹل دھان پر تقریباً 1870 روپئے ایم ایس پی دے رہی ہے۔ سابقہ حکومت میں جوار پر ایم ایس پی تھی 1520 روپئے فی کوئنٹل۔ ہماری حکومت جوار پر فی کوئنٹل 2640 روپئے ایم ایس پی دے رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے دور میں مسور کی دال پر ایم ایس پی تھی 2950 روپئے۔ ہماری حکومت فی کوئنٹل مسور دال پر 5100 روپئے ایم ایس پی دے رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے دور میں چنے پر ایم ایس پی تھی 3100 روپئے۔ ہماری حکومت اب چنے پر فی کوئنٹل 5100 روپئے ایم ایس پی دے رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے دور میں تور دال پر ایم ایس پی تھی 4300 روپئے فی کوئنٹل۔ ہماری حکومت تور دال پر فی کوئنٹل 6000 روپئے ایم ایس پی دے رہی ہے۔ سابقہ حکومت کے وقت مونگ دال پر ایم ایس پی تھی 4500 روپئے فی کوئنٹل ۔ ہماری حکومت مونگ دال پر قریب 7200 روپئے ایم ایس پی دے رہی ہے۔

ساتھیو،

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری حکومت ایم ایس پی وقت وقت پر بڑھانے پر کتنی توجہ دیتی ہے، کتنی سنجیدگی سے غور کرتی ہے۔ ایم ایس پی بڑھانے کے ساتھ ہی حکومت کا زور اس بات پر بھی رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اناج کی خریداری ایم ایس پی پر کی جائے۔ سابقہ حکومت نے اپنے پانچ برسوں میں کسانوں سے تقریباً 1700 لاکھ میٹرک ٹن دھان خریدا تھا۔ ہماری حکومت نے اپنے پانچ برسوں میں 3000 لاکھ میٹرک ٹن دھان کسانوں سے ایم ایس پی پر خریدا، قریب قریب دوگنا۔ سابقہ حکومت نے اپنے پانچ برسوں میں تقریباً پونے چار لاکھ میٹرک ٹن تلہن خریدا تھا۔ ہماری حکومت نے اپنے پانچ برس میں 56 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ ایم ایس پی پر خریدا ہے۔ اب سوچئے، کہاں پونے چار لاکھ اور کہاں 56 لاکھ !!! یعنی ہماری حکومت نے نہ صرف ایم ایس پی میں اضافہ کیا، بلکہ زیادہ تعداد میں کسانوں سے ان کی پیداوار کو ایم ایس پی پر خریدا ہے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کسانوں کے کھاتے میں پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ پیسہ پہنچا ہے۔ سابقہ حکومتوں کے پانچ برسوں میں کسانوں کو دھان اور گیہوں کی ایم ایس پی پر خریدنے کے بدلے 3 لاکھ 74 ہزار کروڑ روپئے ہی ملے تھے۔ ہماری حکومت نے اتنے ہی سال میں گیہوں اور دھان کی خرید کرکے کسانوں کو 8 لاکھ کروڑ روپئے سے زیادہ دیے ہیں۔

ساتھیو،

سیاست کے لئے کسانوں کا استعمال کرنے والے لوگوں نے کسان کے ساتھ کیا برتاؤ کیا، اس کی ایک اور مثال ہے، دالوں کی کھیتی۔ 2014 کے وقت کو یاد کیجئے، کس  طرح ملک میں دالوں کا بحران تھا۔ ملک میں برپا شوروغل کے درمیان دال غیرممالک سے منگائی جاتی تھی۔ ہر رسوئی کا خرچ دال کی بڑھتی قیمتوں کے ساتھ بڑھ رہا تھا۔ جس ملک میں دنیا میں سب سے زیادہ دال کی کھپت ہے، اس ملک میں دال پیدا کرنے والے کسانوں کو تباہ کرنے میں ان لوگوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کسان پریشان تھا اور وہ مزے وہ لے رہے تھے، دوسرے ممالک سے دال منگوانے کے کام میں ہی ان کو مزہ آتا تھا۔ یہ بات میں مانتا ہوں، کبھی کبھی قدرتی آفت آ جائے، اچانک کوئی بحران آ جائے، تو بیرونِ ملک سے دال منگوائی جا سکتی ہے ملک کے شہریوں کو بھوکا نہیں رکھا جا سکتا لیکن ہمیشہ ایسا کیوں ہو؟

ساتھیو،
یہ لوگ دال پر زیادہ ایم ایس پی نہیں دیتے تھے اور اس کی خرید بھی نہیں کرتے تھے۔ حالت یہ تھی کہ 2014 سے پہلے کے 5 سال ان کے 5 سال انہوں نے صرف ڈیڑھ لاکھ میٹرک ٹن دال ہی کسانوں سے خریدی۔ اس آنکڑے کو یاد رکھئے گا۔ صرف ڈیڑھ میٹرک ٹن دال۔ جب سال 2014 میں ہماری حکومت آئی تو ہم نے پالیسی بھی بدلی اور بڑے فیصلے بھی لیے۔ ہم نے کسانوں کو بھی دال کی پیداوار کے لئے ترغیب فراہم کی۔

بھائیو اور بہنو،

ہماری حکومت نے کسانوں سے پہلے کے مقابلے میں 112 لاکھ میٹرک ٹن دال ایم ایس پی پر خریدی۔ سوچئے، ڈیڑھ لاکھ ان کے زمانے میں وہاں سے ہم سیدھے لے گئے 112 لاکھ میٹرک ٹن! ان لوگوں نے اپنے 5 برسوں میں دال کسانوں کو، دال پیدا کرنے والے کسانوں کو کتنا روپیہ دیا؟ ساڑھے 6 سو کروڑ روپئے دیے، ہماری حکومت نے کیا کیا، ہم نے تقریباً 50 ہزار کروڑ روپئے دال پیدا کرنے والے کسانوں کو دیے۔ آج دال کے کسان کو بھی زیادہ پیسہ مل رہا ہے، دال کی قیمتیں بھی کم ہوئی ہیں، جس سے غریب کو سیدھا فائدہ ہوا ہے۔ جو لوگ کسانوں کو نہ ایم ایس پی دے سکے، نہ ایم ایس پی پر ڈھنگ سے خرید سکے، وہ ایم ایس پی پر کسانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔

ساتھیو،

زرعی اصلاحات سے متعلق ایک اور جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے اے پی ایم سی یعنی ہماری منڈیوں کو لے کر۔ ہم نے قانون میں کیا کیا ہے؟ ہم نے قانون میں کسانوں کو آزادی دی ہے، نیا متبادل دیا ہے۔ اگر ملک میں کسی کو صابن فروخت کرنا ہو تو حکومت یہ طے نہیں کرتی کہ صرف اس دوکان پر فروخت کر سکتے ہو۔ اگر کسی کو اسکوٹر فروخت کرنا ہو تو حکومت یہ طے نہیں کرتی کہ صرف اسی ڈیلر کو فروخت کر سکتے ہو۔ لیکن پچھلے 70 برسوں سے حکومت کسان کو یہ ضرور بتا رہی ہے کہ آپ صرف اسی منڈی میں اپنا اناج بیچ سکتے ہو۔ منڈی کے علاوہ کسان چاہ کر بھی اپنی فصل کہیں اور نہیں فروخت کر سکتا تھا۔ نئے قانون میں ہم نے صرف اتنا کہا ہے کہ کسان، اگر اس کو فائدہ نظر آتا ہے تو پہلے کی طرح جا کر منڈی میں فروخر کریں اور باہر اس کو کیا فائدہ ہوتا ہے، تو منڈی کے باہر جانے کا اس کو حق ملنا چاہئے۔ اس کی مرضی کو، کیا جمہوریت میں میرے کسان بھائی کو اتنا حق نہیں ہو سکتا ہے۔

اب جہاں کسان کو فائدہ ملے گا، وہاں تو اپنی پیداوار فروخت کرے گا۔ منڈی بھی چالو ہے منڈی میں جاکر فروخت کر سکتا ہے، جو پہلے تھا وہ بھی کر سکتا ہے۔ کسان کی مرضی پر کرے گا۔ بلکہ نئے قانون کے بعد تو کسان نے اپنا فائدہ دیکھ کر اپنی پیداوار کو فروخت کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ حال ہی میں ایک جگہ پر دھان پیدا کرنے والے کسانوں نے مل کر ایک چاول کمپنی کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے۔ اس سے ان کی آمدنی 20 فیصد بڑھی ہے۔ ایک اور جگہ پر آلو کے ایک ہزار کسانوں نے مل کر ایک کمپنی سے سمجھوتہ کیا ہے۔ اس کمپنی نے انہیں لاگت سے 35 فیصد زیادہ کی گارنٹی دی ہے۔ ایک اور جگہ کی خبر میں پڑھ رہا تھا جہاں ایک کسان نے کھیت میں لگی مرچ اور کیلا، سیدھے بازار میں فروخت کیا تو اسے پہلے سے دوگنی قیمت حاصل ہوئی۔ آپ مجھے بتایئے، ملک کے ہر ایک کسان کو یہ فائدہ، یہ حق ملنا چاہئے یا نہیں ملنا چاہئے؟ کسانوں کو صرف منڈیوں سے باندھ کر گذشتہ کئی دہائیوں میں جو گناہ کیا گیا ہے، یہ زرعی اصلاحات قوانین اس کا کفارہ ادا کر رہے ہیں۔ اور میں پھر دوہراتا ہوں۔

نئے قانون کے بعد، چھ مہینے ہو گئے قانون نافظ ہوگیا، ہندوستان کے کسی بھی کونے میں کہیں پر بھی ایک بھی منڈی بند نہیں ہوئی ہے۔ پھر کیوں یہ جھوٹ پھیلایا جا رہا ہے؟ سچائی تو یہ ہے کہ ہماری سرکار اے پی ایم سی کو جدید بنانے پر، ان کو کمپیوٹر کی سہولتوں سے آراستہ کرنے پر 500 کروڑ روپئے سے زیادہ خرچ کر رہی ہے۔ پھر یہ اے پی ایم سی بند کی جانے کی بات کہاں سے آ گئی؟ بغیر سر۔ پیر بس جھوٹ پھیلاؤ، بار بار بولو۔

ساتھیو،

نئی زرعی اصلاحات کو لے کر تیسرا بہت بڑا جھوٹ چل رہا ہے زرعی معاہدے کو لے کر۔ ملک میں زرعی معاہدہ کوئی نئی چیز نہیں ہے؟ کیا کوئی نیا قانون بناکر ہم اچانک زرعی معاہدے کو نافظ کر رہے ہیں؟ ہمارے ملک میں برسوں سے زرعی معاہدے کا نظام چلا آرہا ہے۔ ایک دو نہیں بلکہ مختلف ریاستوں میں پہلے سے زرعی معاہدے ہوتے رہے ہیں۔ ابھی کسی نے مجھے ایک اخبار کی رپورٹ بھیجی 8 مارچ 2019 کی۔ اس میں پنجاب کی کانگریس حکومت، کسانوں اور ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے درمیان 800 کروڑ روپئے کے زرعی معاہدے کا جشن منا رہی ہے، اس کا خیر مقدم کر رہی ہے۔ پنجاب کے میرے کسان بھائی بہنوں کی کھیتی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہو، یہ ہماری حکومت کے لئے بھی خوشی کی ہی بات ہے۔

ساتھیو،

ملک میں نئے زرعی معاہدے سے متعلق پہلے جو بھی طور طریقے چل رہے تھے، اس میں کسانوں کو بہت جوکھم تھا، بہت خطرہ تھا۔ نئے قانون میں ہماری حکومت نے زرعی معاہدے کے دوران کسان کو تحفظ دینے کے لئے قانونی شرائط طے کی ہیں۔ ہم نے طے کیا ہے کہ زرعی معاہدے میں سب سے بڑا فائدہ اگر دیکھا جائے گا تو وہ کسانوں کا دیکھا جائے گا۔ ہم نے قانوناً طے کیا ہے کہ کسان سے معاہدہ کرنے والا اپنی ذمہ داری سے راہ فرار اختیار نہیں کر پائے گا۔ کسان سے اس نے جو وعدہ کیا ہوگا، وہ اسپانسر کرنے والے کو، وہ شراکت دار کو اسے پورا کرنا ہی ہوگا۔ نئے کسان قانون نافذ ہونے کے بعد کتنی ہی مثالیں سامنے آ رہی ہیں جہاں کسانوں نے اپنے علاقے کے ایس ڈی ایم سے شکایت کی اور شکایت کے کچھ ہی دن کے اندر، کسانوں کو اپنا بقایہ مل گیا۔

ساتھیو،

زرعی معاہدے میں صرف فصلوں یا پیداوار کا سمجھوتہ ہوتا ہے۔ زمین کسان کے پاس ہی رہتی ہے، معاہدہ اور زمین کا کوئی لین دین ہی نہیں ہے۔ قدرتی آفات آ جائے، تو بھی معاہدہ کے مطابق کسان کو پورے پیسے ملتے ہیں۔ نئے قوانین کے مطابق، اگر اچانک، یعنی جو معاہدہ طے ہوا ہے لیکن جو شراکت دار ہے، جو پونجی لگا رہا ہے اور اچانک منافع بڑھ گیا تو اس قانون میں ایسا پروویژن ہے کہ جو بڑھا ہوا منافع ہے کسان کو اس میں سے بھی کچھ حصہ دینا پڑے گا۔

ساتھیو،

معاہدہ کرنا ہے یا نہیں کرنا ہے، یہ کوئی ضروری نہیں ہے۔ یہ کسان کی مرضی ہے۔ کسان چاہے گا تو کرے گا، نہیں چاہے گا تو نہیں کرے گا، لیکن کوئی کسان کے ساتھ بے ایمانی نہ کر دے، کسان کے بھولے پن کا فائدہ اٹھا نہ لے اس کے لئے قانونی نظام لایا گیا ہے۔ نئے قانون میں جو سختی دکھائی گئی ہے، وہ اسپانسر کرنے والے کے لئے ہے کسان کے لئے نہیں ہے۔ اسپانسر کرنے والے کو معاہدہ ختم کرنے کا حق نہیں ہے۔ اگر وہ معاہدہ ختم کرے گا تو اسے بھاری جرمانہ کسان کو دینا ہوگا۔ لیکن وہی معاہدہ، کسان ختم کرنا چاہے، تو کسی بھی وقت بغیر کسی جرمانے کے وہ کسان اپنا فیصلہ لے سکتا ہے۔ ریاستی حکومتوں کو میرا مشورہ ہے کہ آسان زبان میں، آسان طریقے سے سمجھ میں آنے والے زرعی معاہدے اس کا خاکہ وضع کرکے کسانوں کو دے کر رکھنا چاہئے تاکہ کوئی کسان سے بے ایمانی نہ کر سکے۔

ساتھیو،

مجھے خوشی ہے کہ ملک بھر میں کسانوں نے نئی زرعی اصلاحات کو نہ صرف گلے لگایا ہے بلکہ شکوک و شبہات پھیلانے والوں کو بھی سرے سے نکار رہے ہیں۔ جن کسانوں میں ابھی تھوڑی سی بھی غلط فہمی باقی ہے ان سے میں پھر کہوں گا کہ آپ ایک مرتبہ پھر سوچئے۔ جو ہوا ہی نہیں، جو ہونے والا ہی نہیں ہے، اس کا ڈر پھیلانے والی جماعت سے ہوشیار رہیں، ایسے لوگوں کو میرے کسان بھائیو بہنو، پہچانئے۔ ان لوگوں نے ہمیشہ کسانوں کو دھوکہ دیا ہے۔ ان کا استعمال کیا ہے اور آج بھی یہی کر رہے ہیں۔ میری ان باتوں کے بعد بھی، حکومت کی ان کوششوں کے بعد بھی، اگر کسی کو کوئی شک و شبہ ہے تو ہم سر جھکا کر، کسان بھائیوں کے سامنے ہاتھ جوڑکر، بہت ہی شائستگی کے ساتھ، ملک کے کسان کے مفاد میں، ان کی پریشانی حل کرنے کے لئے، ہر مسئلے پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ملک کا کسان، ملک کے کسانوں کا مفاد، ہماری اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔

ساتھیو،

آج میں نے کئی باتوں پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ کئی موضوعات پر حقیقت ملک کے سامنے رکھی ہے۔ ابھی 25 دسمبر کو، اٹل جی کے یوم پیدائش کے موقع پر ایک مرتبہ پھر میں اس موضوع پر ملک کے کسانوں کے ساتھ تفصیل سے گفتگو کرنے والا ہوں۔ اس دن پی ایم کسان سمان ندھی کی ایک اور قسط کروڑوں کاشتکاروں کے بینک کھاتوں میں ایک ساتھ منتقل کی جائے گی۔ بھارت کا کاشتکار بدلتے وقت کے ساتھ چلنے کے لئے، آتم نربھر بھارت بنانے کے لئے میرے ملک کا کسان چل پڑا ہے۔

نئی عہدبستگی کے ساتھ، نئے راستوں پر ہم چلیں گے اور یہ ملک کامیاب ہوگا اس ملک کا کسان بھی کامیاب ہوگا۔ اسی یقین کے ساتھ میں پھر ایک مرتبہ مدھیہ پردیش سرکار کا خیر مقدم کرتے ہوئے، آج مدھیہ پردیش کے لاکھوں ۔ لاکھوں کسانوں کے ساتھ مجھے اپنی باتیں بتانے کا موقع ملا اس کے لئے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں پھر ایک مرتبہ آپ سب کو بہت بہت نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔

بہت بہت شکریہ۔

****

م ن ۔ اب ن

U: 8226



(Release ID: 1681903) Visitor Counter : 1057