وزیراعظم کا دفتر

کووڈ-19 پر وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ورچوول میٹنگ میں وزیراعظم کے اختتامی کلمات کا متن

Posted On: 24 NOV 2020 6:54PM by PIB Delhi

نئی دہلی:24 نومبر، 2020:سب سے پہلے تو میں سبھی قابل احترام وزرائے اعلیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے وقت بھی نکالا اور بہت سنجیدگی کے ساتھ اپنی باتیں رکھی ہیں۔ لیکن میری آپ سے گزارش ہے کہ اب تک جو کچھ بھی بات چیت ہوئی ہے، اس میں سبھی ریاست شامل ہیں،افسر کی سطح پر شامل ہیں، دنیا کے تجربات کا بھی شیئر ہے، لیکن پھر بھی وزرائے اعلیٰ کا اپنا ایک خاص تجربہ ہوتا ہے۔

عوامی زندگی میں کام کرنے والے لوگوں کی ایک خاص نقطہ نظر ہوتا ہے۔ کیوں کہ ان چیزوں کو اگر آپ کی تجاویز ملیں گی تو میری گزارش ہے کہ آپ تحریری طور پر اگر ہوسکے اتنی جلدی، کیونکہ آج بھی کچھ اچھے مسائل اٹھائے سب نے کہ یہ ہو، یہ ہو، یہ ہو، اس سے بھی زیادہ ہوں گے، یہ اگر مل جائیں گے تو ہمیں اپنی حکمت عملی وضع کرنے میں سہولت ہوگی۔ اور یہ کوئی کسی پر تھوپ نہیں سکتا ہے۔ حکومت ہند فیصلہ کرے کہ ہم یہ کریں گے، اور ریاستی حکومت۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا۔ ہم سب کو ملکر ہی اس چیز کو آگے بڑھانا پڑے گا اور اس لئے سب کے موضوعات کی بڑی اہمیت ہے۔

کورونا انفیکشن سے جڑے جو پرزنٹیشن ہوئے، ان میں بھی کافی جانکاریاں اُبھر کر آئی ہیں۔ آج میں نے شروعات میں کچھ وزرائے اعلیٰ سے بات کی تھی،جہاں صورتحال ذرا بگڑ رہی ہے، جہاں تک ویکسین کا سوال ہے ، ویکسین کی صورتحال اور ڈسٹری بیوشن کو لیکر بھی جو کچھ بھی بات چیت ہوئی ہے ایک طرح سے میڈیا میں جو چلتا ہے وہ الگ چیز ہوتی ہے۔ ہمیں تو ان چیزوں کو مصدقہ طریقے سے ہی آگے بڑھانا پڑیگا کیوں کہ ہم سسٹم کا حصہ ہیں۔ لیکن پھر بھی کافی تصویر صاف ہوئی ہے۔

ایک وقت تھا جب ہم سبھی کے سامنے چیلنج ایک انجام طاقت سے لڑنے کا تھا۔ لیکن ملک کی مربوط اور مشترکہ کوششوں نے اس چیلنج سے مقابلہ کیا، نقصان کو کم سے کم رکھا۔

آج صحتیابی کی شرح اور  اموات کی شرح دونوں ہی معاملوں میں ہندوستان دنیا کے زیادہ تر ملکوں سے بہت سنبھلی ہوئی صورتحال میں ہے۔ ہم سبھی کے انتھک کوششوں سے ملک میں ٹیسٹنگ سے لیکر ٹریٹمنٹ کا ایک بہت بڑا نیٹ ورک آج کام کررہا ہے۔ اس نیٹ ورک کی لگاتار توسیع بھی کی جارہی ہے۔

پی ایم کیئرس کے ذریعے آکسیجن اور وینٹی لیٹر دستیاب کرانے پر بھی خاص زور ہے۔ کوشش یہ ہے کہ ملک کے میڈیکل کالج اور ضلع اسپتالوں کو آکسیجن جنریشن کے معاملے میں خودکفیل بنایا جائے۔ اس لئے ابھی 160 سے زیادہ نئے آکسیجن پلانٹس کی تعمیر کا عمل پہلے ہی شروع کردیا گیا ہے۔ پی ایم کیئر فنڈس سے ملک کے الگ الگ اسپتالوں کو ہزاروں وینٹی لیٹرس ملنے بھی یقینی ہوئے ہیں۔ وینٹی لیٹرس کے لئے پی ایم کیئرس فنڈس سے 2 ہزار کروڑ روپئے پہلے ہی منظور کیے گئے ہیں۔

ساتھیو،

کورونا سے مقابلے کے گزشتہ 10-8 مہینے کے تجربات کے بعد ملک کے پاس وافر ڈیٹا ہے،کورونا کے مینجمنٹ کو لیکر ایک وسیع تجربہ ہے۔ آگے کی حکمت عملی بناتے وقت ہمیں گزشتہ کچھ مہینوں کے دوران ملک کے لوگوں نے، ہمارے سماج نے کیسے ری ایکٹ کیا ہے، مجھے لگتا ہے کہ اس کو بھی ہمیں سمجھنا ہوگا۔ دیکھئے،  کورونا کے دوران بھارت کے لوگوں کا رویہ بھی ایک طرح سے الگ الگ مرحلوں میں رہا ہے اور الگ الگ جگہ پر الگ الگ رہا ہے۔

جیسے ہم موٹا موٹا  دیکھیں تو پہلا مرحلہ تھا بڑا ڈر تھا، خوف تھا، کسی کو یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوجائیگا اور پوری دنیا کا یہ حال تھا۔ ہر کوئی ڈرا ہوا تھا اور اسی حساب سے ہر کوئی ری ایکٹ کررہا تھا۔ ہم نے دیکھا شروعات میں خودکشی تک کے واقعات ہوئے تھے۔ پتا چلا کورونا ہوا تو خودکشی کرلی۔

اس کے بعد دھیرے دھیرے دوسرا مرحلہ آیا۔ دوسرے مرحلے میں لوگوں کے من میں خوف کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے اندیشہ بھی جڑ گیا۔ ان کو لگنے لگا کہ اس کو کورونا ہوگا مطلب کوئی گمبھیر معاملہ ہے، دور بھاگو۔ ایک طرح سے گھر میں نفرت کا ماحول بن گیا۔ اور بیماری کی وجہ سے سماج سے کٹنے کا ڈر لوگوں کو لگنے لگا۔ اس وجہ سے کورونا کے بعد کئی لوگ انفیکشن کو چھپانے لگے۔ ان کو لگا یہ تو بتانا نہیں چاہئے، نہیں تو سماج سے میں کٹ جاؤں گا۔ اب اس میں سے بھی دھیرے دھیرے سمجھے لوگ، اس سے باہر آئے۔

اس کے بعد آیا تیسرا مرحلہ۔ تیسرے مرحلے میں لوگ کافی حد تک سنبھلنے لگے۔ اب انفیکشن کو تسلیم بھی کرنے لگے اور اعلان بھی کرنے لگے کہ مجھے یہ تکلیف ہے، میں آئیسولیشن کررہا ہوں، میں کوارنٹائن کررہاہوں، آپ بھی کریئے۔ یعنی ایک طرح سے لوگ بھی اپنے آپ لوگوں کو سمجھانے لگے۔

دیکھئے آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ لوگوں میں زیادہ سنجیدگی بھی آنے لگی، اور ہم نے دیکھا کہ لوگ الرٹ بھی ہونے لگے۔ اور اس تیسرے مرحلے کے بعد ہم چوتھے مرحلے میں پہنچ گئے ہیں۔ جب کورونا سے ری کوری کا ریٹ بڑھا ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ وائرس نقصان نہیں کررہا ہے، یہ کمزور ہوگیا ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ اگر بیمار ہو بھی گئے تو ٹھیک ہو ہی جائیں گے۔

اس وجہ سے لاپرواہی کا یہ اسٹیج بہت بڑا ہوگیا ہے۔ اور اس لئے میں نے اپنے تیوہاروں کی شروعات میں ہی بالخصوص قوم کے نام پیغام دیکر کے ، سب کو ہاتھ جوڑ کرکے التجا کی تھی کہ ڈھلائی مت برتیئے کیوں کہ کوئی ویکسین نہیں ہے، دوائی نہیں ہے ہمارے پاس، ایک ہی راستہ بچا ہے کہ ہم ہر ایک کو کیسے اپنے آپ بچائیں۔ اور ہماری جو غلطیاں ہوئیں وہی ایک خطرہ بن گیا، تھوڑی ڈھلائی آگئی۔

اس چوتھے مرحلے میں لوگوں کو کورونا کی گمبھیرتا کے تئیں ہمیں  پھر سے بیدار ہونا ہی ہوگا۔ ہم ایک دم سے ویکسین پر شفٹ ہوں، جس کو کام کرنا ہے کریں گے۔ ہمیں تو کورونا پر ہی فوکس کرنا ہے۔ ہمیں کسی بھی حالت میں ڈھلائی نہیں برتنے دینی ہے۔ ہاں، شروع میں کچھ بندھن اس لئے لگانے پڑے تاکہ انتظامات بھی کرنے تھے، لوگوں کو  تھوڑا اکٹھا بھی کرنا تھا۔ اب ہمارے پاس ٹیم تیار ہے، لوگ بھی تیار ہیں۔ تھوڑی صبر رکھیں گے تو چیزیں سنبھل سکتی ہیں۔ جو جو چیز ہم تیار کریں اس کو اسی طرح لاگو کریں اور ہمیں آگے اب کوئی بڑھے نہیں، اس کی فکر ضرور کرنی ہوگی، کوئی نئی گڑ بڑ نہ ہو۔

آفت کے گہرے سمندر سے نکل کر ہم کنارے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہم سبھی کے ساتھ وہ پرانی جو ایک شعرو شاعری چلتی ہے، ایسا نہ ہو جائے۔

ہماری کشتی بھی

وہاں ڈوبی جہاں پانی کم تھا۔

یہ صورتحال ہمیں نہیں آنے دینی ہے۔

ساتھیو،

آج ہم دنیا بھر میں دیکھ رہے ہیں کہ جن ملکوں میں کورونا کم ہورہا تھا، آپ کو پورا چارٹ بتایا کیسے تیزی سے انفیکشن پھیل رہا ہے۔ ہمارے یہاں بھی کچھ ریاستوں میں یہ رجحان قابل تشویش ہی ہے۔ اس لئے ہم سبھی کو، حکومت، انتظامیہ کو پہلے سے بھی زیادہ بیدار، زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ٹرانسمیشن کو کم کرنے کیلئے اپنی کوششوں کو تھوڑی اور رفتار دینی ہوگی۔ ٹیسٹنگ ہو، کنفرمیشن، کنٹیکٹ ٹریسنگ اور ڈیٹا سے جڑی کسی بھی طرح کی کمی کو ہمیں اولین ترجیح دیتے ہوئے اس کو ٹھیک کرنا ہوگا۔ پوزیٹیویٹی ریٹ کو پانچ فیصد کے دائرے میں لانا ہی ہوگا اور میں مانتا ہوں چھوٹی چھوٹی اکائیوں پر دھیان دینا ہوگا کہ یہ کیوں بڑھا، آدھا کیوں بڑھا، دو کیوں بڑھا۔ ہم ریاست کے اسکیل پر بات چیت کرنے کے بجائے جتنی لوکلائز چرچا کریں گے شاید ہم ایڈریس جلدی کرپائیں گے۔

دوسرا ہم سب نے تجربہ کیا ہے کہ آرٹیفیشیل ٹیسٹ کا تناسب بڑھنا چاہئے۔ جو گھروں میں آئیسولیٹیڈ مریض ہیں، ان کی مانیٹرنگ زیادہ بہتر طریقے سے کرنی ہوگی۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ اگر وہاں تھوڑی بھی ڈھلائی ہوئی وہیں مریض بہت خطرناک صورت میں اسپتال آتا ہے پھر ہم بچا نہیں پاتے ہیں۔ جو گاؤں اور کمیونٹی کی سطح پر صحت مراکزإ ہیں، ان کو بھی ہمیں زیادہ آلات سے لیس کرنا ہوگا۔ گاؤں کے آس پاس بھی انفرانسٹرکچر ٹھیک رہے، آکسیجن کی سپلائی مناسب مقدار میں رہے، یہ ہمیں دیکھنا ہوگا۔

ہم لوگوں کا ہدف ہونا چاہئے کہ اموات کی شرح ایک فیصد سے بھی نیچے لائیں۔ اور وہ بھی میں نے جیسے کہا، چھوٹے چھوٹے علاقوں میں دیکھا جب ایک موت ہوئی، کیوں ہوئی، جتنا زیادہ فوکس کریں گے، تب حالات کو سنبھال پائیں گے۔ اور سب سے بڑی بات، بیداری مہموں میں کوئی کمی نہ آئے۔ کورونا سے بچاؤ کے لئے جو ضروری میسیجنگ ہے، اس کے لئے سماج کو جوڑے رکھنا ہوگا۔ جیسے کچھ وقت پہلے ہر تنظیم، ہربااثر شخص کو ہم نے جوڑا تھا، انہیں پھر سرگرم کرنا ہوگا۔

ساتھیو،

آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ کورونا کی ویکسین کو لیکر بین الاقوامی سطح پر اور ملکی سطح پر کس طرح کی خبریں آرہی ہیں۔ آج دنیا میں بھی اور ملک میں بھی جیسا ابھی آپ کو پرزنٹیشن میں پورا ڈٹیل بتایا گیا ہے، قریب قریب آخری دور میں ویکسین کی ریسرچ پر کام پہنچا ہے۔ حکومت ہند ہر ڈیولپمنٹ پر باریکی سے نظر رکھے ہوئے ہے، ہم سب کے  رابطے میں بھی ہیں۔ اور ابھی یہ طے نہیں ہوا ہے کہ ویکسین کی ایک ڈوز ہوگی، دو ڈوز ہوں گی یا تین ڈوز ہوں گی۔ یہ بھی طے نہیں ہے کہ اس کی قیمت کتنی ہوگی، یہ کیسی ہوگی۔

یعنی ابھی بھی ان ساری چیزوں کے سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں۔ کیوں کہ جو اس کے بنانے والے ہیں، دنیا میں جس طرح کے کارپوریٹ ورلڈ بھی ہیں ان کا بھی کمپٹیشن ہے۔ دنیا کے ملکوں کے بھی اپنے اپنے ڈپلومیٹک انٹریسٹ ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او سے بھی ہمیں انتظار کرنا پڑتا ہے تو ہمیں ان چیزوں کو عالمی تناظر میں ہی آگے بڑھنا پڑیگا۔  ہم انڈین ڈیولپرس اور مینوفیکچررز کے ساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ گلوبل ریگولیٹرس دیگر ملکوں کی گورنمنٹ ، کثیررخی ادارے اور ساتھ ہی بین الاقوامی کمپنیاں سبھی کے ساتھ جتنا رابطہ بڑھ سکے ، یعنی رئیل ٹائم کمیونیکیشن ہو، اس کے لئے پوری کوشش، ایک نظام بنا ہوا ہے۔

ساتھیو،

کورونا کے خلاف اپنی لڑائی میں ہم نے شروعات سے ہی ایک ایک شہری کی زندگی بچانے کو اولین ترجیح دی ہے۔ اب ویکسین آنے کے بعد بھی ہماری ترجیح یہی ہوگی کہ سبھی تک کورونا کی ویکسین پہنچے، اس میں تو کوئی تنازعہ ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ لیکن کورونا کی ویکسین سے منسلک بھارت کا ابھیان، اپنے ہر شہری کے لئے ایک طرح سے قومی عہد کی طرح ہے۔

اتنا بڑا ٹیکہ کاری ابھیان سموتھ ہو، سسٹمیٹک ہو، اور سسٹینڈ ہو، یہ لمبا چلنے والا ہے، اس کے لئے ہم سبھی کو، ہر سرکار کو، ہر تنظیم کو اکٹھا ہوکر کوآرڈینیشن کے ساتھ  ایک ٹیم کے طور پر کام کرنا ہی پڑیگا۔

ساتھیو،

ویکسین کو لیکر بھارت کے پاس جیسا تجربہ ہے، وہ دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کو نہیں ہے۔ ہمارے جتنی ضروری اسپیڈ ہے، اتنی ہی ضروری سیفٹی بھی ہے۔ بھارت جو بھی ویکسین اپنے شہریوں کو دیگا، وہ ہر سائنسی کسوٹی پر کھری ہوگی۔ جہاں تک ویکسین کی تقسیم کی بات ہے تو اس کی تیاری بھی آپ سبھی ریاستوں کے ساتھ ملکر کی جارہی ہے۔

ویکسین ترجیحی  طور پر کسے لگائی جائے گی، یہ ریاستوں کے ساتھ ملکر کے ایک موٹا موٹا خاکہ ابھی آپ کے سامنے رکھا ہے کہ بھئی اگر اس قسم سے ڈبلیو ایچ او نے جو کہاہے، ہم چلتے ہیں تو ا چھا ہے۔ لیکن پھر بھی یہ فیصلہ تو ہم سب ملکر ہی کریں گے، ہر ریاست کے سجھاؤ کی اہمیت اس میں بہت رہے گی کیوں کہ آخرکار ان کو اندازہ ہے کہ ان کے ریاست میں کیسے ہوگا، ہمیں کتنے اضافی کولڈ چین اسٹوریج کی ضرورت رہے گی۔

مجھے لگتا ہے کہ ریاستوں کو ابھی اس پر زور دیکر کے انتظامات کرنا شروع کردینا چاہئے۔ کہاں کہاں یہ ممکن ہوگا، اس کے پیرامیٹرس کیا ہوں گے۔ اس پریہاں سے اطلاعات تو ڈپارٹمنٹس کو چلی گئی ہے لیکن اس کو اب لاگو کرنے کے لئے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ اور ضرورت پڑی تو اضافی سپلائی بھی یقینی کی جائے گی۔ اور اس کا توسیعی پلان بہت جلد ہی ریاستی حکومتوں کے ساتھ ملکر طے کرلیا جائیگا۔ ہماری ریاستوں کی اور مرکز کی ٹیم  ساتھ لگاتار وہ بات چیت کررہے ہیں، کام چل رہا ہے۔

مرکزی حکومت نے ریاستوں سے کچھ وقت پہلے گزارش کی تھی کہ ریاستی سطح پر ایک اسٹیئرنگ کمیٹی اور ریاست اور ضلع سطح پر ٹاسک فورس کا اور میں تو چاہوں کہ بلاک سطح تک ہم جتنی جلدی انتظام کریں گے کسی نہ کسی ایک فرد کو کام دینا پڑیگا۔ ان کمیٹیوں کی ریگولرمیٹنگیں ہوں، ان کی ٹریننگ ہو، ان کی مانیٹرنگ ہو، اور جو آن لائن ٹریننگ ہوتی ہے، وہ بھی شروع ہو۔ ہمیں ہمارے روز مرہ کے کام کے ساتھ کورونا سے لڑتے لڑتے بھی اس ایک انتظام کو توسیع جلد کرنا پڑیگا۔ یہ میری گزارش ہے۔

جو کچھ سوال آپ نے کہے ہیں۔ کون سی ویکسین کتنی قیمت میں آئے گی، یہ بھی طے نہیں ہے۔ بھارتی ویکسین ابھی دو میدان میں آگے ہیں۔ لیکن باہر کے ساتھ ملکر کے ہمارے لوگ کام کررہے ہیں۔ دنیا میں جو ویکسین بن رہے ہیں وہ بھی مینوفیکچرنگ کے لئے بھارت کے لوگوں کے ساتھ ہی بات کررہے ہیں، کمپنیوں کے ساتھ۔ لیکن ان مسئلوں میں ہم جانتے ہیں کہ 20 سال سے مان لیجئے کوئی دوائی پاپولر ہی ہیں، 20 سال سے لاکھوں لوگ اس کا استعمال کررہے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں کو اس کا ری ایکشن آتا ہے، آج بھی آتا ہے، 20 سال کے بعد بھی آتا ہے، تو ایسا اس میں بھی ممکن ہے۔ فیصلہ سائنسی ترازو پر ہی تولا جانا چاہئے۔ فیصلہ اس کی جو اتھوریٹی ہے ان اتھوریٹیز کی سرٹیفائی انتظام سے ہی ہونا چاہئے۔

ہم لوگ سماجی زندگی کی فکر کرتے ہیں لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ ہم کوئی سائنسداں نہیں ہیں۔ ہم اس کی ایکسپرٹائز نہیں ہیں۔تو ہمیں دنیا میں سے جو انتظامات کے تحت جو چیزیں آتی ہیں آخرکار اسی کو قبول کرنا پڑیگا۔ اور اس کو قبول کرکے ہم آگے چلیں گے۔ لیکن میں آپ سے گزارش کروں گا کہ آپ کے دل میں جو اسکیم کو خاص کرکے ویکسین کے سلسلے میں، کس قسم سے آپ ڈیلیوری نیچے تک لے جائیں گے۔ آپ جتنی جلدی بہت ڈٹیل پلان کرکے لکھ کرکے بھیجیں گے تو فیصلہ کرنے میں سہولت ہوگی اور آپ  کے مشوروں کی طاقت اس میں بہت ہے۔ ریاستوں کا تجربہ بہت اہمیت رکھتا ہے کیوں کہ وہیں سے یہ چیزیں آگے بڑھنے والی ہیں اور اس لئے میں چاہوں گا کہ آپ کا بہت ہی ایک طرح سے سرگرم شراکت داری اس میں بنے، یہی میری امید ہے۔

لیکن میں نے پہلے ہی کہا ویکسین اپنی جگہ پر ہے، وہ کام ہونا ہے، کریں گے۔ لیکن کورونا کی لڑائی ذرا بھی ڈھیلی نہیں پڑنی چاہئے، تھوڑی سی بھی ڈھلائی نہیں آنی چاہئے۔ یہی میری آپ سب سے گزارش ہے۔

آج تملناڈو اور پڈوچیری کے وزیر اعلیٰ سے بات کرنے کا مجھے موقع ملا۔ آندھرا سے میں فون نہیں کرپایا تھا صبح۔ ایک سائیکلون ہمارے مشرقی ساحل پر ایکٹو ہوا ہے۔ وہ کل شاید تملناڈو، پڈوچیری اور آندھراپردیش کا کچھ حصہ، وہاں پر آگے بڑھ رہا ہے۔ ساری بھارت سرکار کی ٹیمیں بہت سرگرم ہیں، سب لوگ گئے ہیں۔

میں نے آج دو وزرائے اعلیٰ سے بات کی تھی، آندھرا کے وزیراعلیٰ سے ابھی اس کے بعد بات کروں گا۔ لیکن سب کے لئے پوری طرح بھارت سرکار اور ریاستی حکومتیں مل کر کے اور پہلا کام خالی کروانا، لوگوں کو بچانا اس پر ہمارا زور رہے۔

پھر ایک بار میں آپ سب کا بہت شکر گزار ہوں، آپ سب نے وقت نکالا، لیکن میں گزارش کروں گا کہ آپ جلدی سے مجھے کچھ نہ کچھ جانکاریاں بھیجئے۔

شکریہ۔

-----------------------

 

م ن۔م ع۔ ع ن

U NO: 7517



(Release ID: 1675532) Visitor Counter : 307