وزارت سیاحت

سیاحت کی وزارت میں دیکھو اپنا دیش سیریز کے تحت ’’حیدرآباد کی ثقافتی وراثت‘‘ کے عنوان سے 50ویں ویبنار کا انعقاد کیا

Posted On: 24 AUG 2020 6:16PM by PIB Delhi

نئی دہلی،24؍اگست، و زارت ثقافت کی دیکھو انڈیا ویبنار سیریز  نے ، 22 اگست 2020 کو  ’’حیدر آباد کی ثقافتی وراثت‘‘ (کلچرل ہیریٹیج آف حیدر آباد) کے عنوان سے ویبنار کا  انعقاد کرکے  ایک اہم مقام حاصل کرلیا ہے۔  ویبنار کا یہ  50 واں سیشن تھا۔ ویبنار سیریز کاآغاز  14 اپریل 2020 کو ہوا تھا۔ ثقافت کی وزارت کم معروف اور مقبول مقامات کے کم معروف پہلوؤں سمیت بھارت کے  مختلف سیاحتی مقامات کے بارے میں بیداری  لانے اور  اس کی تشہیر کے مقصد سے دیکھو اپنا دیش ویبنار کا  انعقاد کررہی ہے۔ یہ ’ایک بھارت -  شریشٹھ بھارت‘  کے جذبے کو بھی  فروغ  دیتی ہے۔

’’حیدر آباد کی ثقافتی  وراثت‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ویبنار  وراثت سے متعلق تعلیم کی مشیر،  مصنف اور  کنزویشن آرکیٹکٹ محترمہ مدھو ووٹرے کے ذریعے پیش کیا گیا تھا۔ ویبنار میں  حیدر آباد کی ثقافت کو  دکھا یا گیا جو  نظام  کے  دورے حکومت سے  وراثت میں شامل ہوئے  اسلامی اثرات کے سبب  باقی تلنگانہ  کی وراثت سے  کافی مختلف ہے۔ یہ فرق حیدر آباد کے آرکیٹکچر ، خورد نوش ، طرز زندگی  اور  خاص طور سے  پرانے شہر کی  زبان میں  واضح نظر آتا ہے۔ پروگرام کی پیش کنندہ  نے  اس بات  پر بھی  روشنی  ڈالی کہ  نیا شہر  کس طرح  کاسمو پولیٹن کلچر  کی نمائندگی  کرتا ہے۔ حیدر آبادی  وراثت کی نمائش کے لئے وقف متعدد میوزیم ، آرٹ گیلریز  اور نمائشوں کے ساتھ حیدر آباد میں ادب  اور  فائن آرٹ کی  ایک خوش حال روایت ہے۔

 محترمہ ووٹرے نے بتایا کہ کیسے  حیدر آباد  ’’موتیوں کے شہر ‘‘ اور  ’’نظام کے شہر ‘‘ کے طور پر  مقبول ہے اور قطب شاہی راج گھرانے کے ذریعے  قیام کے بعد سے  ایک  زندہ جاوید تاریخی وراثت کا مرکز رہا ہے۔ شہر کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے پیش کنندہ نے اس سے وابستہ اہم شخصیات کے بارے میں بھی بتایا۔ محمد قلی قطب شاہ گول کنڈہ قلعے سے آگے  راجدھانی  کی توسیع کے لئے 1591  میں حیدر آباد  کو قائم کیا تھا۔ 1687  میں  شہر پر مغلوں کا قبض ہوگیا ۔ 1724  میں  مغل حکمراں نظام آصف جاہ اول  نے  اپنی خود مختاری کا اعلان کیا اور آصف جاہی   حکومت  قائم کی، جسے نظام کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ حیدر آباد 1769 سے  1948  کے درمیان آصف جاہی  راجدھانی  رہا۔ 1947  میں  بھارت کے آزاد ہونے سے قبل تک حیدر آباد ریاست میں  راجدھانی  کی شکل میں شہر میں برطانوی  ریزیڈنسی  اور  چھاؤنی  بھی  تھی ۔

 قطب شاہی اور  نظام  شاہی  کے  نشانات  آج بھی  واضح دکھائی دیتے ہیں۔  چار مینار  اس شہر کی شناخت بن گئی ہے۔ جدید  دور کے  اوائل  کے خاتمے تک  مغل سلطنت جنوب تک  سمٹ کر رہ گئی اور نظام  کے تحفظ میں  دنیا کے مختلف حصوں سے اسکالرس کو  راغب کیا۔ مقامی  اور  مہاجر کاریگروں کے اشتراک سے ایک  منفرد ثقافت کی داغ بیل پڑی اور شہر  مشرقی  ثقافت کے ایک اہم  مرکز کے طور پر ابھرا۔ یہاں کی  پینٹنگ،  ہینڈی کرافٹ ، جویلری  ، ادب ، بولی اور  ملبوسات  آج بھی  نمایاں ہیں۔ اس شہر میں قائم  تیلگو فلم انڈسٹری  ملک میں  فلموں کا  دوسرا بڑا  مرکز ہے۔ حیدر آباد کو  یونیسکو کے ذریعے  فن  طباخی  کے زمرے میں  ایک  تخلیقی شہر  کے طور پر منتخب کیا گیا ہے۔

اس  اجلاس میں  حیدر آباد  کے  درج ذیل  اہم  ثقافتی  مقامات  کو  نمایاں کیا گیا :

  1.  گولکنڈہ قلعہ، حیدر آباد-  ایک وسیع وعریض  قلعہ جس کے باقایات آج بھی شان سے کھڑے ہیں۔ وہ آج بھی اپنی خوش حال وراثت  اور تاریخ کے  ان سنی کہانیوں کو   بیاں کرتا ہے۔ حیدر آباد میں اس  پرکشش مقام  کو  ضرور دیکھنا چاہئے۔ محمد قلی  ایک نئے  شہر کی  ضرورت محسوس کرتے تھے اور انہوں نے  بھاگ نگر  (جس کا نام  ان کی محبوبہ کے نام پر  رکھا گیا تھا) آباد کیا، جس کے مرکز میں  چار مینار تھا۔
  2. چومحلا پیلس-  ایک  وقت آصف جاہی خاندان کا  تخت رہے ، چومحلے  پیلس کی تعمیر حیدر آباد میں کی گئی تھی اور یہ  مشہور  یاد گار  چار مینار اور  لاڈ بازار کے قریب  واقع تھا۔ اس محل کا ڈیزائن  خاصا پیچیدہ تھا اور اس میں نوابی  سحر واضح دکھائی دیتا تھا۔ چومحلا پیلس نظاموں کے اقتدار کا مرکز ہوا کرتا  تھا، جسے ثقافتی وراثت  کے تحفظ کے لئے  یونیسکو ایشیا پیسیفک ہیریٹیج میرٹ ایوارڈ  مل چکا ہے۔
  3. چار مینار-  جب قلی قطب شاہ نے گولکنڈہ کی جگہ  حیدر آباد کو اپنی راجدھانی بنایا تو  اس یاد گار کی تعمیر کی گئی۔ اس عمارت کو  اپنے ڈھانچے  کے سبب  یہ نام ملا ، کیونکہ اس میں چار اونچی اونچی میناریں تھیں۔
  4.  پرانی حویلی-  حیدر آباد کے سنہرے دور  کے  اہم  تاریخی مقامات میں سے ایک  اس عمارت کو  آج اس کی  بہترین  فن نمونوں اور ٹیلنٹ کے لئے  جانا جاتا ہے۔ یہ  انتہائی خوبصورت عمارت  تاریخ میں  عاشقوں کے لئے  ایک  عظیم  عجوبے  کی طرح ہے۔
  5. مکہ مسجد-  بھارت کی سب سے پرانی  اور بڑی مسجدوں میں سے ایک یہ مسجد حیدر آباد کے  شاندار  تاریخی مقامات میں سے ایک ہے، جس کی تعمیر  1693  میں  اورنگ زیب نے مکمل کرائی تھی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں استعمال کی گئی اینٹیں  مکہ  سے منگائی گئی تھیں اور  اسی وجہ سے  اس کا یہ نام پڑا۔
  6. قطب شاہی مقبرہ-  ابراہیم باغ میں واقع  قطب شاہی مقبرہ  چھوٹی اور بڑی مسجدوں نیز  مقبروں کا ایک گروپ  ہے، جس کی تعمیر  قطب شاہی حکمرانوں نے کرائی تھی۔ مقبرے ایک  بلند مقام پر بنائے گئے ہیں اور انہیں گنبد کی شکل دی گئی ہے۔ حیدر آباد میں چھوٹے  تاریخی مقامات  یک منزلہ ہیں، جبکہ  بڑے  دو منزلہ ہیں، اس جگہ کو مغل فوج کے ذریعے  گولکنڈہ قلعے کو نشانہ بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔ مقبروں کی  چھوٹی منزل کو مغل فوج کے گھوڑوں کے اصطبل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔
  7.  پیگاہ مقبرہ-  حیدر آباد میں  پیسل بندہ مضافاتی علاقے میں  واقع پیگاہ مقبرہ ، پیگاہ شاہی خاندان کے مقبروں کا ایک گروپ ہے۔ بھلے ہی  ابھی یہ خستہ حالت میں ہے لیکن مقبرے میں آج بھی  شاندار  آرکیٹیکچر اور نقاشی دار  سنگ مرمر  کے پینل موجود ہیں۔ حیدر آباد کے  اس تاریخی مقام کا  نظم ونسق ایک خاندان کے ذریعے کیا جاتا ہے جو احاطے میں ہی  قیام پذیر ہے۔
  8.  سالار جنگ میوزیم-  اس آرٹ میوزیم کا قیام  سال 1951  میں  عمل میں آیا تھا اور یہ  حیدر آباد شہر میں  موسی ندی کے جنوبی کنارے پر دار الشفاء میں  واقع ہے۔  سالار جنگ  خاندان نے  دنیا بھر سے ان نایاب فنی نمونوں کو  جمع کیا تھا۔ یہ خاندان  جنوبی  بھارت کی تاریخ کے  سب سے زیادہ  باوقار خاندانوں میں سے ایک ہے، جن میں سے  پانچ  سابق  حیدر آباد کے – دکن  کے نظام  حکومت  میں  وزیراعظم رہے تھے۔
  9. وارنگل قلعہ-  یہ قلعہ  کم از کم  12 ویں صدی سے  وجود میں ہے، جب یہ  کاکتیہ  خاندان کی راجدھانی ہوا کرتا تھا۔ قلعہ میں چار  نقاشی سے آراستہ دروازے ہیں، جنہیں کاکتیہ کلا تھورانم کے طور پر جانا جاتا ہے، جو  بنیادی طور پر  خستہ حال ہوچکی عظیم شیو مندر کے  داخلہ دروازے کے طور پر بنائے گئے تھے۔
  10. قطب شاہی لکڑی کا محل-  یہ محل تجارتی روٹ پر بھی  واقع ہے۔ اس  سے تجارتی  راہ کی اہمیت  اس کے ارد گرد بنائے گئے ڈھانچوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ گولکنڈہ – پلے نروا  نئی  راجدھانی  کو  قلعے سے جوڑتا ہے۔

سکندر آباد کے  جڑواں شہر  ( ٹوئن سٹی)  کے بارے میں محترمہ ووٹرے  نے بتایا کہ 1798  میں  نظام ثانی  اور  انگریزون کے درمیان ایک  ذیلی اتحاد  قائم کیا گیا تھا۔ چار مینار سے  شمال کی طرف سے  واقع  شہر کے  اس حصے کو  چھاؤنی کی  شکل  میں قائم کیا گیا تھا اور اسے  نظام  سوئم نواب سکندر جاہ کے نام پر  سکندر آباد کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کی تعمیر  یورپی طرز پر  ہوئی ہے۔

قدیم وراثتی ڈھانچہ اور جدید عمارتوں کے  امتزاج کے ساتھ ہی  حیدر آباد  لاڈ بازار کی  لاکھ کی چوڑیاں ، کانچ  کی چوڑیاں، پاتھر گھٹی کے موتی اور جویلری ، لاڈ بازار  اور پاتھر گھٹی کے  پردیسی (ایتھنک) ملبوسات اور  چھاتا بازار کی کیلی گرافی کے لئے بھی  مشہور ہے۔ شہر کھانے کے کام آنے والے چاندی کے ورق ، زردوزی  کے کام، خوش نویسی  وغیرہ کے لئے  مشہور ہے۔

پیش کنندہ نے تلنگانہ   ریاستی حکومت  کے ذریعے منعقدہ واکنگ ٹورس پر بھی بات کی، جس کے ذریعے سے ریاست کی وراثت و ثقافت کی نمائش کی جاتی  ہے۔ ریاستی حکومت کا حیدر آباد نامی ایک ایپ بھی ہے۔

اجلاس کی نظامت  کرتے ہوئے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محترمہ رو پندر برار نے حیدر آباد کے سڑک ، ریل  اور فضائی  روابط کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے بتا یا کہ شہر کا بین الاقوامی ہوائی اڈہ یورپ ، مشرق وسطی اور جنوب مشرق ایشیاء سے  اچھی طرح جڑا ہوا ہے۔ حیدر آ باد ہوائی اڈے کو آپریشن ، صفائی ستھرائی  اور  بجلی کی  بچت کرنے والی بہترین اکائی  کے لئے  ایوارڈ حاصل ہوچکے ہیں۔

 انہوں نے سیاحت کی وزارت کے ذریعے  بے نظیر بھارت سیاحتی سہولت کار  سرٹیفکیشن پروگرام  کے بارے میں بھی بات کی، جو  منزل ، سفر اور  پروڈکٹس سے متعلق ایک آن لائن  تدریسی پروگرام ہے۔ یہ سیاحوں کو اسٹوری ٹیلنگ (کہانی  سنانے) اور  ماضی کی تاریخی وراثت کو مشترک کرنے  کی  صلاحیت میں بہتری  کے لحاظ سے اہم ہے۔ اس سے شہریوں کو مقامی  ثقافت کی اہمیت کو سمجھنے  اور  مسافروں کے سامنے  خصوصی طریقے سے  ان کو پیش کرنے میں مدد ملے گی۔

https://www.youtube.com/channel/UCbzIbBmMvtvH7d6Zo_ZEHDA/featured پر دستیاب ویبنار کے  یہ  اجلاس وزارت صحت کی ویب سائٹ : incredibleindia.org اور : tourism.gov. inپر بھی  دستیاب ہیں۔ ایکسپلو رنگ ہمپی  کے عنوان سے اگلا ویبنار 29 اگست 2020  کو  صبح 11 بجے  منعقد کرنے کی  تجویز  ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

(م ن-   م م- ق ر)

(25-08-2020)

U-4793



(Release ID: 1648444) Visitor Counter : 563